عجب نہیں کہ بدل دے اسے نگاہ تری
عجب نہیں کہ بدل دے اسے نگاہ تری
بلا رہی ہے تجھے ممکنات کی دنیا
…………….
اس نظم میں اقبال صو فی سے مخا طب ہو کر کہہ رہے ہیں کہ تو کیوں کشف و کرامات کے انتظا ر میں بیٹھا ہے ۔معجزات اور کر امات کی دنیا سے نکل کر ممکنا ت کی دنیا میں آجا۔یہ دنیا حا دثا ت کی دنیا ہے ،تجر بات کی دنیا ہے ۔کچھ کر دکھا نے ،کھو ج لگا نے اور چیزو ں کو ڈھو نڈ نکا لنے کی دنیا ہے۔اس دنیا میں خدا کے منکر ین ما دی چیزو ں کا سہا را لیکر سا ئنس میں تر قی کر رہے ہیں اور دنیا کے راز آشکا ر کر رہے ہیں۔اے صو فی !! تُو تو خدا کا پسندیدہ بندہ ہے۔اس کے قر یب ہے ۔اس کو پہچا نتا ہے ۔تو اگر دنیا پر غو ر و فکر شر وع کر دے اور اپنی نظر اس ممکنا ت کی دنیا کی طر ف کر لے تو یہ دنیا رو حانیت کے نو ر سے منو ر ہو سکتی ہے اور مسلمان دنیا میں تر قی و عرو ج کر نے کے سا تھ سا تھ خدا کی حقا نیت کو بھی پو ری دنیامیں منوا سکتے ہیں ۔