شاہین ۲
حماد ظہیر
…………………
یاسر فکری طور پر تو اقبال کا شاہین تھا ہی ، ڈاکٹر خبیب نے اسے جسمانی طور پر بھی اس قابل کر دیا تھا کہ وہ شاہین کی طرح اُڑ سکے۔
…………………
یاسر اور اریبہ اپنے والدین کے ساتھ کپڑے کی ایک بڑی دکان میں خریداری کررہے تھے۔ امی نے ایک کپڑا اریبہ کو پکڑاتے ہوئے کہا:’’بیٹا ذرا ٹرائل روم میں جا کر مجھے یہ کپڑا تو پہن کر دکھاؤ تاکہ ناپ کا اندازہ ہوجائے۔‘‘
اریبہ نے وہ کپڑا لیا۔ جلدی سے ٹرائل روم کی طرف بڑھ گئی۔ پھر وہیں سے اس کی آواز آئی۔
’’بھیا۔۔۔ یہاں دروازے پر کسی نے پانی کا کولر رکھ دیا ہے، ذرا اسے ہٹا تو دیں تاکہ میں اندر جا سکوں۔‘‘
یاسر تیزی سے اس طرف بڑھا مگر ساتھ ہی اس کے ابو بڑبڑائے۔
’’ارے بیٹا! تم سے کہاں ہٹے گا وہ، ذرا اپنی صحت تو دیکھو۔‘‘
اور واقعی کولر کو دیکھ کر یاسر ایک ٹھنڈی آہ بھر کر رہ گیا۔ وہ کافی بڑا اور بھاری تھا۔ شاید اسے دو لوگ مل کر اٹھاتے ہوں گے۔
اس کے لیے اس کولر کو اٹھانا یا ہٹانا کچھ مشکل نہ تھا کہ ڈاکٹر خبیب کے تجربات نے اس کے اندر طاقت کوٹ کوٹ کر بھردی تھی مگر اریبہ کے سامنے وہ اس کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہتا تھا۔
’’ہینڈزاپ۔ سب اپنے ہاتھ اٹھا دو۔ کوئی ہلنے جلنے کی کوشش نہ کرے، ورنہ گولی مار دیں گے۔‘‘
کاونٹر کی طرف سے آواز آئی اور پھر کاؤنٹر کا شیشہ ٹوٹنے کا جھماکا بھی سنائی دیا۔اس کے ساتھ ہی تین چار نقاب پوش اسٹور کے چاروں طرف بھاگتے دوڑتے نظر آئے۔
اریبہ خوفزدہ ہو کر امی کی طرف دوڑی اور ان سے چمٹ گئی۔ یاسر کے لیے موقع اچھا تھا، اس نے جلدی سے کولر کو ایک طرف کیا اور ٹرائل روم میں گھس گیا۔
ابو نے یاسر کو آوازیں دیں مگر اس کی طرف سے کوئی جواب نہ آیا۔ وہ بے چین ہو کر ٹرائل روم کی طرف بڑھے مگر راستے میں ایک نقاب پوش آگیا۔
’’نا بابا نا۔۔۔ کوئی ہوشیاری دکھانے کی کوشش نہ کرو۔ اور شرافت سے اپنا والٹ میرے حوالے کر دو۔‘‘
یاسر کے ابو نے بے بسی سے اپنا والٹ نکال کر اس کو دے دیا۔
’او عورت، چلو تم بھی اپنا پرس ادھر دے دو۔‘‘ اب اس نے یاسر کی امی سے کہا۔
انھوں نے کِن اَکھیوں سے یاسر کے ابو کی طرف دیکھا اور بے چارگی سے اپنا پرس بھی اس کی طرف بڑھا دیا۔
دوسرے ڈاکو بھی دکان کے کاؤنٹر سے پیسے لینے کے بعد اب دکان میں موجود لوگوں سے پیسے لوٹ رہے تھے۔ ایسے میں دُکان کے دروازے پر کھڑا ڈاکو اُڑتا ہوا آیا اور دھڑام سے دروازے کے بیچوں بیچ گر پڑا۔ وہ اپنا پیٹ پکڑ کر یوں بُری طرح کراہ رہا تھا جیسے اس کی کمر کے سارے پرزے ہل گئے ہوں۔
سب نے چونک کر دروازے کی طرف دیکھا تو وہاں ایک بڑا سا پرندہ انسانی انداز میں کھڑا تھا۔
’’ارے یہ تو وہی ہے۔‘‘ اریبہ چیخ اُٹھی۔
سارے ڈاکو اپنے اپنے دھندے چھوڑ کر اس پرندے کی طرف مڑ گئے اور بولے:’’رک جاؤ اور اپنے ہاتھ اور پر اوپر اُٹھا لو، ورنہ ہم تمھیں گولیوں سے بھون ڈالیں گے۔‘‘
’’اچھا۔۔۔ یہ گولیاں اتنے کام کی ہیں۔ ہم خواہ مخواہ ہانڈی کو دیگچی اور چولھے پر بھونتے ہیں۔‘‘ پرندہ طنزیہ انداز میں بولا مگر اس کی آواز میں ایک گونج تھی۔
’’تڑتڑتڑتڑ۔۔۔‘‘ گولیاں چلنی شروع ہو گئیں۔ پرندہ جو شاہین معلوم ہوتا تھا، اپنے پر اپنے گرد لپیٹ چکا تھا۔ گولیاں اس کے پروں کو ایسے لگیں جیسے شرارتی بچوں نے کنکریاں ماری ہوں۔گولیاں ٹکڑاٹکر کر گرگئیں۔
’’بلاوجہ بھوننے کی باتیں کررہے تھے، یہ تو دوا کی گولیوں سے بھی ہلکی نکلیں۔‘‘ شاہین بولا۔
’’لگتا ہے تم لاتوں کے بھوت ہو، جو کارتوسوں سے نہیں مانے۔‘‘ ایک ڈاکو بولا اور آستین چڑھا کر شاہین کے سامنے آگیا۔ فوراً ہی ایک اور ڈاکو بھی اس کے برابر آکھڑا ہوا۔ ان ہٹے کٹے ڈاکوؤں کے آگے شاہین ذرا چھوٹا معلوم ہونے لگا۔ دُکان پر موجود لوگوں کے دل بھی دھک دھک کرنے لگے کہ اس وقت یہی پرندہ نما انسان ان کا نجات دہندہ تھا۔
شاہین نے ایک چھلانگ لگائی، پَر کھول دیے اور لمحہ بھر میں اُڑتا ہوا ان دونوں کے پیچھے آکھڑا ہوا۔ اس سے پہلے کہ وہ دونوں سنبھلتے اس کی زوردار لاتیں، ان دونوں کو پڑیں اور وہ فرش چاٹنے پر مجبور ہو گئے۔
دوسرے ڈاکوؤں نے جب یہ منظر دیکھا تو باہر کی طرف لپکے شاہین بھی ان کے پیچھے ہو لیا، مگر وہ پھرتی سے ایک وین میں بیٹھ چکے تھے۔ جن دو کی پٹائی ہوئی تھی وہ بھی پیدل ہی باہر کو دوڑ گئے تھے۔ ابھی وہ ان ڈاکوؤں کا پیچھا کرنے کا سوچ ہی رہا تھا کہ اندر سے اس کے ابو کی آواز آئی۔
’’یاسر بیٹا، باہر نکلو ڈاکو چلے گئے۔‘‘
پھر دکاندار کی آواز آئی: ’’مجھے لگتا ہے کہ ہمیں دروازہ توڑنا پڑے گا، کہیں بچہ خوف کی وجہ سے بے ہوش ہی نہ ہو گیا ہو۔‘‘
’’جی جی۔۔۔ کسی بھی طرح دروازہ کھولیں میرے بچے کو نکالیں‘‘ امی کی روتی ہوئی آواز آئی۔
اب پیچھا کرنے کا نہیں بلکہ عمارت کے پچھواڑے میں جانے کا وقت تھا تاکہ وہ روشن دان سے واپس ٹرائل روم میں جا کر یاسر بن سکے۔
ہتھوڑی اور پیچ کس سے دروازے کا تالا توڑا گیا تو اندر یاسر واقعی بے ہوش پڑا تھا۔ جبکہ اریبہ اس بات پر حیران ہورہی تھی کہ دروازے کے آگے سے اتنا بھاری کولر کیسے ہٹ گیا۔
*۔۔۔*
’’ہیرو ہیں میرے بھیا ہیرو!‘‘ زینب نے اریبہ کی نقل اُتار کر اس کا مذاق اُڑایا۔
’’ہاں، کیونکہ جب ڈاکو آتے ہیں تو ڈر کر ڈریسنگ روم میں چھپ جاتے ہیں۔‘‘ آمنہ ہنسی۔
’’ اور یہی نہیں۔۔۔ بلکہ اتنے بہادر ہیں کہ بے ہوش بھی ہوجاتے ہیں۔‘‘ زینب نے پھر چڑایا۔
’’باتیں بنانا بہت آسان ہے، کبھی تم لوگوں کا پالا پڑا نا ڈاکوؤں سے، پھر پوچھوں گی۔‘‘ اریبہ نے منھ بنایا۔
’’آخر تم بھی تو تھیں وہاں۔ لڑکی ہو کر بھی تم تو بے ہوش نہیں ہوئی۔‘‘ آمنہ بولی۔
’’ میں فوراً امی سے جا کر لپٹ گئی تھی۔‘‘ اریبہ نے بتایا۔
’’تو وہ بھی ابو سے آکر لپٹ جاتے، کم از کم یوں چھپتے تو نہیں۔‘‘ زینب نے کہا۔
’’وہ اس لیے ٹرائل روم میں گئے تھے تاکہ وہاں سے ڈاکوؤں کے خلاف کوئی ترکیب لڑا سکیں۔‘‘ اریبہ نے صفائی پیش کرنے کی کوشش کی۔
’’اور سب سے بہترین ترکیب یہ تھی کہ خود بے ہوش ہوجاؤ۔‘‘ آمنہ نے کہا تو زوردار قہقہہ لگا اور اریبہ جھینپ کر رہ گئی۔
*۔۔۔*
’’یار تم ہمارے درمیان تو بڑی ڈینگیں مارتے ہو، لیکن جب تمھاری عقابی روح کو بیدار ہونے کی ضرورت پڑتی ہے تو تمھاری اصل روح بھی پرواز کرجاتی ہے؟‘‘ فراز طنزیہ لہجے میں بولا۔
’’وہ میں نے سوچا کہ ہاتھ اٹھا کر ڈاکوؤں کے سامنے کھڑے رہنے سے بہتر ہے کہ کسی محفوظ مقام پر بیٹھ کر ان کے خلاف کوئی کارروائی کروں۔‘‘
’’ارے، اس نے کیا کرنی تھی کارروائی بلکہ کارروائی تو اس شاہین نما انسان نے کی، کیا پچھاڑا ہے ڈاکوؤں کو، گولیوں کے آگے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر آکھڑا ہوا۔ڈاکو بے چارے تو لوٹا ہوا سامان تک چھوڑ کر بھاگے گئے۔‘‘ فاروق نے بات کا رُخ موڑا۔
’’ہاں مگر فائدہ اس شاہین کا جب ڈاکو پکڑے ہی نہیں گئے؟‘‘ یاسر نے کندھے اُچکائے۔
’’نہیں نہیں۔۔۔ وہ شاہین ان کے پیچھے گیا ہے، ضرور ایک دو دن میں وہ انھیں کسی نہ کسی طرح پکڑوادے گا۔‘‘
’’اگر ہاتھ آئے مجرموں کو پکڑنے میں بھی ایک دو دن لگا دے تو پھر اسے شاہین کہنا توہین ہے، اسے تو پولیس والا کہنا چاہیے!‘‘ یاسر نے بات اُچکی۔
’’ویسے یار وہ چیز کیا ہے، انسان ہے پرندہ ہے یا دونوں کا مجموعہ؟‘‘ فاروق نے موضوع بدلا۔
’’ ہے تو وہ انسان ہی کیونکہ دکان میں موجود لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ بولتا تھا۔‘‘ جبران بولا۔
’’بولتا تو توتا بھی ہے، تو کیا وہ بھی انسان ہوتا ہے؟‘‘ یاسر نے دلیل دی۔
’’تم تو چپ ہی رہو۔ دو مرتبہ موقع ملا اسے دیکھنے کا اور دونوں دفع ضائع کر دیا۔‘‘ فراز جل کر بولا۔
’’ ہاں۔۔۔ ہے تو وہ انسان ہی اور اس نے کچھ ایسے پر بنا کر لگا لیے ہیں جن کی مدد سے وہ اُڑ بھی سکتا ہے۔‘‘ فاروق نے تجزیہ پیش کیا۔
’’ہاے ۔۔۔ کاش مجھے بھی ایسے پَر مل جائیں کہیں سے، میں بھی مزے سے آسمانوں میں اڑتا رہوں!‘‘ جبران حسرت سے آہ بھر کر بولا۔
’’ صرف پروں سے کچھ نہیں ہوتا ۔ عقابی روح بیدار کرو اپنے اندر، عقاب کو عقب اس کا جوش اور ولولہ بناتا ہے، عادات اور کردار بناتی ہیں، ورنہ پَر تو کوے اور گدھ کے بھی ہوتے ہیں۔‘‘ یاسر کو جوش آہی گیا۔
’’چلو بھائی چھٹی ہوئی۔ روح بیدار ہو گئی ہمارے عقاب کی، میں تو چلا!‘‘ فراز ایک طرف کو ہو لیا تو سب ہی اِدھر اُدھر ہوگئے۔
*۔۔۔*
اسکول کی پکنک تھی۔ سارے طلبہ و طالبات اور اساتذہ چار پانچ بڑی بڑی بسوں میں بیٹھ کر ایک پُرفضا پہاڑی مقام پر آگئے تھے۔ کہیں لڑکے اپنے کھیلوں میں مشغول تھے تو لڑکیاں اپنی خوش گپیاں کررہی تھیں۔ اساتذہ بھی ایک طرف بیٹھے ان کو ہنستا کھیلتا دیکھ رہے تھے۔
اچانک پانچ بندوق بردار چاروں طرف سے نکل کر ان کے سامنے آگئے۔
’’چلو۔۔۔ سب ایک طرف ہوجاؤ نہیں تو گولی مار دیں گے۔‘‘ وہ چلّائے اور سب کو ایک کونے کی طرف ہانکنا شروع کر دیا۔
’’ارے، یہ تو وہی ہیں۔‘‘ اریبہ خوف سے بڑبڑائی۔
’’ کون؟‘‘ مس عائشہ نے پوچھا۔
’’ جو اس دن دکان لوٹنے آئے تھے۔‘‘
’’ اوہ۔‘‘
مس عائشہ نے اُچک اُچک کر یاسر کو دیکھنے کی کوشش کی کہ شاید وہ کہیں اِدھر اُدھر سرک گیا ہو تو بعد میں پیچھے سے کارروائی کردے، مگر وہ عین ایک بندوق بردار کی زد میں آگے بڑھتا ہوا نظر آگیا اور وہ صرف افسوس ہی کرتی رہ گئیں۔
یاسر چاہتا تو ایک لمحہ میں اس بندوق بردار پر قابو پا لیتا، لیکن اس صورت میں چاروں طرف پھیلے ہوئے دوسرے بندوق بردار دوسرے بچوں کو یرغمال بنا کر انھیں نقصان پہنچا سکتے تھے اور اس بنا پر یاسر کو بھی قابو کر لیتے۔
بندوق برداروں نے سب کو ایک طرف کھڑا کر دیا اور خودد وسری طرف کھڑے ہو کر بندوقیں تان لیں۔
’’تم لوگ آخر چاہتے کیا ہو؟‘‘ مس عائشہ ان کے ارادے بھانپتے ہوئے بولیں، کیونکہ یہ لوٹ مار کی کارروائی معلوم نہیں ہو رہی تھی۔
’’ہم صرف تم سب کی جان لے کر دہشت گردی کی نئی تاریخ رقم کرنا چاہتے ہیں تاکہ ساری دنیا تمھارے ملک پر تھوکے!‘‘ بندوق برداروں میں سے ایک نے زمین پر تھوکتے ہوئے کہا۔ اس کے الفاظ سے صاف اندازہ ہو گیا کہ وہ دشمن ملک سے تعلق رکھتا ہے۔
’’تو اس دن تم لوگوں نے دکان پر دہشت گردی کرنے کے بجاے لوٹ مار کیوں کی تھی؟‘‘ مس عائشہ نے وقت گزارنے کے لیے سوال کر ڈالا۔
’’اوہ۔۔۔ تو تم بھی وہاں موجود تھیں ۔۔۔ بس تم لوگوں کو مارنے سے پہلے تفریحاً کچھ لوٹ بھی لیا تھا، مگر وہ کم بخت جوکر کہاں سے آگیا اور سارا کھیل خراب کر دیا۔‘‘
’’جوکر؟‘‘ موت کے منھ میں ہوتے ہوئے بھی فراز اور جبران کی ہنسی نکل گئی۔
’’ ہاں ، لگتا ہے کسی آدمی نے کارٹون کا لباس پہننا ہوا تھا۔ ہم بلاوجہ گھبرا گئے۔ خیر، یہاں بھلا وہ کہاں سے آسکتا ہے۔‘‘
’’چلو ساتھیو! چلا دو گولیاں اور ان سب کو بھون ڈالو۔‘‘ بندوق بردار چلایا۔
’’اچھ۔۔۔ چھا ! یہ گولیاں اتنے کام کی ہیں، ہم خواہ مخواہ ہانڈی کو دیگچی اور چولھے پر بھونتے ہیں۔‘‘ اس آواز کا سننا تھا کہ تمام بندوق بردار اُچھل پڑے اور ایک ساتھ اس آواز کی طرف دیکھنے لگے۔
یہ اریبہ تھی، جس نے اس دن بولے گئے شاہین کے جملے کو دُھرایا تھا۔
’’چلو۔۔۔ پہلے اسی بچی کو گولیوں کا ذائقہ چکھاؤ!‘‘
’’ نہیں۔۔۔ میرے ہوتے ہوئے تم میری بہن کو ہاتھ بھی نہیں لگا سکتے!‘‘ یاسر آگے بڑھا اور تن کر کھڑا ہو گیا۔
’’چلو، کبھی تو ٹھیک وقت میں یہ بدروح بیدار ہوئی۔‘‘ جبران نے فراز سے سرگوشی کی۔
مس عائشہ بڑے تذبذب کا شکار تھیں۔ انھیں معلوم تھا کہ ڈاکٹر خبیب نے اس سے عہد لیا ہے کہ وہ اپنے شاہین والے راز کو عوام میں پتا نہیں چلنے دے گا۔
دوسرے یہ کہ اگر وہ بغیر لباس کے ان دہشت گردوں سے لڑتا تو گولیاں چلنے کی صورت میں یا وہاں موجود دوسرے بچوں کو زبردست نقصان پہنچ سکتا تھا۔
کیا یاسر اپنا عہد توڑ دے گا اور سب کے سامنے شاہین کا لباس پہنے گا، یا سب کی جان خطرے میں ڈال دے گا؟ مس عائشہ کی کچھ کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔
’’ کیا کر لو گے تم ننھے لڑکے؟‘‘ بندوق بردار ایسے بولا جیسے یاسر بچہ نہیں بلکہ کوئی کیڑا مکوڑا ہو۔
یاسر آگے بڑھا اور دوڑتا ہوا بندوق بردار کی طرف لپکا۔ اس کے انداز سے کمزور پن اور اناڑی پن دونوں واضح جھلک رہا تھا۔
بندوق بردار نے کچھ نہیں کیا، بس ایک طرف کو جھکائی دے دی اور ہلکا سا مزید دھکا بھی۔ یاسر اپنی رو میں دوڑتا ہوا سیدھا کھائی میں گر گیا۔ اس کی چیخ کی گونج بڑی دیر تک سنائی دیتی رہی۔
وہاں موجود بچوں کی بھی چیخ نکل گئی۔ اریبہ نے تو باقاعدہ دھاڑیں مار مار کر رونا شروع کر دیا۔ زینب اور آمنہ اسے تسلیاں دینے لگیں۔ مگر اس نے اپنے ہاتھ چھڑائے اور آگے بڑھنے لگی۔
’’ میں چھوڑوں گی نہیں تم لوگوں کو۔ تم نے میرے بھائی کو مار ڈالا۔ میرے پیارے بھائی کو! ‘‘ وہ دیوانگی میں آگے بڑھ رہی تھی۔
’’چلو۔۔۔ اسے بھی اس کے بھائی کے پاس پہنچا دو، بہت شور کررہی ہے۔‘‘
ایک بندوق بردار نے اسے گود میں اٹھایا اور بے دردی سے کھائی میں پھینک دیا۔
اس کی بھی چیخ اسی طرح گونجتی ہوئی سنائی دیتی رہی اور پھر موت کا سناٹا چھا گیا۔
’’ ہاں بھئی ہے کوئی اور جو گولیوں کی افادیت اور ہانڈی بھوننے کی معلومات میں دلچسپی رکھتا ہو؟‘‘
’’ہاں میں ہوں!‘‘ سب نے گھوم کر دیکھا تو وہاں شاہین کھڑا تھا مگر اس سے پہلے کہ ان کی آنکھیں اس کو صحیح سے فوکس کرتیں، وہ قطار میں کھڑے بندوق برداروں پر جھپٹا اور ایک ہی اُڑان میں ان سب سے بندوقیں چھینتا چلاگیا۔
ایک دو بندوقیں چل بھی گئیں مگر شاہین پر اس کا کوئی اثر نہ ہوا۔
سارے دہشت گرد اب اپنے خالی ہاتھوں کو حیرت سے تَک رہے تھے۔ شاہین نے بندوقیں دور اُونچائی پر پھینکیں اور اب بچوں اور غنڈوں کے درمیان آکھڑا ہوا۔
’’بولو۔۔۔ اب تمھارے ساتھ کیا کیا جائے!‘‘ مار دیا جائے یا چھوڑ دیا جائے؟‘‘
’’مار دیا جائے، اِنھوں نے ہمارے دو دوستوں کو مارا ہے۔ اور خون کا بدلہ خون ہے۔‘‘ بچے ملی جلی آوازوں کے ساتھ بولے، مگر مس عائشہ کی آواز ان میں نہیں تھی۔ وہ شاہین کو دیکھ کر ستائشی انداز میں مسکرا رہی تھیں۔
غنڈے جنگجوؤں کے انداز میں آگے بڑھے اور حملے کے لیے پَر تولنے لگے، لیکن اصل پَر تو شاہین کے پاس تھے۔ اس نے جو اپنا دایاں پَر دائیں سے بائیں گھمایا تو غنڈے تڑپ تڑپ کر پیچھے گر پڑے۔ شاہین کے پَر تھے یا کوئی تیز دھار آلہ، ان کے کپڑے پھٹ گئے اور جسموں پر ایسی خراشیں آگئیں گویا بلیڈ سے وار کیے گئے ہوں۔
دور کہیں سے پولیس کی جیپ آتی نظر آئی۔ شاید کسی نے اسے اطلاع کردی تھی۔ شاہین نے سب کو الوداعی سلام کیا اور واپس کھائی میں اُڑتا چلا گیا۔
’’ صرف اریبہ کا بھائی ہی ہیرو نہیں تھا۔ وہ خود بھی ہیرو تھی۔‘‘ آمنہ آنسو پونچھتے ہوئے بولی۔
’’ ہاں شاید ان دونوں کی چیخیں سن کر ہی شاہین یہاں پہنچا تھا۔ ورنہ تو ہم سب مار دیے گئے ہوتے۔ ‘‘ زینب بھی روتے ہوئے بولی۔
ادھر لڑکوں میں بھی کچھ اسی طرح کی باتیں چل رہی تھیں۔
’’ یارب عقابی روح ہی نے اس عقاب کو یہاں بھیجا، اپنی جان کا نذرانہ دے کر۔‘‘ فاروق بولا۔
’’ہم نے ہمیشہ اس کا مذاق اُڑایا اور آج وہ خود کو اقبال کا شاہین ثابت کر ہی گیا۔‘‘ فراز نے کہا۔
’’واقعی ۔۔۔ بات روح بیدار ہونے کی ہے، پَروں وروں سے کچھ نہیں ہوتا۔‘‘
’’ ہوتا کیوں نہیں۔‘‘ یاسر کی آواز آئی۔’’ یہ دہشت گردوں کا حال اس شاہین نے اپنے پَروں ہی سے تو کیا ہے۔‘‘
’’ارے یاسر تم۔‘‘ یاسر نے ہاتھ دے کر اریبہ کو بھی اوپر چڑھایا اور اپنے کپڑے جھاڑتا ہو ا بولا: ’’ میں تو باز آیا بھئی عقابی روح سے۔ جب وہ شاہین مجھے کھائی کے نیچے سے اوپر کی طرف لا رہا تھا تو میری تو جان نکلی جارہی تھی۔ اتنا مشکل کام ہے بلند ی سے نیچے دیکھنا!‘‘ یاسر نے کانوں کو ہاتھ لگائے۔
زینب اور آمنہ بھاگی بھاگی اریبہ کی طرف گئیں اور اسے خوشی سے گلے لگا لیا اور سرگوشی میں بولیں
’’ہیرو ہیں تمھارے بھیا بھی اور تم بھی۔‘‘
*۔۔۔*