گندے گھر میں اچھے بھائی
سیما صدیقی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اچھّے بھائی پہلی بار صفّو آپا کے گھر آئے تھے۔ یہ صفّو آپا کے دور پار کے بھائی ہوتے تھے۔ سادہ اور نفیس طبیعت کے آدمی تھے۔ ہر کام طریقے سلیقے سے کرنے کے عادی اور نہایت صفائی پسند۔ ان کے تو وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ صفّو آپا کے گھر صحت و صفائی کی صورت حال اتنی خراب ہوگی۔ اس گھرانے کا غالباً منشور ہی یہ تھا ۔۔۔
بقول ایوب فہمی:
گندگی تو پڑی رہنے دو
زندگی رہی تو صفائی ہوگی
گھر کے ہر کمرے میں دیوار گیر گھڑیاں آویزاں تھیں مگر سب پہ اتنے جالے لگے ہوئے تھے کہ کسی میں بھی وقت دیکھنا ممکن نہ تھا۔ معلوم نہیں یہ لوگ وقت کیسے دیکھتے تھے؟
پہلے ہی دن جب اچھے بھائی سفر سے تھکے ماندے صوفے پہ گرے تو صفّو آپا نے ان کی حالت دیکھتے ہوئے چاے کی فراخ دلانہ پیش کش کی۔ (بعد کے حالات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ہاں کسی کو چاے کے لیے پوچھنا بھی نہایت فراخ دلی کی بات تھی) اچھے بھائی نے بلا تامل یہ پیش کش قبول کرلی۔ صفّو آپا نے بیک وقت کئی لڑکیوں کو چاے بنانے کا حکم دیا: ’’ارے گڈی…. لاڈو…. چمّو…. ذرا اچھے ماموں کے لیے چاے تو بنا لاؤ… فٹا فٹ! ‘‘
بہت دیر گزر گئی مگر چاے کا کہیں دور دور تک پتا نہ تھا۔ دراصل ہوا یہ تھا کہ ہر ایک یہ ہی سوچ رکھتا تھا کہ ہم ہی کیوں بنائیں…. کوئی دوسرا کیوں نہ بنائے؟
’’آپا اگر چاے میں دیر ہے تو میں ذرا آرام کرلوں۔‘‘ اچھے بھائی نے سلیقے سے چاے کی یاد دلائی۔ صفّو آپا بچوں کو کوستی ہوئی خود ہی باورچی خانے میں گھس گئیں اور چاے بنانے کے بجاے چاے پکانے میں لگ گئیں۔ کافی دیر بعد باورچی خانے سے برآمد ہوئیں تو ایک ہاتھ میں چھلکتی چھلکاتی چاے کی پیالی تھی اور دوسرے ہاتھ میں چیوڑے کی پلیٹ۔ چیوڑا تنا پرانا تھا کہ اب بالکل کوڑا لگ رہا تھا۔ اچھے بھائی نے چیوڑے کی طرف ہاتھ بڑھایا تو انہیں لگا کہ جیسے چیوڑا ہولے ہولے ہل رہا ہو اور اس میں موجود کیڑے سر ہلا ہلا کر اچھے بھائی کو چیوڑے سے دور رہنے کا مشورہ دے رہے ہوں۔ اچھے بھائی نے ہاتھ کا رخ تبدیل کرکے چاے کی پیالی تھام لی۔ مگر یہ کیا! اچانک ان کی نظر چاے میں تیرتی ہوئی ننھی منی سی کالی چیز پر پڑی…. کچھ لمحے چاے کی پیالی ہاتھ میں تھامے بیٹھے رہے کہ کیا کریں؟ میزبان کو شرمندگی سے بھی بچانا چاہتے تھے اور آنکھوں دیکھی ’’چیونٹی‘‘ بھی نہیں نگل سکتے تھے۔ چنانچہ بات کو مزاح کا رنگ دے کر بولے:’’ارے دیکھیں تو آپا! چاے میں چیونٹی اپنا ساتواں چکر مکمل کررہی ہے….. ‘‘
’’چیو…. نٹی…..!‘‘ آپا نے حیرت کا مظاہرہ مناسب سمجھا:’’ذرا دیکھوں تو….. ‘‘
پھر چاے کی پیالی میں جھانکتے ہوئے بولیں :’’اے ہٹو! یہ تو مری ہوئی ہے!‘‘ آپا مطمئن ہوکر دوبارہ تخت پر جا بیٹھیں۔
’’مری ہوئی ہے یا زندہ ہے….. مگر چیونٹی چاے میں کر کیا رہی ہے؟‘‘ اچھے بھائی آپا کی بے نیازی پر جِھلا گئے۔
’’اے بھیا! چیونٹی ہی ہے نا….. کوئی مکھی تو نہیں!‘‘ آپا نے نیا نکتہ اُٹھایا۔
’’مگر آپا چیونٹی بھی تو کیڑا ہی ہے نا….. ویسے بھی چیونٹی میں نائٹرک ایسڈ ہوتا ہے جو انسانوں کے لیے زہر ہے۔‘‘
’’ارے بھئی! اس ننھی سی جان میں بھلا کتنا نائٹرک ایسڈ ہوگا جو جان پہ بن آئے۔ لاڈو کے ابّا کی چاے میں تو ایک نہیں کئی کئی چیونٹیاں تیررہی ہوں ذرا خاطر میں نہیں لاتے….. پھونکیں مار کے ہٹاتے رہتے ہیں، مجال ہے جو ایک چیونٹی بھی منھ میں چلی جائے۔‘‘
’’مگر آپا! مجھ سے توپھونکوں سے چیونٹیوں کو ہٹایا نہ جائے گا۔ ‘‘اچھے بھائی نے چاے میز پر رکھ دی۔ گویا صبر کرلیا۔
’’اے لو! چاے کیوں رکھ دی ….. میں ابھی نکالے دیتی ہوں…. ‘‘
اچھے بھائی نے ٹھنڈی سانس بھری کہ اب ضرور چمچے کی ڈھونڈیا مچے گی مگر صفّو آپا اٹھیں اور انگلی کی پور چاے میں گھسا کے چیونٹی نکالتے ہوئے بولیں۔
’’لو دیکھو بھلا! یہ چیونٹی ہے….. پتی ہے پتی چاے کی…..!‘‘
چیونٹی ہو یا پتی….. اب تو چاے میں انگلی ڈال کر ویسے بھی چاے کو ناقابلِ برداشت بنادیا تھا۔ اچھے بھائی نے پیالی کھسکا کر مزید دور کردیا۔
’’ارے بڑی وہمی ہو تم بھی….. کہانا! پتّی ہے پتّی۔‘‘
’’ہاں اور کیا پتی ہی تو ہے !‘‘ صفّو آپا کے سب بچے یعنی سارے میزبان ایک طرف ہوگئے اور اچھے بھائی اکیلے پڑگئے۔ سامنے پرچ میں ابھی تک چاے کی پتی الٹی پڑی اپنی چھ ٹانگیں ہلاکر سیدھا ہونے کی کوشش کررہی تھی۔ اچھے بھائی جلدی سے اٹھے اور نہانے گھس گئے۔ صفّو آپا نے بڑبڑاتے ہوئے کہا۔
’’ارے بھئی ایسے نخرے والے مہمانوں سے تو تو بہ ہی بھلی….. اچھی بھلی چاے پڑی کی پڑی رہ گئی۔ بیٹا لاڈو! اسے تھرماس میں رکھ دو….. تمہارے ابا آتے ہی ہوں گے۔‘‘
کچھ دن یہاں رہ کر اچھے بھائی کو احساس ہوا کہ میزبان اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ڈیپ فریزر اور ریفریجریٹرز کی انقلابی ایجادات محض اس لیے کی گئیں کہ ان میں رکھا ہوا بدمزہ کھانا کئی روز تک پڑے رہنے کے باوجود مزید بدمزہ یا باسی نہیں ہوتا۔ جتنے دن چاہو رکھو پھر نکال کر گرما لو۔
کھانے کے بعد صفّو آپا نے فرج سے تین سیب برآمد کیے۔ سیبوں کی حالت زار کچھ ایسی تھی کہ انہیں ایک ہفتہ پہلے پھینک دیا جانا چاہیے تھا۔ بہرحال صفّو آپا نے کسی سلیقہ مند خاتون کی طرح چاقو سنبھالا اور سیب چھیلنا شروع کیے۔ ساتھ ہی سیب کے گلے سڑے حصے الگ کرتی گئیں۔ آخر میں جب پلیٹ کی طرف دیکھا تو صرف گلے ہوئے چھلکے پڑے تھے (کیونکہ صاف حصہ کوئی تھا ہی نہیں) صفّو آپا نے نظر ثانی کے بعد اس میں سے چند ٹکڑے نکالے اور اچھے بھائی کو پیش کیے بقیہ سیب کے چھلکوں کو چاقو سے کریدتے ہوئے بولیں:’’یہ چھلکے ہیں نا، ان کی بڑی مزے دار بھجیا بنتی ہے۔‘‘
’’کک….. کیا!‘‘ اچھے بھائی لرز اٹھے۔’’مم….. میں بھجیا نہیں کھاتا بلکہ مجھے بھجیا سے نفرت ہے…‘‘
’’اچھا تو یہ سیب تو کھاؤنا! ‘‘ صفّو آپا نے اصرار کیا۔ اچھے بھائی نے مجبوراً سیب کا ایک ٹکڑا اٹھاکر منھ میں ڈال لیا انہیں ایسا لگا جیسے سڑا ہوا آلو کھارہے ہوں۔ بمشکل تمام وہ قاش حلق سے اتار کر بولے: ’’آپا! سیب بچوں کو کھلائیں بڑھتے ہوئے بچوں کو پھل کی ضرورت ہوتی ہے….. مجھے تو ویسے بھی سیب پسند نہیں۔‘‘ حقیقت یہ تھی کہ سیب تو پسند تھا فوڈ پوائزن پسند نہیں تھا۔
’’اچھا تو لاڈو….. ارے لاڈو….. اپنے اچھے ماموں کو مٹھائی کھلادو۔‘‘ آپا خاطر داری پہ تلی ہوئی تھیں۔ لاڈو کو اتنا لاڈ پیار دیا گیا تھا کہ اس نے اماں کی بات کا جواب دینا بھی ضروری نہ سمجھا اور بیٹھی لوڈو کھیلتی رہی۔ آخر آپا نے منجھلی لڑکی کو آزمایا۔ ’’بیٹا گڈی….. ذرا فرج سے مٹھائی تو نکال لاؤ….. ماموں کے لیے ۔ ‘‘ گڈی نے دھڑ سے فرج کھولا اور مٹھائی کا ڈبہ نکال کر ماموں کے سامنے پٹخ دیا۔ اچھے بھائی نے محسوس کیا اس گھرانے میں مکمل طور پر ’’پٹخاؤ سسٹم‘‘ رائج ہے۔ ہر چیز مہمان کے سامنے جیسی ہے اور جہاں ہے کی بنیاد پہ پٹخ دی جاتی ہے۔ نہ چمچہ نہ کوارٹر پلیٹ نہ ہی مہمان کو ناشتے کی پلیٹ اٹھاکر پیش کرنے کا رواج تھا۔ مثلاً چیوڑا ایک بڑی پلیٹ میں لاکر دور میز پر پٹخ دیا جاتا۔ اب چیوڑا اتنا پسندیدہ آئٹم بھی نہیں (اور وہ بھی ان کے گھر کا چیوڑا) کہ جس کی خاطر مہمان باربار اُچک اُچک کر میز پر جائے…. مٹھی بھر بھر کر چیوڑا اٹھائے اور پھر صوفے پہ بیٹھ کر کھائے….
’’کھاو نا!‘‘ آپا نے ازراہِ عنایت سروتے سے ڈبے کا ڈھکن ہٹادیا۔ اچھے بھائی نے بادل نخواستہ ایک لڈو اٹھایا تو ایک چھوٹا سا لال بیگ ہڑ بڑا کر ڈبے سے نکل کر بھاگا۔ غالباً وہ اسی لڈو کے نیچے لیٹ کر آرام کررہا تھا اور اچھے بھائی اس کے آرام میں مخل ہوئے تھے۔
اچھے بھائی اس نتیجے پر پہنچے کہ صفّو آپا کے بچوں سے زیادہ مہذب اور تربیت یافتہ اس گھر کے لال بیگ اور چیونٹے ہیں۔ بیچارے جونہی دیکھتے ہیں کہ وہ جس چیز پہ محواستراحت ہیں اسے مہمان کے سامنے پیش کردیا گیا ہے تو فوراً راستہ دے کر الگ ہٹ جاتے ہیں۔
صفّو آپا نے بھاگتے ہوئے لال بیگ پر سروتا مارتے ہوئے قدرے خجالت سے کہا: ’’کم بخت فرج میں بھی گھس جاتے ہیں….. پورے گھر پہ انہوں نے قبضہ کیا ہوا ہے…..‘‘
اچھے بھائی نے سوچا جس گھرمیں صفائی ستھرائی کی صورتِ حال اتنی ابتر ہو وہاں کیڑے مکوڑوں کا راج نہ ہو تو حیرت ہے۔ لال بیگ اور جھینگروں کی موجودگی میں قصور ان کیڑوں کا نہیں ہوتا بلکہ ان مکینوں کا ہوتا ہے جو اپنے گھروں میں کیڑوں کو پھلنے پھولنے کے لیے ساز گار ماحول فراہم کرتے ہیں۔
’’ارے میٹھا کھانے کا موڈ نہیں تو چیوڑا منگوادوں۔ منھ نمکین ہوجائے گا۔‘‘ صفّو آپا نے کہا۔
’’نن….. نہیں…. میں سونے جارہا ہوں…..‘‘ اچھے بھائی نے پسینہ پونچھتے ہوئے گڑ بڑا کر کہا اور لڈوڈبے میں رکھ کر کمرے میں بھاگے۔
چیوڑا اچھے بھائی کے اعصاب پہ ایسا سوار ہوا کہ خواب میں بھی انہیں چیوڑا ہی دکھائی دیا….. انہوں نے دیکھا کہ آپا ایک تھال میں مختلف اقسام کے کیڑے مکوڑے بھر کر لائیں۔ اچھے بھائی بیک وقت اتنے سارے کیڑے دیکھ کر دہشت زدہ ہوگئے ….. ’’یہ کیا….. کیڑے۔‘‘
’’ارے یہ چیوڑا ہے چیوڑا….. کیڑا نہیں….. تمھیں یاد نہیں پچپن میں کتنے شوق سے کھایا کرتے تھے۔‘‘
’’اوہ! مجھے معلوم نہیں تھا کہ میرے پچپن والا چیوڑا آپ نے ابھی تک سنبھال کر رکھا ہوا ہے۔ اگر مجھے معلوم ہوتا کہ بڑے ہوکر پچیس سال پرانا چیوڑا کھانا پڑے گا تو میں اپنے بچپن میں ہی اسے کھا کر ختم کردیتا۔ اچانک بیک گراؤنڈ سے خوفناک بازگشت سنائی دیتی ہے۔
’’چیوڑا …. چیو …. ڑا…. ڑا…. ڑا…. کھاؤ …. آؤ …. بچاؤ …. چاؤ…. چاؤ…. ‘‘اور اچھے بھائی ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھے۔
اچھے بھائی کو حیرت تھی کہ صفّو آپا کے سب بچے زندہ تھے…. یعنی کسی کو بھی یہ سڑی گلی غیر صحت بخش اشیاء کھا کر ’کچھ‘ نہیں ہوا تھا لیکن اچھے بھائی اس گھر کا پہلا شکار نہیں بننا چاہتے تھے چنانچہ اپنا بوریا بستر سمیٹ کر واپسی کا ارادہ کیا۔ صفّو آپا نے بہت پوچھا کہ بھیا، بہن سے کیا خطا ہوگئی…. کوئی بات ناگوار گزری یا خاطر داری میں کوئی کسر رہ گئی؟ اب بھلا بھیا کیا کہتے۔
ان کے جانے کے بعد لاڈو بولی: ’’اماں آپ تو کہہ رہی تھیں کہ یہ اچھے ماموں ہیں بھلا ایسے ہوتے ہیں اچھے ماموں….. نک چڑھے اور سو نخروں والے….. یہ تو اچھے ماموں نہیں بلکہ سڑیل ماموں تھے …. سڑیل !‘‘
’’ہاں بالکل سڑیل….‘‘ سب بچوں نے متفقہ فیصلہ سنا دیا اور صفّو آپا ابھی تک الجھن میں تھیں کہ دراصل سڑیل کون ہے؟