skip to Main Content

موت کو سمجھے ہیں غافل اختتام زندگی

موت کو سمجھے ہیں غافل اختتام زندگی
ہے یہ شام زندگی، صبح دوام زندگی!

…………

پیارے بچو! جنگل میں ایک شخص کے پیچھے شیر لگ جاتا ہے۔ وہ جان بچانے کے لیے ایک کنویں میں چھلانگ لگا دیتا ہے۔ اسے کنویں میں ایک رسی لٹکی ہوئی نظر آتی ہے اور وہ رسی سے لٹک جاتا ہے۔ اچانک اس کی نظر نیچے پڑتی ہے۔ اس نے دیکھا کہ کنویں میں ایک اژدھا بیٹھا ہوا ہے۔ اتنی دیر میں دو چھوٹے کالے اور سفید چوہے کنویں میں موجود رسی کو کترنے لگتے ہیں۔ اسی اثناء میں اسے کنویں میں شہد کا چھتا بھی نظر آتا ہے اور وہ شہدکے مزے لینے لگ جاتا ہے یہ سوچے بناء کہ اوپر شیر منڈلا رہا ہے۔ نیچے اژدھا بیٹھا ہے اور دو چوہے رسی کو کاٹنے میں مصروف ہیں اور اس نے آخر کار نیچے ہی گرنا ہے۔
ساتھیو! اس واقعے میں ’شیر‘ موت ہے جو ہر وقت انسان کے پیچھے منڈلاتی رہتی ہے۔ ’اژدھا‘ قبر ہے جس میں ہر ذی روح نے جانا ہے اور ’دو چوہے‘ دن اور رات ہیں، جو انسان کی زندگی ’رسی‘ کو آہستہ آہستہ کتر رہے ہیں اور ’شہد‘ دنیا ہے، جس کی تھوڑی سی مٹھاس نے تمہیں دنیا اور آخرت کا رونما ہونا بھلادیا ہے۔
علامہ محمد اقبال کے اس شعر کا واضح پیغام ہے کہ دنیا کی زندگی سب کچھ نہیں بلکہ اصل اور ہمیشہ رہنے والی زندگی آخرت کی ہے ۔کیا خیال ہے! ہمیں محنت کس کے لیے کرنی چاہیے۔ دنیا یا آخرت کے لیے؟ فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے!

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top