سزا
فوزیہ خلیل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دروازے کی جھری میں سے دو بوڑھے، کمزور اور جھریوں زدہ ہاتھ نظر آرہے تھے۔ لرزتے ہوئے ۔ اﷲ سے کچھ مانگتے ہوئے۔ گڑگڑاتے ہوئے۔ ان ہاتھوں کو دیکھ کر وہ بے اختیار رو دیا۔ ٹپ ٹپ آنسو اس کے چہرے پر بہنے لگے۔
حدید اپنے دونوں بھائیوں عبید اور نوید میں سب سے بڑا تھا۔ بڑا ہی ذہین، سنجیدہ اور فرمانبردار۔ ہر جماعت میں لازمی پوزیشن لیتا۔ اپنے گھر میں بھی چہیتا تھا۔ اپنی جماعت میں بھی مقبول تھا۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب حدید کی والدہ سخت بیمار پڑیں۔ حدید کے والد کاروباری دورے پر شہر سے باہر تھے۔ گھر پر صرف وہ تھا یا پھر دونوں چھوٹے بھائی عبید اور نوید۔ والدہ کو سخت بخار تھا۔ تمام رات وہ ان کے سرہانے بیٹھا رہا اور ٹھنڈے پانی کی پٹیاں بھگو بھگو کر ماتھے پر رکھتا رہا۔ ساتھ ساتھ ان کی صحت یابی کی دعائیں بھی کرتا رہا۔ فجر کے قریب ذرا دیر کو اس کی آنکھ لگ گئی۔ وہ نیا نیا آٹھویں جماعت میں آیا تھا۔ لڑکوں سے سننے میں آرہا تھا کہ آٹھویں جماعت کے لیے نئے استاد آئے ہیں۔ بڑے سخت ہیں۔
حدید کی جب آنکھ کھلی تو اس کی وین نکل چکی تھی۔ افراتفری کے عالم میں وہ تیار ہوا اور اسکول بھاگا۔ امی کی طبیعت کچھ بہتر تھی۔ پبلک بس سے جب وہ اسکول پہنچا تو لڑکے اسمبلی کے بعد جماعتوں میں جا چکے تھے۔ اس نے جھانک کر اپنی جماعت میں دیکھا تو بڑے سخت سے چہرے والے استاد کمرے میں نظر آئے۔ ان کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی۔
’’سر وارث ، وہ حدید آیا ہے۔‘‘ایک لڑکا بولا۔
سر وارث نے گھوم کر حدید کو دیکھا۔
’’ کیوں رے شہزادے۔۔۔ یہ اسکول آنے کا ٹائم ہے۔ میاں یہ اسکول ہے کوئی پارک نہیں ہے۔ جب جی چاہا آگئے۔ اور جب جی چاہا ٹہلتے ہوئے نکل لیے۔‘‘ انہوں نے غراتی آواز میں کہا اور ساتھ ہی اپنی چھڑی لہرائی۔ وہ چھڑی اتنی زور سے اس کے داہنے ہاتھ پر لگی کہ اس کی سسکی نکل گئی۔ وہ ڈبڈبائی ہوئی آنکھوں سے وہیں بیٹھ گیا۔ زندگی میں پہلی بار اس نے مار کھائی تھی اس کا ہر کام اتنا بروقت اور مکمل ہوتا تھا کہ مار تو کجا ڈانٹ تک کی کبھی نوبت نہ آئی۔
سروارث نے اسے سر کے بالوں سے پکڑ کر اٹھایا اور آگے دھکیل دیا۔ وہ لڑکھڑاتا ہوا اپنی نشست پر جا بیٹھا۔
کل میں ریاضی کا ٹیسٹ لوں گا اور اگر کوئی لڑکا فیل ہوا تو ایسی دھنائی کروں گا کہ یاد رکھے گا۔ ‘‘ وہ کہہ رہے تھے۔
چھٹی تک وہ بے حد اداس اور غمزدہ رہا۔ وہ گھر واپس آیا۔ تو والدہ کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔ والد کسی مجبوری کی بناء پر گھر نہ پہنچ پائے تھے۔ گھر پہنچ کر وہی ہوٹل سے جا کر روٹیاں لایا۔ دونوں بھائیوں کو کھانا دیا۔ امی کو دودھ کے ساتھ دوائیں کھلائیں۔ عبید اور نوید کو امی ہوم ورک کراتی تھیں۔ آج ہوم ورک بھی اسی کو کرانا پڑا۔ رات جب وہ بستر پر لیٹا تو اسے ریاضی کے ٹیسٹ کا خیال آیا۔ اس نے لیٹے لیٹے ہاتھ بڑھا کر کاپی اٹھا لی۔ اسے تقریباً سبھی کچھ آتا تھا۔ لیٹتے ہی اس کی آنکھ لگ گئی۔
حدید سو کر اٹھا تو داہنا ہاتھ بری طرح سوج چکا تھا ۔ کل جب سے چھڑی پڑی تھی۔ تکلیف جبھی سے شروع ہوگئی تھی مگر اب بہت بڑھ گئی تھی۔ اس نے امی کو پریشان کرنا منا سب نہ سمجھا خود ہی درد کی کریمیں لگاتا رہا اور اسکول چلا گیا۔
پہلے ہی پیریڈ میں سروارث آگئے اور ٹیسٹ شروع ہو گیا۔ اس کے داہنے ہاتھ میں سخت درد تھا۔ گو کہ ہر سوال اسے آتا تھا مگر وہ کچھ بھی لکھ نہ پایا۔
سر وارث راؤنڈ لے کر اس کے قریب پہنچے تو کاپی خالی پڑی تھی۔ انہوں نے چھڑی اٹھائی اور حدید کی پٹائی شروع کر دی۔ انہوں نے حدید کی جانب سے کوئی وضاحت نہ سنی۔ مار مار کر اسے کلاس سے باہر نکال دیا۔
*۔۔۔*
رات میں حدید جب بستر پر سونے لیٹا تو جسم کے ہر حصے میں درد ہو رہا تھا۔ صبح جب وہ اٹھا تو بڑی بددلی سے تیار ہوا۔ عبید اور نوید جب اسکول گیٹ سے اندر داخل ہو گئے تو وہ وہاں سے واپس پلٹ آیا۔ اسکول سے ملحق ایک بڑا سا پارک تھا۔ وہ وہاں جا بیٹھا۔ ابو کے ساتھ وہ اکثر چہل قدمی کے لیے وہاں آتا رہا تھا۔ اس نے ایک بڑے سے گھنے درخت سے ٹیک لگا لی اور بیٹھ گیا۔
’’ کیا میں ایسا بچہ ہوں۔ جو اسکول جانے سے کتراتے ہوں۔ نہیں ہر گز نہیں۔ مجھے اسکول چلے جانا چاہئے۔ وہ سوچتا رہا۔ مگر سر وارث کا خیال آتے ہی اس نے اپنا ارادہ بدل دیا۔ ٹھنڈی ہواچل رہی تھی۔ حدید کی آنکھ لگ گئی۔
اس کی آنکھ کھلی تو اسے تیز بخار ہو رہا تھا۔ اس نے اٹھناچاہا تو نہ اٹھ سکا اسے تین آدمی اپنی جانب آتے دکھائی دیے۔ ایک نے آگے بڑھ کر ایک تیز خوشبو والا رومال اس کی ناک سے لگا دیا۔ بخار اتنا تیز تھا کہ وہ کچھ مزاحمت بھی نہ کر سکا اور فوراً بے ہوش ہو گیا۔
حدید کو جب ہوش آیا تو وہ خشک گھاس پر تنہا پڑا تھا۔ کچھ فاصلے پر تین چار آدمی بیٹھے تھے۔ ہوش میں آتے ہی اس نے ہلنے جلنے کی کوشش کی مگر بیماری اور نقاہت کے باعث وہ حرکت نہ کر سکا۔
’’اوہ۔۔۔ بچے۔ ہوش میں آگئے تم۔ ‘‘ ایک اٹھ کر اس کے قریب آگیا اور پیار سے اس کا ہاتھ تھام لیا۔
’’ اس کا بخار کافی تیز ہے۔ ہاتھ کی ہڈی میں بھی ورم ہے۔ وزیر اعلیٰ ۔ تم جلدی سے نواب بخت کو بلاؤ۔ تاکہ علاج معالجہ شروع ہو۔ ‘‘ وہ بولا۔
پھر وہ ذرا ہی دیر میں گرم گرم سوپ لے آیا اور چمچے سے آہستہ آہستہ اس کو پلانے لگا۔ وہ ان سب کا باس تھا۔
وزیر اعلیٰ ذرا ہی دیر میں نواب بخت کو بلا لیا۔
’’ یہ نواب بخت، ڈاکٹر تو نہیں ہے۔ مگر اچھا علاج کرنا جانتا ہے۔ ہم سب کا علاج یہی کرتا ہے۔ ہم جرائم پیشہ لوگ آزادانہ گھوم پھر تو نہیں سکتے ناں۔‘‘ باس بولا۔
ذرا ہی دیر میں نواب بخت نے ہاتھ کی پٹی بڑے اچھے طریقے سے کر دی۔ دوائیں وغیرہ اس کے پاس ہی تھیں۔ سوپ پلانے کے بعد اسے دوائیں دے دی گئیں۔
وزیر اعلیٰ اسے یہاں سے اندر کمرے میں لے جاؤ۔ آرام سے لٹا دو۔ شام میں اسے دلیہ دینا ہے۔‘‘
’’ نن۔۔۔ نہیں۔‘‘ حدید نے ہاتھ اٹھایا۔ ’’ میں۔۔۔ ‘‘ وہ کچھ چاہتا تھا۔ گھر جانے کی خواہش کرنا چاہتا تھا مگر بول نہ پایا۔ زبان لڑکھڑا کر رہ گئی۔ وہ دوبارہ غنودگی میں چلا گیا۔
تین چار روز بعد حدید اس قابل ہو گیا کہ چل پھر سکتا تھا۔ بول سکتا تھا ہاتھ کی سوجن بھی اتر گئی تھی۔ دو روز سے اس نے باس کو نہیں دیکھا تھا۔ وزیر اعلیٰ اور نواب بخت اس کے پاس مسلسل چکر لگاتے تھے۔ وہ باس سے ملنا چاہتا تھا۔ اس سے کہنا چاہتا تھا کہ وہ گھر جائے گا۔
رات میں اسے نواب بخت ، باس کے ساتھ آتا نظر آیا۔
’’ آپ ۔۔۔ آپ کیسے ہیں باس۔ ‘‘ حدید خوش ہو کر بولا۔ اتنے دنوں میں ایک لمحہ بھی اسے یہ احساس نہ ہوا تھا کہ وہ ان سے دور ہے۔ ان لوگوں نے اس کا اس قدر خیال رکھا کہ وہ دنگ رہ گیا۔
’’ تم کیسے ہو بچے۔ ان لوگوں کی طرف سے تمہیں کوئی پریشانی تو نہ ہوئی۔ ‘‘ باس نے اس کا شانہ تھپتھپایا۔
’’ نہیں باس ۔ پریشانی کیسی۔ ان سب نے تو میرا بھائیوں سے بھی بڑھ کر خیال رکھا۔ میں تو سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ جرائم پیشہ افراد ایسے بھی ہو سکتے ہیں۔ مگر باس۔ اب میں گھر جانا چاہتا ہوں۔ آپ لوگ مجھے یہاں کیوں لائے؟؟‘‘
’’اصل میں ہم کو ایسے لڑکے کی تلاش تھی۔ جو گھر سے یا اسکول سے بھاگا ہوا ہو۔ بس ہم تم کو پکڑ کر لے آئے۔‘‘
’’ نہیں باس۔ میں اسکول سے۔۔۔‘‘ اسکول کا ذکر کرتے ہی اس کے ذہن میں اس کا شاندار تعلیمی ریکارڈ آیا۔ کیا وہ اسکول سے بھاگنے والا بچہ تھا۔ ایک ذہین اور مقبول طالبعلم ۔ اس کے ذہن میں سروارث آگئے۔ استاد کا ایک روپ ا س نے نظر بھر کر باس کو دیکھا۔ معاشرے کی نظر میں ایک مجرم۔ دونوں کے رویوں میں کس قدر فرق تھا۔ باس کا مشفقانہ رویہ جس نے اسے دوسری زندگی دی۔ دو آنسو ٹوٹ کر اس کے گریبان میں جذب ہو گئے۔ ایک نے اس کو ضرب لگائی جبکہ دوسرا مسیحا بنا۔
وہ آہستہ آہستہ ان لوگوں کو اپنے بارے میں، سر وارث کے بارے میں بتانے لگا۔
’’ اب ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ ہم تم کو غلط فہمی میں لے آئے۔ تم تو یقیناًپڑھ لکھ کر معاشرے میں بہت عزت سے روزی کما سکتے ہو مگر ہمارا مسئلہ کچھ یوں ہے کہ اس شہر سے جہاں سے تم لائے گئے ہو۔ وہ یہاں سے بہت ہی دور ہے۔ یوں سمجھ لو کہ ہم بارڈر کراس کر چکے ہیں۔ تمہاری واپسی اب اتنی آسانی سے ممکن بھی نہیں۔ تنہا تم نہیں جا پاؤ گے۔ ہم میں سے کوئی تم کو چھوڑ کر فی الحال نہیں آسکتا۔ اس لیے کہ ہم وہاں ایک بڑا جرم کر کے بھاگے ہیں۔ ہماری تیزی سے تلاش جاری ہے۔ ‘‘ باس بولا۔
یہ ایک بڑی گھمبیر صورت حال تھی۔ اس پر بڑا غور و فکر ہوا۔ کئی تجاویز پیش ہوئیں۔ مگر حدید کی واپسی کی کوئی صورت حال نہ بن پائی۔ حدید وہیں رہنے لگا۔ دن، ہفتے اور ہفتے مہینوں میں بدلنے لگے۔
حدید ان لوگوں میں رچ بس گیا۔ ان لوگوں کے ساتھ ڈاکے ڈالنے لگا۔ وہ سب حدید کا چھوٹے بھائیوں کی طرح خیال رکھتے۔ شروع میں تو وہ اکثر اپنے گھر والوں کو یاد کرکے غمگین ہو جاتا مگر آہستہ آہستہ وہ سب بھولنے لگا۔ اسے صرف یہی یاد رہ گیا۔ وہ ایک مجرم ہے۔ چور ہے، ڈاکو ہے۔ باس کا ساتھی ہے۔
*۔۔۔*
بیس سال گزر گئے۔ باس بوڑھا ہو چکا تھا۔ اب مشورے کی حد تک ان لوگوں کا ساتھ دیتا۔ اس رات وہ لوگ ڈاکے کی نیت سے ایک گھر میں کودے۔ مالک مکان کی آنکھ کھل گئی۔ حدید سب سے آگے تھا۔ مالک مکان ایک نہایت دلیر آدمی تھا۔ ریٹائرڈ فوجی دکھائی دے رہا تھا۔ اس نے آناً فاناً ایک لمبے پھل والا چاقو نکال لیا۔ اس نے تیزی سے حدید پر حملہ کیا۔ چاقو پیشانی اور گال کو کاٹتا ہوا گردن تک پہنچ گیا۔ بھل بھل خون بہنے لگا۔ وہ تیورا کر وہیں فرش پر گر گیا۔ مالک مکان تیزی سے پولیس کے نمبر ملانے لگا۔ نواب بخت باہر کھڑا تھا۔ حدید نے لیٹے لیٹے نواب بخت کو بیل دی۔ نواب بخت تیر کی طرح اندر دوڑا۔ اس سے قبل کہ مالک مکان نمبر ڈائل کرنے میں کامیاب ہوجاتا نواب بخت نے اس کی ٹانگوں پر فائر کیا۔ نواب بخت نے فرش پر سے حدید کا پستول اٹھایا۔ اسے کندھے پر ڈالا اور تیزی سے باہر نکل گیا۔ گاڑی کے پاس وزیر اعلیٰ کھڑا تھا۔ وہ لوگ تیزی سے سوار ہوئے اور روانہ ہو گئے۔
تاریخ ایک مرتبہ پھر اپنے آپ کو دوہرا رہی تھی۔ آج پھر حدید بیمار تھا۔ نواب بخت اس کا معالج تھا۔ مگر آج حدید بچہ نہیں تھا، جوان تھا۔ حدید کے ذہن میں وہ سارے مناظر گھومنے لگے۔ جب وہ یہاں آیا تھا۔ ایک بار پھر اس کے ذہن میں پرانے واقعات تازہ ہونے لگے۔
حدید کا زخم کافی گہرا تھا۔ اسپتال میں علاج کرانے کی ضرورت تھی۔ مگر اب وہ ایک بڑا مجرم بن چکا تھا۔ آزادانہ اسپتال میں علاج کرانا اس کے لیے بڑا خطرناک تھا۔
اس دوپہر اس کی طبیعت کچھ بہتر ہوئی تو نہا دھو کر بال بنانے آئینے کے سامنے جا کھڑا ہوا۔ زخم بھر چکا تھا۔ تکلیف ختم ہو چکی تھی۔ مگر پریشانی سے لے کر گردن تک زخم اپنا بدنما نشان چھوڑ چکا تھا۔
اب کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ میں ایک مفرور اور خطرناک مجرم ہوں۔ میرا چہرہ خود بتا رہا ہے۔ پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ حدید تم ایک مجرم ہو۔ مجرم ہو۔ مجرم ہو۔‘‘ وہ سوچنے لگا۔ سوچتا رہا۔ سوچتا رہا۔ پرانا حدید کہیں کھو چکا تھا۔ اس کا دل اکتاہٹ اور بے زاری کا شکار ہونے لگا۔ وہ اس وقت تنہا تھا۔ سب باہر گئے ہوئے تھے۔ وہ خوامخواہ کمرے کی الماریاں کھولنے لگا۔ اچانک اس کی نظر اپنے پرانے یونیفارم اور جوتوں پر پڑی۔ جو بیس سال قبل وہ یہاں پہن کر آیا تھا۔ اس نے وہ کپڑے باہر نکلا لیے۔ اور انہیں دیکھنے لگا۔’’ کاش سروارث میری زندگی میں نہ آتے۔ تو آج میں۔۔۔‘‘ وہ سوچنے لگا۔ وہ ان کپڑوں پر اپنے ہاتھ پھیرنے لگا۔’’ ان کپڑوں کو امی نے دھویا تھا۔ ان کے ہاتھ لگے ہوں گے ان کپڑوں پر۔‘‘ وہ ان کپڑوں پر سر رکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ کچھ دیر بعد اس نے وہ طے کرکے وہیں رکھے اور بے زاری اور اکتاہٹ کے عالم میں باہر نکل آیا۔ دوپہر کا وقت تھا۔ وہ کچھ فاصلے پر جا کر ایک دکان کے قریبی چبوترے پر بیٹھ گیا۔ اور آتے جاتے لوگوں کو گزرتے دیکھنے لگا۔
تھوڑی دیر بعد اس سے ذرا فاصلے پر ایک عورت آکر کھڑی ہو گئی وہ کسی کا انتظار کررہی تھی۔ پھر ایک اسکول وین آکر رکی اور ایک دس بارہ سالہ پیارا سا بچہ یونیفارم پہنے باہر نکلا۔ اس کے ہاتھ میں رپورٹ کارڈ تھی۔ وہ دوڑ کر اپنی ماں کی طرف لپکا اور خوشی سے چلا کر بولا۔
’’ پیاری امی۔ میں پھر فرسٹ آیا ہوں۔ ‘‘ اس نے نرمی سے ماں کے ہاتھ تھام لیے۔
ماں کا چہرہ خوشی سے دمکنے لگا۔ اس نے بچے کو سینے سے لگا لیا۔
’’ مجھے امید تھی میرا حدید فرسٹ آئے گا۔ ماں نے کہا۔ پھر وہ دونوں ہاتھ تھام کر آگے بڑھ گئے۔
حدید کو محسوس ہوا کہ جیسے اس کی ماں اس کو کہہ رہی ہو۔
’’ مجھے امید تھی کہ میرا حدید فرسٹ آئے گا۔ ‘‘ اور واقعی وہ بھی اپنی رپورٹ کارڈ لے کر جب ماں کو دکھاتا تھا۔ وہ بھی ایسے ہی حدید کو کہتی تھی۔ ایسے ہی سینے سے لگاتی تھی۔ دکھ اس کی رگ رگ میں اتر گیا۔ وہ دور تک حدید اور اس کی ماں کو جاتا دیکھتا رہا۔ اس کو لگا جیسے وہ اپنی ماں کے ساتھ جا رہا ہے۔ اسی لمحے اس نے ایک نیا عزم کیاا ور اٹھ کھڑا ہوا۔
*۔۔۔*
وہ گھر پہنچا تو اور کوئی نہ تھا صرف باس آچکا تھا۔ وہ سیدھا باس کے کمرے میں پہنچا۔
’’باس۔۔۔ میں نے ایک فیصلہ کیا ہے۔ باس میں گھر جانا چاہتا ہوں۔ مجھے صرف آپ کی اجازت درکار ہے۔ باقی تمام کام میں خود کر لوں گا۔ میں امید کرتا ہوں۔ آپ منع نہیں کریں گے۔ باس اب میں مزید رک نہیں پاؤں گا۔ میں اپنی ماں کے پاس جانا چاہتا ہوں۔‘‘ وہ بچوں کی طرح رونے لگا۔
’’اگر تم فیصلہ کر رہی چکے ہو تو فوراً چلے جاؤ۔ باقی وزیر اعلیٰ وغیرہ کو آگاہ مت کرو۔ شاید وہ تمہیں جانے نہ دیں۔ انہیں میں خود سنبھال لوں گا۔ بہرحال تم مجھے بیٹے کی طرح عزیز ہو۔ مگر میں تمہیں بتا دوں کہ تمہارے پاس کوئی ہنر نہیں ہے۔ تمہیں معاش کے سلسلہ میں دشواری ہوگی۔ ‘‘
’’ نہیں باس۔ میں کچھ نہیں جانتا۔ مجھے جانے دیں۔‘‘
باس نے الماری کھول کر نوٹوں کی گڈیاں نکال نکال کر اس کی جیبوں میں ٹھونسنا شروع کر دیں۔
’’جاؤ امید ہے ان پیسوں سے تمہارا کافی وقت اچھا گزر جائے گا۔‘‘ وہ لپک کر باس کے سینے سے لگ گیا۔ باس بولا ’’ ہم سے کوئی کوتاہی ہو تو معاف کر دینا۔‘‘
’’کوتاہی کیسی۔۔۔ باس ۔ کوتاہیاں تو میں نے کی ہیں۔ آپ سب لوگ تو۔۔۔‘‘ وہ کہہ نہ سکا۔
آنسوؤں کی دھند لاہٹ میں باس نے اسے رخصت کر دیا۔ تھوڑی دور جا کر اس نے مڑ کر باس کو دیکھا ۔وہ آہستہ آہستہ ابھی تک ہاتھ ہلا رہا تھا۔ اس کا فیصلہ اتنا اچانک تھا کہ باس کو یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ حدید یہاں سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہو چکا ہے۔
*۔۔۔*
حدید کو اپنے شہر پہنچنے میں بہت زیادہ دشواری نہ ہوئی۔ اپنے شہر پہنچ کر وہ عقیدت سے ہر ہر سمت دیکھتا رہا۔ بہت کچھ بدل چکا تھا۔ بیس سال ایک بڑا طویل عرصہ ہوتا ہے۔ وہ جب اس شہر سے گیا تھا تو بمشکل تیرہ چودہ برس کا تھا۔ وہ ادھر ادھر گھومتا رہا۔ ٹیکسی ڈرائیور کو اس نے اپنے اسکول کا نام بتایا۔ ذرا ہی دیر میں اس نے ٹیکسی اسکول کے گیٹ کے آگے روک دی۔ اس وقت شام ہو رہی تھی۔ اسکول خالی پڑا تھا۔ اسکول کے رنگ وروغن اور عمارت میں بہت تبدیلیاں ہو چکی تھیں مگر اسے پہچاننے میں لمحہ بھر بھی نہ لگا۔ وہ عقیدت سے اسکول کی دیواروں پر ہاتھ پھیرنے لگا۔ کھلے گیٹ سے اندر راہ داریاں اور جماعتیں صاف نظر آرہی تھیں۔ گیٹ کے قریب بیٹھے چوکی داروں نے اسے حیرت بھری نظروں سے دیکھا۔ اس نے ٹیکسی ڈرائیور کو رخصت کر دیا اور اسکول سے گھر پیدل جانے کا فیصلہ کیا۔ یہ وہ علاقہ تھا جہاں اس نے اپنے بھائیوں کے ساتھ بچپن کے خوبصورت ایام گزارے تھے۔ چپے چپے سے یادیں وابستہ تھیں۔ وہ ذرا آگے بڑھا تو اسے وہ پارک نظر آیا جہاں جا کر وہ بیٹھ گیا تھا۔ پارک بہت بدل چکا تھا۔ وہ باہر لگی سلاخوں سے جھانک کر اندر دیکھتا رہا۔ گھنے درختوں کو دیکھتے ہوئے اسے ایک مرتبہ پھر سر وارث کا خیال آگیا۔ سر جھٹک کر وہ مزید آگے بڑھنے لگا۔ اس کے ذہن میں بہت سے خدشات سر اٹھا رہے تھے کہیں گھر بدل نہ لیا گیا ہو۔ کہیں والدین حیات نہ ہوں۔ دعائیں ہی دعائیں مانگتا ہوا۔ وہ آگے بڑھتا چلا گیا۔ وہ جلد از جلد ماں کے قدموں میں جا کر بیٹھ جانا چاہتا تھا۔
اندازے سے اس نے آخری موڑ کاٹا اور دوسرے مکان کے سامنے جا کر کھڑا ہو گیا۔بلاشبہ یہ اسی کا گھر تھا۔ کم و بیش ویسا ہی۔ بہت کم تبدیلیوں کے ساتھ۔ پرانا سا۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر کھٹکھٹانا چاہا مگر دروازہ تھوڑا سا کھلا تھا۔ کچھ سوچ کر وہ بغیر دستک کے اندر داخل ہو گیا۔ راہداری کے بالکل سامنے امی کا کمرہ تھا۔ کمرے کا دروازہ اندر سے بند تھا۔ باقی تمام گھر خالی پڑا تھا۔ باقی لوگ غالباً کہیں گئے ہوئے تھے۔ اس نے امی کے کمرے تک کا فاصلہ بھاگ بھاگ کر طے کیا۔ سانس تیز تیز چل رہی تھی۔ اس نے دروازے کی جھری سے اندر جھانکا۔
دروازے کی جھری میں سے دو بوڑھے، کمزور اور جھریوں زدہ ہاتھ نظر آرہے تھے۔ لرزتے ہوئے۔ اﷲ سے کچھ مانگتے ہوئے۔ گڑگڑاتے ہوئے ان ہاتھوں کو دیکھ کر وہ بے اختیار رو دیا۔ ٹپ ٹپ آنسو اس کے چہرے پر بہنے لگے۔
ان ہاتھوں کو وہ لاکھوں ہاتھوں میں پہچان سکتا تھا۔ یہ اس کی ماں کے ہاتھ تھے۔ ان کی ہلکی ہلکی آواز باہر تک آرہی تھی۔ قریبی رسی پر اس کی ماں کا دوپٹہ پھیلا ہوا تھا۔ اس پر شیشوں کا کام بنا ہوا تھا۔ اس کی ماں کو ہمیشہ سے شیشوں کے کام کے دوپٹوں کا شوق تھا۔ اس نے آگے بڑھ کر دوپٹہ تھام لیا۔ اس نے اپنے کان ماں کی آواز پر لگا دیے۔
’’اے اﷲ میرا حدید خیریت سے ہو۔ اے اﷲ اچھے لوگوں کے ہمراہ ہو جو تیرا دین پھیلا رہے ہو۔ دین کے راستے میں نکلے ہوئے ہوں۔ اے اﷲ اسے برے لوگوں سے ، حرام رزق۔۔۔‘‘ ماں کی آواز ہچکیوں میں ڈوب گئی ۔ باہر وہ بھی کھڑا رو رہا تھا۔
’’ماں میں ویسا نہ نکلا جیسی آپ کی خواہش تھی۔ میں تو۔۔۔ میں تو۔۔۔ بڑا ہی برا آدمی نکلا۔ ‘‘ وہ سوچنے لگا۔ ماں کا دوپٹہ سونگھنے لگا۔ اس میں سے ممتا کی مہک آرہی تھی۔ اچانک شیشوں میں اسے اپنا چہرہ نظر آیا۔ کٹا ہوا۔ مجرمانہ نقوش والا۔
’’ کیا میرا چہرہ دیکھتے ہی وہ سمجھ نہیں جائیں گی کہ میں کیسا آدمی ہوں۔ ان کا کتنا دل دکھے گا۔ ابھی تو انہیں ایک جھوٹی آس ہے ۔ مجھے دیکھ کر یہ آس بھی ختم ہوجائے گی۔ نہیں مجھے ان سے ملاقات نہیں کرنا چاہیے۔ لمحہ بھر میں اس نے یہ فیصلہ کیا۔
اس نے جھری میں سے ان کا چہرہ دیکھنے کی کوشش کی مگر وہ کامیاب نہ ہو سکا۔ ‘‘
’’ عمر کے اس حصے میں آپ کو یہ دکھ نہیں دے سکتا کہ آپ کا بیٹا مجرم ہے۔ پیاری ماں۔ اﷲ حافظ۔ میں آپ کا دوپٹہ لے جا رہا ہوں۔ ان شاء اﷲ دین کے راستے میں نکلوں گا۔ ویسے ہی جیسے آپ کی خواہش ہے۔ اﷲ حافظ۔‘‘اس نے دھیرے دھیرے کہا اور باہر نکل گیا۔ گلی کا موڑ کاٹنے کے بعد اس نے جیبوں میں ٹھنسی نوٹوں کی گڈیاں نکال نکال کر پھینک دیں اور جیب سے لائٹر نکال کر ان میں آگ لگا دی۔
’’ مجھے افسوس ہے باس۔ میں تمہارے دیئے ہوئے آخری تحفے کی قدر نہ کر سکا۔ حرام رزق سے اﷲ تعالیٰ مجھے تمہیں ہم سب کو محفوظ رکھے۔ ‘‘ اس نے آہستہ سے کہا۔ حدید آگے بڑھ گیا۔ نوٹوں کا دھواں اڑتا ہوا دور تک جا رہا تھا۔
*۔۔۔*۔۔۔*