شیطان کی مات
جاوید بسام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دکان اور مکان میں تو ان کی تیلی نے کام کر دکھایا تھا لیکن جب وہ میدان پہنچے تو حیران رہ گئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک دن دُور ویرانے میں پہاڑی کے پیچھے شیطان اپنے نئے چیلیکو سبق پڑھا رہا تھا۔ وہ انسانوں کو گناہ پر مائل کرنے کے طریقے، ان کی کمزوریاں اور اپنے خیالات کے بارے میں بتا رہا تھا۔ اس کے پاس ایک چھڑی پڑی تھی۔ چیلے کا دھیان ہٹتا تو شیطان اسے چھڑی سے مارتا ۔ اپنی بات ختم کرتے ہوئے اس نے کہا: ’’ان باتوں کو ہمیشہ یاد رکھنا، اچھا اب ہم عملی سبق کے لیے انسانوں کے درمیان چلتے ہیں۔‘‘
دونوں نے وہاں سے اُڑان بھری اور آبادی میں جا اُترے۔ وہ انسانوں کی نظروں سے پوشیدہ تھے۔ اُنھیں ایک دُکان نظر آئی۔ اس کے بورڈ پر ’علی برادرز‘ لکھا تھا۔ وہ اس میں داخل ہو گئے۔ دُکان کے مالک دو بھائی تھے۔ بڑا بھائی کاؤنٹر پر بیٹھا تھا اور چھوٹا کچھ سامان درست کررہا تھا۔ بڑے بھائی نے سفید رنگ کے نئے کپڑے پہنے ہوتے تھے جبکہ چھوٹے کے کپڑے سادہ تھے۔ شیطان نے چیلے کو اشارہ کیا اور چھوٹے بھائی کے دل میں وسوسہ ڈالا۔ اس نے چونک کر بڑے کو دیکھا اور سوچنے لگا۔ کتنے اچھے اور قیمتی کپڑے ہیں، ہم خرچے کے لیے برابر پیسے لیتے ہیں لیکن میں ایسے کپڑے نہیں بنا پاتا۔ شیطان نے اس کے کان میں سرگوشی کی۔ پوچھو تو سہی کپڑے کہاں سے آئے ہیں۔ اس نے کام سے ہاتھ روک لیا اور کہا : ’’بھیا کپڑے تو اچھے پہن رکھے ہیں، کتنے کے لیے؟‘‘
’’ارے میں نے کہاں لیے ہیں۔یہ تو مجھے سسرال سے تحفے میں ملے ہیں۔‘‘ بھائی نے خوش دلی سے کہا۔
شیطان نے کہا جھوٹ بول رہا ہے، یہ دُکان سے پیسے چراتا ہے۔
چھوٹے نے پوچھا۔ ’’ آپ کے سسرال والے اتنے امیر تو نہیں پھر ایسا جوڑا کیسے دے دیا؟‘‘
’’ بھئی وہ بہت چلن سے چلنے والے لوگ ہیں کچھ انتظام کر لیا ہوگا۔‘‘
شیطان نے کہا یہ جھوٹا ہے، تمھیں اس پر نظر رکھنی ہوگی۔ چھوٹے بھائی نے دھیرے سے گردن ہلائی۔ بڑا بھائی سوچ رہا تھا یہ مجھ سے جلتا ہے مجھے اس سے ہوشیار رہنا ہوگا۔
شیطان اور چیلا(شاگرد، پیرو) دُکان سے باہر نکل آئے۔ شیطان نے مکاری سے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’ دیکھا تم نے میرا کمال۔ یہ دونوں باپ کے مرنے کے بعد اتحاد و اتفاق سے اپنا کاروبار چلا رہے تھے لیکن میں نے آج ان کے دلوں میں نفاق کا بیج بو دیا ہے۔ جوں جوں وقت گزرے گا اس بیج کو شک کی ہوا اور حسد کا پانی لگتا رہے گا۔ کچھ دنوں میں بیج سے پودا پھوٹے گا جو جلد تناور درخت بن جائے گا۔ جس دن اس پر پھل لگے گے وہ ان کے اتحاد کا آخری دن ہوگا۔‘‘
دونوں آگے بڑھ گئے۔ وہ گلی سے گزر رہے تھے کہ ایک گھر سے کسی عورت کے چلانے کی آواز آئی۔ وہ گھر میں داخل ہو گئے۔ ایک ادھیڑ عمر عورت اپنی بہو پر چلا رہی تھی۔
’’ارے! جلدی کر اتنے کام باقی ہیں، کہاں کھوئی ہوئی ہے؟‘‘
’’صبح سے کام تو کررہی ہوں، میرے دو ہاتھ ہیں چار نہیں۔‘‘ بہو نے جھاڑو دیتے ہوئے سخت لہجے میں کہا۔
’’تیری زبان بہت چلنے لگی ہے۔‘‘ ساس غصے سے بولی۔
’’ اماں کچھ کام تم بھی کر لیا کرو۔ ماشا اﷲ ہٹی کٹی ہو ۔‘‘ بہو نے کہا۔
’’ لو میں کیوں کام کروں، تجھے کس لیے بیاہ کر لائی ہوں۔‘‘ ساس چلائی۔
’’ اچھا تمھیں بہو نہیں ماسی کی ضرورت تھی۔‘‘ بہو نے جل کر کہا۔
دونوں طرف سے تند و تیز حملے جاری تھے۔ شیطان اور چیلا ایک طرف کھڑے مسکرا رہے تھے۔ بہو دل میں سوچ رہی تھی۔ بس بہت ہو گیا آج ہی شوہر سے الگ گھر لینے کی بات کرتی ہوں۔ ساس سوچ رہی تھی۔ اس کو قابو کرنے کے لیے اور سختی کرنا پڑے گی ورنہ یہ تو سر پر چڑھ جائے گی۔
دونوں گھر سے باہر نکل گئے۔ شیطان نے قہقہہ لگایا اور کہا: ’’ ہمیں یہاں کچھ بھی نہیں کرنا پڑا، ان کے درمیان آگ پہلے ہی لگی تھی۔ پھر بھی ہمیں ان پر نظر رکھنی ہوگی۔ ہم جلتی پر تیل ڈالتے رہیں گے۔‘‘چیلے نے مسکرا کر سر ہلایا۔
دونوں چلتے ہوئے ایک چھوٹے سے پارک میں جا پہنچے۔ جہاں کچھ بچے کرکٹ کھیل رہے تھے۔ اس وقت کھیل رُکا ہوا تھا کیونکہ گیند قریب کے کسی گھر میں چلی گئی تھی، گھر میں تالا تھا۔ ماجد کہہ رہا تھا کہ میری گیند کیوں اڑائی، میں نے آج ہی پچاس روپے کی خریدی تھی۔
شیطان نے گیند اُڑانے والے بچے طلحہ کے کان میں سرگوشی کی وہ بولا: ’’ تو کتنا کنجوس ہے، کنجوس مکھی چوس۔‘‘
ماجد چلایا: ’’ مجھے نئی گیند چاہیے ورنہ۔۔۔‘‘
’’ورنہ کیا۔۔۔ ‘‘ طلحہ نے اسے دھکا دیا۔
شیطان نے ماجد کو اشارہ کیا اس نے مارنے کے لیے وکٹ اُٹھا لی۔
طلحہ نے کہا: ’’ بیٹا میرے ہاتھ میں بھی بیٹ ہے گھما کر ماروں گا۔‘‘ دوسرے بچوں نے ان کا بیچ بچاؤ کرایا۔
شیطان اور چیلا ہنستے ہوئے چل دیے۔ شیطان بولا: ’’تم نے دیکھا، میں نے ان کے دلوں میں کیسے وسوسے ڈالے، کچھ محنت ہمیں کرنی پڑتی ہے، باقی انسان خود بھی کم نہیں ہوتے، بس آج کے لیے اتنا کافی ہے ۔ اب ہم کل ملیں گے۔‘‘
اگلے دن وہ پھر پہاڑی کے پیچھے موجود تھے۔ شیطان چیلے کو سبق دے رہا تھا ۔ آخر میں وہ بولا: ’’ آج ہم عملی سبق کے لیے انہی لوگوں کے پاس چلیں گے جہاں کل گئے تھے۔ دونوں نے اُڑان بھری اور آبادی میں پہنچے۔ پہلے وہ دُکان پر گئے۔
دونوں بھائی کسی بحث میں اُلجھے ہوئے تھے ان کے درمیان تند و تیز جملوں کا تبادلہ ہو رہا تھا۔ ان کے چہروں پر غصے اور نفرت کی آثار تھے۔ شیطان نے گردن ہلائی اور باہر آکر بولا: ’’معاملہ ٹھیک چل رہا ہے یہ کچھ دن کے مہمان ہیں۔‘‘
وہ آگے بڑھے اور عورت کے گھر پر پہنچے۔ وہاں تمام کام ایسے ہی پڑے تھے۔ بہو سر پر پٹی باندھے چارپائی پر لیٹی تھی اور ساس منھ پھلائے ایک کونے میں بیٹھی تھی۔ لگ رہا تھا کچھ دیر پہلے ان کے درمیان خانہ جنگی ہوچکی ہے۔ دونوں مسکراتے ہوئے باہر نکل آئے۔ اب ان کا رخ پارک کی طرف تھا۔ وہاں ابھی کھیل شروع نہیں ہوا تھا۔ وہ ، یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ طلحہ اور امجد ایک دوسرے کے گلے میں ہاتھ ڈالے کھڑے ہیں ۔ طلحہ نئی گیند لایا تھا جو اس نے امجد کو دے دی تھی۔ وہ آپس میں کھلاڑی بانٹ رہے تھے۔ امجد کہہ رہا تھا ،میں طلحہ کی ٹیم میں ہوں۔
شیطان نے ایک گہری سانس لی اور تھک کر ایک بینچ پر بیٹھ گیا۔ وہ چیلے سے نظریں چُرا رہا تھا۔ چیلا دھیرے سے بولا: ’’اُستاد یہاں تو معاملہ اُلٹا ہوگیا۔‘‘
شیطان نے پریشانی سے گردن ہلائی اور بڑبڑایا : ’’ ہاں کبھی کبھار ایسا بھی ہو جاتا ہے۔ بچے معصوم ہوتے ہیں۔ وہ باتیں دل میں نہیں رکھتے۔‘‘
جمیل شروع ہوگیا۔ طلحہ اور امجد دھواں دار بیٹنگ کررہے تھے۔ چیلا دلچسپی سے کھیل دیکھ رہا تھا۔ جبکہ شیطان کسی سوچ میں گم تھا۔
دونوں دوست چوکے چھکے لگا رہے تھے۔ ہر اچھے شارٹ پر وہ کریز کے درمیان آتے، ہاتھ ملا کر خوشی کا اظہار کرتے اور ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے۔ بولر نے گیند کی۔ امجد نے زوردار شارٹ لگایا گیند ہوا میں اڑتی ہوئی پارک سے باہر چلی گئی۔ چیلے نے خوشی سے نعرہ لگایا اور زور زور سے تالی بجانے لگا۔ شیطان نے خونخوار نظروں سے اسے دیکھا اور اٹھ کھڑا ہوا۔
چیلے کو کان سے پکڑا اور کھینچتے ہوئے بولا ’’بدبخت لگتا ہے، مجھے تجھ پر سخت محنت کرنی ہوگی۔‘‘
چیلا تکلیف سے چِّلانے لگا۔ شیطان اسے لیکر پارک سے باہر نکل گیا۔ بچوں کا کھیل جاری تھا۔ ہوا سے درختوں کے پتے جھوم رہے تھے۔ گویا کہہ رہے ہوں ’’ بچے من کے سچے ہوتے ہیں۔‘‘
*۔۔۔*