skip to Main Content
ہلتے ہونٹ

ہلتے ہونٹ

نذیرانبالوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جعفر کی آنسو بھری آنکھوں نے اختر کے ہلتے ہوئے ہونٹ دیکھے جن پر یقیناًاس کے لیے اب دعا ہی دعا تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میلے میں لگا موت کا کنواں لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا تھا۔موت کے کنویں میں موٹر سائیکل سوار کے ہاتھ چھوڑ کر مظاہرے کرنے کے بعد کار سوار جعفر نے برق رفتاری سے گاڑی چلانا شروع کی تو تماشائی دم بخود رہ گئے۔کئی کمزور دل لوگوں کی تو چیخیں بھی نکل گئی۔موت کے کنویں میں اس قدر تیز رفتاری سے گاڑی چلانا معمولی کام نہ تھا۔ تماشائی جعفر کی مہارت کی تعریف کئے بغیر نہ رہ سکے۔سبھی کنویں میں روپے پھینک کر اس کوداد دے رہے تھے۔ جعفر گاڑی سے ہاتھ نکال کر تماشائیوں سے پیسے بھی پکڑ رہا تھا۔کنویں کے پانچ چکر پورے کرنے کے بعد جعفر گاڑی کو لکڑی کی بنائی ہوئی مصنوعی دیواروں سے نیچے لے آیا‘ تماشائیوں نے تالیاں بجا کر جعفر کی ہمت بڑھائی تو وہ ہاتھ لہراتا ہوا موت کے کنویں سے نکل کر اس کے ساتھ لگائے گئے ایک خیمے میں چلا گیا ۔ دو گھنٹے بعد اسے دوبارہ یہ خطرناک مظاہرہ تماشائیوں کے سامنے پیش کرنا تھا۔وہ پانی پی رہا تھا کہ اس کے موبائل پر ایک مقبول عام فلمی گیت کی دھن بجنے لگی تھی۔اس نے پہلے سکرین پر نمبر دیکھا۔ پھر فون کو کان سے لگاتے ہوئے بولا۔
’’ہیلو ۔ ‘‘
’’کون صاحب بات کر رہے ہیں؟‘‘ جعفر نے پوچھا۔
’’میں روزنامہ ’’کھیل‘‘ کا رپو رٹر لیاقت بول رہا ہوں۔‘‘
’’جی فرمائیے میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں؟‘‘
’’میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’آپ کیوں مجھ سے ملنا چاہتے ہیں؟۔‘‘
’’ آپ ہمارے شہر میں آئے ہوئے ہیں ہم نے سوچا ہے کہ اس سنہری موقع کا فائدہ اٹھایا جائے اور اپنے قارئین کے لیے آپ کا ایک شاندار انٹرویو کیا جائے۔لوگ آپ کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔حکم کریں میں کب حاضر ہو جاؤں؟‘‘
’’میںآپ کے جذبات کی قدر کرتا ہوں مگر میں انٹرویو نہیں دوں گا۔‘‘ جعفر کی بات سن کر لیاقت نے کہا۔
’’ہماراادارہ آپ کو انٹرویو کا معقول اعزازیہ بھی دے گا۔‘‘
’’مجھے پیسوں کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ اپنا وقت ضائع نہ کریں۔‘‘
’’میرا خیال ہے کہ آپ کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنی چاہئے۔آپ سوچ لیں میں دوبارہ فون کروں گا۔تب تک کیلئے اللہ حافظ۔‘‘ ’’ اللہ حافظ۔‘‘
’’ انٹر ویو………. میرا انٹرویو………. ایک ناکام انسان کا انٹرویو……….. ایک بے سکون انسان کا انٹرویو……….. میں انٹر ویو نہیں دوں گا۔ جعفر خود سے باتیں کرتاہوا ماضی کو آواز دینے لگاتھا۔ وہ ماضی جس میں وہ موت کے کنویں میں خطرناک کھیل پیش کرنے والا جعفر نہیں ایک ننھا سا ‘ معصوم سا جعفر تھا۔
’’ڈرائیور گاڑی روکو۔‘‘ پچھلی سیٹ پر بیٹھا دس گیارہ سالہ جعفر چلایا تھا۔
کیا ہواہے؟‘‘ اختر ڈرائیور بولا۔
’’میں کہتا ہوں گاڑی روکو۔‘‘
’’چھوٹے صاحب پہلے ہی سکول سے دیر ہو رہی ہے۔‘‘
’’گاڑی روکتے ہو یا………… ‘‘
’’یا کیا؟……….. ‘‘ اختربولا۔
’’یا گاڑی کا دروازہ کھولوں………… ‘‘ جعفر چیخا۔
’’ایسا مت کیجئے گا‘ آپ کیوں ہاتھ دھو کر میری نوکری کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں‘ ،میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں ‘مجھ پر رحم کریں۔‘‘اختر روہانسی صورت بنا کر بولا۔
’’میں اب خود گاڑی چلاؤں گا‘ گاڑی روکو۔‘‘
’’میں ایسا نہیں کر سکتا۔‘‘
’’تمہیں ایسا کرنا پڑے گا ۔‘‘ اختر چلّایا۔
اسی بحث مین گلبرگ کا اشارہ آ گیا۔اشارے کی سرخ بتی پر گاڑی رکتے ہی جعفر دروازہ کھول کر اختر کو نیچے اترنے کیلئے کہنے لگا۔
’’میں آپ کو گاڑی نہیں دے سکتا۔‘‘
’گاڑی ہماری ہے جلدی سے نیچے اترو اب اسکول تک گاڑی میں چلاؤں گا۔‘‘
’’اپنی سیٹ پر بیٹھ جائیں میں نیچے نہیں اتروں گا۔‘‘
’’اترو نیچے۔‘‘ جعفر نے چلّاتے ہوئے دروازہ کھول دیا۔
’’بڑے صاحب کا حکم ہے کہ آپ کو گاڑی نہ دی جائے کیونکہ آپ کو صحیح طرح گاڑی چلانا نہیںآتی۔‘‘ اختر نے سمجھانے کی کوشش کی۔
اشارہ سرخ سے سبزہوا تو پیچھے کھڑی گاڑیوں نے ہارن بجانا شروع کر دئیے۔
’’جعفر میاں گاڑی میں بیٹھ جاؤ کیوں تماشہ بنے ہوئے ہو۔‘‘
جعفر اختر کو گھورتے ہوئے پچھلی سیٹ پر بیٹھ گیا۔سکول پہنچے تو وہ خاموش ہی رہا۔گاڑی سے اتر کر جب وہ سکول میں داخل ہونے لگا تو اس نے اختر کی طرف غصے سے دیکھتے ہوئے کہا۔
’’تم نے اچھا نہیں کیا‘میں تمہیں دیکھ لوں گا۔‘‘
سکول میں بھی اس کو اس کو اس بات کا ملال رہا کہ اختر نے اس کو گاڑی کیوں چلانے نہیں دی۔جب اس کے دوستوں کو اس بات کا علم ہوا تو تبسم بولا تھا۔
’’ایک ڈرائیور کی یہ ہمت کہ تمہیں گاڑی نہ دے۔‘‘ 
’اگر میرا ڈرائیور میرے ساتھ ایسا کرتا تو میں ڈیڈی سے کہہ کر اس کو کھڑے کھڑے نکلوا دیتا۔‘‘عمران کی بات سن کر جعفر بولا۔
’’میں ایسا نہیں کر سکتا۔‘‘
’’کیوں؟۔‘‘ دانیال نے پوچھا۔
’’کیونکہ اختر ڈیڈی کا وفا دار ڈرائیور ہے‘ڈیدی کی ہر بات پر کہتا ہے آپ ٹھیک کہتے ہیں اس کو نوکری سے نکلوانا آسان کام نہیں ہے۔‘‘
’’یہ کام اتنا بھی مشکل نہیں جتنا تم سمجھ رہے ہو۔‘‘ تبسم بولا۔
’’کیا ایسا ہو سکتا ہے۔‘‘ جعفر بولا۔
’’بالکل ہو سکتا ہے۔‘‘
’’مجھے اس کے لیے کیاکرنا ہوگا۔‘‘ جعفر نے پوچھا۔
’’کچھ بھی تو نہیں ‘بس کان ادھر لاؤ‘‘۔دانیال کی بات سن کر جعفر کے افسردہ چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
’’بہت خوب میں ایسا ہی کروں گا۔‘‘جعفر بولا۔
سکول سے چھٹی کے بعد جعفر گھر پہنچا تو اس نے جاتے ہی امی جان کو دیکھ کر کہا ۔
’’مما! بہت مزا آیا‘واہ بہت مزا آیا۔‘‘
’’کیا ہوا ہے؟۔‘‘
’’مما! گاڑی چلانے کا اپنا ہی ایک مزا ہے۔‘‘
’’کیا تم نے گاڑی چلائی ہے؟‘‘
’’ہاں مما ہاں …… گھر سے سکول تک گاڑی میں نے ہی چلائی ہے۔‘‘ جعفر نے جھوٹ بولا۔
’’اختر………… اختر…………‘‘ مما چلائی۔
’’جی بی بی جی۔‘‘
’’صاحب کے منع کرنے کے باوجود تم نے جعفر کو گاڑی کیوں دی ہے؟‘‘
’’بی بی جی میں نے جعفر کو گاڑی نہیں دی۔‘‘
’’جھوٹ مت بولو۔‘‘
’’بی بی جی جھوٹ میں نہیں جعفر بول رہا ہے۔‘‘
’’اختر جھوٹ تم بول رہے ہو۔‘‘جعفر نے اختر کو گھورتے ہوئے کہا،
’’چھوٹے صاحب! جھوٹ آپ بول رہے ہیں‘ آپ کے اصرار کے باوجود میں نے گاڑی آپ کو نہیں دی تھی۔‘‘
’’تم نے جعفر کو گاڑی ضرور چلانے کے لیے د ی ہوگی‘‘
’’بی بی جی میری بات کا یقین کریں میں نے گاڑی جعفر میاں کو نہیں دی۔میں جانتا ہوں یہ ابھی چھوٹا ہے اور گاڑی کنٹرول نہیں کر سکتا۔اس کا تو ابھی ڈرائیونگ لائسنس بھی نہیں بنا ہوا یہ کس طرح گاڑی چلا سکتا ہے۔‘‘ اختر نے اپنی صفائی پیش کی مگر جعفر کا وار چل گیا۔ اس کے ڈیڈی کاروبار کے سلسلے میں شارجہ میں تھے اس لیے مما نے اختر کو نوکری سے فارغ کر دیا۔جعفر کی آنکھوں نے دیکھا تھاکہ جب مما نے اختر کو نوکری سے نکالا تھا تو اس کے ہونٹ ہل رہے تھے ۔وہ سمجھ نہیں پایا تھا کہ اختر کیا کہہ رہا ہے۔وہ ہلتے ہونٹوں کے ساتھ ان کے گھر سے رخصت ہواتھا۔جعفر بہت خوش تھا۔اس کے دوستوں کی بتائی ترکیب نے کام کر دکھایاتھا۔کچھ دنوں بعد اختر کی جگہ نیا ڈرائیور طفیل آگیا۔مما نے تنخواہ طے کرنے کے بعد اس کو کہا تھا۔
’’تمہیں ایک بات پر سختی سے عمل کرنا ہوگا۔‘‘
’’کون سی بات بیگم صاحبہ؟‘‘ طفیل نے پوچھا۔
’’جعفر کو تم نے چلانے کی لئے گاڑی ہرگز نہیں دینی۔‘‘
’’میں ایسا ہی کروں گا۔‘‘
’’میں نے پرانے ڈرائیور کو اسی لیے فارغ کیا ہے کہ وہ جعفر کو سکول جاتے ہوئے گاڑی چلانے کے لئے دیتا تھا‘ اگر تم نے بھی ایسا کیا تو تمہیں بھی فارغ کر دوں گی۔‘‘ طفیل ساری بات سمجھ گیاتھا۔
دوسرے دن وہ جعفر کو لیے سکول جا رہا تھا کہ اس کے کانوں نے سنا تھا۔
’’ڈرائیور گاڑی روکو۔‘‘
طفیل نے فوراً گاڑی ایک طرف روک دی ۔جعفر نے گاڑی سے اتر کر کہا۔
’’نیچے اترو‘اب گاڑی میں چلاؤں گا۔‘‘
’’میں گاڑی آپ کو نہیں دوں گا۔‘‘
’’ٹھیک ہے نہ دو گاڑی میں گھر جا کر کہہ دوں گاکہ تم نے مجھے گاڑی دی تھی۔‘‘
’’یہ تو جھوٹ ہو گا۔‘‘
’’تو پھر کیا ہوا۔تم تو نوکری سے فارغ ہو جاؤ گے۔‘‘ 
’’ چھوٹے صاحب ایسا مت کیجئے گا۔‘‘
’’ٹھیک ہے میں ایسا نہیں کروں گا۔ تم سکول تک گاڑی مجھے ڈرائیو کرنے دو۔‘‘
طفیل سوچ میں پڑ گیاکہ وہ اس وقت کیا فیصلہ کرے۔
’’سوچو مت گاڑی مجھے چلانے دو اسی میں تمہارا فائدہ ہے۔‘‘جعفر بولا۔
’’لیجئے چھوٹے صاحب۔‘‘ طفیل نے ڈرائیونگ سیٹ سے اٹھتے ہوئے کہا۔
جعفر فوراً ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا۔چند لمحوں بعد گاڑی سکول کی طرف رواں دواں تھی۔ جعفر جب بھی رفتار بڑھاتا طفیل اس کو رفتار کم کرنے کے لیے کہتا ۔دس منٹ بعد سکول آگیا۔جعفر نے طفیل کو دیکھتے ہوئے کہا۔
’’تم نے اپنی نوکری پکی کر لی ہے‘ اب تمہیں کوئی خطرہ نہیں۔‘‘
جعفرسکول میں سارا وقت اپنے دوستوں کو گاڑی چلانے کے بارے میں بتاتا رہا۔اب تو یہ اس کا روز کا معمول بن گیاکہ سکول آتے جاتے وہ کچھ راستہ گاڑی ضرور چلاتا تھا۔سب دوستوں نے فیصلہ کیا تھا کہ جمعرات کے دن چھٹی کے بعد لال پل سے باغ تک گاڑیوں کی دوڑ ہو گی۔سبھی بچوں کے ڈرائیور ان کے سامنے بے بس تھے ۔چھٹی کے بعد یہ ریس ہوئی ۔ جعفر نے سو کلومیٹر کی رفتار سے گاڑی چلائی تھی۔ طفیل اس کے ساتھ بیٹھا گھبرا رہا تھا۔ دس منٹ تک یہ ریس جاری رہی جس میں عمران پہلے نمبر پر رہا تھا۔جعفر کی گاڑی چلانے کی خواہش بھر پور انداز میں پوری ہو رہی تھی مگر اختر کے ہلتے ہونٹ ہر لمحہ اس کا تعاقب کر رہے تھے۔اس کو جب بھی تنہائی میسر آتی یہ ہونٹ اس کے سامنے آکر کھڑے ہو جاتے تھے۔ رات کو کوشش کے باوجود اس کو نیند نہ آتی تھی۔اس نے ہلتے ہونٹوں کے بارے میں کسی سے ذکر نہ کیا تھا۔
وہ دن جعفر کے لئے دکھوں سے بھرا ہوا تھا جب اس کے ڈیڈی شارجہ میں ایک حادثے کا شکار ہو کر تا بوت میں بند ہو کر آئے تھے۔دکھوں کا یہ سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوا تھا۔ ڈیڈی کا کاروباری حصہ دار بہت سا سرمایہ لے کر بیرون ملک فرار ہو گیا تھا۔ڈیڈی نے کاروبار کے لیے بینک سے قرض لے رکھا تھاجب اس کی ادائیگی کا وقت آیا تو فیکٹری کو ٹھی اور وہ کاربھی بک گئی جس کو جعفر چوری چھپے چلاتا تھا۔جعفر کے گھریلو حالات بد سے بد تر ہوتے چلے گئے ۔اب تو ہر لمحہ اختر کے ہلتے ہونٹوں نے اپنی موجود گی کا احساس دلانا شروع کر دیا تھا۔جب حالات برے ہوتے ہیں تو سبھی ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔
مما کے ایک رشتہ دار نے انہیں اپنے گھر میں پناہ دی۔ماموں جبار موت کے کنویں میں ملازم تھے ۔ان کے ذمہ موت کے کنویں میں چلانے والی موٹر سائیکلوں کی دیکھ بھال تھی۔جعفر کی تعلیم کا سلسلہ تو ختم ہو چکا تھا اس لیے وہ قریب کے شہر میں ماموں جبار کے ساتھ جانے لگا تھا۔ رفتہ رفتہ وہ اس ماحول سے مانوس ہوگیا۔وہ لاہور میں موت کے کنویں کے ساتھ آیا ہوا تھا کہ مما کو سانپ کے ڈسنے کی اطلاع ملی تھی۔مما چند دن ہسپتال میں زندہ رہنے کے بعد ہمیشہ کے لئے دنیا سے رخصت ہو گئی تھیں۔
ماموں جبار کبھی کبھار اپنے گھر بھی آجایا کرتے تھے۔مگر جعفر شہر شہر‘ گاؤں گاؤں موت کے کنویں کے ساتھ ہی رہتا۔وہ جہاں بھی جاتا اختر کے ہلتے ہونٹ اس کا پیچھا کرتے۔وہ جب بھی گاڑی لے کر موت کے کنویں میں اترتا تھا تو ہلتے ہونٹوں نے اسے اپنی صورت دکھائی تھی اس کے بعد تو موت کا کنواں اس کی زندگی کا حصہ بن کر رہ گیا ۔ زندگی کے کئی سال اس نے موت کے کنویں کے نام کر دیے۔ اسے خود بھی یاد نہ تھا کہ وہ کتنی بار موت کے منہ میں بیٹھ کر گاڑی کو ڈیڑھ سو کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلا چکا تھا۔
’’استاد………… استاد…………اٹھو ………… آ ئیٹم کا وقت ہو گیا ہے۔تماشائی تمہارے منتظر ہیں ۔‘‘ ایک ملازم نے اس کو آواز دی تو ماضی حال میں بدل گیا ۔وہ آنکھیں ملتا موت کے کنویں کی طرف بڑھا تو تماشائیوں کے ساتھ اختر کے ہلتے ہونٹ بھی اس کے منتظر تھے ۔اس نے جیسے تیسے کر کے اپنے فن کا مظاہرہ کیا اور جلدی سے اپنے خیمے میں آگیا ۔رات کے وقت رو زنامہ ’’کھیل‘‘ کے رپوٹر نے دوبارہ فون کیا تو جعفر نے انٹرویو کے لیے آمادگی کا اظہار کر دیا ۔دوسرے دن جب انٹرویو ہو چکا تو رپوٹر نے کہا۔
’’میرا خیا ل ہے آپ نے یہ انٹرویو اختر ڈرائیور کو خوش کرنے کے لئے دیا ہے۔‘‘ ’’ہاں ایسا ہی ہے۔‘‘ جعفر نے جو اب دیا۔
’’میں آپ کو اختر ڈرائیور سے ملا سکتا ہوں کیوں کہ میں ان کا بیٹا ہوں ۔انہی کے اصرار پر یہ انٹرویو میں نے کیا ہے۔میں ابھی انہیں لے کر آتا ہوں وہ باہر گاڑی میں بیٹھے ہیں۔‘‘جعفر کے پاس اب بولنے کیے کچھ نہ تھا ۔چند منٹوں بعد اختر کے ہلتے ہونٹ زندہ صورت میں اس کے سامنے تھے ۔جعفر اس کے قدموں میں گر گیا ۔اختر نے اس کو اٹھا کر پیار کرتے ہوئے کہا۔
’’میں نے اس وقت غصے میں آکر تمہیں بد دعا دی تھی ‘ میرے ہونٹ تو ہل رہے تھے مگر کسی کو میری بات سمجھ نہیں آرہی تھی میں اس وقت مظلوم تھا اور میرے ہونٹوں پر بد دعا تھی وہ بد دعا کیوں قبول نہ ہوتی کیونکہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارکہ ہے کہ ’’ مظلوم کی بددعا سے بچو کیونکہ اس کے اور اللہ کے درمیان کو ئی پردہ نہیں ہوتا۔‘‘
’’آ پ مجھے معاف کر دیں ۔ مجھے اب آپ کی دعا کی ضرورت ہے۔میں وہ ہلتے ہونٹ دیکھنا چاہتا ہوں جن پر میرے لئے دعا ہو ۔‘‘یہ کہتے ہوئے جعفر کی آنسو بھری آنکھوں نے اختر کے ہلتے ہوئے ہونٹ دیکھے جن پر یقیناًاس کے لیے اب دعا ہی دعا تھی۔‘‘

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top