بیوقوفیاں پلس+
محمد الیاس نواز
……
جب آئی .ایم(I am)بھی مسلمان اینڈ یو آر(you are) بھی مسلمان تو پھر وی آر(we are) لڑ کیوں رہے ہیں۔پیر کی صبح جب ہم اپنی گلی سے نکلے تو جناب شریم بھا ئی کی گلابی انگریزی ہمارے کانوں میں پڑی ۔جب ہم قریب پہنچے تو شریم نے ہمیں دیکھتے ہی شکایت کی دیکھیں الیاس بھائی یہ بار بار مجھے ’’باؤلی گزک‘‘کہہ کے پکار رہا تھا۔
شریم سامنے والے لڑکے سے الجھ تو پڑے لیکن جب دیکھا کہ جوتے پڑ رہے ہیں اور لڑنے والاانگریزی میں خوب برا بھلا بھی کہہ رہا ہے تو انہیں بھی جوش آیا اور انہوں نے بھی ایسی انگریزی سنائی کہ لڑنے والا ہنسی سے الجھ کے رہ گیااوراچھے بھلے سنجیدہ آدمی ماسٹر غلام علی صاحب جو کہ میرے سا تھ وہاں پہنچے تھے،وہ بھی ہنسی کے مارے کھڑے نہ رہ سکے اور انہیں ہنسنے کے لئے باقاعدہ بیٹھنا پڑااوریوں معاملہ رفع دفع ہوگیا۔شریم ہمارا پڑوسی اور دوست بھی ہے ۔اس کے بڑے بھائی احمد آج کل ملک سے با ہر اپنی پڑھائی سلسلے میں گئے ہوئے ہیں جبکہ اس کے والد کا انتقال ہوچکا ہے اور اب گھر میں وہ اور اس کی والدہ رہتے ہیں۔
شریم نہایت سادہ اور بغیر سوچے سمجھے کام کرنے والالڑکا ہے ،یہی وجہ ہے کہ محلے میں ’’بونگا‘‘یعنی بیوقوف مشہور ہے۔پہلے تواس کا حلیہ مبارک سنیئے جو وقتاًفوقتاًہم نے دیکھا ۔سیدھے پاؤں میں ہری چپل تواُلٹے میں کالی وہ بھی ایک بڑی تو دوسری چھوٹی ۔پینٹ کا ایک پائنچاکھلاہوااوردوسرامُڑا(fold)ہوا۔ناک بہہ کر جیب میں جاتی ہوئی توقمیض بغل تک پھٹی ہوئی ۔شرٹ سے ناک صاف کرنے کے لئے جوشرٹ اُوپر اُٹھائی تو پینٹ میں بیلٹ کی جگہ اَزارڈلاہوا۔،قمیض کی ایک طرف کی جیب کسی سخت پیاسے جانور کی زبان کی طرح باہر کو لٹکتی ہوئی ۔کالرایک طرف سے اندر کو مڑا ہواتوگریبان کے اوپروالے بٹن نیچے اور نیچے والے اُوپر کو لگے ہوئے۔ یہ ہے مختصر ساحلیہ شریم المعروف ’’بونگے‘‘ کا۔
اسی دن یعنی پیروالے دن شام کو بارش کے آثاردیکھ کراچھے کپڑے پہن لئے ہم نے پو چھا بھئی بارش میں تو لوگ اچھے کپڑے اتار دیتے ہیں ۔کہنے لگے’’ اللہ کی رحمت کا استقبال کرنے کے لئے نئے کپڑے پہن لئے ہیں‘‘۔اور جب بارش شروع ہو گئی توانہیں اپنی سائیکل کی فکر ہوئی۔پہلے تو انہوں نے اسے کمرے میں کھڑاکردیامگر پھرانہیں خیال آیا کہ پچھلی بارش میں تو پانی کمروں میں بھی آگیا تھا۔ ان کے ذہن میں ایک ترکیب آئی اورانہوں نے اپنی سائیکل کو رسے سے باندھا اور رسے کے دوسرے سرے کو چھت میں لگے پنکھے کے خالی ’’ہک‘‘سے گزار کر دوسری طرف سے کھینچاتو وہ زمین سے اُوپر اُٹھ گئی انہوں نے دوسرے سرے کو کھڑکی سے باندھ دیااور اس طرح انہوں نے اپنی سائیکل کوچھت سے ٹانگ دیا۔ امی نے کہا کپڑوں کی تو تمہیں کوئی فکر نہیں تو سائیکل کی اتنی کیوں؟…..فرمایا ’’کپڑے تو ایک ہفتہ پہلے سلوائے تھے اور سائیکل کے ٹائرتو آج ہی نئے ڈلوائے ہیں‘‘۔
رات تو جیسے تیسے گزرگئی اورمنگل کی سہانی صبح طلوع ہو گئی۔احمدبھائی ہمیشہ گھر کے کام کاج میں والدہ کا ہاتھ بٹایا کرتے تھے۔اب شریم کو جوش چڑھا اور اس نے والدہ سے کہا کہ اب میں آپ کا ہاتھ بٹایا کروں گا۔ماں نے سمجھایاکہ بیٹاتمہیں ابھی کام کرنے کی عادت نہیں ہے اس لئے تمہیں کام کرنے کا سلیقہ بھی نہیں آئیگاتم اُلٹا میراکام بگاڑ دوگے۔ کہنے لگا نہیں امی آپ دیکھیں گی کہ میں کیسے محنت اور لگن سے کام کرتا ہوں۔امی کی تو دوبارہ آنکھ لگ گئی ۔اس نے کمرے کی قالین کی صفائی کا فیصلہ کیااور تمام قالین کی پانی اورسرف سے صفائی کردی۔ جب امی کی آنکھ کھلی تو بیڑہ غرق ہو چکا تھا،اور قالین پرراوی بہہ رہاتھا۔امی نے یہ دیکھ کر سر کو پیٹ …….بلکہ کوٹ لیا۔ قالین کو نکال کے چھت پر ڈالنے میں شام ہو گئی ۔شام کو جوہواوہ بھی پڑھ لیجئے….ہوا یوں کہ شام کو کھانا کھاتے کھاتے اُٹھے …بریانی سے بھری پلیٹ ہاتھ میں ہی تھی پلیٹ کو کولر کے اُوپررکھااور ٹھنڈے پانی کا گلاس کولرسے بھرا کہ اتنے میں ان کی والدہ وہاں آگئیں اوران سے کوئی بات پوچھنے لگیں ۔وہ تو بات کرکے چلی گئیں مگر شریم صاحب یہ بھول گئے کہ انھوں نے پانی نہیں پیا۔ وہ سمجھے کہ انہوں نے پانی پی لیا ہے اور خالی گلاس اس کے ہاتھ میں ہے اس نے وہ بھرا ہوا گلاس دوبارہ اُلٹا کرکے کولر پر رکھ دیایوں بریانی ’’چاول پانی ‘‘ہوگئی ۔بقول ان کے کہ ’’منگل کا دن تو تھا ہی منحوس ۔
وہ دل پہ بوجھ لئے سو گئے اور بدھ کی صبح نئے عزم کے سا تھ اُٹھے اورلگے کھانا پکانے ۔گھی کو دیگچی میں ڈال کر سخت گرم کیا اور پھر اس میں پا نی ڈال دیا۔ شاید گھی کو گلانے لگے تھے۔ سخت گرم گھی میں تھوڑا سا جو پانی پڑا تو اس نے آگ پکڑ لی۔پھر جو ہوا مت پوچھئیے۔مگر آپ ان کا حوصلہ دیکھئے کہ انہوں نے ہمت نہیں ہاری اورشام کو آٹا گوندھنے لگے ۔پہلے آستینیں اُوپر چڑھانے کے بجائے شلوارکے پائنچے اُوپر چڑھالئے ،شاید ہاتھوں کے بجائے پاؤں……. ۔جس برتن میں آٹا گوندھنا تھا وہ تو ملا نہیں اور امی سے پوچھتے تو ظاہر ہے کہ وہ منع کر دیتیں۔ پھر انہیں سمجھ نہ آیا کہ کیا کریں ۔بالآخر انہوں نے دیگچی لی اور اس میں پانی بھر لیا پھر اس میں احتیاط کے ساتھ تھوڑا تھوڑا آٹا ڈالتے گئے اوروہ ’’ڈلیاں ‘‘بنتا گیا۔پھر انہوں نے دونوں ہاتھوں سے ان کو پھینٹ کر اس آٹے کوپتلی پتلی لئی (گوند)بنادیا۔اور پھر وہی مثال بن گئی کہ ’’مفلسی(غریبی) میں آٹا گیلا‘‘۔
لیجئے اور سنئے یہ پچھلی جمعرات والے دن تو انہوں نے اسکول میں عجیب ہی حرکت کی۔ ماسٹرغلام علی اور شریم ساتھ ساتھ جائے نماز بچھاکر نماز پڑھ رہے تھے ۔ ماسٹر جی نے نماز ختم کی تو شریم ابھی نماز پڑھ رہے تھے ۔ماسٹرجی مصلےٰ اُٹھا نے لگے تو شریم صاحب نے جلدی سے نماز کے اندر ہی ان سے مصلےٰ لے لیا اور فرمایا ….ارے سر!…آپ کیوں تکلیف کرتے ہیں میں اُٹھا لیتاہوں۔یہ کیا حرکت کی تم نے؟…ماسٹر جی نے حیرانی سے پوچھا۔شریم بھا ئی کا جوا ب ملاحظہ ہو’’سر….وہ…میں نے سوچاکہ آپ یہ نہ کہیں کہ نماز کیا پڑھنے کھڑا ہو گیا ….مغرور ہی ہو گیا ہے‘‘۔
ابھی ہم اس بات پر اس کو چھیڑ رہے تھے کہ شام کو عجیب ہی واقعہ ہو گیاشریم اسٹور سے چاولوں کا کٹا اُٹھا کر لا رہے تھے کہ راستے میں شریم بھا ئی نیچے اور بوری اوپر اتنے میں اتفاق سے علی وہاں پہنچ گیااور انہوں شریم کے اوپر سے وہ کٹا اٹھایاتو شریم صاحب نے اسکو خوب برا بھلا کہا ۔علی نے حیران ہو کر کہا کہ تمہیں تو میرا احسان مند ہو نا چا ہئے تھا اور تم مجھے باتیں سنا رہے ہو ۔فرمایا’’یہی تو میری باتیں ہیں ورنہ مجھے ’’بونگا‘‘ کون کہے گا۔
اگلے دن یعنی جمعہ کے مبارک دن کا سورج طلوع ہوا اورشریم صاحب کپڑے استری کرنے بیٹھے تو انہیں اپنے والد مرحوم کی وہ بات یاد آئی جو وہ کہا کرتے تھے کہ’’کاٹن تو بڑا ہی نازک اور نفیس کپڑا ہو تا ہے ‘‘یعنی ذراسا کسی کی چیزسے اٹکے تو پھٹ جاتا ہے ۔مگر شریم صاحب کچھ اورہی سمجھے اورانہوں نے استری کو ہلکا گرم کیا اور کاٹن کا سوٹ استری کرلیا اور جب ریشم(silk)کی باری آئی تو استری کو اچھی طرح گرم کیااور لگے استری کرنے بس پھر استری جہاں جہاں سے گزرتی گئی ’’شاہراہِ ریشم‘‘ یعنی اپنا راستہ بنا تی گئی اور ریشم کی جگہ ریشے چھوڑتی گئی۔انہوں نے ہاتھ میں جلے ہوئے ریشے لئے اور استری سے درد بھرا شکوہ کرنے لگے کہ’’ تجھے بھی مجھ سے ہی دشمنی تھی ….ہیں !….تو نے بھی میرا خیال نہیں کیاناں!…ہیں!..ذرا بھی رحم نہیں آیا تجھے۔اب مجھے کون’’ بونگا‘‘ نہیں کہے گا‘‘۔
شریم اب بہت مشہور ہوگئے ہیں، اتنے مشہور کہ اب تو محلے کے کتے بھی ان پر آوازیں کسنے لگے ہیں ۔ جب وہ باہرنکلتے ہیں تو ان کو دیکھ کے وہ بھونکنے لگتے ہیں شایداپنی زبان میں وہی لفظ کہتے ہوں جو محلے کے لڑکے انہیں کہتے ہیں ۔جمعہ کی شام کو جو کتا بھو نکا تو انہوں نے جیب سے موبائل نکالا اور دے کھینچ کے مارا کتے کو۔موبائل لگتے ہی کتا بھاگ گیا تو فر مایا’’ہاں…..تو تجھے بھی نوکیا(NOKIA)کی چوٹیں اچھی لگتی ہیں۔پتھر سے تو تیرا بھی گزارہ نہیں ہوتا ۔اب میں روزتجھے موبائل تو نہیں مار سکتا ناں….یہ نوکیا ہے کوئی’’ ٹھوکیا‘‘ نہیں ہے ۔ہم نے کہا شریم یہ کیاکیا!….موبائل کا بیڑہ غرق کردیا ؟۔کہنے لگے پتھر سے جا تاہی نہیں ہے ظالم….روز مارتا ہوں ۔
ہفتہ کی صبح شریم کاپرچہ تھا،وہ پرچہ دے کے آئے توہم نے پوچھا کہ کیسا ہوا آج کا پرچہ؟۔کہنے لگے یار…..لگتا ہے اللہ پاس ہو نے سے بچا لے گا…..اتنا کو ئی اچھا نہیں گیا۔ہم نے پوچھاکیوں ؟۔کہنے لگے ’’پسندیدہ شخصیت ‘‘پرمضمون لکھنے کو آگیا۔ہم نے پوچھا’’پھر؟‘‘ آنکھیں پھاڑ کر ہمیں دیکھا اور کہنے لگے پھر کیا!….میں نے چھوڑ دیا،میں نے پسندیدہ شخصیت پرتھوڑی یاد کیا تھا ،میں نے تو ’’ قائد اعظم ‘‘پر مضمون یاد کیا تھا ۔
اب کچھ دنوں سے انہیں جوش چڑھاہو اتھا اور انہوں نے ضد شروع کی ہوئی تھی کہ وہ کہیں نہ کہیں ملازمت کریں گے۔امی نے بہت کہا کہ کیا ضرورت ہے۔ اللہ کا احسان ہے والد کی پینشن سے گزاراہورہا ہے اور زیادہ کی ضرورت نہیں ہے ۔مگر وہ یہی کہتے رہے کہ مجھے بھی کام کرنا چاہئے ۔انھوں نے محلے کے ایک جنرل اسٹور پر کام شروع کیااوراپنی’’ طبعی سخاوت ‘‘کے در کھول دئیے ۔اب آپ اس کو شریم کا بونگاپن کہیں یا کچھ اورکہ گاہک آٹا تو پیسوں سے لیکر جاتا اور چینی !……بالکل مفت ۔ٹافیاں تو کوئی سودا لے یا نہ لے مفت بلکہ اب تو محلے کے بچے اتنے فری ہوگئے تھے کہ خود ہی آکر ٹافیوں میں ہاتھ ڈال دیتے۔تھوڑا عرصہ تو یہ سلسلہ چلا مگر اس سے پہلے کہ اسٹور میں کچھ نہ رہتاہفتہ کی شام ہوئی اور شریم کی ملازمت نہ رہی۔
آج اتوارکا دن تھا ۔شریم اورہم علی کی موٹر سائیکل لیکرشریم کی امی کے کام سے نکلے اور جب شہر کے مرکزی روڈ پر آئے تو اچانک پیچھے سے ایک لڑکاموٹر سا ئیکل پر تیزی سے نمودار ہوا اور بڑے غلط طریقے سے آگے سے ہوتا ہوا صرف ایک دو انچ سے بچ کے نکل گیا۔شریم بھائی نے فوراً اپنے موٹر سائیکل کی رفتار بڑھائی اور بالکل اس کے برابر میں لی جاکرچلتی موٹر سائیکل پراس کی طرف منہ موڑ کرہینڈل سے دونوں ہاتھ اُٹھاکر اس کے آگے بڑے اہتمام اور اطمینان سے جوڑے اور فرمایا بھائی!…اپنی نہیں تو کسی اور کی زندگی کا خیال کرلیا کرو….یہ زندگی ایک ہی بار ملتی ہے باربار نہیں،میں نے فوراً کلمے پڑھ لئے اور پھر ان کے کندھے دبائے کہ بھا ئی …اللہ کے واسطے تم بھی کسی کی زندگی کا خیال کرلو……تو فرمایا …یار تم نہیں دیکھتے کہ وہ کس طرح چلا رہا تھا…میں بھی توچلا رہا ہوں اوردیکھو کیسی آرام سے شریفوں کی طرح چلا رہا ہوں ۔میں نے کہا….بالکل ،بے شک..آپ اسی شریفوں والے طریقے سے چلاتے رہیں مگر مجھ ’’غریب‘‘کو اتاردیتے توبہترہوتا بلکہ جناب کا احسان ہوتا۔
یہ تھی شریم بھائی کی ہفتہ بھر کی’’ عقل مندیوں‘‘کی روداد۔ اچھا بھئی اب مجھے اجازت کہ اتوارکادن گزر چکا ہے اور اس سے پہلے کہ مجھے کو ئی اور انکی بیوقوفی یاد آئے یا پھر پیر کی صبح ہو اور پھرصبح اور شام کے حساب سے تازہ بیوقوفیوں کا سلسلہ شروع ہو جا ئے ۔اللہ حافظ …..مگر ٹھہرئیے!…آج شام کی بھی سن لیجئے ۔ابھی ابھی ہمارے چھوٹے بھائی آکے بتا رہے ہیں کہ شریم بھائی کی امی آئی ہیں اور وہ کہہ رہی ہیں کہ شریم نے شام کو فرمائش پرسوجی کا حلوہ پکوایااور سلاد کے ساتھ کھا یاہے کہ آخر میٹھی چیز سلاد کے ساتھ کیوں نہیں کھائی جا سکتی ۔پیٹ بھر کے پیاز کے ساتھ حلوہ کھایا اور پھراس’’ صحت بخش غذاء ‘‘کے بعداب طبعیّت ایسی’’ ہری‘‘ ہوئی ہے کہ’’ مچل مچل‘‘ کے کہہ رہے ہیں ’’ اللہ کو پیارا ہوجاؤں گا‘‘ ۔ان کی امی کہہ رہی ہیں کہ انہیں ہسپتال لیکر جانا ہے ….لو بھئی ساتھیو!…..میں ذرا جا کرتو دیکھوں….