فارم ہاؤس سے نکلنا
حمادظہیر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انہیں ہرطرف پھلوں کے درخت نظر آرہے تھے اور پھر اچانک ایک کالا بھوت نظر آیا!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’یہاں تو مارنے کیلئے مکھیاں بھی نہیں ہیں۔ ساری دوپہر اور شام یہاں فارم ہاؤس میں توضائع نہیں کی جا سکتی۔‘‘ سنی جھنجھلا کر بولا۔
ہم لوگ ایک روز کیلئے شہر سے کافی دور ایک فارم ہاؤس میں پکنک منانے آئے ہوئے تھے۔ گزشتہ شام سے لے کر آج دوپہر تک میں ہمارا اس سے پوری طرح دل بھر چکا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ بڑوں کے قیلولے میں جاتے ہی ہم پانچوں سر جوڑ کر بیٹھ گئے تھے اور طے یہ پایا تھا کہ فارم ہاؤس سے متصل گاؤں میں چہل قدمی کی جائے۔
فارم ہاؤس کے دروازے پر ایک عدد بونگا سا چوکیدار بیٹھا تھا۔ اس کی آنکھوں میں دھول جھونک کر ہم باہر نکل گئے۔
’’ میرا خیال ہے کہ ہم ندی کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔‘‘ ٹیپو نے باہر نکلتے ہی مشورہ دیا۔
’’بھئی زیادہ باتیں نہ کرو۔ مجھے اس قدرتی ماحول کو نیچرل انداز میں محسوس کرنے دو۔‘‘ فوزی آپی ان دنوں ورڈز ورتھ کا مطالعہ کررہی تھیں۔ہم لوگ بھی ماحول کا مطالعہ کرتے آگے بڑھتے رہے۔ یہاں تک کہ ہمیں ندی کے اوپر ایک پل نظر آیا۔
پل کراس کرتے ہی ہم نے اپنے آپ کو ایک باغ میں پایا۔
’’ارے یہاں تو پھل بھی لگے ہوئے ہیں۔‘‘ ٹیپو بولا۔
’’ بھبھ۔۔۔ بھائی ۔۔۔ بھبھ۔۔۔ بھوک ۔۔۔ ‘‘ عفت ڈرے ڈرے انداز میں بولی۔
ہم سب نے گھور کر عفت کو دیکھا پھر سنی جھنجھلا کر بولا۔’’ اسی لیے میں کہتا ہوں، جب بھی مہم پر نکلا جائے ، بچوں کو ساتھ نہ لیا جائے۔‘‘ پھر ہمیں دیکھ کر اس نے ترمیم کی۔
’’ میرا مطلب ہے چھوٹے بچوں کو۔‘‘
’’ویسے کیا شاندار قسم کے امردو لگے ہوئے ہیں اور وہ بھی اتنے سارے۔‘‘ فوزی آپی آنکھیں میچ کر بولیں۔
خیرہم سب آڑھی ترچھی پگڈنڈیوں پر چلنے لگے۔وہ باغ کیا تھا ، انواع و اقسام کے پھلوں کی پوری فصل تھی۔ کیلے آئے تو کافی دیر تک کیلے ہی چلتے رہے۔ سیب کے درخت آئے تو ہر طرف سیب ہی سیب تھے۔
’’میرا تو دل چاہتا ہے کہ میں یہیں کہیں سیب کے درخت کے نیچے بیٹھ جاؤں اور آئن اسٹائن جیسی کوئی تھیوری دوں۔‘‘ ٹیپو نے اپنی خواہش کا اظہار کیا۔
’’وہ آئن اسٹائن نہیں نیوٹن تھا۔‘‘ ہم نے لقمہ دیا۔
’’ بھئی میں نے آئن اسٹائن اس لیے کہا ہے کہ اسے نوبل پرائز ملا تھا، جبکہ نیوٹن کو نہیں ملا تھا۔‘‘
’’نیوٹن کے زمانے میں تو شاید خود نوبل نہ رہا ہوگا، نوبل پرائز کا کیا سوال؟‘‘ فوزی آپی بھنویں اچکا کر بولیں۔
’’اب اس بحث کو چھوڑو کہ مرغی پہلے تھی یا انڈہ، اور یہ بتاؤ فروٹ چاٹ کب بنے گی؟‘‘ سنی نے جھگڑا ختم کرنے والے انداز میں کہا۔
’’کچھ اور سروے کر لیتے ہیں پھر بتائیں گے۔‘‘ ٹیپو نے کہا۔
ہم پھر آگے بڑھنے لگے۔ آگے کیا، ہمیں سمت کا اندازہ ہی نہ تھا۔ جدھر سینگ سماتے چل پڑتے۔ سحر انگیز قسم کا ماحول تھا، درختوں کی گھنی چھاؤں۔ نہ آدم نہ آدم زاد۔ کبھی کسی پرندے کی آواز آجاتی۔ ورنہ ہمارے ہی قدموں کی اور سوکھے پتوں کی چڑمڑاہٹ کی آوازیں تھیں۔
’’ میں تھک گئی!‘‘ عفت بے چارگی سے بولی اور ایک کونے میں بیٹھ گئی۔
’’اسی لیے کہتا ہوں کہ جب کسی مہم پر نکلا کرو بچوں کو ساتھ نہ لیا کرو۔ مم میرا مطلب ہے چھوٹے بچوں کو۔‘‘ اس مرتبہ اس نے ہمارے چہرے کی شکنوں کو دیکھے بغیر ہی تصحیح کر لی۔
’’ارے باپ رے، پانچ بج گئے اور ہمیں پتہ ہی نہ چلا۔‘‘ ہم گھبرا کر بولے۔
’’یعنی ہمیں نکلے ہوئے ڈیڑھ گھنٹہ ہو چکا ہے، اب ہم آدھے گھنٹے میں واپس کیسے جائیں گے۔‘‘ ٹیپو پریشان ہو کر بولا۔
’’تیز تیز چلیں گے تو پہنچ ہی جائیں گے، فروٹ چاٹ کی تو کوئی فکر کرو۔‘‘ سنی نے دلاسہ دینے کی کوشش کی۔
’’بھاڑ میں گئی فروٹ چاٹ، ہمارے ابا اٹھ گئے ہوئے تو شامت آجائے گی۔ ‘‘فوزی آپی تشویش سے بولیں۔
’’چلیں چلیں۔۔۔ واپس چلیں۔‘‘ عفت جلدی سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ سنی بری طرح اسے گھورنے لگا۔ ہم بات بنانے کیلئے بولے۔
’’ ارے کسی جلسہ میں تھوڑا ہی جا رہی ہو جو کہہ رہی ہو چلو چلو۔۔۔ لاہور چلو۔‘‘
ہم واپس ہوئے اور تقریباً پندرہ بیس منٹ چلنے کے بعد اندازہ ہوا کہ ہم غلط راستے پر ہیں۔
’’اس جگہ سے تو ہم نہیں گزرے تھے۔‘‘ ٹیپو بغور درختوں کو دیکھتے ہوئے بولا۔
’’ہاں ہاں۔۔۔ آتے ہوئے ہمیں کہیں یہ چیکو کے درخت نہیں ملے تھے۔‘‘ ہم نے تصدیق کی۔
’’ مم۔۔۔ مجھے امی کے پاس جانا ہے۔‘‘ عفت روہانسی ہو کر بولی۔
’’آؤؤں۔۔۔ خوں۔۔۔‘‘ سنی دانت پیستے ہوئے غرایا۔عفت کی بچکانہ حرکتوں پر اس کا خون کھول جایا کرتا تھا۔
’’ہمیں جلد از جلد وہ ندی تلاش کرنی چاہیے، پھر ہی ہم کسی نتیجہ پر پہنچ سکیں گے۔‘‘ ٹیپو نے مشورہ دیا۔
’’ہمیں نتیجہ پر نہیں بلکہ فارم ہاؤس پر پہنچنا ہے۔‘‘ فوزی آپی نے منہ بنایا۔
’’رات ہوتی تو شاید ہم ستارے ہی دیکھ کر سمت کا اندازہ لگا لیتے ۔‘‘ ہم نے آہ بھری۔
’’ارے، سورج سے بھی تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔‘‘ ٹیپو بولا۔ اور جلدی سے زمین پر بیٹھ کر آڑے ترچھے نقشے بنانے لگا۔
’’اس وقت سورج ادھر جا رہا ہے، یعنی ادھر مغرب ہے۔‘‘ ہم نے فارم ہاؤس میں اس طرف منہ کرکے نماز پڑھی تھی یعنی مغرب ادھر ہوا، ہم فارم ہاؤس سے نکل کر ادھر چلے تھے۔ بس پتا چل گیا۔ ہمیں اس طرف جانا ہے۔‘‘ ٹیپو نے انتہائی وثوق سے کہا۔
ہمارے پاس سوائے اس تنکے کو تھامنے کے اور کوئی سہارا نہ تھا۔ لہٰذا ہم سب دل ہی دل میں دعائیں کرتے اس طرف کو چل دیئے۔
’’ بھبھ۔۔۔ بھائی ۔۔۔ بھبھ۔۔۔ بھوت!‘‘ عفت کی ڈری سہمی آواز سنائی دی۔
’’اسی لیے کہتا ہوں ۔۔۔ اور بار بار کہتا ہوں کہ بچوں کو ۔۔۔ میرا مطلب ہے۔۔۔ کیا کہا بھوت۔‘‘ سنی کے کانوں سے بات عقل تک کافی دیر میں پہنچی تھی۔
ہم سب نے دیکھا جدھر عفت اشارہ کیے ہوئے تھی، وہ دبلا پتلا اور انتہائی کالا سا ایک آدمی تھا جس کے سر پر تو ایک بال بھی نہ تھا، جبکہ مونچھوں کی جگہ شاید کئی آدمیوں کے بال تھے۔ بہرکیف وہ کسی بھوت سے کم نہ لگتا تھا۔ اس نے کچھ کہنے سننے کے بجائے اپنی لاٹھی سے ایک طرف اشارہ کیا، گویا ہمیں بھیڑ بکریوں کی طرح ہنکانا چاہتا ہو۔
’’کہیں یہ ہمیں پکا کر کھانا تو نہیں چاہتا۔‘‘ فوزی آپی نے خدشہ ظاہر کیا۔ انہیں ہمیشہ کھانے پکانے ہی کی فکر لاحق رہتی تھی۔
’’ایسا کرتے ہیں ترکیب نمبر تیرہ لگاتے ہیں۔‘‘سنی بولا۔
’’کونسی تھی۔۔۔ مجھے تو یاد ہی نہیں۔‘‘ہم نے ذہن پر زور ڈالنے کی کوشش کی۔
’’اسی لیے کہتے ہیں کہ ناول کم پڑھو مگر ڈھنگ سے پڑھو۔‘‘ ٹیپو نصیحت کرنے کے انداز میں بولا۔
’’ارے جامو! یہ کون لوگ ہیں؟‘‘ ایک زوردار آواز سے ہم سب ہی کو چونکا دیا۔ بھوت تیز تیز چلتا ہم سے آگے بڑھ گیا۔ ہم نے دور درختوں کے پیچھے سے ایک آدمی کو آتے دیکھا۔
’’بھاگ چلیں۔‘‘ ہم نے بے چینی سے کہا۔
’’ کہاں بھاگیں گے، یہ کھیت اور باغات بھول بھلیوں سے کم نہیں اور پھر ہمارے ساتھ یہ ہیں۔‘‘ سنی نے لڑکیوں کی طرف اشارہ کیا۔
’’او۔۔۔ تم لوگ ہمارے یہاں چوری کرنے گھسے ہو؟‘‘ وہ آدمی بولا۔
’’نن نہیں۔۔۔ ہم تو راستہ بھول گئے ہیں۔‘‘ ٹیپو جلدی سے بولا۔
’’سارے چور یہی کہتے ہیں، کیا تم کوئی جاسوسی کرنے آئے تھے؟‘‘
’’ آپ تلاشی لے لیں جی۔۔۔ ہم چور ہیں نہ جاسوس۔‘‘ سنی ہمت کرکے بولا۔
’’ اور یہ چھوکریاں کون ہیں۔ تم انہیں اغوا کرکے لے جا رہے ہو کیا؟‘‘ اس آدمی کو یقیناًپولیس میں ہونا چاہیے تھا، جس حساب سے وہ الزامات لگا رہا تھا۔
’’انہی سے پوچھ لیں۔‘‘ ہم نے عفت اور فوزی آپی کی طرف اشارہ کیا۔
’’ او۔۔۔ یہ تمہیں حبس بے جا میں رکھے ہوئے ہیں۔‘‘ اس نے پوچھا۔ عفت کو اتنے مشکل لفظ کا مطلب کہاں پتا تھا ، اس نے معصومیت سے اثبات میں سر ہلا دیا۔
ہمارے تو قدموں تلے سے زمین سرک گئی۔ وہ بھوت چھلانگ لگا کر آگے بڑھا اور خوب زور سے ہم تینوں لڑکوں کے ایک ایک لاٹھی رسید کی۔ وہ آدمی جو کھیتوں کا مالک معلوم ہوتا تھا بولا۔ ’’چلو ۔۔۔ تم سے تو اب کوٹھری ہی میں چل کے بات ہوگی۔‘‘ناجانے کس کال کوٹھری کا ذکر کررہا تھا۔
سنی روتی آواز میں بولا۔ ’’اسی لیے کہتا ہوں، کہ جب کسی مہم پر نکلو، تو بچوں کو۔۔۔‘‘
’’ یہ ہمارے بھائی ہیں۔۔۔ ہم واقعہ راستہ بھول گئے ہیں۔‘‘فوزی آپی ہمت کرکے بولیں۔
’’اب تو تم سب چلو۔ ہمارے باغیچہ میں بغیر اجازت قدم کیسے رکھا تم لوگوں نے۔‘‘وہ آدمی انتہائی بے دل معلوم ہوتا تھا۔
’’یک نہ شد۔۔۔ دو شد۔۔۔ اب ان دونوں سے جان چھڑانا آسان نہ ہوگا۔‘‘ ٹیپو بولا۔
’’جان چھوٹ بھی گئی بچو تو کیا ہوا۔۔۔ فارم ہاؤس پہنچ کر تو پھر شہید ہی ہونا ہے۔‘‘ سنی ٹھنڈی آہ بھر کر بولا۔
راستے میں ہم نے اس آدمی کو بہت کچھ سمجھانے کی کوشش کی لیکن وہ پتھر دل ثابت ہوا۔ یہاں تک کہ ہم کوٹھری پہنچ گئے۔
’’ آپ ہمیں یہاں سے ایک فون ہی کرنے دیں، تاکہ کوئی دوسرا آکر ہی آپ کو تسلی کرا دے۔‘‘ سنی نے درخواست کی۔
’’ تم لوگ یہ ساری تسلی وغیرہ تھانیدار کو کراتے رہنا، تمہیں ہم انہیں کے حوالے کریں گے۔‘‘
’’تھتھ۔۔۔ تھانے! عفت نے کہا اور زاروقطار رونا شروع کر دیا۔
’’ آپ خدا کیلئے ہمیں تھانے ہی لے جائیں مگر جلدی کریں۔‘‘ٹیپو پر اس ویرانے ماحول اور ڈھلتی شام کا ایک ایک پل بھاری پڑ رہا تھا۔ خود ہم لوگوں کا دل بھی بیٹھا جا رہا تھا۔
’’ اب تو شام ہو گئی ہے، تھانہ بند ہو گیا ہوگا۔ صبح چلیں گے۔ ‘‘ وہ آدمی ایسے بولا جیسے پکنک پر جانے کی بات کر رہا ہو۔ عفت بے ہوش ہو گئی۔ سنی جو دوسروں کو بدھو بنانے میں کافی مہارت رکھتا تھااس وقت بے بس نظر آرہا تھا۔
’’دیکھیں اگر آپ نے ہمیں فوراً آزاد نہ کیا تو یہ بچی مر بھی سکتی ہے، اور اس کا الزام آپ کے اوپر آئے گا۔‘‘ ٹیپو کے اندر سے گویا ٹیپو سلطان بولا۔ ہم سب اس کے بے باکی پر دنگ رہ گئے۔
باغات کا مالک پہلی مرتبہ کچھ فکر مند نظر آیا۔ اور اس کے اندر انسانیت کی جھلکیاں نظر آنے لگیں۔
’’ لیکن شام کے بعد ہم سفر نہیں کرتے۔‘‘ وہ بولا۔
’’ آپ سے کون کہہ رہا ہے سفر کرنے کو۔۔۔ ہم خود ہی چلے جائیں گے کہیں نہ کہیں۔‘‘ ہم جل کر بولے۔وہ آدمی سوچنے کے انداز میں ٹہلنے لگا۔
’’اس لیے میں کہتا ہوں چھوٹے بچوں کو ہمیشہ ساتھ رکھنا چاہیے۔‘‘ ٹیپو نے سنی کے کان میں کہا۔
جامو پانی لے آیا تھا اور فوزی آپی عفت کو ہوش میں لانے کی کوشش کررہی تھیں۔ واقعی اگر یہ دونوں نہ ہوتیں تو جامو ہمیں کسی اندھے کنویں میں دھکیل کر اوپر سے ڈھکنا ڈال چکا ہوتا۔ شکل سے تو ایسا ہی لگتا تھا۔
’’مارے گئے لعل بخش مارے گئے۔‘‘ وہ آدمی شاید اپنا ہی نام لے رہا تھا، کھڑکی سے جھانکتے ہوئے بولا۔
ہم نے بھی دیکھا کہ دور سے ایک بڑی سی جیپ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی آرہی تھی۔
’’ کیا یہ بحری قزاق ہیں؟‘‘ فوزی آپی کو یہ بھی اندازہ نہیں تھا کہ ان کے منہ سے کیا بات نکل رہی ہے۔
’’ڈاکوؤں کا بھی سردار ہے، وڈیرہ سائیں، لیکن یہ آج کیسے آگیا؟ تم لوگوں کی نحوست کی وجہ سے، اب تو میں تم سب کو چھوڑوں گا نہیں۔‘‘ لعل بخش پریشانی اور غصہ کے ملے جلے لہجہ میں بولا۔
’’آخر یہ کرے گا کیا؟‘‘ ہم نے پوچھا۔ اندر ہی اندر خوشی بھی تھی کہ شاید اسی بہانے لعل بخش سے جان چھوٹ جائے۔
’’ کل ہی ہم نے پھلوں کی بیس پیٹیاں بنا کر رکھی ہیں، اب آٹھ دس تو یہ ہی لے جائے گا۔‘‘ لعل بخش حسرت سے بولا۔
’’آٹھ دس کیا بیس کی بیس لے جانی چاہیے، تم اسی قابل ہو۔ ‘‘ ہم نے دل ہی دل میں سوچا۔
’’پھلوں کی چوریاں الگ ہو رہی ہیں، اوپر سے عین کٹائی کے دن یہ مصیبت۔۔۔ یااﷲ کیا اس مرتبہ بھی اپنا قرضہ نہ چکا سکوں گا۔‘‘
اس مرتبہ لعل بخش ہمیں انسان ہی نہیں بلکہ مظلوم بھی لگا۔ اﷲ کا نام اس کے منہ سے سن کر ہمیں ایسا لگا جیسے ہمارا اس کا ایک رشتہ قائم ہو گیاہو۔ پہلے ہم اسے ہندو سمجھ رہے تھے، لیکن اب ہم ایک ہی رب کا نام لینے والے تھے۔
’’ آپ اس قابل تو نہیں ہیں، پھر بھی ہم آپ کی کیا مدد کر سکتے ہیں؟‘‘ سنی نے پوچھا۔
’’ہم سب مل کر بھی ان پیٹیوں کو نیچے تہہ خانے میں چھپائیں تو وڈیرے کے آنے سے پہلے ایسا نہیں کرسکتے۔ مجھے اور جامو کو ایسا کرنے میں پندرہ سے بیس منٹ لگتے ہیں۔ ‘‘ لعل بخش نے بتایا۔
’’ آپ دونوں کام شروع کریں۔ ہم وڈیرے کو باہر ہی روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘‘ سنی نے کہا۔
لعل بخش کو اندازہ تھا کہ ہم بھلا اس کیلئے کوئی کوشش کیوں کرنے لگے، پھر بھی اس نے رہی سہی امید پر سر ہلا دیا۔
عفت ہوش میں آچکی تھی۔ ہم سب باہر نکلے۔
’’ بھاگ چلیں۔‘‘ ہم چھوٹتے ہی بولے۔
’’ نا بابا ناں۔۔۔ وعدہ نبھانا ضروری ہے۔‘‘ سنی نے کہا۔ کچی سڑک اتنی اونچی نیچی تھی کہ وڈیرے کی جیپ زیادہ تیز نہ چل سکتی تھی۔ پھر بھی سنی نے اسے ہاتھ دے کر روکا۔
’’ارے وڈیرا سائیں، آپ یہاں گھوم رہے ہو، وہ تو آپ سے ملنے حویلی چلے گئے۔‘‘ اس نے بلند آواز میں کہا۔
’’ کون چلے گئے بابااور کون ہو تم لوگ۔‘‘ وڈیرہ روایتی لہجہ میں بولا۔ ہمیں اس کی جیپ میں کھڑے دو رائفل برداروں سے خوف محسوس ہونے لگا۔
’’ ہم ۔۔۔ ‘‘ سنی نے لاپرواہی سے کہا پھر اپنے بٹوے سے ایک کارڈ نکال کر آگے کر دیا۔ اسے طرح طرح کے وزیٹنگ کارڈ جمع کرنے کا جنون تھا۔
کارڈ پر نظر پڑتے ہی وڈیرے کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں، وہ گھبراہٹ کے عالم میں بولا۔
’’ چلو چلو۔۔۔واپس چلو بابا۔‘‘
فوزی آپی ہمارے کان میں بولیں۔
’’چلو چلو۔۔۔ لاہور چلو۔‘‘
جیپ نے جو رفتار پکڑی تو بری طرح ہچکولے کھانے لگی اور وڈیرہ اس کے اندر پنگ پانگ کی بال کی طرح اچھلتا کودتا نظر آیا۔ ہم سب کے چہروں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ جبکہ سنی حیرت سے دیکھنے لگا کہ ایسا کونسا کارڈ اس کے پاس سے نکل آیا۔جس نے جادو کا سا اثر کیا۔
’’ اب تو بھاگ ہی چلتے ہیں۔‘‘ ہم پھر بولے۔
’’ نہیں نہیں۔۔۔ رکو۔‘‘ پیچھے سے لعل بخش بھاگتا ہوا آیا۔ ‘‘ جامو گاڑی لے کر آرہا ہے۔‘‘ اس کی آنکھوں میں ممنونیت کے آثار تھے۔
’’ شکر ہے کہ آپ ہمیں صبح کے بجائے اسی وقت تھانے بھیجنے پر راضی تو ہوئے۔ ‘‘ ٹیپو منہ بنا کر بولا۔
’’ نہیں نہیں جی۔۔۔ آپ تو بڑے سرکار ہو۔ فرشتہ لوگ ہو۔۔۔جہاں کہو گے جامو لے جائے گا ۔ بس سائیں ہمارے لیے بھی دعا کرنا۔‘‘
’’دعا تو ہم تب کریں گے ناں جب تم زمین والوں پر رحم کرو گے، ان پر الزامات لگانے کے بجائے ان کی بات سنو گے۔۔۔ ‘‘ فوزی آپی لیکچر شروع ہی کرنے لگی تھیں کہ ہم نے ان کا ہاتھ پکڑ کر دبایا کہ بس کریں۔اسے اور شرمندہ نہ کریں۔
جامو جو گاڑی لے کر آیا اس نے ہمارے ایڈونچر میں اور اضافہ کر دیاکہ وہ بیل گاڑی تھی، جس پر ہمارے لیے پھلوں کی دو پیٹیاں بطور تحفہ کے موجود تھیں۔
ہم نے ایک پیٹی شکریے کے ساتھ وصول کرتے ہوئے ایک اسے لوٹا دی اور فارم ہاؤس کا رخ کیا۔ گو کہ وہاں کئی مشکل مراحل ہار پھول لیے ہمارے منتظر تھے، لیکن ہمیں خوشی بھی تھی کہ ہم نے ایک محنت کش کی خون پسینہ کی کمائی ہڑپ ہونے سے بچا لی تھی۔
*۔۔۔*۔۔۔*