انجام بخیر
پطرس بخاری
۔۔۔۔۔۔۔
منظر
۔۔۔۔۔۔۔
ایک تنگ و تاریک کمرہ جس میں بجز ایک پرانی سی میز اور لرزہ براندام کرسی کے اور کوئی فرنیچر نہیں۔
زمین پرایک چٹائی بچھی ہے جس پر بیشمار کتابوں کا انبار لگا ہے۔ اس میں سے جہاں جہاں کتابوں کی پشتیں نظر آتی ہیں وہاں شیکسپیئر، ٹالسٹائے، ورڈزورتھ وغیرہ مشاہیر ادب کے نام دکھائی دے جاتے ہیں۔ باہر کہیں پاس ہی کتے بھونک رہے ہیں۔ قریب ہی ایک بارات اْتری ہوئی ہے۔ اس کے
بینڈ کی آواز بھی سنائی دے رہی ہے جس کے بجانے والے دق، دمہ، کھانسی اور اس طرح کے دیگر امراض میں مبتلا معلوم ہوتے ہیں۔ ڈھول بجانے والے کی صحت البتہ اچھی ہے۔
پطرس نامی ایک نادار معلم میز پر کام کر رہا ہے۔ نوجوان ہے لیکن چہرے پر گزشتہ تندرستی اور خوش باشی کے آثار صرف کہیں کہیں باقی ہیں،آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے پڑے ہوئے ہیں۔ چہرے سے ذہانت پسینہ بن کر ٹپک رہی ہے۔ سامنے لٹکی ہوئی ایک جنتری سے معلوم ہوتا ہے کہ مہینے کی آخری تاریخ ہے۔
باہر سے کوئی دروازہ کھٹکھٹاتا ہے۔ پطرس اْٹھ کر دروازہ کھول د یتا ہے۔ تین طالب علم نہایت اعلیٰ لباس زیب تن کئے اندر داخل ہوتے ہیں۔
(پردہ اٹھتاہے)
پطرس:’’ حضرات اندر تشریف لے آئیے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ میرے پاس صرف ایک کرسی ہے۔ لیکن جاہ وحشمت کا خیال بہت پوچ خیال ہے۔ علم بڑی نعمت ہے، لہٰذا اے میرے فرزندو، اس انبار سے چند ضخیم کتابیں انتخاب کرلو اور ان کو ایک دوسرے کے اوپر چْن کر ان پر بیٹھ جاؤ۔ علم ہی تم لوگوں کا اوڑھنا اور علم ہی تم لوگوں کا بچھونا ہونا چاہیے۔‘‘
(کمرے میں ایک پراسرار سا نور چھا جاتا ہے۔ فرشتوں کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ سنائی دیتی ہے)۔
طالب علم: (تینوں مل کر)’’ اے خدا کے برگزیدہ بندے۔ اے ہمارے محترم استاد۔ ہم تمہارا حکم ماننے کو تیار ہیں۔ علم ہی ہم لوگوں کا اوڑھنا اور علم ہی ہم لوگوں کا بچھونا ہونا چاہیے۔‘‘
(کتابوں کو جوڑ کر ان پر بیٹھ جاتے ہیں)
پطرس:’’ کہو اے ہندوستان کے سپوتو! آج تم کو کون سے علم کی تشنگی میرے دروازے تک کشاں کشاں لے آئی؟‘‘
پہلا طالب علم:’’ اے نیک انسان! ہم آج تیرے احسانوں کا بدلہ اتارنے آئے ہیں۔‘‘
دوسرا طالب علم:’’ اے فرشتے! ہم تیری نوازشوں کا ہدیہ پیش کرنے آئے ہیں۔‘‘
تیسرا طالب علم:’’ اے مہربان! ہم تیری محنتوں کا پھل تیرے پاس لائے ہیں۔‘‘
پطرس:’’ یہ نہ کہو! خود میری محنت ہی میری محنت کا پھل ہے۔ کالج کے مقررہ اوقات کے علاوہ جو کچھ میں نے تم کو پڑھایا اس کا معاوضہ مجھے اس وقت وصول ہوگیا جب میں نے تمہاری آنکھوں میں ذکاوت چمکتی دیکھی۔ آہ! تم کیا جانتے ہو کہ تعلیم وتدریس کیسا آسمانی پیشہ ہے۔ تاہم تمہارے الفاظ سے میرے دل میں ایک عجیب مسرت سی بھر گئی ہے۔ مجھ پر اعتماد کرو۔ اور بالکل مت گھبراؤ۔ جو کچھ کہنا ہے تفصیل سے کہو۔
پہلا طالب علم: (سروقد اور دست بستہ کھڑا ہو کر)’’ اے محترم استاد!ہم علم کی بے بہا دولت سے محروم تھے، درس کے مقررہ اوقات سے ہماری پیاس نہ بجھ سکتی تھی۔ پولیس اور سول سروس کے امتحانات کی آزمائش کڑی ہے۔ تو نے ہماری دستگیری کی اور ہمارے تاریک دماغوں میں اجالا ہوگیا۔ مقتدر معلم! تو جانتا ہے، آج مہینے کی آخری تاریخ ہے، ہم تیری خدمتوں کا حقیر معاوضہ پیش کرنے آئے ہیں۔ تیرے عالمانہ تجربے اور تیری بزرگانہ شفقت کی قیمت کوئی ادا نہیں کرسکتا۔ تاہم اظہار تشکر کے طور پر جو کم مایہ رقم ہم تیری خدمت میں پیش کریں اسے قبول کر کہ ہماری احسان مندی اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔‘‘
پطرس:’’ تمہارے الفاظ سے ایک عجیب بے قراری میرے جسم پر طاری ہوگئی ہے۔‘‘
(پہلے طالب علم کا اشارہ پا کر باقی دو طالب علم بھی کھڑے ہوجاتے ہی۔ باہر بینڈیک لخت زور زور سے بجنے لگتا ہے)۔
پہلا طالب علم: (آگے بڑھ کر) ’’اے ہمارے مہربان مجھ حقیر کی نذر قبول کر۔‘‘ (بڑے ادب واحترام کے ساتھ اٹھنی پیش کرتا ہے)
دوسرا طالب علم: (آگے بڑھ کر)’’ اسے فرشتے میرے ہدیے کو شرف قبولیت بخش۔‘‘ (اٹھنی پیش کرتا ہے)
تیسرا طالب علم: (آگے بڑھ کر)’’ اے نیک انسان مجھ ناچیز کو مفتخر فرما۔‘‘ (اٹھنی پیش کرتا ہے)۔
پطرس: (جذبات سے بے قابو ہو کر رقت انگیز آواز سے)’’ اے میرے فرزندو! خداوند کی رحمت تم پر نازل ہو۔ تمہاری سعادت مندی اور فرض شناسی سے میں بہت متاثر ہوا ہوں۔ تمہیں اس دنیا میں آرام اور آخرت میں نجات نصیب ہو۔ اور خدا تمہارے سینوں کو علم کے نور سے منور رکھے۔‘‘ (تینوں اٹھنیاں اْٹھا کر میز پر رکھ لیتا ہے)۔
طالب علم: (تینوں مل کر)’’ اللہ کے برگزیدہ بندے ہم فرض سے سبکدوش ہوگئے۔ اب ہم اجازت چاہتے ہیں کہ گھر پر ہمارے والدین ہمارے لیے بیتاب ہوں گے۔‘‘
پطرس:’’ خدا تمہارا حامی و ناصر ہو اور تمہاری علم کی پیاس اور بھی بڑھتی رہے۔‘‘
(طالب علم چلے جاتے ہیں)۔
پطرس: (تنہائی میں سربسجود ہو کر)’’ باری تعالیٰ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ تو نے مجھے اپنی ناچیز محنت کے ثمر کے لیے بہت دنوں انتظار میں نہ رکھا۔ تیری رحمت کی کوئی انتہا نہیں لیکن ہماری کم مائیگی اس سے بھی کہیں بڑھ کر ہے۔ یہ تیرا ہی فضل وکرم ہے کہ تو میرے وسیلے سے اوروں کو بھی رزق پہنچاتا ہے اور جو ملازم میری خدمت کرتا ہے اس کا بھی کفیل تونے مجھ ہی کو بنا رکھا ہے۔ تیری رحمت کی کوئی انتہا نہیں اور تیری بخشش ہمیشہ ہمیشہ جاری رہنے والی ہے۔‘‘
(کمرے میں پھر ایک پراسرار سی روشنی چھا جاتی ہے اور فرشتوں کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ سنائی دیتی ہے)۔
کچھ دیر کے بعد پطرس سجدے سے سر اٹھاتا ہے اور ملازم کو آواز دیتا ہے۔
پطرس:’’ اے خدا کے دیانت دار اور محنتی بندے! ذرا یہاں تو آئیو!‘‘
ملازم: (باہر سے)’’ اے میرے خوش خصال آقا! میں کھانا پکا کر آوں گاکہ تعجیل شیطان کا کام ہے۔‘‘
(ایک طویل وقفہ جس کے دوران درختوں کے سائے پہلے سے دگنے لمبے ہوگئے ہیں)۔
پطرس:’’ آہ انتظار کی گھڑیاں کس قدر شیریں ہیں۔ کتوں کے بھونکنے کی آواز کس خوش اسلوبی سے بینڈ کی آواز کے ساتھ مل رہی ہے۔‘‘
(سربسجود گر پڑ تا ہے)۔
پھر اٹھ کر میز کے سامنے بیٹھ جاتا ہے۔ اٹھنیوں پر نظر پڑتی ہے ان کو فوراً کتاب کے نیچے چھپا دیتا ہے۔
پطرس:’’ آہ! مجھے زرودولت سے نفرت ہے۔ خدایا میرے دل کو دنیا کی لالچ سے پاک رکھیو!‘‘
(ملازم اندر آتا ہے)۔
پطرس:’’ اے مزدور پیشہ انسان مجھے تم پر رحم آتا ہے کہ ضیائے علم کی ایک کرن بھی کبھی تیرے سینے میں داخل نہ ہوئی۔ تاہم خداوند تعالیٰ کے دربار میں تم ہم سب برابر ہیں، تو جانتا ہے آج مہینے کی آخری تاریخ ہے، تیری تنخواہ کی ادائیگی کا وقت سر پر آگیا۔ خوش ہو کہ آج تجھے اپنی مشقت کا معاوضہ مل جائے گا۔ یہ تین اٹھنیاں قبول کر اور باقی کے ساڑھے اٹھارہ روپے کے لیے کسی لطیفہ غیبی کا انتظار کر۔ دنیا امید پر قائم ہے اور مایوسی کفر ہے۔‘‘
(ملازم اٹھنیاں زور سے زمین پر پھینک کر گھر سے باہر نکل جاتا ہے۔ بینڈ زور سے بجنے لگتا ہے)۔
پطرس:’’ خدایا تکبر کے گناہ سے ہم سب کو بچائے رکھ اور ادنیٰ طبقے کے لوگوں کا سا غرور ہم سے دور رکھ!‘‘ (پھر کام میں مشغول ہوجاتا ہے)۔
باورچی خانے میں کھانا جلنے کی ہلکی ہلکی بو آرہی ہے۔۔۔ ایک طویل وقفہ جس کے دوران میں درختوں کے سائے چوگنے لمبے ہوگئے ہیں۔ بینڈ بدستور بج رہا ہے۔ یک لخت باہر سڑک پر موٹروں کے آکر رک جانے کی آواز سنائی دیتی ہے۔ تھوڑی دیر بعد کوئی شخص دروازے پر دستک دیتا ہے۔
پطرس: (کام پر سے سر اٹھا کر)’’ اے شخص تو کون ہے؟‘‘
ایک آواز: (باہر سے)’’ حضور میں غلاموں کا غلام ہوں اور باہر دست بدستہ کھڑا ہوں کہ اجازت ہو تو اندر آؤں اور عرض حال کروں۔‘‘
پطرس: (دل میں) میں اس آواز سے ناآشنا ہوں لیکن لہجے سے پایا جاتا ہے کہ بولنے والا کوئی شائستہ شخص ہے۔ خدایا یہ کون ہے (بلند آواز سے) اندر آجایئے۔‘‘
(دروازہ کھلتا ہے اور ایک شخص لباس فاخرہ پہنے اندر داخل ہوتا ہے گو چہرے سے وقار ٹپک رہا ہے لیکن نظریں زمین دوز ہیں۔ ادب و احترام سے ہاتھ باندھے کھڑا ہے)۔
پطرس:’’ آپ دیکھتے ہیں کہ میرے پاس صرف ایک ہی کرسی ہے لیکن جاہ وحشمت کا خیال بہت پوچ خیال ہے۔ علم بڑی نعمت ہے۔ لہٰذا اے محترم اجنبی اس انبار میں سے چند ضخیم کتابیں انتخاب کرلو اور ان کو ایک دوسرے کے اوپر چن کر ان پر بیٹھ جاؤ۔ علم ہی لوگوں کا اوڑھنا اور علم ہی ہم لوگوں کا بچھونا ہونا چاہیے۔‘‘
اجنبی:’’ اے برگزیدہ شخص میں تیرے سامنے کھڑے رہنے ہی میں اپنی سعادت سمجھتا ہوں۔‘‘
پطرس:’’ تمہیں کون سے علم کی تشنگی میرے دروازے تک کشاں کشاں لے آئی؟‘‘
اجنبی:’’ اے ذی علم محترم! گو تم میری صورت سے واقف نہیں لیکن میں شعبہ تعلیم کا افسر اعلیٰ ہوں اور شرمندہ ہوں کہ میں آج تک کبھی نیاز حاصل کرنے کے لیے حاضر نہ ہوا۔ میری اس کوتاہی اور غفلت کو اپنے علم وفضل کے صدقے معاف کردو۔
‘‘(آبدیدہ ہوجاتا ہے)۔
پطرس:’’ اے خدا کیا یہ سب وہم ہے کیا میری آنکھیں دھوکا کھا رہی ہیں!‘‘
اجنبی:’’ مجھے تعجب نہیں کہ تم میرے آنے کو وہم سمجھو کیونکہ آج تک ہم نے تم جیسے نیک اور برگزیدہ انسان سے اس قدر غفلت برتی کہ مجھے خود اچنبھا معلوم ہوتا ہے لیکن مجھ پر یقین کرو میں فی الحقیقت یہاں تمہاری خدمت میں کھڑا ہوں اور تمہاری آنکھیں تمہیں ہرگز دھوکہ نہیں دے رہیں۔ اے شریف اور غم زدہ انسان یقین نہ ہوتو میرے چٹکی لے کر میرا امتحان لے لو۔‘‘
(پطرس اجنبی کے چٹکی لیتا ہے۔ اجنبی بہت زور سے چیختا ہے)۔
پطرس:’’ ہاں مجھے اب کچھ کچھ یقین آگیا ہے لیکن حضور والا آپ کا یہاں قدم رنجہ فرمانامیرے لیے اس قدر باعث فخر ہے کہ مجھے ڈر ہے کہ کہیں میں دیوانہ نہ ہو جاؤں۔‘‘
اجنبی:’’ ایسے الفاظ کہہ کر مجھے کانٹوں میں نہ گھسیٹو اور یقین جانو کہ میں اپنی گزشتہ خطاؤں پر بہت نادم ہوں۔‘‘
پطرس: (مبہوت ہو کر)’’ مجھے اب کیا حکم ہے؟‘‘
اجنبی:’’ میری اتنی مجال کہاں کہ میں آپ کو حکم دوں البتہ ایک عرض ہے اگر آپ منظور کرلیں تو میں اپنے آپ کو دنیا کا سب سے خوش نصیب انسان سمجھوں۔‘‘
پطرس:’’ آپ فرمائیے میں سن رہا ہوں گو مجھے یقین نہیں کہ یہ عالم بیداری ہے۔‘‘
اجنبی تالی بجاتا ہے چھ خدام بڑے بڑے صندوق اٹھا کر اندر داخل ہوتے ہیں اور زمین پر رکھ کر بڑے ادب سے کورنش بجالا کر باہر چلے جاتے ہیں۔
(صندوقوں کے ڈھکنے کھول کر)’’ میں بادشاہ معظم۔۔ شاہزادہ ویلز، وائسرائے ہند اور کمانڈرانچیف ان چاروں کی ایما پر یہ تحائف آپ کی خدمت میں آپ کے علم وفضل کی قدردانی کے طور پر لے کر حاضر ہوا ہوں ‘‘(بھرائی ہوئی آواز سے)’’ ان کو قبول کیجئے اور مجھے مایوس واپس نہ بھیجئے ورنہ ان سب کا دل ٹوٹ جائے گا۔‘‘
پطرس: (صندوق کو دیکھ کر)’’ سونا! اشرفیاں! جواہرات! مجھے یقین نہیں آتا‘‘ (آیت الکرسی پڑھنے لگتا ہے)۔
اجنبی:’’ ان کو قبول کیجئے اور مجھے مایوس واپس نہ بھیجئے۔‘‘ (آنسو ٹپ ٹپ گرتے ہیں)۔
(گانا۔ آج موری انکھیاں پل نہ لاگیں)۔
پطرس’’ اے اجنبی! تیرے آنسو کیوں گر رہے ہیں اور تو کیوں گا رہا ہے؟ معلوم ہوتا ہے تجھے اپنے جذبات پر قابو نہیں۔ یہ کمزوری کی نشانی ہے۔ خدا تجھے تقویت اور ہمت دے۔ میں خوش ہوں کہ تو اور تیرے آقا علم سے اس قدر محبت رکھتے ہیں۔ بس اب جا کہ ہمارے مطالعے کا وقت ہے۔ کل کالج میں اپنے لیکچروں سے ہمیں چارپانسو روحوں کو خواب جہالت سے جگانا ہے۔‘‘
اجنبی: (سسکیاں بھرتے ہوئے)’’ مجھے اجازت ہو تو میں بھی حاضر ہو کر آپ کے خیالات سے مستفید ہوں۔‘‘
پطرس:’’ خدا تمہارا حامی وناصر ہو اور تمہارے علم کی پیاس اور بھی بڑھتی رہے۔‘‘
(اجنبی رخصت ہوجاتا ہے۔ پطرس صندوقوں کو کھوئی ہوئی نظروں سے دیکھتا رہتا ہے اور پھر یک لخت مسرت کی ایک چیخ مار کر گر پڑتا ہے اور مر جاتا ہے۔ کمرے میں ایک پراسرار نور چھا جاتا ہے۔ اور فرشتوں کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ سنائی دیتی ہے۔ باہر بینڈ بدستور بج رہا ہے)۔
* * *