skip to Main Content
موتہ کا شہسوار

موتہ کا شہسوار

فریال یاور

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حضرت عبدﷲ بن رواحہ رضی اللہ عنہ جب اہل مدینہ سے رخصت ہونے لگے تو ان کو پورا یقین تھا کہ اب وہ اس دنیا میں واپس نہیں آئیں گے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

رات کا وقت ہے۔ کائنات مکمل سکون میں ہے۔ لوگ اپنے اپنے گھروں میں محو خواب ہیں لیکن کچھ لوگ محو سفر ہیں۔ یہ تین ہزار مجاہدین کا دستہ ہے۔ ان کی منزل موتہ ہے۔ انہی مسافروں میں ایک مسافر بڑے درد و سوز کے ساتھ اپنی اونٹنی کے کجاوہ پر بیٹھا یہ اشعار پڑھ رہا ہے۔
’’اے میری اونٹنی جب تونے مجھے میدانی علاقے سے چار دن کی مسافت پر اتار دیا تو، تونے اپنا فرض ادا کر دیا۔ اے ﷲ! تیری شان انعام کرنا ہے اور تو ہر عیب سے پاک ہے۔ مجھ کو اپنے اہل و عیال میں واپس نہ لانا اور مسلمان آگئے اور مجھے سرزمین شام میں چھوڑ دیا جہاں میں ٹھہرنا چاہتا تھا۔ تجھ کو ہر قریبی نسب والے نے ﷲ کی طرف جاتے ہوئے چھوڑ دیا اور بھائی بندی ختم کر دی۔ اس وقت میں خشک اور تر کھجوروں سے بے نیاز ہوں کہ اسے اپنی سیرابی کے لیے جھاڑوں۔‘‘
یہ اشعار سن کر کجاوہ کے پالان میں ساتھ بیٹھا مسافر رونے لگا۔ شعر کہنے والے مسافرنے اپنا دُرّہ اٹھایا اور کہا کہ ’’اے بے وقوف تیرا کیا حرج ہے اگرﷲ مجھے شہادت نصیب کرے اور تو میرا کجاوہ کو میرے خاندان میں واپس لے جائے۔‘‘
یہ اشعار کہنے والے مسافر حضرت عبدﷲ بن رواحہ انصاری تھے۔ جن کے ساتھ کجاوہ میں ان کے بھتیجے حضرت زید بن ارقم تھے جو بچپن میں یتیم ہو گئے تھے اور آپ کا تعلق قبیلہ خزرج سے تھا۔ آپ کی والدہ کبشہ رضی اللہ عنہا بھی ایک نیک خاتون تھیں اور ان کا شمار بھی صحابیات میں ہوتا ہے۔
حضرت عبدﷲ رضی اللہ عنہ بن رواحہ کا شمار اپنے علاقے کے صاحب اثر لوگوں میں ہوتا تھا۔ آپ نہ صرف لکھنا پڑھنا جانتے تھے بلکہ ایک اعلی پائے کے شاعر بھی تھے۔ آپ کی فطرت شروع ہی سے نہایت پاکیزہ تھی۔ یہی وجہ تھی کہ جب اسلام کا چرچا پھیلا تو حضرت عبداﷲ رضی اللہ عنہ نے بھی بلاتامل اسلام قبول کر لیا۔ آپ نے بیت عقبہ اولیٰ ۱۳ ھ نبوی میں بھی شامل ہونے کی سعادت حاصل کی۔ ہجرت کے بعد حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جب مدینہ آمد ہوئی تو حضرت عبدﷲ رضی اللہ عنہ بن رواحہ ان روساء میں سے ایک تھے۔ جنہوں نے مدینہ پہنچنے پر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا پرجوش استقبال کیا اور میزبانی کی خواہش ظاہر کی۔
آپ رضی اللہ عنہ کو شعر گوئی پر خاص قدرت حاصل تھی۔ قبول اسلام کے بعد آپ رضی اللہ عنہ نے اپنی شاعری تبلیغ اسلام کے لیے وقف کر دی۔ آپ رضی اللہ عنہ کا شمار دربارِ رسالت کے تین مشہور شعراء میں ہوتا ہے۔ دوسرے دو شعراء حضرت حسان رضی اللہ عنہ بن ثابت اور حضرت کعب رضی اللہ عنہ بن مالک تھے۔ حضرت عبدﷲ بن رواحہ اپنے اشعار میں کفار کی گمراہی پر ایسی چوٹ کرتے کہ وہ تلملا اٹھتے ۔ ایک روایت ہے کہ سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم جب غزوہ احزاب سے فارغ ہوئے تو صحابہ کرام سے فرمایا: ’’آج کے بعد کفار کو تم سے لڑنے کی ہمت نہیں ہوگی لیکن وہ تمہاری ہجو کہیں گے تو مسلمانوں کی عزت کو تم میں سے کون محفوظ رکھے گا۔‘‘
اس موقع پر فوراً حضرت عبدﷲ بن رواحہ نے اٹھ کر اپنی خدمات پیش کیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت عبدﷲ رضی اللہ عنہ بن رواحہ کے اشعار بہت پسند تھے اور کئی موقعوں پر مسجد نبویؐ کی تعمیر کے وقت جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کے ساتھ اینٹیں اور گارا اٹھا رہے ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر حضرت عبداﷲ بن رواحہ کے یہ اشعار ہوتے۔ ’’الٰہی اجر تو بس آخرت کا ہے، پس تو مہاجرین و انصار پر رحم فرما۔‘‘
غزوۂ احزاب میں خندق کھودنے کے وقت یہ اشعار حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم باآواز بلند پڑھ رہے ہوتے تھے۔ 
’’الٰہی تیری مدد نہ ہوتی تو ہم کو ہدایت کہاں ملتی۔ نہ ہم زکوٰۃ دیتے نہ ہم نماز پڑھتے۔ اے ﷲ تو ہم پر اپنی تسکین فرما اور ہم کو ثابت قدم رکھ۔ ‘‘
حضرت عبداﷲ بن رواحہ کو پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بے انتہا محبت تھی اور آپ رضی اللہ عنہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر فدا ہونے کے لیے ہر وقت تیار رہتے۔ ایک مرتبہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت سعدرضی اللہ عنہ بن عبادہ کی عیادت کے لیے تشریف لے جا رہے تھے اور سواری پر تھے۔ راستے میں ایک مجلس میں کچھ مسلمان اور منافقین ساتھ بیٹھے تھے۔ اسی مجلس میں رئیس المنافقین عبدﷲ بن اُبی بھی بیٹھا تھا۔ جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے سخت خار کھاتا تھا۔ جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ادھر سے گزرے تو عبدﷲ بن اُبی نے اپنی چادر ناک پر رکھ لی اور بڑی بدتمیزی سے بولا۔
’’گرد مت اڑاؤ۔‘‘ اس کے جواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سواری سے اتر کر سب حاضرین مجلس کو سلام کیا اور ﷲ کی وحدانیت پر ایک مختصر خطبہ دیا۔ جس پر عبدﷲ بن اُبی منافق نے کہا کہ اگر تمہاری باتیں سچی ہیں تو یہ ان لوگوں کو بتاؤ جو تمہارے پاس آئیں یہاں آکر ہمیں پریشان نہ کرو۔
حضرت عبدﷲ بن رواحہ یہ باتیں سن کر تڑپ گئے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا: ’’یارسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم آپ ضرور تشریف لائیں ہم آپ کے ارشادات کو دل و جان سے پسند کرتے ہیں۔ اس موقع پر بات اتنی بڑھی کہ تلواریں نکل آئیں لیکن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے حکیمانہ طریقے سے انہیں سمجھایا کہ وہ ٹھنڈے پڑ گئے۔
۶ ہجری میں حدیبیہ کے مقام پر بھی آپ رضی اللہ عنہ ان چودہ سو عاشقان اسلام میں شامل تھے۔ جنہوں نے بیت رضوان کے نام سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر موت کی بیت کی تھی۔ جس کے نتیجے میں ان لوگوں کو ﷲ کی بارگاہ سے ’’اصحاب الشجرہ‘‘ کا لقب ملا۔ بیت رضوان سے پہلے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ رضی اللہ عنہ کو ایک خاص مہم پر بھی مامور کیا تھا جو سریہ عبدﷲ بن رواحہ کے نام سے مشہور ہے۔ صلح حدیبیہ میں قریش سے معاہدے کے نتیجے میں ۷ ہجری میں مسلمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ عمرہ کی ادائیگی کے لیے مکہ روانہ ہوئے۔ اس مبارک موقعہ پر آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اونٹ کی مہار تھامی ہوئی تھی اور چند اشعار بڑے جوش و جذبے سے پڑھ رہے تھے۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ کو یہ اشعار سخت محسوس ہوئے تو آپ نے حضرت عبدﷲ کو ٹوکا کہ حرم میں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایسے اشعار پڑھتے ہو۔۔۔۔؟ تو پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں عبدﷲ رضی اللہ عنہ کے اشعار سن رہا ہوں۔ان کے اشعار کفار پر تیر و نشتر کاکام کرتے ہیں۔‘‘
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداﷲ بن رواحہ سے فرمایا کہ تم یہ کہو: ’’ﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اس نے اپنے بندے کی مدد اور اس کے لشکر کو زور آور کر دیا اور دشمن کے لشکر کو اس نے اکیلے ہی شکست دی۔‘‘ حضرت عبداﷲ رضی اللہ عنہ نے ارشاد کی تعمیل کی تو تمام اصحاب رضی اللہ عنہ نے بھی آواز ملا کر یہ الفاظ کہے جس سے ایسی گونج پیدا ہوئی کہ کفار کے دل دہل گئے۔ غزوات کا سلسلہ شروع ہوا تو بدر سے لے کر موتہ تک تمام غزوات میں پورے جوش و ایمان کے ساتھ شرکت کی۔ بدر کے موقع پر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو اور حضرت زید بن حارثہ کو مدینہ فتح کی خوشخبری سنانے کے لیے بھیجا۔ صلح حدیبیہ کے بعد حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف بادشاہوں کے نام دین کی تبلیغ کے لیے خطوط روانہ کیے تو ایک خط حضرت حارث رضی اللہ عنہ بن عمیر کے ہاتھ بصرہ روانہ کیا۔ جب حضرت حارث موتہ پہنچے تو وہاں کے حاکم نے ان کو گرفتار کرکے قتل کر دیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے قاصد کی بے قصور موت کی خبر ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حارث رضی اللہ عنہ کے خون کا بدلہ لینے کے لیے تین ہزار مجاہدین کا لشکر حضرت زیدرضی اللہ عنہ بن حارثہ کی سالاری میں روانہ کیا اور ارشاد فرمایا: ’’اگر زید رضی اللہ عنہ شہید ہوجائیں تو حضرت جعفر طیاررضی اللہ عنہ امیر لشکر ہوں گے اگر وہ بھی شہید ہوجائیں تو عبدﷲ بن رواحہ رضی اللہ عنہ اور اگر وہ بھی شہید ہوجائیں تو مسلمان جس کو مناسب سمجھیں اپنا امیر بنا لیں۔‘‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سفید جھنڈا بنا کر حضرت زید رضی اللہ عنہ بن حارثہ کے حوالے کیا۔ حضرت عبدﷲ بن رواحہ رضی اللہ عنہ جب اہل مدینہ سے رخصت ہونے لگے تو ان کو پورا یقین تھا کہ اب وہ اس دنیا میں واپس نہیں آئیں گے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لشکر کو مدینہ سے باہر آکر رخصت کیا۔ جب پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لے گئے تو حضرت عبدﷲ رضی اللہ عنہ بن رواحہ کا دل بھر آیا اور ان کی زبان پر بے ساختہ یہ شعر آگیا۔ 
’’اس ذات پر آخری سلام کہ میں نے جن کو کھجور کے درختوں میں رخصت کیا۔ جو الوداع کہنے والوں میں سب سے بہترین اور جو سب سے بہتر دوست ہیں۔‘‘
یہ اسلامی لشکر جب حدودِ شام میں داخل ہوا تو انہیں دشمن کی کثیر تعداد اور جنگی تیاریوں کا علم ہوا۔ انہوں نے یہ مشورہ کیا کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو ان حالات کی اطلاع دی جائے۔ حضرت عبدﷲ بن رواحہ نے پرجوش خطاب کیا۔
’’اے لوگوں تم کس بات سے گھبرا رہے ہو۔ تمہارا مقصد تو راہِ حق میں اپنی جانیں قربان کرنا ہے۔ مسلمان کبھی مادی قوت اور آدمیوں کی کثرت پر نہیں لڑتے۔ وہ صرف دین حق کی خاطر لڑتے ہیں۔ آگے بڑھو اور دو کامیابیوں میں سے ایک حاصل کر لو۔ شہادت یا فتح۔‘‘ 
اس خطاب نے تمام مجاہدین میں شہادت کی آگ بھڑکادی اور وہ موتہ پہنچ کر رومی فوجوں سے ٹکرا گئے۔ حضرت زیدرضی اللہ عنہ بن حارثہ شہید ہوئے تو علم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق حضرت جعفر طیاررضی اللہ عنہ نے سنبھالا وہ بھی شہید ہو گئے تو حضرت عبدﷲ رضی اللہ عنہ بن رواحہ امیر لشکر بنے اور مردانہ وار لڑتے ہوئے دشمنوں کی صف میں گھس گئے۔ لڑتے لڑتے انگلی میں زخم آیا اور وہ کٹ کر لٹک گئی۔ حضرت عبدﷲ رضی اللہ عنہ بن رواحہ نے پاؤں سے دبا کر ہاتھ کھینچ کر وہ انگلی نکال پھینکی۔ آپ نے تین دن سے کچھ نہیں کھایا تھا اور خون بھی زیادہ بہہ گیا۔ لیکن نقاہت کے باوجود دوبارہ دشمنوں کی صف میں گھس گئے اور تلوار اور نیزے سے مقابلہ کرنے لگے کہ ایک دشمن نے برچھی کا ایسا وار کیا کہ خون کا فوارہ ابل پڑا اس خون کو آپ نے اپنے چہرے پر ملا اور مسلمانوں کو پکار کر کہا: ’’اپنے بھائی کے گوشت کو (یعنی لاش کو) بچاؤ کہ دشمن خراب نہ کریں اور ان کی روح پرواز کر گئی۔ جس وقت موتہ میں مسلمان جہاد میں مصروف تھے۔ میلوں دور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں منبر پر تشریف فرما تھے۔آپ کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور زبان پر یہ الفاظ تھے۔ ’’نشان لیا زید رضی اللہ عنہ نے اور وہ شہید ہوئے، نشان لیا اب جعفر نے اور وہ شہید ہوئے، نشان لیا اب عبدﷲرضی اللہ عنہ بن رواحہ نے اور وہ بھی شہید ہوئے اب نشان لیا ﷲ کی تلواروں میں سے ایک تلوار نے اور اس کو فتح دی گئی۔‘‘
یہ معجزات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں سے ایک معجزہ ہے کہ میدانِ جنگ کا پورا نقشہ آپ کی آنکھوں کے سامنے تھا اور آپ کو پل پل کی خبر مل رہی تھی اور جب ان تینوں اصحاب رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر آپ کو ملی تو آپؐ نے ان کے نام الگ الگ لے کر اور کھڑے ہو کر ان کے لیے دعاے مغفرت کی۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top