skip to Main Content

جیسا بچپن ویسا پچپن

سیما صدیقی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں دھیرے دھیرے سرک رہا تھا۔۔۔کیک میز پہ رکھا تھا۔۔۔ مہمان خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ کوئی بھی کیک کی طرف متوجہ نہ تھا یا تھا بھی تو مجھے خبر نہی۔ کیک کی تازہ چاکلیٹ کی مہک نے مجھے سب کچھ بھلا دیا تھا۔ میں غیر محسوس طریقے سے میز تک پہنچ گیا۔ میری نظریں اوپر کی جانب تھیں، میں میز سے لگ کر کھڑا ہوگیا۔۔۔ میری چھوٹی سی انگلی کیک کے کناروں میں دھنس چکی تھی۔ مٹھی بند کرکے میں تیزی سے پلٹا اور نسبتاً نیم تاریک گوشے میں جاکر انگلی منہ میں ڈال لی۔ ’’واہ مزا آگیا!‘‘ مگر عین اسی وقت کسی نے میرا ہاتھ کلائی سے پکڑ لیا، یہ’’رانی خالہ‘‘ تھیں۔
’’ارے۔۔۔ ارے! دیکھو تو سہی! آپا تمہارے بیٹے نے کیک میں چھید کردیا۔۔۔ کیسا ندیدہ ہے۔۔۔ ابھی کیک کٹا ہی نہیں کہ جھوٹا کرکے رکھ دیا۔‘‘
مما جو کسی سے میری تعریف بگھار نے میں مصروف تھیں فوراً میری جانب لپکیں۔
’’ہاے میرا بچہ! کیسا سہم گیا ہے۔ رانی تم بھی عجیب ہو، کیا ہوا جو ذرا سا کیک چکھ لیا۔۔۔ بچہ ہی ہے ناں!‘‘
میری اس حرکت سے کافی بدمزگی ہوئی۔۔۔ رانی خالہ دیر تک بڑبڑاتی رہیں۔ ان کا خیا ل تھا کہ مما کو مجھے سمجھانا چاہیے تھا نہ کہ میری طرف داری کرتیں۔ مجھے ٹھیک سے یاد نہیں لیکن شاید اسی وجہ سے ہم تقریب ادھوری چھوڑ کر گھر آگئے۔ راستے میں مما نے مجھے ’’یونائیٹڈ کنگ‘‘ سے کیک بھی دلوایا مگر اس میں وہ بات نہ تھی جو اس ذراسی انگلی میں لپٹے چوری کے کیک میں تھی!
ہمارا مکان دو (۲) منزلہ تھا۔۔۔ اوپر تین بیڈرومز تھے۔ ایک میں ممّا پا پا اور دوسرے میں، میں اور میری آپا۔۔۔ تیسرے کمرے میں پاپا کی کتابیں اور میگزین وغیرہ بھرے تھے۔ ممّا ہمیشہ وہاں جانے سے منع کرتیں شاید انہیں خدشہ تھا کہ میں ان کی چیزیں خراب نہ کردوں مگر مجھے جب موقع ملتا میں وہاں پہنچ جاتا۔ ایک دن ممّا نے مجھ سے کہا کہ ’’تیسرے کمرے میں ’جن بابا‘ رہتا ہے اگر میں اکیلا وہاں گیا تو وہ مجھے کھا جائے گا۔‘‘ میں نے بے یقینی سے ممّا کو دیکھا۔ انہوں نے میراہاتھ پکڑا اور گھسیٹتی ہوئی وہاں سے لے گئیں۔
’’وہ دیکھو! کتابوں کے شیلف کے درمیان!!‘‘
میں نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھا۔۔۔ مجھے کچھ نظر نہ آیا۔۔۔ نجانے ممّا کیاد کھا نے لائی تھیں۔
’’وہ دیکھو! لمبا سا۔۔۔ کالا لبادہ اوڑھے، لمبے لمبے دانت، بڑی بڑی آنکھیں!‘‘
میں سہم گیا۔۔۔ غور کیاتو واقعی روشندان سے آتی مدھم ترچھی روشنی میں سیاہ ہیولا نظر آنے لگا۔ میں ڈر کے مارے ممّا سے لپٹ گیا۔ وہ مجھے واپس اپنے کمرے میں لے آئیں۔
میں نے اپنی زندگی میں پہلی اورآخری بار ’’جن بابا‘‘ کو دیکھا۔ (شاید ممّا نے ہی لفظوں سے اس کی تصویر بنادی تھی) میرا کسی نیم تاریک جگہ جانا مشکل ہوگیا۔ اگر باتھ روم میں ہوتا اور اچانک بجلی چلی جاتی تو میں چیخنے لگتا۔ پاپا پریشان تھے کہ مجھے کیا ہوگیا ہے؟ میں اچانک اتنا بزدل کیو ں ہوگیا؟
مجھے اسکول جانا شروع شروع میں اچھا لگتا تھا مگر پھر ایک دن جب ٹیچر نے میری ننھی سی ہتھیلی کھلواکر اس پر اسٹیل کا اسکیل مارا تو پھر وہ مس ہی نہیں پورا اسکول زہر لگنے لگا۔ ہوا کچھ بھی نہ تھا !بس میں نے اپنی ہم جماعت ’’ماریہ‘‘کی ’’کہانیوں کی کتاب‘‘ اپنے بیگ میں رکھ لی تھی۔ مجھے اچھی جو لگی تھی۔ بڑی کلر فل سی تھی۔۔۔ رکھی تو میں نے ماریہ سے نظر بچاکر رکھی تھی مگر شاید اس کو شک ہوگیا۔ اس نے واویلا مچادیا کہ اس کی کتاب گم ہوگئی۔ مس نے ہی آج بچوں سے ’’کہانیوں کی کتاب‘‘ لانے کو کہا تھا۔ انہوں نے سب بستوں کی تلاشی لی اور پھر اسکیل تھا اور میری ننھی سی ہتھیلی! 
مجھے غصہ آیا کہ ایک ذرا سی کتاب کے لیے ماریہ نے مجھے مار لگوادی اگلے دن ممّا جاکر ٹیچر سے خوب لڑیں۔آفس میں شکایت بھی کی کہ ہم اتنی فیس پڑھائی کے لیے بھرتے ہیں، پٹائی کے لیے نہیں۔ (پٹائی تو ہم گھر میں بھی ’’فری میں‘‘ کرسکتے ہیں)
ٹیچر کی شکایت لگا کرمیرا دل کچھ ٹھنڈا ہوا مگر اسکول جانے سے طبیعت اچاٹ سی ہوگئی۔ آخر اسٹوری بک رکھ لینے سے کون سا پہاڑ ٹوٹ پڑا تھا؟ اس سے پہلے بھی میں ’’عاصم‘‘ کا ’’لٹو‘‘، ’’سائرہ کی رنگین پھندے والی پینسل‘‘ اور ’’ثنا‘‘ کا خوشبو والا ربر کھسکا چکا تھا۔ ممّا نے بیگ میں یہ چیزیں دیکھی بھی تھیں مگر انہوں نے اس بارے میں کچھ نہ پوچھا۔۔۔ حالاں کہ وہ اچھی طرح جانتی تھیں کہ یہ چیزیں میری نہیں ہیں۔ اس کا مطلب تو یہی ہوا ناں کہ چھوٹی موٹی چیزیں ادھر ادھر کر لینا کوئی بڑی بات نہ تھی۔
اس دن سے میں نے محسوس کیا کہ جیسے ہی اسکول وین گھر کے دروازے پہ آتی میرے پیٹ میں درد شروع ہوجاتا، پیٹ میں، سر میں یا پھر شاید کمر میں۔۔۔ مجھے کچھ صحیح اندازہ نہ ہوتا کہ آخر درد کہا ں ہورہا ہے؟ میر ا دل ڈوبنے لگتا، میں ناشتہ ادھورا چھوڑ دیتا اور پاپا کہتے: ’’یہ سب ڈراما ہے، اسکول نہ جانے کا بہانہ ہے۔ اگر پاپا سچ کہتے تھے تو میرا ڈراما ہمیشہ’’ہٹ‘‘ ہوتا۔ ممّا فوراً وین والے انکل سے کہہ دیتیں: ’’آج ’’فہد‘‘ اسکول نہیں جائے گا۔‘‘
مجھے بخوبی اندازہ ہو چکا تھا کہ میرے معاملات میں پا پا کی اتنی نہیں چلتی تھی۔ صرف ممّا کو راضی کرلینا کافی ہوتا۔
آج ہمارے محلے میں ’’قرآن خوانی‘‘ تھی۔ مجھے وہاں کوئی خاص دلچسپی محسوس نہیں ہورہی تھی۔ سب لوگ روے روے سے تھے۔ خواتین دیوار سے ٹیک لگاے ’’سپارے‘‘ پڑھ رہی تھیں۔ درمیان میں ایک لمبی سفید چادر بچھی تھی جس پہ ’’دانوں‘‘ کا ڈھیر تھا۔ عورتیں اور لڑکیاں منہ ہی منہ میں اس پہ کچھ پڑھ رہی تھیں، میں بھی وہاں بیٹھ گیا۔۔۔ مٹھی بھر دانے اٹھائے۔۔۔ دو چار بار بازو گھمایا اور دانے دور پھینک دیے۔ ایک خاتون نے جوسفید دوپٹہ لپٹے ہوئے تھیں، مجھے گھور کر دیکھا اور بولیں : ’’ہونہہ۔‘‘
ان کے گھورنے پہ مجھے غصہ آیا یا کچھ ضد سی ہوئی۔ میں نے دوبارہ دانوں کے ڈھیر میں ہاتھ ڈالا تو ایک دوسری خاتون نے میرا ہاتھ پکڑ لیا: ’’نہیں بیٹا! ایسا نہ کرو۔۔۔بے ادبی ہوگی!‘‘
میں نے سر گھما کر ممّا کی طرف دیکھا۔ ممّا مجھے بہت چاہتی تھیں، میں منہ بسورتا ہوا ممّا کے پاس چلا گیا۔ انہوں نے سپارہ دوسرے ہاتھ میں لے کر مجھے لپٹا لیا۔ 
کچھ ہی دیر میں منظر بدل گیا، جہاں پہلے دانے رکھے تھے وہاں کھانا لگ گیا۔ ممّا نے پلیٹ میں ’’چوٹی بھرکے‘‘۔۔۔ ’’بریانی‘‘ نکال کر مجھے دے دی۔ میں نے صرف ایک چوتھائی کھایا اور باقی وہیں چھوڑ کر اٹھ گیا۔ کھانا تھا ہی اتنا کہ میرے جیسے تین بچے کھا سکتے تھے۔ میری جھوٹی پلیٹ کنارے کرتے ہوئے ممّا فکر مندی سے بولیں: ’’عجیب بچہ ہے، کچھ کھاتا ہی نہیں۔ کسی ڈاکٹر کو دکھانا پڑے گا ۔‘‘
ممّا کے برابر میں بیٹھی سفید دوپٹے والی خاتون نے (جنہوں نے مجھے گھور ا تھا اور اب غالباً کھانا چھوڑنے پر کوئی نصیحت کرناچاہتی تھیں) مجھے اشارے سے بلاتے ہوئے کہا: ’’بیٹا! ادھر آؤ۔‘‘
میں ان کا بلاوا نظر انداز کرتے ہوئے بیرونی دروازے کی جانب بڑھا۔ میرا جوتا کسی خاتون کے ہاتھ پہ پڑگیا۔ ’’سی‘‘ کی ایک آواز ابھری مگر میں نے پلٹ کر دیکھا نہیں۔ سب گھس گھس کر بیٹھے تھے کم جگہ میں نکلنا بھی مشکل ہورہاتھا۔ ان خاتون نے پھر آواز دی۔
’’فہد! میں تمہیں بلا رہی ہوں نا ں، سنا نہیں!‘‘
چپ الّو کی۔‘‘ میں راستہ نہ ملنے پہ جھنجھلایا ہوا تھا یا ان کی ڈانٹ کا اثر تھا کہ پتا نہیں کیسے یہ جملہ میرے منہ سے پھسل گیا۔
میں نے دیکھا کہ خاتون کا چہرہ سرخ ہوگیا۔ شرمندگی سے یا غصے سے حالانکہ اس جملے میں ایسی کوئی بات نہ تھی، ’’ماسی‘‘ اکثر اپنی لڑکی کو یہ کہتی رہتی تھی، میں نے بھی سیکھ لیا۔ مجھے یاد ہے کہ جب دو سال پہلے یہ جملہ پہلی بار ممّا اور چاچی کے سامنے بولا تو وہ ہنستے ہنستے بے حال ہوگئی تھیں۔ ممّا نے کہا : ’’ہے تو گالی مگر فہد کے بھولے منہ سے کیسی بھلی لگتی ہے!‘‘
مہمانوں کے سامنے ممّا ہمیشہ میری تعریف کرتیں۔ کوئی بھی آتا بغیر میری ’’پوئم‘‘ سنے جانہ پاتا۔ کبھی کبھی میں بور بھی ہوجاتا سوچتا کہ مہمان تو جمائی لے رہے ہیں اور پہلو پہ پہلو بدل رہے ہیں۔شاید بوریت سے اور میں ہوں کہ 
’’چوں چوں چوں چوں چاچا، گلی میں چوہا ناچا‘‘
سنائے چلا جارہا ہوں مگر ممّا اس طرف دھیان نہ دیتیں۔ ان کی نظریں تو مجھ پر جمی رہتیں۔ آئٹم سانگ کے آخر میں البتہ وہ فخریہ اور داد طلب نظروں سے مہمانوں کی جانب دیکھتیں، ایسے میں مہمان اخلاقاً اس لیے مسکر ا دیتے کہ جب فرمائشی پروگرام ختم ہی ہوگیا تو کیا بد اخلاقی کرنا؟ رسماً چند تعریفی جملے بھی کہتے، آخر رشتہ داری بھی تونبھا نی ہوتی تھی۔
صرف ایک رشتہ دار ہمارے ایسے تھے جو سخت جلاد اور بد اخلاق قسم کے تھے۔ وہ تھے پاپا کے کزن ’’زاہد انکل‘‘ ۔ان کا سخن تکیہ تھا ’’ما روں گا ایک تمانچا کھینچ کر‘‘ گو انہوں نے کسی بد تمیزی یا شرارت پہ مجھے کبھی مارا نہ تھا مگر ان کا زبانی کہہ دینا ہی کافی تھا۔ اوّل تو مجھے کبھی کسی نے ہاتھ ہی نہ لگا یا تھا۔ ممّا کا کہنا تھا کہ روک ٹوک اور سختی سے بچوں کی شخصیت مسخ ہو جاتی ہے۔ معلوم نہیں مسخ شخصیت کیسی ہوتی ہے؟ شاید ’’زاہد انکل‘‘ جیسی۔ دوسرے یہ کہ مجھے بد تمیزی اور شرارت کا فرق ہی معلوم نہ تھا، چھوٹا جو تھا۔ ممّا جس کو شرارت کہتیں اسی حرکت کو ’’زاہد انکل‘‘ بد تمیزی کہتے۔ اب تک مجھے پتہ نہ چلا کہ کون صحیح ہے اور کون غلط؟ ایک دن تو زاہد انکل اور ممّا میں باقاعدہ بحث ہوگئی۔ انکل کہنے لگے کہ ’’بھابی! آپ کے لاڈلے کے بھلے کی بات کر رہا ہوں۔ آپ نے سنا نہیں جنہیں والدین نہیں سکھاتے انہیں زمانہ سکھاتا ہے۔ بچے کو پھول پتی کی طرح نہ رکھیں۔ تھوڑا رف اینڈ ٹف بنائیں۔ ماں کے چھتری کی باہر بھی ایک دنیا ہے جو بڑ ی ظالم ہے۔ ماں، باپ سدا ساتھ نہیں رہتے کہتے ہیں ناں کہ جو والدین کی مار نہیں کھاتے، وہ زمانے کی مار کھاتے ہیں!‘‘
ارے ارے! زاہد بھائی! کیسی باتیں کرتے ہیں۔۔۔ اللہ نہ کرے میرا بچہ زمانے کی مار کھائے، اچھا کھاتا ہے، اچھا پہنتا ہے، اچھے اسکول میں پڑھتا ہے، زمانہ ہی اس کی ٹھوکر پہ ہوگا!‘‘ 
زاہد انکل نے ہار نہ مانی اور بولے: ’’اسکول سے تعلیم پہ فرق پڑتا ہے، تربیت پہ نہیں۔۔۔ گھر کی تربیت ہی بچے کو بناتی ہے یا بگاڑتی ہے اور ’’فہد میاں‘‘ تو۔۔۔‘‘
ممّا ان کی بات کا ٹ کر بولیں: ’’ابھی بچہ ہے بڑا ہوگا تو خود ہی ٹھیک ہو جائے گا!‘‘ 
زاہد انکل قدرے چڑ کر بولے: ’’بڑے ہوکر بھی وہی ٹھیک ہوتے ہیں جن کو ماں باپ بچپن سے صحیح غلط کافرق بتاتے ہیں ورنہ تو بڑا ہوکر بچہ اچھا نہیں، پکا ہوجاتاہے۔۔۔ اپنی بری عادتوں میں!‘‘
ممّا کا موڈاب سخت آف ہوچکا تھا۔ ان کے لا ڈلے پہ کوئی تنقید کرے یہ ان کو با لکل گوارا نہ تھا۔ وہ میرا ہاتھ پکڑ کر گھسیٹتی ہوئی، اپنے کمرے میں لے گئیں اور زاہد انکل ڈرائینگ روم میں اکیلے بیٹھے رہ گئے۔
*۔۔۔*۔۔۔*
اچانک بجلی جانے سے کمرے میں حبس بڑھ گیا۔ میں نے کر وٹ لی، اوڑھی ہوئی چادر کھینچ کر الگ کی۔ ٹانگیں سیدھی کیں۔۔۔ ارے یہ کیا؟
یہ میں چھ فٹ کا کیسے ہوگیا؟ یہ بچپن کا سن ہے یا پچپن کا۔ میرا بچپن کہاں گیا؟ ممّا۔۔۔ پاپا۔۔۔ زاہد انکل؟ سب کہاں کھوگئے؟ کیا یہ سب ’’خواب‘‘ تھا؟ میں گھبرا کر اٹھ بیٹھا۔
’’زویا‘‘ (میری بیوی) کمپیوٹر کھولے بیٹھی تھی۔ بجلی جاتے ہی انٹر نیٹ سے اس کا رابطہ کھٹ سے ایسے ہی منقطع ہوگیا جیسے آنکھ کھلنے سے میرا اور میرے بچپن کا۔ ’’زویا‘‘ نے پلٹ کر میری طرف دیکھا اور فکر مندی سے بولی: ’’لو لائٹ چلی گئی، یہ کا م مجھے کل آفس لے کر جانا تھا!‘‘
یہ کہہ کر وہ ایمر جنسی لائٹ کھولنے بڑھی، کیوں کہ وہ جانتی تھی کہ پچپن (۵۵) برس کا ہونے کے باوجود میں آج بھی تاریکی سے خائف تھا۔ میری حالیہ ملازمت چھوٹے گیارہ ماہ ہوچلے تھے۔ یہ میری پانچو یں نوکری تھی جو اچانک ہی چھوٹ گئی۔ نہ معلوم کیا بات تھی! میرے دوست کہتے تھے: ’’بیٹا نوکری تو نوکری ہے اور تمہارا مزاج شاہی ہے، بھلا ملازمت کیسے چلے؟‘‘
میں نے کئی بار ’’کاروبار ‘‘کی کوشش کی مگر سواے سرمایہ ڈبونے کے اور کوئی تجربہ ہاتھ نہ آیا۔ مماّ پاپا میرے لیے کافی جائیداد چھوڑ گئے تھے اسی کو بیچ بیچ کر گزارا ہوتا رہا مگر اب اس مکا ن کے سوا کچھ نہ بچا تھا، آگے کیا ہوگا یہ سوچ کر ہی مجھے پسینے آجاتے۔ اس بار میرا جم کر نوکری کرنے کا ارادہ تھا مگر۔۔۔ افسوس!
بظاہر ہوا کچھ نہ تھا۔ ایک دن بس میرے ’’باس‘‘ کا موڈ خراب تھا۔ انہوں نے مجھے ایسی باتیں سنائیں جیسے میں کوئی نااہل اور سست آدمی ہوں اور ان کی مہربانی ہے جو انہوں نے مجھے رکھا ہوا ہے۔ میں نے کب ایسی کڑوی کسیلی باتیں سنی تھیں۔۔۔ غصہ آیا تو فوراً استعفا لکھ کر میز پر پٹخ دیا اور دفتر سے باہر آگیا۔ گو بعد میں بہت پچھتایا۔۔۔ کام ڈھونڈتا رہا مگر نوکری تو گویا انتیس کا چاند ہوگئی جو جھلک دکھلا کر غائب ہوجاتی۔ آہستہ آہستہ ساری شاہ خرچیاں بند ہوگئیں۔ نوکروں کو ایک ایک کرکے نکالنا پڑا۔ اب صرف ’’ صائم‘‘ کی گورنس رہ گئی تھی وہ بھی اس لیے کہ مجبوراً ’’زویا‘‘کو نوکری کے لیے نکلنا پڑا تھا۔
اپنے حالات کے بارے میں سوچتے سوچتے اچانک میرے دماغ میں ایک خیال آیا کہ کاش زاہد انکل نے صرف کہا نہ ہوتا مار بھی دیا ہوتا۔۔۔ پھر میں نے اس خیال کو ذہن سے جھٹک دیا۔ گرمی بڑھتی جا رہی تھی۔ جنریٹر کی بیٹری ڈاؤن ہوچکی تھی۔ ہماری زندگی کی گاڑی کی طرح۔
’’زویا‘‘ نے کمرے کی کھڑکی کھول دی۔ ہوا کے ہلکے سے جھونکے نے میرے خیالات کو منتشر کر دیا اسی وقت دروازے پہ دستک ہوئی۔ پریشان حال ’’گورنس‘‘ ہمارے لاڈلے بیٹے ’’صائم‘‘ کو لے کر اندر داخل ہوئی اور بولی: ’’بابا لوگ سوتے سوتے جاگ گیا۔۔۔ جنریٹر آن کر دیں۔۔۔ یہ بہت تنگ کر رہا ہے۔۔۔ مانتا ہی نہیں۔‘‘
مدھم سی روشنی میں، میں نے ’’صائم‘‘ کا چہرہ دیکھا جو غصے سے ہولے ہولے سرخ ہو رہا تھا۔ شاید گورنس کا یہ شکایتی انداز اسے بھایا نہ تھا۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا، صائم نے گورنس کے بالوں کا ایک گچھا پکڑ لیا اور اسے پوری طاقت سے کھینچتے ہوئے بولا: ’’تم جھوٹ بولتی ہو۔۔۔ میں نے تنگ نہیں کیا۔‘‘
’’ارے ارے! چھوڑو میرے بال۔دیکھیں میم صاحب!!‘‘ گورنس بلبلا اٹھی۔
میرا ذہن اب تک سوئی، جاگی کیفیت میں تھا مگر گورنس کی چیخ سن کر مجھے جھٹکا سا لگا۔ میں بستر سے کودا اور صائم کو مارنے کے لیے ہاتھ اٹھا لیا۔
’’چھوڑو آنٹی کو۔۔۔!‘‘
صائم سن سارہ گیا۔ بال اس کی مٹھی سے نکل گئے۔ اس نے کب ایسی سختی سہی تھی۔ زویا اور آیا مجھے حیرت سے تک رہے تھے۔ صائم نے بے یقینی سے مجھے دیکھا اور میرا غصے سے سرخ ہوتا چہرہ دیکھ کر احتجاجاً رونا شروع کر دیا۔
’’چپ ہوجاؤ ورنہ!!‘‘ میں نے دھمکی آمیز لہجے میں کہا اور اس وقت نامعلوم کیسے غیر ارادی طور پر میرے منہ سے نکلا۔ ’’ماروں گا ایک طمانچہ کھینچ کر!!‘‘

*۔۔۔*

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top