ایڈیٹر کی میز
سیما صدیقی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مصنف ’’ماہنامہ قومی آواز‘‘ کے دفتر میں داخل ہوا۔
’’جی!مجھے ’قومی آواز‘ کے ایڈیٹر سے ملنا ہے۔‘‘
’’ضرور ملیے !‘‘ ایڈیٹر کے لہجے میں شائستگی تھی جس میں ہلکی سی بے نیازی بھی شامل تھی۔
’’جی! میں گزشتہ دس سال سے آپ کا ’ماہنامہ قومی آواز‘ پڑھ رہا ہوں اور….. ‘‘
’جناب! بڑی خوشی ہوئی یہ سن کر….. کیونکہ ’قومی آواز‘ کا عرصہ اشاعت محض سات سال ہے۔‘‘ایڈیٹر نے بات کاٹتے ہوئے متانت سے کہا۔
مصنف کسمسا کر بولا:’’میرا مطلب ہے کافی عرصے سے ….. دراصل میں نے ایک کہانی لکھی ہے اور…..‘‘
’’ٹھیک ہے! چھوڑ جائیں، اگر قابلِ اشاعت ہوئی تو تین ماہ کے اندر شائع ہوجائے گی۔‘‘
مصنف کچھ متامل نظر آیا، پھر قدرے لجاجت سے کہا: ’’جناب! بہت ہی مختصر سی کہانی ہے، اگر آپ ابھی سماعت فرمالیں تو….. میں زیادہ وقت نہیں لوں گا آپ کا۔‘‘
’’ہوں!‘‘ایڈیٹر نے انگلی سے چشمہ ناک کی پُھننگ پہ کھسکایا اور مصنف کابغور جائزہ لیا۔ پھر گھڑی کی طرف دیکھ کر کہا :’’ٹھیک ہے جناب سنائیے!‘‘
مصنف نے چند لمحے توقف کیا گویا لمبی گفتگو کے لیے سانسیں اکٹھی کررہا ہو۔ بالآخر کہانی کا آغاز کیا۔ ’’یہ بلڈنگ شہر کے گنجان آباد علاقے سے دور….. قدرے غیر آباد علاقے میں واقع تھی۔ بلڈنگ کے مکین گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے مری گئے ہوئے تھے۔ چہاراطراف مہیب سناٹا پھیلا ہوا تھا۔ سامنے سے بلڈنگ کا چوکیدار آتا دکھائی دیا….. یہ ایک پٹھان تھا۔‘‘
’’ایک منٹ!‘‘ ایڈیٹر نے ہاتھ اٹھا کر کہا۔’’جناب اس جملے سے تعصب کی بو آرہی ہے،کیا آپ کو نہیں آرہی ہے؟ اس سے لسانی تفرقہ پھوٹ سکتا ہے۔ بھلا یہ لکھنے کی کیا ضرورت ہے کہ وہ ایک پٹھان تھا۔ یہ ’قومی آواز‘ ہے جس کا پیغام یہی ہے کہ ہم پہلے انسان ہیں، پھر مسلمان اور پھر پاکستانی اور بس!‘‘
’’جی!بخدا میرا یہ مقصد نہ تھا بلکہ ایسا تو شائبہ تک میرے ذہن میں نہیں تھا۔‘‘مصنف گڑبڑا گیا۔
’’اچھا….. اچھا ٹھیک ہے آپ اس فقرے کو کاٹ کریوں لکھیں۔‘‘
’’سامنے سے بلڈنگ کا چوکیدار آتا دکھائی دیا جو ایک انسان تھا۔ سندھی تھا یا پٹھان تھا، ہمیں اس سے کیا ….. اب آگے چلئے!‘‘
’’رات کے دس بجے اس کی ڈیوٹی شروع ہوتی تھی۔ وہ ڈیوٹی پہ پہنچا اور اپنے مخصوص اسٹول پر بیٹھ کر مونچھوں کو تاؤ دینے لگا۔‘‘
’’نہیں جناب! مونچھوں کو تاؤ دینا کچھ ٹھیک نہیں، اس جملے سے تو یہ ظاہر ہورہا ہے گویا….. مونچھوں کو تاؤ دینا ہی اس کی ڈیوٹی ہے…. آپ یوں لکھیں کہ وہ اپنے مخصوص اسٹول پر مونچھوں کو تاؤ دیئے بغیر بیٹھ گیا۔ اسے چوکیداری سے غرض تھی اور مونچھوں کی مطلق پروانہ تھی۔‘‘
مصنف کو ایڈیٹر پہ تاؤ آنے لگا مگر بمشکل خود پر قابو پایا اور کسمساتے ہوئے آگے بڑھا:’’کچھ ہی دیر بعد چوکیدار اونگھنے لگا۔ اس کی ادھ کھلی آنکھوں میں نیند کے سرخ ڈورے صاف دکھائی دے رہے تھے۔‘‘
’’خوب! بہت خوب! چوکیدار اونگھنے لگا۔ اس سے آپ چوکیداروں کو نیا سبق دینا چاہ رہے ہیں؟ یعنی کہ فرائض سے غفلت۔ چوکیداری تو نام ہی جاگتے رہنے کا ہے۔’’جاگتے رہو‘‘کی آواز لگا کر نہ خود سوتا ہے نہ دوسروں کو سونے دیتا ہے۔ آپ لکھئے کہ چوکیدار چوکس بیٹھا تھا….. واہ کیاجملہ ہے گویا انگوٹھی میں نگینہ!‘‘ ایڈیٹر نے خود ہی اپنے جملے کو سراہناشروع کردیا۔ مصنف نے قطع کلامی کرتے ہوئے کہا….. ’’مگر جناب!اگر چوکیدار کو چوکس بٹھا دوں گا تو چوری یا ڈاکے کی واردات کیسے ہوگی؟‘‘
’’ہائیں! گویا آپ اس گمان میں ہیں جب ڈاکو حضرات بینک میں ڈاکا ڈالنے پہنچتے ہیں اس وقت بینک کا جملہ اسٹاف مع گارڈ بیٹھا اونگھ رہا ہوتا ہے یا ادھ کھلی آنکھوں سے اپنے کھاتہ داروں کو نمٹا رہا ہوتا ہے۔ نہیں جناب! بینکار ہمیشہ آنکھیں کھلی رکھتے ہیں پھر بھی ڈاکہ پڑجاتا ہے۔ مختصر یہ کہ چوری ڈاکے کے لیے لوگوں کا غافل ہونا ضروری نہیں اور ہاں!رات کے دس بجے تو سڑک کے ادھ کھلے مین ہول بھی نظر نہیں آتے اور لوگ غڑاپ ہوجاتے ہیں۔ پھر یہ آپ کو چوکیدار کی آدھ کھلی آنکھوں کے سرخ ڈورے کیسے نظر آگئے؟ اگر ڈالنا ہی ہے تو چوکیدار کی آنکھوں میں سرمہ ڈالیں اس سے وہ مزید چوکس نظر آئے گا۔ ہوں تو جملہ کچھ یوں بنا….. کچھ دیر بعد چوکیدار چوکس ہوکر بیٹھ گیا، اس کی کھلی کھلی آنکھوں کا سرمہ رات کی تاریکی میں مدغم ہوگیا۔ آگے چلیں…..!‘‘
’’اچانک مشرقی سمت جھاڑیوں میں سرسراہٹ ہوئی۔ ایک سایہ اندھیرے کی چادر اوڑھے نمودار ہوا اور دبے پاؤں چلتا ہوا…..بلڈنگ کی عقبی دیوار کی سمت کھسکنے لگا۔‘‘
’’ایک منٹ جناب ! مشرق کی سمت جھاڑیوں میں سرسراہٹ! یہ کیا لکھ دیا آپ نے؟ ہمسایہ ملک سے ہمارے تعلقات پہلے ہی کشیدہ ہیں جو رہے سہے ہیں وہ آپ ختم کرانے کے درپے ہیں۔‘‘
’’جی! میں کچھ سمجھا نہیں؟‘‘ مصنف نے پریشان خیالی کا مظاہرہ کیا۔
’’گویا آپ کو معلوم ہی نہیں کہ پاکستان کے مشرق میں بھارت واقع ہے۔ جغرافیائی بنیادوں پر لوگ اسے علامت کے طورپر لے سکتے ہیں کہ بھارتی سرحد سے ایک چور یا تخریب کار جھاڑیاں پھلانگتا پاکستان آگیا۔‘‘
’’جی!‘‘ مصنف دنگ رہ گیا۔ ’’مگر جناب یہ علامت تو میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھی۔ بخدا یہ علامتی کہانی نہیں ہے اور نہ ہی جغرافیہ سے اس کا کوئی تعلق ہے۔ ‘‘اب مصنف تقریباً رو دینے کو تھا۔
’’ٹھیک ہے جناب!تو آپ اس کو واضح طور پر اس طرح لکھیں کہ اچانک مشرقی سمت کی جھاڑیوں میں سے سرسراہٹ ہوئی مگر اس سرسراہٹ کا پڑوسی ملک سے کوئی تعلق نہ تھا۔ ایک چور دندناتا ہوا جھاڑیوں سے یوں برآمد ہوا جیسے شیر اپنی کچھار سے….. اس نے چوکیدار کے سرپر کلاشن کوف کا بٹ مارا۔ ایک عدد ہوائی فائر کیا۔ اس طرح اسے دبے پاؤں عقبی دیوار کی سمت کھسکنے کی ضرورت نہ پڑی بلکہ عقبی دیوار کی سمت زخمی چوکیدار کھسک گیا اور چور مرکزی دروازے کو ’’ماسٹرکی‘‘ سے کھول کر اندر چلا گیا۔ اب آگے چلیں!‘‘
’’ایک منٹ جناب! ذرا توقف فرمائیں، میںیہاں ’’ہوائی فائر‘‘ کے ردّعمل کے طور پر ایک جملہ لکھ دوں۔ ‘‘مصنف نے کان کھجاتے ہوئے کہا۔
’’کیا لکھا؟‘‘ایڈیٹر کے لہجے میں گہری متانت تھی۔
’’ہوائی فائر کے ساتھ ہی سامنے والی بلڈنگ سے ایک عورت کی چیخ ہوا کے دوش پہ لہرائی اور دور کہیں کتے نے بھونکنا شروع کردیا….. ‘‘
’’ہائیں!کیا آپ یہ بتانا چاہ رہے ہیں کہ کوئی خاتون بالکل تیار بیٹھی تھی کہ جونہی چور فائر کرے وہ اپنی چیخ کو ہوا کے دوش پہ لہرائے؟ اورکیا آپ یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ ذراسی فائرنگ سے ہماری خواتین کے اوسان خطا ہوجاتے ہیں اور وہ بدحواس ہوکر چیخنے لگتی ہیں؟آپ یہاں لکھئے کہ ہوائی فائر کے ساتھ ہی سامنے والی بلڈنگ سے ایک خاتون کے کھلکھلا کر ہنسنے کی آواز ابھری!‘‘
’’ایں! مگر جناب یہاں کھلکھلا کر ہنسنے کا کیا موقع تھا؟‘‘ مصنف نے جز بز ہوکر استفسار کیا۔
’’جناب! اس سے معلوم ہوگا کہ ہماری خواتین میں….. ہر آفت کوہنس کر سہہ جانے کا حوصلہ ہے۔ رات کے دس بجے خاتون محض مسکراتی تو سجھائی نہ دیتا مجبوراً اسے کھلکھلانا پڑا اور ہاں یہ آپ نے منظر نامے میں خاتون کے چیخنے اور کتے کے بھونکنے کو بلاوجہ ’مکس اپ‘ کردیا ہے۔ اس پر ’’قومی آواز‘‘ پڑھنے والی خواتین برامان سکتی ہیں، ان میں اضطراب بلکہ اشتعال پھیل سکتا ہے، آپ واضح طور پر لکھیں کہ خاتون کے کھلکھلا کر ہنسنے کی آواز ابھری اور اس موقع پر ’کتے‘ نے کوئی مداخلت نہیں کی۔ ہاں آگے چلئے!‘‘ مصنف نے منھ بنایا اور کہانی کو آگے بڑھایا…..
چوکیدار نے بھانپ لیا کہ بلڈنگ میں کوئی گھس چکا ہے چنانچہ وہ فوری طور پر بھاگتا ہوا قریبی تھانے پہنچا اور پولیس موبائل وین کے ہمراہ جاے واردات پہ پہنچ گیا۔ پولیس مین گاڑی سے اترا۔ مرکزی دروازے پر کھڑے ہوکر چند ثانیے کچھ سوچا اور پھر۔۔۔‘‘
’’ایک منٹ!‘‘ ایڈیٹر نے ہاتھ اٹھاکر کہا:’’کیا آپ مافوق الفطرت باتوں پر یقین رکھتے ہیں؟ آخر یہ کراچی کا کون سا تھانہ تھا اور وہ کون سا جانباز سپاہی تھا جو چوکیدار کے بلاوے پر کچے دھاگے سے بندھا چلا آیا۔ نہیں برخوردار نہیں! آپ کے تخیلات اپنی جگہ!لیکن ہم اپنے رسالے میں ایسے غیر حقیقی اور غیر منطقی مناظر نہیں دکھا سکتے ۔ آپ پولیس والے کو نہ صرف عین موقع واردات پر لاتے ہیں بلکہ اسے کچھ ’’سوچتے‘‘ ہوئے بھی دکھاتے ہیں۔ دونوں ہی باتیں حقیقت کے منا فی ہیں۔اس پر آپ سے پوچھ گچھ ہوسکتی ہے۔ بہتر ہے اسے یوں لکھیں۔پولیس والے نے دروازے پر کھڑے ہوکر کچھ نہ سوچا(کیونکہ سوچنے سمجھنے کا کام چور کا تھا) اور بے دھڑک اندر گھستا چلا گیا دراصل راستے میں چور وائر لیس پر اسے مطلع کرچکا تھا کہ وہ تقریباً فرار ہوچکا ہے۔‘‘
’’لیکن جناب! اس طرح تو چور’ہیرو‘ بن جائے گا اور پولیس اور چوکیدار کا کردار دب کر رہ جائے گا۔ جبکہ میری کہانی کا تو کلائمکس ہی یہ ہے کہ چوکیدار جان کی بازی لگا کر پولیس کی مدد سے چور کو گرفتار کروادیتا ہے۔ پھر بلڈنگ کے مکین اسے انعامات سے نوازتے ہیں۔‘‘
’’چہ خوب! ابتدا میں آپ جسے سوتا ہوا دکھاتے ہیں، اختتام پر انعام سے نواز رہے ہیں۔ آپ کو معلوم نہیں ’جو سوتا ہے وہ کھوتا ہے‘ (پنجابی والا کھوتا نہیں اردو والا) اور آپ اسے انعامات دلوارہے ہیں۔ جبکہ بہادری کا انعام حاصل کرنے کے لیے گارڈ کا فوت شدہ ہونا ضروری ہے۔ کیونکہ جو اس قسم کی بہادری دکھاتا ہے اس کا منطقی انجام یہی ہوتا ہے۔‘‘
’’دیکھیں محترم! آپ میرے ہیرو کے کردار کو غیر ارادی طور پر مسخ کررہے ہیں۔ اس کا کردار دبارہے ہیں اور چور کا کردار ابھار رہے ہیں۔ ‘‘ مصنف نے کمزور سی آواز میں احتجاج کیا۔
’’لیکن جناب! اگر ہم ایسی ڈھیلی ڈھالی کہانیاں چھاپنے لگیں تو لوگ ’قومی آواز‘ کے ساتھ ہمارا بھی گلا دبادیں۔ بہتر ہے کہ ہم آپ کے ہیرو کا کردار دبادیں۔ (بلکہ آپ کہانی کو ہی کہیں دبادیں!) ویسے بھی آپ کی کہانی میں آمد جامد بہت ہے۔ کہانی کے آغاز میں چوکیدار آتا ہے، درمیان میں چور آتا ہے اور آخر میں پولیس! آپ یوں کیوں نہیں دکھاتے کہ چور پولیس کی ہمراہی میں بلڈنگ میں داخل ہوا۔ ‘‘ایڈیٹر نے تھوڑی کھجاتے ہوئے آئیڈیا پیش کیا۔ مصنف دم بخود رہ گیا۔ اس کا چہرہ لمبا ہوگیا۔ ایڈیٹر نے پرخیال لہجے میں کہا:’’دیکھیں نا! چور بیچارا اکیلا تن تنہا…. اور خالی بھائیں بھائیں کرتی بلڈنگ، اگر پولیس والا ساتھ ہوگا تو اسے حوصلہ رہے گا….. میرا مطلب ہے دوسرا آدمی ساتھ ہوگا تو دل نہیں گھبرائے گا۔‘‘
’’لیکن پولیس اور چو ر کو ساتھ دکھانے سے دونوں کے گٹھ جوڑ کا تاثر ابھرے گا….. اور۔‘‘
’’جی نہیں! اس سے معاشرے کے مختلف طبقوں کے درمیان ہم آہنگی، ملنساری اور امدادِ باہمی کا تاثر ابھرے گا آپ منفی انداز سے نہ سوچیں۔‘‘
’’جناب !چور اور پولیس کے درمیان ملنساری دکھانے سے بہتر ہے کہ میں ’پولیس‘ کا کردار حذف کردوں۔‘‘مصنف نے ہتھیار ڈالتے ہوئے کہا۔
’’بالکل ٹھیک! جب پولیس کو چور پکڑنا ہی نہیں تو اس کے ذکر کا فائدہ ؟ بلکہ میری راے لیں تو چور کا کردار بھی حذف کردیں جو آپ کے ہیرو کو دبا رہا ہے۔‘‘
’’جی !!‘‘ مصنف کراہ اٹھا۔ ’’مگر پھر کہانی میں بچے گا کیا؟‘‘
’’ہم۔‘‘ ایڈیٹر نے پرخیال انداز میں سرہلایا ۔’’اچھا آپ دل گرفتہ نہ ہوں۔ صرف چور کا کردار حذف کردیں اور پولیس کو چوکیدار کے ساتھ بلڈنگ میں جاتے دکھا دیں۔ کہانی کا اختتام آپ کی منشا کے مطابق کچھ یوں ہوگا۔ چوکیدار پولیس کی ہمراہی میں بلڈنگ میں داخل ہوا۔ دور دور تک چور کا نام و نشان نہ تھا۔ (اور ہو بھی کیسے سکتا تھا جبکہ ہم اس کا کردار حذف کرچکے ہیں۔) چوکیدار خوش ہوا۔ پولیس والا اس سے زیادہ خوش ہوا۔ بلڈنگ کے مکین واپس آئے تو چوکیدار نے بتایا۔ نہ مشرقی سمت جھاڑیوں سے کوئی چور آیا، نہ میں نے سرپر بٹ کھایا، حفظِ ماتقدم کے طور پر پولیس کو بلا لایا، دونوں نے خود پر بمشکل قابو پایا اور بلڈنگ میں گھسنے کے باوجود کوئی مال نہیں اُڑایا، اس پر مکین خوش ہوکر چوکیدار کو ایمانداری کا انعام دیتے ہیں(جو ڈر کے مارے چوری نہ کرسکے اسے عرفِ عام میں ایماندار کہتے ہیں) اس موقع پر پولیس مین کو کوئی انعام نہیں دیا جاتا کیونکہ وہ صرف چوروں ڈاکوؤں سے انعام لیتے ہیں شریفوں سے نہیں…..دیکھا جناب مصنف صاحب! ذراسی نوک پلک سنوارنے، تھوڑی سی اصلاح و ترمیم اور معمولی سی قطع و برید کرنے سے آپ کی کہانی کیسی بکھر….. میرا مطلب ہے نکھر گئی۔‘‘
کہانی کی روح قبض ہوچکی تھی۔ مگر مصنف ابھی زندہ تھا چنانچہ بولا: ’’جناب! کیا یہ….. کہانی شائع ہوجائے گی…..؟‘‘
’’ہاں ہاں کیوں نہیں….. ہمیں تو اچھی کہانیوں کی تلاش رہتی ہے ….. اسے آئندہ شمارے میں ہی لگادیتے ہیں… ‘‘
’’شکریہ! جناب، بہت نوازش، لیکن براہِ مہربانی بطور مصنف اس پر میرا نام نہ دیجیے گا۔‘‘ مصنف سراپا درخواست گزار بن گیا اور ایڈیٹر کو ہکا بکا چھوڑ کر ’قومی آواز‘ کے دفتر سے باہر نکل گیا۔