skip to Main Content

انوکھا خچر

ام ایمان

……………..……………………………………………
سبحان کے ابو خچر کی کہانی سناتے سناتے افغانستان جا پہنچے تھے

……………..……………..……………..……………..

سبحان میاں اپنے ابو کے ساتھ بازار سے واپس آئے تو گلی میں جگہ نہیں تھی ۔ ابو کی گاڑی کھڑی کرنے کی مخصوص جگہ پر ایک گدھا گاڑی کھڑی تھی۔ ابو نے گاڑی واپس لی اور دوسری گلی میں کھڑی کرکے آئے۔ گاڑی سے اتر کر ابو اور سبحان دونوں کے ہاتھوں میں تھیلے تھے جو سامان سے بھرے تھے۔ گدھا گاڑی کے پاس سے گزرتے ہوئے ابو نے ادھر ادھر دیکھا کہ شاید اس کا مالک نظر آجائے۔ لیکن وہ کہیں آس پاس نہیں تھا۔
سبحان نے گدھے کو غور سے دیکھا اس کے بال ذرا بڑے تھے۔ جس سے وہ گدھے سے کچھ مختلف نظر آرہا تھا اور یہ بات تو طے تھی کہ وہ گھوڑا نہیں تھا۔
’’ابو !اس گدھے کے بال کچھ بڑے ہیں نا؟؟‘‘ سبحان نے ابو سے پوچھا۔
سبحان کے کہنے پر ابو نے بھی اس کو غور سے دیکھا۔ واقعی اس کے بال کچھ بڑے تھے اور کان میں بھی فرق تھا۔ اس کے علاوہ ٹانگیں بھی جسم کی نسبت چھوٹی تھیں۔ 
’’ بیٹا میرے خیال میں یہ گھوڑا ہے نہ گدھا یہ تو خچر لگ رہا ہے۔‘‘
’’خچر اور گدھے میں اورکیا فرق ہوتا ہے ابو!!‘‘سبحان کے سوالات شروع ہوئے۔
’’ بیٹا فرق تو آپ نے دیکھ لیا اور نشان دہی بھی کر دی ہے البتہ کام میں خچر زیادہ محنتی اور جفاکش ہوتا ہے۔ یہ زیادہ تر پہاڑی علاقوں میں ہوتا ہے ۔ ڈھیر سارا وزن اٹھا کر اونچے نیچے راستوں پر چلنا اس کوخوب آتا ہے۔ 
سبحان اور ابو دونوں کے ہاتھوں میں تھیلے تھے۔ اب دروازہ کیسے کھولاجائے۔
ابو نے حل یہ نکالا کہ تھیلے گدھا گاڑی نہیں بلکہ خچر گاڑی کے پیچھے رکھ دیئے اور پھر چابی سے دروازہ کھولا۔
اندر جاکر سبحان نے یہ اہم خبر سب کو سنائی ۔ شازی اور معاذ فوراً اپنے مشاہدے میں اضافے کے لیے باہر چل دیئے۔
ابو آپ ہمیں خچر کے بارے میں کچھ اور بتائیے؟؟
شام کو ابو چائے لے کر ٹی وی کے سامنے بیٹھے تو سبحان کو دوبارہ خچر یاد آگیا۔
اس وقت ٹی وی پر خبریں آرہی تھیں۔ ابو نے سبحان سے کہا کہ وہ کچھ دیر ٹھہرے ۔ خبریں سننے دے پھر اس پربات کرتے ہیں۔
اتنے میں شازی اپنی معاشرتی علوم کی کتاب لے کرآگئی۔ جس میں ایک ایسے خچر کی تصویر تھی جس کے بال اور زیادہ بڑے تھے دم کے ساتھ بھی بالوں کا گچھا تھا اور پاؤں میں کھرکے اوپر بھی بالوں کی جھالر لگی تھی۔
معاذ اور سبحان دونوں نے تصویر دیکھی اور حیران ہونے لگے۔
اتنے میں ابو کی خبریں ختم ہو گئیں۔ شازی کتاب ابو کے پاس لائی ۔ ابو کو بھی خچر کی یہ تصویر دیکھ کر بڑا مزا آیالیکن ابو نے جب بات شروع کی تو ان کا لہجہ بڑا سنجیدہ تھا۔
’’بچوں! یہ تو تم کو پتہ ہی ہے کہ اﷲ میاں نے جو کچھ بنایا ہے اس میں بڑی حکمت سے کام لیا ہے۔ کبھی اﷲکی حکمت ہماری سمجھ میں آجاتی ہے اور کبھی نہیں آتی ہے۔ اﷲ میاں نے ہر جاندار کو اس کے لحاظ سے بنایا ہے۔ پانی میں رہنے والے جاندار خشکی میں رہنے والوں سے مختلف ہوتے ہیں۔اسی طرح ہوا میں اڑنے والے پرندے بھی انہیں اس طرح کا بنایا ہے کہ وہ آسانی کے ساتھ فضا میں اڑ سکیں۔ تم لوگوں کو شاید معلوم ہی ہو کہ پرندوں کی ہڈیاں اندر سے کھوکھلی ہوتی ہیں۔ تاکہ وہ ہلکے پھلکے رہیں اور آسانی کے ساتھ آسمان پر اڑ سکیں۔
خشکی پر رہنے والے جانداروں میں بھی وہ جانور جو پہاڑی علاقوں میں رہتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے انہیں اس طرح کا بنایا ہے کہ وہ ماحول کی سختیاں برداشت کر سکیں۔ مثال کے طور پر اونٹ۔۔۔
قرآن میں خود اﷲ تعالیٰ اونٹ پر غور کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ صحرا میں رہنے بسنے والے لوگوں کے لیے یہ ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ اونٹ کو اﷲ نے اس طرح کا بنایا ہے کہ وہ صحرا میں پیش آنے والی سختیوں کو برداشت کر سکتا ہے۔ صحرا میں پانی کی قلت ہوتی ہے اور یہ ہفتوں بغیر پانی کے رہ سکتا ہے۔ اس کی کھال میں مسامات نہیں ہوتے۔ لہٰذا اس کے جسم کا پانی پسینے کی صورت میں ضائع نہیں ہوتا۔ اس کے کوہان میں ایک کھوکھلی چربیلی مشکیزہ نما جگہ ہوتی ہے۔ جہاں وہ اضافی پانی محفوظ کر لیتا ہے۔ اس کے پاؤں کی بناوٹ اس طرح کی ہوتی ہے کہ وہ صحرا کی نرم اور گرم ریت پر تیزی سے سفرکر سکتا ہے۔ نہ اس کے پاؤں ریت میں دھنستے ہیں اور نہ گرم ریت سے جلتے ہیں۔ 
اوہ ہو۔۔۔ میں تو خچر سے اونٹ کی طرف چل نکلا ۔ہاں تو بچوں خچر کو بھی اﷲ تعالیٰ نے خاص طور سے پہاڑی علاقوں کے لیے بنایا ہے۔ اضافی بالوں والا خچر سرد برفانی پہاڑی علاقوں کیلئے ہے۔ہمارے پڑوس میں افغانستان کا ملک ہے۔ اس کی سرحد ہمارے جن صوبوں سے ملتی ہے وہ سرحد اور بلوچستان ہیں۔ ان تمام مقامات پر خچر بہت سارے کاموں کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔
لیکن آج میں جس خچر اور اس کے مالک کے بارے میں بتاؤں گا اس نے بڑا انوکھا کام کیا تھا۔‘‘
سارے بچے کانوں کے ساتھ ساتھ منہ بھی کھولے ابو کی باتیں سن رہے تھے۔
وہ ایک گیارہ بارہ سال کا بچہ تھا۔جس کا نام شاہ میر خان تھا۔ وہ پہاڑ کے دامن میں بنے اپنے چھوٹے سے گھر میں اپنی امی اور بابا جان کے ساتھ رہتا تھا۔ اس کے بابا ٹرک کے ڈرائیور تھے۔ وہ سامان سے بھرے ہوئے ٹرک ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتے تھے۔ اس میں کبھی کبھی ان کو کئی کئی دن گھر سے دور رہنا پڑتا تھا۔ لیکن شاہ میر خان کی امی بہت بہادر تھیں۔وہ اپنے بیٹے کے ساتھ بڑے اطمینان سے گھرمیں رہتی تھیں۔ سردیاں جب بڑھ جاتیں توشاہ میر کے بابا ٹرک نہیں چلاتے تھے کیوں کہ برف باری کے باعث سارے راستے بند ہوجاتے تھے۔ یہ وقت وہ اپنے خاندان کے ساتھ گھر میں گزارتے تھے۔ایسے موسم میں باہر نکلنا آسان نہیں ہوتا تھا۔
لیکن شاہ میر دوپہر میں جب ذرا سرد ہواؤں کی شدت کم ہوتی اپنے بابا سے اجازت لے کر اپنے خچر کے ساتھ باہر چلا جاتاتھا۔واپسی میں وہ سوکھی ہوئی جھاڑیاں اور ٹوٹی ہوئی ٹہنیاں اور شاخیں اپنے خچر پر رکھ کر لے آتا تھا۔ تاکہ آگ جلانے کے کام آئیں۔ ایک شام جب وہ واپس آیا تو اس کے خچر پر جھاڑیوں کے بجائے ایک بیمار اور سردی کے ہاتھوں ادھ موا شخص تھا۔
اس کے باباتو اس شخص کو دیکھتے ہی پہچان گئے۔ پہچان تو شاہ میر بھی گیا تھا لیکن اس نے گوارا نہیں کیا کہ ایک بھٹکے ہوئے شخص کو برف میں مرنے کے لیے چھوڑ دے ۔سو وہ اسے اپنے خچر پر سوار کرکے گھر لے آیا۔
یہ شخص ایک روسی سپاہی تھا۔ جس نے بتایا کہ اس کے سارے ساتھی مجاہدین کے ہاتھوں مارے گئے ہیں اور وہ اتفاقاً بچ گیا ۔ لیکن راستے کا نشان گم ہو چکا تھا لہٰذا وہ راستے میں بھٹکتا رہا۔ پھر یہ ننھا لڑکا اسے مل گیا۔
شاہ میر کی طرح اس کے بابانے بھی اس روسی سپاہی کو ایک مہمان کا درجہ دیا۔ وہ تین دن ان کی مہمان نوازی کا مزہ چکھ کر واپس چلا گیا۔
شاہ میر کے بابا کا کہنا تھا کہ وہ روسی فوجی ان کے گھر دوبارہ ضرور آئے گا اور اس دفعہ اسکے ساتھ مزید فوج بھی ہوگی۔کیونکہ روسی قوم ایک احسان فراموش قوم ہے۔ لہٰذا ہم کو اپنا گھر کسی دوسری جگہ بنا لینا چاہیے لیکن ساتھ ہی وہ یہ بھی سوچتے تھے کہ یہ جگہ میری ہے۔ میں ان سے ڈر کر اپنا گھر کیوں چھوڑوں۔ وہ کہتے تھے کہ ان کا ارادہ ہے کہ اس دفعہ سردیوں کے بعد وہ مجاہد بھائیوں کے ساتھ مل کر جہاد میں ضرور حصہ لیں گے۔
لیکن خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ سردیوں سے پہلے ہی ان کی واپسی کا وقت آپہنچا۔ اس دن شاہ میر خان اپنے خچر کے ساتھ جنگل کی طرف گیا ہوا تھا۔ روسی طیاروں نے ان کے علاقے میں بمباری شروع کی کیونکہ ان کا خیال تھا کہ وہاں افغان مجاہدین کے ٹھکانے ہیں۔ لیکن ان کے اس عمل کے نتیجہ میں بہت سے گاؤں صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔ شاہ میر خان جب واپس آیا تو اس کے گھر میں کچھ باقی نہیں تھا۔ یہاں تک کہ اس کے بابا اور امی جان کے جسموں کا بھی کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا۔ کہیں بہت دور دور سے کچھ کٹے پھٹے اعضاء ملے۔ شاہ میر خان نے گاؤں کے دوسرے لوگوں کے ساتھ انہیں جمع کرکے دفنا دیا۔ اب شاہ میر خان اکیلا تھا۔ لیکن نہ تو وہ اداس تھا اور نہ ڈر رہا تھا۔ کیونکہ اسے پتہ تھا کہ اس کے امی اور بابا جان شہید ہو گئے ہیں اور شہادت کا رتبہ ایک بہت عظیم اور عالیشان رتبہ ہے۔ وہ خواب میں اپنی امی اور بابا جان کو شہادت کا جگمگاتا ہوا تاج پہنے دیکھتا۔ پھر اس نے سوچا۔‘‘
سبحان ، معاذ اور شازی بہت غور اور دلچسپی سے کہانی سن رہے تھے۔
ابو چپ ہوئے تو سبحان میاں فوراً بول اٹھے۔ ’’شاہ میر نے کیا سوچا؟‘‘
ابو بولے ’’ اس نے سوچا اسے بھی شہادت کا یہ تاج حاصل کر نا چاہیے اور افغان مجاہدین کے ساتھ مل کر اپنے دین اور وطن کی حفاظت کرنا چاہیے۔ ‘‘
’’شاہ میر تو بہت چھوٹا تھا ۔ وہ کیسے مجاہد بن سکتا تھا؟‘‘ معاذ نے حیرت سے پوچھا۔
شاہ میر نے افغان مجاہدین کی مدد کے لیے ایک انوکھا طریقہ سوچا۔اس نے اپنے خچر میں یہ بات دیکھی کہ وہ بارود کی بو دور سے پہچان جاتا ہے۔ افغانستان میں روسی افواج نے بارودی سرنگوں سے خوب کام لیا تھا۔ اس کے ذریعے وہ اپنے کیمپوں کی حفاظت کرتے اور دوسرے گاؤں اور شہروں میں جس کے مطابق انہیں شک ہوتا کہ یہاں مجاہدین چھپے ہیں وہاں بارودی سرنگیں بچھا دیتے۔
شاہ میر نے اپنے خچر کی اس خوبی اور صلاحیت کومحسو س کر لیا ۔اب وہ روسی کیمپوں کے گرد بچھی ہوئی بارودی سرنگوں کے درمیان سے مجاہدین کو راستہ بتاتا اور یوں مجاہدین روسی کیمپوں پر کامیاب چھاپے کے بعد بحفاظت نکل جاتے۔ لیکن ایک دن روسی فوجیوں نے اسے پکڑلیا اور اپنے کمانڈر کے پاس لے گئے۔‘‘
’’ پتہ ہے بچوں وہ کمانڈر کون تھا؟‘‘ابو نے رک کر پوچھا۔
تینوں نے اپنے چہرے نفی میں ہلا دیئے۔
’’وہ کمانڈر و ہی روسی فوجی تھا جس کو شاہ میر اپنے خچر پر سوار کرا کر اپنے گھر لایا تھا۔ اس نے شاہ میر کو دیکھتے ہی پہچان لیا۔ لیکن اس نے اپنے سپاہیوں کو زور سے حکم دیا کہ لڑکے اور اس کے خچر کو فوراً گولی مار دی جائے۔
یقیناًوہ اس بات سے خوفزدہ تھا کہ اگر شاہ میر نے اس کو پہچان لیا اورکوئی بات کی تو وہ خود اپنے فوجی کمانڈر کے نزدیک مشکوک نہ بن جائے۔
لیکن شاہ میر بہت بہادر بچہ تھا۔ جب اس کا نشانہ لیا جا رہا تھا تو وہ مسکرا رہا تھااور خوش تھا کہ وہ بھی اپنے بابا جان اور امی کی طرح شہادت کا جگمگاتا ہوا تاج پہن کر اپنے رب کی خوشنودی اور رضا مندی حاصل کرسکے گا۔
روسی فوجیوں نے گولیاں چلائیں۔ شاہ میر گرا اور شہید ہو گیا۔ اس کے جسم سے بہت بڑی تعداد میں خون بہا ۔ جس نے روسیوں کو حیران کر دیا۔ انہوں نے اپنے ڈاکٹر کو بلا کر اس کی وجہ پوچھی۔
ڈاکٹر نے بتایا کہ اس لڑکے کے دل میں موت کا بالکل خوف نہیں تھا۔ عموماً موت کے خوف سے خون خشک ہوجاتا ہے۔ لہٰذا کم تعداد میں خون بہتا ہے۔ لیکن یہ لڑکا موت سے بالکل خوفزدہ نہیں تھا۔ اسی لیے اس کا خون اس قدر زیادہ بہا ہے۔‘‘
سلیمان شازی اور معاذ تینوں کی آنکھوں سے موتی ٹپک رہے تھے۔
ابو نے کہا ’’آؤ دعا کریں اﷲ ہم کو بھی شاہ میر کی طرح بہادر بنائے اور شہادت کے رتبے سے ہمکنار کرے۔ ‘‘سب نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیئے۔

*۔۔۔*۔۔۔*

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top