skip to Main Content
اور کہانی مل گئی

اور کہانی مل گئی

نذیر انبالوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میری بات سن کر فرید کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جس کہانی کا آغاز میں نے کیا تھا‘اس کے بارے میں اندازہ تھا کہ میں اُسے مکمل کرنے میں جلد کامیاب ہو جاؤں گا مگر ابھی آدھا صفحہ ہی لکھ پایا تھا کہ بات آگے نہ بڑھ سکی ۔کہانی الجھ کر رہ گئی ۔میں پچھلے تین گھنٹوں سے کہانی لکھنے کی کوشش میں تھا۔مجھے یوں لگتا تھا کہ کہانیاں آج مجھ سے ناراض ہو گئی ہوں۔میں نے آج کا دن اسی کام کے لیے مخصوص کر رکھا تھا ۔کہانی کے الجھنے سے میں خود بھی الجھتا جا رہا تھا۔مجھے ایسی صورت حال کا پہلی مرتبہ سامنا کرنا پڑ رہا تھا ورنہ تواِدھر کہانی نے ذہن کے دروازے پر پر دستک دی اور اُ دھر وہ صفحات پر منتقل ہو گئی۔آدھے صفحے تک لکھی ہوئی کہانی کو ایک طرف رکھ کر میں نئی کہانی کی تلاش میں اپنی ڈائری میں درج کہانیوں کے خاکے پڑھنے لگا۔ڈائری کے صفحوں کو الٹتے ہوئے میری نظر ایک خاکے پر آکر ٹھہر گئی۔
’’ہاں! یہ کہانی لکھی جا سکتی ہے ۔کہانی بالکل واضح ہے ۔اس موضوع پر میں ایک دلچسپ کہانی لکھوں گا۔‘‘میرے دل نے کہا۔
ٍ میں نے تھوڑی دیر اس کہانی کے خاکے پر غور کیا اور پھر کاغذ قلم لے کر بیٹھ گیا۔کہانی کا پہلا پیرا تو عمدگی سے لکھنے میں کامیاب ہوگیا مگر پھر بات یہیں پر رک گئی۔بہت سوچا ‘غور کیا مگر یہ کہانی بھی میری گرفت میں نہ آئی ۔میں ہر لمحہ الجھتا جا رہا تھا ۔میں یہ کہانی لکھنے کی کشمکش میں تھا کہ اتنے میں محسن نے آکر اطلاع دی کہ میرا دوست تو فیق ملنے کے لیے آیا ہے ۔محسن ساتویں جما عت کا سالانہ امتحان دے رہا تھا۔آج اس کا کوئی پیپر نہیں تھا جس کی وجہ سے وہ سکول نہیں گیا تھا ۔
’’اس سے کہہ دو چاچو گھر میں نہیں ہیں ۔‘‘
’’مگر چاچو آپ تو……؟‘‘محسن اتنا ہی کہہ پایا تھا کہ میں فوراً بولا:
’’بس …….بس…….چپ رہو‘جو کہا ہے وہی کرو !‘‘
’’توفیق انکل آپ سے لازمی ملنا چاہتے ہیں ۔‘‘محسن نے کہا۔
’’اس وقت میرے لیے کہانی لکھنے سے اہم کوئی بات نہیں ‘اتنی مشکل سے تو اس کام کے لیے وقت نکالا ہے ۔جاؤ کہہ دو کہ میں گھر میں نہیں ہوں ۔‘‘
’’میں تو ایسا نہیں کروں گا‘میں کیوں جھوٹ بولوں؟‘‘محسن یہ کہہ کر چلا گیا۔
تھوڑی دیر بعد امی جان میرے سامنے کھڑی تھیں:
’’توفیق ڈرائنگ روم میں تمہارا انتظار کر رہا ہے ۔‘‘
مجھے محسن پر شدید غصہ آرہا تھا ۔اب توفیق سے ملنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔
’’یار ‘اتنی دیر سے کہاں تھے ؟‘‘
’’سو رہا تھا۔‘‘ میں نے جھوٹ موٹ آنکھیں ملتے ہوئے کہا ۔
’’سو رہے تھے یا………‘‘توفیق نے اپنا جملہ ادھورا چھوڑ دیا ۔
’’ہاں یار سو رہا تھا‘کیسے آئے ہو؟آج دفتر نہیں گئے!‘‘
’’گھر میں کچھ کام تھا اس لیے چھٹی کی ہے ۔میں گلی سے گزر رہا تھا کہ محسن کی زبانی تمہارا پتا چلا تو میں ملنے کے لیے چلا آیا مگر……‘‘
’’مگر کیا؟‘‘میں نے پوچھا۔
’’مگر اب اور اسی وقت جا رہا ہوں ۔‘‘
’’مگر کیوں؟‘‘میں نے ایک مرتبہ پھر ’’مگر ‘‘ کا لفظ دہرایا۔
’’تم اس وقت گھر میں نہیں ہو ۔جب تم گھرپر ہوگے ‘میں اس وقت آجاؤں گا ۔‘‘توفیق یہ کہہ کر اٹھنے لگا تو میں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا ۔
’’چھوڑو میرا ہاتھ ‘ میں اب یہاں ایک پل نہیں ٹھہروں گا ۔‘‘ 
’’میں محسن کے بچے کو دیکھ لوں گا ۔یہ سب اسی کا کیا دھرا ہے ۔‘‘
’’میں تمہارا وقت ضائع نہیں کروں گا ۔جاؤ کہانی لکھو ‘لوگوں کو سبق دو اور خود…..‘‘توفیق کا ادھورا جملہ میں سمجھ گیا ۔
’’امی جان جب چائے لائیں تو میں ڈرائنگ روم میں اکیلا تھا ۔
’’عمران بیٹے توفیق کہاں ہے؟‘‘
’’چلا گیا ہے۔‘‘
’’کیوں ؟‘‘امی جان نے پوچھا ۔
’’اسے کہیں جانا تھا ۔‘‘میں نے جھوٹ بولا۔
’’اتنی بھی کیا جلدی تھی ‘چائے تو پی کر جاتا ۔‘‘
’’کہتا تھا ‘میں نے کہیں ضروری کام سے جانا ہے۔‘‘
’’کیا توفیق کسی کام سے آیا تھا ۔‘‘
’’نہیں‘ویسے ہی ملنے آیاتھا ۔‘‘
’’ توفیق پہلے تو کبھی اتنی جلدی نہیں گیا ‘چلو تم یہ چائے پی لو۔‘‘امی نے قدرے حیران ہوتے ہوئے کہا۔
اس وقت میرے دماغ میں ایک ہی بات سمائی ہوئی تھی کہ کہانی کو جلد از جلد مکمل کر کے اشاعت کے لیے ’’تعلیم و تربیت ‘‘کے دفتر دے آؤں۔چائے کا کپ لیے میں اپنے کمرے میں گیا اور ایک مرتبہ پھر اپنے دماغ میں گردش کر نے والی بے شمار کہانیوں میں سے ایک کہانی کو صفحے پر منتقل کرنے میں مصروف ہو گیا۔کہانیاں تو میرے پاس بے شمار تھیں مگر کوئی بھی صفحے پر آنے کے لیے تیار نہ تھی۔ناراض کہانیوں میں سے ایک کو راضی کر کے لکھنے لگا تو چند جملوں کے بعد یہ بھی میرے ہاتھوں سے نکل گئی۔کہانی کا نہ لکھنا ایک طرح سے پورا دن ضائع ہونے کے برابر تھا یہ دن مجھے کتنی مشکل سے ملا تھا سکول کی مصروفیت نے پچھلے ایک ماہ سے سر اٹھانے نہیں دیا تھا ۔سکول میں کام کی زیادتی کی وجہ سے واپسی پر بہت سا کام گھر بھی لانا پڑتا تھا۔ سالا نہ امتحان کی وجہ سے مارچ کا مہینہ اسی وجہ سے بہت مصروف گزرتا ہے۔ اس مہینے میں کسی کو سکول سے چھٹی نہیں ملتی ۔میں نے سوچا تھا کہ اتوار کے دن کہانی لکھوں گا مگر ایک عزیز کی شادی میں جانے کی وجہ سے اپنے خیال کو عملی جامہ نہ پہنا سکا۔چنانچہ میں نے ایک چھٹی کے لیے درخواست لکھی اور وائس پرنسپل کے سامنے رکھ دی ۔وائس پرنسپل ایک فائل پڑھنے میں اس قدر محو تھے کہ ان کو درخواست اور میری موجودگی کا علم نہ ہو سکا۔
’’سر!‘‘
’’جی……جی……عمران صاحب فر مائیے۔‘‘
’’سر! ایک دن کی چھٹی چاہیے ۔‘‘
’’ عمران صاحب! آپ کے علم میں ہے کہ مارچ میں اس قدر کام ہوتا ہے کہ سٹاف میں کسی کو چھٹی نہیں ملتی ۔‘‘
’’سر! صرف ایک دن کی تو بات ہے ۔‘‘
’’کیا کام ہے؟‘‘
’’سر ! والدہ بیمار ہیں‘ان کا چیک اپ کروانا ہے ۔‘‘میں نے فوراً جھوٹ بولا ۔
’’یہ کام کیا شام کو نہیں ہو سکتا؟‘‘وائس پرنسپل نے پوچھا۔
’’سر !والدہ کو ہسپتال میں دکھانا ہے ۔کل صبح دس بجے کا وقت ملا ہے ‘مہربانی فر مائیے ایک دن کی چھٹی منظور کر لیں۔‘‘میری بات سن کر وہ کہنے لگے:
’’میں چھٹی تو منظور کر لیتا ہوں مگر پرنسپل صاحب شاید یہ چھٹی منظور نہ کریں۔‘‘
’’سر!میں ان سے بھی مل لیتا ہوں۔‘‘
وائس پرنسپل نے درخواست پر دستخط کیے تو مجھے یوں لگا کہ بس کہانی لکھی گئی ۔تفریح کے بعد پرنسپل صاحب کا بلاوا آگیا ۔کچھ ہی دیر بعد میں ان کے سامنے موجود تھا ۔انہوں نے مجھے دیکھتے ہی کہا :
’’گھر میں کوئی اور نہیں ہے جو والدہ کا چیک اپ کر وا سکے ؟‘‘
’’نہیں سر! ۔‘‘ میں نے یہاں بھی جھوٹ بولا۔
ٍ ’’پھر تو مجبوری ہے ‘میں آپ کی چھٹی منظورکر رہا ہوں ۔‘‘
اب میرے اور نئی کہانی کے درمیان کوئی چیز حائل نہ تھی ۔شام تک میں نے اپنے سارے کام ختم کیے اور کہانی کے ابتدائی خاکے کا آغاز کر دیا۔جھوٹ اور سچ کو کردار بنا کر ایک خاکہ حتمی صورت اختیار کر گیا تو میں اطمینان سے سو گیا۔صبح ناشتے کے بعد فوراًقلم لے کر بیٹھ گیا۔
’’کیا آج سکول نہیں جاؤ گے؟‘‘امی جان نے پوچھا۔
’’نہیں آج سکول میں چھٹی ہے۔‘‘جھوٹ یہاں بھی میرے ساتھ رہا۔
’’کس بات کی چھٹی ہے؟‘‘تم تو پرسوں کہہ رہے تھے کہ سکول میں اتنا کام ہے کہ سر کھجانے کی بھی فرصت نہیں!۔‘‘
’’جی ہاں‘میں نے ایسا ہی کہا تھا۔میری کلاس بورڈ کا امتحان دے رہی ہے اس لیے پرنسپل نے ان سارے اساتذہ کو ایک دن کی خصوصی چھٹی دی ہے جنہوں نے صبح کے وقت اضافی پیریڈ میں طلبہ کی تیاری کر وائی تھی ۔‘‘میرے جھوٹ کا یہ تیر نشانے پر لگا۔
اچھا تو یہ بات ہے ۔اس کا مطلب ہے آج فارغ ہو!‘‘
’’امی جان! فراغت میری زندگی میں کہاں؟سکول میگزین تیاری کے مرا حل میں ہے ۔اس کی تحریروں کی پروف ریڈنگ کرنی ہے۔‘‘میں اگر یہ جھوٹ نہ بولتا تو امی جان نے کوئی کام میرے ذمے ضرور لگا دینا تھا ۔ابا جان دُکان پر جانے لگے تو مجھے دیکھ کر بولے:
’’اگر آج فارغ ہو تو تھوڑی دیر کے لیے دُکان پر آجا نا ‘میں نے کہیں جانا ہے ۔‘‘
میں نے پھر جھوٹ کا سہارا لے کر اپنی مصروفیات کی لمبی چوڑی فہرست ابا جان کے حضور پیش کی تو وہ مجھے قدرے حیرانی سے دیکھتے ہوئے بولے :
’’ہاں ٹھیک ہے‘تم اپنا کام مکمل کرو میں دُکان بند کر کے خود ہی چلا جاؤں گا۔‘‘
کل سے مسلسل جھوٹ بول کر میں کہانی تک پہنچا تھا۔میرا خیال تھا کہ دوپہر تک کہانی لکھ کر اسے ایڈیٹر کے حوالے کر آؤں گا ۔میں نے جب سے لکھنا شروع کیا ہے ‘مجھے پہلی بار ایسی صورت حال کا سامنا کر نا پڑا ورنہ بہت سی کہانیاں میرے سامنے ہاتھ باندھے کھڑی ہوتی ہیں۔مگر آج تو شام تک کہانیوں سے میری آنکھ مچولی جاری رہی۔مجھے اپنا پورا دن ضائع ہوتا دکھائی دینے لگا۔جھوٹ بول کر چھٹی بھی کی اور ہاتھ بھی کچھ نہ آیا ۔میں کہانیو ں کے ہاتھوں ہونے والی شکست کو ماننے کے لیے تیار نہ تھا ۔ہر ناکام کوشش کے بعد میں پھر سے مصروف ہو جاتا ۔مگر ہر کوشش کا نتیجہ پہلے جیسا ہی نکلتا۔
مغرب کی نماز کے بعد امی جان میرے کمرے میں آئیں :
’’عمران بیٹا!ابھی کوثر کا فون آیا ہے ‘کل ایکسیڈنٹ میں جمیل کی ٹانگ ٹوٹ گئی ہے ۔‘‘
’’جمیل بھائی کی ٹانگ ٹوٹ گئی ہے؟‘‘بے اختیار میری زبان سے نکلا۔
’’آج صبح جب وہ گوجرانوالہ واپس جا رہے تھے تو باغ جناح والی سڑک پار کرتے ہوئے ایک کار ان سے ٹکرائی۔‘‘
’’جمیل بھائی اب کہاں ہیں؟‘‘
’’سروسز ہسپتال میں ہیں۔اگر تم فارغ ہو تو تیمارداری کے لیے ہوآتے ہیں ۔‘‘
میرے ذہن میں ایک لمحے کے لیے کہانی کا خیال آیا ۔پھر اگلے ہی لمحے جمیل بھائی کی صورت میری آنکھوں کے سامنے گردش کرنے لگی۔کل سے جھوٹ بولنے والی زبان نے آخر امی جان کے سامنے سچ بول ہی دیا:
’’میں تو فارغ ہوں ‘آپ تیا ر ہو جائیں ہم ابھی ہسپتال چلتے ہیں ۔‘‘
’’میں بس تیار ہوں ‘چلو اٹھو!‘‘
کچھ ہی دیر میں سروسز ہسپتال کے آرتھوپیڈک (ہڈی وارڈ)وارڈ میں موجود جمیل بھائی کی زبانی ایکسیڈنٹ کی تفصیل سن رہا تھا۔
’’ڈاکٹر کیا کہتے ہیں ؟‘‘میں نے پوچھا۔
’’جمعرات کو آپریشن ہو گا۔آپ میرے لیے دعا کریں ۔‘‘جمیل بھائی بولے۔
اسی دوران کچھ اور ملنے والے بھی آگئے ۔جمیل بھائی ان سے باتیں کرنے لگے تو میں وارڈ میں بستروں پر پڑے مجبور و لاچار مریضوں کو دیکھنے لگا۔بیڈ نمبر 6پر ایک کم عمر لڑکا پڑا تھا۔اس وقت وہ ایک رسالہ پڑھ رہا تھا ۔اسے اتفاق کہہ لیجئے کہ اس شمارے میں میری تحریر کے ساتھ میرا تعارف اور تصویر بھی چھپی تھی ۔لڑکے نے میری طرف دیکھا تو فوراً مجھے پہچان لیا۔اس کا اشارہ پاتے ہی میں اس کے پاس چلا گیا۔اپنا نام فرید بتانے کے بعد اس نے پوچھا:
’’یہ آپ کی تصویر ہے؟‘‘
’’ہاں‘یہ تصویر اور تحریر میری ہی ہے۔‘‘
’’آپ نے بہت اچھی کہانی لکھی ہے ۔‘‘
’’شکریہ‘یہ تمہاری ٹانگ کیسے ٹوٹی ہے؟‘‘
’’جھوٹ کی وجہ سے ۔‘‘فرید نے جواب دیا۔
’’کیا مطلب؟‘‘میں نے پوچھا۔
’’اگر آپ میری کہانی لکھیں تو میں آپ کا ممنون ہوں گا۔شاید میری کہانی سے کسی کو سبق مل جائے ۔‘‘
’’تم بتاؤ میں تمہاری کہانی ضرور لکھوں گا۔‘‘
’’کل میں نے گھر والوں سے جھوٹ بولا کہ آج سکول کی چھٹی ہے ۔ابا جان جب دفتر چلے گئے تو پروگرام کے مطابق میرے دو دوستوں ‘اعجاز اور شہزاد نے پیسے جمع کر کے موٹر سائیکل کرائے پر لی۔ ہم تینوں موٹر سائیکل پر سوار ہو کر ایف سی کالج انڈر پاس چلے گئے اور اس کے ساتھ سروس روڈ پر ون ویلنگ(ایک پہئے پر موٹر سائیکل چلانا)شروع کر دی۔ہم اس شغل میں مصروف تھے کے کہ موٹر سائیکل دفعتاً بے قابوہو کر درخت سے جا ٹکرائی ۔ان دونوں کو تو معمولی چوٹیں آئیں جبکہ ٹانگ ٹوٹ جانے کی وجہ سے میں بے ہوش ہو گیا ۔جب ہوش میں آیا تو خود کو اس بیڈ پر پڑے ہوئے پایا۔اپنی ٹوٹی ہوئی ٹانگ دیکھ کر میری آنکھوں میں آنسو آگئے ۔اشکبار آنکھوں سے اچانک سامنے والی دیوار پر نگاہ ڈالی تو میں لرز کر رہ گیا۔آپ بھی دیکھ لیں ‘دیوار پر لکھا ہوا ہے کہ رسول سلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ:’’جب کوئی جھوٹ بولتا ہے تو اس کی بدبو سے فرشتے اس سے کوسوں دُور چلے جاتے ہیں ۔‘‘یہ حدیث مبارکہ پڑھتے ہی مجھے جھوٹ سے نفرت ہو گئی ہے۔آپ کو بھی یقیناً جھوٹ سے نفرت ہو گی ۔آپ مجھ سے وعدہ کریں کہ میری کہانی ضرور لکھیں گے ۔‘‘فرید بولتا رہا اورمیں خاموشی سے اس کی باتیں سنتا رہا ۔مجھے کیامعلوم تھا کہ وہ کہانی جسے میں جھوٹ کے ذریعے تلاش کر رہا تھا وہ سچ کے راستے پر چلتے ہوئے سروس ہسپتال کے آرتھو پیڈک وارڈ میں ملے گی۔فرید کا ہاتھ اب میرے ہاتھ میں تھا ۔
’’شکریہ دوست!‘‘
’’کس بات کا شکریہ؟‘‘فرید نے پوچھا۔
’’کہانی دینے کا شکریہ ۔میں تمہاری کہانی ضرور لکھوں گا۔‘‘میری بات سن کر فرید کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی ۔ 
اس وقت میں اپنی نیند کی قربانی دے کر رات کے وقت یہ کہانی لکھ رہا ہوں تا کہ جھوٹ کے اندھیرے میں جو وقت ضائع ہوا تھا ‘سچ 
کے اُجالے میں اس کا ازالہ ہو سکے اور……..پھر فرید سے کیا ہوا وعدہ بھی پورا کر سکوں۔
اور کہانی مل گئی
جس کہانی کا آغاز میں نے کیا تھا‘اس کے بارے میں اندازہ تھا کہ میں اُسے مکمل کرنے میں جلد کامیاب ہو جاؤں گا مگر ابھی آدھا صفحہ ہی لکھ پایا تھا کہ بات آگے نہ بڑھ سکی ۔کہانی الجھ کر رہ گئی ۔میں پچھلے تین گھنٹوں سے کہانی لکھنے کی کوشش میں تھا۔مجھے یوں لگتا تھا کہ کہانیاں آج مجھ سے ناراض ہو گئی ہوں۔میں نے آج کا دن اسی کام کے لیے مخصوص کر رکھا تھا ۔کہانی کے الجھنے سے میں خود بھی الجھتا جا رہا تھا۔مجھے ایسی صورت حال کا پہلی مرتبہ سامنا کرنا پڑ رہا تھا ورنہ تواِدھر کہانی نے ذہن کے دروازے پر پر دستک دی اور اُ دھر وہ صفحات پر منتقل ہو گئی۔آدھے صفحے تک لکھی ہوئی کہانی کو ایک طرف رکھ کر میں نئی کہانی کی تلاش میں اپنی ڈائری میں درج کہانیوں کے خاکے پڑھنے لگا۔ڈائری کے صفحوں کو الٹتے ہوئے میری نظر ایک خاکے پر آکر ٹھہر گئی۔
’’ہاں! یہ کہانی لکھی جا سکتی ہے ۔کہانی بالکل واضح ہے ۔اس موضوع پر میں ایک دلچسپ کہانی لکھوں گا۔‘‘میرے دل نے کہا۔
ٍ میں نے تھوڑی دیر اس کہانی کے خاکے پر غور کیا اور پھر کاغذ قلم لے کر بیٹھ گیا۔کہانی کا پہلا پیرا تو عمدگی سے لکھنے میں کامیاب ہوگیا مگر پھر بات یہیں پر رک گئی۔بہت سوچا ‘غور کیا مگر یہ کہانی بھی میری گرفت میں نہ آئی ۔میں ہر لمحہ الجھتا جا رہا تھا ۔میں یہ کہانی لکھنے کی کشمکش میں تھا کہ اتنے میں محسن نے آکر اطلاع دی کہ میرا دوست تو فیق ملنے کے لیے آیا ہے ۔محسن ساتویں جما عت کا سالانہ امتحان دے رہا تھا۔آج اس کا کوئی پیپر نہیں تھا جس کی وجہ سے وہ سکول نہیں گیا تھا ۔
’’اس سے کہہ دو چاچو گھر میں نہیں ہیں ۔‘‘
’’مگر چاچو آپ تو……؟‘‘محسن اتنا ہی کہہ پایا تھا کہ میں فوراً بولا:
’’بس …….بس…….چپ رہو‘جو کہا ہے وہی کرو !‘‘
’’توفیق انکل آپ سے لازمی ملنا چاہتے ہیں ۔‘‘محسن نے کہا۔
’’اس وقت میرے لیے کہانی لکھنے سے اہم کوئی بات نہیں ‘اتنی مشکل سے تو اس کام کے لیے وقت نکالا ہے ۔جاؤ کہہ دو کہ میں گھر میں نہیں ہوں ۔‘‘
’’میں تو ایسا نہیں کروں گا‘میں کیوں جھوٹ بولوں؟‘‘محسن یہ کہہ کر چلا گیا۔
تھوڑی دیر بعد امی جان میرے سامنے کھڑی تھیں:
’’توفیق ڈرائنگ روم میں تمہارا انتظار کر رہا ہے ۔‘‘
مجھے محسن پر شدید غصہ آرہا تھا ۔اب توفیق سے ملنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔
’’یار ‘اتنی دیر سے کہاں تھے ؟‘‘
’’سو رہا تھا۔‘‘ میں نے جھوٹ موٹ آنکھیں ملتے ہوئے کہا ۔
’’سو رہے تھے یا………‘‘توفیق نے اپنا جملہ ادھورا چھوڑ دیا ۔
’’ہاں یار سو رہا تھا‘کیسے آئے ہو؟آج دفتر نہیں گئے!‘‘
’’گھر میں کچھ کام تھا اس لیے چھٹی کی ہے ۔میں گلی سے گزر رہا تھا کہ محسن کی زبانی تمہارا پتا چلا تو میں ملنے کے لیے چلا آیا مگر……‘‘
’’مگر کیا؟‘‘میں نے پوچھا۔
’’مگر اب اور اسی وقت جا رہا ہوں ۔‘‘
’’مگر کیوں؟‘‘میں نے ایک مرتبہ پھر ’’مگر ‘‘ کا لفظ دہرایا۔
’’تم اس وقت گھر میں نہیں ہو ۔جب تم گھرپر ہوگے ‘میں اس وقت آجاؤں گا ۔‘‘توفیق یہ کہہ کر اٹھنے لگا تو میں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا ۔
’’چھوڑو میرا ہاتھ ‘ میں اب یہاں ایک پل نہیں ٹھہروں گا ۔‘‘ 
’’میں محسن کے بچے کو دیکھ لوں گا ۔یہ سب اسی کا کیا دھرا ہے ۔‘‘
’’میں تمہارا وقت ضائع نہیں کروں گا ۔جاؤ کہانی لکھو ‘لوگوں کو سبق دو اور خود…..‘‘توفیق کا ادھورا جملہ میں سمجھ گیا ۔
’’امی جان جب چائے لائیں تو میں ڈرائنگ روم میں اکیلا تھا ۔
’’عمران بیٹے توفیق کہاں ہے؟‘‘
’’چلا گیا ہے۔‘‘
’’کیوں ؟‘‘امی جان نے پوچھا ۔
’’اسے کہیں جانا تھا ۔‘‘میں نے جھوٹ بولا۔
’’اتنی بھی کیا جلدی تھی ‘چائے تو پی کر جاتا ۔‘‘
’’کہتا تھا ‘میں نے کہیں ضروری کام سے جانا ہے۔‘‘
’’کیا توفیق کسی کام سے آیا تھا ۔‘‘
’’نہیں‘ویسے ہی ملنے آیاتھا ۔‘‘
’’ توفیق پہلے تو کبھی اتنی جلدی نہیں گیا ‘چلو تم یہ چائے پی لو۔‘‘امی نے قدرے حیران ہوتے ہوئے کہا۔
اس وقت میرے دماغ میں ایک ہی بات سمائی ہوئی تھی کہ کہانی کو جلد از جلد مکمل کر کے اشاعت کے لیے ’’تعلیم و تربیت ‘‘کے دفتر دے آؤں۔چائے کا کپ لیے میں اپنے کمرے میں گیا اور ایک مرتبہ پھر اپنے دماغ میں گردش کر نے والی بے شمار کہانیوں میں سے ایک کہانی کو صفحے پر منتقل کرنے میں مصروف ہو گیا۔کہانیاں تو میرے پاس بے شمار تھیں مگر کوئی بھی صفحے پر آنے کے لیے تیار نہ تھی۔ناراض کہانیوں میں سے ایک کو راضی کر کے لکھنے لگا تو چند جملوں کے بعد یہ بھی میرے ہاتھوں سے نکل گئی۔کہانی کا نہ لکھنا ایک طرح سے پورا دن ضائع ہونے کے برابر تھا یہ دن مجھے کتنی مشکل سے ملا تھا سکول کی مصروفیت نے پچھلے ایک ماہ سے سر اٹھانے نہیں دیا تھا ۔سکول میں کام کی زیادتی کی وجہ سے واپسی پر بہت سا کام گھر بھی لانا پڑتا تھا۔ سالا نہ امتحان کی وجہ سے مارچ کا مہینہ اسی وجہ سے بہت مصروف گزرتا ہے۔ اس مہینے میں کسی کو سکول سے چھٹی نہیں ملتی ۔میں نے سوچا تھا کہ اتوار کے دن کہانی لکھوں گا مگر ایک عزیز کی شادی میں جانے کی وجہ سے اپنے خیال کو عملی جامہ نہ پہنا سکا۔چنانچہ میں نے ایک چھٹی کے لیے درخواست لکھی اور وائس پرنسپل کے سامنے رکھ دی ۔وائس پرنسپل ایک فائل پڑھنے میں اس قدر محو تھے کہ ان کو درخواست اور میری موجودگی کا علم نہ ہو سکا۔
’’سر!‘‘
’’جی……جی……عمران صاحب فر مائیے۔‘‘
’’سر! ایک دن کی چھٹی چاہیے ۔‘‘
’’ عمران صاحب! آپ کے علم میں ہے کہ مارچ میں اس قدر کام ہوتا ہے کہ سٹاف میں کسی کو چھٹی نہیں ملتی ۔‘‘
’’سر! صرف ایک دن کی تو بات ہے ۔‘‘
’’کیا کام ہے؟‘‘
’’سر ! والدہ بیمار ہیں‘ان کا چیک اپ کروانا ہے ۔‘‘میں نے فوراً جھوٹ بولا ۔
’’یہ کام کیا شام کو نہیں ہو سکتا؟‘‘وائس پرنسپل نے پوچھا۔
’’سر !والدہ کو ہسپتال میں دکھانا ہے ۔کل صبح دس بجے کا وقت ملا ہے ‘مہربانی فر مائیے ایک دن کی چھٹی منظور کر لیں۔‘‘میری بات سن کر وہ کہنے لگے:
’’میں چھٹی تو منظور کر لیتا ہوں مگر پرنسپل صاحب شاید یہ چھٹی منظور نہ کریں۔‘‘
’’سر!میں ان سے بھی مل لیتا ہوں۔‘‘
وائس پرنسپل نے درخواست پر دستخط کیے تو مجھے یوں لگا کہ بس کہانی لکھی گئی ۔تفریح کے بعد پرنسپل صاحب کا بلاوا آگیا ۔کچھ ہی دیر بعد میں ان کے سامنے موجود تھا ۔انہوں نے مجھے دیکھتے ہی کہا :
’’گھر میں کوئی اور نہیں ہے جو والدہ کا چیک اپ کر وا سکے ؟‘‘
’’نہیں سر! ۔‘‘ میں نے یہاں بھی جھوٹ بولا۔
ٍ ’’پھر تو مجبوری ہے ‘میں آپ کی چھٹی منظورکر رہا ہوں ۔‘‘
اب میرے اور نئی کہانی کے درمیان کوئی چیز حائل نہ تھی ۔شام تک میں نے اپنے سارے کام ختم کیے اور کہانی کے ابتدائی خاکے کا آغاز کر دیا۔جھوٹ اور سچ کو کردار بنا کر ایک خاکہ حتمی صورت اختیار کر گیا تو میں اطمینان سے سو گیا۔صبح ناشتے کے بعد فوراًقلم لے کر بیٹھ گیا۔
’’کیا آج سکول نہیں جاؤ گے؟‘‘امی جان نے پوچھا۔
’’نہیں آج سکول میں چھٹی ہے۔‘‘جھوٹ یہاں بھی میرے ساتھ رہا۔
’’کس بات کی چھٹی ہے؟‘‘تم تو پرسوں کہہ رہے تھے کہ سکول میں اتنا کام ہے کہ سر کھجانے کی بھی فرصت نہیں!۔‘‘
’’جی ہاں‘میں نے ایسا ہی کہا تھا۔میری کلاس بورڈ کا امتحان دے رہی ہے اس لیے پرنسپل نے ان سارے اساتذہ کو ایک دن کی خصوصی چھٹی دی ہے جنہوں نے صبح کے وقت اضافی پیریڈ میں طلبہ کی تیاری کر وائی تھی ۔‘‘میرے جھوٹ کا یہ تیر نشانے پر لگا۔
اچھا تو یہ بات ہے ۔اس کا مطلب ہے آج فارغ ہو!‘‘
’’امی جان! فراغت میری زندگی میں کہاں؟سکول میگزین تیاری کے مرا حل میں ہے ۔اس کی تحریروں کی پروف ریڈنگ کرنی ہے۔‘‘میں اگر یہ جھوٹ نہ بولتا تو امی جان نے کوئی کام میرے ذمے ضرور لگا دینا تھا ۔ابا جان دُکان پر جانے لگے تو مجھے دیکھ کر بولے:
’’اگر آج فارغ ہو تو تھوڑی دیر کے لیے دُکان پر آجا نا ‘میں نے کہیں جانا ہے ۔‘‘
میں نے پھر جھوٹ کا سہارا لے کر اپنی مصروفیات کی لمبی چوڑی فہرست ابا جان کے حضور پیش کی تو وہ مجھے قدرے حیرانی سے دیکھتے ہوئے بولے :
’’ہاں ٹھیک ہے‘تم اپنا کام مکمل کرو میں دُکان بند کر کے خود ہی چلا جاؤں گا۔‘‘
کل سے مسلسل جھوٹ بول کر میں کہانی تک پہنچا تھا۔میرا خیال تھا کہ دوپہر تک کہانی لکھ کر اسے ایڈیٹر کے حوالے کر آؤں گا ۔میں نے جب سے لکھنا شروع کیا ہے ‘مجھے پہلی بار ایسی صورت حال کا سامنا کر نا پڑا ورنہ بہت سی کہانیاں میرے سامنے ہاتھ باندھے کھڑی ہوتی ہیں۔مگر آج تو شام تک کہانیوں سے میری آنکھ مچولی جاری رہی۔مجھے اپنا پورا دن ضائع ہوتا دکھائی دینے لگا۔جھوٹ بول کر چھٹی بھی کی اور ہاتھ بھی کچھ نہ آیا ۔میں کہانیو ں کے ہاتھوں ہونے والی شکست کو ماننے کے لیے تیار نہ تھا ۔ہر ناکام کوشش کے بعد میں پھر سے مصروف ہو جاتا ۔مگر ہر کوشش کا نتیجہ پہلے جیسا ہی نکلتا۔
مغرب کی نماز کے بعد امی جان میرے کمرے میں آئیں :
’’عمران بیٹا!ابھی کوثر کا فون آیا ہے ‘کل ایکسیڈنٹ میں جمیل کی ٹانگ ٹوٹ گئی ہے ۔‘‘
’’جمیل بھائی کی ٹانگ ٹوٹ گئی ہے؟‘‘بے اختیار میری زبان سے نکلا۔
’’آج صبح جب وہ گوجرانوالہ واپس جا رہے تھے تو باغ جناح والی سڑک پار کرتے ہوئے ایک کار ان سے ٹکرائی۔‘‘
’’جمیل بھائی اب کہاں ہیں؟‘‘
’’سروسز ہسپتال میں ہیں۔اگر تم فارغ ہو تو تیمارداری کے لیے ہوآتے ہیں ۔‘‘
میرے ذہن میں ایک لمحے کے لیے کہانی کا خیال آیا ۔پھر اگلے ہی لمحے جمیل بھائی کی صورت میری آنکھوں کے سامنے گردش کرنے لگی۔کل سے جھوٹ بولنے والی زبان نے آخر امی جان کے سامنے سچ بول ہی دیا:
’’میں تو فارغ ہوں ‘آپ تیا ر ہو جائیں ہم ابھی ہسپتال چلتے ہیں ۔‘‘
’’میں بس تیار ہوں ‘چلو اٹھو!‘‘
کچھ ہی دیر میں سروسز ہسپتال کے آرتھوپیڈک (ہڈی وارڈ)وارڈ میں موجود جمیل بھائی کی زبانی ایکسیڈنٹ کی تفصیل سن رہا تھا۔
’’ڈاکٹر کیا کہتے ہیں ؟‘‘میں نے پوچھا۔
’’جمعرات کو آپریشن ہو گا۔آپ میرے لیے دعا کریں ۔‘‘جمیل بھائی بولے۔
اسی دوران کچھ اور ملنے والے بھی آگئے ۔جمیل بھائی ان سے باتیں کرنے لگے تو میں وارڈ میں بستروں پر پڑے مجبور و لاچار مریضوں کو دیکھنے لگا۔بیڈ نمبر 6پر ایک کم عمر لڑکا پڑا تھا۔اس وقت وہ ایک رسالہ پڑھ رہا تھا ۔اسے اتفاق کہہ لیجئے کہ اس شمارے میں میری تحریر کے ساتھ میرا تعارف اور تصویر بھی چھپی تھی ۔لڑکے نے میری طرف دیکھا تو فوراً مجھے پہچان لیا۔اس کا اشارہ پاتے ہی میں اس کے پاس چلا گیا۔اپنا نام فرید بتانے کے بعد اس نے پوچھا:
’’یہ آپ کی تصویر ہے؟‘‘
’’ہاں‘یہ تصویر اور تحریر میری ہی ہے۔‘‘
’’آپ نے بہت اچھی کہانی لکھی ہے ۔‘‘
’’شکریہ‘یہ تمہاری ٹانگ کیسے ٹوٹی ہے؟‘‘
’’جھوٹ کی وجہ سے ۔‘‘فرید نے جواب دیا۔
’’کیا مطلب؟‘‘میں نے پوچھا۔
’’اگر آپ میری کہانی لکھیں تو میں آپ کا ممنون ہوں گا۔شاید میری کہانی سے کسی کو سبق مل جائے ۔‘‘
’’تم بتاؤ میں تمہاری کہانی ضرور لکھوں گا۔‘‘
’’کل میں نے گھر والوں سے جھوٹ بولا کہ آج سکول کی چھٹی ہے ۔ابا جان جب دفتر چلے گئے تو پروگرام کے مطابق میرے دو دوستوں ‘اعجاز اور شہزاد نے پیسے جمع کر کے موٹر سائیکل کرائے پر لی۔ ہم تینوں موٹر سائیکل پر سوار ہو کر ایف سی کالج انڈر پاس چلے گئے اور اس کے ساتھ سروس روڈ پر ون ویلنگ(ایک پہئے پر موٹر سائیکل چلانا)شروع کر دی۔ہم اس شغل میں مصروف تھے کے کہ موٹر سائیکل دفعتاً بے قابوہو کر درخت سے جا ٹکرائی ۔ان دونوں کو تو معمولی چوٹیں آئیں جبکہ ٹانگ ٹوٹ جانے کی وجہ سے میں بے ہوش ہو گیا ۔جب ہوش میں آیا تو خود کو اس بیڈ پر پڑے ہوئے پایا۔اپنی ٹوٹی ہوئی ٹانگ دیکھ کر میری آنکھوں میں آنسو آگئے ۔اشکبار آنکھوں سے اچانک سامنے والی دیوار پر نگاہ ڈالی تو میں لرز کر رہ گیا۔آپ بھی دیکھ لیں ‘دیوار پر لکھا ہوا ہے کہ رسول سلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ:’’جب کوئی جھوٹ بولتا ہے تو اس کی بدبو سے فرشتے اس سے کوسوں دُور چلے جاتے ہیں ۔‘‘یہ حدیث مبارکہ پڑھتے ہی مجھے جھوٹ سے نفرت ہو گئی ہے۔آپ کو بھی یقیناً جھوٹ سے نفرت ہو گی ۔آپ مجھ سے وعدہ کریں کہ میری کہانی ضرور لکھیں گے ۔‘‘فرید بولتا رہا اورمیں خاموشی سے اس کی باتیں سنتا رہا ۔مجھے کیامعلوم تھا کہ وہ کہانی جسے میں جھوٹ کے ذریعے تلاش کر رہا تھا وہ سچ کے راستے پر چلتے ہوئے سروس ہسپتال کے آرتھو پیڈک وارڈ میں ملے گی۔فرید کا ہاتھ اب میرے ہاتھ میں تھا ۔
’’شکریہ دوست!‘‘
’’کس بات کا شکریہ؟‘‘فرید نے پوچھا۔
’’کہانی دینے کا شکریہ ۔میں تمہاری کہانی ضرور لکھوں گا۔‘‘میری بات سن کر فرید کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی ۔ 
اس وقت میں اپنی نیند کی قربانی دے کر رات کے وقت یہ کہانی لکھ رہا ہوں تا کہ جھوٹ کے اندھیرے میں جو وقت ضائع ہوا تھا ‘سچ 
کے اُجالے میں اس کا ازالہ ہو سکے اور……..پھر فرید سے کیا ہوا وعدہ بھی پورا کر سکوں۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top