سُپر چوری
حماد ظہیر
………………………………………
جب بھی کہیں برا پھنسانا ہوتا تو ٹیم ہمیشہ ہماری اور سنی کی بنتی ۔ اس کی کئی وجوہات تھیں۔
………………………………………
ہم میں اور سنی ہی میں دم تھا کہ سخت حالات برداشت کرتے۔ گھر والے ہمیں گھر سے دور رکھنے ہی میں عافیت جانتے۔ اکثر تیڑھے مسئلے تیڑھے ہی انداز سے سلجھتے، اس کیلئے یا تو سنی کی انتہائی ذہانت درکار ہوتی یا ہماری انتہائی حماقت۔
اگر ایسے مواقع پر ہمارے ساتھ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آجاتا تو سب کو خوشی ہوتی کہ ہمیں کہیں تو سزا ملی۔ ہمارے ایک دور کے رشتہ دار کا سپر اسٹور تھا۔ جدید ترین سیکورٹی سسٹم کے باوجود وہاں چوریاں ہونے لگیں۔ ذرا سی بھنک پڑنی تھیں کہ ہماری اماں نے نہ صرف ہمیں آگے کیا بلکہ سنی کو بھی بلوا بھیجا۔
’’ہفتہ ڈیڑھ ہفتہ وہاں رہو۔۔۔ یا بھلے اور زیادہ رہو، مگر مسئلہ حل کرکے ہی آنا۔‘‘
*۔۔۔*
’’ یہ تو خالص جاسوسی چکر ہے، کتنا مزہ آئے گا نا!‘‘ ہم تالیاں پیٹ کر بولے۔
’’ میری جان جاسوسی چکر صرف پڑھنے میں مزہ آتا ہے، کرنے میں تو ہر قدم پر موت ہوتی ہے!‘‘ سنی گہری فکر میں نظر آیا۔
’’وہ کیسے؟‘‘
’’بھئی جاسوسی کسی مجرم ہی کی جاتی ہے۔ اب وہ یہ کیسے پسند کرے گا کہ اسے کیفر کردار تک پہنچایا جائے لہٰذا وہ اپنے راستے کی ہر رکاوٹ کو۔۔۔‘‘
اس نے انگلیوں سے قینچی بنائی اور اپنی گردن کے اوپر چلانے لگا!
ہم تھوک نگل کر بولے، بب بھائی، پھر تو واپس ہی چلو۔‘‘
’’ نہیں خیر۔۔۔‘‘ سنی بھنویں اچکا کر بولا۔
’’ اس سپر اسٹور تو ہم جائیں گے ہی اور چند روز گلچھڑے بھی اڑائیں گے۔ تمہیں پتا ہے وہاں کھانے پینے کی بھی بے شمار چیزیں ہوتی ہیں، کیک بسکٹ ، چاکلیٹ ٹافیاں، آئس کریم، جوس وغیرہ وغیرہ!‘‘ سنی مزے لے لے کر بولا۔
’’ جلدی چلو نا!‘‘ ہم بے چینی سے بولے۔
’’ لیکن خبردار جو وہاں آنکھیں کھلی رکھیں۔ اگر کہیں چوری ہوتی ہوئی نظر بھی آئے تو نظریں پھیر لینا اور سرجھکا کر وہاں سے گزر جانا۔۔۔ سمجھے!‘‘ سنی نے آنکھیں نکالیں۔
’’ مسئلہ دوسروں کو دیکھنے کا نہیں، بلکہ یہ ہوگا کہ دوسرے ہمیں چیزیں اٹھاتے نہ دیکھیں۔‘‘
’’ ہم کون سا چھپ چھپا کر کھائیں گے، بھئی ہم تو مہمانِ خصوصی ہوں گے!‘‘ سنی گردن اکڑا کر بولا۔
*۔۔۔*
لیکن یہ اکڑ بہت جلد نکل گئی۔ جب یاور انکل بولے۔
’’ میں دانے دانے کا حساب رکھتا ہوں۔ ہر گیلری میں کیمرے فٹ ہیں۔ خصوصی عملہ ہے جو ان کی نگرانی کرتا ہے۔ مجال نہیں کہ ایک ٹافی بھی کوئی بغیر قیمت دیئے لے جائے یا کھالے!‘‘
’’انکل! جتنا خرچہ ان کیمروں اور ’’خصوصی عملہ‘‘ پر کیا جاتاہے، اس سے تو کم ہی ہو اگر کوئی اکا دکا ٹافی کھا لے!‘‘ سنی نے حساب لگایا۔
’’ پہلے تو انہوں نے سنی کو یوں گھور کر دیکھا جیسے ثابت ہی نگل جائیں گے، لیکن پھر شاید اس خصوصی عملہ کا خیال آگیا جو کیمرے میں اس کاروائی کو دیکھ لیتا۔
’’ میاں دیکھو!‘‘ سنی فوراًبات کاٹ کر بولا۔
’’ جی ابھی تک تو خیریت سے ہوں۔ میاں نہیں بنا!‘‘
’’ وہ۔۔۔ اپنا۔۔۔ کیا کہہ رہا تھا میں۔۔۔ ہاں۔۔۔ نہیں نہیں!‘‘
یاور انکل مکمل طور پر اپ سیٹ ہو گئے ۔ انہیں یاد ہی نہیں رہا کہ وہ کیا کہہ رہے تھے یا کیا سوچ رہے تھے یا تو یہ سنی کی بے جا دخل اندازی کی وجہ سے ہوا تھا یا پھر انہیں خود بھی یاد آگیا تھا کہ وہ بھی کسی کے میاں ہیں!‘‘
’’ انکل ، ہم لوگ تو چکھ سکتے ہیں نا ٹافیاں چاکلیٹس وغیرہ!‘‘ ہم نے پہلی مرتبہ زبان کھولی تو مدعا ہی عرض کیا۔
’’ بالکل نہیں۔۔۔ خبردار۔۔۔ دانہ دانہ کا حساب رکھتا ہوں ہاں۔۔۔ البتہ خرید کر جو چاہے کھا سکتے ہو! اب جاؤ اپنا کام کرو۔ ‘‘ شاید یہ ان کے رٹے رٹائے جملے تھے جو وہ اپنے ملازمین کو بولتے رہتے تھے۔ سنی کو برداشت نہ ہوئے۔
’’ بھلا کون سا کام کریں۔ نوکر نہیں ہیں ہم آپ کے۔ اگر آپ نے یہی رویہ رکھا تو ہم سب کچھ کھا جائیں گے اور کچھ کام کرکے نہیں دیں گے۔ سنی نے دھمکی دی ۔
’’ دیکھو ۔۔۔‘‘ وہ دھیمے لہجے میں بولے۔
’’ میں نہیں چاہتا کہ تمہارے گھر میں شکایت کروں۔تمہارے ابا ہیں یا شاید تایا۔۔۔ وہ پہلے ہی بہت سخت آدمی ہیں۔ ان کے فیصلوں پہ تو سنا ہے کسی کو نظر ثانی کی بھی جرات نہیں ہوتی۔‘‘یاور انکل لاپرواہی سے بولے۔
سنی کا دماغ زمین پہ واپس آچکا تھا۔ وہ گھٹنے ٹیکتا ہوا بولا۔
’’ مسئلہ کیا ہے جو ہمیں حل کرنا ہے؟‘‘
’’ کچھ خاص نہیں، بس یہاں سے کچھ سامان غائب ہو رہا ہے، جس کا ہمارے پاس کوئی ریکارڈ نہیں ہوتا۔‘‘
یاور انکل کچھ اور بے نیازی سے بولے اور ایک فائل اٹھا کر پڑھنے لگے، جیسے ہماری وہاں موجودگی سے قطعاً لاتعلق ہوں۔
کچھ دیر تو ہم اس امید پر کھڑے رہے کہ شاید اس فائل سے ہمیں کچھ بتانے جا رہے ہوں۔ مگر جب یہ امید بر نہیں آئی تو سنی نے ہمیں کاندھے سے پکڑا اور کھینچتا ہوا وہاں سے دور لے گیا۔
’’مہم شروع۔۔۔ ابھی۔۔۔ اسی لمحہ سے!‘‘ سنی شدت جذبات سے بولا۔
’’ لو بھئی۔۔۔ اتنی بری طرح ڈر گئے ایک ہی دھمکی سے!‘‘ہم نے مضحکہ اڑایا۔
’’ڈرتے ہیں میرے جوتے، بلکہ جوتے کے بھی تلے!‘‘
’’تو اتنی بے عزتی کے بعد بھی مہم کیوں شروع کرنے لگے؟‘‘
’’تفصیلات تو سن لیا کرو۔ نتیجہ ہی اخذ کر بیٹھتے ہو اور وہ بھی الٹا!‘‘
سنی نے ادھر ادھر دیکھا اور پھر ہمیں تفصیلات بتانے لگا۔
*۔۔۔*
ہمارے جذبات بھی سنی کی طرح بھڑک اٹھے ۔ ظاہر ہے، مشن ہی ایسا تھا اور یہ چوری کو پکڑنا نہ تھا، بلکہ خود ایک بڑی چوری کرنا تھا۔
سنی نے کہا تھا ’’ انکل کو سبق اسی طرح سے سکھایا جا سکتا ہے کہ جن دانوں کا وہ حساب کم رکھتے ہیں اور ذکر زیادہ کرتے ہیں ان کو اس صفائی سے غائب کیا جائے کہ ان کے اچھوں کو بھی اس کا سراغ نہ ملے!‘‘ ہم نے اس سے پوری طرح اتفاق کرتے ہوئے کہا تھا ۔
*۔۔۔*
’’ اور یہ سب وہ چیزیں ہوں گی جن کو پیٹ میں ضم کیا جا سکے گا۔‘‘ ہم نے ہضم کو جملے میں ضم کیا۔
اس مشن کو کامیابی سے پورا کرنے کیلئے ہم نے سیکورٹی کے نظام و انتظام کا جائزہ لینا شروع کیا۔ انکل بے چارے یہ سمجھ کر خوش ہو رہے تھے کہ ہم یہ سب ان کی دھمکی سے مرعوب ہو کر چور پکڑنے کیلئے کررہے ہیں۔ بے چارے انکل! انہیں کیا پتا تھا کہ جس ہتھوڑے پر دستہ ٹھوکا جا رہا ہے جلد ہی پوری قوت سے ان کے اپنے سر پر پڑے گا۔
سنی کوئی ثبوت نہیں چھوڑنا چاہتا تھا۔ کیونکہ پکڑے جانے کا مطلب تھا موت یا اس سے بھی برا۔
ہم نے ہر ہر طریقے کا بغور جائزہ لیا۔ خوب غور و خوص کیا کہ کیا کیا انتظامات ہیں۔ کہاں کہاں پکڑے جانے کا امکان ہے۔ سیکورٹی افسروں سے انٹرویو کیے، اندازے لگائے کہ کون نسبتاً چاق و چوبند ہے اور کون احمق اور سست۔ کیمروں کی تنصیب دیکھی۔ اسکرین پر جا کر مناظر دیکھے کہ کون سا گوشہ نظروں سے اوجھل ہے۔ ساری عرق ریزی کے بعد یہ نتیجہ سامنے آیا کہ یہاں سے ایک سوئی چرانا بھی ممکن نہیں ۔ دانہ دانہ کا واقعی حساب رہتا ہے۔
سپر اسٹور سے باہر نکلنے پر سنسر لگے ہیں جو چھوٹی سے چھوٹی چیز کو محسوس کر لیتے ہیں۔ علاوہ ازیں کیمرے کی موجودگی میں اسٹاف بھی بے ایمانی کی جرات نہیں کرتا۔
’’ تم اتنے ذہین بنتے ہو۔ مگر اس مرتبہ تمہاری عقل سے کوئی فائدہ نہیں ہوا!‘‘ ہم نے افسوس کیا۔
’’ یہ فائدہ کیا کم ہے کہ ہم اپنے تئیں کامیاب چوری کرکے پکڑے جانے سے بچ گئے ! ورنہ جب گھر والوں کو پتا چلتا کہ ان کے سپوتوں نے خاندان میں پہلی مرتبہ چوری کرکے ان کا نام ڈبو دیا ہے تو آج کسی راکھ کے دھوئیں کے اوپر الٹے لٹک رہے ہوتے۔‘‘
اتنے برے انجام کا نقشہ سننے کے باوجود بھی ہماری مجرمانہ طبیعت کلبلائی۔
’’ مگر یار یہ سارے سیکورٹی انتظامات الیکٹرانک ہیں۔ اگر کسی طرح بجلی کی سپلائی متاثر کر دی جائے تو کام دکھایا جا سکتا ہے۔‘‘ ہم نے بھی اپنے ذہن کو آواز دی۔
’’اسٹینڈ بائی جنریٹر دو سے تین سیکنڈ میں آن ہوجاتا ہے، اتنی دیر میں تو فقط تصویر لی جا سکتی ہے کوئی چیز تو نہیں۔‘‘ سنی نے ہمارے آئیڈیے کو مسترد کیا۔
’’ ہوں۔۔۔ یا تو جنریٹر کا بھی کچھ علاج کیا جائے!‘‘ ہم نے کچھ مزید حماقت کا سوچا۔
’’بڑا آسان کام ہے جیسے۔۔۔ اور ہم کسی کی نظر میں آئے بغیر کر لیں گے جیسے!‘‘ سنی نے ہمیں احساس دلایا۔
’’اوہ۔۔۔ اوہ‘‘ سنی چونکا۔
’’ کیا ہوا؟ ‘‘ ہم بھی چونکے۔
’’ کیا ضروری ہے کہ ساری کی ساری چوری اپنی دو تین سیکنڈ میں کی جائے جس میں جنریٹر آن ہو رہا ہوتا ہے۔‘‘
’’ پھر ؟‘‘
’’ سارے انتظامات پہلے سے کر لیے جائیں صرف تکمیل ان دو تین سیکنڈ میں ہو!‘‘ سنی نے بائیں ہاتھ کا مکا بنا کر دائیں پر مارا۔
’’ لیکن کیسے؟ ‘‘ ہم بے چین ہو کر بولے۔
’’ بجلی جانے کے اوقات مقرر ہیں ورنہ اخبارات سے بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ ہم عام انداز میں کچھ شاپنگ کریں گے اور پھر بل کی جگہ اس وقت پہنچیں گے جب بجلی جانے والی ہو۔ جیسے ہی بجلی جائے گی ہم کوئی چھوٹی اور مہنگی چیز نیچے سے لڑھکا دیں گے جو سنسر اور کیمرہ بند ہونے کی وجہ سے نہیں پتا چلے گا۔ لائٹ آتے ہی باقی چیزوں کا بل بنوائیں گے اور آگے جا کر غیر محسوس طریقے سے وہ چیز اٹھا لیں گے۔۔۔ کیسی ترکیب؟ ‘‘ سنی کا ماسٹر مائنڈ چل ہی پڑا اور اس نے ایک مکمل منصوبہ ہمارے سامنے رکھ دیا۔
*۔۔۔*
ہم نے ایک امپورٹیڈ چاکلیٹ کے ڈبے کو اس مقصد کے لیے چنا تاکہ وہ ’’ضم ‘‘ بھی ہو سکے۔
کچھ سستی سستی سی چیزیں بھی لے لیں۔ بجلی جانے کا وقت تین بجے تھا۔ ہم دونوں دو بج کر پچپن پر بل والے کاؤنٹر کے قریب پہنچ گئے اور آپس میں یوں بحث کرنے لگے جیسے کوئی ضروری چیز بھول گئے ہوں۔ مقصد فقط وقت گزاری تھا۔ ڈبہ سنی کے ہاتھ میں اسی اسٹائل میں تھا جیسے تھرو بال میں ہوتا ہے۔ لائٹ جاتی اور وہ اسے لڑھکاتا۔
ایسے میں ایک صاحب بھی بھاگے بھاگے اپنی ٹرالی لیے آتے دکھائی دیے۔ شاید ان کی کوشش تھی کہ ہم سے پہلے بلنگ کاؤنٹر پر پہنچیں تاکہ انتظار کی کوفت سے بچیں۔ ہمیں بھلا کونسی جلدی تھی، ہم نے خود ہی انہیں راستہ دے دیا۔ وہ ہمیں شکریہ کہتے ہوئے جو تیزی سے مڑے تو ان کی ٹرالی کا پہیہ مڑ گیا اور ٹرالی چلنے کے قابل نہ رہی۔ وہ افسوس کرتے ہوئے نیچے بیٹھے اور اسے درست کرنے کی کوشش کرنے لگے۔
اسی میں لائٹ چلی گئی۔ ہمیشہ افسوس ہوا کرتا تھا لیکن آج خوشی ہوئی۔
روشنی ہوئی تو ڈبہ سنی کے پاس سے غائب دیکھا، یعنی کام ہو چکا تھا۔ ہم ان صاحب کی ٹرالی سے آگے بڑھے اور بل وغیرہ اداکرکے نکل گئے۔ جاتے جاتے تسمہ ٹھیک کرنے کے بہانے بیٹھ کر چاکلیٹ کا ڈبہ بھی ٹرالی میں رکھ چکے تھے۔
*۔۔۔*
کامیابی کی خوشی میں فوراً ایک ریستوران پہنچے۔ اب جب چاکلیٹ کا ڈبہ دیکھتے ہیں تو حیران۔
’’ سنی کے بچے میں نے کہا تھا کہ مجھے بادام والی پسند نہیں ہے، مونگ پھلی والی لینا۔‘‘ ہم بھنائے۔
’’ یار۔۔۔ لی تو میں نے مونگ پھلی والی ہی تھی!‘‘ سنی کی بھی عقل خبط ہو رہی تھی۔
’’تو بھئی کیا یہ جادو سے بادام والی بن گئی؟‘‘ ہم نے طنز کیا۔
’’ مجھے ایک سو ایک فیصد یقین ہے کہ میں نے مونگ پھلی والی ہی لی تھی۔ اس کے چھلکے بنے تھے اس میں۔ یقین نہ آئے تو سیکورٹی میں چل کر ویڈیو دیکھ لینا۔‘‘
ہمارا موڈ چاپٹ تھا۔ من پسند چیز جو نہ ملی تھی۔ ہم نے سنی کی بات سے اتفاق کیا اور ویڈیو دیکھنے پہنچ گئے۔
اور ویڈیو دیکھ کر تو ہماری حرکت قلب تیز ہو گئی ۔ ہم واقعی مونگ پھلی والی چاکلیٹ لے کر آئے تھے، جبکہ وہ صاحب جن کی ٹرالی کا پہیہ مڑ گیا تھا، بادام والی چاکلیٹ کا ڈبہ لیے تھے اور بلنگ کے وقت ان کے پاس کوئی ڈبہ نہیں تھا، جیسے ہمارے پاس نہیں تھا!
نہ چاہتے ہوئے بھی ہم چوری پکڑ چکے تھے۔ سنی نے کہا ’’اگر ہم عزت سے گھر جانا چاہتے ہیں تو بہتر ہے ساری بات انکل کے گوش گزار کر دیں!‘‘
سنی ہی کی ذمہ داری پر ہم نے حامی بھری۔
*۔۔۔*
’’انکل وہ بڑا مشہور مقولہ ہے ناں کہ جس کو سمجھنا چاہو اسی کے جوتے میں پاؤں ڈال کر دیکھو۔‘‘
’’ میں تمہیں اپنے قیمتی جوتے نہیں دے سکتا۔‘‘ یاور انکل بے زاری سے بولے۔
’’تو ہم نے چور کی سی ذہنیت اختیار کی اور چور پکڑ لیا۔‘‘ سنی نے دھماکہ کیا۔
’’ کیا۔۔۔ کہاں ہے۔۔۔ کون ہے وہ؟‘‘ انکل بلبلائے۔
’’ابھی بتاتے ہیں۔ تفصیل سے بتاتے ہیں۔‘‘ سنی نے انہیں ٹھنڈا کیا اور پھر تمام تر تفصیل بتا ڈالی۔ انکل تو اس عام سے مگر کارگر طریقے پر عش عش کر اٹھے۔ ہم سمجھے کہ اب انعام ملا کہ تب۔ وہ بولے۔
’’ٹھیک ہے چوروں کو تو میں پرانی ویڈیو سے پکڑ لوں گا۔ اور اس کا کوئی سدباب بھی کر لوں گا، مگر تم لوگ پہلے تو اس چاکلیٹ کے ڈبے کے پیسے نکالو، جو تم نے پار کی تھی!‘‘
’’ساری‘‘ امیدوں پر پانی پڑ گیا۔ ہم دونوں ہی مرجھا گئے۔ وہ چاکلیٹ تو ٹھیک سے کھائی بھی نہ تھی، بچی کچھی واپس کر دی۔
*۔۔۔*
گھر پہنچے تو بھی اداس اور بددل تھے۔ پھر اگلے ہی دن ہمارے یہاں کئی ڈبے چاکلیٹس کے پہنچے، ساتھ ہی ایک چٹ لگی تھی۔
’’لڑکو۔۔۔ تم سے چاکلیٹ واپس لے کر مجھے یہ اندازہ ضرور ہو گیا کہ تمہاری پسند کیا ہے لہٰذا میں نے تم کو انعام میں یہی دینے کا فیصلہ کیا۔
’’یاور‘‘
گھر کا ہر فرد انتہائی خوش تھا، سوائے ہمارے کہ ہمارا موڈ اور زیادہ چوپٹ ہو چکا تھا۔
کہ وہ ساری چاکلیٹس بادام والی تھیں جو ہمیں قطعی پسند نہ تھیں!
*۔۔۔*۔۔۔*