ٹوٹ پھوٹ
راحیل یوسف
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٹوٹ پھوٹ بعض اوقات کس قدر فائدہ مند ثابت ہوتی ہے اس بات کا احساس مجھے اس دن ہوا جب ناصر کے ہاتھ کی ہڈی ٹوٹی۔ ناصر یوں تو مجھ سے عمر میں ڈیڑھ سال بڑا تھا اس لحاظ سے میرا بڑا بھائی ہونے کا درجہ اسے حاصل تھا مگر اس کی بدقسمتی کہیئے یا میری خوش قسمتی ہم دونوں اسکول میں اکھٹے اور ایک ہی کلاس میں داخل کیئے گئے دراصل ابو سرکاری ملازم تھے اور ان کے تبادلے ہوتے رہتے تھے جن دنوں ابو لاہور میں تھے ناصر اسکول میں داخل ہونے والا تھا مگر اچانک ان کا تبادلہ کراچی ہوگیا۔ اور یہاں کے اسکولوں میں داخلے بند ہوچکے تھے چنانچہ ناصر بے چارے کو مزید انتظار کرنا پڑا اور مجھے اس کا ہم جماعت ہونے کا شرف حاصل ہوگیا۔ اور یوں میں نے اسے ناصر بھائی کے بجائے ناصر کہنا شروع کردیا۔۔۔ شاید بات کچھ ادھر ادھر ہوگئی۔۔۔ تو بات ہورہی تھی ناصر کے ہاتھ کی ہڈی ٹوٹنے کی یہ خاصی پرانی بات ہے جب میں اور وہ، دونوں پانچویں جماعت میں پڑھتے تھے۔ اس دن بھی ہم دونوں حسب معمول اکھٹے اسکول جارہے تھے۔
ناصر اپنی ترنگ میں سڑک کے کنارے بنی کیاری کے پتلے سے احاطے پر چل رہا تھا کہ اچانک اس کا پیر پھسلا اور وہ دھڑام سے زمین پر تھا۔ میں اس کو گرتا دیکھ کر کھلکھلا کر ہنس پڑا مگر جب خاصی دیر تک اس کی طرف سے کوئی رد عمل سامنے نہ آیا تو مجھے بھی تشویش لاحق ہوگئی۔ مجھے توقع تھی وہ اٹھ کر ایک کرارا سا ہاتھ مجھے رسید کریگا پھر میں بھی اس کا حسب استطاعت جواب دوں گا آخر کار یہ سلسلہ شام کو ابو کی عدالت میں پہنچ کر بند ہوگا جہاں کا روایتی فیصلہ یعنی تین دن کا جیب خرچ بند ہونا میرا اور ناصر کا مقدر ٹھہرے گا۔ لیکن ناصر نے کھڑے نہ ہوکر مجھے پریشان کر ڈالا۔ میں بے اختیار آگے بڑھا اور ناصر کا کندھا ہلایا ’’ناصر۔۔۔ ناصر۔۔۔ تم ٹھیک تو ہو‘‘۔ میں نے فکر مندی سے کہا۔
’’یار۔۔۔ عامر میرا ہاتھ ہل نہیں رہا۔۔۔‘‘ وہ کراہتے ہوئے بولا اس کی آنکھوں میں تکلیف کی شدت سے آنسو بھر آئے تھے۔ پھر تو میری بھی سٹی گم ہوگئی میں بھی گلا پھاڑ پھاڑ کر رونے لگا کچھ ہی دیر میں راہگیروں کا ایک ہجوم ہمارے گرد اکھٹا ہوگیا کسی خدا کے بندے نے رکشہ روک کر مجھے اپنے گھر پہنچایا۔ گھر والے ناصر کو لے کر ڈاکٹر کے پاس بھاگے ایک گھنٹے بعد جب ان کی واپسی ہوئی تو ناصر کا بازو پلاسٹر میں جکڑا ہوا تھا۔ پھر اس کی خاطر داری کا وہ سلسلہ شروع ہوا جسے میں نے آغاز میں فائدہ مند کہا تھا۔ ناصر کے لئے پھل لائے جارہے ہیں عزیز رشتے دار سب اس کی خیریت معلوم کرنے آرہے ہیں۔ امی، ابو، باجی، بھیا سب اس کے نخرے برداشت کر رہے ہیں اور تو اور اسے بیٹھے بٹھائے اسکول سے ایک مہینے کی چھٹی کرنے کی اجازت بھی مل گئی۔ میں مارے جلن کے کوئلہ ہوگیا یہ میرا نہیں بھیا کا خیال ہے کہ ’’تم دوسروں سے اتنا جلتے ہو اسی لئے تمہارا رنگ کالے سے کالاہوتا جارہا ہے۔‘‘
ایسا نہیں تھا کہ میری ناصر سے کوئی دشمنی تھی۔ بس ایک مقابلہ سا تھا جو دو ایسے بھائیوں کے درمیان عموماً ہوتا ہے جن کی عمر میں زیادہ فرق نہ ہو۔ ویسے تو ہم دونوں ہی کلاس کے لائق بچے تھے مگر ہماری یہی کوشش ہوتی تھی کہ دوسرے کو پیچھے چھوڑ دیں چنانچہ کبھی میں فرسٹ ہوتا اور ناصر سیکنڈ کبھی ناصر فرسٹ اور میں سیکنڈ کبھی دونوں ایک ہی رینک پر۔ لیکن یہ طے تھا کہ دونوں پوزیشن ضرور لیں گے۔ یہی مقابلہ کبھی کپڑوں اور دیگر چیزوں تک بھی جا پہنچتا۔ میری خواہش ہوتی تھی کہ میرے کپڑے زیادہ اچھے ہوں جو دیکھے بے اختیار تعریف کرے یہی خواہش ناصر کی بھی ہوتی تھی۔ تنگ آکر گھر والوں نے دونوں کو ایک جیسے کپڑے دلانے شروع کردیئے۔
بہرحال بات ٹوٹ پھوٹ کی ہورہی تھی ظاہر ہے ہڈی ٹوٹنے کے بعد ناصر کی خاطر داری نے ایک لحاظ سے مجھے زیر کردیااب مقابلے میں اس کا ایک پوائنٹ مجھ سے زیادہ تھا اب میں سوچنے لگا کہ کاش میری بھی کوئی ہڈی ٹوٹ جاتی اور میں بھی اسی VIPسلوک کا مستحق ٹھہرتا۔۔۔ہائے رے قسمت۔۔۔ میں نے اس کا پوائنٹ برابر تو کردیا مگر پورے دو سال بعد جب سڑک پر کرکٹ کھیلتے ہوئے میں کیچ لینے کی کوشش میں موٹر سائیکل سے ٹکرا گیا اور موٹر سائیکل میرے پاؤں کو روندتے ہوئے گزر گئی۔
گھر والے ڈاکٹر کے پاس لے کر گئے اور ڈاکٹر نے موٹا سا پلاسٹر پیر کے گرد لپیٹ دیا۔ مگر ساتھ ساتھ ڈاکٹر اور ابو کی ڈانٹ بھی مفت میں سننے کو ملی ’’سڑک پر کرکٹ کھیلنے کو کس نے کہا تھا‘‘ پھر اگر کھیل ہی رہے تھے تو آگے پیچھے تو دیکھ لیتے جہاں منہ اٹھایا بھاگنا شروع ہوگئے۔‘‘ اور میں نصیحتیں اپنی گرہ سے باندھتا چلا گیا۔ یہ ٹھیک ہے کہ بعد میں اچھی خاصی خاطر داری ہوئی مگر اس دوران ہونے والے درد نے احساس دلادیا کہ ہڈی ٹوٹنے میں مزے سے زیادہ بھاری تکلیف ہے۔ جب گھر پہنچا تو امی کے سامنے منہ بسور کر بیٹھ گیا‘‘ ٹانگ ٹوٹنے کا درد کیا کم تھا ابو نے ڈاکٹر صاحب کے سامنے ہی ڈانٹ پلا دی آپ لوگوں کو کیا پتہ میں کتنی تکلیف میں ہوں۔‘‘
امی نے محبت سے میرے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے دودھ کا گلاس میری طرف بڑھایا ’’لو بیٹا پہلے دودھ پی لو۔‘‘
میں گلاس ہاتھ میں لے کر چھوٹے چھوٹے گھونٹ بھرنے لگا۔ پھر امی مجھے سمجھانے لگیں ’’بیٹے، بڑے ہمیشہ بچوں کے فائدے کے لئے ہی سوچتے ہیں۔۔۔ اب دیکھو اگر تم سڑک پر کرکٹ نہ کھیلتے تو یہ سب کچھ ہوتا۔ تم کیا سمجھتے ہو کہ درد صرف تمہیں ہے۔ا ولاد کو چوٹ لگنے سے ماں باپ کو کتنا درد ہوتا ہے تمہیں شاید معلوم نہیں تم ہو یا ناصر، بھیا ہوں یا باجی کوئی ذرا سا بھی بیمار ہوجائے تو جان ہلکان ہوجاتی ہے۔ ایک لمحے کو بھی بچے کے پاس سے ہٹنے کو دل نہیں چاہتا۔۔۔ کس کس طرح تمہارا خیال نہیں کرتے۔ اب تمہارے پیر کی چوٹ پر ابو، میں باجی، بھیا اور ناصر سب تو پریشان ہیں۔ سب ہی تکلیف میں ہیں شاید تمہیں احساس نہیں۔‘‘ امی کے لہجے میں مامتا بھری تھی اور آنکھیں جذبات کے آنسوؤں سے۔۔۔ مجھے یقین آگیا کہ میری ٹانگ ٹوٹنے پر پورا گھر پریشان ہے۔
اب تو اس واقعے کو دس سال گزر چکے ہیں ابو ریٹائر ہوچکے ہیں۔ بھیا آج کل یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں۔ باجی کی شادی ہوچکی ہے۔ میں نے اور ناصر نے حال ہی میں NEDسے الیکٹریکل انجینئرنگ پاس کی ہے وہ جو ہم جماعت ہونے کا شرف بچپن سے ہمیں بخشا گیا تھا وہ یونیورسٹی تک قائم رہا۔ ویسے بعد میں ہماری لڑائیاں بالکل ختم ہوگئی تھیں بلکہ آج اگر آپ مجھ سے میرے بہترین دوست کا نام پوچھیں تو میں ناصر کا ہی نام لوں گا۔
یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ ناصر کا بازو یکم دسمبر کو ٹوٹا اور میری ٹانگ 31دسمبر کو۔۔۔ ہمارے لئے تو دسمبر کا مہینہ ٹوٹ پھوٹ سے ہی منسوب ہے۔۔۔ اور ہاں ۔۔۔16دسمبر کو کچھ اور بھی تو ٹوٹا تھا۔ میرا وطن پاکستان۔۔۔ آہ۔۔۔ اس ٹوٹ پھوٹ پر بھی کسی کو تکلیف ہوئی۔۔۔؟
*۔۔۔*