ملائیشیا میں سیر سپاٹے
سیما صدیقی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برساتی نالہ اور اس میں تیرتے ہوئے سفید کنول کے پھول، چکنے چکنے ہرے چوڑے پتوں والی آبی بیلیں جنہوں نے نالے کو مکمل طور پر ڈھانپ رکھا تھا۔ گویا ماحول کی کثافت کو دور کر دیا تھا۔ یہ کون سی جگہ ہے۔۔۔ اتنی اچھی اور صاف ستھری۔۔۔ ہر جگہ ہریالی اور شادابی۔۔۔ فضا میں ہمہ وقت بارش میں بھیگی مٹی کی سوندھی مہک، یہ ہم کہاں آگئے!
جی ہاں! ساتھیو! یہ ملائیشیا کا دارالحکومت ’’کوالالمپور‘‘ ہے جس کی سڑکوں اور ذرائع آمدو رفت کا نظام دیکھیں تو یورپ کی طرح جدید ہے اور ثقافت دیکھیں تو اس میں مشرق کی چاشنی ہے۔ کسی نے ہم سے کہا تھا کہ اگر کوالالمپور کے دلکش مناظر کا حقیقی نظارہ کرنا ہو تو ’’جینٹنگ ہائی لینڈ‘‘ (Genting High Lands)ضرور جائیں، وہ بھی ’’اسکائی وے کار سروس‘‘ (لفٹ چیئر) کے ذریعے۔۔۔ ایسے حسین لینڈ اسکیپ شاید ہی کسی اور جگہ دیکھنے کو ملیں۔ ڈھلتی ہوئی شام ہو یا صبح صادق، اگر آپ یہ سفر کریں تو مشکل ہی ہے کہ کبھی اسے بھول پائیں۔ ہم نے اس بات کو گرہ میں باندھ لیا اور دس دن کے قیام کے دوران ہم ایک نہیں دو بار ’’جنیٹنگ ہائی لینڈ‘‘ گئے۔ پہلی بار جب کیبل کار میں بیٹھے تو اچانک ہلکی ہلکی پھوار پڑنے لگی۔ صبح کے سہانے وقت پر رم جھم بہت بھلی لگ رہی تھی۔ بارش کے قطرے گویا ہیروں کے ٹکڑوں کی طرح ہماری لفٹ چیئر کے شیشوں کی دیواروں سے ٹکرا رہے تھے۔ ہم نے نیچے جھانک کر دیکھا، ہری بھری وادی، سبزے سے بھری گہری گہری کھائیوں میں یہ قطرے موتی کی طرح بکھررہے تھے۔ کیا حسن تھا۔ خدا کی قدرت پہ یقین آگیا۔ آسمان دیکھ نہیں سکتے تھے۔ سامنے دیکھتے تو چار تنے ہوئے مضبوط تار نظر آتے جس پر یہ دو طرفہ کیبل کار چل رہی تھی۔ کبھی برابر سے کوئی کار گزرتی تو اس میں بیٹھے ہوئے لوگ ہمیں اور ہم انہیں ہاتھ ہلاتے۔ سیاحوں میں خودبخود ایک دوستی کا رشتہ جڑ جاتا ہے۔ نیچے دیکھتے تو ڈر لگتا اور دیکھے بغیر رہا بھی نہ جاتا۔ ساتھیو! اس وقت ہم اٹھارہ سو ساٹھ میٹر بلند پہاڑ کی چوٹی پر محو پرواز تھے۔ کوئی مذاق نہ تھا۔ اسی لیے نیچے دیکھتے تو ڈرتے۔۔۔ اگر گرے تو! ہم نے چند لمحوں کے لیے آنکھیں بند کر لیں۔ سوچا تو یقین نہ آیا کہ ہم ایشیا کی طویل ترین اور دنیا کی سب سے تیز رفتار مونو کیبل کار میں بیٹھے ہیں جس کی رفتار 21.6 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔ (ہم جیسے سست مزاج اور یہ رفتار، ذرا خود سوچئے!)
اچانک ایک پرشور آواز پہاڑوں میں گونج اٹھی۔ ہمیں ایک جھٹکا سا بھی محسوس ہوا۔ آنکھ کھولی تو دیکھا زمین میں نصب بڑے بڑے کھمبوں پر سے یہ کار گزر رہی ہے اور یہ اسی کی رگڑ کی آواز ہے۔ انہی کھمبوں کی مدد سے فضا میں یہ کیبل تانے گئے ہیں۔ 3.38 کلومیٹر کے اس سفر میں زیادہ تر کھائیاں تھیں مگر خدا کی قدرت ان میں بھی حسین پھول کھلے تھے اور سبزہ بچھا تھا۔ دراصل ملائیشیا میں بارشیں بہت ہوتی ہیں لہٰذا یہاں کی زمین بہت زرخیز ہے۔ کہیں جنگلات دکھائی دیتے تو کہیں وادی۔ وہاں لوگ چلتے پھرتے نظر آتے۔ پتھروں اور گھاس پھونس سے بنے ان کے چھوٹے چھوٹے گھر بچوں کے کھلونوں جیسے لگتے۔ معلوم نہیں وہ اوپر دیکھ رہے تھے یا نہیں؟ شاید جیسے ہم جہاز کو اپنے سروں سے گزرتے دیکھتے ہیں ویسے ہی وہ پہاڑوں کے درمیان بلندی سے گزرتی اس ’’اڑن طشتری‘‘ جیسی سواری کو دیکھتے ہوں گے اور ان کے مسافروں کے بارے میں ایسے ہی سوچتے ہوں گے جیسے ہم ان کے بارے میں ۔۔۔ جس تک پہنچ نہ ہو وہی چیز اسرار سے بھرپور لگتی ہے۔ اسکائی کار کا یہ یادگار سفر طے کرکے ہم بالآخر پہنچ گئے ملائیشیا کے سب بڑے تفریحی مرکز۔۔۔ جی ہاں! ’’جینٹگ ہائی لینڈ‘‘ لوگوں نے اسے کیا خوب نام دیا ہے۔
\”Fun city Above the cloud\”( بادلوں سے اونچا تفریحی شہر)
تفریح گاہ کیا ہے؟ چودہ ہزار آٹھ سو (14800) ایکڑ پر محیط ایک شہر بسا ہے۔ کہتے ہیں Lim Goh Tongsنامی ایک شخص اپنی بالکونی میں کھڑا چائے پی رہا تھا کہ سامنے موجود بلند ترین پہاڑ کو دیکھ کر اس کے ذہن میں ایک خیال آیا اور آئیڈیے کی بدولت ایک بنجر پہاڑی سلسلہ ایک خوب صورت تفریح گاہ میں تبدیل ہو گیا۔ یہ خالصتاً سیاحوں کے لیے تخلیق کیا گیا لہٰذا یہاں ملائیشیا کا واحد ’’جواخانہ‘‘ بھی بنایا گیا۔ 6188 کمروں کا دنیا کا سب سے بڑا ہوٹل۔ اپارٹمنٹس، کلب، ریستوران، شاپنگ سینٹر، سینما گھر (Cinaplex)، تھیم پارک (آؤٹ ڈور اور ان ڈور گیمز) دنیا کے مشہور برانڈز کی کمپنیاں، کنوینشن سینٹر، کنسرٹ ہال، ایرنیا آف اسٹارز اسنوورلڈ، الیکٹرک کے غضب ناک جھولے، الغرض کیا نہیں تھا وہاں! اور درجہ حرارت تقریباً پورا سال بیس (۲۰) سے پچیس (۲۵) سینٹی گریڈ۔ ملائیشیا میں قیام کے دوران (ہم نومبر میں گئے تھے) صرف وہی جگہ تھی جہاں ہمیں سوئیٹر پہننا پڑا۔
ہم مختلف سیڑھیاں چڑھتے اترتے رہے۔ کسی منزل پر ملائیشیا کے فنکاروں کا ثقافتی شو ہو رہا تھا تو کہیں ’’اسنو ورلڈ‘‘ (برف کی دنیا) سے لوگ ٹھٹھرتے ہوئے نکل رہے تھے۔ اسنو ورلڈ کی دیوار شیشے کی تھی، جہاں سے لوگ اندرجانے والے اپنے پیاروں کی لال چقندر ہوتی ناک بخوبی دیکھ سکتے تھے۔ بچے برف کے گولے اٹھا کر ایک دوسرے پر پھینک رہے تھے۔ ہم نے بھی وہاں جانے کی ٹھانی۔ معلوم ہوا کہ آپ کو مخصوص دستانے جوتے اور جیکٹ عارضی طور پر لینے ہوں گے۔ اپنی چیزیں رکھنے کے لیے لاکرز دیئے گئے۔ آہاہ! اندر گھستے ہی منہ سے ایک دھواں سا اٹھا۔ دیوار تھی یا چھت، دکان تھی یا ستون، ہر چیز برف سے بنی تھی۔ پاؤں برف کے ڈھیر میں دھنس رہے تھے یہ ایسا ہی تجربہ تھا جیسے آپ جا کر اپنے ڈیپ فریزر میں لیٹ جائیں۔ ایک سلائڈ تھی جس پر لائف بوٹ (ٹائر) میں بیٹھ کرپھسلا جاتا تھا، بیٹھے تو لگا کہ یہ خطرناک ہوگا۔ (ہم برف کی دنیا میں کسی مزار کا اضافہ نہیں کرنا چاہتے تھے۔ لہٰذا پیچھے مڑ کر اہلکار سے کچھ کہنا چاہا مگر اسی لمحے اس نے ہمیں دھکا دے دیا۔۔۔۔ اب ہم ٹائر سمیت اونچے نیچے برفیلے چکر دار رستوں سے پھسلتے چلے جا رہے تھے۔ ایسی سنسنی (اشتیاق احمد کے ناولوں کے سوا) ہم نے شاید ہی کبھی محسوس کی ہو۔ آخر ہمارا سفر تمام ہوا جو سفر آخر بھی ہو سکتا تھا۔ ہمارے جوتے ناپ سے نسبتاً بڑے تھے اور اب اس میں برف کا ایک ٹکڑا جگہ بنا چکا تھا۔ سردی سے برا حال تھا۔ ہم نے ناک کو چھو کر دیکھا کہ اپنی جگہ موجود ہے یا نہیں؟ سن ہونے کی وجہ سے بالکل غائب لگ رہی تھی اور ساتھیو! اس برفیلے ماحول میں ہماری خاطر کے لیے جو چیز پیش کی گئی۔۔۔ بھلا بتائیں تو وہ کیا تھی؟ جی ہاں! وہ تھی ایک عدد ٹھنڈی مزے دار آئس کریم!
آؤٹ ڈور اور اِن ڈور تھیم پارک کے کھیل مزے دار مگر جھولے خطرناک تھے، جھولے کیا تھے ایسا لگتا تھا کسی راکٹ یا میزائل میں بٹھا کر اڑا دیا گیا ہو۔ کمزور دل والوں کے لیے یہ نہیں، ہاں جسے ایڈونچر کا شوق ہو وہ ضرور انجوائے کرے گا۔ ٹکٹ اچھے خاصے منہگے ہیں اس لیے دل کے علاوہ جیب کا تگڑا ہونا بھی ضروری ہے۔ یہاں کی کرنسی ’’رنگٹ‘‘ (Ringett) ہے۔ اس وقت ایک رنگٹ ہمارے چوبیس روپے کے برابر تھا۔ جب بھی کچھ خریدتے دل ہی دل میں پاکستانی روپے میں قیمت جوڑ لیتے۔ ہر چند کہ اس کا کوئی فائدہ نہ تھا۔
جینٹگ ہائی لینڈ کی کئی منزلیں ہیں، مختلف ہال اور راہ داریاں ہیں۔۔۔ چنانچہ گھومتے گھماتے۔۔۔ بلاارادہ جوئے خانے جا نکلے۔۔۔ جہاں مشینوں کی مدد اور تاش کے پتوں کے ذریعہ شعبدہ بازی اور جوا ہو رہا تھا۔ ہم نے گھبرا کر نکلنا چاہا تو حیرت ہوئی کہ ہمیں راستہ ہی نہیں مل رہا تھا۔ کئی دروازے تھے مگر جہاں سے نکلتے گھوم گھام کے واپس اندر آجاتے۔ بڑی مشکل سے باہر نکلے۔ بالکل اسی طرح جیسے برائی میں پڑنا آسان ہے نکلنا مشکل!
ہاں تو ساتھیو! یہ تھا ’’جینٹنگ ہائی لینڈ‘‘ اب اگر آپ کے گھر میں ٹیرس (بالکونی) ہے اور اس کے سامنے کوئی پہاڑ، تو اس طرح کا کوئی آئیڈیا آپ کو بھی ارب پتی بنا سکتا ہے، محض چائے کی پیالی ساتھ ہونا ضروری ہے۔ ملائیشیا کا ایک اہم سیاحتی مرکز’’باتوکیو‘‘ Batucavesہے۔ یہ کوالالمپور کے شمال میں تیرہ کلومیٹر دور ہے۔ اس غار کے قریب دریائے ’’باتو‘‘ بہتا ہے۔ اس لیے اس کا نام باتو ہے۔ چار سو ملین سال پرانے اس غار کے باہر دنیا کے سب سے بلند ’’مورگن دیوتا‘‘ کا مجسمہ ہے جو کنکریٹ اور گولڈ پینٹ سے بنایا گیا ہے۔ غار سو میٹر کی بلندی پر ہے جہاں تک پہنچنے کے لیے 272 سیڑھیاں ہیں۔ (کچھ سیاح ہائیکنگ کرکے بھی جاتے ہیں)۔ ایک طرف چڑھنے والوں کے لیے سیڑھیاں ہیں، برابر میں اترنے والوں کے لیے، چڑھنے والے پھولتی سانسوں کے ساتھ، اترنے والوں سے پوچھتے کہ آگے کتنی سیڑھیاں رہ گئی ہیں۔ اترنے والوں کے چہرے پر، پہاڑ سر کرنے والی سرشاری نظر آتی، جانے والوں کی ہمت بڑھاتے ہوئے کہتے، ’’بس تھوڑی سی اور ہیں‘‘ جب ہم تقریباً ڈیڑھ سو سیڑھیاں چڑھ گئے تو سوچنے لگے کہ پلٹ کر واپس ہونا زیادہ آسان ہے یا آگے جانا؟ ہماری طرح بہت سے لوگ ایسی سوچ میں تھے، یوں بھی یہاں بہت سنبھل کر چلنا پڑتا ہے کیونکہ سیڑھیوں پر جگہ جگہ ’’بندر‘‘ کود رہے ہوتے ہیں۔ کبھی کسی بچے کے ہاتھ سے پاپ کارن کی تھیلی اُچک لی تو کبھی کسی خاتون کا پرس! منزل تک پہنچتے پہنچتے۔۔۔ ایک خیال آیا۔ جی ہاں، ایک خوفناک خیال! کہ اگر ہمارے گھٹنے کی کوئی ہڈی چٹخ گئی تو واپس نیچے کیسے اتریں گے؟ کیا ساری عمر اسی غار میں بندروں کے ساتھ رہیں گے؟ ہمارے ساتھی نے ہمت دلائی، ’’دیکھو! چھوٹے چھوٹے بچے اور بزرگ بھی ہمت نہیں ہار رہے، چلے تو کٹ ہی جائے گا سفر آہستہ آہستہ!
ان سیڑھیوں کو دیکھ کر یقین نہیں آتا کہ کوئی ان پر چڑھ سکتا ہے۔ دور سے لوگ چیونٹیوں کی طرح اترتے چڑھتے دکھائی دیتے ہیں۔ بہرحال کسی نہ کسی طرح ہم اوپر پہنچ ہی گئے۔ غار کی چھت پر کوئی ایسا شگاف ہے کہ ایک حصے میں مسلسل پانی ٹپکتا رہتا ہے جو اس کی بلندی پر موجود کسی ٹھنڈے چشمے کی گزرگاہ کا پتہ دیتا ہے مگر یہاں کچھ لوگوں کا عقیدہ ہے کہ یہ غار مسلسل رو رہا ہے۔
غار میں نیم اندھیرا تھا مگر کہیں کہیں سرخ روشنیاں اسے مزید پراسرار بنا رہی تھیں۔ اسرار سے بھرپور گونج۔۔۔ اپنی ہی آواز اجنبی لگی۔ وہاں ایک اژدھے والے نے کہا کہ آپ اس اژدھے کو گلے میں لپیٹ کر تصویر کھنچوا سکتے ہیں۔ (لوگ کھنچوا بھی رہے تھے) اژدھے کے مالک کا یہ دعویٰ تھا کہ یہ کسی کو کچھ نہیں کہے گا۔ ہم نے آزمانے کی کوشش نہیں کی کیونکہ یہ دعویٰ اژدھے والے کا تھا، اژدھے کا نہیں! آگے بڑھے تو ہندوؤں کا مندر نظر آیا۔ وہاں کچھ جوڑوں کی شادی کی رسم ادا کی جارہی تھی۔ بھجن کی آواز، موسیقی کی تھاپ (غار میں اس کی ایکو) پیلے پیلے گیندوں (پھولوں) کی مخصوص مہک سے ایک عجیب سماں بندھا تھا۔ ہندو سیاح وہاں عبادت کے لیے رک گئے۔ ہم مزید سیڑھیاں چڑھ کر اوپر چلے گئے جہاں میوزیم وغیرہ تھا۔ یہ خیال ہی بڑا عجیب تھا کہ ہم ایک پہاڑ کے اندر ہیں۔ ماحول، موسم، آوازیں ہر چیز بالکل غیر مانوس تھی۔ پہاڑ کے شگافوں سے شوں شوں اور سائیں سائیں کی ایسی آوازیں آرہی تھیں جیسے بدروحوں اور بھوتوں کے درمیان کوئی ’’ٹاک شو‘‘ چل رہا ہو۔
ساتھیو! یہ تو آپ کو بتانا ہی بھول گئے کہ جب ہم ’’باتوکیو ‘‘جارہے تھے تو غلط بس میں بیٹھ گئے، یعنی جانے کے بجائے باتو سے واپس آنے والی بس میں۔ سیاحت یا سیر سپاٹے میں مزا اسی وقت آتا ہے جب آپ تھوڑا سا بھٹکیں۔ ہر ریلوے اسٹیشن پر کوالالمپور کے نقشے دستیاب تھے۔ ٹکٹ دینے والے تعاون کے جذبے سے بھرپور، راہ گیر راستہ سمجھانے والے۔ بلکہ ایک بار تو ہم نے کالج سے نکلنے والی طالبات سے اسٹیڈیم کا راستہ پوچھا تو پہلے تو انہوں نے زبانی سمجھایا جب ہم چل پڑے تو دیکھا کہ پیچھے پیچھے آرہی ہیں۔ ہم سمجھے کہ ان کا راستہ بھی وہی ہوگا۔ مگر دیکھا کہ اسٹیڈیم تک (جونزدیک ہی تھا) ہماری راہ نمائی کرکے وہ واپس مڑ گئیں۔ ہم ان کے اخلاق سے بہت متاثر ہوئے۔ ہمارے ہاں تو کسی کو راستہ پتہ ہو تو وہ بس ایک مبہم سا اشارہ کر دیتا ہے۔ ہاں اگر نہ پتہ ہو تو تفصیل سے بتاتا ہے تاکہ مسافر خوب بھٹکے۔
خیر ہم یہ کہہ رہے تھے کہ سیر سپاٹے کا اصل مزا بھٹکنے اور تلاش کرنے میں ہے۔ ملائیشیا اتنا خوب صورت ہے کہ جب بھی بھٹکے تو کسی اچھی جگہ ہی پہنچے۔ اگر سیر کرنے والا سیدھا سادہ جہاں جانا ہوجاتا رہے تو یہ سیر تو نہ ہوئی ڈیوٹی ہو گئی۔ ہر ملک میں محکمہ سیاحت کی طرف سے سیاحوں کو گھمانے کا انتظام ہوتا ہے۔ ان کی خدمات حاصل کریں تو سہولت تو ہوجاتی ہے مگر مزا آدھا رہ جاتا ہے۔
ہاں تو ہم کہہ رہے تھے کہ ہم بھٹک گئے۔ جیسے ہی اندازہ ہوا کہ غلط جارہے ہیں بس سے اتر گئے۔ سامنے ڈھابے کی طرح کا ہوٹل تھا، وہاں ناریل نظر آئے، جس کا ٹھنڈا یخ پانی، ناریل میں اسٹرا ڈال کر پیش کیا جا رہا تھا۔ ہمیں بھٹکنے کے بعد سنبھلنا تھا، چنانچہ کہیں بیٹھ کر سوچنا چاہتے تھے کہ اب کیا کریں؟ سب میزیں بھری ہوئی تھیں ایک میز پر ایک صاحب تھے اور باقی کرسیاں خالی تھیں۔ ہمارے ساتھی نے ان سے اجازت لی اور ہم وہاں بیٹھ گئے۔ چہرے سے ذرا کرخت اور سخت گیر معلوم ہوتے تھے مگر جب بولے تو اس تاثر کی نفی ہوگئی۔ کہنے لگے۔
’’مادام! اپنا پرس قریب کرلیں، ویسے تو کوالالمپور ایک محفوظ شہر ہے مگر اس طرح کی بے احتیاطی اچھی نہیں!‘‘
ہم نے اپنا پرس کھینچ کر نزدیک کر لیا۔ اس طرح بات چیت شروع ہو گئی زیادہ تر وہی بولتے رہے، ہم لوگ سنتے رہے۔ کہنے لگے: ’’پولیس میں ہوں، والدہ حج پہ گئی ہیں، میری بھی خواہش ہے کہ حج کروں، پاکستان بھی جانا چاہتا ہوں۔‘‘ (خیر سگالی کے طور پر پاکستان کے بارے میں چند تعریفی کلمات بھی ادا کیے، با توکیو کا پتہ بھی سمجھایا)
جب ہم نے بیرے سے بل لانے کو کہا تو اس نے پولیس والے کی جانب اشارہ کرکے کہا کہ آپ کا بل ادا ہو گیا!‘‘ ہم نے حیران ہو کر انہیں دیکھا تو انہوں نے مسکرا کر کہا۔ ’’آپ لوگ ملائیشیا میں ہمارے مہمان ہیں اس لیے میں نے بل دے دیا۔‘‘ ہم حیرت زدہ رہ گئے کیونکہ ہم نے ہمیشہ پولیس والوں کو چائے پانی کے پیسے لیتے دیکھا تھا دیتے نہیں!
ملائیشیا کا سب سے عظیم اور حسین سیاحتی مرکز ’’پیٹروناز ٹاور‘‘ ہے جو دراصل ملائیشیا کی اصل پہچان ہے۔ اس کی روشنیاں دور سے نگاہ کو خیرہ کرتی ہیں۔ کوالالمپور میں کہیں سے بھی گزریں، کسی اسٹیشن پر کھڑے ہوں یا مونوریل سے مختلف راستوں پر محو سفر ہوں یہ ٹاور ہر جگہ سے دکھائی دیتے ہیں۔ کبھی آپ نے دیکھا ہوگا کہ ہم چل رہے ہوتے ہیں تو آسمان پر جگمگاتا ہوا چاند ساتھ ساتھ سفر کرتا محسوس ہوتا ہے، بالکل ایسی ہی صورت پیٹروناز کی ہے۔ یہ چمکتی دمکتی بلند و بالا عمارت، ہر جگہ سیاحوں کے ساتھ ساتھ سفر کرتی دکھائی دیتی ہے۔ اگر کوالالمپور ملائیشیا کا دل ہے تو پیٹروناز اس کی دھڑکن ہے۔ اس کے بہت سے چھوٹے بڑے ماڈلز بھی بازاروں میں دستیاب ہیں جو سیاح بڑے شوق سے خریدتے ہیں۔
ہمیں بتایا گیا تھا کہ Petronas Towerکی سیر کرنی ہے تو ٹکٹ کے لیے صبح صبح جا کر لائن میں لگنا ہوگا کیوں کہ ٹکٹ پہلے آئیے اور پہلے پائیے کی بنیاد پر ملتا ہے۔ ایک دن میں صرف ایک ہزار ٹکٹ دیئے جاتے ہیں۔ پیٹروناز ہمارے ہوٹل سے زیادہ دور نہ تھا۔ صبح جب ہم اس ہال میں پہنچے جہاں ٹکٹ دیئے جا رہے تھے تو حیران رہ گئے کہ وہاں سر ہی سر نظر آرہے تھے۔ قطار بندی کا عمدہ انتظام تھا۔ کوئی کسی کو دھکا دے کر یا کہنی مار کر آگے نہیں نکل سکتا تھا۔ صرف ایک آدمی قطار میں لگ سکتا تھا اس کے ساتھ آنے والے ہال کی سیڑھیوں پر بیٹھے اس کو ٹکٹ مل جانے کی دعا کررہے تھے۔ خیر بھئی ہم بھی ٹکٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے مگر یہ سیر شام کو کرائی جانی تھی۔ ابھی ہمارے پاس کافی وقت تھا لہٰذا ہم پیٹروناز کے قدموں میں (نیچے) واقع مشہور ۔K.L.C.C (کوالالمپور سٹی سینٹر) چلے گئے۔ یہ ملائیشیا کا سب سے بڑا شاپنگ سینٹر ہے جس میں تین سو تیس 330 مقامی اور بین الاقوامی بڑی کمپنیوں کے اسٹورز ہیں۔ اس کے علاوہ آرٹ گیلری تھیٹر اور انڈر وائر ایکورئیم، ’’ایکوریا‘‘ (Acqria) بھی ہے۔ شام کو K.L.C.C کے پارک میں خوب صورت فاؤنٹین شو دکھایا جاتا ہے۔ روشنیوں کے ہمراہ پانی کا رقص دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ پہلے ہم ایکوریا گئے مچھلیاں ہمیں پسند ہیں۔ (دیکھنے اور کھانے دونوں میں) ڈاکٹر کہتے ہیں کہ مچھلیوں کو تیرتے ہوئے دیکھنے سے مریضوں کا بلڈ پریشر نارمل رہتا ہے۔ ہم نے مچھلیوں کو ہمیشہ ایسے دیکھا کہ وہ شیشے کے ایک باکس میں بند ہیں اور ہم باہر سے انہیں دیکھ رہے ہیں لیکن ’’ایکوریا‘‘ میں الٹ ہو گیا۔ یہ انڈر واٹر ایکوریم تھا یعنی ہم شیشے کی ایک ٹیوب (ٹرنل) میں بند تھے اور ہمارے دائیں بائیں اور سرکے پاس مچھلیاں آزاد گھوم رہی تھیں۔ قریب سے آکر ہمیں دیکھ بھی رہی ہیں۔ ہمیں اس طرح شیشے کی ٹیوب میں چلتے پھرتے دیکھ کر مچھلیوں کے بلڈ پریشر پر کیا اثر پڑا؟ اس کا ہمیں اندازہ نہیں۔ بہرحال یہ ایک منفرد تجربہ تھا۔
K.L.C.Cجلیبی جیسی گول گول کئی منزلہ عمارت ہے۔ مہنگا شاپنگ سینٹر ہے مگر یہاں تفریح کے اتنے سامان ہیں کہ آپ یہاں کئی گھنٹے گزا رسکتے ہیں۔ یہاں سے نکلے تو ابھی بھی ٹوئن کی لفٹ چلنے میں کافی وقت باقی تھا چنانچہ ہم پیٹروناز سے کچھ فاصلے پر واقع K.L ٹاور چلے گئے۔ یہ مینار کی شکل کا مواصلاتی ٹاور ہے جسے دنیا کا پانچواں بلند ترین مواصلاتی ٹاور قرار دیا جاتا ہے۔ تیرہ سو اکاسی 1381فٹ بلند یہ ٹاور سیاحوں کو تفریح فراہم کرنے میں سر فہرست ہے۔ مین گیٹ سے مینار تک پہنچنے کے لیے بس کی فری سروس موجود ہے۔ اس ٹاور کی چھت پر ایسے ریوالونگ (گھومنے والے) ریستوران ہیں جہاں سے نہ صرف پورا کوالالمپور دیکھا جا سکتا ہے بلکہ یہاں عید اور رمضان المبارک کے چاند بھی دیکھے جاتے ہیں۔ 55سال سے زائد عمر کے لوگوں کے لیے ٹکٹ پررعایت دی جاتی ہے۔ یہاں نہ صرف ٹاور کی سیر کرائی جاتی ہے بلکہ اس میں ڈاجنگ کار کے کمپیوٹر گیم وغیرہ بھی کھلائے جاتے ہیں۔ یہاں چھوٹے قد کی (مخصوص نسل کی) ایک خوبصورت گھوڑی ہے(جس کا نام ’’پونی‘‘ ہے جس پر بٹھا کر سیر بھی کرائی جاتی ہے)۔ مگر شرط یہ ہے کہ بیٹھنے والے کا وزن زیادہ نہ ہو۔ (کیوں کہ وہ اپنی پونی کھونا نہیں چاہتے)۔
لیجئے جناب! پیٹروناز کی سیر کا وقت آگیا ہم نے پیٹروناز کی سیر کے لیے جتنا انتظار کیا شاید ہی کسی اور کے لیے کیا ہو۔ صبح سے شام ہوگئی ہم پیٹروناز کی طرف روانہ ہوئے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ اس کے آگے پیچھے اور سامنے سڑک اور سبزے پر لوگ لیٹے ہوئے ہیں۔ غور سے دیکھا تو سب کے ہاتھ میں کیمرہ تھا۔ معلوم ہوا کہ شائقین ٹیڑھے ترچھے ہو کر حتیٰ کہ سڑک اور پارک میں لیٹ لیٹ کر پیٹروناز کی تصویر بنا رہے ہیں۔ ہم نے بھی پیٹروناز کے پس منظر میں اپنے ساتھی کی تصویر کھینچنی چاہی مگر کبھی پیٹروناز کا سر کٹتا تو کبھی ہمارے ساتھی کا۔ آخر ہم نے ہار مان لی۔ اس وقت پیٹروناز کی ساری لائٹیں جل چکی تھیں۔ ایک شہر چراغاں تھا جو پورے کوالالمپور کو روشن کر رہا تھا۔ پہلے ہمیں ایک ہال میں بٹھایا گیا جہاں ایک دستاویزی فلم کے ذریعہ پیٹروناز کے متعلق معلومات فراہم کی گئیں۔ یہ 88 منزلہ سحر انگیز عمارت ہے جس کی تعمیر 1992ء میں شروع ہوئی اور 1998ء میں مکمل ہوئی اس پر 1.6 بلین امریکی ڈالر لاگت آئی۔ اسے جاپانی اور ساؤتھ کوریا کے انجینئروں نے اسٹیل اور شیشے کی مدد سے بنایا۔ 2004ء تک یہ دنیا کی بلند ترین عمارت قرار دی جاتی تھی۔ بعد میں تائیوان کی عمارت ’’تپائی 101‘‘ اور اب دبئی کی عمارت ’’برج الخلیفہ‘‘ اس سے بازی لے گئے مگر آج بھی اگر جڑواں عمارت یا ٹوئن ٹاور کی بات ہو تو پیٹروناز کا کوئی ثانی نہیں۔ ان دونوں ٹاورز کو ملانے کے لیے جو برج (پل) بنایا گیا ہے وہ بھی اپنی طرز کا دنیا کا بلند ترین پل ہے۔ اس کے ایک ٹاور میں ملائیشیا کی پیٹرولیم کمپنی کے دفاتر ہیں (جس کمپنی کے نام پر اس عمارت کا نام پیٹروناز رکھا گیا) اور دوسرے ٹاور میں دیگر کمرشل کمپنیوں کے دفاتر ہیں۔
معلومات فراہم کرنے کے بعد ہمیں ایک لفٹ کے ذریعہ ٹاور کی اکتالیسیویں اور بیالیسیویں منزل پر بنے برج (پل) تک لے جایا گیا جو دونوں ٹاورز کو جوڑتا ہے۔ ہم اوپر پہنچے تو گویا چاند پر پہنچ گئے۔ ہمارے قدم زمین پر نہیں پڑ رہے تھے۔ برج کے دونوں اطراف شیشے کی بڑی بڑی کھڑکیاں تھیں۔ ہم اتنی بلندی سے باہر دیکھ رہے تھے جیسے واقعی چاند سے دنیا کو دیکھ رہے ہوں گویا پورا شہر پیٹروناز کی بانہوں میں سمٹ آیا ہو۔ یہ ایک ناقابل فراموش تجربہ تھا۔
ہمارا ہوٹل Swiss Inn شہر میں ایسی جگہ تھا کہ ہمیں کوالالمپور کے مشہور مقامات پر آنے جانے میں کوئی دشواری نہ ہوئی۔ یہ ہوٹل یہاں کے معروف علاقے ’’چائنا ٹاؤن‘‘ کے قرب میں واقع تھا۔ چائنا ٹاؤن ایسا ہی بازار تھا جیسے ہمارے ’’بدھ بازار‘‘ پتلی پتلی گلیوں میں باقاعدہ دکانیں نہیں بلکہ اسٹالز لگے تھے۔ رات سمیٹتے اور سامان بوریوں میں بھر کر گھر چلے جاتے۔ صبح پھر کاروبار شروع۔ یہ ایک سستا بازار ہے لہٰذا سیاح یہاں اکثر خریداری کرتے پائے جاتے ہیں۔ کیونکہ ہمارے ہوٹل آنے جانے میں شارٹ کٹ راستہ اس بازار سے ہو کر گزرتا تھا لہٰذا ہم دن میں کئی بار یہاں سے گزرتے۔ یہاں سے ہم نے پیٹروناز ٹاورز کے ماڈلز اور اس کی تصویر والی شرٹس بھی خریدیں۔
ہمارا ملائیشیا کا پروگرام کچھ ایسا بنا تھا کہ ’’بقرعید‘‘ ہمیں وہیں گزارنی تھیں ایک دوسرے مسلم ملک میں عید منانا ایک بہت مختلف تجربہ تھا۔ ہم نے ہوٹل کے منیجر سے اس سلسلے میں معلومات حاصل کیں۔ ہوٹل کے قریب دو مساجد تھیں ایک مسجد جامک (Jamek) اور دوسری مسجد نکارا۔ مسجد نکارا کو قومی مسجد کا درجہ حاصل ہے۔ معلوم ہوا کہ یہاں خواتین بھی مساجد میں باجماعت نماز ادا کرتی ہیں۔ عید کی صبح ہم الارم لگا کر اٹھے، نہایا دھویا پھر اچانک خیال آیا کہ عید کی مناسبت سے کوئی کپڑے تو لائے ہی نہیں۔۔۔ خیر اب کیا ہو سکتا تھا باہر نکلے تو دیکھا کہ چہل پہل تو ہے مگر عید کی وہ رنگا رنگی نہیں جو پاکستان میں نظر آتی ہے۔ مسجد کے احاطے میں تسبیح، ٹوپی اور دینی کتب کے اسٹالز لگے تھے۔ معلوم ہوا کہ سربراہانِ مملکت تشریف لانے والے ہیں۔ ان کے لیے اگلی صفیں چھوڑ دی گئی تھیں۔ عید کا خطبہ شروع ہو گیا۔ ہم خواتین کے لیے مخصوص پچھلی صفوں میں بیٹھ گئے۔ خواتین نے نئے کپڑے ضرور پہنے تھے مگر وہ عید کے ملبوسات کی طرح بھڑکیلے نہ تھے۔ وہ سفید لبادہ اور اسکارف ساتھ لائی تھیں۔ جب نماز کا آغاز ہوا تو سب نے اسے پہن لیا۔ خدشہ ہوا کہ کہیں ہمیں یہ مخصوص لباس نہ ہونے کے باعث کوئی ٹوک نہ دے۔ مگر ایسا نہ ہوا۔ نماز کے اختتام پر مقامی خواتین بڑی گرم جوشی کے ساتھ ہم سے گلے ملیں۔ زبان سے ناواقفیت کے باوجود ہم نے وہاں اچھا وقت گزارا۔ ان کی مسکراہٹ بتا رہی تھی کہ وہ لوگ بہت بااخلاق اور ملنسار ہیں اور سیاحوں کا خوش دلی سے خیر مقدم کرتے ہیں۔ ہم نے ان کے ساتھ تصویریں بھی کھنچوائیں۔ مسجد کے احاطے میں قربانی کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔ یہاں گھروں میں قربانی کا رواج بہت کم ہے۔ لوگ مساجد میں جانور قربان کرتے ہیں جہاں قصابوں کا انتظام بھی تھا اور گندگی کو ٹھکانے لگانے کا بھی۔ جب ہم واپس پہنچے تو ہوٹل منیجر نے پرجوش انداز میں ہمارے ساتھی سے کہا: ’’سر! ہم نے آپ کو ٹی وی پر دیکھا۔۔۔ نماز ادا کرتے ہوئے!‘‘ ہم بہت حیران ہوئے اور خوش بھی کہ دیکھو پاکستانیوں کی کتنی عزت ہے۔یہ تو بعد میں معلوم ہوا کہ سربراہِ مملکت کی کوریج کے دوران ہماری بھی کوریج تھی ۔۔۔ بہرحال ملائیشیا میں منائی جانے والی یہ عید ہمیشہ کے لیے یادگار ہوگئی۔
کوالالمپور میں اپنے قیام کے پہلے دن جب ہم اپنے ہوٹل سے نکل کر ریلوے اسٹیشن کی سیڑھیاں اترے اور چڑھے تو ہمیں دور سے بہت سارے کنول کے پھول اور ہرے ہرے چوڑے چکنے پتوں والی آبی بیلیں دکھائی دیں۔ پہلے تو ہم یہی سمجھے کہ یہ کسی پارک کا حوض ہے، مگر قریب سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ ایک برساتی نالہ ہے۔ گویا نالوں میں بھی پھول کھلا کر ساری کثافت دور کر دی گئی تھی۔ ایک ہم ہیں کہ اپنے برساتی نالوں میں سارا سال کچرا اور کارخانوں کا فضلہ (گاربج) ڈالتے رہتے ہیں۔ چنانچہ جب بارش ہوتی ہے تو نالے بھر جانے کے باعث سیلاب آجاتے ہیں۔ واپسی پر جب ہم کراچی ایئرپورٹ پر اترے تو سوچ رہے تھے کہ کاش! ہم اپنے شہر کے نالوں میں بھی کنول کھلتے دیکھ سکیں!