حضرت عیسیٰ علیہ السلام
بنی اسرائیل میں عمران اور حنہ میاں بیوی نہایت نیک اور پارسا تھے۔ ان کے ہاں حضرت مریم علیہ السلام کی ولادت ہوئی، انہوں نے حجرت مریم کو ان کے خالو حضرت زکریا علیہ السلام کے سپرد کردیا جو اللہ کے نبی تھے۔ حضرت زکریا علیہ السلام نے حضرت مریم کے لیے ہیکل (مسجد اقصیٰ) کے قریب ہی ایک حجرہ بنادیا جس میں وہ عبادت میں مصروف رہتیں۔ ایک دن حضرت جبرائیل علیہ السلام جو اللہ کے فرشتوں میں سے ایک ہیں، حضرت مریم کے پاس انسانی روپ میں تشریف لائے اور انہیں ایک پاک بیٹے کی بشارت دی جو اللہ کی مرضی سے بغیر نکاح کے ان کے ہاں پیدا ہوگا۔ لوگوں کو اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے حضرت مریم پر جھوٹے الزام لگائے لیکن جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام ابھی بول بھی نہ سکتے تھے تو انہوں نے سب کے سامنے گواہی دی کہ میں اللہ کا نبی ہوں اور اس نے مجھے کتاب دی ہے۔ ان لوگوں کو یقین ہوگیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش اللہ کا ایک نشان اور معجزہ ہے۔
جس وقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو رسالت ملی۔ اس وقت ان کی قوم میں دنیا جہان کی تمام خرابیاں موجود تھیں۔ وہ لوگ اس قدر سرکش ہوگئے تھے کہ ان کے ایک بادشاہ نے حضرت یحییٰ علیہ السلام کو قتل کردیا تھا۔ اب آپ قوم کو مخاطب کرکے فرمایا کہ میں خدا کا رسول اور پیغمبر ہوں۔ میں خدا کی جانب سے تمہارے لیے ہدایت کا پیغام لے کر آیا ہوں اور تمہاری اصلاح میرے سپرد ہوئی ہے اور خدا کے قانون تورات کو جسے تم نے پس پشت ڈال رکھا ہے، اس کی تصدیق کرتا ہوں۔ اور اس کی تکمیل کے لیے خدا کی کتاب انجیل لے کر آیا ہوں۔ یہ کتاب حق و باطل کا فیصلہ کردے گی۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہی اللہ تعالیٰ کا بڑا معجزہ تھا۔ مگر اس کے علاوہ بھی اللہ تعالیٰ نے آپ کو چار معجزے عطا کیے۔ جن کا قرآن حکیم میں ذکر آیا ہے، ایک تو یہ کہ آپ مردوں کو زندہ کردیا کرتے تھے، دوسرے کسی اندھے کو آنکھوں پر ہاتھ پھیر دیتے تو ان کی آنکھیں درست ہوجاتیں اور وہ دیکھنے لگ جاتا۔ تیسرے کسی کوڑھی کو پھونک مار دیتے تو وہ بھلا چنگا ہوجاتا۔ چوتھے آپ مٹی کے پرندے بنا کر ان پر پھونک مارتے تو وہ زندہ ہو جاتے اور اڑنے لگتے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تبلیغ اور وعظ و نصیحت نے ان پر کوئی اثر نہ کیا بلکہ وہ الٹے ان کے دشمن ہوگئے اور جب وہ ان کے معجزات کو دیکھتے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام ان کو دکھاتے تو وہ بدنیت پکار اٹھتے کہ یہ تو کھلا ہوا جادو ہے اور یہ لوگ حضرت پر بہتان کستے اور ان کی توہین کرتے، لیکن اس کے باوجود بعض اللہ کے نیک بندے ایسے بھی تھے جو آپ پر ایمان لے آئے لیکن ان کی تعداد بہت ہی تھوڑی تھی اور یہ تھے بھی غریب اور مزدور لوگ، مگر قرآن مجید نے ان کو حواریوں اور انصار اللہ کے لقب سے یاد فرمایا ہے۔
یہودی حجرت کے اس طریق کار کو برداشت نہ کرسکے اور جب ان کی کوئی پش نہ گئی تو انہوں نے یہ طے کیا کہ بادشاہ وقت کو آپ کے خلاف کرکے سولی پر لٹکا دیا جائے۔
چنانچہ یہ لوگ بادشاہ وقت کے دربار میں حاضر ہوئے اور کہا یہ شخص ہمارے لیے ہی نہیں، بلکہ آپ کی حکومت کے لیے بھی سخت خطرناک ہے، اس لیے اس کا قلع قمع کرنا نہایت ضروری ہے۔ یہ کوئی جادوگر ہے، اگر اس کا تدارک نہ کیا گیا تو ایک دن عیسیٰ علیہ السلام آپ کے تخت پر قبضہ کرکے بنی اسرائیل کا بادشاہ بن جائے گا۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی یہود کی کارستانیوں سے ناواقف نہیں تھے۔ آپ نے حواریوں کے ساتھ ایک بند مکان میں تھے، یہاں آپ نے ان سے وعدہ لیا کہ وہ حق پر قائم رہیں گے اور حق کی تبلیغ کریں گے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آگاہ کیا کہ دشمن جو تیرے خلاف تدبیریں کررہے ہیں یاد رکھو ہم اس سے بہتر خفیہ تدبیر کرنے والے ہیں۔
اور فرمایا کہ نہ تجھ کو دشمن قتل کرسکیں گے اور نہ سولی دے سکیں گے۔ میں تجھ کو اپنی جانب اٹھالوں گا اور تجھ کو اپنی جانب اٹھالوں گا اور تجھ کو کافروں سے پاک رکھنے والا ہوں اور جو لوگ تیری پیروی کریں گے انہیں قیامت تک تیرے منکروں پر غالب رکھنے والا ہوں۔ چنانچہ جب یہ لوگ مکان کے اندر داخل ہوئے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نہ پا سکے اور شبہ میں پڑ گئے۔
اللہ تعالیٰ قرآن حکیم میں فرمایا ہے کہ نہ تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام بن مریم کو قتل کیا گیا ہے اور نہ سولی پر چڑھایا گیا، بلکہ خدا کی اپنی خفیہ تدبیروں کے باعث اصل معاملہ ان پر مشتبہ ہو کر رہ گیا اور جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ انہیں قتل کردیا گیا۔ ان کے پاس اس کی کوئی دلیل نہیں وہ اٹکل پچو پاتیں ہی کہہ رہے ہیں، انہوں نے یقیناً حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قتل نہیں کیا، بلکہ اللہ نے ان کو اپنی جانب اٹھالیا اور اللہ غالب حکمت والا ہے۔ پھر فرمایا کہ کوئی اہل کتاب ایسا باقی نہیں رہے گا جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت سے پہلے آپ پر ایمان نہ لائے گا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام قیامت کے دن ان اہل کتاب پر گواہ بنیں گے۔