بزرگ کی دعا
کہتے ہیں عجم کے بادشاہ کو ایک ایسی بیماری لگی جس کا شاہی طبیبوں کے پاس کوئی علاج نہ تھا۔ انھوں نے بہت کوشش کی کہ بادشاہ تندرست ہوجائے مگر کوئی دوا کارگر ثابت نہ ہوئی۔ بادشاہ دن بہ دن لاغر ہوتا چلا گیا اور سوکھ کر کانٹا ہوگیا۔ مرض لا علاج ہوگیا توبادشاہ کے ایک درباری نے اس سے کہا: ’’بادشاہ سلامت، شہر کے دور دراز کے ایک علاقے میں ایک ایسے بزرگ رہتے ہیں جو کوئی بھی دعا مانگیں، رد نہیں ہوتی۔اگر وہ دعا کریں تو بادشاہ سلامت کو شفا مل سکتی ہے۔‘‘ بادشاہ نے اسی وقت ایک وزیر کو حکم دیا کہ وہ بزرگ کی خدمت میں حاضر ہوکر بادشاہ کی شفا کے لیے دعا کرنے کی التجا کرے۔
بادشاہ کا حکم ملتے ہی وزیر ان بزرگ کی خدمت میں حاضر ہوا اور بادشاہ کی شفا یابی کے لیے دعا کرنے کی درخواست کی تو بزرگ آگ بگولا ہوگئے اور کہنے لگے: ’’فقیر کی دعا بادشاہ کو کس طرح فائدہ پہنچا سکتی ہے جبکہ وہ ظالموں میں سے ہے۔خدا کی مخلوق پر ظلم کرتا ہے، کیا اسے خدا کا خوف نہیں؟خدا اس سے ناراض ہے، وہ اس پر کیونکر رحم کھائے!اس سے کہو پہلے توبہ کرے پھر خدا سے اپنے گناہوں کی معافی مانگے، خدا اسے معاف کردے گا۔‘‘
وزیر نے آکر بادشاہ کو بزرگ کی باتوں سے آگاہ کیا۔ بادشاہ کی بند آنکھیں کُھلیں اور اس کے اندر کی تاریکی میں روشنی پیدا ہوگئی، اس نے خدا کے حضور سر جھکا کر روتے ہوئے گڑ گڑ ا کر توبہ کی۔
خیرات کے لیے خزانوں کے دروازے کھول دیے، عوام پر بے جا ظلم ختم کیا،بے گناہ قیدیوں کو رہا کردیا تو یہ خبر ان بزرگ تک پہنچی۔ وہ بہت خوش ہوئے، وضو کیا، نماز ادا کی اور اس بادشاہ کی صحت یابی کے لیے دعا کی۔بزرگ کی دعا کے چند ہی دنوں بعدبادشاہ کی حالت بہتر ہونے لگی اور وہ صحت یاب ہوگیا۔ جو کام شاہی طبیبوں سے نہ ہوا وہ کام بادشاہ کی سچی توبہ اور بزرگ کی دعا سے ہوگیا۔