کامیابی کا زمانہ
نظر زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نظر زیدی کی بچوں کے لئے لکھی گئی سیرت ’’سب سے بڑا انسان‘‘سے اقتباس۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضور ﷺ نے جب صبر شکر کے ساتھ وہ ساری تکلیفیں برداشت کیں جو کافروں نے آپ ﷺ کو اور آپ ﷺ کے ساتھیوں کو پہنچائیں،تو آخر وہ وقت آگیا جب آزمائش کا یہ زمانہ ختم ہو گیا اور اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے مطابق آپ ﷺ کے لئے آسانیاں پیدا کردیں۔
معراج
کامیابی کے اس زمانے کی ابتداء معراج کے واقعے سے ہوئی۔معراج عربی زبان میں سیڑھی یااوپر چڑھنے کی چیز کو کہتے ہیں ۔اسلامی تاریخ میں رسول ﷺ کی مبارک زندگی کے ایک خاص واقعے کو معراج کا نام دیا گیا ہے۔
بیان کیا جاتا ہے ایک رات حضور ﷺ آرام کر رہے تھے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام آئے اور آپ ﷺکو اپنے ساتھ کعبہ شریف میں اور پھر بیت المقدس لے گئے۔وہاں آپ ﷺنے مسجد اقصیٰ میں سب نبیوں کے ساتھ نماز پڑھی۔اس نماز میں آپ ﷺ ہی سب نبیوں کے امام بنے۔
بیت المقدس اب فلسطین کا ایک بہت بڑا اور مشہور شہر ہے۔مسجد اقصیٰ اسی شہر میں ہے۔اس زمانے میں اس عبادت گاہ کو بیت المقدس کہتے تھے جو مشہور پیغمبر حضرت سلیمان علیہ السلام نے بنوائی تھی۔ اس واقعے کاذکر قرآن مجید میں کیا گیا ہے اور رسول ﷺ نے حدیثوں میں خود بھی بیان کیا ہے۔
حضور ﷺ نے جو باتیں بیان کیں انہیں حدیث کہتے ہیں اور آپ ﷺ کی فرمائی ہوئی سب باتیں حدیثوں کی کتابوں میں درج ہیں۔
قرآ مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’پاک ہے وہ(اللہ)جس نے اپنے بندے(رسول)کو راتوں رات مسجد حرام سے اقصیٰ تک سیر کرائی جس کے چاروں طرف ہم نے برکت رکھی ہے،تاکہ ہم اسے(رسول اللہ) کو،اپنی کچھ نشانیان دکھائیں۔بے شک وہ (اللہ)سننے والا،دیکھنے والا ہے۔‘‘(سورہ بنی اسرائیل،آیت نمبر۱)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کے اس سفر کو اسریٰ کا نام دیا ہے۔یہ عربی زبان کا لفظ ہے اور اس کے کئی معنی ہیں۔ خاص اس سفر سے متعلق دو معنی بیان کیے گئے۔ایک رات کے وقت چلنا اور دوسرا اونچی جگہ جانا ۔بہرحال اسریٰ کے معنی کچھ بھی ہوں، یہاں اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے رسول ﷺ کوکعبہ شریف سے فلسطین کی مسجد اقصیٰ میں پہنچا دیا جہاں آپ ﷺ نے تمام نبیوں کے ساتھ نماز پڑھی اور خود اس نماز میں سب نبیوں کے امام بنے۔
اس سفر کے بارے میں یہ بات بتائی گئی ہے کہ آپ ﷺ براق پر سوار ہو کر تشریف لے گئے۔براق جنت کی ایک سواری ہے جو اس قدر تیز چلتی ہے کہ جہاں تک انسان کی نگاہ جاتی ہے وہاں اس کا قدم پڑتا ہے۔
یہ بات پڑھ کر شاید بعض بچے یہ سوچیں کہ بھلا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی چیز اس قدر تیز دوڑے!ایسے بچوں سے ہم کہیں گے کہ ہاں ایسا ہو سکتا ہے۔اللہ پاک کی تو وہ شان ہے کہ اس کے لئے کوئی کام بھی مشکل نہیں ۔
یہ کامیابی تو انسانوں نے بھی حاصل کر لی ہے کہ ان کے بنائے ہوئے ہوائی جہاز آواز کی رفتار سے بھی بہت تیز اڑتے ہیں اور راکٹوں اور میزائلوں کی رفتار تو ان ہوائی جہازوں سے بھی زیادہ ہے۔
بہرحال اس سے آگے کی بات یہ ہے کہ مسجد اقصیٰ میں نماز اداکرنے کے بعدرسول ﷺ آسمانوں پر تشریف لے گئے۔ آپ کے اس سفرکو معراج کہا جاتا ہے۔اس سفر میں حضرت جبرئیل علیہ السلام آپ ﷺکے ساتھ تھے،لیکن وہ ایک مقام ’سدرۃ المنتہیٰ‘تک ہی جا سکے۔اس سے آگے آپ ﷺتنہا گئے۔اور اللہ تعالیٰ سے باتیں کیں۔
سدرۃ المنتہیٰ ساتویں آسمان پر بیری کا ایک درخت ہے، اور یہ وہ جگہ ہے جہاں سے آگے حضرت جبرئیل بھی نہیں جا سکتے جو سب فرشتوں کے سردار ہیں۔
اس سفر میں رسول ﷺ نے حضرت آدم علیہ السلام ،حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام وغیرہ بہت سے پیغمبروں سے ملاقات کی۔برائی کے راستے پر چلنے والوں کو سزا پاتے ہوئے دیکھا اور دوسری بہت سی چیزیں ملاحظہ فرمائیں۔
ان سب باتوں کے علاوہ خاص بات یہ ہوئی کہ آپ ﷺ کی امت، یعنی ہم مسلمانوں پر پانچ وقت کی نماز فرض ہوئی۔فرض ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جو مسلمان نماز نہ پڑھے گا، اسے سزا ملے گی۔
ایک شبہ اور اس کا جواب
رسول ﷺ کی معرا ج کے بارے میں دو باتیں کہی جاتی ہیں۔ایک تو یہ کہ آپ ﷺ نے یہ سفر اپنے جسم کے ساتھ کیا،یعنی اس حالت میں آسمان پر گئے جس حالت میں دنیا کے اندر زندگی گزار رہے تھے۔
دوسری بات یہ کہی جاتی ہے کہ آپ ﷺ کو خواب کی حالت میں معراج ہوئی۔ان دونوں باتوں میں پہلی کو ٹھیک مانا جاتا ہے،یعنی نے خواب نہیں دیکھا ،بلکہ اپنے جسم کے ساتھ آسمانوں پرگئے۔دین کی باتوں کو اچھی طرح سمجھنے والے عالموں نے یہی لکھا ہے کہ حضورﷺ نے خواب نہ دیکھا تھا،بلکہ اپنے جسم کے ساتھ آسمانوں پر تشریف لے گئے تھے۔
پہلے زمانے میں تو یہ بات سمجھنے میں ضرور کچھ دشواری ہوتی ہوگی،وہی لوگ اس بات پر ایمان لاتے ہوں گے،جنہیں اپنے دین ہر پورا پورا یقین ہوگا،لیکن اب یہ بات سمجھنے میں بالکل آسانی ہے۔ہم سب جانتے ہیں کہ انسان اپنے بنائی ہوئی مشین،راکٹ میں بیٹھ کر چاند کی سیر کر چکا ہے اور یہ کوشش کر رہا ہے کہ زہرا اور مشتری وغیرہ ستاروں کی بھی سیر کرے اور چاند ستاروں میں اپنی بستیاں بسا کر وہاں اسی طرح رہنے لگے جس طرح زمین پر رہتا ہے۔
یہ بات سب ہی جانتے ہیں کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے اور اپنی مہربانی سے کچھ علم اور کچھ طاقتیں دے دی ہیں اور اسی علم اور اسی طاقت سے کام لے کر اس نے یہ کامیابی حاصل کر لی ہے کہ چاند ستاروں میں بستیاں بسانے کے بارے میں سوچ رہا ہے اور اپنے راکٹ آسمان کی بلندوں میں اڑا رہا ہے۔انسان کی اس کامیابی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جب اس نے یہ طاقت حاصل کرلی ہے توجس اللہ نے اسے بنایا ہے اور سب طاقتیں دی ہیں وہ کیا کچھ نہیں کر سکتا۔
اس کے علاوہ یہ بات بھی سوچنے کے قابل ہے کہ ایسی شاندار کامیابیاں حاصل کرنے والے انسان نے اپنے پاس سے کچھ بھی نہیں بنایا،بس اتنا کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو چیزیں پیدا کی ہیں ان سے کام لینا سیکھ لیا ہے۔
مقناطیس،ریڈیائی لہریں،بجلی،آگ،پانی اور ہوا وغیرہ ساری چیزیں اللہ نے بنائی ہیں اور لوہا،تانبااور چاندی سونا وغیرہ دھاتیں بھی اللہ ہی کی بنائی ہوئی ہیں۔بڑے سے بڑا سائنس دان اور قابل سے قابل موجد،یعنی چیزیں ایجاد کرنے والا یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس نے جو چیزیں بنائی ہیں ،ان میں مسالہ بھی اپنا بنایا ہوا لگایا ہے۔انہوں نے تو بس اتنا کیا ہے کہ اللہ کے پیدا کئے ہوئے پانی اور اللہ کی بنائی ہوئی آگ استعمال کرکے انجنوں کو چلانے والی بھاپ بنا لی۔یہی صورت ،ایٹمی طاقت اور دوسری چیزوں کی ہے۔اور جب حالت یہ ہے ، تو یہ بات بالکل آسانی سے سمجھ میں آجاتی ہے کہ سب کچھ بنانے والے اللہ کے لئے کوئی بات بھی ناممکن نہیں وہ سب کچھ کر سکتا ہے۔اپنے رسول ﷺ کوآسمانوں پر بلا لینا تو کوئی بات ہی نہیں۔