skip to Main Content
رزلٹ کے بعد

رزلٹ کے بعد

حماد ظہیر

…………………………………………………………
ایک ایسے بے چارے کی بپتا‘ جو پوزیشن لا کر بھی زمانے بھر کی تنقید کا شکار تھا

…………………………………………………………

اس رات ہمیں نیند مشکل ہی سے آتی، سر پر تلوار جو لٹک رہی ہوتی تھی، ایک ایک پل ماہ و سال جتنا معلوم ہوتا تھا، کسی کل چین نہ تھا، ہمارا بس نہیں چلتا تھا کہ گھڑی ہاتھ میں لے کر وقت آگے بڑھادیں اور کل لے آئیں، کہ کل رزلٹ آنا ہوتا تھا۔
گو کہ ہمیں معلوم تھا کہ رزلٹ آنے کے بعد ہماری چھٹیاں ختم ہوجائیں گی اور پھر سے روزانہ اسکول جانا پڑے، اس کے باوجود ہمیں اس کی جلدی تھی، ایسا نہ تھا کہ رزلٹ والے دن ہم بہت خوش ہوتے تھے، جو اس بے چینی سے اس کا انتظار کرتے تھے، بلکہ یہ دن ہمارے لیے بے انتہا مشکل اور کٹھن ہوا کرتا تھا، جس کا ایک ایک لمحہ ہمارا خون جگر نچوڑ دیا کرتا تھا۔
وجہ یہ بھی نہ تھی کہ ہم انتہائی نالائق طالبعلم ہوں، ہم تو بے حد ذہین فتین طلبہ میں شمار ہوتے تھے اور پوزیشن ہولڈر تھے۔

*۔۔۔*

ہمارا ساتویں کے سالانہ امتحان کا رزلٹ تھا، ہم اسمبلی ہال میں کھڑے یہ سوچ رہے تھے کہ کاش ہم پہلی کلاس میں ہوتے، اس لیے نہیں کہ چھوٹے ہونے کی وجہ سے ہمیں ٹینشن کم ہوتی، بلکہ اس لیے کہ ہمیں اپنا نتیجہ جلد مل جاتا۔
ساتویں کلاس کا نمبر آتے آتے ہمارا دل دھڑک دھڑک کر پاگل ہوچکا تھا، ہر کلاس کے دو، دو، تین، تین سیکشن کے فرسٹ، سیکنڈ اور تھرڈ کے لیے تالیاں بجا بجا کر ہاتھ بھی دکھ چکے تھے، یہ تالیاں ہمیں اپنے دماغ پر ہتھوڑے بن کر پڑتی ہوئی محسوس ہورہی تھیں اور کیوں نہ ہوتیں، ان کی وجہ سے ہمارا رزلٹ جو تاخیر کا شکار ہورہا تھا۔
آخر کار ساتویں کلاس کا نمبر آیا، تیسری پوزیشن کا اعلان ہونا شروع ہوا، ہمارا دل گویا تھوڑی دیر کے لیے رک سا گیا، مگر وہ ہمارا نام نہیں تھا۔۔۔ ہماری سانس میں سانس آئی۔
مگر جلاد نے ایک مرتبہ پھر بندوق لوڈ کی، اور ہمارے ماتھے پر رکھ کر دوسری پوزیشن کا نام پکارنا شروع کیا۔ یہ آخری مرحلہ تھا، اگر یہاں بھی ہمارا نام نہ ہوتا تو مکمل طور پر ہماری جان میں جان آجانی تھی، ہم نے سکھ کا سانس لے لینا تھا اور خدا کا شکر ادا کرنا تھا کہ ہم مرتے مرتے بچے، کہ اس صورت میں ہمیں فرسٹ آنا تھا، جو ہم ہمیشہ ہی آیا کرتے تھے، ہمارے گھر میں کبھی یہ بات نہ ہوا کرتی تھی کہ ہم فرسٹ آئے، پوچھا ہمیشہ یہ جاتا تھا کہ فلاناں مضمون میں کم نمبر کیوں آئے، کم نمبروں کا مطلب یہ نہ ہوتا تھا کہ ستر یا اسی، بلکہ ہمارے کم نمبر بھی نواسی نوے ہوا کرتے تھے، ان موقعوں پر یہ کوئی نہ دیکھتا کہ بچہ سو سو نمبر بھی تو لایا ہے، مجموعی فیصد پچانوے بنی ہے وغیرہ وغیرہ، مگر فرسٹ آنے کو اور اچھے نمبروں کو معمول سمجھ کر نظر انداز کردیا جاتا تھا۔
یہی وجہ تھی کہ رزلٹ کے دن فیل ہونے والے لوگ فیل ہونے سے اتنا ڈرا سہما نہیں کرتے تھے جتنا ہم سکینڈ آنے سے کانپتے تھے۔
مگر آج قدرت کو یہی منظور تھا چنانچہ ہمارا نام پکاردیا گیا، ہم پہ تو گویا بجلی گر گئی، ہم سکتہ کے عالم میں کھڑے یہ سوچ سوچ کر ہلکان ہورہے تھے کہ اب آگے کیا ہوگا، کسی نے ہمیں ٹہوکا مارا کہ اسٹیج پر جاؤ، تمہارا نام ہے، تو ہم مردہ مردہ قدموں سے چل دیے، ایک ایک قدم سو سو من کا ہورہا تھا اور دل یہ چاہ رہا تھا کہ اسٹیج اور ہمارے درمیان مشرق اور مغرب کا فاصلہ ہوجائے، کہ ہم زندگی بھر بھی چلتے رہیں تو اس تک نہ پہنچ سکیں۔
لیکن فاصلے نے بھی دھوکا دیا، وہ نہ جانے کب سمٹ گیا اور ہم نے خود کو اسٹیج پر پایا، رپورٹ کارڈ کو ہم نے ایسی شرمندگی سے لیا، گویا وہ ہمارے جرائم کا ریکارڈ ہو، انعامی شیلڈ اور انعام کے پیکیٹ کو لیتے وقت بھی ہمارے چہرے پر ایسی پشیمانی تھی جیسے یہ عمر قید یا پھانسی کا تحفہ ہو، سچ تو یہ تھا کہ ہم کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے تھے، نہ کلاس والوں کو، نہ اساتذہ کو، اور نہ ہی گھر والوں کو۔

*۔۔۔*

جاوید ہمارا کافی راز دار دوست تھا، ہم جذباتی انداز میں اس سے کہہ رہے تھے:
’’دیکھنا اب ہم کیسی پڑھائی کریں گے اور کیسے نمبر لیں گے‘ اپنی کلاس ہی میں نہیں بلکہ پورے اسکول میں ٹاپ کریں گے، اور اتنے زیادہ نمبر حاصل کریں گے کہ کوئی دوسرا قریب بھی نہ پھٹک پائے گا، ہمارا سکہ ایک بار پھر جم جائے گا، سارے داغ دھل جائیں گے‘‘۔
’’میرے یار! یہ جوش میں آکر کام خراب کرنے کا موقع نہیں ہے، تم اپنا اور نقصان کرلوگے‘‘۔
جاوید نے ہمیں سمجھانے کی کوشش کی۔
’’کیا نقصان ہوگا بھلا‘ ٹاپ کرنے والے کا بھی کہیں کوئی نقصان ہوتا ہے، باؤلے ہوگئے ہو۔
ہم نے منہ بنایا۔
’’دیکھو میری جان تم صرف شارٹ ٹرم دیکھتے ہو، تنگ نظری سے، اس سے کبھی بھی پائیدار حل حاصل نہیں ہوتا‘ تمہیں چاہیے کہ تم لانگ ٹرم سوچو، وسیع النظری سے‘‘۔
’’تم دادا ابو تو بننا چاہ ہی رہے ہو تو چلو بتاؤ‘ کیا کہنا چاہ رہے ہو‘‘۔
ہم نے لچک دکھائی۔
’’نہ تم کوارٹرلی میں کوئی پوزیشن حاصل کرو گے‘ نہ ہی ہاف ایرلی میں‘‘۔
جاوید نے گویا بم پھاڑا۔
’’کیا‘ پاگل ہوگئے ہو تم دماغ تو ٹھیک ہے تمہارا‘ ہم بھی پھٹ پڑے۔
’’بالکل ٹھیک ہے‘ اور ابھی جب تمہیں سمجھاؤں گا تو تمہیں بھی ٹھیک لگے گا‘‘۔ وہ سکون سے بولا۔
’’تمہیں شاید اندازہ نہیں ہے کہ سیکنڈ ہی آنے پر ہمارا کیا حال ہوا ہے، کس کس کے طنز اور طعنوں کا شکار نہیں ہوئے ہم، عزت آدھی کوڑی کی رہ گئی ہے۔ ہر طرف سے پھٹکار پڑ رہی ہے‘‘۔
’’یہی تو مسئلہ ہے میرے یار‘ تمہاری کوئی قدر نہیں کرتا۔ میں تمہیں جو حل بتارہا ہوں اس کے بعد تم تھرڈ بھی آجاؤ تو دیکھنا کیسے پذیرائی ہوگی۔‘‘
ہم خاموشی سے اس کی طرف دیکھتے رہے، وہ دوبارہ بولا۔
’’تم جان بوجھ کر پرچے خراب کرو‘ چوتھی پانچویں پوزیشن حاصل کرو اور گھر میں بتادو کہ کلاس میں کچھ نئے طلبہ آئے ہیں جو بے حد ذہین ہیں، ان کے درمیان پوزیشن لانا ناممکن ہے‘‘۔
’’کیا اس پر ہمیں باتیں نہیں سنائی جائیں گی؟‘‘۔ ہم نے طنزیہ لہجہ میں بولے۔
’’ابھی جو کچھ تمہارے ساتھ ہورہا ہے، اس سے زیادہ کیا ہوگا‘‘۔ وہ لاپروائی سے بولا۔
ہمیں اس کے آئیڈیے سے ڈر تو بہت لگا لیکن بھلائی بھی اسی میں نظر آئی۔
’’کواٹرلی اور ہاف ایرلی میں کیا ہوتا ہے یار‘ فائنل میں تم ہی ٹاپ کرنا‘‘۔
اس نے ہمیں قائل کرہی لیا!

*۔۔۔*

ساری رات ہم نے آنکھوں میں کاٹی، دل تو چاہتا تھا کہ ہارٹ فیل ہوجائے تاکہ جان چھوٹے، لیکن دل بری طرح دھڑک کر صرف ہمیں پریشان کررہا تھا، نہ ٹھیک سے چلتا تھا، نہ ہی بند ہوتا تھا۔
بڑی ہی مشکل سے صبح کی، ڈرتے ڈراتے اسکول پہنچے اور کافی دیر بے چینی اور صبر سے انتظار کرنے کے بعد سوچنے لگے کہ کاش ہم پہلی یا دوسری جماعت میں ہوتے، تاکہ رزلٹ تو کم از کم جلدی ملتا۔
حسب پروگرام، پچھلے امتحانات میں ہم نے کوئی پوزیشن نہ لی تھی، یہاں تک کہ آج آٹھویں کے سالانہ امتحان کے نتائج کا دن آگیا تھا۔
کچھوے کی رفتار سے اعلان ہورہا تھا اور انعامات تقسیم ہورہے تھے، کافی کافی دیر بعد اگلی کلاس کا نمبر آتا۔
ہمیں ایسا لگا کہ ہماری کلاس کا نمبر شاید شام تک آئے، ہر سال پاس ہوجانے میں ایک مسئلہ یہ بھی ہوتا ہے کہ اگلے سال رزلٹ کا نمبر اور دیر سے آتا ہے۔
بہرحال ہماری کلاس کا نمبر آیا اور ہم نے دل تھاما۔ تیسری پوزیشن بتائی گئی تو ہماری جان میں جان آئی کہ ہماری نہیں تھی۔
دل بہت دھڑکا کہ اب کہ بھی کہیں دوم نہ آجائیں، بڑی دعائیں کیں، دوسری پوزیشن کا اعلان ہوا، اور ہم نے صد شکر ادا کیا کہ یہ بھی ہمارا نام نہ تھا۔ اب ہم پوری طرح پرسکون اور مطمئن تھے، رکا ہوا سانس دوبارہ چلنا شروع ہوگیا، رگوں میں جمتا ہوا خون پھر دوڑنے پھرنے لگا، کچھ آنکھ سے بھی ٹپکنے لگا، ہم پرجوش تھے، خوش اور فاتح، ہم نے آخر جو سوچا تھا کر ہی دکھایا تھا، آج ہم نے سب کے منہ بند کردینے تھے، بچھڑے ہوئے سے پھر گلے لگ جانا تھا، زندگی پھر سر اٹھا کر جینا مانگ رہی تھی اور اب سینہ تان کر چلنے کا وقت تھا۔
پہلی پوزیشن کا اعلان ہوا، ہم بال درست کرتے ہوئے اور ٹائی جھاڑتے ہوئے آگے بڑھے مگر۔۔۔ پتا نہیں چلا کہ مگر کے بعد کیا ہوا، کیوں کہ ہم پتھر کے ہوچکے تھے، نہ ہی کچھ سننے کے قابل رہے تھے اور نہ ہی کچھ دیکھنے کے۔۔۔ کسی مجسمے کی طرح بت بنے کھڑے تھے، اتنی ہمت بھی نہ تھی کہ گر ہی جائیں، کیوں کہ شاید کوئی ہمیں اٹھانے والا بھی نہ تھا۔
پہلی پوزیشن کے لیے پکارے جانے والا نام کسی اور کا تھا، ہمیں نہیں پتا کہ لوگوں نے کیا کیا کہا، نہ یہ ہی پتا چلا کہ ہمارا نتیجہ کیا آیا، نہ ہی ہمیں گھر والوں کے طعنے اور ڈانٹ سمجھ آئی، ہم دنیا سے اور زندگی سے بے زار، بے زار سے ہوگئے، یہاں تک کہ ہمارے کانوں میں آواز آئی:
’’انسان کی آخرت کا فیصلہ اس کے انجام پر ہوگا، اگر خاتمہ ایمان پر ہوا تو آخرت اچھی ورنہ ہمیشہ کی تباہی اور ناکامی۔۔۔ اب اسی انجام کو اچھا کرنے کے لیے ساری زندگی کی مشق ہے، جو زندگی میں اچھے کام کرے گا اس کا انجام بھی ان شاء اللہ تعالیٰ اچھا ہوا اور جو نیکیاں کرنے میں ٹال مٹول کرتا رہا، اس امید پر کہ بعد میں نیک بن جائے گا، اس کے لیے شاید ایسا کرنا ممکن نہ ہو۔
لہٰذا آج سے نہیں بلکہ ابھی سے تہیہ کیجیے کہ زیادہ سے زیادہ اچھے کام کریں گے اور برائیوں سے بچیں گے‘‘۔
مسجد کے لاؤڈ اسپیکر پر خطبہ کی آواز آرہی تھی اور ہم جو کہ عین نماز کھڑی ہونے کے وقت گھر سے نکلا کرتے تھے ابھی سے مسجد کا رخ کرچکے تھے، کیوں کہ ہمیں پتا چل چکا تھا کہ سستی کرنے والے کے لیے بعد میں کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہوئے بھی مشکل ہوجاتا ہے۔

*۔۔۔*

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top