حضرت آدم علیہ السلام
جب اللہ تعالیٰ نے دنیا کو آباد کرنے کا ارادہ کیا تو اس نے اپنے اس ارادے کا ذکر فرشتوں سے کیا اور فرمایا کہ میں اس دنیا میں اپنا نائب (خلیفہ) بنانا چاہتا ہوں، اس پر فرشتوں کو بہت تعجب ہوا اور انہوں نے عرض کی، اے اللہ، ہم تیری عبادت کرتے ہیں اور تیری حمد کے گیر گاتے رہتے ہیں تو ایسے انسان کو پیدا کرنا چاہتا ہے جو دنیا میں فتنہ و فساد اور خونریزی پھیلائے گا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا، جو میں جانتا ہوں، وہ تم نہیں جانتے۔ فرشتوں نے اعتراف عجز کیا اور خاموش ہوگئے۔
اللہ تعالیٰ نے مٹی سے آدم کے وجود کو بنایا اور اس میں روح داخل کرکے اس کو گوشت پوست کا ایک چلتا پھرتا انسان بنادیا۔ اب خداوند کریم نے آدم علیہ السلام کو سب سے پہلے علم سکھایا اور کچھ چیزوں کے نام بتادئیے اور پھر فرشتوں سے ان چیزوں کے نام دریافت کیے۔ انہوں نے عرض کی، ہم اس سے زیادہ کچھ نہیں جانتے، جتنا علم تو نے ہم کو دے رکھا ہے، آدم علیہ السلام سے پوچھنے پر اس نے نہایت صحیح جواب دئیے۔
اب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ اس بندہ خاکی کے آگے جھک جائو اور سب فرشتے فرمان خداوندی کے مطابق آدم علیہ السلام کے آگے جھک گئے۔ مگر ابلیس نے جو دنیا میں شیطان کے نام سے مشہور ہے، سجدہ کرنے سے انکار کردیا۔ اس پر خداوند تعالیٰ نے شیطان کو مردود قرار دے کر اپ نے دربار سے نکال دیا۔
شیطان نے خدا سے مہلت طلب کی کی، جس کے لیے تو نے میری تمام عمر کی عبادت کو برباد کردیا ہے، میں اس کو اور اس کی اولاد کو ہر طریقے سے راہ ہدایت سے بھٹکائوں گا اور بہکائوں گا، اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا، جائو تم جو جی چاہو کرو، جو لوگ تیری پیروی کریں گے، میں ان سے دوزخ کو بھردوں گا جو بہت ہی برا ٹھکانہ ہے لیکن دنیا میں میرے ایسے بندے بھی ہوں گے جو تیرے فریب میں نہیں آئیں گے اور اللہ تعالیٰ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رہیں گے، ایسے لوگ ہی جنت کے حقدار ہیں جہاں بہترین نعمتیں موجود ہیں اور جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں۔
اللہ نے حضرت حوا کو بھی پیدا کیا اور ان دونوں میاں بیوی کو حکم دیا کہ جنگ میں جا کر رہوں اور جو تمہارا جی چاہے کھائو پیو، لیکن ایک بات کا خاص خیال رکھنا، اس فلاں درخت کے پاس نہ جانا، ورنہ تم ظالموں میں گنے جائو گے۔
آدم علیہ السلام اور حوا بڑے سکھ چین اور مزے سے جنت میں زندگی بس کررہے تھے وہ جنت میں جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے،
کہ اگر میں راحت ہی راحت ہے، یہاں کوئی دکھ اور تکلیف نہیں، اس کے نیچے نہریں بہتی ہیں۔
شیطان نے بڑے حیلوں بہانوں سے حضرت حوا کو پھسلا کر اس درخت کے قریب جانے پر آمادہ کرلیا۔
اب آدم علیہ السلام اور حوا کو اپنی غلطی اور گناہ کا احساس ہوا اپنے اس فعل پر بہت نادم اور پشیمان تھے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا، اب تم جنگ سے نکل جائو اور زمین پر جا کر رہو، تمہیں ایک مقررہ مدت تک کےل یے بھیجا جاتا ہے اس کے بعد پھر لوٹائے جائو گے اور تم ایک دوسرے کے دشمن رہو گے۔
اب آدم علیہ السلام کو حکم ہوا کہ وہ اس دنیا پر خدا کا ایک گھر بنائیں، چنانچہ آدم علیہ السلام نے خدا کے حکم کے مطابق خانہ کعبہ کی بنیاد رکھی، یہ وہی خانہ کعبہ ہے، جہاں ہر سال لاکھوں مسلمان حج کے لیے جاتے ہیں۔
آدم علیہ السلام اور حوا پہلا انسانی جوڑا تھا جو دنیا میں وارد ہوا اور دنیا کی آبادی کا باعث بنا۔ ان کی اولاد پھلی پھولی، چوں کہ حضرت آدم علیہ السلام پہلے انسان تھے، اس لیے انہیں ابو البشر بھی کہا جاتا ہے یعنی انسانوں کے باپ
حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد آج دنیا کے چپے چپے پر موجود ہے، آدم علیہ السلام کی اس اولاد نے اپنی ہمت مردانہ اور شوق کی بلندی سے دنیا میں آخر قدرت کے وسائل کو تسخیر کیا، بڑے بڑے سمندروں کو کھنگالا، آسمان سے باتیں کرتی ہوئی برف پوش چوٹیوں کو سر کیا، ہوا کی بلندیوں میں پرواز، برفانی تودوں سے گزر کر قبطین پر جھنڈے گاڑے، یہی نہیں بلکہ اپنی خداداد ذہانت اور قابلیت سے جہاں دنیا کی تباہی و بربادی کے سامان مہیا کیے، وہاں دنیا والوں کے لیے راحت و آسائش کے لیے بھی بے شمار چیزیں ایجاد کیں۔