دِتو، بوٹا اور ماسی بسرو
سیما صدیقی
…….
ہماری عظیم شخصیات کے کھوج نے نئے رازون پر سے پردے اٹھائے
…….
اکثر مصنفین ، ایسی ’’عظیم شخصیات‘‘ کے خاکے تحریر کرتے ہیں، جن سے وہ مل چکے ہوں یا انہیں قریب سے جانتے ہوں اور کچھ نہ سوجھا تو ہم نے اپنے نیم جان ادبی کیریئر کو بچانے کیلیے ’’خاکے‘‘ لکھنے کی ٹھانی۔ لیکن جب لکھنے بیٹھے تو یہ جان کر شدید دھچکا لگا کہ ہم کسی بڑے آدمی کو جانتے ہی نہیں۔۔۔ یا یوں کہہ لیں کہ کوئی بڑا آدمی ہمیں نہیں جانتا۔ خاکے لکھنے کی ہمیں بہت جلدی تھی اور ہم مشہور شخصیات کو کھوجنے اور ان سے راہ و رسم پیدا کرنے میں وقت ضائع نہیں کر سکتے تھے لہٰذا سوچا کہ کیا ضروری ہے کہ بڑی بڑی ادبی اور سماجی شخصیات کے ہی خاکے لکھے جائیں۔ معاشرے میں اور بھی تو اہم لوگ ہیں جن کے بغیر سماج کی گاڑی چلنا ناممکن ہے۔ اب ہم نے طے کر لیا کہ انہی پر خاکے لکھیں گے، کیوں کہ ان سے بہتر ہم کسی کو نہیں جانتے۔ چنانچہ یہی وہ عظیم شخصیات ہیں جنہیں ہم اپنے زورِ قلم سے مزید عظیم بنائیں گے اور وہ معروف ہستیاں ہیں۔ دھوبی، ماسی اور جمعدار۔
نمبر ون دھوبی:
ہمارے دھوبی کا نام ’’دِتو‘‘ ہے۔ معلوم نہیں اصلی نام یہی ہے یا کسی نے پیار میں بگاڑا ہے۔ اگرچہ ہمارا دھوبی اس لائق ہر گز نہیں کہ اس سے اتنا پیار کیاجائے۔ دھوبی کو سب سے پیارا گدھا ہوتا ہے اور گدھے کو دھوبی۔ ہو سکتا ہے گدھا ’’ توتلا‘‘ ہو اور ڈھینچوں ڈھینچوں کے بجائے ’’دِتو دِتو‘‘ کرتا ہو۔ بہرحال نام کے بارے میں محض اندازے ہی ہیں۔ اس ضمن میں کوئی تاریخی سراغ نہیں ملتا۔ دِتو بڑا مسکین سا آدمی ہے (بظاہر) مگر کسی کسی وقت اس میں ایک عجیب شانِ بے نیازی پیدا ہوجاتی ہے۔ خصوصاً اس وقت جب کپڑے پھاڑ کر لانے پراس سے باز پرس کی جائے۔ (جو ہمیشہ ہوتی ہے) تو بڑی لاپرواہی سے کندھے جھٹک کر کہتا ہے۔
’’ جی گدھے نے منہ مارا ہوگا!‘‘
ہر غلط کام کی ذمہ داری وہ گدھے کے سر ڈال دیتا ہے۔ حالانکہ گدھا اتنا گدھا نہیں، جتنا وہ خود ہے۔ یہ Attitudeاس لحاظ سے بھی غلط ہے کہ ہم نے دھوبی کو گدھا سمجھ کر معمولی اجرت پر رکھا ہے، گدھے کو نہیں! لہٰذا ہم براہ راست گدھے سے پوچھ تاجھ کرنے کا استحقاق نہیں رکھتے، نہ تنخواہ کاٹنے کی دھمکی دے سکتے ہیں کیوں کہ وہ بے چارا تو بنا تنخواہ کام کرنے والا ورکر ہے(آخر کو گدھا جو ٹھہرا) اور نہ ہم ایسا غیر منصفانہ مزاج رکھتے ہیں کہ دھوبی پر بس نہ چلے تو گدھے کے کان مروڑ دیں۔ جب ہمارا دھوبی کپڑے پھاڑتے پھاڑتے بور ہوجاتا تو انہیں پھاڑنے کے بجائے غائب کردیتا اور ڈھٹائی سے ، دھلائی کے پیسے ، یہ کہہ کر وصول کرتا کہ وہ دھلنے کے بعد کھوئے تھے۔ الغرض ہم دونوں گدھوں کے ہاتھوں بہت نقصان اٹھا چکے تھے اور اٹھا رہے تھے کہ قدرت نے ان سے ہمارا خوب بدلہ لیا۔ ایک دن دھوبی صاحب روتے دھوتے آگئے کہ میرا گدھا چوری ہوگیا!‘‘
ہم نے کہا ’’عجیب گدھے ہو! اسے باندھ کر کیوں نہ رکھا، اکیلے کیوں چھوڑا؟ نظر رکھنی چاہیے تھی۔‘‘
منہ بنا کر بولا ’’ آپ نے جو برا بھلا کہا ، مجھے ہی کہا۔۔۔ اس ’’چور‘‘ کے خلاف ایک لفظ نہیں کہا جس نے میرا گدھا چرایا ہے۔‘‘
ہم نے قدرے جھینپ کر کہا ’’ ہاں ہاں ۔۔۔ بتاؤ کہ چور کہاں ہے۔۔۔؟ وہ واقعی بدذات ہے، چرانے کے لیے اسے گدھا ہی ملا تھا، وہ بھی دھوبی کا۔۔۔ گھر کا نہ گھاٹ کا۔‘‘
تاسف سے سر ہلا کر بولا۔ ’’ جی پتہ چلا ہے کہ ایک پورا گروہ، جو دھوبیوں کے گدھے چرا کر پرانی سبزی منڈی کے علاقے میں جمع کرتا رہتا ہے اور پھر تاوان لے کر گدھا واپس کرتا ہے ۔‘‘ ہم نے یہ بات پہلی بار سنی تھی لہٰذا حیران ہوئے ۔
کہنے لگا۔ ’’ حیران بعد میں ہو لیجئے گا ، پہلے کچھ رقم دیجئے ۔ جتنے گھروں میں کام کرتا ہوں سب سے جمع کر رہا ہوں۔ اغوا برائے تاوان فنڈ۔ (یا اغوا برائے گدھا پن!)‘‘
’’ہائیں!! گویا گدھا تمہارا۔۔۔ اور تاوان بھریں ہم ۔۔۔اور وہ بھی اس ناہنجار گدھے کا جو ساری زندگی ہمارے کپڑوں پر منہ مارتا رہا۔ ہمیں تباہ و برباد کر دیا اور کہیں کپڑے دکھانے کے قابل نہ چھوڑا۔ اسے وہیں رہنے دو ۔۔۔ ڈاکوؤں سے حسب عادت منہ ماری کرے گا وہ اسے خود ہی چھوڑ دیں گے۔‘‘
اگلے ہفتے وہ بڑی شان سے اپنے بازیافت گدھے پر بیٹھ کر آیا۔ حفظ ماتقدم کے طور پر اس نے گدھا گاڑی پر اپنی بیوی کو بٹھا رکھا تھا۔ گدھا اس احتیاطی تدابیر سے خاصا ناخوش نظر آرہا تھا، مسلسل دو لتیاں جھاڑ کر بیوی کو گرانے کی کوشش کر رہا تھا۔
ہم نے پوچھا’’ اگر بیوی سمیت گدھے کو کوئی لے گیا تو ؟‘‘
کہنے لگا۔ ’’ ایسا بھی کون گدھا ہوگا؟‘‘
ہم نے کہا ’’ پھر بھی فرض کر لو اگر لے گیا تو پہلے کس کا تاوان بھرو گے۔‘‘
بولا ’’ گدھے کا!‘‘
ہم نے کہا ’’ہائیں !! وہ کیوں؟‘‘
کہنے لگا ’’بیوی سر پر کپڑے نہیں لاد سکتی، بغیر فیول کے گاڑی نہیں چلا سکتی اور سب سے بڑھ کر گھاس کھا کر گزارا نہیں کر سکتی۔‘‘
ہمیں اس کی خود غرضانہ سوچ پر بڑا غصہ آیا، اسے سمجھایا کہ
’’دیکھو! بیوی زیادہ قیمتی چیز ہے تمہیں چاہیے یہ تھا کہ اس کی حفاظت کے لیے چند گدھوں کو مقرر کرتے نہ کہ اس سے گدھے کی رکھوالی کرا رہے ہو۔‘‘
کہنے لگا۔ ’’ جی یہ ہمارا پرنسل معاملہ ہے!‘‘
ہم نے کہا ’’ اچھا !!! تو سن لو۔۔۔ اب اگر گدھا چوری ہوا تو یہ بھی تمہارا پرنسل معاملہ ہوگا۔ ریجنل نہیں سمجھے!! خبردار جو اغوا برائے تاون فنڈ وصولنے آئے۔‘‘
وہ منہ بنا کر چلتا بنا ۔۔۔ اور ہم کوئی ایسا دھوبی ڈھونڈنے لگے جو سبزی منڈی کے اس بدذات گروہ کی نظر میں نہ ہو۔
بوٹا(جمعدار):
یہ کوئی گل بوٹا نہیں ۔۔۔ بلکہ ہمارا جمعدار بوٹا تھا۔ سرخ آنکھیں، پیلے دانت، تیل میں بھیگی سیاہ دراز زلفیں ۔۔۔ گویا بڑا ٹیکنی کلر جمعدار تھا۔ اس کی دو عادتوں سے ہم سخت عاجز تھے۔ ایک تو جب رقم کی ضرورت ہوتی، جھٹ بیوی کو فوت کرا دیتا۔ یکے بعد دیگرے پانچ بیویوں کا کفن دفن وہ ہمارے کھاتے سے کرا چکا تھا۔ دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ جب ہوتا چائے کی فرمائش کر دیتا۔ چائے مانگتے ہوئے اس کا انداز بے تکلفانہ کچھ ایسا ہوتا جسے کہہ رہاہو کہ ’’ یہی تو ہے وہ اپنا پن!‘‘
بیٹا دوبئی گیا تو خط لکھوانے پر تل گیا گو لکھوانے کے لیے اس کے پاس کچھ نہ تھا سوائے اس کے کہ ’’بے بے پینو سلام کہتی ہے، بے بے حنیفاں سلام بولتی ہے، بے بے نذیراں سلام کہتی ہے۔ ‘‘ ہم جل کر مختصراً لکھ دیتے۔ ’’بھنگی پاڑی کی تمام ’’بے بیاں‘‘ تمہیں سلام کہتی ہیں۔
بوٹا دراصل ہماری والدہ کی نرمی کا ناجائز فائدہ اٹھاتا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ غریبوں مسکینوں کا کام کر دینا چاہیے۔۔۔ ان پر رحم کرنا چاہیے۔۔۔ ہم کہتے کہ ٹھیک ہے، مگر وہ بھی تو ہم پر رحم کریں نا! ایک دن تو اس نے ہماری جان ہی نکال لی۔ ہوا یوں کہ ہم اور ہماری بہن گھر میں اکیلے تھے کہ اچانک گھنٹی بجی۔ دیکھا تو ’’بوٹا ‘‘ کھڑا تھا۔
کہنے لگا۔ ’’ طبیعت خراب ہے ۔۔۔ ایک پیالہ چائے چاہیے!‘‘ یہ کہہ کر اپنا مخصوص پیالہ ہماری طرف بڑھا دیا جو ایک دن ہمارے ہاں سے ہی چرا کر لے گیا تھا۔ بہرحال ہم نے کمال درگزر سے کام لیا اور چائے بنا کر دے دی۔ حالانکہ دل تو چاہ رہا تھا کہ چائے میں نیلا تھوتھا ملا دیں تاکہ یہ چائے والا ’’اپنا پن‘‘ ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائیں۔ کافی دیر بعد گیٹ بند کرنے کا خیال آیا ۔۔۔ باہر نکلے تو دھک سے رہ گئے، اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا کیوں کہ بوٹا مرا پڑا تھا، ہاتھ میں چائے کا پیالہ اٹکا ہوا تھا جس میں تھوڑی سی چائے تھی۔ وہ خود سیڑھیوں پر لڑھکا ہوا تھا، گردن ڈھلک چکی تھی اور آنکھیں چڑھی ہوئی تھیں۔ ہم جو کچھ قبل اسے نیلا تھوتھا دینے کا سوچ رہے تھی۔ اس کی اکڑی ہوئی لاش دیکھ کر صدمے سے گنگ ہوگئے۔ بہن باہر نکلی تو پہلے ہمیں مشکوک نگاہوں سے دیکھا اور اس امید پر بوٹا بوٹا کہہ کر چیخنے لگی کہ شاید بے ہوش ہو گیا ہو یا سو گیا ہو مگر وہ اس چیخ و پکار سے بے نیاز ہو چکا تھا۔ بہن تاسف سے بولی۔
ہمیں کیا برا تھا مرنا، گر یہ گھر سے باہر ہوتا۔
ہم دونوں ڈر کے مارے پڑوس میں جا بیٹھے، کافی دیر اسی گو مگو میں رہے کہ انہیں اس ’’مشروبانہ قتل‘‘ کے بارے میں آگاہ کریں یا نہیں؟ کہ اچانک گھنٹی بجی۔ آنٹی نے کہا
’’ بیٹا دیکھنا تو ذرا کون ہے؟‘‘
ہم نے گیٹ کھولا تو چیخ پڑے ’’ بھوت بھوت!!‘‘ ہمارا دم سرک گیا کیونکہ دروازے پر بوٹا کھڑا تھا ۔۔۔ لال آنکھیں، پیلے دانت اور کالی زلفیں!! اور وہی مخصوص پیالہ اس کے ہاتھ میں تھا۔ چیخ سن کر آنٹی باہر نکل آئیں اور ہماری روداد سن کر خوب ہنسیں۔۔۔ پھر بولیں۔
’’ارے بے وقوفوں!! یہ بوٹا تو نشہ کرتا ہے۔۔۔ نشہ زیادہ چڑھ جائے یا ٹوٹنے لگے تو یہ ایسے ہی انٹا غافل ہوجاتا ہے۔ یہ سن کر ہماری جان میں جان آئی اور ہم نے اپنی جھینپ مٹانے کے لیے اسے شرمندہ کرنا چاہا۔
’’ اچھا!!! تو بوٹے تم نشہ بھی کرتے ہو!!‘‘
دانت نکال کر بولا ’’ جی آپ کو اب پتہ چلا؟‘‘
ہم نے سٹپٹا کر بات بدلی ’’دیکھو اس طرح کسی کے گھر جا کر مرنا۔۔۔ سخت نامعقول حرکت ہے اور اگر مر ہی گئے تھے تو اب ادھر ادھر اٹھ کر ٹہلنا کیوں شروع کر دیا؟‘‘
ہماری بات کا جواب دیئے بغیر وہ منہ ہی منہ میں کچھ بدبداتا اور لڑکھڑاتا ہوا اگلے گیٹ کی جانب کھسک گیا۔۔۔ اور ہم نے کسی ایسے جمعدار کی تلاش شروع کر دی جو نشہ کم اور کام زیادہ کرتا ہو اور جس کی تمام بیویاں پہلے سے ’’انتقال شدہ‘‘ ہوں۔
ماسی بسرو:
ماسیوں کے بارے میں کسی دانا کا قول ہے کہ اسی فی صد ماسیاں چور ہوتی ہیں اور باقی بیس فیصد یہی کام ہوشیاری سے کرتی ہیں۔ جبکہ ہمارا خیال ہے کہ بیس فیصد ماسیاں چور اور باقی ’’کام چور‘‘ ہوتی ہیں۔ آپ نے بھی محسوس کیا ہوگا کہ آج کل ماسیوں کا مجموعی رویہ خاصا گستاخانہ اور متکبرانہ ہو گیا ہے اور اس کی وجہ ہے ہمارا ’’نکما پن‘‘ جس کی بدولت وہ سر چڑھ کر ماسی سے ماسی مصیبتے بن گئی ہیں۔
ہماری ماسی کا نام ہے ’’ماسی بسرو۔‘‘ اس کا ایک شیر خوار بچہ بھی ہے جو اس کے بجائے اب ہمارے گھر کی رونق ہے۔ پہلی بار جب اسے کسی نے ہمارے ہاں بھیجا تو اس سے پہلے کہ ہم اس کا انٹرویو لیتے، وہ ہمارا انٹرویو لینے لگی۔ ساتھ ہی ’’ڈیمانڈ لیٹر‘‘ بھی پیش کر دیا۔
’’ کتنے جنے ہیں گھر میں؟‘‘
’’کیوں تمہیں اس سے کیا غرض؟‘‘
’’ دیکھیں جی ! میں صرف اس گھر میں کام کرتی ہوں، جہاں زیادہ سے زیادہ پانچ بندے ہوں۔‘‘
’’ٹھیک ہے! ہم تمہاری خاطر دو بندوں کو گھر سے نکال دیتے ہیں۔۔۔ آگے بولو! ‘‘
’’اور ہر کام کے کم از کم پانچ سو لیتی ہوں!‘‘
’’ اور زیادہ سے زیادہ؟‘‘ ہم نے طنزیہ استفسار کیا۔
’’ وہ تو جی آپ کی مرضی۔۔۔ اس کے علاوہ عید بقرہ عید پر ان اسٹیچ کپڑے بھی لیتی ہوں۔‘‘
’’اور کچھ؟‘‘
’’ اگر کسی وجہ سے چھوٹے بچے کو ساتھ لانا پڑا (جو وہ ہمیشہ لاتی رہی) تو برتن کپڑے دھونے کے دوران آپ کو اسے بہلانا پڑے گا۔‘‘
’’ہائیں!!‘‘ ہم دھک سے رہ گئے اور ڈرے کہ کہیں اگلی شرط یہ نہ ہو کہ چھ دن آپ کے گھر کام کرنے کے بدلے ایک دن آپ کو ہمارے گھر کام کرنا ہوگا۔
کچھ ہی دنوں میں ہمیں اندازہ ہو گیا کہ چھٹیوں کے بغیر، بسرو کا گزر بسر مشکل ہے۔ چھٹیوں کی اتنی شوقین تھی کہ کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی بلکہ بے موقع بھی کر لیتی اور ان بے موقع چھٹیوں کے عنوانات ہوتے، ساحل سمندر پر ایک شام، موسم برسات، ملک گیر ہڑتال وغیرہ ایک دن ہم نے بہن سے کہا ذرا پتہ تو کرو کہ ہماری ماسی لوکل گورنمنٹ میں آتی ہے یا فیڈرل گورنمنٹ میں۔۔۔؟ کیوں کہ کوئی بھی حکومت چھٹی کا اعلان کرے، مجال ہے جو حکم عدولی کرے۔ منت مانگنے پر بھی یقین رکھتی تھی۔ ہر چند کہ ہم اس کے قائل نہ تھے۔ مگر چپکے سے یہ منت ضرور مانگ لیتے کہ اس کی کوئی منت پوری نہ ہو۔ کیوں کہ جہاں منت پوری ہوتی، ہم منتیں ہی کرتے رہ جاتے اور وہ کسی دور دراز کے مزار پر چادر چڑھانے چل پڑتی، یوں ہمارے جھوٹے برتن دھرے کے دھرے رہ جاتے۔
ہماری پڑوسن نے ہمیں مشورہ دیا کہ ہم اپنی ماسی پر نظر رکھیں۔ کیوں کہ ان کی ماسی جتنی صفائی سے برتن چمکاتی تھی اس سے کہیں زیادہ صفائی سے چرا لیتی تھی۔ کچرے کی بالٹی میں چھپا کر ایک ایک کرکے چمچے لے گئی، جب کیٹلری سیٹ مکمل ہو گیا تو نوکری چھوڑ کر چلتی بنی۔ چنانچہ ہم نے بھی غیر محسوس طریقے سے اس کی خفیہ نگرانی شروع کر دی۔ ایک دن ہم نے دیکھا کہ ’’ بسرو ‘‘ کچن میں ہے اور ہمارے گھر کی سب سے چھوٹی، چمکدار پتیلی روشن دان میں پھنسی ہوئی ہے۔
’’ارے!! یہ پتیلی اوپر کیسے پہنچ گئی۔۔۔؟‘‘
ماسی قدرے گڑبڑائی مگر جلد ہی خود کو سنبھال لیا۔
’’بس جی!! اچانک ہی اڑی اور اوپر جا کر اٹک گئی۔۔۔!‘‘
’’ہائیں!!! یہ پتیلیاں کب سے اڑنے لگیں۔۔۔ جھوٹ بولتی ہو!‘‘
’’ہاں جی!!! میرا مطلب ہے نہیں جی ۔۔۔ آپ قسم لے لیں۔۔۔ جھوٹ بولوں تو آپ کا مرا منہ دیکھوں!‘‘
’’ ہمارا نہیں۔۔۔ اپنا۔۔۔‘‘ ہم گھبرا کر بولے۔
پھر ہم نے اس کی اڑی ہوئی رنگت پر غور کیا تو سوچا۔۔۔ اس نے ضرور کوئی ’’انہونی‘‘ دیکھی ہے ۔ جب ہی اتنی ہراساں ہے۔ ہمیں بہت شوق تھا کہ ہم اخبار کے دفتر فون کرکے اپنے علاقے میں ہونے والے کسی انوکھے واقعے کی اطلاع فراہم کریں، چنانچہ مقامی اخبار کے دفتر کے نیوز سیکشن میں فون ملایا اور نہایت ایکسائٹمنٹ اور پھولی ہوئی سانسوں کے ساتھ اطلاع دی ۔
’’ جناب ! آپ فوراً اپنا نمائندہ خصوصی ہمارے ہاں روانہ فرمائیے۔ ہمارے کچن میں کفگیریں اور دیگچیاں خودبخود پرواز کر رہی ہیں۔ (ہم نے ہر خبر سنانے والے کی طرح قدرے مبالغے سے کام لیا)
چند ثانیے خاموشی رہی۔۔۔ پھر ایک گھمبیر آواز ابھری۔
’’محترمہ! کیا آپ کے گھر میں ماسی ہے؟‘‘
’’ جی ۔۔۔ جی ہاں!! ہم اس بے تکی تفتیش پر بدمزہ ہو گئے۔
فرمانے لگے ’’ تو جان لیجئے یہ دیگچیوں کی نہیں، ماسی کی قوت پرواز ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ اس کا نشانہ کچا ہے۔‘‘
ہم نے اپنی کم سمجھی پر لعنت بھیجی اور غصے میں پیر پٹختے ہوئے ماسی کے پاس پہنچے ، اس نے ہمارے تیور بھانپ لیے اور اس سے قبل کہ ہم اس سے باز پرس کرتے یا نکالنے کی دھمکی دیتے، کہنے لگی۔
’’بس جی!!! میں باز آئی ۔۔۔ آپ کے گھر کام سے۔۔۔ اور ماسی ڈھونڈ لو۔۔۔ ایسے کنجوس ماروں کے ہاں میرا کیا کام۔۔۔ جہاں دو چار چمچے دیگچیاں بھی ادھر سے ادھر کرنے کی اجازت نہیں۔۔۔ اور جہاں ذرا ذرا سی بات پر فوراً پولیس تھانے فون کھڑکا دیا جائے۔‘‘
وہ سمجھی تھی کہ ہم نے فون کرکے پولیس کو طلب کیا ہے، حالانکہ ہم بے وقوف ضرور تھے مگر اتنے نہیں کہ پولیس کو فون کرکے پتیلی تو پتیلی دو وقت کی روٹی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے! بہرحال اس حادثاتی یا دیگچاتی واقعہ کے بعد ماسی ہمیں داغِ مفارقت دے گئی۔
قارئین ! آپ کہیں گے کہ یہ ہم نے دوسروں کے خاکے لکھے ہیں یا اپنے خاکے اڑائے ہیں۔ اگر یہ سب اتنی ہی عظیم شخصیات تھیں تو آخر میں سب گھر سے بھاگ کیوں نکلیں۔۔۔؟ تو بات یہ ہے کہ یہ اتنی عظیم تھیں کہ ہماری معمولی گھر میں گزارا، قدرت کو منظور نہ تھا۔ ویسے بھی اگر آپ اہم شخصیات کی بائیوگرافی کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ زیادہ تر عظیم شخصیات گھر یا اسکول سے بھاگ کر ہی عظیم بنیں۔
جی ہاں! !! چاہیں تو آپ بھی ایک ٹرائی کر لیں!!!
*۔۔۔*۔۔۔*