جب میں ننھا سا تھا
شوکت تھانوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب میں ننھا سا تھا۔ بالکل چھوٹا سا بچہ،یہ اُسی زمانے کا ذکر ہے کہ ایک مرتبہ میری امی جان نے مجھ کو ایک مرغے کی کہانی سنائی تھی۔ وہ مرغا ایک بادشاہ کا تھا بادشاہ اُس کو باسی روٹی کے ٹکڑے توڑ توڑ کر نہیں کھلاتا تھا۔ یہ چیزیں تو غریب آدمی اپنے مرغوں کو دیا کرتے ہیں۔ بادشاہ تو اپنے اس مرغ کو انار کے دانے کھلایا کرتا تھا اور کبھی کبھی موتی بھی اس کے سامنے ڈالے جاتے تھے تاکہ وہ ان کو چُگ لے۔ اس مرغے کو سوہن حلوے کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کاٹ کر کھلائے جاتے تھے اور اس کے لیے طرح طرح کی مٹھائیاں بنائی جاتی تھیں۔ شکر پارے اور بوندیاں۔ اس کہانی کو سُن کر میرا کئی مرتبہ یہ جی چاہا کہ میں مرغا بن جاؤں اور کوئی بادشاہ مجھ کو پال لے مگر میں نے یہ بھی سُن رکھا تھا۔ کہ بادشاہ مرغ کھانے کے بھی بڑے شوقین ہوتے ہیں۔ اگر میں مرغا بن بھی گیا اور بادشاہ نے مجھ کو نہ پالا تو کہیں ایسا نہ ہو کہ میں کھا لیا جاؤں بھون بھان کر۔ دو تین دن تک میں اسی بات پر سوچتا رہا۔ کہ مرغا بن جانے میں فائدہ ہے یا نقصان۔ ایک دن میں نے دیکھا کہ ایک مرغے کو بوا نصیبن کی بلّی نے دبوچ لیا۔ میں نے اُس دن سے توبہ کر لی۔ کہ اب میں کبھی مُرغا بننا نہ چاہوں گا۔ مگر اس توبہ کے بعد ہی میں ایک دم مرغ بن گیا۔ آپ اسے جھوٹ نہ سمجھیں، میں جھوٹ نہیں بولتا۔ میں سچ مچ مرغا بن گیا تھا۔ سُن تو لیجیے کہ میں کیسے مرغا بنا۔ میں نے دیکھا کہ میری بڑی بہن نے سُرخ سُرخ دہکتا ہوا قندھاری انار خریدا۔ میں اپنے پیسوں کی ٹائی خرید کر پہلے ہی چٹ کر چکا تھا۔ اب میں انار کیسے کھاتا؟ میری سمجھ میں ایک ترکیب آئی۔ میں نے اپنی بہن سے کہا۔ باجی آج تو تم بادشاہ نظر آ رہی ہو۔ باجی نے کہا۔ بادشاہ! وہ کیسے؟ میں نے کہا۔ انار ہے نا تمھارے ہاتھ میں۔ جو بادشاہ اپنے مرغوں کو کھلاتے ہیں۔ باجی نے ہنس کر کہا۔ اچھا وہ کہانی والی بات۔ مگر میرے پاس تو صرف انار ہے، مرغا کہاں ہے؟ یہ کہہ کر میں نے ہاتھ سے چونچ بند کی اور اپنے منہ کے سامنے وہ ہاتھ لگا لیا۔ اور کہنیوں اور گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھ گیا۔ باجی نے انار کے دانے فرش پر ڈالنا شروع کر دیے۔ اور میں اپنے ہاتھ کی چونچ سے وہ دانے کھاتا رہا۔ تھوڑی دیر میں سارا انار میں کھا چکا تھا اور اب جو باجی نے دیکھا تو نہ وہ بادشاہ تھیں نہ میں مرغا تھا۔ البتہ انار کا خالی چھلکا اُن کے ہاتھ میں تھا۔