ل۔۔۔ر۔۔۔ل
حمادظہیر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسے کام دکھانے کے لئے ہمیشہ اندھیرے کی تلاش رہتی تھی، لیکن نہ جانے کیا بات تھی کہ اسے کوئی موقع ہی ہاتھ نہ آرہا تھا، اس کا وہ زمانہ اور دور گزر چکا تھا جب وہ چھوٹے موٹے ہاتھ مارا کرتا تھا۔ اب تو وہ بڑے بڑے کام انتہائی ڈھٹائی سے دکھا جاتا تھا۔ مگر ایک دو روز سے وہ اس ڈھٹائی سے بھی محروم تھا۔
ابتداء میں وہ لوگوں کی جیب کاٹا کرتا تھا یا نظر بچا کر کوئی قیمتی چیز غائب کردیا کرتا تھا، لیکن آہستہ آہستہ اسے ان کاموں میں بڑی زحمت محسوس ہونے لگی۔ دماغ اور تمام صلاحیتیں جو خرچ کرنی پڑتی تھیں۔ خطرہ الگ لگا رہتا تھا۔ محنت زیادہ تھی اور کمائی کم۔ گھروں کی دیواریں بھی پھلانگتا۔ کبھی بہت کچھ ہاتھ لگتا اور کبھی کچھ نہیں۔ لیکن مشکل بہت ہوتی۔ اس نے کبھی یوں محنت مشقت اور جان لڑانے والے کام کئے جو نہ تھے۔
پھر اسے ایک مرتبہ پولیس نے پکڑ لیا۔ اسے ہمیشہ ہی سے پولیس سے بہت ڈر لگتا۔ یونیفارم بھیانک، بڑی بڑی مونچھوں والے، لمبی لمبی بندوقیں لئے۔ بیلٹ میں نوکیلی نوکیلی گولیاں لگیں، بھاری بوٹ اور شور مچاتی گاڑی۔ اس کی حالت بہت خراب تھی۔ نہ جانے پولیس والے اس کے ساتھ کیا سلوک کریں، سوچ سوچ کر ہول رہا تھا۔
مگر۔۔۔
پولیس والوں نے اس کے ساتھ ایسا سلوک کیا کہ اس کے دل سے ان کا سارا خوف نکل گیا۔ وہ اسے اپنے ہی بھائی بندے اور دوست لگے۔ کوئی ثبوت تو ویسے ہی نہیں تھا، سوائے اس کے کہ انہوں نے اسے دیوار پھاندتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا تھا، رپٹ لکھی گئی تھی نہ ہی کوئی ایسا سامان اس کے پاس سے نکلا تھا۔ البتہ سارے پیسے جو اس نے نہ جانے کن کن ذرائع سے اُڑائے تھے تھانیدار کے ہاتھ لگ گئے تھے۔
تھانیدار بولا تھا ’’او تمہارا جرم تو بس یہ ہے کہ ہمیں بتائے بغیر اس علاقے میں کام شروع کردیا، کیا ساری رقم اکیلے اکیلے ہی اُڑانے کھانے کا پلان تھا؟‘‘
اس کو حامی بھرنی پڑی کہ آئندہ ان کو بھی شریک کرلیا کرے گا! اگلے دو تین ہفتوں بعد اسے پھر پولیس نے پکڑ لیا۔
’’کیوں بے سمجھ نہیں آئی ایک مرتبہ میں۔ ہم سے دھوکہ کررہا ہے‘‘۔
اس نے ہاتھ جوڑے
’’اتنا ہی مل پاتا ہے کہ بمشکل اپنا پیٹ چلتا ہے‘‘۔
تھانیدار نے جو کہ عوام خدمت کا منہ بولتا اور توند پھولتا ثبوت تھا، اس کو روپیہ کمانے کے کئی گر سکھا کر، ایک عدد پستول بھی اس کے حوالے کردیا۔
’’دیکھ کمار! میں بس نام کا مسلمان بنا ہوں ان لوگوں کے سامنے ورنہ اصل میں میرا دھرم بھی ہندو ہے۔ کسی کو بتانا مت!‘‘
وہ حیران رہ گیا۔ اس کا نام کمال تھا، جو کُمّا رہ گیا تھا۔ ایک عرصے سے اس نے اپنا اصل نام کمال نہیں سنا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ تھانیدار کو بھی کما بتایا اور وہ اسے کمار سمجھ بیٹھا۔
اور نام ہی کیا، اس کی کوئی حرکت بھی اسے مسلمان ثابت نہ کرسکتی تھی۔ بچپن میں کبھی اس نے اِکا دُکا اسلام کی باتیں سنی ہوں تو سنی ہوں۔ اب تو اس کا دور سے بھی ان سے کوئی تعلق نہ تھا، لہٰذا وہ کمار ہی بن گیا۔
پستول سے اس کی زندگی آسان ہوگئی۔
اب وہ سکون سے اندھیری گلیوں اور تنگ راستوں سے گزرنے والوں کو لوٹ لیا کرتا۔ پہلے اسے بہت سوچ سمجھ کر شکار منتخب کرنا ہوتا، مگر اب جسے اس کا دل چاہتا اسے لوٹ لیتا۔ کیا بچہ، کیا بڑا، کیا مرد کیا عورت۔ سب ہی اس کے پستول کے آگے کانپنے لگتے اور اس ہی کی مرضی کرتے۔
تھانیدار کی حمایت نہ ہوتی تو شاید تھوڑا بہت مسئلہ ہوتا، مگر وہ تو اس سے بہت خوش تھا اور اپنا حصہ باقاعدگی سے وصول کرتا تھا۔
مگر چند روز سے اس پر بُرا وقت تھا۔ اس کے بہت چاہنے کے باوجود اسے کوئی بڑا کام دکھانے کا موقع ہی نہیں مل رہا تھا۔ جتنے لوگوں پر اس نے ہاتھ ڈالا سب کنگال نکلے۔ غصے میں انہیں قتل کرنا چاہا تو پستول کا ٹریگر پھنس گیا یا شاید وہ خود ہی اسے پورے طریقے سے نہ دبا سکا۔
ڈاکہ مارنے نکلا تو بھی حالات نے اس کا ساتھ نہ دیا۔ کبھی وہ پھسل گیا اور پاؤں میں موچ آگئی تو کبھی کسی تیز دھار چیز سے ہاتھ ہی زخمی کربیٹھا۔
زیورات پہنی ایک امیر عورت کا پیچھا شروع کیا تو گاڑی سے ٹکرا کر زخمی ہوگیا۔ غرض اس نے صاف محسوس کیا کہ کوئی طاقت یا تو اس کے خلاف کام کررہی ہے یا کسی طاقت سے جو اب تک اس کی مدد کررہی تھی وہ اب محروم ہوچکا ہے۔
جوا کھیلنے بیٹھک کی طرف گیا تو گاہکوں کا بچا ہوا کھانے کا سامان نظر آیا جو ہوٹل کے باہر میزوں پر رکھا تھا۔ اسے کھانے میں لگ گیا۔ کمر سیدھی کرنے لیٹا تو ایسا سویا کہ صبح ہوگئی۔
اگلے روز دن بھر کی ناکامی کے بعد پھر جوئے کا پروگرام بنایا تو دیکھا اڈے پر اس کے دوست بھی خالی ہاتھ ہی دوسروں کی آس پر آئے پڑے ہیں۔ اس کی ہی نہیں سب کی مارکیٹ ڈاؤن تھی اور کسی قسم کا دھندہ نہیں تھا۔
لیکن ایک بات اور تھی جو سب سے مزیدار اور حیران کن تھی اور وہ بھی تقریباً ہر کسی کے ساتھ تھی کہ تمام کے تمام بھوکے پیاسے نہ تھے، بلکہ سب ہی کو کہیں نہ کہیں سے کچھ نہ کچھ ہاتھ لگ گیا تھا کہ ان کے پیٹ بھرے تھے۔
عیاشیوں یعنی جوئے، سنیما وغیرہ کے پیسے نہیں تھے، نفس بھوکا پڑا تھا ورنہ پیٹ تو سب کا بھرا تھا۔ شاید اسی وجہ سے اسے رات بہت دیر سے نیند آئی، بلکہ گویا علی الصبح اس کی آنکھ لگی۔ دن چڑھے اُٹھا۔ رات بھر نہ جانے کیا کیا سوچتا رہا تھا، شاید پہلی مرتبہ اس نے اپنی زندگی پر نظر ڈالی تھی اور اس کے مقصد پر غور کیا تھا۔ کمال کے لئے تو شاید کچھ گنجائش ہوتی مگر کمار کے لئے یہ سب بے کار ہی ثابت ہوا۔
منہ دھونے کے لئے پانی کا مسئلہ تھا۔ مسجد سے اسے بڑی چڑ تھی، لیکن اس کے باہر لگے نلکے کبھی کبھی استعمال کرلیتا تھا۔ اندر مسجد سے جمعہ کی تقریر چل رہی تھی۔ اس نے فوراً ایک پتھر اُٹھایا اور اسے پائپ میں مار مار کر شور کرنے لگا، تاکہ کہیں دھیان آواز پر نہ لگ جائے۔ تھانیدار نے اسے کہا تھا کہ
’’دیکھو ان مسلمانوں سے بہت دور رہنا۔ کسی پر بندوق تان کر بھی اسے بولنے مت دینا۔ ان کے پاس ایسی ایسی باتیں ہوتی ہیں کہ کچھ کرنے سے زیادہ خطرناک ثابت ہوتی ہیں!‘‘
سامنے مکان کی بالکونی سے ایک بڑھیا نے سر نکالا اور کہا۔
’’بیٹا شور نہ مچاؤ مجھے ویسے ہی کم سنائی دیتا ہے، امام کی آواز نہیں سمجھ آرہی!‘‘
وہ کھول اُٹھا۔ قریب ہی پڑی خالی کولڈڈرنک کی شیشی اُٹھائی اور اس زور سے اس بڑھیا کی بالکونی میں پھینکی کہ وہ ایک دھماکہ سے دیوار سے ٹکرا کر کرچی کرچی ہوگئی۔
ایسا کرنے میں جو کچھ دیر کا سناٹا ہوا اس میں اس نے سنا اور سرکش شیاطین قید کردیئے جاتے ہیں تو انسان ان بڑی بڑی برائیوں تک نہیں پہنچ سکتا جن کی طرف وہ غیر رمضان میں۔۔۔‘‘
بڑھیا نے کہا ’’اللہ تجھے ہدایت دے، میں نے آخر ایسا کیا کہہ دیا تھا۔۔۔!‘‘
امام صاحب کی بات بہت سے لوگوں کو عام سی لگی ہوگی۔ خود بڑھیا جو دعا روانی میں دے گئی اس کو بھی احساس نہ ہوا، مگر اس کا وہ اثر ہوا کہ وہ پھر سے کمار سے کمال بن گیا۔ اسے دل سے یقین تھا کہ امام کے منہ سے نکلی ہوئی بات اس کی اپنی نہیں، بلکہ کسی ایسے کی ہے جو بہت بڑا سچا ہے، اسے یہ نہیں پتا تھا کہ امام کب سے کیا کچھ کہہ رہا ہے اور یہی بات ہر سال کتنی مرتبہ دھراتا ہے، مگر اس کے لئے تو یہ عین حقیقت تھی، بالکل تازہ حقیقت! اس کے منہ سے نکلا:
’’سچ ہے بالکل سچ ہے۔ جو یہ آواز آرہی ہے میں اس پر ایمان لایا۔ اس نے جو کچھ اس سے پہلے کہا میں سب پر ایمان لایا‘‘۔
اذان ہوئی تو وہ انہی الفاظ کو دہرانے لگا۔ لوگوں کو دیکھ دیکھ کر اس نے بھی وضو میں ان کی نقل اُتاری۔ مگر مسجد کے اندر جاتے ہوئے اسے اپنے گندے کپڑوں سے گھن آنے لگی اور وہ دروازے ہی پر بیٹھ گیا۔
کچھ آتے جاتوں نے اس کی طرف سکے بھی لڑھا دیئے۔ مگر وہ ان سے بے نیاز تھا۔ پھر اسے دور کہیں سے تھانیدار کی آواز آئی۔ وہ اپنے ماتحتوں کو حکم دے رہا تھا۔
اس مسجد سے بھی آواز آرہی تھی۔ جاؤ اور گرفتار کرلو یہاں کے مولوی کو! چند پولیس اہلکار مسجد کے دروازے کی طرف بڑھنے لگے، وہ تن کر ان کے آگے کھڑا ہوگیا۔
’’ارے تم نے یہاں یہ دھندہ شروع کیا ہے‘‘۔ ایک پولیس والا بولا۔
’’ہاں ہاں آج کل تو بس یہی سب سے زیادہ چمکتا ہے۔ دوسری جگہوں کے لوگ یہاں آتے ہیں بھیک مانگنے!‘‘
’’تم اندر نہیں جاسکتے!‘‘ وہ غرایا۔
پولیس اہلکار گھبرا کر تھانیدار کی طرف متوجہ ہوئے، وہ کسی بزرگ کو پولیس موبائل آنے کی وجہ بتا رہا تھا۔
’’حکومت نے پابندی لگائی ہوئی ہے اسپیکر پر تقریر کرنے سے، پھر اس مولوی نے کیوں خلاف ورزی کی!‘‘
’’وہ ۔۔۔ وہ جی غلطی ہوگئی۔ میں ابھی بند کراتا ہوں۔ اب ایسا نہیں ہوگا‘‘۔ وہ صاحب گھبرا گئے۔
’’کیوں نہیں ہوگا، ضرور ہوگا۔ تمہیں کیا پتا اس آواز کو کتنی مائیں بہنیں اپنے گھر میں بیٹھ کر سنتی ہیں۔ تمہیں کیا پتا اس سے خدا کتنے شیطانوں کو انسان بنادیتا ہے۔ اس آواز کو کوئی بند نہیں کرائے گا!‘‘
’’او کمارے۔۔۔ دماغ خراب ہوگیا ہے کیا تیرا؟۔۔۔ کیا بک رہا ہے؟‘‘۔
’’دماغ صحیح ہوگیا ہے میرا۔ نہ تم یہاں سے مولوی کو گرفتار کروگے اور نہ ہی یہاں اسپیکر بند ہوگا۔ خیریت چاہتے ہو تو دفع ہوجاؤ۔۔۔ ہندو کی اولاد!‘‘
تھانیدار برداشت نہ کرسکا، شاید یہ بھی سوچا ہو کہ یہ تو پلٹ ہی گیا ہے، کہیں اس کے بھی کرتوت اور حقیقت نہ کھول دے، لہٰذا چلایا۔
’’ارے مفرور مجرم، ڈاکو۔۔۔ قاتل تیری تو ہمیں بہت دنوں سے تلاش تھی۔۔۔ گرفتار کرلو اسے‘‘۔ اس نے اپنے کارندوں کو حکم دیا۔
مگر۔۔۔
ادھر بھی پستول نکالا جاچکا تھا۔ تھانیدار اس کے ہاتھ میں اپنا دیا ہوا پستول دیکھ کر چونکا اور پھر فوراً ہی اوپر تلے اس پر کئی فائر کردیئے۔ اس کے گرنے کے بعد ہنستا ہوا اس کی طرف بڑھا۔
’’بڑا آیا ہمیں روکنے والا۔۔۔ قانون کے ہاتھوں کا اندازہ نہیں تھا بے چارے کو‘‘۔
وہ خون میں لت پت پڑا تھا۔ اس کے ہاتھ میں وہ پستول تھا جسے وہ گزشتہ کئی روز سے چلا نہیں پایا تھا۔ ڈوبتی سانسوں میں اس نے اس کا رُخ تھانیدار کی طرف کیا اور حیرت انگیز طور پر نہ صرف فائر ہوا، بلکہ ایسا نشانے پر بیٹھا جیسے کسی جن نے اس گولی کو اپنے ہاتھ میں لے کر اس کے دل میں گھونپ دیا ہو۔
پولیس والے گھبراہٹ میں صرف تھانیدار ہی کی لاش اُٹھاسکے۔ مسجد کے اندر سے لوگ نکل آئے تھے۔ امام صاحب نے کمال کی لاش کو روک لیا کہ وہ اس کی نمازِ جنازہ ضرور پڑھائیں گے۔
لوگوں نے بہت سمجھایا کہ یہ شخص مسلمان نہیں تھا۔ اس نے کبھی کوئی نیکی کا کام نہیں کیا۔ بدنام زمانہ ڈاکو ہے۔۔۔ مگر پھر بھی امام صاحب بضد تھے۔ نورانی شخصیت تھے۔ انہیں اس کے چہرے پر وہ کچھ نظر آرہا تھا جو شاید عام لوگوں کی نظر سے اوجھل تھا!