تین عقلمند
حماد ظہیر
………………………………………….
’’تین بیوقوف‘‘ تو آپ نے ضرور پڑھی ہوگی اب دیکھیں یہ تین عقلمند کیا کرنے جا رہے ہیں
………………………………………….
سردیوں میں شمالی علاقہ جات کا تجربہ اتنا برا تھا کہ داغ دھونے کے لیے ہم نے ایک پروگرام گرمیوں میں بھی بنا ڈالا۔
مجھے اور شاکر کو تو جھٹ پٹ اجازت مل گئی مگر عادل کو منع کر دیا گیا۔ وقاص کی امی نے اپنی اجازت عادل کی اجازت کے ساتھ مشروط کر دی۔
’’یار۔۔۔ اب تو عادل کے ماں باپ کو راضی کرنا ہی پڑے گا ورنہ صرف ہم تم کیا وہاں جا کر چھم چھم کھیلیں گے ۔‘‘ شاکر پریشانی سے بولا۔
’’چھوڑو یار۔ان دونوں سست لوگوں کو لے جا کر ہر قدم پر کوئی نئی مصیبت سر لینی پڑے گی۔ نخرے بھی اٹھاؤ اور احسان بھی، فائدہ کیا۔‘‘ میں بے زاری سے بولا۔
’’ نہیں یار ، انہی سب چیزوں سے تو مزہ آتا ہے، اور واقعات یادگار بن جاتے ہیں۔‘‘ شاکر نے باور کرایا۔
’’ ہاں ہاں۔۔۔ دیکھ چکا میں۔ بڑا یادگار تھا ہمارا پچھلا سفر۔ ڈیپ فریزر میں بندر ہے کئی دن!‘‘ میں نے منہ بنایا۔
’’بہرحال میں تو ضرور کوشش کروں گا، آج ہی جاؤں گا عادل کے یہاں۔‘‘ شاکر نے فیصلہ سنایا۔
*۔۔۔*
عادل کے یہاں سے بڑی مشکل سے اجازت ملی۔ اکلوتا بیٹا تھا۔ والدین کو یہی فکر لاحق رہتی کہ بچے کو کچھ ہو نہ جائے۔
اجازت اس طرح ملی کہ عادل سارے سفر میں اپنے دادا جان کی انگوٹھی کو ساتھ رکھے گا جو کہ بہت بابرکت اور کرشماتی تھی۔ ہر کوئی اس انگوٹھی کا بے حد خیال رکھے گا اور اپنے سے الگ نہیں ہونے دے گا۔ ان کا خیال تھا کہ یہی انگوٹھی ان کے بچے کی حفاظت کی ضامن ہے۔
مجھے پتا چلا تو بے حد جزبز ہوا اور یہاں تک کہہ دیا کہ انگوٹھی ساتھ جائے گی تو میں نہ جاؤں گا۔
شاکر نے سمجھایا۔’’ دیکھو بھائی یہی ایک طریقہ تھا ان کو ساتھ لے جانے کا،ان کی سوچ ان کی جگہ تمہاری اپنی جگہ، اب بلاوجہ پروگرام خراب مت کرو۔‘‘
*۔۔۔*
ہم لوگ ایک بار پھر اسی پہاڑی چوٹی پر پہنچ گئے جہاں تقریباً چھ ماہ پہلے بھی آئے تھے۔
عادل کی امی نے کہا تھا۔ ’’بیٹا، انگوٹھی ہرے کوٹ میں ہے۔ اس کو ہر وقت پہنے رہنا۔‘‘ لہٰذا عادل سرسبز و شاداب تھا۔
پہلے ہی دن ہم نے ’’مشاہدہ‘‘ ۔۔۔ جانے کا پروگرام بنایا۔
’’اتنا لمبا سفر کرکے آئے ہیں۔ ایک دو روز تو صبر کر جاؤ۔‘‘ وقاص نے احتجاج کیا۔
’’ایک دو ہفتہ نہ کر لیں صبر۔۔۔ اور پھر واپسی کا سفر‘‘میں جل بھن کر بولا۔
’’ ہاں ہاں۔۔۔ یہ ٹھیک رہے گا۔‘‘ وقاص خوش ہو کر بولا۔
’’چلے چلو یار، ایک گھنٹے کا تو راستہ ہے۔‘‘ شاکر نے ہمت بڑھائی لیکن اس کا الٹا اثر ہوا۔
وقاص دھڑ سے لمبا لیٹ گیا اور آنکھیں بند کرکے بولا۔ ’’ٹھیک ہے یار۔۔۔ ملتے ہیں پھر شام کو۔‘‘
عادل بھی جانا چاہ رہا تھا، لیکن وقاص کے بغیر نہیں، لہٰذا بولا۔
’’کوئی گاڑی کر لیں گے تو پندرہ بیس منٹ میں طے ہوجائے گا راستہ۔‘‘
’’بس طے پایا، نکلو یہاں سے اور کوئی گاڑی دیکھو!‘‘ شاکر نے وقاص کو کھینچ کر کھڑا کیا۔
*۔۔۔*
ایک وین ملی جس میں کچھ اور لوگ بھی سوار تھے۔ ہم لوگ بھی سوار ہو چلے۔ وین نے بل کھاتی سڑک پر سفر شروع کیا تو پیچھے بیٹھے ایک بچے کو قے ہو گئی۔ اتنی جگہ نہیں تھی کہ وہ منہ کو ادھر ادھر کرتا، لہٰذا ساری قے آگے بیٹھے عادل کے اوپر آئی اور وہ تر بتر ہو گیا۔
اس کے چیخنے چلانے پر وین روکی گئی اور پھر اتر کر اس کو نہلایا دھلایا گیا۔
سفر دوبارہ شروع ہوا تو اس کا موڈ بالکل چوپٹ ہو چکا تھا۔
تھوڑا ہی اور آگے بڑھے تھے کہ وین کا ٹائر پنکچر ہوگیا۔
’’یہاں سے پیدل چلتے ہیں بعد میں وین وہاں پہنچے گی تو واپس اسی میں ہو لیں گے۔‘‘ شاکر نے مشورہ دیا۔
’’ میں پیدل جا تو سکتا ہوں، مگر آگے نہیں، بلکہ واپس۔‘‘ عادل بھنایا۔
’’بھائی جب پورا کرایہ دے چکے ہیں بس کا، تو بس اب بس پر ہی چلیں گے۔‘‘ وقاص ایک چٹان پر بیٹھ گیا۔
ڈرائیور کے اوزار بالکل بے کار تھے۔ نہ جانے کس کس ترکیب کے بعد اس نے ٹائر بدلا۔ اچھا خاصا وقت یہاں برباد ہوا۔
ہم پھر سے چلے اور خدا خدا کرکے نظارہ پوائنٹ پہنچے۔ یہ ایسی جگہ تھی کہ جہاں سے ایک وسیع و عریض علاقے کا نظارہ کیا جاتا تھا۔ کچھ لوگ اسے دوربین بھی کہتے تھے۔
ہمارا خیال تھا کہ یہ ایک پکنک پوائنٹ ہوگا، جہاں کھانے پینے کا بھی اچھا انتظام ہو گا۔ مگر یہاں ہمارے علاوہ اور کوئی نہ تھا۔
پانی سارا عادل کی دھلائی میں خرچ ہو گیا تھا، بھوک بھی ستا رہی تھی اور کھانے کو کچھ لائے نہ تھے۔ لہٰذا بڑا صبر کرنا پڑ گیا۔ عادل اور وقاص نے تو بھوک پیاس کی وجہ سے جاتے ہی واپسی کی رٹ لگا دی۔
سارا مزہ کرکرا ہو گیا تھا۔ منہ بسور کر واپس ہوئے۔ کسی نے کسی سے کوئی بات نہ کی۔ واپس پہنچے ہیں تو کیا دیکھتے ہیں کہ ہمارے کمرے سے پانی ابل رہا ہے۔
دروازہ کھولا تو پتا چلا کہ کوئی نلکا کھلا چھوڑ گیا تھے ۔ جب ٹنکی بھری گئی تو اس نے کمرہ بھر دیا۔
’’نئی مصیبت !‘‘ وقاص نے سر پیٹا۔
’’ آج کچھ زیادہ نہیں ہو گئیں؟‘‘ میں نے بھی اندازہ لگایا۔
’’ سوچو۔۔۔ دادا کی انگوٹھی کے ساتھ یہ حال ہے، تو اس کے بغیر کیا ہوتا۔‘‘ شاکر ہنسا۔
’’ارے ہاں۔ ‘‘ عادل کو جیسے کچھ یاد آیا اور اس نے جلدی سے دونوں ہاتھ جیبوں میں ڈال دیئے۔
پھر اس نے اوپر کی جیب میں ہاتھ ڈالا، کوٹ اتارا۔ اندر کی جیب دیکھی مگر انگوٹھی نہ ملی۔
’’ارے باپ رے! انگوٹھی تو غائب ہے۔ ‘‘ وہ گھبرا کر بولا۔
’’ارے یہیں کہیں ہو گی۔ ٹھیک سے دیکھو۔‘‘ شاکر لاپرواہی سے بولا۔
عادل نے بوکھلاہٹ میں ہر طرف دیکھا، سارے کپڑے چھان مارے مگر انگوٹھی نہ ملی۔
’’نہیں مل رہی کچھ کرو۔‘‘ عادل روہانسا ہوگیا۔
’’بھاڑ میں ڈالو اسے اور یہ پانی نکلواؤ کمرے سے ورنہ سوئیں گے کہاں؟‘‘ میں جھلا کر بولا۔
’’ میں دیکھتا ہوں۔‘‘ شاکر نے کہا اور آگے بڑھ کر اچھی طرح کوٹ دیکھا، پھر اور چیزیں بھی دیکھیں مگر انگوٹھی نہ ملی۔
’’سب سے پہلے انگوٹھی ڈھونڈو۔۔۔ ورنہ نہ جانے کیا ہوجائے گا۔‘‘عادل ایسے چیخا جیسے بم پھٹنے والا ہو۔ سب ہی نے ہلکی پھلکی کوشش کی لیکن انگوٹھی نہ ملی۔
’’ دیکھا یہ سارے مسائل آ ہی اسی وجہ سے رہے تھے کہ انگوٹھی غائب تھی۔‘‘ عادل نے نتیجہ نکالا۔
’’ کہیں تمہاری امی اسے کوٹ میں رکھنا تو نہیں بھول گئی تھیں؟‘‘ میں نے شبہ کیا۔
’’قطعی نہیں۔ انہوں نے صاف صاف انداز میں بتایاتھا۔‘‘عادل بولا۔انگوٹھی چونکہ اتنی چوڑی تھی کہ ہم میں سے کسی کی انگلی میں نہ آتی تھی، لہٰذا اسے کوٹ میں رکھا گیا تھا۔
’’کہیں تم نے تو اسے غائب نہیں کیا۔ تم شروع ہی سے اس کے خلاف تھے۔‘‘ شاکر نے مجھ پر شک کیا۔
’’نہیں بھئی! مجھے اس سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔‘‘ میں نے بتایا۔
’’ہو نہ ہو یہ راستے میں کہیں گری ہے۔ اس کمبخت بچے نے جب الٹی کی تھی تو میں نے کوٹ اتارا تھا۔‘‘
عادل اور شاکر انگوٹھی ڈھونڈنے چل دیئے جبکہ وقاص فوراً بستر پر کودا اور رضائی کے اندر دبک گیا۔
*۔۔۔*
بہت خواری کے بعد بھی انگوٹھی نہ ملی۔ عادل ہلکان ہو رہا تھا۔ ’’ اگر انگوٹھی نہ ملی تو میں گھر واپس نہیں جا سکتا، کیا منہ دکھاؤں گا۔‘‘
اس کی پریشانی دیکھ کر فیصلہ کیا گیا کہ انگوٹھی کو بڑے پیمانے پر ڈھونڈا جائے، چھوٹا سا علاقہ ہے، کوشش کی جائے تو مل ہی جائے گی۔
رات گئے تک اس پر بحث ہوتی رہی اور ترکیبیں سوچی جاتی رہیں کہ کیسے انگوٹھی کو ڈھونڈا جائے۔ آخر کار یہ طے پایا کہ شاکر فقیر کا روپ دھارے گا اور ہر گلی محلہ اور دکان میں گھس کر بھیک مانگے گا، لوگوں کے ہاتھ پکڑ پکڑ کر ان میں انگوٹھی چیک کرے گا۔
وقاص چونکہ سست بہت ہے لہٰذا اسے ایک مصروف جگہ پر نجومی بنا کر بٹھا دیا جائے گا، وہ ہر آنے والے کے ہاتھ کی لکیریں کم اور انگلی میں پہنی انگوٹھی زیادہ دیکھے گا۔
عادل علاقے کے واحد جوہری کے پاس ملازمت کرے گا یا شاگرد بن کر ہی کچھ عرصہ رہے گا اور ہر خرید و فروخت میں انگوٹھیاں دیکھے بھالے گا۔
میں نے ان فضول چکروں میں پڑنے سے صاف معذرت کر لی تھی، لہٰذا میں فارغ تھا اور سیر سپاٹے کررہا تھا۔
میرا خیال تھا کہ یہ سب ڈرامہ بازی ایک دن بھی نہ چلے گی لیکن اس وقت میں بہت حیران ہوا جب دو دن کے بعد تیسرے دن بھی تینوں انہی دھندوں پر جانے لگے۔
’’عقل کے اندھو! کس فضول چکر میں پڑ گئے ہو، ساری کی ساری چھٹیاں اسی کام میں غارت کرو گے کیا؟‘‘
’’تمہارے لیے فضول ہو گا، جبکہ میں اس وقت تک لوٹوں گا نہیں جب تک وہ انگوٹھی نہ مل جائے۔‘‘عادل کا ارادہ مصمم تھا۔
’’ بھئی میرا کام تو مزیدار بہت ہے۔ پیسے بھی لیتا ہوں اور بیوقوف بھی بناتا ہوں، لوگ ایسے دھیان سے میری بکواس پر کان لگاتے ہیں کہ ہنسی آتی ہے بے چاروں پر۔ گھومنے پھرنے سے زیادہ لطف اس بیٹھے رہنے میں ہے۔‘‘ وقاص کو ایک شغل ہاتھ آگیا تھا۔
’’اس سب کو چھوڑو۔ جو میری کمائی ہے نا روزانہ کی، کیا ہی کسی اچھے بزنس مین کی ہو گی اور ساتھ ہی ہر کسی سے چھیڑ چھاڑی کا شوق بھی پورا ہو رہا ہے، میں تو سوچتا ہوں یہیں شفٹ ہوجاؤں اور گرمیوں کی چھٹیاں منانے گھر جایا کروں۔‘‘
شاکر بھی اپنے کام سے قطعی مطمئن معلوم ہوتا تھا۔ میں نے سر پیٹ لیا۔ یہ لوگ ہمیشہ حالات ایسے ہی پیدا کرتے تھے کہ دوسرا عاجز ہوجائے۔ آخر میں نے بھی کچھ کر گزرنے کا فیصلہ کیا۔
*۔۔۔*
میں نے بس پکڑی اور ایک نچلے علاقے پہنچا۔ جہاں نسبتاً زیادہ آبادی تھی۔ وہاں ایک جوہری کے پاس پہنچا اور انگوٹھیاں چھاننا شروع کیں۔
بڑی تگ و دو کے بعد ایک ایسی انگوٹھی مل پائی جو دادا کی انگوٹھی کے مشابہہ تھی۔ گو کہ اس میں کئی فرق موجود تھے۔ اسی جوہری کی مدد سے اس میں تبدیلیاں کرائیں جوڈیزائن بن نہ سکتا تھا اس جگہ کو گھسوا دیا۔
اب بالکل ایسا معلوم ہوتا تھا کہ دادا کی انگوٹھی کو گھس کر صاف کیا گیا ہو۔
اسے لے کر خوشی خوشی واپس ہوا اور سب سے پہلے عادل کے پاس پہنچا۔
عادل کسی کام سے دکان سے گیا ہواتھا۔
’’ یہ تو اور اچھا ہوا۔‘‘ میں نے سوچا۔ اور وہ انگوٹھی اونے پونے بیچ دی۔ ہوٹل واپسی پہنچا اور بے چینی سے عادل کا انتظار کرنے لگا۔کچھ ہی دیر میں تینوں دھمک پڑے۔
’’ لگن سے کام کیا جائے تو سب کچھ ممکن ہے، یہ دیکھو آخر ہم نے انگوٹھی کو پا ہی لیا۔‘‘ شاکر نے بڑھ کر مجھے انگوٹھی دکھائی۔
’’ڈھونڈنے سے تو خدا بھی مل جاتا ہے آخر۔‘‘ عادل گنگنایا۔
میں نے انگوٹھی ہاتھوں میں لی اور بغور دیکھنے کے بعد بولا۔ ’’ یہ وہ والی انگوٹھی تو نہیں۔ اس کا تو ڈیزائن تقریباً مٹ چکا ہے۔‘‘ میں بھولا بن کر بولا۔
’’جس احمق کو یہ ملی تھی، اس نے شاید پیسوں کے لالچ میں اسے گھسوا کر صاف کرا دیا۔ اسے کیا پتا کہ اس کی اصل قیمت کیا تھی؟‘‘ عادل نے وضاحت کی۔
’’تم لوگ دل کو جھوٹی تسلی دے لو ورنہ یہ ضرور کوئی اور انگوٹھی ہے، ہاں دادا کی انگوٹھی سے ملتی ضرور ہے۔‘‘
میں نے بے پرواہی سے اسے واپس اچھال دیا۔
’’ہم روز کسی نہ کسی مصیبت کا شکار ہورہے تھے، اب دیکھ لینا ایسا کچھ نہ ہوگا، اور یہی اس کے اصلی پن کی نشانی ہوگی۔‘‘
’’ہاں ہاں ٹھیک ہے۔ بس چلو۔ اب اپنا اصل شیڈول نکالو ہائیکنگ کا۔ ہم آدھا علاقہ اب بھی گھوم ہی سکیں گے۔‘‘ شاکر نے بحث ختم کی۔
*۔۔۔*
باقی دن واقعی بڑے اچھے اور سکون سے گزرے۔ اس سے میرے لیے ایک پریشانی ضرور پیدا ہو گئی۔ میرا خیال تھا کہ واپس جا کر ساری کہانی سنادوں گا کہ یہ انگوٹھی کیسے پیدا کی گئی لیکن اب ان کا یقین بہت بڑھ چکا تھا کہ یہی اصلی انگوٹھی ہے۔ ہوا بھی یہی۔ واپسی پر جب میں نے انہیں حقیقت بتائی تو انہوں نے اسے گڑھا گڑھایا واقعہ سمجھا۔
’’تمہیں اگر کہانی ہی بنانی تھی تو ایسی بناتے جس کا ہم یقین کر سکتے، یہ تو انتہائی احمقانہ ہے۔‘‘ وقاص بولا۔
عادل نے اس پر کچھ کہنے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی۔ میں بھی کوفت کا شکار ہو گیا کہ حقیقت کو ثابت نہیں کر پا رہا تھا۔ واپس آچکے تھے لہٰذا ثبوت بھی سب وہیں رہ گئے تھے کہ جس سے بنوائی تھی اس کی گواہی دلواتا۔ پھر سے کوئی ترکیب سوچنے لگ گیا۔
عادل نے شام کو ہم سب کو چائے پر بلوایا، تاکہ انگوٹھی کھونے اور ملنے کی مزیدار کہانی اپنے گھر والوں کو بتائے۔ کھونے پر ڈانٹ کھائے اور ڈھونڈنے کی جدوجہد پر شاباش پائے۔
جب اس نے بتایا کہ انگوٹھی اسے کسی جیب میں نہ ملی تھی تو اس کی امی بولیں۔
’’ارے بیٹا میں نے انگوٹھی کو جیب میں کہاں رکھا تھا۔‘‘
’’پھر؟‘‘ ہم سب چونک کر بولے۔
’’اسے تو میں نے کالر کے اندر سی دیا تھا تاکہ گم نہ ہوجائے۔‘‘
ہم سب کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ عادل دوڑ کر اپنا کوٹ اٹھا لایا۔ اس کی امی نے کالر موڑا تو دادا کی انگوٹھی وہاں کسی کتبہ کی طرح نصب تھی۔
*۔۔۔*۔۔۔*