skip to Main Content
وہ ایک چاکلیٹ

وہ ایک چاکلیٹ

نذیرانبالوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’ہم کل بھی آپ کے ساتھ تھے اور آ ج بھی آپ کے ساتھ ہیں ۔‘‘

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مظہر نے نقشہ میز پر پھیلاتے ہوئے کہا:
’’یہ بینک کا اندرونی نقشہ ہے ۔دائیں طرف منیجر کا کمرہ ہے۔کیشئر بائیں طرف ہوتا ہے جبکہ بینک کا دیگر عملہ درمیان میں بیٹھ کر اپنا کام کرتا ہے۔گیٹ سے کیشئر تک کا فاصلہ پندرہ قدم ہے۔ہم میں سے ہر ایک واردات سے پہلے بینک کو ایک مرتبہ اندر سے ضرور دیکھے گا۔
’’بینک کے آس پاس کا محل وقوع کیا ہے؟‘‘سجاد نے پوچھا۔
’’وہ بھی بتائے دیتا ہوں ۔‘مظہر نے ایک دوسرا نقشہ اپنے ساتھیوں کے سامنے رکھتے ہوئے کہا:
’’بینک کے طرف ایک گلی ہے‘یہ گلی آگے چل کر دائیں بائیں دو گلیوں میں تقسیم ہو جاتی ہے۔ہم نے اپنی گاڑی اسی گلی میں کھڑی کرنی ہو گی۔‘‘
اس گلی کی لمبائی تقریباً کتنی ہوگی؟‘‘شیرو نے سوال کیا۔
’’میرا خیال ہے یہ گلی پچاس سے ساٹھ میٹر لمبی ہوگی‘کل شہزاد اور یاسر بینک جائیں گیااور اس بات کا جائزہ لیں گے کہ بینک سے گلی کے آخری کونے تک آنے میں کتنی دیر لگتی ہے اور ہاں پرسوں رب نواز اور سجاد کی بینک جانے کی باری ہو گی۔‘‘
’ہم بینک جا کر کیا کریں گے؟‘‘رب نواز نے پوچھا۔
’’تم دونوں نے یہ دیکھنا ہے کہ بینک میں کہاں کہاں ویڈیو کیمرے اور الارم نصب ہیں ۔میں یہ چاہتا ہوں کہ ہم پوری تیاری کے ساتھ بینک میں ڈاکہ ڈالیں تا کہ ہماری کامیابی یقینی ہو۔میں تو چھوٹی چھوٹی وارداتیں کر کر کے تنگ آگیا ہوں ہماری یہ واردات کامیاب رہی تو ہر دوست کے حصے میں معقول رقم آئے گی۔ہمیں اس کام میں جلد بازی نہیں کرنی چاہیے۔‘‘ مظہر بولتا چلا گیا۔
دوسرے دن شہزاد اور یاسر بینک میں موجود تھے۔ یاسر نے کیشئر کے کاؤنٹر پر جاتے ہی پوچھا۔
’’کیا پندرہ سو روپے والے پرائز بونڈ مل سکتے ہیں ؟‘‘
’’نہیں‘پرسوں پندرہ سوروپے والے پرائز بانڈ کی قرعہ اندازی ہے اس لیے اس کی سیل بند ہو چکی ہے۔‘‘
’’میں زیادہ پیسے دوں گا۔‘‘یاسر بولا۔ 
’’بھئی جب میں نے کہہ دیا ہے کہ پندرہ سو روپے والے پرائز بانڈ نہیں ہیں تو پھر کم یا زیادہ پیسوں کی کیا بات ہے۔‘‘کیشئر کی بات سن کر دونوں خاموشی سے باہر آگئے ۔اب ان کے قدم تیزی سے بینک کے ساتھ والی گلی میں اٹھ رہے تھے ۔پچاس ساٹھ میٹر کا فاصلہ انہوں نے ایک ڈیڈھ منٹ میں طے کر لیا ۔گلی کے دائیں جانب بازار تھا جبکہ بائیں طرف مکان تھا۔
ہمیں گاڑی گلی کی نکڑ پر کھڑی کرنی چاہئے اور بائیں طرف کو اس کا رخ ہونا چاہیے۔‘‘شہزاد کی بات سن کر یاسر سے کہا۔
’’ہاں تم ٹھیک کہتے ہو۔‘‘
اس سے اگلے دن رب نواز اور سجاد بینک میں موجود تھے۔رب نواز تو سارا وقت اِدھر اُدھر دیکھتا رہا اور سجاد بینک کے ایک ملازم سے گفتگو میں مصروف رہا۔
’’مجھے نئے اکاؤنٹ کھلوانے کے قواعد و ضوابط کا علم نہیں ہے اس کے بارے میں کچھ بتا دیں ۔‘‘سجاد نے کہا۔
’’ویسے تو فارم کے پیچھے ساری شرائط لکھی ہوئی ہیں لیکن میں ان میں سے کچھ آپ کو بتا دیتا ہوں۔قومی شناختی کارڈ کی فوٹو کاپی لگائیں اور ان دو اشخاص کی ضمانت دلوائیں جن کے پہلے سے ہمارے بینک میں اکاؤنٹ ہوں۔یہ فارم لے جائیں اور نہایت احتیاط کے ساتھ اس کو پُر کر کے لے آئیے آپ کا اکاؤنٹ کھل جائے گا۔‘‘
’’سر آپ کا بہت شکریہ‘‘سجاد نے یہ کہتے ہوئے رب نواز کو معنی خیز انداز میں گھورا تو اس نے آنکھ کے اشارے سے سمجھا دیا کہ اس نے اپنا کام کر لیا ہے۔
شام کے وقت سبھی ایک کمرے میں بیٹھے بینک میں ڈاکہ ڈالنے کی منصوبہ بندی میں مصروف تھے ۔مظہر کے پوچھنے پر رب نواز نے کہا۔
’’بینک میں کل تین ویڈیو کیمرے نصب ہیں ۔ایک کیمرہ گیٹ کے اوپر ہے یہاں بینک میں آنے جانے والوں پر نظر رکھی جاتی ہے۔ دوسرا کیمرہ بینک کے درمیان میں لگایا گیا ہے۔ اس کیمرے میں کیشئراور مینیجر تک جانے والے لوگوں کودیکھا جاسکتا ہے جبکہ تیسرا کیمراکیشئر کاؤنٹر کے عین اوپرہے‘یہاں کیش کاؤنٹر پر لین دین کرنے والوں پر نظر رکھی جاتی ہے۔‘‘
’’بینک میں ایمرجنسی الارم کہاں نصب ہے؟مظہر نے پوچھا۔
’’ایمرجنسی الارم بینک کے کیبن کے باہر لگا ہوا ہے۔‘‘رب نواز بولا۔
’’اب بینک سے متعلق کافی معلومات ہمارے پاس موجود ہیں ۔اسٹیٹ بینک سے کیش ساڑھے نو بجے کے قریب آتا ہے اس لیے ہمیں دس بجے کے بعد واردات کے لیے بینک میں داخل ہونا ہے۔‘‘
’’مجھے تو بہت ڈر لگ رہا ہے۔‘‘یاسر نے کہا۔
’’ہمارے کام میں جو ڈر گیا وہ مر گیا‘‘شہزاد فوراًبولا۔
’’بس ایک ڈاکہ اور پھر آرام ہی آرام ہے۔جس راستے پر ہم چل رہے ہیں اس راستے میں قدم قدم پر ہمیں خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ہم جان ہتھیلی پر رکھ کر یہ کام کرتے ہیں ۔جو اس واردات میں ساتھ نہیں دینا چاہتا نہ دے میں کسی کو مجبور نہیں کروں گا۔‘‘مظہر کے اتنا کہنے کی دیر تھی کہ یاسر بولا:
’’میں نے تو ویسے ہی بات کی تھی ۔میں پہلے بھی آپ کے ساتھ رہا ہوں اور اب بھی ہوں ۔‘‘
’’یہ ہوئی مردوں والی بات‘دل بڑا رکھو ہم اس واردات میں ضرور کامیاب ہوں گے۔لو بھئی اب اپنی اپنی ذمہ داریوں کے بارے میں سن لو۔افضل تم باہر گاڑی میں بیٹھو گے ۔تم نے گاڑی کو اسٹار ٹ ہی رکھنا ہے۔شہزاد تم منیجر کو قابو کرو گے ۔رب نواز ویڈیو کیمروں اور الارم کو اپنی پستول سے نشانہ بنائے گا۔شیرو گن مین کو سنبھالے گا۔سجاد کیشئر سے روپے چھین کر تھیلے میں ڈالے گا ۔میں اور یاسر لوگوں پر نظر رکھیں گے۔ہمیں تمام کام نہایت ہو شیاری سے کرنا ہوگا۔کل صبح دس بجے ہم یہ واردات کریں گے۔مظہر نے اپنے ساتھیوں کو ایک ایک بات سمجھا دی۔
شام جب مظہر گھر پہنچا تو اس کی اکلوتی بیٹی شمائلہ نے اسے دیکھتے ہی ’’پاپا چاکلیٹ ……..پا پا چاکلیٹ ‘‘کا شور مچایا۔اس نے اپنی پینٹ کی جیب سے چاکلیٹ کا پیکٹ نکال کر شمائلہ کو دیتے ہوئے کہا:
‘‘میں ہر بات بھول سکتا ہوں مگر اپنی بیٹی کے لیے چاکلیٹ لانا نہیں بھول سکتا ۔‘‘
’’پاپا زندہ باد…….پاپا زندہ باد۔‘‘شمائلہ نے چاکلیٹ کھاتے ہی نعرہ بلند کیا۔
’’پاپا کی لاڈلی زیادہ چاکلیٹ کھانے سے دانت خراب ہو جاتے ہیں۔‘‘امی بولیں۔
’’چاکلیٹ اگر گھٹیا کوالٹی کا ہو تو اس سے دانت خراب ہو تے ہیں ۔میں تو ویسے بھی چاکلیٹ کھانے کے بعد فوراً کلی کر لیتی ہوں اور ہاں یہ چاکلیٹ تو بڑھیا ہیں بڑھیا۔‘‘
تمہارے پا پا جو لائے ہیں ۔‘‘امی بولیں۔
’’میرے پاپا تو ہر روز اچھی چاکلیٹ ہی لاتے ہیں۔‘‘شمائلہ چاکلیٹ کھاتے ہی بولی۔
’اچھا اب باتیں ختم کرو اور سکول کا کام شروع کرو ۔‘‘
’اچھا امی جان میں یہ چاکلیٹ کھا لوں پھر سکول کا کام کرتی ہوں۔‘‘شمائلہ بولی۔
مظہر جب رات کے وقت سونے کے لیے بستر پر لیٹا تو نیند اس سے کوسوں دُور تھی۔وہ دیوار کی طرف منہ کیے لیٹا تھا۔ کل اس نے اپنی زندگی کی سب سے بڑی واردات کرنی تھی۔اس نے اپنی مجرمانہ زندگی کا آغاز اپنے سکول سے کیا تھا۔اسے وہ دن اچھی طرح یاد تھاجب اس نے بابا رحمت بخش کی دوکان سے چاکلیٹ کا پیکٹ چوری کیا تھا۔دُوکان پر بھیڑ کی وجہ سے بابا جی کو پتا بھی نہیں چل سکا تھا۔اس کامیاب واردات کے بعد اس کی جماعت کا کون سا ایسا لڑکا تھا جس کے جیومیٹری بکس سے اس نے چیزیں نہ چرائی ہوں۔ایک دو بارہ تو وہ رنگے ہاتھوں پکڑا بھی گیا تھا۔بس ہیڈ ماسٹر صاحب کے سمجھانے پر اس کی جان چھوٹ گئی تھی۔جب وہ سکول کی چار دیواری سے نکل کر کالج پہنچا تو اس کی وارداتوں کا سلسلہ بھی بڑھ گیا۔اب وہ رات کے اندھیرے میں راہگیروں سے نقدی اور قیمتی چیزیں بھی چھیننے لگا تھا۔دو تین بار اسے حوالات کی بھی ہوا کھانی پڑی تھی۔اس کے والدین کو تب اس کی حرکت کا علم ہوا جب اس نے نہر کے پاس ایک شخص سے موٹر سائیکل چھین کر بھاگنے کی کوشش کی تھی۔اس شخص کے شور مچانے پر ایک کار والے نے اس کا تعاقب کر کے موٹر سائیکل سمیت اس کو پکڑ لیا تھا۔تھانے سے فون آنے پر اس کے والدین پریشان ہو گئے تھے ۔وہ رات اس نے حوالات میں گزاری تھی۔یہ تو محض اتفاق تھا کہ اس نے جس شخص کی موٹر سائیکل چھینی تھی وہ اس کے باپ کا جاننے والا تھا۔اسے پہلے پہل تو یقین ہی نہیں آرہا تھاکہ اتنے شریف خاندان سے تعلق رکھنے والا لڑکا ایسی حرکت بھی کر سکتا ہے۔اس واردات میں بڑی مشکل سے معاملہ رفع دفع ہوا تھا۔اس کے والدین اس کو ہر لمحہ سمجھاتے تھے ۔وہ کچھ عرصہ تو اپنی حرکتوں سے باز رہتا مگر پھر کوئی نہ کوئی واردات کر دیتا۔جس طرح کا انسان خود ہوتا ہے اسے ویسے دوست بھی مل جاتے ہیں ۔مظہر کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا تھا۔کئی جرائم پیشہ لوگ اس کے دوست بن گئے تھے ۔والدین نے مرنے سے پہلے اس کی شادی دُور کے ایک رشتہ دار کے ہاں کر دی تھی۔اس نے سب کو بتا رکھا تھا کہ وہ ایک فیکٹری میں ملازم ہے۔اس کی بیوی بھی کافی عرصہ تک اس کی مجرمانہ زندگی سے لا علم رہی تھی۔اسے تو اس دن اس کا اصل روپ دکھائی دیا تھا جب چوری کا ایک ٹیلی وژن بر آمد کرنے کے لیے رات کے وقت اس کے ہاں پولیس نے چھاپہ مارا تھا۔شمائلہ ابھی پیدا نہیں ہوئی تھی۔اسے کئی دنوں تک حوالات میں رہنا پڑا تھا پھر وہ ایک واقف کار کی ضمانت پر رہا ہوا تھا۔ شمائلہ کے پیدا ہونے کے بعد اس کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ۔وہ چھوٹی موٹی وارداتوں سے اکتا سا گیا چنانچہ اس نے ایک لمبا ہاتھ مارنے کا پرو گرام بنایا۔آخر اس کی نظر شہر کے سب سے بڑے بینک پر ٹھہری۔
دوسرے دن وہ ایک ایک کر کے بینک میں داخل ہوئے ۔مظہر کا اشارہ پاتے ہی اس کے ساتھیوں نے اپنی اپنی پوزیشن سنبھال لی۔
’’کوئی اپنی جگہ سے نہ ہلے ورنہ اس کو بھون کے رکھ دیں گے۔‘‘مظہر اور یاسر بیک وقت چلّائے۔لوگ جہاں تھے وہیں جم کر رہ گئے۔
’’سب ہاتھ اوپر کر لو۔‘‘مظہر کے اتنا کہنے کی دیر تھی کہ لوگوں نے اپنے ہاتھ اوپر اٹھا لیے۔ایک خاتون کے ہمراہ چھوٹی سی بچی تھی۔وہ خوفزدہ ہو کر اپنی امی سے لپٹ گئی۔مظہر اور اس کے ساتھیوں کو بینک میں کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔سجاد کیشئر سے روپے چھین کر تھیلے میں ڈال رہا تھا کہ نوٹوں کا ایک پیکٹ اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر فرش پر گرا۔وہ بچی جو اپنی امی سے لپٹی ہوئی تھی اچانک اس کی نظر چاکلیٹ پر پڑی۔اس کی آنکھوں میں چمک سی گئی۔وہ چاکلیٹ اٹھانے لگی تو اس کی امی چلّائی:
’’رخسار آگے مت بڑھو۔‘‘
رخسار ایک دم رک گئی ۔اس کے اور چاکلیٹ کے درمیان چند قدموں کا فاصلہ تھا۔
’’آؤ اٹھا لو چاکلیٹ۔‘‘مظہر نے رخسار سے کہا۔
’’بیٹی چاکلیٹ مت اٹھانا۔‘‘
’’کیوں امی؟‘‘ رخسار نے پوچھا۔
’’یہ انکل بھی گندے ہیں اور ان کی چاکلیٹ بھی گندی ہے۔ہم کیوں گندی چاکلیٹ کھائیں ۔‘‘امی کے اتنا کہنے کی دیر تھی کہ رخسار بولی:
’’گندے انکل…….گندی چاکلیٹ…….گندے انکل …….گندی چاکلیٹ۔‘‘
’’بندر کھو اپنی زبان‘‘یاسر پستول لہراتے بولا۔
’’رخسار کی زبان پر ایک دم چپ کا تالہ لگ گیا۔
’’بولو رخسار بولو چپ کیوں ہو گئی…..بولو…..‘‘مظہر کے کہنے کے باوجود رخسار کی زبان سے ایک لفظ بھی نہ نکلا۔اسی لمحے مظہر کو یوں محسوس ہوا کہ جیسے شمائلہ اس کے سامنے کھڑی کہہ رہی ہو:
’’گندے پاپا …..گندی چاکلیٹ……گندے پاپا…….گندی چاکلیٹ……‘‘مظہر کی نظریں فرش پر گری چاکلیٹ پر پرہی تھیں۔وہ کسی سوچ میں گم تھا۔جب سجاد نوٹوں کا تھیلا لیے باہر کی طرف بڑھنے لگا تو مظہر اس کے سامنے کھڑا ہو گیا۔
’’کام ہو چکا ہے اب ہمیں یہاں زیادہ دیر نہیں ٹھرنا چاہیے۔‘‘سجاد بولا۔
’’سجاد نوٹوں کا تھیلا فرش پر رکھ دو۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’سوال مت کرو جو کہا ہے وہ کرو۔‘‘مظہر چلّایا۔
سجاد نے نوٹوں کا تھیلا فرش پر رکھ دیا۔
’’سب ساتھی میرے پاس آجاؤ‘‘ سب حیران تھے کہ مظہر کو کیا ہو گیا ہے۔مظہر کے سامنے وہ کب دم مار سکتے تھے۔سبھی اس کی آواز سنتے ہی اس کے پاس آگئے۔وہ تیزی سے بینک کے دروازے پر پہنچ چکا تھا۔ہم میں سے کوئی باہر نہیں جائے گا۔منیجر صاحب پولیس کو فون کریں ہم سب گرفتاری دینا چاہتے ہیں۔‘‘
’’ہم نہیں‘صرف میں گرفتاری دینا چاہتا ہوں ۔‘‘شیرو چیخا۔
’’بکو مت میرے ہوتے ہوئے کوئی یہاں سے باہر نہیں جا سکتا۔میں تم سب کی بھلائی کے لیے تو یہ کہہ رہا ہوں ۔‘‘
’’میں گرفتاری نہیں دوں گا۔‘‘شیرو بولا۔
’’تو چلاؤ گولی اور مار دڈالو اپنے استاد کو‘تم میری لاش سے گزر کر ہی اس بینک سے باہر جا سکتے ہو۔ہمت ہے تو چلاؤ گولی‘‘بینک میں موجود سبھی لوگ خوفزدہ ہو کر یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے۔پولیس کے آنے تک مظہر اپنے ساتھیوں سمیت بینک میں ہی موجود تھا۔جب انہیں ہتھکڑیاں لگائیں گئیں تو لوگوں کا خوف ذرا کم ہوا ۔افضل کو بھی گاڑی سے پکڑ لیا گیا تھا۔
’’آپ سب حیران ہوں گے کہ میں نے ایسا کیوں کیا ہے۔اس کی وجہ تو یہ حدیث مبارکہ ہے جو میں نے شیشے پر چسپاں اسٹیکر پر پڑھی ہے۔حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد پاک ہے کہ’’اے لوگوں اللہ کی نافرمانی سے بچتے رہنا اور روزی کی تلاش میں غلط طریقہ مت اختیار کرنا اس لیے کہ کوئی شخص اس وقت تک نہیں مر سکتا جب تک اسے پورا رزق نہ مل جائے اگر چہ اس کے ملنے میں کچھ تاخیر ہو سکتی ہے۔اللہ سے ڈرتے رہنا اور روزی کی تلاش میں اچھا طریقہ اختیار کرنا‘ حلال روزی حاصل کرو اور حرام روزی کے قریب نہ جاؤ۔‘‘اتنا روپیہ چھوڑنے اور گرفتاری دینے کی دوسری وجہ یہ بچی رخسار ہے اس نے فرش پر گری چاکلیٹ کو گندی کہا تو تصور میں میری اپنی بیٹی شمائلہ میرے سامنے آن کھڑی ہوئی۔اب میں حلال کمائی سے شمائلہ کے لیے چاکلیٹ لے کر جاؤں گا۔ایک وہ چاکلیٹ تھی جس کے چرانے سے میں گمراہ ہو گیااور ایک یہ چاکلیٹ ہے جس سے میں راہ راست پر آگیاہوں۔میرا خیال ہے کہ برائی کے کاموں میں میرا ساتھ دینے والے دوست اچھائی کا راستہ اختیار کرنے پر بھی میرا ساتھ دیں گے۔‘‘مظہر نے آنسو پوچھتے ہوئے کہا ۔وہ کافی جذباتی ہو رہا تھا۔ اس کے ساتھی یہ جان کر یک زبان ہو کر بولے:
’’ہم کل بھی آپ کے ساتھ تھے اور آ ج بھی آپ کے ساتھ ہیں ۔‘‘
بینک میں موجود لوگوں کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔برائی کے راستہ پر چلنے والے ڈاکو اب نیکی کا راستہ اختیار کر کے بینک سے جا رہے تھے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top