حضرت ابراہیم علیہ السلام
حضرت ابراہیم علیہ السلام بہت بلند مرتبہ نبی گزرے ہیں ان کے بعد جس قدر نبی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے وہ آپ ہی کی نسل سے تھے، پیغمبر آخر الزمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ ہی کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے خاندان سے تھے، یہی وجہ ہے کہ مسلمان اب بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ملت کہلاتے ہیں۔
آپ جس وقت دنیا میں تشریف لائے اس وقت نہ صرف بت پرستی کا بڑا زور تھا بلکہ اس زمانے کا بادشاہ نمرود بھی اپنے آپ کو خدا کہلاتا اور لوگوں سے اپنی پوجا کراتا تھا۔
سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ آپ کے والد آزر صرف بت پرست ہی نہ تھے، بلکہ بت گر بھی تھے، وہ بت بناتے، لوگ ان سے ان خدائوں کو خرید کر لے جاتے اور پھر ان کی عبادت کرتے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام ابھی بچے ہی تھے کہ وہ اپھے باپ کے کام کو دیکھ دیکھ کر سخت حیران ہوتے جن بتوں کو ان کے والد بناتے ہیں جو ہلنے جلنے سے بھی معذور اور محتاج ہیں۔ کس قدر احمق ہیں یہ لوگ جو ان بے جان مورتیوں کو خدا سمجھ رہے ہیں۔
جب ذرا سیانے ہوئے تو ان کا یہ عقیدہ پختہ ہوگیا کہ لکڑی،پتھر اور مٹی کے یہ بت کوئی حقیقت نہیں رکھتے، لیکن جب وہ لوگوں سے کہتے کہ تم ان کی کیوں پوجا کرتے ہو، ان میں اگر کوئی خوبی ہے تو مجھے بھی بتائو تو آپ کے سوال کا جواب تو کوئی نہ دے سکتے۔ صرف یہ کہہ کر ٹال دیتے کہ ہم تو وہی کرتے ہیں جو ہمارے باپ دادا کرتے چلے آئے ہیں۔
ایک دن ان بت پرستوں کا شہر سے باہر کوئی میلہ تھا، تمام لوگ میلے میں گئے ہوئے تھے، حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ایسے میلوں ٹھیلوں سے کوئی دلچسپی نہ تھی اور اگر کسی نے میلے پر جانے پر اصرار بھی کیا تو آپ نے انکار کردیا۔ جب سارا شہر خالی ہوگیا تو آپ نے بت خانہ کے تمام بتوں کو توڑ پھوڑ دیا اور بعد میں کلہاڑی بڑے بت کے کندھے پر رکھ دی۔ شام کو جب یہ لوگ واپس لوٹے اور انہوں نے اپنے خدائوں کی یہ درگت دیھی تو بہت برا فروختہ ہوئے اور تلاش کرنے لگے کہ یہ حرکت کس نے کی ہے، آخر سب نے حضرت ابراہیم علیہ السلام پر شبہ کیا۔ آخر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بلا کو پوچھا کہ یہ بت کس نے توڑے ہیں۔
آپ نے جواب دیا مجھ سے پوچھنے کی بجائے اپنے خدائوں سے کیوں نہیں پوچھتے، جن کی تم عبادت کرتے اور مرادیں مانگتے ہو۔ پھر فرمایا دیکھو کلہاڑی تو بڑے بت کے کندھے پر ہے، اس سے پوچھو کہیں اس نے ہی تو تمہارے جھوٹے خدائوں کا صفایا نہیں کردیا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ کو بت پرستی سے روکا۔ اس پر ان کا باپ سخت ناراض ہوا اور کہا کہ آئندہ اگر تو نے مجھ سے ایسی بات کہی تو تجھے سنگ سار کردوں گا اور کہا کہ تم میرے پاس سے ہمیشہ کے لیے چلے جائو، آپ نے بات کو سلام کیا اور فرمایا کہ میں چلا جاتا ہوں اور تمہاری مغفرت کے لیے دعا کرتا رہوں گا۔
جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کامل یقین ہوگیا کہ مٹی اور پتھر کے یہ بت خدا نہیں ہوسکتے تو آپ سوچنے لگے کہ آخر خدا کون ہے، رات جب نیلے آسمان پر چمکتے ہوئے ستارے دیکھ تو سوچنے لگے کہ یہ چمکتے دمکتے ستارے خدا ہوں گے، مگر تھوڑی دیر کے بعد جب ستارے بھی غائب ہوگئے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام سوچنے لگے کہ جن چیزوں پر زوال آجائے وہ تو خدا نہیں ہوسکتیں اور اب آپ نے چمکتے ہوئے چاند کو دیکھا تو کہنے لگے ستارے تو نہیں یہ چاند ضرور ہوگا۔ مگر جب وہ بھی غائب ہوگیا تو آپ کہنے لگے کہ یہ بھی خدا نہیں ہوسکتا اور اگر خدا مجھے ہدایت نہ دیتا تو یقیناً گمراہ ہوگیا ہوتا۔ اب آپ نے جھمگاتے ہوئے روشن سورج کو دیکھا کہ یہ سب سے بڑا ہے، یہی میرا رب ہوگا، لیکن شام کو جب وہ بھی غروب ہوگیا تو آپ نے فرمایا، اے قوم میں ان تمہارے معبودوں سے سخت بیزار ہوں، جن کو تم خدا کا شریک ٹھہراتے ہو اور فرمایا کہ میں اس خدا کی طرف متوجہ ہوتا ہوں جس نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا اور میں مشرک نہیں ہوں۔
اس پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قوم آپ سے سخت ناراض ہوگئی اور ان سے جھگڑا کرنے لگی، آپ نے ان سے فرمایا کہ تم مجھ سے خدا کے متعلق جھگڑا کرتے ہو، جس نے مجھے توحید کا سیدھا راستہ بتایا اور میں تمہارے ان معبودوں سے ہرگز نہیں ڈرتا اور میں تمہارے ان جھوٹے خدائوں سے ڈر بھی کیسے سکتا ہوں جبکہ تم ان چیزوں کو خدا کا شریک ٹھہرانے سے نہیں ڈرتے جن کو حق سمجھنے کے لیے اللہ کی طرف سے تمہارے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔
جب وہاں کے بادشاہ نمرود کو پتہ چلا تو اس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دربار میں بلایا اور آپ سے جھگڑنے لگا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا کہ میرا خدا وہ ہے جو مارتا بھی ہے اور جلاتا بھی، نمرود نے کہا یہ کون سی بات ہے یہ و میں بھی کرتا ہوں، چنانچہ ایک ایسے قیدی کو بلا کر آزاد کردیا جس کو سزائے موت کا حکم ہوچکا تھا اور ایک بے گناہ آدمی کو پکڑ کر قتل کردیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بے دھڑک ہو کر کہا کہ میرا راب ہر روز مشرق سے سورج طلوع کرتا ہے، میں دیکھو کل تو اس کو مغرب سے طلوع کردے، اس پر نمرود لاجواب ہوگیا اور حکم دیا کہ ابراہیم علیہ السلام کو زندہ جلادیا جائے چنانچہ ایک زبردس چتا تیار کی گئی تو نمرود نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اس جلتی ہوئی آگ میں پھینکوادیا مگر وہ آگ خدا کے حکم سے ٹھنڈی ہوگئی اور آپ کو ہرگز گزند نہ پہنچاسکی۔
جب حضرت ہاجرہ کے بطن سے حضرت اسمعیل علیہ السلام پیدا ہوئے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ کے حکم سے اپنی بیوی ہاجرہ اور لخت جگر حضرت اسمعیل کو ایک ایسی وادی میں چھوڑ آئے، جہاں دور دور تک آبادی کا نام و نشان تک نہ تھا، اس زمین میں نہ کہیں پانی تھا اور نہ کہیں کھیتی باڑی ہوسکتی تھی۔
حضرت ہاجرہ خود پانی کی تلاش میں ادھر ادھر دوڑیں، لیکن پانی نہ ملا، خدا کی قدرت سے حضرت اسمعیل جہاں ایڑیاں رگڑ رہے تھے وہاں پانی کا چشمہ پیدا ہوگیا، یہی چشمہ آج کل زمزم کے نام سے مشہور ہے۔
جب حضرت اسمعیل علیہ السلام چلنے پھرنے کے قابل ہوئے تو اللہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے بیٹے کی قربانی طلب کی۔ چنانچہ آپ نے اللہ کا یہ حکم حضرت اسمعیل علیہ السلام کو سنایا، اس پر حضرت اسمعیل علیہ السلام نے کہا، اے والد محترم، اللہ نے آپ کو جو حکم دیا ہے اس کو ضرور پورا کریں، آپ انشاء اللہ مجھے اس امتحان میں ثابت قدم پائیں گے،شیطان نے حضرت اسمعیل علیہ السلام اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کوورغلانے کی بہت کوشش کی، لیکن آپ نے اسے جھڑک دیا اور کنکریاں مار کر بھگادیا۔اب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسمعیل علیہ السلام کے ہاتھ پائوں باندھ دئیے تاکہ تڑپیں نہیں اور اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ لی کہ محبت پدری کہیں اس فرض کی ادائیگی آڑے نہ آئے اور اپنے بیٹے کے گلے پر چھری چلادی، اسی وقت غیب سے آواز آئی کہ، اے ابراہیم علیہ السلام، تو نے اپنے خواب کو سچا کردکھایا اور حقیقت میں یہ بہت بڑی قربانی ہے اور جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آنکھوں پر پٹی کھولی تو حضرت اسمعیل کی بجائے ایک دنبہ ذبح کیا ہوا پڑا تھا۔
جب حضرت اسمعیل علیہ السلام جوان ہوئے تو اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ان دونوں باپ بیٹوں نے از سر نو خانہ کعبہ تعمیر کیا اور دعا کی کہ اے اللہ اس شہر مکہ کو امن والا بنادے، مجھ کو اور میری اولاد کو بتوں کا پجاری نہ بنانا، اور حضرت ابراہیم علیہ السلام دعا فرمارہے تھے کہ اللہ میری نسل سے ایک ایسا نبی پیدا کر جو گمراہ لوگوں کو تیری آیتیں پڑھ کر سنایا کرے اور انہیں دانائی اور حکمت کی باتیں سکھائے۔ اسی خانہ کعبہ کی زیارت اور حج کے لیے ہر سال لاکھوں مسلمان مکہ معظمہ جاتے ہیں۔