نقل کی اصل
حماد ظہیر
…………………..
سالانہ امتحان سر پر تھے اور تیاری نامکمل۔۔۔!!
میں نے اس مرتبہ بھرپور طریقہ سے جان مار دی تھی اور کوشش کی تھی کہ ہر مضمون پر سو فیصد تیاری مکمل ہو، مگر۔۔۔ ایسا شاید ناممکن تھا۔
میرا رزلٹ ہمیشہ سکسٹیز میں آیا کرتا تھا، جس کیلئے مجھے کچھ زیادہ جتن نہ کرنے پڑتے۔ کاپی اٹھاتا، جو چیزیں دلچسپ لگتیں اور سمجھ آتیں انہیں یاد کرتا اور پرچہ دے دیا کرتا۔
مجھے ساٹھ، پینسٹھ فیصد نمبروں سے کوئی شکایت نہ تھی کہ زندگی میں سکون تھا، لیکن اب اسکول والوں کو شکایت ہو گئی تھی۔
ان کا فیصلہ یہ تھا کہ آٹھویں جماعت میں جس بھی طالبعلم کے پچھتر فیصد سے کم نمبر ہوئے، اسے میٹرک میں سائنس گروپ نہیں ملے گا۔
سائنس گروپ۔۔۔ ہر طالبعلم کا خواب ہوتا ہے۔ پڑھے لکھوں کا گروپ، سائنسدانوں کا گروپ، ڈاکٹروں اور انجینئرز کا گروپ وغیرہ وغیرہ۔
اس اعلان کے نتیجہ میں، میں بھی سائنس گروپ کی دوڑ میں شامل ہو گیا۔ جتنی کوشش اور وقت میں ساٹھ فیصد نمبر لانے کیلئے کیا کرتا تھا، اس کی دگنی کوشش اور وقت میں نے صرف کیا، مگر تیاری پھر بھی نامکمل رہی۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس طرح میرے ایک سو بیس فیصد نمبر آتے، لیکن مجھے تو ستر فیصد بھی آتے مشکل دکھائی دیئے۔
مثلاً سائنس کے بیس اسباق میں سے دس سوالات آتے تھے۔ چھ سوالات کی تو اچھی تیاری تھی، مگر باقی چار میں سے کوئی پلے نہ پڑتا تھا۔
چاروں پر طبع آزمائی کر چکا تھا، مگر ایک بھی ہاتھ نہ آیا تھا۔
یہی حال باقی مضامین کا بھی تھا۔ آخر جھلا کر میں نے اپنے دوست عارف کو فون ملایا!
*۔۔۔*
عارف میرا سب سے اچھا دوست تھا۔ گو کہ پڑھنے لکھنے میں وہ ایک دم بودا تھا اور ہر کلاس میں لڑھک پڑھک کر دھکا پاس ہوا کرتا تھا، پھر بھی میری اس سے دوستی نہ جانے کیوں ہو گئی تھی۔ کسی بڑے گھرانے سے بھی تعلق نہ رکھتا تھا بلکہ اس کے والد ایک موٹر میکینک تھے اور ان کی ایک چھوٹی سی دکان تھی۔
اس سے پہلے کہ میں عارف کو اپنا مسئلہ بتاتا، وہ اپنا مسئلہ بتانا شروع ہو گیا جو مجھ سے کچھ مختلف نہ تھا۔
پاس ہونے کیلئے اگر تینتیس فیصد نمبر چاہیے ہوتے تھے تو اس کے بمشکل چالیس فیصد نمبر آیا کرتے تھے اور اسکول انتظامیہ نے یہ اعلان بھی کیا ہوا تھا کہ جس کے بھی پچاس فیصد سے کم نمبر آئے اسے جنرل گروپ بھی نہیں دیا جائے گا!
وہ مجھ پر رشک کررہا تھا کہ میں کس آسانی سے ساٹھ ساٹھ فیصد نمبر لے آتا ہوں اور مجھے اس کی بات سے یہ اندازہ ہو رہا تھا کہ اس نوے فیصد لانے والے لڑکوں کو یقیناًاتنے نمبر لانے کیلئے بہت زیادہ محنت نہیں کرنی پڑتی ہوگی۔
*۔۔۔*
’’ دیکھو عارف! ہمارا تعلیمی نظام تو اندھا ہے۔ وہ صرف نمبر دیکھتا ہے۔ یہ نہیں دیکھتا کہ کس نے کتنی محنت کی۔ جس کا حافظہ اچھا ہوتا ہے اور جو رٹا زیادہ لگا لیتا ہے وہ زیادہ نمبر لے جاتا ہے۔
اگر کچھ طالبعلم رٹے کو نمبر لانے کا ذریعہ بنا سکتے ہیں، تو ہم جیسے طالبعلم ہاتھ کی صفائی کو بھی نمبر لانے کا ذریعہ بنا سکتے ہیں۔‘‘ میں نے اعلان کیا۔
’’ کیا۔۔۔ کیا کہہ رہے ہو عادل! کیا ہم نقل کریں گے؟‘‘ عارف ششدر رہ گیا۔
’’ ہر کوئی ہی نقل کرتا ہے۔ یہ گیسز ہم نے تو دریافت نہیں کیں ناں، ہم ان کے مو جد کے تجربات ہی کو نقل کرتے ہیں ناں! یہ پانی کا فارمولا، نیوٹن کا لاء، یہ ہماری اپنی تھیوری نہیں بلکہ دوسروں کی نقل ہے۔‘‘ میں نے فلسفہ پیش کیا۔
’’ نقل کا مطلب ہے امتحانات کے اصول کی خلاف ورزی!‘‘ عارف نے مجھے سمجھانا چاہا۔
’’امتحانات کا اصول ہے سمجھ کر لکھنا۔ جبکہ یہاں پر ہر کوئی چھاپ رہا ہوتا ہے۔ فرق یہ ہے کہ ذہن اور زبان پر چڑھے ہوئے حرف سے چھاپنے والا بچ جاتا ہے اور کاغذ یا ہاتھ پر چڑھے ہوئے حروف سے چھاپنے والا پھنس جاتا ہے!‘‘ میں نے جذباتی ہو کر کہا۔
’’ جو بھی ہے، میں تو ایسا نہیں کروں گا۔‘‘ عارف نے فیصلہ سنایا۔
’’تو رہنا ہمیشہ جاہل کے جاہل۔ اپنے ابا کے پیچھے پیچھے تم بھی موٹر میکینک بن جانا۔ میں تو اپنا ذہن لڑا کر کوئی نہ کوئی ترکیب ضرور کروں گا، جو ایک دو سوال میرے سائنس کے کیریئر کے سامنے آرہے ہیں انہیں میں ہاتھ کی صفائی سے زیر کروں گا۔ آخر کو تو اسکول والے نمبر ہی دیکھیں گے ناں، یہ تھوڑا ہی دیکھیں گے کہ وہ کیسے حاصل کیے گئے۔‘‘
*۔۔۔*
میں نے عارف کو بھی قائل کر ہی لیا تھا۔ یہ کہہ کر کہ یہ چیٹنگ پہلی اور آخری بار ہے۔ ایک مرتبہ جب ہم اپنے اپنے راستوں پر گامزن ہوجائیں گے تو پھر اس کی ضرورت نہیں پڑے گی! ابھی تو اسکول والوں کا ایک بے تکا اعلان ہماری پسند کی تعلیم کے راستے کی رکاوٹ بن رہا ہے، ہم صرف اس رکاوٹ کو پھلانگنے کیلئے نقل کا سہارا لے رہے ہیں۔
تجربہ کامیاب رہا اور ہم دونوں ہی کی مشکل حل ہو گئی۔ مجھے سائنس گروپ مل گیا اور عارف کی پڑھائی چھوٹنے سے بچ گئی۔ اسے جنرل گروپ مل گیا۔
یہ مشکل تو آسان ہو گئی، لیکن آگے کئی اور مشکلیں کھڑی ہو گئیں۔ سائنس کی پڑھائی آسان نہیں تھی۔ اس کا ہر سبق اور ہر سوال انہی چا رسوالوں جیسا ہوتا تھا جو میری کبھی سمجھ نہ آتے تھے۔ یہ بات میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ میں پوری کلاس میں سب سے زیادہ محنت اور کوشش کرتا تھا، لیکن اس کے باوجود میرے نمبر سب سے کم آتے۔
ہر جماعت پاس کرنے میں مجھے بڑے بڑے مسائل سے نبرد آزما ہونا پڑتا اور مختلف اقسام کے پاپڑ بیلنے پڑتے۔ بہرحال
زندگی تو ہے مرمر کے جیئے جانے کا نام
کسی نہ کسی طرح میں ایک ڈپلومہ انجینئر بن ہی گیا ۔ کارخانے میں میری ملازمت بھی لگ گئی۔ جس کے بعد ۔۔۔
*۔۔۔*
ادھر عارف کی زندگی بھی کچھ مختلف نہ تھی۔ وہ کہتا تھا
زندگی تو ہے ہی بند ہو ہو کے اسٹارٹ ہونے کا نام
اس نے آرٹس کے کسی شعبہ سے ڈگری لی تھی اور ایک میگزین میں کام کررہا تھا۔ جس طرح بچپن میں پڑھائی اس کے پلے نہیں پڑتی تھی ، اسی طرح اب بھی یہ کام اس کی سمجھ سے باہر تھا اور وہ اکثر میری مدد لینے آتا رہتا تھا۔
’’یار ایڈیٹر صاحب نے کہا ہے کہ یہ تو ٹریفک کا مسئلہ ہے اس پر آرٹیکل لکھ کر لاؤں، مگر یہ تو سیدھا سیدھا آبادی کا مسئلہ ہے میں اس پر ایک صفحہ کا مضمون کیسے لکھ سکتا ہوں؟‘‘ عارف نے پوچھا۔
’’ میری جان یہ صرف آبادی کا مسئلہ نہیں ہے۔ ساری کی ساری آبادی سڑکوں پر تو نہیں رہ رہی ناں۔ بات یہ ہے کہ بینکوں نے جو گاڑیوں کیلئے قرضے دینا شروع کر دیئے ہیں اس سے گاڑیاں ہر غریب امیر کی پہنچ میں آگئی ہیں۔ اب جو شخص گاڑی خریدنے کے قابل پانچ سال بعد ہونا تھا، وہ بھی گاڑی آج ہی خرید رہا ہے اور پانچ کے بجائے دس سال تک اس کی قسطیں بھر رہا ہے۔ اس طرح سڑکوں پر گاڑیاں بڑھیں گی نہیں تو اور کیا ہوگا۔
دوسرے یہ کہ حکومت نے ٹرانسپورٹرز کو وہ سہولیات اور تحفظ فراہم نہیں کیا ہوا کہ جس کی وجہ سے وہ اپنی بسیں بڑھائیں۔ آئے دن کوئی نہ کوئی بس جلا دی جاتی ہے، جس کی وجہ سے دوسرے بزنس میں اس کام میں آنے سے ڈرتے ہیں۔ اگر بسیں زیادہ اور سستی ہوں تو گاڑیاں موٹر سائیکلیں خود بخود کم ہوجائیں۔ تیسرے یہ کہ اگر حکومت شہر کے اندر سرکلر ریلوے۔۔۔‘‘
عارف نے میری بات کاٹی۔’’صبر یار صبر۔۔۔ میں لکھ لیتا ہوں یہ سب۔ دو صفحے تو یہیں بیٹھے بیٹھے مکمل ہوجائیں گے۔‘‘
*۔۔۔*
چھٹی کے دن میں عارف سے ملنے کبھی کبھار اس کے والد کی دکان پر چلے جایا کرتا تھا۔ وہ وہیں ہوتا تھا۔ باپ کے ساتھ کام کرکر کے وہ بھی پورا میکینک بن گیا تھا۔ فرصت کے اوقات میں اور خصوصاً چھٹی کے دن وہ وہیں وقت گزارتا۔
میں اس کی دکان پر بیٹھا تھا کہ ایک گاڑی والا عارف کے پاس آیا اور اسے اپنی گاڑی کا کوئی مسئلہ بتایا۔ عارف نے اسے حل کرنے کی حامی بھر لی۔ ایسے میں گاڑی والا بولا۔
’’ لیکن یہ گاڑی آٹو میٹک ہے، کیا آپ اس کا کام کرتے ہیں؟‘‘
’’کرتے تو نہیں ہیں مگر آج کرلیں گے۔‘‘ عارف بولا۔
’’ نہیں نہیں۔۔۔ کہیں کوئی گڑبڑ نہ ہوجائے۔ میں کہیں اور دکھا لیتا ہوں۔‘‘ گاڑی والے نے حجت کی۔
مگر عارف نے بڑے یقین کے ساتھ اسے تسلی دی اور وہ مسئلہ حل کرنے میں بہت دلچسپی ظاہر کی۔
گاڑی والا مان گیا اور عارف گاڑی پر جت گیا۔ کافی دیر کی محنت کے بعد آخر عارف وہ مسئلہ حل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔
گاڑی والے کے چہرے پر سکون آیا جبکہ عارف کی خوشی تو دیدنی تھی۔
اس دن میں نے اسے ایک مشورہ دیا۔
’’عارف یار! تم یہ جرنلزم وغیرہ چھوڑو۔ وہ تمہارے بس کی بات نہیں۔ تم یہاں دکان پر بہت زیادہ مطمئن اور خوش زندگی گزار سکتے ہو۔‘‘
مجھے تو مفت مشورہ دینے میں کچھ نہ کرنا پڑا مگر یہ شاید اس کے بھی دل کی آواز تھی۔ اس نے اپنی نوکری چھوڑی اور مکمل طور پر دکان کا ہو رہا۔
پھر اس نے اردگرد کی ایک دو دکانیں اور حاصل کر لیں اور اپنے کام کو ایسا بڑھایا کہ اس کی اچھی خاصی بڑی ورک شاپ قائم ہو گئی۔ کئی لڑکے اس نے اپنی مدد کے لیے رکھ لیے اور لوگ دور دور سے اپنی گاڑیاں بنوانے وہاں آنے لگے۔
*۔۔۔*
ایک چھٹی کے روز میں عارف کے ائرکنڈیشنڈ آفس میں بیٹھا اپنی ملازمت کی مصیبتیں اور تنگی کا رونا رو رہا تھا کہ عارف بولا۔
’’بات دراصل یہ ہے کہ تم اس انجینئر کی نوکری کیلئے غیر موزوں ہو۔ تمہاری صلاحیتیں ہیں تجزیہ نگاری کی، جہاں میں نوکری کیا کرتا تھا، اگر وہاں تم ہوتے تو نہ جانے کتنی ترقی کرچکے ہوتے۔‘‘
’’ لیکن یار بھلا وہاں مجھے کیا تنخواہ مل سکے گی؟‘‘ میں منہ بنا کر بولا۔
’’ جب تم نے مجھے مشورہ دیا تھا کہ میں دکان پر آجاؤں تب میں نے یہ نہیں سوچا کہ مجھے ایک لگی بندھی تنخواہ سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔ میں نے اپنا شوق دیکھا اور بے خطر کود پڑا۔
میں حیران ہوتا تھا کہ جو چیزیں سارا دن کی مغز ماری کے بعد بھی میری سمجھ میں نہ آتی تھیں۔ وہ تمہاری انگلیوں پر ہوتی تھی۔ تمہیں اس کیلئے کوئی ذہن نہیں لگانا پڑتا تھا۔ بلکہ تم اپنے شوق سے اسے خوشی خوشی کر لیا کرتے۔
آج تمہارا اس فیلڈ میں جانے کا مطلب یہ نہیں کہ تم ہمیشہ ایک چھوٹے موٹے تجزیہ نگار ہی رہو گے بلکہ ہو سکتا ہے کہ کل تمہارا ایک میگزین ہو ، ایک اخبار ہو، یا کیا پتہ ایک نیوز چینل ہو۔‘‘
عارف کی باتیں سیدھا میرے دل میں اتر رہی تھیں اور میں مکمل طور پر اس کا قائل ہو چکا تھا۔
’’اوہ ۔۔۔ اوہ! اس کا مطلب تو یہ کہ اگر تم آٹھویں میں فیل ہو گئے ہوتے تو پہلے ہی یہ کام شروع کر چکے ہوتے اور میں اگر سائنس گروپ نہ لیتا تو میں بھی اپنی پسند کا کام کرکے ایک آسان اور مطمئن زندگی گزار رہا ہوتا۔‘‘ میں تیز تیز لہجہ میں بولا۔
’’ بالکل۔۔۔ میں کافی عرصہ تک سوچتا رہا کہ ہم دونوں نے جو نقل آٹھویں کلاس میں کی اس سے ہم نے کسے دھوکہ دیا، کیا اسکول والوں کو کوئی نقصان پہنچایا۔۔۔؟ بالکل نہیں۔ بلکہ ہم لوگوں نے اپنے ہی ساتھ نقل کی۔ جو دھوکہ کیا اپنے ہی ساتھ کیا اور جو نقصان پہنچایا خود ہی کو پہنچایا۔‘‘
’’ ٹھیک ہے یار اب تو ہم نے اس نقل کا بہت خمیازہ بھگت لیا ہے، لہٰذا چھوڑو اس بات کو اور اپنے ایڈیٹر صاحب کا فون نمبر دو تاکہ کل میں انٹرویو دینے جا سکوں۔‘‘
*۔۔۔*