چچا ہادی نے کیا شکار
جاوید بسام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب شیر کا شکار کرنے والے چچا ہادی نے چیتل کا شکار تو کرلیا لیکن پھر ہوا یوں۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چچا ہادی کے کمرے کی دیوار پر ایک پرانی بندوق ٹنگی تھی جس کے بارے میں ان کا دعویٰ تھا کہ ان کے بزرگوں نے ماضی میں اس بندوق سے ایسے کارنامے انجام دیے تھے جن سے دشمن بھی ان کی بہادری کا لوہا مان گئے تھے۔ جب کہ چچا سے بغض رکھنے والے کچھ بداندیش لوگوں کا خیال تھا کہ بندوق، دشمن کے کسی مردہ سپاہی کے پاس پڑی تھی، جسے چچا کے ایک بزرگ لے اُڑے تھے اور اب نسل در نسل چلتی ہوئی چچا کے پاس آگئی تھی۔۔۔ غرض وہ برسوں سے ان کے پاس تھی۔
چچا جب اس کا ذکر چھیڑتے تو ان کے لب و لہجے میں تبدیلی آجاتی۔ وہ فخر سے اپنی بہادری کے دلیرانہ قصے سناتے، بسا اوقات تو روانی میں اتنا بہہ جاتے کہ بندوق کو اس زمانے میں لے جاتے جب اسلحہ ایجاد بھی نہیں ہوا تھا۔ لوگ منھ دبا کر ہنستے رہتے اور اگر کوئی ٹوک دیتا تو چچا لڑنے مرنے پر آمادہ ہوجاتے۔
ہر اتوار کو وہ بندوق دیوار سے اتارتے اور اسے بہت عقیدت اور جذبے سے صاف کرتے۔ بندوق پرانی ہونے کے باوجود اچھی حالت میں تھی، لیکن کسی نے اسے کبھی چلتے نہیں دیکھا تھا۔
ایک دن جب میں ان کے پاس گیا تو وہ بندوق کی صفائی میں مصروف تھے۔ مجھے دیکھ کر فخریہ انداز میں بولے۔ ’’لو میاں عامر! آج ہمارے بزرگوں کی نشانی کا قریب سے دیدار کرلو۔‘‘
اُنھوں نے بندوق میری طرف بڑھائی۔ میں نے جلدی سے کہا۔ ’’چچا دھیان سے کہیں چل نہ جائے۔‘‘
وہ ہنسے اور بولے: ’’لو میاں چلنے پر ایک قصہ یاد آگیا۔ ہوا یوں۔۔۔‘‘ میں نے فوراً انھیں روکا اور کہا۔
’’ہاں مجھے یاد ہے آپ کے دادا حضور ایک دن بازار میں بندوق لٹکائے گھوم رہے تھے۔ یہ قصہ میں بیس دفعہ پہلے بھی سن چکا ہوں۔‘‘
چچا جھینپ کر بندوق ہلانے لگے۔ مجھے فوراً اپنی غلطی کا احساس ہوا اور میں نے ان کا دل رکھنے کے لیے پوچھا۔ ’’کیا یہ آج بھی ٹھیک حالت میں ہے؟‘‘
’’ہاں بھئی، پابندی سے اس کی صفائی کرتا ہوں نہ جانے کب ضرورت پڑجائے۔‘‘ اُنھوں نے کہا۔
میں نے گردن ہلائی۔
’’میاں ایک دفعہ تو عجیب واقعہ ہوا۔ میں شکار کے لیے سندر بن میں ٹہل رہا تھا۔ میرا ارادہ شیر کے شکار کا تھا۔‘‘ چچا نے بغیر تمہید کے قصہ شروع کیا۔ میں نے بھی ٹوکنا مناسب نہ سمجھا اور خاموش رہا۔ ’’لیکن شیر کا دور تک پتا نہیں تھا۔ میرا پالتو بندر کندھے پر بیٹھا تھا۔ تم تو ج جانتے ہو، وہ کتنا شرارتی تھا۔ جب دیر تک شکار نہیں ملا تو تھک کر میں ایک درخت کے نیچے آرام کی غرض سے لیٹ گیا۔ جلد ہی آنکھ لگ گئی۔ ابھی کچھ دیر ہی سویا تھا کہ ایک زور دار دھماکے کی آواز سنائی دی۔ میاں کیا دیکھتا ہوں۔ میرا چہیتا بندر، بندوق ہاتھ میں لیے پچھلے پیروں پر کھڑا ہے۔ میں نے گھبرا کر ادھر ادھر نظر دوڑائی تو کچھ دور ایک ہرن کو زمین پر لوٹتے دیکھا۔ بندر نے اس کا شکار کرلیا تھا۔‘‘
وہ سانس لینے کے لیے رکے۔ میں نے نظر بچا کر کانوں کو ہاتھ لگایا۔ وہ سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے بولے۔ ’’بس میاں میں نے شیر کے شکار کا ارادہ ملتوی کیا اور ہرن کو کندھے پر ڈال کر گھر چلا آیا۔ تمام گھر والے ایک ہفتے تک ہرن کے گوشت کے کباب کھاتے رہے۔‘‘
میں نے زیرِ لب کہا: ’’ہاں جی جب سامع میرے جیسے احترام کرنے والے ہوں تو ایسے واقعات بھی گھر بیٹھے پیش آجاتے ہیں۔‘‘
چچا چونک کر بولے۔ ’’میاں کیا کہہ رہے ہو؟‘‘
’’کچھ نہیں آپ کے بندر کی تعریف کررہا تھا۔‘‘
چچا مسکراے اور کہا: ’’چلو کسی دن شکار پر چلتے ہیں، بلکہ کل ہی کیوں نہ چلیں، کچھ تفریح بھی ہوجائے گی۔‘‘
’’ یہاں کون سا جنگل ہے؟ جہاں ہم شکار کھیلیں گے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
بولے: ’’شہر سے باہر دیہات میں چلتے ہیں، سنا ہے وہاں ہرن اور چیتل پائے جاتے ہیں۔ صبح پانچ بجے میرے پاس آجاؤ۔ تم وہاں نشانے بازی کی مشق بھی کرلینا۔‘‘ آخری بات سے مجھے دلچسپی تھی۔ اس لیے میں نے ہامی بھرلی۔
اگلے دن میں صبح سویرے ان کے دروازے پر دستک دے رہا تھا، چچا نے اندر سے ہانک لگائی۔ ’’بس میاں آگیا!‘‘ تھوڑی دیر بعد دروازہ کھلا اور چچا اس شان سے باہر آئے کہ میں چکرا کر قریبی تھڑے پر بیٹھ گیا۔ وہ چہک کر بولے: ’’میاں دیکھو! کیسا لگ رہا ہوں؟‘‘
انھوں نے ٹی شرٹ، لمبی نیکر اور سر پر کسی مرے ہوئے انگریز کا فلیٹ ہیٹ پہن رکھا تھا۔ کندھے پر بندوق لٹکائے وہ قدیم دور کے کوئی شکاری لگ رہے تھے، میں نے مشہور شکاریوں جم کاربٹ اور کینتھ اینڈرسن کی اس حلیے میں تصویریں دیکھی تھیں۔ چچا تن کر کھڑے تھے اور انتظار میں تھے کہ ان کی تعریف کروں۔ میں خاموش تھا۔ وہ بولے: ’’جواب دو، کیوں منھ میں گھنگنیاں بھر کر بیٹھے ہو؟‘‘
’’میں آپ کے ساتھ شکار پر نہیں چل سکتا۔‘‘ میں نے کہا۔
’’کیوں؟‘‘ وہ سراپا سوال بن گئے۔
’’آپ نے خود کو آئینے میں دیکھا ہے؟‘‘
’’ہاں میاں اسی لیے تو اتنی دیر لگ گئی۔‘‘ وہ چہکے۔
’’آپ نے جو حلیہ بنا رکھا ہے۔ وہ زمانہ قدیم کا ہے اگر محلے کے کتوں نے آپ کو دیکھ لیا تو اسی دور میں پہنچادیں گے۔‘‘
’’میاں اس میں کیا خرابی ہے، ٹھیک ٹھاک تو ہے؟‘‘ چچا پھر تن کر کھڑے ہوئے۔ میں نے کہا۔ ’’اگر آپ کو مجھے ساتھ لے کر چلنا ہے تو اس نیکر پر پتلون پہن لیں اور یہ اپنی تاریخی بندوق کپڑے میں لپیٹ لیں، ورنہ آپ خود چلے جائیں۔‘‘
چچا بہت چیں بہ چیں ہوئے لیکن اُنھیں میری بات ماننی پڑی ہم فوراً ہی روانہ ہوگئے۔
صبح کی خوشگوار ہوا میں سفر شروع ہوا۔ چچا بس میں بیٹھتے ہی اونگھنے لگے اور فوراً ہی نیند میں ڈوب گئے۔ بس ابھی کچھ دور تک ہی چلی تھی کہ فراٹے بھرنا شروع ہوگئی۔ فیکٹریوں کے مزدور اپنے کاموں پر جارہے تھے، خوب دھکے لگنے لگے، گرمی بھی بڑھ گئی تھی، جلد ہی میں اس سفر سے بے زار ہوگیا، کنڈیکٹر کرایہ لینے آیا تو میں نے چچا کو آوازیں دیں، ہلایا جلایا لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوئے آخر مجھے خود ہی کرایہ دینا پڑا۔ کچھ دیر بعد چچا کسمسائے اور آنکھیں جھپکا کر بولے۔ ’’کیا شکار گاہ آگئی؟‘‘
’’جی نہیں آپ آرام سے سوئیں ابھی بہت دور ہے۔‘‘ میں نے جل کر کہا۔ ایک لمبے اور بور سفر کے بعد ہم شہر سے باہر پہنچے۔
بس سے اُتر کر چچا نے ایک گدھا گاڑی والے سے لفٹ مانگی لیکن اس نے بلامعاوضہ بٹھانے سے صاف انکار کردیا۔ وہ سو روپے مانگ رہا تھا، چچا نے جلد ہی اسے بیس روپے میں راضی کرلیا اور اُچک کر گدھا گاڑی پر بیٹھ گئے۔ ہم کچی سڑک سے گزر رہے تھے جس کے دونوں طرف کھیت اور باغات تھے۔ آدھے گھنٹے بعد ایک جگہ اُتر کر چچا بولے: ’’بس میاں اب کچھ دیر کا پیدل سفر ہے۔‘‘ جب گدھا گاڑی آگے بڑھ گئی تو چچا ہادی نے پتلون اتار کر تہہ کی اور بندوق کندھے پر لٹکا کر بولے۔ ’’شکار کا صحیح لطف لینے کے لیے شکاریوں والا حلیہ ہونا ضروری ہے۔‘‘
میں نے گہری سانس لی اور خاموشی سے ساتھ چل دیا۔ ہم ایک پگڈنڈی سے گزر رہے تھے جس کے دونوں طرف جھاڑیاں تھیں۔ کچھ دیر بعد ایک گدھا گاڑی آتی نظر آئی جس میں دو لڑکے گھاس کاٹ کر لارہے تھے۔ قریب آکر اُنھوں نے گاڑی روک لی اور حیرت سے چچا کو دیکھنے لگے۔ چچا جو عادت کے مطابق اَکڑ اَکڑ کر چل رہے تھے، انھیں دیکھ کر اور پھیل گئے، لڑکے ٹکٹکی باندھے انھیں دیکھ رہے تھے اور پھر ایک لڑکے نے دوسرے کو کہنی ماری اور بے اختیار ہنس پڑا، دوسرا بھی ہنس رہا تھا۔
چچا بولے: ’’بچے ہیں، ہمیں دیکھ کر خوش ہورہے ہیں۔‘‘ میں نے تیز قدم بڑھاتے ہوئے کہا۔ ’’ہمیں نہیں آپ کو دیکھ کر۔‘‘
جلد ہی ہم درختوں کے ایک جھنڈ میں جا پہنچے۔ چچا بولے: ’’یہ جگہ شکار کے لیے اچھی ہے اگر مچان کا بھی بندوبست ہوجاتا تو مزا آجاتا۔‘‘
میں نے چِڑ کر کہا۔ ’’کہیے تو گھر جا کر تخت لے آؤں؟‘‘
’’نہیں میاں ہم ایسے ہی کام چلا لیں گے۔‘‘ اُنھوں نے ایک درخت کو منتخب کیا جس کے چاروں طرف قدر آور جھاڑیاں تھیں اور اس پر چڑھ گئے۔ جب ہم آرام سے بیٹھ گئے تو میں نے اِدھر اُدھر نظر دوڑائی کچھ دور ایک گاؤں تھا۔ لوگ آتے جاتے نظر آرہے تھے۔ مویشی بھی جھاڑیوں میں گھاس پھوس کھاتے گھوم رہے تھے۔ چچا نے شکار کا ماحول بنانے کے لیے ایک پرانا قصہ چھیڑ دیا۔ وہ بہت پرجوش تھے، قصہ ختم کرکے وہ چلائے۔ ’’کہاں ہیں ہانکا لگانے والے!‘‘
’’میں اچھل پڑا۔‘‘ کون والے؟ میں نے حیرت سے پوچھا۔
’’ہانکا۔۔۔ یعنی جانوروں کو گھیر کر لانے والے۔‘‘ انھوں نے میری عقل کا ماتم کرتے ہوئے کہا۔
’’وہ لوگ شاید اپنی ڈیوٹیوں پر گئے ہوئے ہیں۔ آپ کہیے تو گاؤں سے کچھ لوگوں کو بلالاؤں؟‘‘ میں نے طنزاً کہا۔
’’نہیں رہنے دو، وہ بھی کیا دن تھے۔ پورا گاؤں شکاریوں کی مدد کیا کرتا تھا۔‘‘ چچا ٹھنڈی سانس بھر کر بولے۔‘‘
’’یہ کوئی سو سال پرانی بات تو ہوگی۔ آج تو آپ کو کوئی مفت میں پانی بھی نہیں پلائے گا۔‘‘ میں نے کہا۔ چچا سر ہلانے لگا۔
ہمیں یہاں بیٹھے بیٹھے آدھا گھنٹہ گزر گیا۔ میں بے زاری محسوس کررہا تھا۔ چچا بھی بے چین تھے۔ بے چینی چھپاتے ہوئے وہ گویا ہوئے۔ ’’میاں شکار کے سنہری اصول یاد رکھو، ہر اچھے شکاری کے لیے اُنھیں جاننا اور ان پر عمل کرنا ضروری ہے، ہمیشہ اپنی آنکھیں اور کان کھلے رکھو، کوئی آواز مت نکالو، زیادہ ہلو جلو نہیں، ہر آہٹ پر دھیان دو اور اپنی نظریں جھاڑیوں پر مرکوز رکھو۔‘‘ وہ خاموش ہوگئے۔ میں اِدھر اُدھر دیکھ رہا تھا۔ ہر طرف خاموش چھائی ہوئی تھی۔ صرف ہوا کی سرسراہٹ سنائی دے رہی تھی۔ تنگ آکر میں کچھ بولنے لگا تھا کہ چچا نے چپ رہنے کا اشارہ کیا اور جھک کر میرے کان میں سرگوشی کی۔
’’آہٹ ہورہی ہے کوئی جانور ہماری طرف بڑھ رہا ہے۔‘‘ میں نے نظریں دوڑائیں لیکن کچھ نظر نہ آیا۔ چچا نے بندوق سنبھال لی، بندوق دھیرے دھیرے گردش کررہی تھی، اچانک دائیں طرف کی جھاڑیوں میں ہلچل ہوئی۔ چچا نے بجلی کی تیزی سے رخ بدلا اور فائر کردیا۔ ایک زور دار دھماکا ہوا، ایسا لگا جیسے توپ چلی ہے ہر طرف دھواں پھیل گیا۔ بندوق چچا کے ہاتھ سے چھوٹ کر نیچے جاگری اور چچا جھٹکے سے میرے اوپر آگرے اور یہ اچھا ہی ہوا میں نے اُنھیں فوراً پکڑلیا ورنہ وہ اپنی تاریخی بندوق کی ہمراہی میں سیدھے نیچے جاتے اور ہاتھ پیر سے بھی جاتے۔ جب حواس کچھ یکجا ہوئے تو چچا جوش بھری آواز میں بولے۔ ’’میاں مبارک ہو چیتل شکار کرلیا ہے۔‘‘
ہم درخت سے اُترے اور جھاڑیوں میں داخل ہوئے۔ گھنی جھاڑیوں میں ہم نے ایک جانور کو زمین پر تڑپتے دیکھا۔ میں حیرت سے چلایا۔
’’یہ کیسا چیتل ہے؟‘‘
چچا نے میری بات کا جواب نہیں دیا اور جیب سے چھری نکال کر بولے:’’اسے پکڑو میں حلال کررہا ہوں۔‘‘
میں نے بڑی مشکل سے اسے قابو کیا۔ چچا نے چھری پھیری۔ جب جانور ٹھنڈا ہوگیا تو میں نے حیرانی سے پوچھا۔ ’’ یہ چیتل ہے؟‘‘
چچا سوچ میں پڑگئے پھر سر کھجا کر بولے۔ ’’میاں ہر علاقے کے جانور ایک جیسے نہیں ہوتے ان میں کچھ نہ کچھ فرق ہوتا ہے۔‘‘
ہماری باتیں ابھی جاری تھیں کہ اچانک دوڑتے قدموں کی آواز سنائی دی۔ ہم نے کچھ لوگوں کو آتے دیکھا ان میں گدھا گاڑی والے دونوں لڑکے بھی تھے۔ جلد ہی وہ ہمارے قریب آئے۔ وہ چلا رہے تھے۔ چچا مسکرا کر بولے: ’’آؤ بھائیو! دیکھو ہم نے شکار مار گرایا ہے۔‘‘
ایک لڑکا آگے بڑھ کر چلایا: ’’تم نے ہمارے بکرے کو مار دیا ہے!‘‘
چچا بے نیازی سے بولے: ’’نہیں میاں تمھیں غلط فہمی ہوئی ہے یہ چیتل ہے۔‘‘
وہ سب غصے میں بھرے تھے۔ اُنھوں نے ہمیں پکڑلیا اور گاؤں کی طرف چل دیے۔ جلد ہی ہم ایک ڈیرے پر پہنچے۔ جہاں ایک بڑی بڑی مونچھوں اور لمبے بالوں والا سردار نما آدمی بیٹھا تھا۔ لڑکوں نے جا کر اسے ہمارا جرم بتایا۔ اس نے اپنی لال لال آنکھوں سے ہمیں گھورا اور بولا۔
’’آؤ جی شکاری صاحبو!‘‘
قصہ مختصر سردار نما آدمی نے فیصلہ دیا کہ چچا بکرے کی قیمت مبلغ بیس ہزار روپے ادا کریں تو ان کی جان چھوٹ سکتی ہے، مجھے یہ کام سونپا گیا کہ میں گھر جاؤں اور روپے لے کر آؤں تاکہ چچا کی خلاصی ہوسکے۔ اس دوران چچا کو ایک جھونپڑی میں بند کردیا گیا اور دونوں لڑکے لاٹھیاں ہاتھ میں لے کر دروازے پر بیٹھ گئے۔ جانے سے پہلے میں نے چچا سے پوچھا کہ روپے کس سے لے کر آؤں؟
چچا جو بہت گھبرائے ہوئے تھے بولے۔ ’’میاں تمھاری چاچی کے پاس قربانی کے جانور کے لیے رقم جمع ہے۔ وہ لے آؤ۔ وہ دینے میں چوں چرا کریں تو انھیں کہنا اگر اپنا سہاگ سلامت چاہیے تو فوراً روپے نکال دیں۔ یہ بہت خطرناک لوگ ہیں۔‘‘
میں روانہ ہوگیا۔ چاچی نے عادت کے مطابق چوں چرا کی انھیں اپنے سہاگ کی بھی کوئی خاص پروا نہیں تھی، آخر مجھے جھوٹ بولنا پڑا کہ وہ لوگ کہہ رہے تھے اگر روپے نہ دیے تو وہ گھر پر آجائیں گے۔ چاچی ڈر گئیں اور روپے نکال کر دے دیے۔ میں لے کر روانہ ہوا اور چچا کو تاوان دے کر چھڑا لایا۔ راستے میں ہم نے کوئی بات نہیں کی۔ میں خاموشی سے اپنے خیالات میں گم تھا۔ چچا ہر تھوڑی دیر بعد ٹھنڈی آہ بھرتے اور بڑبڑانے لگتے۔ وہ لوگوں کے رویے کا شکوہ کررہے تھے اور میں سوچ رہا تھا نہ جانے گھر جا کر چچا کا چاچی کے ہاتھوں کیا حشر ہوگا۔
*۔۔۔*