skip to Main Content

ایک دن پاگلوں کے ساتھ

سیما صدیقی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’ یار کیا بوریت ہے! تم سرداروں والے وہی لطیفے بھیج رہے ہو جو پہلے بھی دس لوگ مجھے بھیج چکے ہیں، جب تک کوئی نئی چیز نہ ہو مجھے نہ بھیجا کرو۔۔۔ مجھے کچھ نیا چاہیے نیا۔۔۔ کیا سمجھے!‘‘
ثاقب نے حسب عادت اپنا تکیہ کلام استعمال کیا جو تھا ’’ کچھ نیا چاہیے‘‘ کہانی ہو یا گانا۔۔۔ پکنک ہو یا ڈرامہ، ہر معاملے میں منہ بنا کر یہی کہتا، ’’ کیا پرانا آئیڈیا ہے بورنگ! یہ آئیڈیا تو اتنا گھس چکا ہے کہ اب، پٹ بھی نہیں سکتا، بھئی کچھ نیا چاہیے نیا!‘‘ اسے منفرد کام کرنے کا جنون تھا۔
گرمیوں کی چھٹیاں تھیں، ثاقب کے چار وں دوست اس کے گھر جمع تھے۔ معاملہ یہ زیر بحث تھا کہ چھٹیوں میں کیا، کیا جائے؟ ابھی پچھلے ہی ہفتے سب ’’ سن وے لگون‘‘ میں دو دن گزار کر آئے تھے، دس دن سمر کیمپ میں نکل گئے، ’’سی ویو‘‘ سے بھی بور ہو چکے تھے اور کرکٹ بھی دل بھر کے کھیل چکے تھے۔ یہ سارے کام بھی ثاقب سے زبردستی کرائے گئے تھے کہ جب تک کوئی انوکھا پلان نہیں سوجھتا یہی تفریح کر لیں جو سب کرتے ہیں۔
سلمان نے مدبرانہ انداز میں کہا ’’ دیکھو! تفریح تو بہت کر چکے اب کوئی ’’خدمت خلق‘‘ کا کام کرتے ہیں، ایسا کام جس سے خوشی اور دل کا اطمینان حاصل ہو کہ ہم نے اپنی چھٹیاں ضائع نہیں کیں۔‘‘
سلمان کی رائے سے سب نے اتفاق کیا، انیق چٹکی بجا کر بولا ’’دارالسکون‘‘ میں ’’ اسپیشل بچوں‘‘ کی خبر گیری کرتے ہیں، ان کے لیے تحفے وغیرہ لے کر جاتے ہیں، جیسے اسلم بھائی جاتے ہیں۔‘‘
انیق نے آئیڈیا پیش کیا تو ثاقب بولا، ’’ اگر تمہارے اسلم بھائی یہ کام کرچکے تو اب ہم نہیں کریں گے۔ کوئی ایسا پروگرام بناؤ جو عام سا نہ ہو۔۔۔ بالکل ہٹ کے ہو۔‘‘
محسن نے پرخیال لہجے میں کہا ’’ کیوں نہ ، ’’ایدھی ٹرسٹ‘‘ کے رضاکار بن جائیں۔۔۔ کچھ دنوں کے لیے!‘‘
’’ہائیں!! مگر یہ کیسے پتہ چلا کہ وہ ہم جیسے طلبہ کو بطور ’’رضا کار‘‘ رکھ لیتے ہیں وہ بھی عارضی طور پر۔‘‘
’’ارے۔۔۔ ولی بھائی پچھلی چھٹیوں میں بنے تھے نا!‘‘
’’خوب! جو بڑے بھائی جان نے کیا۔۔۔ تم بھی وہی کرو گے۔۔۔ کوئی ایسا نیا آئیڈیا سوچو کہ اپنے بھیا کو بھی فخر سے بتا سکو۔‘‘
ثاقب کے مسلسل اعتراضات کے بعد ایک ناگوار سی خاموشی چھا گئی ۔۔۔ کہ اچانک رضا کی آنکھیں چمکنے لگیں۔۔۔ جوش سے بھرے لہجے میں بولا۔۔۔ ’’ بس ایک دن صبر کر لو۔۔۔ میں کچھ معلومات کر لوں، پھر کل تمہیں بتاؤں گا کہ دراصل ’’ نیا آئیڈیا‘‘ کیا ہوتا ہے؟‘‘

*۔۔۔*

اگلے دن بیل بجی تو ثاقب نے گیٹ کھولا۔۔۔ گیٹ کھلتے ہی رضا کے نعرے کی آواز آئی، ’’ہرہ! میں نے پا لیا؟‘‘ یہ کہہ کر وہ ثاقب سے لپٹ گیا۔
’’ کیا پا لیا؟‘‘ ثاقب بوکھلا گیا۔
’’ارے میں نے آئیڈیا پا لیا۔۔۔ ایسا آئیڈیا جو کسی نے خواب میں بھی نہ سوچا ہوگا۔‘‘
’’ارے بتاؤ تو سہی؟‘‘
’’ ہم ’’پاگل خانے‘‘ کے رضا کار بن کر پاگلوں کی خدمت کریں گے!‘‘
’’ہائیں!‘‘ ثاقب دھک سے رہ گیا، ’’پاگلوں کی خدمت؟ وہ ہمیں خدمت کرنے دیں گے؟ (کیا وہ اتنے ہی پاگل ہیں؟) مطلب۔۔۔ کیا پاگل خانے کی انتظامیہ ہمیں اس کی اجازت دے گی۔۔۔؟‘‘
’’کوشش کرنے میں کیا حرج ہے۔۔۔‘‘ رضا نے پرجوش لہجے میں کہا، ’’دیکھو! سرکاری پاگل خانے میں تو ہمیں داخل نہیں ہونے دیا جائے گا۔۔۔ مگر اب شہر میں بہت سے نجی پاگل خانے اور ذہنی امراض کے ہسپتال کھل چکے ہیں۔۔۔ خود میرے ’’ریاض ماموں‘‘ ایک ایسی ہی جگہ کے ہیڈ ہیں۔‘‘
’’پاگل خانے کے ہیڈ ہیں یا پاگلوں کے؟‘‘
’’ بھئی پاگل خانے کے ہیڈ ہیں انہوں نے یہ وعدہ کیا ہے کہ ہمیں پاگل خانے کے وزٹ اور وہاں ڈے اسپینڈ کرنے کی اجازت دلا دیں گے۔ بس تم سب کو اطلاع کر دو اور گھر سے اجازت حاصل کرنے کا مرحلہ طے کر لو۔۔۔ ان شاء اﷲ ، اگلے اتوار کی صبح دس بجے ہم وہاں ہوں گے۔

*۔۔۔*

عمارت کی دیوار پر لگے بورڈ پر ایک کپڑا(بینر) منڈھا ہوا تھا جس پر ’’ذہنی مریضوں کے لیے اسپیشل ہوم‘‘ لکھا ہوا تھا۔ ثاقب اور اس کے دوست اندر داخل ہوتے ہوئے بڑے ایکسائیٹڈ تھے۔ عجیب سی سنسنی رگ و پے میں دوڑتی محسوس ہو رہی تھی۔۔۔ تجسس بھی تھا اور شاید ہلکا سا خوف بھی۔ (انہیں یہاں آنے کی اجازت بھی گھر والوں نے بڑی مشکل سے دی تھی رضا کے ماموں کی ذمہ داری پر)
بہرحال وہ اندر داخل ہوئے۔ سب سے پہلے عمارت کا گراؤنڈ نظر آیا۔۔۔ جہاں پینتیس چالیس کے قریب پاگل مختلف سرگرمیوں میں مصروف تھے۔ ثاقب کو یہ دیکھ کر تعجب ہوا کہ تمام پاگلوں کی عمریں چودہ سے بیس بائیس سال کے درمیان تھیں۔۔۔ جس پر رضا کے ماموں نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ ہر ایج گروپ کے مریضوں کو الگ الگ رکھا جاتا ہے اور آپ لوگوں کو صرف ’’ بچکانہ وارڈ‘‘ میں خدمت کا موقع دیا جائے گا، جہاں مریض خطرناک نہیں، یعنی ڈاکٹری سرٹیفیکیٹ کے مطابق بے ضرر ہیں۔
ماموں آفس چلے گئے، تو ثاقب اپنے دوستوں کے ہمراہ گراؤنڈ میں نصب بینچوں پر بیٹھ گیا۔ ایڈونچر کا آغاز ہو چکا تھا۔۔۔ مگر اب سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ ابتدا کیسے کریں؟ ثاقب نے سوچا کہ پہلے تعارف حاصل کرنا ضروری ہے۔ اس سلسلے میں وارڈن صاحب کی خدمات حاصل کرنی چاہیں تو ناکام رہے کیوں کہ وہ بہت خشک ، سخت گیر اور آدم بے زار سے آدمی تھے۔ آخر ثاقب نے ان ہی مریضوں میں سے ایک چودہ پندرہ سالہ لڑکے کو منتخب کیاجو بڑی معصوم شکل و صورت کا تھا اور جو اپنی حرکتوں سے بالکل پاگل معلوم نہیں دے رہا تھا۔ اس کا نام ’’رمیز‘‘ تھا۔ ثاقب نے اس سے سارے پاگلوں کو انٹرویو کے لیے لائن اپ کرنے کو کہا۔۔۔ سارے پاگل آگئے مگر ایک پاگل وہیں بیٹھا رہا۔۔۔ ثاقب نے اس کے بارے میں پوچھا تو رمیز نے کہا۔
’’ نہیں وہ نہیں آئے گا۔۔۔ کہتا ہے کہ۔۔۔ ذرا سا بھی اٹھا تو کاروبار کا ہرج ہو گا۔‘‘
’’ کاروبار؟‘‘ انیق نے حیرت سے دہرایا اور خود اٹھ کر اس کے پاس پہنچ گیا، اسے اپنی جانب آتے دیکھ کر اس نے آواز لگائی،
’’لوڈ شیڈنگ ختم کرالو۔۔۔ کیچڑ سے منرل واٹر بنوالو۔۔۔گدھوں کو ٹیوشن پڑھوا لو۔۔۔ آؤ آؤ ۔۔۔ جلدی آؤ!‘‘
ا س نے انیق کو لال لال آنکھوں سے گھور کر اپنے قریب بلایا تو وہ سہم کر واپس آگیا، جہاں ثاقب انٹرویو سیشن کا آغاز کر چکا تھا۔۔۔ سوال یہ پوچھا گیا تھا کہ آپ کون ہیں اور یہاں کیسے آئے؟
پاگل نمبر۱
’’پہلی بات تو یہ کہ میں پاگل نہیں ہوں!‘‘
’’کیا واقعی؟‘‘
’’ جی ہاں! میں صرف دو ماہ، یہاں آرام کی غرض سے آیا ہوں ، یوں سمجھ لیں آؤٹنگ کے لیے۔۔۔!‘‘
’’ہائیں! آؤٹنگ کے لیے؟ پاگل خانے میں یہاں آپ کو کیا مزا یا آرام ملا؟‘‘
’’بھئی میرے گھر میں سب پاگل ہیں۔۔۔ چھ آدمیوں کا علاج کرانے کے بجائے میں خود سالانہ چھٹی کے موقع پر یہاں آجاتا ہوں۔۔۔ یہاں کے پاگل نسبتاً کم پاگل ہیں۔۔۔ کچھ دن سکون سے گزر جاتے ہیں۔‘‘
پاگل نمبر ۲
’’ میں پاگلوں کا سردار ہوں!‘‘
’’مطلب ؟‘‘
’’ مطلب یہ کہ یہاں جتنے بھی پاگل ہیں۔۔۔ میں ان کا سردار ہوں۔۔۔ ان سے زیادہ عقل مند! سارے مسئلے چٹکی بجانے سے پہلے حل کر دیتا ہوں۔۔۔کہئے تو آپ کو یہاں کے اسپیشل وارڈ کا ایئر کنڈیشن کمرہ دلا دوں؟‘‘
’’ جی!! جی نہیں۔۔۔ ہم پاگل نہیں۔۔۔ ہم تو یہاں وزٹ کے لیے آئے ہیں۔۔۔!‘‘
’’ٹھیک ہے۔۔۔ ٹھیک ہے۔۔۔ شروع میں ہر پاگل یہی کہتا ہے۔۔۔ میں بھی پہلے یہی کہتا تھا، یعنی سردار بننے سے پہلے!‘‘
پاگل نمبر ۳
میں پیدائشی اداکار ہوں۔۔۔ چانس کے لیے ماری ماری پھر رہی تھی کہ لوگوں نے زبردستی پکڑ پکڑا کر یہاں بند کر دیا۔۔۔ ویسے میں پاگل نہیں ہوں۔۔۔ فنکار ہوں۔۔۔ میرے اندر کا فنکار جس دن باہر آگیا۔۔۔ ان پروڈیوسروں کو لگ پتا جائے گا۔۔۔ آپ میرے ٹیلنٹ کا اندازہ اس سے لگائیں کہ اس وقت بھی میں ’’پاگل پن‘‘ کی ایکٹنگ کررہی ہوں اور آپ کو شبہ تک نہیں ہو رہا۔۔۔ اسی کو نیچرل ایکٹنگ کہتے ہیں۔۔۔‘‘ یہ کہہ کر مریضہ نے اپنے وحشیوں کی طرح الجھے ہوئے بال اور گردن گھما گھما کر چاروں طرف جھٹکنے شروع کر دیئے اور اٹھ کر قہقہے لگاتی ایک سمت چل دی۔
پاگل نمبر ۴
میں تو اپنی دور اندیشی کی وجہ سے مار کھا گیا۔۔۔ جب پیٹرول عنقا ہو گیا تو میں نے گدھا خرید لیا۔ پہلے ہی دن جب گدھے پر آفس پہنچا تو کھلبلی مچ گئی۔ میں نے ایک صاحب کی کار سے اپنے گدھے کی رسی باندھ کر گدھا پارک کرنا چاہا تو لوگوں نے چاروں طرف سے گھیر لیا اور میری عرض سنے بغیر گدھے سمیت یہاں لا کر جمع کروا دیا۔
پاگل نمبر۵
’’ بھائی جی۔۔۔ بھائی جی۔۔۔‘‘ پانچویں مریض نے اپنی بہتی ہوئی رال ، قمیض کے دامن سے پونچھتے ہوئے ، پرجوش انداز میں ثاقب کا کندھا ہلا کر کہا،
’’ میں تو بہت ایماندار ہوں۔۔۔ میں نا۔۔۔ وہاں سے جا رہا تھانا جی (انگلی اٹھا کر نامعلوم سمت اشارہ کرکے) تو وہاں سے نا۔۔۔ ایک آدمی چینی کی بوری خرید کر لے جا رہا تھا۔ اس نے بوری کندھے پر رکھی اور چل پڑا اس میں نا ۔۔۔ بھائی جان جی۔۔۔ اس میں نا۔۔۔ ایک چھید تھا۔۔۔ اس میں سے چینی گرنے لگی نا۔۔۔ تو میں نا ۔۔۔ اپنا خالی تھیلا اس کے نیچے کر دیا۔۔۔ اور اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔۔۔ تاکہ اس کی چینی ضائع نہ ہو۔۔۔ چھیدنا۔۔۔ چھوٹا سا تھا نا۔۔۔ تو میں نے نا۔۔۔ انگلی گھسا کرنا اسے بڑا کر دیا۔ تاکہ چینی نا۔۔۔ آرام سے نکل سکے۔۔۔ مگر جب نا۔۔۔ اس کا گھر آیا نا۔۔۔ اور وہ پیچھے مڑا۔۔۔ تو اس نے نا۔۔۔ چور چور کا شور مچا دیا۔ محلے والوں نے نا۔۔۔ مجھے پکڑ کر یہاں چھوڑ دیا۔۔۔ مجھے نا چینی جمع کرنے کا شوق ہے تاکہ نا۔۔۔ میں میٹھی میٹھی باتیں کر سکوں۔۔۔ بھائی جان جی! آپ کے پاس چینی کا تھیلا ہے؟‘‘
ابھی چار پانچ مریضوں کے ہی انٹرویوز ہوئے تھے کہ وارڈن صاحب آکر سر پر کھڑے ہو گئے اور کرخت آواز میں بولے۔۔۔ آپ کو یہاں انٹرویوز کرنے کے لیے نہیں بلایا گیا۔۔۔ خدمت کریں۔۔۔ خدمت!‘‘
ثاقب اور اس کے ساتھی بوکھلا گئے کہ ’خدمت‘ کا آغاز کیسے کریں؟ ایک پاگل نے اپنے سر میں ریت ڈالی ہوئی تھی، بال بھی بہت الجھے ہوئے تھے، اور کچھ سمجھ میں نہ آیا تو ثاقب نے اپنا جیبی کنگھا نکالا اور اس پاگل کے قریب پہنچ گیا جو پیٹھ موڑے، جنگلے سے باہر دیکھ رہا تھا۔۔۔ ثاقب نے بڑے پیار سے جونہی اس کے بال سلجھانے شروع کیے وہ اچانک پلٹ پڑا اور ثاقب کے بال اپنی دونوں مٹھیوں میں ایسے جکڑ لیے کہ چھڑانا مشکل ہو گیا۔ محسن نے آکر اس کی جان بچائی۔ انیق کو یاد آیا کہ جو چاکلیٹ، غبارے اور جوس کے ڈبے لائے تھے وہ تو گاڑی میں ہی رہ گئے ۔۔۔ محسن اور انیق دوڑ کر گئے اور چیزیں نکال لائے۔۔۔ جب وہ پاگلوں میں بانٹنے گئے تو ایک طوفان بدتمیزی مچ گیا۔۔۔ بڑی مشکل سے وارڈن نے ان کو قابو کیا۔ اسی اثناء میں کھانا لگنے کی خبر آئی اور سب نے ہال کا رخ کیا۔ ہال میں ایک بھگڈر سی مچی تھی۔ ایک کارندہ بڑی سی دیگ سے قورمہ نکال نکال کر پاگلوں کی پلیٹوں میں ڈال رہا تھا۔ میز پر تندور کی روٹیاں دھری تھیں جنہیں پاگل ، پاگلوں کی طرح لے کر بھاگ رہے تھے، کچھ کارندے کو دھکیل کر، دیگ میں ہاتھ ڈال کر بوٹیاں ٹٹول رہے تھے۔ رضا کے ماموں تاسف سے بولے،۔
’’ دیکھ لیں۔۔۔ ان بے چاروں کو کھانے تک کی تمیز نہیں۔۔۔ اپنے ہوش میں ہی نہیں!‘‘
رضا کے ماموں کا یہ افسوس بے جا تھا کیوں کہ ہم نے تو ہوش مندوں کی محفلوں میں بھی کچھ اسی قسم کے مناظر دیکھے تھے۔ بس روٹیوں کے بجائے بچے کوک کی بوتلیں لے کر بھاگتے ہیں۔ ماموں نے کہا کہ جتنی دیر میں یہ لوگ کھانے اور قیلولے سے فارغ ہوتے ہیں آپ لوگ بھی لنچ کر لیں۔

*۔۔۔*

پاگلوں نے کچھ دیر آرام کیا اور شام کو کھیلنے کے لیے پھر گراؤنڈ میں نکل آئے۔ درمیان میں ایک بڑی سی گیند تھی جس کو کک لگا کر سب دیوانہ وار قہقہے لگا رہے تھے۔ ایک پاگل درخت پر بیٹھا کمنٹری کر رہا تھا۔۔۔ جو نامعلوم زبان میں تھی۔
جیسے ہی ثاقب اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ان کے قریب گیا کہ کچھ اپنائیت ظاہر ہو۔۔۔ اور ان کے ساتھ گھل مل سکیں۔ ایک پاگل نے گیند اٹھائی اور پوری قوت سے ثاقب کی ناک پہ دے ماری۔ ناک چند لمحوں کے لیے سن ہو گئی۔۔۔ وہ بلبلا کر رہ گیا۔
’’وہاٹ نان سینس! یہ کیا بدتمیزی ہے!‘‘
وارڈن صاحب جو غالباً پاگلوں کے بجائے وزٹرز کی نگرانی کررہے تھے پیچھے سے ٹہلتے ہوئے آئے اور ترش لہجے میں بولے
’’یہ پاگل خانہ ہے۔۔۔ یہاں ’’وہاٹ نان سینس‘‘ کہنا بالکل بے جا ہے!‘‘ ثاقب نے قدرے کھسیا کر ’’سوری‘‘ کہا اور دوسری جانب کا رخ کیا جہاں نوعمر اور قدرے کم پاگل بچے ’’چھپن چھپائی ‘‘ کھیل رہے تھے۔ ثاقب جب اس گوشے میں پہنچا تو ایک پیارا سا بچہ۔۔۔ ٹھٹک کر رُک گیا۔۔۔ پھر دوسرے کو کہنی مار کے بولا۔
’’ہا۔۔۔ ہا۔۔۔ ان پاگلوں کو پکڑو۔۔۔!‘‘
دس گیارہ بچے درختوں کے عقب سے نکل آئے اور اسے گھیر لیا۔ سب سے لمبا لڑکا بولا۔
’’دیکھو دیکھو! لال ناک والا پاگل۔۔۔ مارو ۔۔۔ مارو!‘‘
یہ کہہ کر انہوں نے اس طرح مارنا شروع کیا کہ مار تو برائے نام تھی، چیخ پکار اور اچھل کود زیادہ تھی۔۔۔ ایک لڑکے نے اچھل کر ثاقب پر حملہ کیا اور اس کی قمیص کے سارے بٹن اپنے دانتوں سے توڑ ڈالے۔
رضا ۔۔۔ رضا۔۔۔ ادھر آؤ۔۔۔ وارڈن صاحب۔۔۔ ماموں ماموں۔۔۔ بچاؤ بچاؤ۔ ثاقب نے بوکھلا کر ماموں کو آواز دینی شروع کی تو لڑکے نے اس کے گریبان کو ایک جھٹکا دے کر چھوڑ دیا اور تالی بجا کر کہنے لگا۔
’’ماموں ۔۔۔ چندا ماموں دور کے پاگلوں کو پڑھائیں ڈھونڈ کے!‘‘ ماموں یہ شور سن کر بھاگے بھاگے آئے اور ثاقب کو ان لڑکوں کے درمیان سے گھسیٹ لیا اور وارڈن ان سب کو قطار بنوا کر اندر لے گئے۔ ثاقب نے ناک سہلاتے ہوئے کہا۔
’’ یہ سارے پاگل کھلے ہوئے کیوں ہیں۔۔۔؟ میرا مطلب ہے کہ کسی بستر یا کمرے تک محدود کیوں نہیں؟ اس طرح تو یہ کسی کو بھی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔‘‘
ماموں بولے، ’’ مجھے خود حیرت ہے ایسا تو یہ کبھی نہیں کرتے ۔ شاید یہ نئے لوگوں کو دیکھ کرا س طرح ری ایکٹ کر رہے ہیں۔ کچھ دیر میں آپ لوگوں سے بھی مانوس ہو جائیں گے۔‘‘ ماموں اسے اطمینان دلا کر اپنے آفس چلے گئے۔
ثاقب کا دل تو چاہتا تھا کہ فوراً یہاں سے بھاگ نکلے سر کی جڑیں دکھ رہی تھیں اور ناک سوجھ کر کپا ہو چکی تھی ۔۔۔ اسے حیرت تھی کہ پاگلوں کا ٹارگٹ وہ ہی کیوں بنا ہے۔۔۔ کسی اور ساتھی کو تو انہوں نے نشانہ نہیں بنایا۔ اس کا دل اداس سا ہو گیا۔۔۔ سیڑھیوں پہ ایک ماسی ٹائپ بڑھیا بیٹھی تھی۔ ثاقب نے خیال کیا کہ شاید وہاں صفائی وغیرہ کے کام پہ مامور ہے۔وہ اسی کے پاس دبک کر بیٹھ گیا۔ بڑھیا نہایت شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرنے لگی تو وہ خوش ہوا کہ محبت کرنے والی کوئی تو ڈھنگ کی ہستی یہاں موجود ہے۔ مگر عین اسی وقت بڑھیا نے اس کے سرپر ایک زور دار چپت لگائی اور آنکھیں گھما کر پراسرار لہجے میں بولی، 
’’ بہت بڑی جوں چل رہی تھی یہاں۔۔۔ میں نے مار ڈالی۔‘‘ ثاقب گھبرا کر وہاں سے بھی اٹھ گیا کہ اگر ماسی جوؤں کا قتل عام اسی انداز میں کرتی رہی تو اس کا تو ہو گیا کام تمام۔ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ جائے تو جائے کہاں؟ اس نے ادھر ادھر نظر دوڑا کر اپنے ساتھیوں کو تلاش کیا تو دیکھا۔
سلیمان کچھ پاگلوں کے ساتھ ’’لوڈو‘‘ کھیل رہا تھا اور خوب بے ایمانی کر رہا تھا۔ حیرت انگیز طور پر کسی پاگل نے اس بے ایمانی کا نہ کوئی نوٹس لیا اور نہ ان کا مار پیٹ کا کوئی موڈ تھا۔ کھیل جب آخری مراحل میں پہنچا تو ایک پاگل چیخ کر بولا۔ ’’ دیکھو جو گیم جیتے گانا! وہ سب سے بڑا پاگل ہو گا ہیں نا!‘‘ اس کی تائید میں سارے پاگل تالی بجانے لگے اور پھر اچانک ایک پاگل نے لوڈو کا گتا الٹ دیا یعنی بساط ہی لپیٹ دی۔ سلیمان بور سا ہو کر رہ گیا۔
محسن اور انیق گراؤنڈ میں آپس میں ہی ریکٹ کھیل رہے تھے، نہ وہ پاگلوں کو لفٹ دے رہے تھے نہ پاگل انہیں۔ رضا البتہ کچھ پاگلوں کے ساتھ فرش پہ دائرہ بنائے بیٹھا تھا اور انہیں لطیفے سنا رہا تھا۔ ثاقب کو ماحول سے ایسی وحشت محسوس ہو رہی تھی کہ دوستوں کے ساتھ کھیلنے کا بھی دل نہیں چاہ رہا تھا۔۔۔ جی اچٹ سا گیا تھا۔۔۔ یہاں سے!
اسے سیڑھیوں پہ تنہا، اداس بیٹھا دیکھ کر رضا کے ماموں بولے۔ ’’ کیوں بھئی! دل بھر گیا۔۔۔ دیکھو رضا تو اب تک ’’پاگلوں کی کمپنی ‘‘ میں انجوائے کر رہا ہے۔‘‘
ثاقب جھینپ کر بولا۔ ’’جناب میں سچے دل سے پاگلوں کی کوئی خاطر خدمت کرنا چاہتا تھا۔۔۔ مگر۔۔۔!‘‘
’’اوہو !کوئی بات نہیں۔۔۔ پاگلوں کو اس کی ضرورت نہیں ہوتی۔ وہ اپنی خاطر اور دلجوئی خود کر لیتے ہیں۔ چلو اٹھو۔۔۔ میرے ساتھ آؤ۔‘‘ وہ اسے یقیناًاپنے آفس لے جا رہے تھے۔ کوریڈور سے گزرتے ہوئے ایک بڑا سا ہال نما کمرہ نظر آیا جس پر تالا لگا تھا۔ بند کھڑکی کے شیشے سے اندر نظر پڑی تو حیرت ہوئی کہ کسی کالج کے کلاس روم کی طرح کرسیاں لگی ہیں اوروائٹ بورڈ بھی آویزاں ہے۔ ثاقب نے ماموں کو پیچھے سے آواز دی۔
’’ ماموں کیا پاگلوں کو پڑھایا بھی جاتا ہے؟‘‘
ماموں نے شاید سنا نہیں، کوئی جواب دیے بغیر ، چپ چاپ تیز قدموں سے آگے بڑھتے رہے۔ آفس میں داخل ہو کر اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور چپڑاسی سے اس کے باقی دوستوں کو بلوایا۔ رضا ذرا تاخیر سے آیا۔ ثاقب نے کھڑکی سے باہر جھانکا تو رضا کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔ وہ واقعی نڈر تھا۔۔۔ باری باری سب پاگلوں سے ہاتھ ملا کر گلے مل کر، الوداعی کلمات ادا کر رہا تھا۔ جب رضا بھی آگیا تو ماموں بولے
’’رضا ! یقیناًتمہارے دوست آج کے دن کو ہمیشہ یاد رکھیں گے۔ ثاقب کو افسوس ہے کہ یہ ان مریضوں کی کچھ خاطر خدمت نہ کر سکے۔ مگر خیر آئندہ سہی تم موسم سرما کی تعطیلات میں پھر انہیں لا سکتے ہو۔ مجھے خوشی ہو گی اور پاگلوں کو بھی۔ اوکے ، اﷲ حافظ۔‘‘
ثاقب اور اس کے ساتھیوں نے ماموں سے ہاتھ ملایا، ان کا شکریہ ادا کرکے تیزی سے دروازے کا رخ کیا سوائے رضا کے، اس نے کہا کہ تم لوگ چلو۔۔۔ میں ماموں کے ساتھ ان کے گھر جاؤں گا۔ ثاقب اور اس کے دوستوں کے باہر نکلتے ہی رضا نے ایک زور دار نعرہ مارا۔
’’واہ! مامو ں جان، واہ! آپ نے تو کمال کر دیا۔۔۔ میری چھٹیوں کو یادگار بنا دیا۔ ثاقب صاحب کے تو دماغ ٹھکانے آگئے۔۔۔ ایسا ایڈونچر تو انہوں نے ساری زندگی نہ کیا ہوگا۔ اب کبھی نئے آئیڈیے کا نام نہ لیں گے۔ مگر یہ تو بتائیے کہ آپ کے ’’ریاض کوچنگ سینٹر‘‘ کے اتنے سارے طلبہ (مع اسٹاف) ’’پاگلوں کا ڈرامہ ‘‘ کرنے پر تیار کیسے ہو گئے؟ ‘‘ ماموں مسکرائے، 
’’ بھئی انہیں بھی تو گرمیوں کی چھٹیوں کے لیے کوئی ’’ایڈونچر‘‘ چاہیئے تھا نا! ‘‘

*۔۔۔*۔۔۔*

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top