skip to Main Content

موتیوں والا تاج

فوزیہ خلیل

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’یہ چمکتا ہوا موتیوں والا تاج میرا ہے۔ اسے سب سے پہلے میں نے ہی دیکھا تھا‘‘۔ ننھا چوزہ کہہ رہا تھا۔
’’نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔ یہ میں لوں گا۔ میرے سر پر یہ کتنا بھلا معلوم دے گا۔‘‘ بلی کے بچے نے کہا۔
’’یہ میرا ہے۔ میں لوں گا۔‘‘ مرغابی کا بچہ بولا۔
’’نہیں، اسے میں نے اٹھایا تھا‘‘۔ گھوڑے کا بچہ بھی ادھر آنکلا۔
بطخ کا بچہ بھی آگے بڑھا۔ گدھے کا بچہ بھی جھپٹا۔ تیتر اور بٹیر کے بچے بھی آگئے۔ ایک لڑائی شروع ہوگئی۔
’’یہ کیا ہو رہا ہے یہاں پر۔ تم سارے بچے کیوں لڑ رہے ہو‘‘۔ گھوڑا بولا۔
’’میں بتاتا ہوں ابا جان۔ ہم سب اس موتیوں والے تاج پر لڑ رہے ہیں۔ ہر ایک کی خواہش ہے کہ یہ وہی پہنے‘‘۔ گھوڑے کے بچے نے آگے بڑھ کر کہا۔
اس سے پہلے کہ گھوڑا کچھ کہتا پیچھے سے گدھا، تیتر، بٹیر آتے دکھائی دیے۔
’’میرے خیال میں یہ تاج میرا بچہ لے لے۔ وہ تمام بچوں میں سب سے زیادہ ذہین اور سمجھدار ہے‘‘۔ گدھا بولا۔
’’جی نہیں۔ آپ کا بچہ بھلا کب سے ذہین ہونے لگا۔ میرا بچہ سب سے ذہین ہے۔ نہ صرف ذہین بلکہ سب سے نیک بھی ہے‘‘۔ مرغابی بھی آتے ہی بولی۔
’’یہ تاج میرے بچے کا حق ہے۔ اس لیے کہ وہ تمام بچوں میں خوبصورت ہے‘‘۔ بی بطخ نے کہا۔
’’میرا بچہ سب سے طاقتور ہے۔ یہ تاج وہی پہنے گا‘‘۔ گھوڑے نے کہا۔
مرغی، بطخ، تیتر، مرغابی، بٹیر، بلی، گھوڑا، گدھا، کتا سب میں بحث شروع ہوگئی۔
’’یہ میرا بچہ لے گا۔ یہ میرا بچہ لے گا۔ اس میں یہ خوبی ہے۔ اس میں وہ خوبی ہے۔‘‘
اچانک سامنے سے بی بکری اپنے بیٹے کے ساتھ آتی دکھائی دیں۔ بی بکری اب بوڑھی ہوچکی تھیں۔ بزرگی سے قدم اٹھاتی قریب سے گزرنے لگیں۔
’’کہاں جارہی ہیں بی بکری‘‘۔ مرغی بول اٹھی۔
’’اپنے بیٹے کو لے کر آگے بستی میں جا رہی ہوں‘‘۔
’’وہ کیوں بی بکری‘‘۔ مرغابی نے پوچھا۔
’’کل دس ذی الحجہ ہے میرے دوستو! بڑا مبارک دن ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہر سال زندہ کی جاتی ہے جو انہوں نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرکے قائم کی تھی۔ میں اپنے بیٹے کو وہیں لے کر جارہی ہوں۔ وہاں ہمارے بہت سارے ساتھی ہوں گے۔ میرا بیٹا اللہ کے راستے میں قربان ہوگا‘‘۔
’’اللہ کے راستے میں قربان ہوگا؟‘‘ تمام جانور ایک ساتھ بول اٹھے۔
’’ہاں الحمد اللہ۔ ہمارا یہی ارادہ ہے‘‘۔ بکری بولی۔ اس نے مسکرا کر اپنے بیٹے کو دیکھا وہ بھی پرسکون تھا۔ ماں کو دیکھ کر جواباً مسکرایا۔
ننھے چوزے نے نظر بھر کر خوب صورت چمکتے تاج کو دیکھا پھر اٹھا کر بکری کی طرف بڑھایا: ’’یہ آپ کے بیٹے کے لیے‘‘
’’ہاں ہاں۔ بالکل درست۔ ہم سب میں یہی اس تاج کا سب سے زیادہ حقدار ہے‘‘۔ مرغابی بطخ کے بچے بولے۔
’’ہاں ہاں۔ یہ تاج اسی کو ملے گا‘‘۔ باقی جانور بھی چلائے۔
’’یہ تاج بکری کے بیٹے کو ہی ملے گا‘‘۔
’’نہیں میرے بھائیو۔ میرے بیٹے کو کسی تاج کی ضرورت نہیں کیوں کہ اللہ کی راہ میں قربان ہونے سے بڑا کوئی اعزاز نہیں۔ آپ سب کا بہت بہت شکریہ۔ اس کے لیے شہادت کا تاج ہی کافی ہے‘‘۔ بی بکری مسکرائیں اور الوداع کہتے آگے بڑھ گئیں۔ ان کے بچے نے ان کا ساتھ دیا۔
تمام جانور الوداع کہنے لگے۔ یہ آنسو غم کے نہیں تھے۔ خوشی اور فخر کے تھے کہ ان کے ایک ساتھی نے ان کے سر فخر سے بلند کردیے تھے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top