skip to Main Content

ایک ملاقات اُن کے ساتھ (منیراحمد راشد)

مجھے پاکستان سے ایک لاشعوری عشق ہے
میری پہلی ہی کہانی کو ساتھی کا پہلا ہی انعام مل گیا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مشہور ناول کمانڈو فور اور دوسو سے زیادہ شاہکار کہانیوں کے ایوارڈ یافتہ مصنف، متعدد انقلابی درسی کتب کے خالق ، معروف محقق، تجربہ کار اُستاداور تربیت کار منیر احمد راشد سے ملاقات کا احوال جو دسمبر ۲۰۱۶ میں شائع ہوا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ساتھی: ’’آپ کا ایک تعارف کمانڈو فور کا مصنف ہونا ہے، لیکن آپ کے بارے میں قارئین تفصیل سے جاننا چاہتے ہیں؟‘‘
منیر احمد ارشد: ’’آپ نے ٹھیک فرمایا۔ قارئین ساتھی مجھے کمانڈر فور کے مصنف کی حیثیت ہی سے پہچانتے ہیں لیکن میرا خیال ہے کہ میری پہچان اسلام اور پاکستان ہے۔ میں نے ادب اور تدریس کو ذریعہ اظہار بنایا ہے۔ پاکستان اور اسلام میری تحریروں اور میری تدریس و تعلیم میں تسبیح کے دھاگے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ میں پاکستان اور اسلام میں کوئی فرق بھی نہیں کرتا۔ یعنی میرے نزدیک پاکستان وہ جگہ ہے جہاں اسلام کو اپنی اصلی روح کے ساتھ چلتا پھرتا اور کام کرتا نظر آنا چاہیے۔ اسی مقصد کے لیے پاکستان حاصل کیا گیا تھا۔ اسی مقصد کے لیے ہمارے بزرگوں نے قربانیاں دی تھیں۔ اچھا ایک بات واضح کردوں یہ قربانیوں والا بیان کوئی سیاسی بیان نہیں ہے بلکہ میرے خاندان نے ۱۹۴۷ء کی شدید ہنگاموں کے دوران ہجرت کی تھی۔ اپنی تمام تر املاک و جائیداد اور ۸۰ فیصد افراد کی جانوں کا نذرانہ دے کر صرف چند افراد ہی اس سرزمین پر قدم رکھنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ اس لیے جب میں قربانی کہتا ہوں تو اس کا مطلب اس کی اصل اور روح کے ساتھ میرے پیش نظر ہوتا ہے۔ میرا بچپن اسی عظیم ہنگامے کے واقعات کو سنتے ہوئے گزرا۔ میری والدہ نہ صرف اس ہنگامے کی چشم دید گواہ تھیں بلکہ اس کی متاثرہ بھی تھیں۔ ان کی زندگی کا سب سے بڑا اور ناقابل فراموش واقعہ یہی ہجرت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ مجھے پاکستان سے ایک لاشعوری عشق ہے اور میں اسلام کے بغیر اس کے مقام کا تصور کرنے سے قاصر ہوں۔ میں نے لکھنا شروع کیا تو بنیادی موضوع ہی یہ تھا البتہ پیرائے اظہار کہانی کی صنف بنی کیوں کہ میں سمجھتا ہوں کہ جذباتی معاملات کے اظہار کے لیے کہانی سے بہتر کوئی صنف نہیں ہوسکتی۔ مضامین میں علمی موضوعات زیر بحث آتے ہیں جبکہ کہانی دل کا معاملہ ہے۔ البتہ تعلیم اور تدریس کے ذریعے آپ علمی اور عقلی مباحثے میں بھی اپنے موضوع کے بارے میں اظہار خیال کرسکتے ہیں سو میں نے یہ شعبہ بھی اختیار کیا۔
اس کے علاوہ میرا مختصر تعارف یہ ہے کہ میں نے اردو ادب میں ایم اے، کراچی یونیورسٹی سے کیا تھا۔ پہلی پوزیشن اور گولڈ میڈل ملا تھا۔ آنکھ مچولی میں جاب تھی یعنی شوق اور غم روزگار دونوں کی تسکین کا سامان موجود تھا۔ پھر میں نے تعلیم کا شعبہ انتخاب کیا تو کچھ عرصہ عثمان پبلک اسکول میں تدریس کی ذمہ داریاں ادا کیں، ای آر آئی، سی ای آر ڈی، این سی ای وغیرہ اداروں کے بانی رکن کی حیثیت سے کام کیا۔ آج کل اپنا ادارہ ہے (IBER)۔ یعنی انسٹیٹیوٹ فاربیسک ایجوکیشن اینڈ ریسرچ۔ یہاں نصابی کتب کی تیاری اور اشاعت کے علاوہ تدریس اساتذہ و معلمات کی خدمات انجام دے رہا ہوں۔ نوجوانی میں تحریک سے تعلق رہا۔ میری بیگم بھی تحریک سے وابستہ رہی ہیں۔ چار بچے ہیں۔ دو بیٹے دو بیٹیاں۔ چاروں اچھے تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم ہیں۔ گلشن اقبال میں گھر ہے۔‘‘
ساتھی: ’’آپ نے کہانی لکھنے لکھانے کا سلسلہ کب اور کہاں سے شروع کیا؟‘‘
منیر احمد ارشد: ’’جیسا کہ میں نے عرض کیا میرا ابتدائی بچپن ماں کی زبانی ہجرت کے واقعات سنتے گزرا تھا تو اس سے ایک چیز میری شخصیت کا حصہ بنی وہ تھی کہانی سننا اور سنانا۔ میں بہت بچپن میں بھی اپنے دوستوں کو کہانیاں سنایا کرتا تھا اور جب شاید دوسری جماعت میں تھا تو میں نے کہانیاں پڑھنا شروع کردی تھی۔ اس زمانے میں لائبریریاں ہوا کرتی تھیں۔ پہلے ہم نے محلے کی لائبریری چاٹی۔ پھر شہر کی مرکزی لائبریری۔ میں پنجاب کے شہر خانیوال میں پیدا ہوا تھا۔ وہیں میں نے انٹر تک تعلیم حاصل کی۔ یہاں قریشی لائبریری کے نام سے ایک بڑی لائبریری تھی جس کا میں مستقل ممبر تھا۔ وہاں کی تقریباً تمام کتابیں میں نے پڑھی تھیں۔ساتویں یا آٹھویں جماعت میں، میں نے باقاعدہ شاعری شروع کی تھی مگر جلد ہی اندازہ ہوا کہ یہ مشکل کام ہے تو میرا رجحان نثر کی طرف ہوگیا۔ لکھنے لکھانے کا سلسلہ اسکول، کالج کے مقابلوں سے شروع ہوا پھر شہر میں منعقد مشاعروں اور مقامی اخباروں تک رہا لیکن باقاعدہ کہانی کی اشاعت کا سلسلہ ساتھی ہی سے شروع ہوا۔ ہمارے ایک دوست ہیں۔ ارشد شاہین، وہ ساتھی کی مجلس ادارت میں ہوا کرتے تھے۔ ہمارے پڑوسی بھی تھے۔ ارشد بھائی ہی کی ترغیب پر میں نے ساتھی میں لکھنا شروع کیا۔ یہ شاید ۸۶، ۸۷ء کی بات ہے۔ مسعود کمال عباسی بھائی اس وقت ایڈیٹر تھے ۔ میں نے دو کہانیاں لکھیں مگر چھہ مہینے تک وہ شائع ہی نہیں ہوئیں۔ اس وقت ساتھی بھی کم صفحات پر شائع ہوتا تھا اور تصویریں وغیرہ بھی نہیں چھپتی تھیں۔ مجھے خاصی مایوسی ہوئی۔ پھر مجلس ادارت تبدیل ہوئی اور صادق جمیل بھائی اور دیگر لوگ ایک نئے عزم کے ساتھ ساتھی کی ٹیم میں شامل ہوئے۔ یہ وہ سال تھا جب ساتھی نے اپنا روپ بدلا اور اس سفر کا آغاز ہوا جس کی منزل سے ایک بلند منزل پر ساتھی آج کھڑا ہے۔ مجھے خوشی اور فخر ہے کہ میں اس تاج محل کی بنیاد کی اینٹیں رکھنے والوں میں شامل ہوں۔ اسی مہینے میری پہلی کہانی ساتھی میں شائع ہوئی۔’’ کیا فیصلہ ہے آپ کا؟‘‘ اسی مہینے سے ساتھی نے ہر ماہ بہترین کہانی پر انعام دینے کا سلسلہ شروع کیا۔ حسن اتفاق دیکھیے کہ میری پہلی ہی کہانی کو ساتھی کا پہلا ہی انعام مل گیا۔ یوں یہ ایک نہ ٹوٹنے والا ریکارڈ بن گیا۔ اس کے بعد تو پھر ساتھی اور منیر احمد راشد لازم و ملزوم تصور کیے جانے لگے۔ اِنھیں دنوں کمانڈو فور شروع ہوگئی اور دیکھتے ہی دیکھتے ساتھی کی اشاعت سیکڑوں سے نکل کر ہزاروں میں پہنچ گئی۔ ان دنوں تو یوں مجھے اعزاز حاصل تھا کہ ساتھی میں میری پہلی کہانی شائع ہوئی تھی اور اب ساتھی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ میری پہلی تحریر اسی میں شائع ہوئی۔ ‘‘
ساتھی: ’’سننے میں آیا ہے کہ کمانڈو فور لکھتے ہوئے اکثر اوقات آپ پر رقت طاری ہوجایا کرتی تھی، اس کی وجہ؟ اور وہ کہانی کے کون سے مقامات تھے جہاں یہ معاملہ ہوتا رہا؟‘‘
منیر احمد ارشد: ’’ہاں یہ بات بالکل سچ ہے۔ کمانڈو فور دراصل میرے ایک بہت گہرے اور ذاتی دُکھ کا عکاس ہے۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا پاکستان سے میری جذباتی وابستگی ہے۔ مجھے لگتا ہے پاکستان میری رگوں میں خون کی طرح دوڑتا ہے اور کیوں نہ دوڑے اس کی بنیادوں میں میرے خاندان کا لہو موجود ہے۔ میں ان دنوں پانچویں جماعت کا طالب علم تھا جب ۷۱ء میں جنگ جاری تھی۔ ہم لوگوں نے اسکولوں اور محلوں میں خندقیں کھود کر مورچے بنا رکھے تھے۔ اکثر ہوائی حملے کے خطرے کے پیش نظر دن میں سائرن بجتے رہتے اور راتوں کو بلیک آؤٹ ہوتا۔ ہم لوگ بڑے پرجوش تھے۔ دشمن کو ناکوں چنے چبوادینے کا عزم لے کر ہم سب بچے دن بھر گلیوں میں نعرے لگاتے۔ ریڈیو پر خبریں اور ترانے سنتے۔ ۶۵ء کی جنگ میں پاک فوج کی بہادری اور کامیابی کی داستانیں ہمارے ذہنوں میں نقش تھیں۔ درسی کتب میں بھی یہی کچھ پڑھا تھا۔ مجھے یاد ہے ایک دن دوپہر میں ایک بھارتی جہاز ہمارے شہر کی فضا میں داخل ہوگیا۔ سائرن بجے کہ لوگ مورچوں اور خندقوں میں پناہ لے لیں لیکن ہمارے جوش کا یہ عالم تھا کہ میں خود مورچے میں جانے کے بجاے چھت پر چڑھ گیا اور جہاز کو پتھر مارنے لگا کہ میں تجھے یوں کردوں گا اور ووں کردوں گا، وہ جہاز حملہ تو نہ کرسکا کیوں کہ ہمارے شاہینوں نے اسے گھیر کر اپنے اڈے پر اتارلیا خیر میں آپ کو اپنے جوش اور ولولے کی بات بتا رہا تھا لیکن پھر اچانک ایک دن معلوم ہوا کہ ہم جنگ ہار گئے۔ پاکستان ٹوٹ گیا۔ مجھے لگا جیسے میرے اندر کچھ ٹوٹ گیا۔ اس دن میں بہت رویا تھا، سبھی دُکھی تھے لیکن میری حالت زیادہ خراب تھی۔ شاید میں بیمار بھی ہوگیا تھا۔ پھر جیسے دوسرے زخم بھر جاتے ہیں، اس گھاؤ پر بھی کھرنڈ آگئے۔ جب میں نے کمانڈو فور لکھنا شروع کیا تو دراصل اس پرانے زخم سے کھرنڈ اُترنے لگے۔ کہانی کے لیے بنیادی معلومات تو کتابوں کے مطالعے اور ان مجاہدین سے ملاقاتوں کے نتیجے میں فراہم ہوگئی تھیں جنھوں نے البدر اور الشمس کی صورت میں جنگ میں براہ راست حصہ لیا تھا اور بعد ازاں مکتی باہنی اور بھارتی فوج کے تشدد کا نشانہ بھی بنے تھے لیکن اس کہانی کا اصل محرک وہی بچپن کا دُکھ تھا جو میرے لاشعور سے چپکا ہوا تھا۔ اکثر کہانی لکھتے ہوئے یا چلتے پھرتے کہانی سوچتے ہوئے بے اختیار میرے آنسو نکل آتے تھے۔ ظاہر ہے یہ مقامات کہانی میں بہت ہیں۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ کسی خاص واقعے پر رقت طاری ہونا ایک اضافی امر تھا۔ ‘‘
ساتھی: ’’نئی نسل کو اپنی تاریخ سے واقف کروانا آپ کا پاکستانی کونسل پر احسان مانا جاتا ہے، کیا اس ناول پر فلم بنائی جاسکتی ہے؟‘‘
منیر احمد ارشد: ’’یقیناًفلم بنائی جاسکتی ہے۔ مگر تاریخی فلموں کی ہمارے یہاں مارکیٹ نہیں ہے۔ دوسری بات یہ کہ اسکرین پلے کسی اچھے اور تجربہ کار ماہر فن سے لکھوانا ہوگا۔‘‘
ساتھی: ’’آپ نے اپنے زمانے کے مشہور رسالے آنکھ مچولی میں بھی کام کیا، وہ تجربہ کیسا رہا؟‘‘
منیر احمد ارشد: ’’آنکھ مچولی کا تجربہ کئی حوالوں سے میرے لیے یادگار ہے۔ یہاں سلیم مغل بھائی، شاہنواز فاروقی بھائی اور جناب ڈاکٹر طاہر مسعود جنھیں میں کہانی لکھنے میں اپنا استاد مانتا ہوں سے قربت رہی۔ میں نے ان لوگوں سے بہت سیکھا۔ رسالے کے حوالے سے نوجوان ادیبوں سے تعلق پیدا ہوا۔ بڑے ادیبوں کو پڑھنے اور ان سے ملاقات کرنے کے مواقع ملے۔ خود اپنی تخلیقات کو صفحۂ قرطاس پر منتقل کرنے اور اس کے حسن کے متعلق فوری طور پر جاننے کا موقع ہر وقت میسر رہتا تھا۔ اچھے دوست ملے۔ مومن رحیم، ابن آس، شاہد علی سحر اُسی زمانے کی یادگار ہیں۔ جاوید اختر کہنے کو تو آنکھ مچولی کی پیسٹنگ کیا کرتے تھے لیکن وہ مجھ سے ابھی تک چپکے ہوئے ہیں۔ انتہائی مخلص اور خاص آدمی ہیں۔ ان سب کے علاوہ اپنے دور کے ایک بڑے آدمی کو قریب سے دیکھنے اور برتنے کا موقع ملا۔ میرا اشارہ جناب ظفر محمود شیخ کی طرف ہے۔ آنکھ مچولی دراصل اُنھیں کا شوق تھا۔ مجھ پر ذاتی طور پر ان کے بے شمار احسانات ہیں اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ ‘‘
ساتھی: ’’اپنی زندگی کے نشیب و فراز سے مختصراً اگر آگاہ کردیں تو مستقبل کے سوانح نگاروں کو آسانی ہوگی؟‘‘
منیر احمد ارشد: ’’میں ایک سیلف میڈ آدمی ہوں۔ میں نے زندگی میں بڑے نشیب و فراز دیکھے ہیں بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ میں نے زندگی کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ جیسا کہ میں نے آپ کو بتایا کہ میرا خاندان ۱۹۴۷ء کے ہنگاموں میں ہجرت کرکے پاکستان آیا تھا۔ زیادہ تر لوگ ہندوستان ہی میں رہ گئے تھے۔ بہت سے لوگ ہجرت کے سفر کے دوران شہید کردیے گئے۔ صرف دادا، دادی، امی ابو اور بڑے بھائی پاکستان پہنچنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ یہ لوگ کچھ عرصہ لاہور میں رکے، پھر ساہیوال اور بالآخر چند ماہ بعد خانیوال میں آباد ہوگئے۔ دادا، دادی کا انتقال میری پیدائش سے پہلے ہوگیا تھا۔ جب میں ایک سال یا ڈیڑھ سال کا تھا تو ابا جان بھی دنیا سے رخصت ہوگئے۔ امی ناخواندہ اور باپردہ خاتون تھیں اور بھائی بھی صرف سولہ برس کے تھے۔ یوں انتہائی غربت کے ماحول میں میرا بچپن گزرا۔ تعلیم بہت سستی تھی اس لیے میٹرک تک تو آسانی سے تعلیم حاصل کرلی۔ اس کے بعد ملازمتیں اور مزدوریاں کرکے گھر بھی چلایا اور تعلیم بھی حاصل کی۔ میں نے انٹر تک خانیوال ہی میں تعلیم حاصل کی تھی۔ اس کے بعد ۱۹۷۹ء میں کراچی شفٹ ہوگیا۔ باقی تعلیم یہاں حاصل کی۔ آنکھ مچولی کی ٹیم میں شمولیت سے پہلے میں نے بہت سخت زندگی بسر کی تھی۔ مزدوریاں کیں، پلمبر، الیکٹریشن، کار پینٹر، اوور لاک مشین آپریٹر، ٹینک آئل ڈیزائنراور نجانے کیا کیا کام کیے۔ تندور پر روٹیاں بھی لگائیں۔ کباب کا ٹھیلہ بھی لگایا۔ پان کی دکان بھی چلائی اور پلاسٹک مولڈنگ کے کارخانے میں کھلونے بھی بنائے۔ ہاں یاد آیا مرکری کی فیکٹری میں پریس مین کے طور پر بھی کئی مہینے کام کیا۔ دراصل میرے ذہن میں ایک ہدف تھا کہ مجھے اعلا تعلیم حاصل کرنی ہے اور کوئی بڑا کام کرنا ہے لیکن بیمار ماں، بے گھر بہن اور بے روزگار بڑے بھائی کی ذمہ داریاں بھی میں نے اپنے ذمے لے لی تھیں۔ سو پڑھائی کے لیے اور پڑھائی کے ساتھ ساتھ ان ذمہ داریوں کو نبھانے کے لیے مجھے دن رات کام کرنا پڑتا تھا۔ اس لیے میں نے اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ لی تھی کہ منزل پر نظر رکھتے ہوئے جتنی بھی مشکلات راہ میں آئیں گی ان کو برداشت کروں گا۔ ان کا مقابلہ کروں گا اور ان شاء اللہ منزل حاصل کرکے رہوں گا۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس نے مشکلات کے ساتھ ساتھ ہمیشہ اچھے اور مخلص لوگوں کی رفاقت بھی نصیب فرمائی اور بالآخر میں تعلیمی کا ہدف حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ کمانڈو فور لکھتے ہوئے مجھے اکثر احساس ہوتا تھا کہ شاید یہی وہ بڑا کام ہے جو میں کرنا چاہتا تھا۔ کیوں کہ اس کہانی کی جو پذیرائی اور نوجوانوں میں جو جذبہ حب الوطنی اور شوق شہادت میں دیکھتا تھا تو مجھے لگتا تھا کہ میں نے پاکستان کے لیے مجاہدین کی ایک فوج تیار کردی ہے۔
بعد میں جب میں تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہوا تو اللہ نے مجھ سے ایسی کتابیں لکھوائیں جن سے پاکستان میں پہلی مرتبہ تعلیم بالغان کی تحریک کامیاب ہوئی اور لاکھوں لوگوں نے پڑھنا لکھنا سیکھا۔ آج بھی ان کتابوں سے اور ان کی نقل میں تیار کی گئی کتابوں سے ہزاروں لوگ پڑھنا لکنا سیکھ رہے ہیں۔ بچوں کی سطح پر سب سے تیزی سے اردو زبان پڑھائی جاتی ہے ۔ جگنو اردو سلسلہ، جگنو سبق، فہم اردو سلسلہ، اذان خواندگی نصاب وغیرہ میری ہی تخلیقات ہیں۔ آج کل اپنے ادارے، ادارہ براے بنیادی تعلیم و تحقیق (IBER) کے تحت مزید کتابوں کی تیاری میں مصروف ہوں۔ دوسرا بڑا کام ان اساتذہ کی تربیت و تیاری کا کام ہے جس کے لیے دن رات لگا رہتا ہوں۔ دعا کریں اللہ اس میں کامیاب کرے اور برکت عطا کرے۔ (آمین)‘‘
ساتھی: ’’آپ کے بچوں میں بھی لکھنے کا شوق پیدا ہوا؟ اور اگر ہوا تو اب تک ساتھی میں نظر نہیں آئے؟‘‘
منیر احمد ارشد: ’’میرے چاروں بچے ماشاء اللہ بہت اچھا لکھتے ہیں۔ بڑی بیٹی اسکول میں بھی میگزین کی ایڈیٹر تھی اور اب میڈیکل کالج میں بھی میگزین ایڈیٹر ہے لیکن وہ زیادہ تر انگریزی میں لکھتی ہے۔ بیٹا گو کہ IBA میں بی بی اے فائنانس کا طالب علم ہے لیکن اچھا تخلیق کار ہے۔ اس سے چھوٹی بیٹی ابھی نویں جماعت میں ہے لیکن ایک سال پہلے وہ بھی ایک ناول اور بہت سی نظمیں لکھ چکی ہے۔ یہ سب بھی انگریزی میں ہے۔ سب سے چھوٹا بیٹا عمر ابھی چھٹی جماعت میں ہے اور اردو اور انگریزی میں شاعری کرتا ہے۔
آپ کہیں گے کہ ایک اردو دان کے بچے انگریزی میں کیوں لکھتے ہیں۔ بس سمجھ لیجیے کہ بچپن ہی سے بچوں کو انگلش میڈیم اسکولوں میں پڑھانے کا ایک بڑا نقصان یہ بھی ہوتا ہے۔ اس میں میری کامیابی یہ رہی کہ اسکولوں کی شدید کوشش کے باوجود میں ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو بچالے گیا اور ناکامی یہ کہ میں اپنی تحقیق اور بعد ازاں ادارے کو بنانے کے سلسلے میں اتنا زیادہ مصروف رہا کہ اردو کے حوالے سے ان پر توجہ نہیں دے سکا لیکن میرا تجربہ ہے کہ وہ جب اردو میں لکھتے ہیں تو اچھا لکھتے ہیں۔
ساتھی میں ان کے نظر نہ آنے کی وجہ بھی یہی ہے کہ میں اس طرف زیادہ توجہ نہیں دے پاتا، دوسرے یہ کہ او لیول اسکولوں کی پڑھائیاں انہیں اتنا وقت ہی نہیں دیتیں کہ تصنیف و تالیف کو اشاعت کے پیراہن میں بھی ڈھال پائیں۔‘‘
ساتھی: ’’آپ ایک استاد بھی ہیں۔ کیا مقصدیت کہانیوں کا بنیادی ہدف ہونا چاہیے، یا کہانیوں کو مکمل فن کے ساتھ پیش کرنا اہم ہے؟‘‘
منیر احمد ارشد: ’’دیکھیے یہ لفظ مقصدیت خاص مظلوم ہے۔ لوگوں نے اسے پروپیگنڈا کا ہم معنی اور مترادف بنادیا ہے۔ دنیا میں کوئی بھی کام بغیر مقصد کے نہیں ہوتا۔ حتیٰ کے سانس لینا بھی۔ اصل بات سمجھنے کی یہ ہے کہ ادب کیا ہے۔ ادب انسانی خیالات اور جذبات کا خوبصورت اظہار ہے۔ فارم کوئی بھی ہو۔ ادب کو سب سے پہلے ادب ہونا چاہیے۔ کہانی کو سب سے پہلے کہانی اور نظم کو نظم ہونا چاہیے۔ پھر کوئی یہ کیسے خیال کرسکتا ہے کہ ادیب جو کہ ایک حساس انسان ہے اور بقول اقبال، دیدہ بینائے قوم ہے تو بے مقصد لکھے گا۔ ادب کا موضوع بھی انسان ہے اور مخاطب بھی انسان۔ جب تک وہ انسانیت کا نمائندہ ہوتا ہے تو ادب تخلیق کرتا ہے۔ جب کسی پارٹی کا نمائندہ ہوجاتا ہے تو پروپیگنڈا کرتا ہے۔ اس لیے جب میں کہانی لکھتا ہوں تو صرف کہانی پر فوکس کرتا ہوں، مقصدیت اس کے اندر خودبخود پیدا ہوجاتی ہے۔ اپنی کہانیوں کے انتخاب کے دوران جب میں نے دوبارہ انھیں ایک ساتھ پڑھا تو میں حیران رہ گیا کہ سب کے اندر قدر مشترک اسلام اور پاکستان ہے۔ حالاں کہ کہانیاں لکھتے ہوئے یہ بات میرے ذہن میں دور دور تک نہیں تھی۔ اس لیے میرے خیال میں تو ادب براے ادب اور ادب براے مقصدیت کی بحث ہی فضول ہے۔‘‘
ساتھی: ’’آپ نے بچوں کے لیے لکھنا چھوڑ دیا جبکہ قارئین آپ کو پڑھنا چاہتے ہیں۔ آپ کب لوٹ کر آئیں گے؟‘‘
منیر احمد ارشد: ’’ہاں میں نے ایک خاص مقصد کے تحت بچوں کے لیے لکھنا کم کردیا تھا کیوں کہ میں انہیں پڑھانے کی طرف زیادہ راغب ہوگیا تھا۔ اب ان شاء اللہ دوبارہ شروع کرتا ہوں۔ آپ دعا کیجیے اور دوا بھی۔ ادیبوں کو لکھنے کے عمل سے جوڑے رکھنے یا کاٹ دینے میں رسائل کے مدیران اور مالکان کا بہت اہم کردار ہے۔ آپ میرا اشارہ سمجھ رہے ہوں گے بلکہ وہ کیا کہتے ہیں کہ ’’سمجھ تو آپ گئے ہی ہوں گے۔‘‘
ساتھی:قارئین ساتھی کے لیے کوئی پیغام؟‘‘
منیر احمد ارشد: ’’میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے۔ ایک بات ہے بلکہ ایک احساس کہ اہم ذمہ داریوں کے بارے میں ہمارے گھر، تعلیمی ادارے، مذہبی اسکالر اور یوں مل کر پورا ماحول ہماری صحیح رہنمائی نہیں کرتے۔ مجھے قرآن کے مطالعے کے دوران اس کمی کا بار بار احساس ہوتا ہے۔ قارئین ساتھی کے لیے میرا پیغام یہی ہے کہ اپنے روز مرہ کے مطالعے میں قرآن کو ایک لازمی نصاب کے طور پر شامل کرلیں۔ روز پڑھیں خواہ ایک ہی آیت ہو لیکن سمجھ کر پڑھیں۔ اللہ سے ہدایت اور علم نافع کی دعا کے ساتھ پڑھیں، جماعت، تنظیم، مسلک کی پابندی سے بلند ہو کر پڑھیں تو آپ کو احساس ہوگا کہ ختم نبوت، رسالت کے بعد دعوت الی اللہ کی ذمہ داری ہم سب پہ فرداً فرداً بھی عائد ہوتی ہے اور من حیث القوم بھی اور ہمارا ہدف روئے ارض پر بسنے والے آٹھ ارب افراد ہیں۔ ہمیں ان تک اللہ کا پیغام پہنچانا ہے اور اللہ کو اس کا جواب بھی دینا ہے۔ اگر آپ اس ذمہ داری کو محسوس کریں گے تو آپ کو اللہ کے بندوں سے پیار ہوگا، نفرت نہیں۔ اس لیے میں کہتا ہوں کہ
میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے۔‘‘

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top