اکیلے دُکیلے کا اللہ بیلی
اکیلے دُکیلے کا اللہ بیلی
…….....……………..
مطلب اوراستعمال:
……………………
تنہا آدمی اک اللہ ہی مددگار ہے۔یہ کہاوت اس وقت بولی جاتی ہے جب کسی کام کو کوئی تنہا شخص کرے اور اس کا کوئی مددگار نہ ہو۔یا پھر اکیلا شخص کوئی ایسا کام کرے جس میں خطرہ ہو۔
پس منظر:
………..
اس کہاوت سے متعلق ایک بڑھیا کی دلچسپ حکایت ہے ،جو یہ ہے:
دہلی سے دس میل کے فاصلے پر ایک نالا تھا جہاں درختوں کے جھنڈ بکثرت تھے۔ایک بڑھیا اس جگہ بیٹھ کر بھیک مانگا کرتی تھی اور اس کے بیٹے پوتے ان درختوں کے جھنڈ اور جھاڑیوں کی اوٹ میں چھپ کر بیٹھ جایا کرتے تھے۔جب ایک دو آدمیوں کا وہاں سے گزر ہوتا تھا تووہ بڑھیا پکار کر کہتی تھی’’اکیلے دکیلے کا اللہ بیلی‘‘۔بڑیا کے یہ جملے سن کر اس کے بیٹے پوتے سمجھ جاتے تھے کہ کوئی تنہا شخص گزررہا ہے یا اس کے ساتھ دو ایک آدمی ہوں گے۔لہٰذا وہ لوگ فوراً گھات سے نکل کر اس آدمی کے مال و اسباب کو لوٹ لیا کرتے تھے۔اور اگر وہ مقابلہ کرتا تو اس کو ماڑ ڈالتے۔اس کے بر عکس جب کئی آدمی مل کر وہاں سے گزرتے تو وہ ٹھگوں کی نانی آواز لگاتی’’جماعت سے کراہت ہے‘‘یا’’جمعہ جماعت کی خیر۔‘‘اس وقت وہ راہزن اپنی گھات سے باہر نکلنے سے باز رہتے کیونکہ بڑھیا کے ان جملوں سے وہ سمجھ جاتے تھے کہ ایک ساتھ کئی آدمی آ رہے ہیں۔مدت تک یہ سلسلہ جاری رہااور لوٹ مار ہوتی رہی۔آخرکار جب وہ بڑھیا اور اس کے بیٹے پوتے ایک روز پکڑے گئے تو ان صداؤں کا بھید کھلا۔کچھ دنوں کے بعد اس بڑھیا نے اس نالے پرایک پل بنوایا جو فریدآباد کے نزدیک بڑھیا کے پل کے نام سے مشہور ہوا۔