skip to Main Content
جن۔۔۔ جنجال میں!

جن۔۔۔ جنجال میں!

سیما صدیقی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’سب سے پہلے تو پانی کا انتظام کرنا ہوگا۔‘‘ ہم نے فکر مندی سے کہا۔
’’جی میرے آقا! پہلے وہی ہوگا۔۔۔ اب تو میں نے سنا ہے کہ پانی حاصل کرنے کے لیے صرف ایک بٹن دبانا ہوتا ہے موٹر کا اور پانی جھرنوں کی طرح جھر جھر بہنے لگتا ہے۔ ٹونٹیوں سے!‘‘
’’جی نہیں! آج کل پانی کی کمی (Shortage) ہے۔ تمہیں جا کر ’’ٹینکر‘‘ لانا ہوگا پانی کا اور اس کے لیے لائن میں لگنا ہوگا۔‘‘
’’اچھا!!‘‘ جن کا منھ بن گیا۔ وہ بادل نخواستہ اس کام پہ راضی ہوا تو ہم کار سے اسے ’’واٹر ٹینکرسب اسٹیشن‘‘ چھوڑ آئے۔ دفتر سے دیر ہو رہی تھی۔ چنانچہ ہم خود وہاں سے روانہ ہوگئے۔ واپس آئے تو پانی کا ٹینکر گھر پہنچ چکا تھا اور جن کیچڑ میں لتھڑے اپنے سلیپر دھورہا تھا۔
ہم نے فرج کھولا۔ بوتل نکالی اور پانی غٹا غٹ پی لیا۔ کھارے پانی کا یہ ذائقہ اب ہمارے لیے نیا نہ رہا تھا۔ یہ اور بات کہ ہمارا معدہ اب ’کھیوڑا‘ کی کان بن چکا تھا۔ جو نمک کی پیداوار کے لیے مشہور ہے۔
یہ ’’جن‘‘ ہمارا کوئی رشتہ دار تھا نہ ملازم۔۔۔ ہوا کچھ یوں تھا کہ گھر کے صحن میں ’’نیم کا درخت‘‘ تھا۔ جس کی جڑیں اب ہمارے برآمدے کے فرش کو اکھیڑنے کی کوشش کررہی تھیں۔ ہمارے مکان کی جڑیں ویسے ہی کھوکھلی تھیں۔ کیوں کہ یہ ایک ماہر بلڈر نے بنایا تھا۔ ڈر ہوا کہ کہیں گر نہ جائے۔ چنانچہ درخت کو گرانے کے لیے مزدور بلائے۔۔۔ اسی کھدائی میں وہ ’’چراغ‘‘ ٹائپ چیز ملی جس کو رگڑنے سے ہمیں ’’جن صاحب‘‘ کی خدمات حاصل ہو گئیں۔ اس نے بتایاکہ وہ یہاں سے دور ایک الگ بستی میں رہتا تھا۔ ایک دن بھٹک کر انسانوں کی بستی میں آنکلا۔ اس وقت یہاں کے لوگ شاید فرنگیوں کے خلاف لڑ رہے تھے، توپ کی دھاڑ سے گھبرا کر نیم کے درخت کی جڑ میں گھس گیا اور وہاں کافی عرصہ سوتا رہا۔

*۔۔۔*

اتوار کو ہم ’’جنریٹر‘‘ میں تیل ڈالنے، اس کی صفائی، ’’یوپی ایس‘‘ کی بیٹری میں پانی چیک کرنے اور گاڑی دھونے کے لیے سویرے ہی اٹھ جاتے ہیں۔ سوچا کہ جن کو سکھا دیں تو اتوار کو واقعی ہالی ڈے (چھٹی کے طور پر) کی طرح منائیں۔ اس خیال سے ہی ہمیں سرشاری سی محسوس ہوئی۔ مگر افسوس کہ جن کافی کوڑھ مغز نکلا۔ سمجھ کے نہ دیا یا نکمے طلبہ کی طرح سمجھنا ہی نہ چاہتا تھا۔ ہم جان گئے کہ یہ ٹیکنیکل کام کرکے نہ دے گا۔ چنانچہ اسے ’’سودا سلف‘‘ لینے بھیج دیا، جو فہرست ہماری بیگم نے ہمیں دی تھی۔ وہ رقم کے ساتھ اس کو پکڑا دی۔ (بازار ہم اسے پہلے ہی دکھا چکے تھے)
دوپہر سے شام ہو گئی۔ جن واپس آیا نہ سودا! ابھی ہم سوچ ہی رہے تھے کہ جا کر پتا کریں کہ جن صاحب منھ بسورتے، ناک پونچھتے آتے دکھائی دیے۔ ہم نے پوچھا: ’’کیا ہوا؟‘‘
کہنے لگے: ’’دو موٹر سائیکل سواروں نے راستے میں ہی روک لیا، رقم چھن گئی۔ دکاندار سے کہافی الحال سودا دے دو۔ پیسے بعد میں ملیں گے، تو اس نے خفیہ فون کھڑکا دیا کہ ہم بہانے بہانے ’’بھتہ‘‘ مانگنے آئے ہیں۔ وہ تو شکر ہے کہ علاقے کی پولیس ’’بھتہ خور‘‘ کی آمد کا سن کر جن کی طرح غائب ہو گئی اور دکاندار نے خود ہی دوچار جوتے لگا کر ہمیں چھوڑ دیا۔‘‘
ہم نے کہا: ’’بھئی حد ہوگئی۔ تم کیسے جن ہو، پٹ پٹا کر آگئے۔ اپنی ’’خفیہ صلاحیتوں کا استعمال کیوں نہیں کیا؟ مثلاً اچانک دھواں بن کر غائب ہوجاتے یا ’’اڑن تختے‘‘ پہ بیٹھ کر رفوچکر ہوجاتے، ویسے بھی رقم تو ہم نے بے خیالی میں پکڑا دی، ورنہ چاول کی بوری اور دوچار مرغیاں تو تم ویسے ہی اڑا سکتے تھے اور پھر اڑتے ہوئے ہماری چھت پہ لینڈ کرسکتے تھے۔‘‘
’’آقا!‘‘ جن نے ایک ٹھنڈی سانس بھر کر کہا۔ ’’میں انسانی روپ میں ہی نظر آنا چاہتا ہوں! اس لیے صلاحیتیں استعمال کرتے ڈرتا ہوں کہ کہیں مجھے نظر نہ لگ جائے یا کوئی ظالم آقا مجھے گھسیٹ کر نہ لے جائے۔ لیکن آپ کہیں گے تو میں آئندہ کچھ ’’طلسماتی آئٹم‘‘ پیش کرنے کی کوشش کروں گا، آپ ناراض نہ ہوں۔‘‘
’’میں ناراض نہیں!‘‘ میں نے سنبھل کر کہا، کیوں کہ میں جن کو کھونا نہیں چاہتا تھا، وہ مجھے مفت ملا تھا اور بقول غالب، ’’مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے!‘‘ جن کچھ دن ذرا شرمندہ شرمندہ رہا۔ پھر ایک دن اپنا ’’اڑن قالین‘‘ نکال کر جھاڑنے لگا اور بولا: ’’آقا! کسی دن آپ کو اس کی سیر کراؤں گا۔۔۔ آپ جان جائیں گے کہ ہواؤں میں اڑنا کسے کہتے ہیں!‘‘
ہم نے کہا: ’’ارے آج تو بیگم صاحبہ کو اپنی سہیلی کی شادی میں جانا ہے۔ شادی ہال بھی بہت دور ہے۔ میں یہی سوچ رہا تھا کہ لے جاؤں گا تو ڈیڑھ دو گھنٹہ ’’ٹریفک جام‘‘ میں پھنستا پھنساتا پہنچوں گا۔ جب کہ میری وہاں کوئی دلچسپی بھی نہیں، کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ تم بیگم کو اس ’’اڑن قالین‘‘ کے ذریعہ وہاں پہنچا دو؟‘‘
’’جو حکم میرے آقا! میں پلک جھپکتے بیگم صاحبہ کو پہنچا دوں گا!‘‘
ہم اس وقت اسے جن کی مستعدی سمجھے، ذرا غور نہ کیا کہ جن نے یہ واضح نہیں کیا تھا کہ وہ بیگم کو پلک جھپکتے ’’کہاں‘‘ پہنچا دے گا؟ بیگم صاحبہ خود بھی کافی ہچکچاہٹ کے بعد ’’بائی کارپٹ‘‘ اس سفر پر روانہ ہوئی تھیں اور اب صورتحال یہ تھی کہ بارہ بج رہے تھے اور ابھی تک نہ جن کا پتا تھا نہ بیگم صاحبہ کا۔ فون کرو تو جواب آرہا تھا کہ’’آپ کا مطلوبہ نمبر سگنلز کی پہنچ سے دور ہے!‘‘
ہمیں خدشہ ہوا کہ کہیں جن نے انہیں کراچی سے ’’کوہ قاف‘‘ تو نہیں پہنچا دیا۔ پچھتائے کہ پک اینڈ ڈراپ کی سہولت مل ہی گئی تھی تو ہمیں خود بھی اڑن قالین پہ لٹک جانا چاہیے تھا۔ کون سا ٹکٹ لگنا تھا۔ بہرحال اب کیا ہو سکتا تھا۔ سواے انتظار کے، ساڑھے بارہ بجے کے قریب گیٹ کھلا اور بیگم صاحبہ اندر داخل ہوئیں، ان کا منھ اور گھٹنا دونوں سوجا ہوا تھا۔ وہ فوراً اپنے کمرے میں چلی گئیں بغیر ہم سے کوئی بات کیے۔ جن اپنا قالین گھسیٹ کر اندر لا رہا تھا۔ ہم مجسم سوال بنے کھڑے تھے کہ آخر ہوا کیا؟
جن بولا: ’’میرے آقا! آپ کے شہر کے حالات بہت خراب ہیں۔ ہم اڑن قالین پہ بیٹھے۔۔۔ اڑتے ہوئے۔۔۔ ابھی ہال کے قریب پہنچے ہی تھے کہ اچانک ’’ہوائی فائرنگ‘‘ شروع ہوگئی۔ ایک فائر قالین پہ لگا۔ اس میں چھید ہوا اور یہ سڑاخ کی عجیب و غریب آواز کے ساتھ سڑک پہ گرا۔ بڑی مشکل سے جان بچا کر گھر پہنچے ہیں!‘‘
’’حد ہو گئی! تم کیسے جن ہو؟‘‘ ہم جھلائے تو جن جھینپ کر بولا۔ ’’آقا! وہ تو میرے ساتھ بیگم صاحبہ تھیں، ان کی ذمہ داری نہ ہوتی تو میں دھواں یا آنسو گیس بن کر فائرنگ کرنے والوں کی ناک میں گھس جاتا، پتہ لگ جاتا ان کو بھی!‘‘
’’چھوڑو تم کچھ نہیں کرسکتے، سو سال نیم تلے سوتے رہنے سے شاید تمہاری صلاحیتوں کو زنگ لگ گیا ہے۔‘‘
’’ارے آپ حکم تو کریں مرے آقا۔۔۔ کہ میں آپ کی کیا خدمت بجا لاؤں؟‘‘
’’خدمت؟‘‘ ہم نے ایک ٹھنڈی آہ بھری: ’’کیا خدمت کرسکتے ہو بھلا تم، ہماری بیگم صاحبہ کو آسمان سے زمین پہ دے مارنے کے علاوہ؟‘‘
’’جناب! اگر آپ کے پاس کھیت ہوں تو میں اس میں ہل چلا سکتا ہوں منٹوں میں۔۔۔ موروں کے بادشاہ کے پروں سے آپ کو پنکھا جھل سکتا ہوں۔‘‘
’’ہونہہ! تمہیں معلوم نہیں کہ اب بجلی دریافت ہوچکی ہے، پنکھے اور اے سی کی موجودگی میں، مجھے تم سے پنکھا جھلوانے کی ضرورت نہیں۔ دراصل تمہیں اندازہ ہی نہیں کہ ہم کتنی ترقی کرچکے ہیں۔‘‘
’’اچھا تو جناب عالی۔۔۔ میں یہ کر سکتا ہوں کہ آپ کو یہ چیزیں کھولنے کے لیے اٹھنا نہ پڑے، میں اپنے ہاتھ اتنے لمبے کرسکتا ہوں کہ یہیں بیٹھے بیٹھے جو آپ کہیں کھول دوں (کسی کے سر کے علاوہ)۔
’’رہنے دو! اس کے لیے ریموٹ کنٹرول موجود ہے۔‘‘ ہم نے بورہو کر کہا۔
*۔۔۔*
’’بیگم! لگتا ہے آج تو ’’بس‘‘ سے دفتر جانا پڑے گا۔‘‘ کہا تو ہم نے بیگم سے تھا مگر ’’جن‘‘ جن کے کان بہت تیز ہوتے ہیں اس نے بھی سن لیا، فوراً حاضر ہوا اور کہنے لگا: ’’مگر میرے آقا آپ کے پاس تو اچھی بھلی گاڑی موجود ہے، پھر ’’بس‘‘ سے کیوں جائیں گے؟‘‘
’’بھئی اگلے تین دن ’’سی این جی‘‘ بند رہے گی۔ پیٹرول بھی ختم ہو گیا ہے، اگر تم دوڑ کر پیٹرول پمپ سے ایک بوتل پیٹرول لے آؤ تو میں تمہیں ’’جن‘‘ مان لوں گا۔‘‘
’’اچھا! اب ایسی بھی کیا بات ہے؟ میں یوں گیا اور یوں آیا۔‘‘ جن نے حسب عادت چٹکی بجائی۔
پیٹرول پمپ پہ ایک جانب ستر اسی، گاڑیوں اور دوسری طرف درجنوں لوگوں کی قطار تھی جو پمپ سے نکل کر دور تک پھیل گئی تھی۔ ’’جن‘‘ بھی لائن میں لگ گیا۔ کافی دیر ہو گئی، قطار چونٹیوں کی رفتار سے ہلکے ہلکے کھسک رہی تھی۔ اچانک جن کو خیال آیا، لو میں بھی کتنا بے وقوف ہوں، آدمیوں کی طرح لائن میں لگا ہوں۔ ہاتھ لمبا کرکے بوتل بھروا کیوں نہیں لیتا؟ یہ سوچ کر اس نے اپنا ہاتھ لمبا کرنا شروع کیا، اس کا ہاتھ (جس میں بوتل تھی) تقریباً پینتیس آدمیوں کو کراس کرتا ہوا، آخری پمپ مشین پر موجود لڑکے تک پہنچ گیا۔ لڑکے نے پہلے تو سرسری نظر دوڑائی مگر پھر چونکا، اس کی نگاہ کئی گز دور تک پھیلے ہاتھ پر پھسلتی چلی گئی۔ اس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ پھر وہ چیخا اور چیختا ہی چلا گیا۔ اب تو ایک بھگڈر مچ گئی، لوگ بوتلیں ڈبے چھوڑ چھاڑ کر بھاگے۔ جن کو اندازہ تو تھا کہ ’’بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی۔‘‘ مگر اسے یہ معلوم نہ تھا کہ لوگ اس طرح ڈر جائیں گے۔ اس نے گھبرا کر اپنا ہاتھ ’’نارمل‘‘ کیا اور گھر لوٹ آیا۔
جن کو خالی ہاتھ جھلاتا، آتا دیکھ کر بڑا غصہ آیا۔ وہ اپنی ’’بپتا‘‘ سناتا رہا۔ مگر اب ہمیں جن بھوتوں کی کہانیوں سے کوئی دلچسپی نہیں رہی تھی۔ ہم نے دفتر جانے کا ارادہ ترک کردیا اور دوبارہ سونے لیٹ گئے۔ دوپہر کے قریب بھوک سے آنکھ کھلی تو بیگم کو آواز دی۔ وہ باورچی خانے سے ہی چیخ کر بولیں۔
’’گیس نہیں آرہی۔۔۔ سالن تو کسی طرح تیار ہو گیا اب روٹی چاول نہیں پک سکتا۔‘‘
’’اوہو! آج بڑے دنوں بعد گیس کی لوڈشیڈنگ ہوئی ہے، وہ بھی بالکل اچانک!‘‘ میں بڑبڑایا تو جن بولا۔ ’’آقا! کیا گیس کی لوڈشیڈنگ بھی ہوتی ہے؟‘‘ سوال بڑا معصومانہ تھا۔
’’ہاں بھئی ہوتی ہے۔ معلوم نہیں کیوں؟ حالانکہ ہم نے ’’جغرافیہ‘‘ میں پڑھا تھا کہ ہمارے ہاں ’’سوئی‘‘ سے گیس نکلتی ہے، وافر مقدار میں۔‘‘
’’ہاں ہاں!‘‘ بیگم دوپٹے سے ہاتھ پونچھتی کمرے میں داخل ہوئیں۔ ’’سوئی سے ہی نکل رہی ہے گیس۔۔۔ جا کر دیکھیں چولھے کو، لگتا ہے ’’سوئی کے ناکے‘‘ سے نکل رہی ہے۔ اتنی ہلکی آنچ ہے جسے دیکھ کر آدمی ’’سلگ تو سکتا ہے مگر کھانا نہیں پک سکتا۔‘‘
ہم نے بیگم کی بات کا کوئی جواب نہ دیا اور جن کی طرف مڑ کر بولے۔ ’’ کیا تم اپنی طلسماتی قوت (اگر کوئی ہے) سے کھانے کا انتظام کرسکتے ہو؟‘‘
’’ جی میرے آقا! میں منھ سے آگ کے گولے نکال سکتا ہوں، بیگم صاحبہ چاہیں تو اس پر پکوڑے بنالیں۔‘‘
’’جی نہیں!‘‘ بیگم جلبلہ کر بولیں۔ ’’مجھے معاف رکھیں۔‘‘ ویسے تو میری بیوی خود ہی آگ لگانے میں ماہر تھی مگر اس وقت آگ کی نہیں روٹی کی ضرورت تھی، لہٰذا ہم نے تندور کا رخ کیا۔
کھانا کھا ہی رہے تھے کہ اسی وقت بجلی چلی گئی۔ جنریٹر خراب تھا، یوپی ایس بھی جلد ہی جواب دے گیا۔ پہلے تو ہم صبر سے انتظار کرتے رہے کہ اب آتی ہے، اب آتی ہے پھر بیگم سے پوچھا۔ ’’بیگم! آج کل دوپہر میں لوڈشیڈنگ کے کیا اوقات ہیں؟‘‘
بیگم تنک کر بولیں۔ ’’بھئی! ہماری کیا اوقات کہ ہمیں لوڈشیڈنگ کے اوقات معلوم ہوں؟ اپنی مرضی سے آتی ہے، اپنی مرضی سے جاتی ہے۔ بہرحال دو دفعہ جانے کے درمیان ایک بار آ ضرور جاتی ہے تاکہ یاد رہے کہ ہمیں ’بل‘ دینا ہے!‘‘
’’لو یہ تو غضب ہے! اس سے تو بہتر تھا کہ میں دفتر چلا جاتا، کم از کم وہاں کا جنریٹر تو چلتا ہے۔ گرمی کے مارے برا حال ہو گیا۔ پسینہ اتنا بہہ گیا کہ رات کی لوڈشیڈنگ میں بہانے تک کو نہ رہا۔‘‘
اسی اثنا میں جن نے دروازے سے جھانکا تو ہم نے ذرا نظر چراتے ہوئے کہا: ’’ہاں بھئی! جن صاحب! اپنا موروں کے بادشاہ والا پنکھا تو دکھائیے۔‘‘
بیگم صاحبہ چاے بنا کر لے آئیں تو ہم نے بور ہوکر جمائی لی، ’’لو، اب تو بجلی آئی ہے، ذرا آنکھ جھپکی تھی کہ آپ چاے لے آئیں۔‘
بیگم بولیں: ’’لو بھئی! اس میں میرا کیا قصور کہ بجلی کے آتے آتے، دوپہر ڈھل کر شام میں بدل گئی۔ شام کو سونے کی بھلا کیا تک ہے۔ اب اتنا بھی کیا سونا؟ مجھے تو دوپہر میں بالکل نیند نہیں آتی، جن بھی نہیں سوتا!‘‘
جن کے ساتھ اس تقابلی جائزے سے ہم چڑ سے گئے۔ ’’بھئی تمہاری بیداری سے تو ہم خود بھی پریشان ہیں، رہ گئے جن صاحب تو وہ سو سال نیم تلے سوتے رہے ہیں، وہ اپنی ساری نیند پوری کرچکے ہیں۔ ویسے بھی وہ بتا رہے تھے کہ جن زیادہ تر سوتے رہتے ہیں، ہاں البتہ چڑیلیں ہمیشہ جاگتی رہتی ہیں۔‘‘
ہم نے کن اکھیوں سے بیگم کی طرف دیکھا تو وہ منھ بنا کر اٹھ گئیں۔ ہم نے اچک کر پیچھے سے دیکھا کہ ’’پاؤں الٹے تو نہیں‘‘ اور پھر چاے کی چسکیاں لینے لگے۔
ایک دن ’جن‘ ہم سے کہنے لگا: ’’ میرے آقا ! میں بے کار بیٹھے بیٹھے بور ہو گیا ہوں، آپ کوئی کام بتائیے۔‘‘
ہم نے کہا: ’’بیگم صاحبہ خریداری کرنے جا رہی ہیں، آپ صرف واپسی میں ان کے تھیلے اٹھا کر لے آئیے گا۔‘‘
جن بولا: ’’مشکل ہے میرے آقا، کوئی اور کام بتائیں۔‘‘
اس جواب پر بیگم چراغ پا ہو گئیں اور اس چراغ کو بھی اٹھا کر پھینک دیا جس سے ہم جن کو مس کال دیا کرتے تھے۔ پھر جن کے کمرے سے جانے کے بعد یہاں تک کہہ دیا کہ ’’آپ کے جن دوستوں کو یہ جن چاہیے۔ انہیں دے ڈالیں یا پھر ایک گاڑی اور بنگلے کی فرمائش کر کے چلتا کریں۔‘‘
ہم نے کہا: ’’بیگم طویل عرصے تک نیم تلے سونے کے باعث اس کی صلاحیتیں بھی سو چکی ہیں، بس یونہی سا ہے۔ ویسے بھی یہ جن ہے کوئی وزیر نہیں جو چٹکی بجاتے گاڑی بنگلہ حاصل کرلے۔‘‘
بیگم بولیں: ’’بھئی آپ کہہ کر تو دیکھیں، آپ تو بس جن سے بھی نوکروں والے کام کرا رہے ہیں۔‘‘
’’نوکروں والے تو نہیں، ہم تو بس اپنے حصے کے کام کراتے ہیں۔۔۔ کیا واقعی یہ نوکروں والے کام ہیں؟ ہمیں تو آج تک پتا ہی نہ چلا۔‘‘
’’بس بس!‘‘ بیگم بیزاری سے بولیں۔
’’اس کی چھٹی کیجئے، ورنہ اگلی بار سے راشن ڈبل لانا ہوگا۔ کام کا نہ کاج کا، دشمن اناج کا، کھانے کے وقت ہمیشہ ’آن لائن‘ رہتا ہے۔ اس سے اچھے تو ہمارے شہر کے وہ پتلے پتلے لڑکے ہیں جو پھر بھی بہت کچھ کرلیتے ہیں، اپنا کھا کما لیتے ہیں۔‘‘
’’ہاں! بالکل کرلیتے ہیں۔ مگر جب ان کے ہاتھ میں ’ٹی ٹی‘ ہو۔‘‘ ہم نے کہا۔بیگم ٹھنڈی سانس بھر کے بولیں۔’’ اچھا مذاق چھوڑئیے اور بجلی کا بل جمع کرا کے آئیے، کل تک جمع نہ ہوا تو جرمانہ ہوجائے گا۔‘‘
’’جن!‘‘ ہم نے آواز دی۔ ’’ذرا یہ ’بل‘ تو جمع کرا دو!‘‘ یہ کہہ کر ہم نے بیگم کو جتا دیا کہ ہمارا جن کو نکال باہر کرنے کا کوئی ارادہ نہیں۔
جن نے حیرت سے آنکھیں پھاڑ کر کہا: ’’بل کیسا؟‘‘ آقا آپ تو اپنی بجلی خود پیدا کرتے ہیں جنریٹر سے۔‘‘
’’ہاں! یہ ٹھیک ہے، کیوں کہ حکومت نے ہم سے کہا ہے کہ ’’اپنی بجلی آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے‘‘ جن کے چہرے پر الجھن کے آثار دیکھ کر ہم نے مزید وضاحت کرنی ضروری سمجھی: ’’دیکھو بل اس لیے دیتے ہیں کہ حکمرانوں کو ہم خود ’’دعوت‘‘ دے کر بلاتے ہیں، لہٰذا ان کے کھانے پینے کی ذمہ داری بھی ہماری ہے اور پھر اگر ہم ٹیکس اور بل نہیں دیں گے تو ترقی کیسے کریں گے؟‘‘
جن نے اپنا سر پکڑ لیا اور بولا: ’ ’میں باز آیا ایسی ترقی سے، نہ بجلی ہے، نہ گیس نہ پانی ہے نہ صاف ہوا۔۔۔ اور نہ ہی جان کی امان۔ یہ انسان ہی ہے جو گزارا کررہا ہے! ہمارے تو بس کی بات نہیں۔ آپ سنبھالیں، یہ آپ ہی کا جنجال ہے۔ مہربانی کریں اور مجھے نیم کے درخت والی جگہ کی کھدائی کرنے دیں۔۔۔ میں واپس جا کر سونا چاہتا ہوں۔‘‘
’’مگر تم جاؤ گے کہاں؟ وہ درخت تو اب کٹ گیا، جڑیں تک ہم نے پیٹرول ڈال کر جلا دی تھیں۔‘‘
’’بس آقا۔۔۔ آپ مجھے کھدائی کی اجازت دے دیں!‘‘ جن نے عاجزی سے کہا۔
ہم کیا کرتے؟ اجازت دے دی، ویسے بھی وہ جن تھا۔۔۔ یہ اس کی شرافت تھی کہ اجازت مانگ رہا تھا۔ رات بھر کھدائی کی آوازیں آتی رہیں، ایسا لگتا کہ اکیلا جن نہیں بلکہ کئی لوگ مل کر کھدائی میں مصروف ہوں۔ کدالوں کی آوازیں مسلسل آرہی تھیں ’کھٹ کھٹ کھٹ!‘‘
صبح اٹھے تو جن غائب تھا۔۔۔ اور صحن کی مٹی برابر تھی۔ کچھ ہی دن میں ہم اس واقعہ کو بھول بھال گئے۔ پھر ایک روز دفتر سے واپس آئے تو دیکھا کہ جہاں ’’درخت‘‘ تھا، وہاں سے ذرا فاصلے پہ ایک ’’کونپل‘‘ پھوٹ چکی تھی۔۔۔ گویا اندر، کہیں نہ کہیں’’نیم‘‘ کی جڑ موجود تھی۔۔۔ اور جن بھی!

*۔۔۔*

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top