skip to Main Content

امانت سے امانت تک

نذیرانبالوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

امانت علی اپنے دوست رحیم بخش کی دی ہوئی سوروپے کی امانت پچھلے تین سالوں سے لے پھر رہا تھا۔قیام پاکستان سے کچھ عرصہ قبل ہی رحیم بخش نے اس کو سو روپے بطور امانت رکھنے کے لئے دیا تھا۔امانت نے اس وقت اپنے دوست سے کہا ؛

حالات بہت خراب ہیں ایسے میں تمہارا کسی دوسرے شہر جانا مناسب نہیں،،۔

ملازمت کی مجبوری ہے رحیم بخش نے کہا ۔

جانے سے انکار کردو ،،۔

ایسا نہیں ہوسکتا ،گھر میں کوئی نہیں ، اس لئے یہ رقم تمہارے پاس امانت رکھوائے جا رہا ہوں،،۔

کب تک واپس آؤ گے ؟

دو ماہ سے زائد کا عرصہ لگ سکتا ہے،،۔

،،ٹھیک ہے تمہارے سو روپیوں کی میں پوری حفاظت کروں گا،،۔

اچھا اللہ حافظ،،۔

یہ ان دونوں دوستوں کی آخری ملاقات تھی۔دو ماہ کا عرصہ گذر گیا مگر رحیم بخش نہ آیا ۔قیام پاکستان کی تحریک روز بروز زور پکڑتی جا رہی تھی۔

مسلمانوں کی جدو جہد رنگ لا رہی تھی اور 3جون 1947ء کو تقسیم ہند کا اعلان کر دیا گیا یہ اعلان ہوتے ہی بر صغیر کے مسلمانو ں کو یہ محسوس ہونے لگا کہ انہیں ان کے خوابوں کی تعبیر ملنے والی ہے۔رحیم بخش کو انبالہ سے گئے ہوئے چھ ماہ ہونے والے تھے اس عرصے میں اس نے اپنی خیریت کی اطلاع بھی نہیں دی تھی ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ امانت علی کی تشویش میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا ۔امانت علی سو روپے کی حفاظت اپنی جان سے بھی زیادہ کر رہا تھا ۔وہ کھیتوں سے آتے ہی کمرے میں چلاجاتا اور صندوق پر پڑے زنگ آلود تالے کو کھول کھول کر سو روپے دیکھتا اور پھر ان کو اسی طرح کپڑے میں لپیٹ کر رکھ دیتا بیگم اسے ایسا کرتے روزانہ دیکھ کر کہہ اٹھی:

اس مانت نے تو تمہیں عذاب میں ڈال دیا ہے۔ ہر وقت بے چین رہتے ہو ،جب تک صندوق کھول کر روپے نہ دیکھو لو تمہیں سکو ن نہیں ملتا۔،،

امانت کی حفاظت کرنا آسان تو نہیں ہوتا،بس اب تو یہی دعا ہے کہ رحیم بخش آئے اور اپنی امانت لے جائے ۔اب اس امانت کو سنبھالنے کی سکت مجھ میں نہیں ،،۔ 

فکر نہ کرو رحیم بخش جلد لوٹ آئے گا،،۔

اگست کے مہینے میں مسلمان پاکستان کی طرف کوچ کرنے لگے تو سکوں اور ہندؤ ں نے ظلم کا بازار گرم کردیا ۔ظالموں نے گاؤں کے گاؤں جلاڈالے ۔فسادات کی یہ آگ بڑھتے برھتے امانت علی کے گاؤں تک بھی آپہنچی تھی ۔اب گاؤں چھورنے کے علاوہ ان کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا گاؤں کے مکینوں کو اپنی جان کے لالے پڑے ہوئے تھے ۔گاؤں میں رہنے والے سکھ بھی ان کے سامنے دشمن بنے کھڑے تھے۔ امانت علی اپنی بیوی اور معصوم بچے کے ہمراہ رات کے اندھیرے گاؤں کی حدود سے باہر آ گیا تھا ۔اس کی جیب میں بیگم کے چاندی کے زیور ، اپنے چند روپے اور رحیم بخش کی سو روپے کی امانت تھی ۔ وہ ساری رات کھیتوں میں چلتے رہے ۔صبح ہوئی تو وہ پکی سڑک تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے تھے ۔ امانت اور اس کی بیگم بھنے چنے کھا کر نہر سے پانی پیا اور دوبارہ پیدل چل پڑے۔آخر ایک بیل گاڑی والے نے انہیں بٹھا لیا ۔ تین دن بعد وہ بہت سی مصیبتیں جھیلتے ہوئے امر تسر ریلوے اسٹیشن پر پہنچے ۔سکھوں اور ہندؤں کی تلواریں ہر لمحہ انکے سروں پر لٹک رہی تھیں۔اسٹیشن پر بے بسی کی تصویر بنے ہوئے بے شمار لوگ تھے ۔خوراک کی شدید قلت تھی ۔ننھا آصف بھوک سے بِلک رہا تھا۔ٹرین جب پلیٹ فارم پر آکر رکی تولوگوں کو جانوروں کی طرح اس میں ٹھونس دیا گیا ۔ٹرین کے ساتھ برٹش آرمی کے کچھ فوجی حفاظت پر مامور تھے ۔ان محافظوں کے باوجود ٹرین پر حملے ہوتے رہے ٹرین کو زبر دستی روک لیا جاتا اور اس میں سوار مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ لیا جا تا۔ٹرین کے کئی ڈبے تو لاہور اسٹیشن صرف لاشیں لا کر پہنچے۔امانت اپنی بیوی اور بچے کے ساتھ لمحہ بہ لمحہ زندگی اورموت سے آنکھ مچولی کھیلتے ہوئے بحفاظت لاہور پہنچنے میں کامیاب ہوگیا ۔اس پاک سر زمین پر قدم رکھتے ہی اس دھرتی کا پیار بھرا بوسہ لیا ۔ان کا پہلا پڑاؤ والٹن کیمپ میں تھا۔جہاں ہجرت کر کے آنے والے مسلمان قیام پزیر تھے ۔کیمپ میں علاج معالج کے ساتھ ساتھ خوراک کا بھی مناسب انتظام تھا۔ہجرت کرنے والے اپنے پیاروں کی تلاش میں مصروف تھے۔امانت علی کو بھی رحیم بخش کی تلاش تھی اس نے رضا کار کو رحیم بخش کا نام لکھوادیا وہ ایک ماہ تک اس کیمپ میں رہا اس عرصے میں کئی بار لاؤڈ اسپیکر پر رحیم بخش کا نام پکارا گیا مگر ان میں کہیں بھی وہ رحیم بخش نہیں تھا جسے امانت علی تلاش کر رہا تھا ۔امانت علی کو نسبت روڈپر ایک چھوٹا سا کوارٹر الاٹ کر دیا گیا یہ پاکستان میں اس کا پہلا گھر تھا ۔یہ گھر ایک چھوٹے سے کمرے اور برآمدے پر مشتمل تھا ۔انبالہ میں وہ جو زمین چھوڑ کر آ یا تھا اسے حاصل کر نے کے لئے بھی اس نے کلیم داخل کر وادیا تھا ۔زمین الاٹ ہونے میں کچھ عرصہ لگا تو امانت علی نے ایک دفتر میں چوکیدار کی ملازمت کرلی چالیس روپے ماہوار تنخواہ میں اس کے کنبے کا آسانی سے گزر اوقات ہوجاتا تھا ۔وہ کچھ رقم ہر ماہ بچا کر کچھ گریلو سامان بھی بنا لیتے تھے یوں ان کے ہاں آہستہ آہستہ گھریلوں استعمال کی اشیاء میں اضافہ ہوتا چلا گیا ۔امانت علی نے تین سال یہ ملازمت کی پھر کاروبار ختم ہونے کی وجہ سے کمپنی نے دفتر بھی بند کر دیا اور یوں اس کی ملازمت بھی ختم ہو گئی۔اس کو زمین ابھی تک الاٹ نہیں ہوئی تھی ۔اس نے دوبارہ ملازمت حاصل کرنے کے لئے بہت ہاتھ پاؤں مارے

مگر کچھ کام نہ بن سکا ۔جو جمع پونجی تھی وہ بیروزگاری کے دنوں میں خرچ ہوگئی۔مایوسی کے عالم میں اسے ایک دن یہ خیال آیا کہ جو سو روپے میرے پاس امانت کے طور پر ہیں کیوں نہ اسے استعمال میں لایا جائے۔اس نے جب اپنی بیگم سے یہ بات کہی تو اس نے کہا :

میرا تو خیال ہے کہ ان روپوں کو ااستعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ،،۔

امانت نے اپنی بیوی سے کہا :

اگر رحیم بخش آگیا تو اسے ہم اتنی رقم کہاں سے واپس کریں گے ؟،، 

بیوی بولی ،،اب رحیم بخش کہاں سے آئے گا ،اگر وہ آبھی گیا تو اس کو ساری بات بتا دیں گے کہ ہم اس کو بہت تلاش کیا تھا ۔اب جب ہمارے پاس ورپے ہونگے تو ہم اس کو اپنی رقم لوٹا دیں گے ،،بیگم کی بات امانت علی کی دل کو لگی ۔اس نے سو روپے استعمال میں لانے کا فیصلہ کر لیا ۔

ایک ہفتے بعد ہی وہ نان چنے لگا ئے لکشمی چوک پر کھڑا تھا دنو ں ہی میں اس کا کام چل نکلا ۔ اس کے چنے اتنے مزے دار ہوتے تھے کہ جلد ہی لوگوں کے دل میں اس کی ساکھ پیدا ہو گئی وہ صبح ریڑھی لے کر فٹ پاتھ پر پہنچتا تو گاہک پہلے ہی اس کے منتظر ہوتے تھے دس گیا رہ بجے اس کے چنے ختم ہو جاتے گاہکوں کے اضافے کے ساتھ دیگچے کا سائز بھی بڑھتا رہا اب اس نے ایک چھوٹا سا بورڈ ،، امانت چنے والا،، بھی لگا لیا اس کی مقبولیت کو دیکھ کر اور بہت سے لوگ اس کے مقابلے میں ریڑھیاں لگا کر چنے بیچنے لگے مگر جو لذت امانت کے چنوں میں تھی وہ کسی اور کے چنوں میں نہیں تھی ۔

چار سال بعد امانت علی کو سرگودھا میں جو زمین الاٹ ہوئی تھی وہ اس قدر سیم زدہ تھی کہ اس کو قابل کاشت بنانا جان جوکھوں کا کا تھا ۔امانت علی نے زمین کو قابل کاشت بنانے کے بجائے اپنے کا روبار پر ہی توجہ رکھی ۔جب اس کے پاس کچھ رقم جمع ہوئی تو اس نے لکشمی چوک پر ایک کھوکھا خرید لیا ۔وہ پہلے تو اکیلا ہی ریڑھی پر کام کرتا تھا اب اس نے ایک ملازم بھی رکھ لیا تھا ۔کھوکھا اتنا چھوٹا تھا کہ اس میں ایک آدمی مشکل سے کھڑا ہو سکتا تھا ۔ کاروبار اب خاصی ترقی پر تھا ۔ایک شام وہ نئی سائیکل لیکر گھر پہنچا تو بیگم اور آصف خوشی سے اچھل پڑے ۔

،، ابا جان کیا یہ سائیکل ہماری ہے ،،؟ آصف نے پوچھا 

،،ہاں یہ سائیکل ہماری ہے ابھی خرید کر لایا ہوں ،،۔

میں اس پر سیر کرنے کے لئے لارنس گارڈن جاؤں گا آصف نے سائیکل کی گھنٹی بجاتے ہوئے کہا ،،۔

تم اکیلے اتنی دور کیسے جاؤ گے بیٹا جی میں تمہیں لے کر جاؤں گا،،۔

ابا جان میں بھی سائیکل چلانا سیکھوں گا ،،۔

ہاں ضرور سیکھ لینا ،،۔

سائیکل کی خریداری پر سارا محلہ انہیں مبارک باد دینے آیا ۔سبھی انہیں رشک بھری نظروں سے دیکھتے تھے۔ایک بچے نے سائیکل کو ہاتھ لگانا چاہا تو آصف بولا…………….

جا جا ہماری سائیکل کو میلا کروگے کیا ؟،،

،،بیٹا ایسا نہیں کرتے امی نے اسے سمجھایا۔

تمام محلے کا مشترکہ نلکا تھا امانت نے سب سے پہلے اپنا الگ نلکا لگوالیا ۔ جب محلے کا مشترکہ نلکا خراب ہو جا تا تو سبھی ان کے ہاں سے پانی بھر نے آتے تھے۔امانت علی نے جب سیلوں پر چلنے والا ریڈیو لیا تو محلے والے مزید حیران ہوئے خبر وں کے وقت محلے بھر کے بڑے بوڑھے برآمدے میں جمع ہوتے اور خبریں سنتے اور بعد میں بڑی دیر تک ان خبروں پر تبصرہ کرتے ہوئے اپنے اپنے گھروں کی راہ لیتے۔

جب گرمی کا موسم آیا تو امانت علی نے چھت کا پنکھا خرید لیا۔دوپہر کی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا میں محلے کے کچھ بچے بھی آکر لیٹ جاتے تھے یوں وقت کے ساتھ گھر کی حالت بدلتی چلی گئی ۔

ایک دوپہر امانت علی کھوکھا بند کرنے لگا تو اس کے ہمسائے اقبال نے کہا : امانت بھائی یہ ساتھ والی دکان بک رہی ہے میرا خیال ہے آپ خرید لیں،،۔

قیمت کیا ہوگی ؟امانت نے پوچھا ۔

آپ دکان خریدنے کا ارادہ تو کریں پھر قیمت کی بھی بات کر لیں گے ،،۔ارادہ تو ہے کہ یہ کھوکھا اب دکان بن جائے ،،۔

پھر آج شام ہی پہلوان سے بات کرتا ہوں ،،۔

چند ہی دنوں میں چار سو روپے میں دکان امانت علی کے نام ہو چکی تھی ۔کھوکھا جب دکان میں تبدیل ہوا تو جو گاہک فٹ پاتھ پر کھڑے ہو کر نان چنے کھا تے تھے اب وہ سکون و اطمینان کے ساتھ دکا کے اندر بیٹھ کر کھا نا کھانے لگے ۔اللہ تعالیٰ امانت علی کے کاروبار میں برکت ڈالتا چلا گیا ۔چند سالوں میں اس نے ساتھ والی تین مزید دکانیں بھی خرید لیں۔اب ،،امانت چنے والا،،کا بورڈتو لگا ہوا تھا مگر چنے کے ساتھ دیگر مزے دار کھانے بھی دستیاب تھے ۔ملازموں کی تعداد بڑھتے بڑھتے دس ہو گئی تھی ۔آصف بھی مڈل کلاس پاس کرنے کے بعد اپنے والد کا ہاتھ بٹانے لگا تھا ۔بیس سالوں میں امانت علی نے اتنی ترقی کی کہ وہ ایک کوارٹر سے ایک اچھے مکان میں منتقل ہو گیا سائیکل کی جگہ موٹر سائیکل نے لے لی ۔ گویا ہر لمحہ امانت علی کے لئے خوشیاں لے کر آرہا تھا۔ان تمام کامیابیوں کے بعد امانت علی رحیم بخش کو نہیں بھولا تھا ۔اس نے اپنے دوست کو تلاش کرنے کے لئے اخبارات میں اشتہارچھپوائے اور ریڈیو پر اعلان بھی کروائے مگر وہ اس کو نہیں مل سکا ۔اب تو امانت علی کو یقین ہوگیا تھا کہ رحیم بخش اس دنیا میں نہیں ہے ۔

ایک صبح امانت علی کاؤنٹر میں بیٹھا حساب کر رہا تھا کہ ایک نابینا فقیر نے آواز لگائی کہ کوئی ہے جو فقیر کو کھا نا کھلائے ،،۔

سعید ! اسے اندر لے آؤ ،علی نے ملازم سے کہا

سعید فقیر کا ہاتھ پکڑکر ہوٹل میں لایا تو اسے دیکھ کر امانت علی کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا ۔بے اختیار اس کے منہ سے نکلا ،رحیم بخش ………..تم رحیم بخش ہو نا ں،،۔

ہاں میں رحیم بخش ہوں ۔تم کون ہو؟

میں امانت علی ہوں ،،۔

امانت علی رحیم بخش نے دہرایا۔ہاں میں امانت علی ہوں جس کے پاس تم نے سوروپے رکھوائے تھے ،،۔

ہاں مجھے یاد ہے ،،۔یہ تم نے کیا حالت بنا رکھی ہے اب تک کہاں تھے ؟،،

تمہارے سب سوالوں کے جواب دوں گا پہلے مجھے کھانا تو کھلادو، بھوک بہت لگ رہی ہے،،۔ بھوک کی وجہ سے رحیم بخش سے بولا بھی نہیں جا رہا تھا۔

رحیم بخش یوں کھانا کھا رہا تھا جیسے مد توں سے بھوکا ہو ۔

امانت علی کو اس کی حالت دیکھ کر بہت افسوس ہورہا تھا ۔جب رحیم بخش سیر ہو کر کھانا کھا چکا تو امانت علی نے بات کا آغاز کیا ۔

رحیم بخش میں آج خوش بھی ہوں اور اداس بھی ،،۔

وہ کیوں ؟،،

تمہیں اس حالت میں دیکھ کر اداس ہوں اور خوش اس لئے ہوں کہ امانت کا جو بوجھ میرے کندھوں پر تھا وہ اتر جا ئے گا ،،۔

یہ سن کر رحیم بخش نے ہاتھ آگے بڑھاتے ہوئے کہا لاؤ میری سو روپے کی امانت ،،۔

اب وہ سو روپے نہیں رہا بلکہ ہزاروں میں بدل چکا ہے ،،۔

میں کچھ سمجھ نہیں سکا ،۔ رحیم بخش بولا 

اس کے جواب میں امانت علی نے تمام بات اس کے گوش گزار کردی۔ساری بات سے آگاہ ہوکر رحیم بخش بولا :

تم امانت کی حفاظت کی حفاظت کر کے اس رتبے پر پہنچے اور میں امانت ہڑپ کر کے اس حالت میں پہنچا ہوں،،۔

کیا مطلب ؟،،امانت علی بولا 

میں گاؤں میں سو روپیہ تمہارے حوالے کر نے کے بعد کام کے سلسلے میں سکھر چلا گیا ،وہاں کمپنی کے ایک ملازم سجاد نے ایک ہزار روپے بطور امانت میرے پاس رکھوائے اتنی رقم دیکھ کر میری نیت بدل گئی اور میں سکھر سے لاہور آگیا ۔میں نے سوچا ان روپیوں سے اپنا کاروبا ر کروں گا ۔مگر کچھ روپے تو خرچ ہوگئے اور کچھ جیب کترے کے ہاتھ لگ گئے اس عرصے میں تقسیم کی وجہ سے فسادات شروع ہوگئے ۔میں اس ڈر سے روپوش رہا کہ اگر پکڑا گیا تو ہزار روپے کس طرح دونگا ۔

ایک رات ایک دکان کے تھڑے پر سویا ہوا تھا کہ وہاں اچانک میرے کپڑوں میں آگ لگ گئی ۔میرا جسم بھی جلا اور آنکھیں بھی ہمیشہ کے لئے بے نور ہوگئیں ۔میرے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہیئے تھا کیوں کہ میں نے اللہ کا حکم نہیں مانا ،،۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ خدا تم کو حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں ان کے حوالے کر دیا کرواور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کرو۔خدا تمہیں خوب نصیحت کرتا ہے ۔بے شک خدا سنتا اور دیکھتا ہے ۔مجھے جوکچھ ملا ہے وہ میری نیت کا پھل ہے اور تمہیں اللہ تعالیٰ نے جو کچھ عطا کیا ہے وہ تمہاری نیت کا ثمر ہے اس ثمر کے حق دار تم ہی ہو میرے تو صرف سو روپے ہیں مجھے مل گئے تو تمہارا فرض اداہو گیا ،،۔

رحیم بخش کی باتوں سے امانت علی کی آنکھوں سے آنسو آگئے اس نے روتے ہوئے کہا۔تمہیں اس حالت میں کہیں نہیں جانے دوں گا ۔تم مجھ سے چاہے کچھ بھی نہ لو مگر میرے پاس تو رہوہم دونوں مل کر ساجد کو تلاش کریں اوراس کی امانت اس کے سپرد کردیں گے ۔

کیا ایسا ہو سکتا ہے؟،،

ایسا کیوں نہیں ہو سکتا ۔،، امانت علی نے کہا۔

یہ سن کر رحیم بخش کا مرجھایا ہوا چہرہ کھل اٹھا اور اس نے امانت علی کے پکڑے ہوئے ہاتھ کو محبت سے چوم لیا ۔اس لمحے اسے یقین سا ہو چلا تھا کہ وہ ہزار روپے کی امانت سجاد تک پہنچانے میں ضرور کامیاب ہو جائے گا ۔

امانت علی اپنے دوست رحیم بخش کی دی ہوئی سوروپے کی امانت پچھلے تین سالوں سے لے پھر رہا تھا۔قیام پاکستان سے کچھ عرصہ قبل ہی رحیم بخش نے اس کو سو روپے بطور امانت رکھنے کے لئے دیا تھا۔امانت نے اس وقت اپنے دوست سے کہا ؛ حالات بہت خراب ہیں ایسے میں تمہارا کسی دوسرے شہر جانا مناسب نہیں،،۔ ملازمت کی مجبوری ہے رحیم بخش نے کہا ۔ جانے سے انکار کردو ،،۔ ایسا نہیں ہوسکتا ،گھر میں کوئی نہیں ، اس لئے یہ رقم تمہارے پاس امانت رکھوائے جا رہا ہوں،،۔ کب تک واپس آؤ گے ؟ دو ماہ سے زائد کا عرصہ لگ سکتا ہے،،۔ ،،ٹھیک ہے تمہارے سو روپیوں کی میں پوری حفاظت کروں گا،،۔ اچھا اللہ حافظ،،۔ یہ ان دونوں دوستوں کی آخری ملاقات تھی۔دو ماہ کا عرصہ گذر گیا مگر رحیم بخش نہ آیا ۔قیام پاکستان کی تحریک روز بروز زور پکڑتی جا رہی تھی۔ مسلمانوں کی جدو جہد رنگ لا رہی تھی اور 3جون 1947ء کو تقسیم ہند کا اعلان کر دیا گیا یہ اعلان ہوتے ہی بر صغیر کے مسلمانو ں کو یہ محسوس ہونے لگا کہ انہیں ان کے خوابوں کی تعبیر ملنے والی ہے۔رحیم بخش کو انبالہ سے گئے ہوئے چھ ماہ ہونے والے تھے اس عرصے میں اس نے اپنی خیریت کی اطلاع بھی نہیں دی تھی ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ امانت علی کی تشویش میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا ۔امانت علی سو روپے کی حفاظت اپنی جان سے بھی زیادہ کر رہا تھا ۔وہ کھیتوں سے آتے ہی کمرے میں چلاجاتا اور صندوق پر پڑے زنگ آلود تالے کو کھول کھول کر سو روپے دیکھتا اور پھر ان کو اسی طرح کپڑے میں لپیٹ کر رکھ دیتا بیگم اسے ایسا کرتے روزانہ دیکھ کر کہہ اٹھی: اس مانت نے تو تمہیں عذاب میں ڈال دیا ہے۔ ہر وقت بے چین رہتے ہو ،جب تک صندوق کھول کر روپے نہ دیکھو لو تمہیں سکو ن نہیں ملتا۔،، امانت کی حفاظت کرنا آسان تو نہیں ہوتا،بس اب تو یہی دعا ہے کہ رحیم بخش آئے اور اپنی امانت لے جائے ۔اب اس امانت کو سنبھالنے کی سکت مجھ میں نہیں ،،۔  فکر نہ کرو رحیم بخش جلد لوٹ آئے گا،،۔ اگست کے مہینے میں مسلمان پاکستان کی طرف کوچ کرنے لگے تو سکوں اور ہندؤ ں نے ظلم کا بازار گرم کردیا ۔ظالموں نے گاؤں کے گاؤں جلاڈالے ۔فسادات کی یہ آگ بڑھتے برھتے امانت علی کے گاؤں تک بھی آپہنچی تھی ۔اب گاؤں چھورنے کے علاوہ ان کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا گاؤں کے مکینوں کو اپنی جان کے لالے پڑے ہوئے تھے ۔گاؤں میں رہنے والے سکھ بھی ان کے سامنے دشمن بنے کھڑے تھے۔ امانت علی اپنی بیوی اور معصوم بچے کے ہمراہ رات کے اندھیرے گاؤں کی حدود سے باہر آ گیا تھا ۔اس کی جیب میں بیگم کے چاندی کے زیور ، اپنے چند روپے اور رحیم بخش کی سو روپے کی امانت تھی ۔ وہ ساری رات کھیتوں میں چلتے رہے ۔صبح ہوئی تو وہ پکی سڑک تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے تھے ۔ امانت اور اس کی بیگم بھنے چنے کھا کر نہر سے پانی پیا اور دوبارہ پیدل چل پڑے۔آخر ایک بیل گاڑی والے نے انہیں بٹھا لیا ۔ تین دن بعد وہ بہت سی مصیبتیں جھیلتے ہوئے امر تسر ریلوے اسٹیشن پر پہنچے ۔سکھوں اور ہندؤں کی تلواریں ہر لمحہ انکے سروں پر لٹک رہی تھیں۔اسٹیشن پر بے بسی کی تصویر بنے ہوئے بے شمار لوگ تھے ۔خوراک کی شدید قلت تھی ۔ننھا آصف بھوک سے بِلک رہا تھا۔ٹرین جب پلیٹ فارم پر آکر رکی تولوگوں کو جانوروں کی طرح اس میں ٹھونس دیا گیا ۔ٹرین کے ساتھ برٹش آرمی کے کچھ فوجی حفاظت پر مامور تھے ۔ان محافظوں کے باوجود ٹرین پر حملے ہوتے رہے ٹرین کو زبر دستی روک لیا جاتا اور اس میں سوار مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ لیا جا تا۔ٹرین کے کئی ڈبے تو لاہور اسٹیشن صرف لاشیں لا کر پہنچے۔امانت اپنی بیوی اور بچے کے ساتھ لمحہ بہ لمحہ زندگی اورموت سے آنکھ مچولی کھیلتے ہوئے بحفاظت لاہور پہنچنے میں کامیاب ہوگیا ۔اس پاک سر زمین پر قدم رکھتے ہی اس دھرتی کا پیار بھرا بوسہ لیا ۔ان کا پہلا پڑاؤ والٹن کیمپ میں تھا۔جہاں ہجرت کر کے آنے والے مسلمان قیام پزیر تھے ۔کیمپ میں علاج معالج کے ساتھ ساتھ خوراک کا بھی مناسب انتظام تھا۔ہجرت کرنے والے اپنے پیاروں کی تلاش میں مصروف تھے۔امانت علی کو بھی رحیم بخش کی تلاش تھی اس نے رضا کار کو رحیم بخش کا نام لکھوادیا وہ ایک ماہ تک اس کیمپ میں رہا اس عرصے میں کئی بار لاؤڈ اسپیکر پر رحیم بخش کا نام پکارا گیا مگر ان میں کہیں بھی وہ رحیم بخش نہیں تھا جسے امانت علی تلاش کر رہا تھا ۔امانت علی کو نسبت روڈپر ایک چھوٹا سا کوارٹر الاٹ کر دیا گیا یہ پاکستان میں اس کا پہلا گھر تھا ۔یہ گھر ایک چھوٹے سے کمرے اور برآمدے پر مشتمل تھا ۔انبالہ میں وہ جو زمین چھوڑ کر آ یا تھا اسے حاصل کر نے کے لئے بھی اس نے کلیم داخل کر وادیا تھا ۔زمین الاٹ ہونے میں کچھ عرصہ لگا تو امانت علی نے ایک دفتر میں چوکیدار کی ملازمت کرلی چالیس روپے ماہوار تنخواہ میں اس کے کنبے کا آسانی سے گزر اوقات ہوجاتا تھا ۔وہ کچھ رقم ہر ماہ بچا کر کچھ گریلو سامان بھی بنا لیتے تھے یوں ان کے ہاں آہستہ آہستہ گھریلوں استعمال کی اشیاء میں اضافہ ہوتا چلا گیا ۔امانت علی نے تین سال یہ ملازمت کی پھر کاروبار ختم ہونے کی وجہ سے کمپنی نے دفتر بھی بند کر دیا اور یوں اس کی ملازمت بھی ختم ہو گئی۔اس کو زمین ابھی تک الاٹ نہیں ہوئی تھی ۔اس نے دوبارہ ملازمت حاصل کرنے کے لئے بہت ہاتھ پاؤں مارے مگر کچھ کام نہ بن سکا ۔جو جمع پونجی تھی وہ بیروزگاری کے دنوں میں خرچ ہوگئی۔مایوسی کے عالم میں اسے ایک دن یہ خیال آیا کہ جو سو روپے میرے پاس امانت کے طور پر ہیں کیوں نہ اسے استعمال میں لایا جائے۔اس نے جب اپنی بیگم سے یہ بات کہی تو اس نے کہا : میرا تو خیال ہے کہ ان روپوں کو ااستعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ،،۔ امانت نے اپنی بیوی سے کہا : اگر رحیم بخش آگیا تو اسے ہم اتنی رقم کہاں سے واپس کریں گے ؟،،  بیوی بولی ،،اب رحیم بخش کہاں سے آئے گا ،اگر وہ آبھی گیا تو اس کو ساری بات بتا دیں گے کہ ہم اس کو بہت تلاش کیا تھا ۔اب جب ہمارے پاس ورپے ہونگے تو ہم اس کو اپنی رقم لوٹا دیں گے ،،بیگم کی بات امانت علی کی دل کو لگی ۔اس نے سو روپے استعمال میں لانے کا فیصلہ کر لیا ۔ ایک ہفتے بعد ہی وہ نان چنے لگا ئے لکشمی چوک پر کھڑا تھا دنو ں ہی میں اس کا کام چل نکلا ۔ اس کے چنے اتنے مزے دار ہوتے تھے کہ جلد ہی لوگوں کے دل میں اس کی ساکھ پیدا ہو گئی وہ صبح ریڑھی لے کر فٹ پاتھ پر پہنچتا تو گاہک پہلے ہی اس کے منتظر ہوتے تھے دس گیا رہ بجے اس کے چنے ختم ہو جاتے گاہکوں کے اضافے کے ساتھ دیگچے کا سائز بھی بڑھتا رہا اب اس نے ایک چھوٹا سا بورڈ ،، امانت چنے والا،، بھی لگا لیا اس کی مقبولیت کو دیکھ کر اور بہت سے لوگ اس کے مقابلے میں ریڑھیاں لگا کر چنے بیچنے لگے مگر جو لذت امانت کے چنوں میں تھی وہ کسی اور کے چنوں میں نہیں تھی ۔ چار سال بعد امانت علی کو سرگودھا میں جو زمین الاٹ ہوئی تھی وہ اس قدر سیم زدہ تھی کہ اس کو قابل کاشت بنانا جان جوکھوں کا کا تھا ۔امانت علی نے زمین کو قابل کاشت بنانے کے بجائے اپنے کا روبار پر ہی توجہ رکھی ۔جب اس کے پاس کچھ رقم جمع ہوئی تو اس نے لکشمی چوک پر ایک کھوکھا خرید لیا ۔وہ پہلے تو اکیلا ہی ریڑھی پر کام کرتا تھا اب اس نے ایک ملازم بھی رکھ لیا تھا ۔کھوکھا اتنا چھوٹا تھا کہ اس میں ایک آدمی مشکل سے کھڑا ہو سکتا تھا ۔ کاروبار اب خاصی ترقی پر تھا ۔ایک شام وہ نئی سائیکل لیکر گھر پہنچا تو بیگم اور آصف خوشی سے اچھل پڑے ۔ ،، ابا جان کیا یہ سائیکل ہماری ہے ،،؟ آصف نے پوچھا  ،،ہاں یہ سائیکل ہماری ہے ابھی خرید کر لایا ہوں ،،۔ میں اس پر سیر کرنے کے لئے لارنس گارڈن جاؤں گا آصف نے سائیکل کی گھنٹی بجاتے ہوئے کہا ،،۔ تم اکیلے اتنی دور کیسے جاؤ گے بیٹا جی میں تمہیں لے کر جاؤں گا،،۔ ابا جان میں بھی سائیکل چلانا سیکھوں گا ،،۔ ہاں ضرور سیکھ لینا ،،۔ سائیکل کی خریداری پر سارا محلہ انہیں مبارک باد دینے آیا ۔سبھی انہیں رشک بھری نظروں سے دیکھتے تھے۔ایک بچے نے سائیکل کو ہاتھ لگانا چاہا تو آصف بولا……………. جا جا ہماری سائیکل کو میلا کروگے کیا ؟،، ،،بیٹا ایسا نہیں کرتے امی نے اسے سمجھایا۔ تمام محلے کا مشترکہ نلکا تھا امانت نے سب سے پہلے اپنا الگ نلکا لگوالیا ۔ جب محلے کا مشترکہ نلکا خراب ہو جا تا تو سبھی ان کے ہاں سے پانی بھر نے آتے تھے۔امانت علی نے جب سیلوں پر چلنے والا ریڈیو لیا تو محلے والے مزید حیران ہوئے خبر وں کے وقت محلے بھر کے بڑے بوڑھے برآمدے میں جمع ہوتے اور خبریں سنتے اور بعد میں بڑی دیر تک ان خبروں پر تبصرہ کرتے ہوئے اپنے اپنے گھروں کی راہ لیتے۔ جب گرمی کا موسم آیا تو امانت علی نے چھت کا پنکھا خرید لیا۔دوپہر کی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا میں محلے کے کچھ بچے بھی آکر لیٹ جاتے تھے یوں وقت کے ساتھ گھر کی حالت بدلتی چلی گئی ۔ ایک دوپہر امانت علی کھوکھا بند کرنے لگا تو اس کے ہمسائے اقبال نے کہا : امانت بھائی یہ ساتھ والی دکان بک رہی ہے میرا خیال ہے آپ خرید لیں،،۔ قیمت کیا ہوگی ؟امانت نے پوچھا ۔ آپ دکان خریدنے کا ارادہ تو کریں پھر قیمت کی بھی بات کر لیں گے ،،۔ارادہ تو ہے کہ یہ کھوکھا اب دکان بن جائے ،،۔ پھر آج شام ہی پہلوان سے بات کرتا ہوں ،،۔ چند ہی دنوں میں چار سو روپے میں دکان امانت علی کے نام ہو چکی تھی ۔کھوکھا جب دکان میں تبدیل ہوا تو جو گاہک فٹ پاتھ پر کھڑے ہو کر نان چنے کھا تے تھے اب وہ سکون و اطمینان کے ساتھ دکا کے اندر بیٹھ کر کھا نا کھانے لگے ۔اللہ تعالیٰ امانت علی کے کاروبار میں برکت ڈالتا چلا گیا ۔چند سالوں میں اس نے ساتھ والی تین مزید دکانیں بھی خرید لیں۔اب ،،امانت چنے والا،،کا بورڈتو لگا ہوا تھا مگر چنے کے ساتھ دیگر مزے دار کھانے بھی دستیاب تھے ۔ملازموں کی تعداد بڑھتے بڑھتے دس ہو گئی تھی ۔آصف بھی مڈل کلاس پاس کرنے کے بعد اپنے والد کا ہاتھ بٹانے لگا تھا ۔بیس سالوں میں امانت علی نے اتنی ترقی کی کہ وہ ایک کوارٹر سے ایک اچھے مکان میں منتقل ہو گیا سائیکل کی جگہ موٹر سائیکل نے لے لی ۔ گویا ہر لمحہ امانت علی کے لئے خوشیاں لے کر آرہا تھا۔ان تمام کامیابیوں کے بعد امانت علی رحیم بخش کو نہیں بھولا تھا ۔اس نے اپنے دوست کو تلاش کرنے کے لئے اخبارات میں اشتہارچھپوائے اور ریڈیو پر اعلان بھی کروائے مگر وہ اس کو نہیں مل سکا ۔اب تو امانت علی کو یقین ہوگیا تھا کہ رحیم بخش اس دنیا میں نہیں ہے ۔ ایک صبح امانت علی کاؤنٹر میں بیٹھا حساب کر رہا تھا کہ ایک نابینا فقیر نے آواز لگائی کہ کوئی ہے جو فقیر کو کھا نا کھلائے ،،۔ سعید ! اسے اندر لے آؤ ،علی نے ملازم سے کہا سعید فقیر کا ہاتھ پکڑکر ہوٹل میں لایا تو اسے دیکھ کر امانت علی کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا ۔بے اختیار اس کے منہ سے نکلا ،رحیم بخش ………..تم رحیم بخش ہو نا ں،،۔ ہاں میں رحیم بخش ہوں ۔تم کون ہو؟ میں امانت علی ہوں ،،۔ امانت علی رحیم بخش نے دہرایا۔ہاں میں امانت علی ہوں جس کے پاس تم نے سوروپے رکھوائے تھے ،،۔ ہاں مجھے یاد ہے ،،۔یہ تم نے کیا حالت بنا رکھی ہے اب تک کہاں تھے ؟،، تمہارے سب سوالوں کے جواب دوں گا پہلے مجھے کھانا تو کھلادو، بھوک بہت لگ رہی ہے،،۔ بھوک کی وجہ سے رحیم بخش سے بولا بھی نہیں جا رہا تھا۔ رحیم بخش یوں کھانا کھا رہا تھا جیسے مد توں سے بھوکا ہو ۔ امانت علی کو اس کی حالت دیکھ کر بہت افسوس ہورہا تھا ۔جب رحیم بخش سیر ہو کر کھانا کھا چکا تو امانت علی نے بات کا آغاز کیا ۔ رحیم بخش میں آج خوش بھی ہوں اور اداس بھی ،،۔ وہ کیوں ؟،، تمہیں اس حالت میں دیکھ کر اداس ہوں اور خوش اس لئے ہوں کہ امانت کا جو بوجھ میرے کندھوں پر تھا وہ اتر جا ئے گا ،،۔ یہ سن کر رحیم بخش نے ہاتھ آگے بڑھاتے ہوئے کہا لاؤ میری سو روپے کی امانت ،،۔ اب وہ سو روپے نہیں رہا بلکہ ہزاروں میں بدل چکا ہے ،،۔ میں کچھ سمجھ نہیں سکا ،۔ رحیم بخش بولا  اس کے جواب میں امانت علی نے تمام بات اس کے گوش گزار کردی۔ساری بات سے آگاہ ہوکر رحیم بخش بولا : تم امانت کی حفاظت کی حفاظت کر کے اس رتبے پر پہنچے اور میں امانت ہڑپ کر کے اس حالت میں پہنچا ہوں،،۔ کیا مطلب ؟،،امانت علی بولا  میں گاؤں میں سو روپیہ تمہارے حوالے کر نے کے بعد کام کے سلسلے میں سکھر چلا گیا ،وہاں کمپنی کے ایک ملازم سجاد نے ایک ہزار روپے بطور امانت میرے پاس رکھوائے اتنی رقم دیکھ کر میری نیت بدل گئی اور میں سکھر سے لاہور آگیا ۔میں نے سوچا ان روپیوں سے اپنا کاروبا ر کروں گا ۔مگر کچھ روپے تو خرچ ہوگئے اور کچھ جیب کترے کے ہاتھ لگ گئے اس عرصے میں تقسیم کی وجہ سے فسادات شروع ہوگئے ۔میں اس ڈر سے روپوش رہا کہ اگر پکڑا گیا تو ہزار روپے کس طرح دونگا ۔ ایک رات ایک دکان کے تھڑے پر سویا ہوا تھا کہ وہاں اچانک میرے کپڑوں میں آگ لگ گئی ۔میرا جسم بھی جلا اور آنکھیں بھی ہمیشہ کے لئے بے نور ہوگئیں ۔میرے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہیئے تھا کیوں کہ میں نے اللہ کا حکم نہیں مانا ،،۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ خدا تم کو حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں ان کے حوالے کر دیا کرواور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کرو۔خدا تمہیں خوب نصیحت کرتا ہے ۔بے شک خدا سنتا اور دیکھتا ہے ۔مجھے جوکچھ ملا ہے وہ میری نیت کا پھل ہے اور تمہیں اللہ تعالیٰ نے جو کچھ عطا کیا ہے وہ تمہاری نیت کا ثمر ہے اس ثمر کے حق دار تم ہی ہو میرے تو صرف سو روپے ہیں مجھے مل گئے تو تمہارا فرض اداہو گیا ،،۔ رحیم بخش کی باتوں سے امانت علی کی آنکھوں سے آنسو آگئے اس نے روتے ہوئے کہا۔تمہیں اس حالت میں کہیں نہیں جانے دوں گا ۔تم مجھ سے چاہے کچھ بھی نہ لو مگر میرے پاس تو رہوہم دونوں مل کر ساجد کو تلاش کریں اوراس کی امانت اس کے سپرد کردیں گے ۔ کیا ایسا ہو سکتا ہے؟،، ایسا کیوں نہیں ہو سکتا ۔،، امانت علی نے کہا۔ یہ سن کر رحیم بخش کا مرجھایا ہوا چہرہ کھل اٹھا اور اس نے امانت علی کے پکڑے ہوئے ہاتھ کو محبت سے چوم لیا ۔اس لمحے اسے یقین سا ہو چلا تھا کہ وہ ہزار روپے کی امانت سجاد تک پہنچانے میں ضرور کامیاب ہو جائے گا ۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top