skip to Main Content

مینار معصوم شاہ

غلام مصطفی سولنگی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کسی دانشور کا قول ہے : ’’ہمارے چھوڑے ہوئے نقوش ہماری سوچ اور ذوق کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اگر ان نقوش کو کبھی دیکھنے کا موقع ملے تو پھر ہماری یاد ضرور تازہ کیجیے گا۔‘‘
ایسا ہی ایک یادگار نقش معصوم شاہ کا مینار بھی ہے جو سندھ کی صدیوں پرانی تاریخ کے اوراق سے ہرگز نہیں مٹ سکتا۔
تاریخی شہر سکھر کی نمایاں اور بلند ترین عمارت معصوم شاہ کا مینار ہے۔ تعمیراتی حوالے سے اس مینار کی اہمیت اتنی ہے کہ اس کا مقابلہ ہندوستان کے تاریخی شہروں دولت آباد، احمد آباد اور دہلی میں موجود مسلمان دور کے تعمیر شدہ میناروں سے کیا جاتا ہے۔
سکھر شہر کے وسط میں واقع یہ مینار میر محمد معصوم بکھری نے تعمیر کروایا تھا۔ میر  محمد معصوم بکھری مغل بادشاہ جلال الدین محمد اکبر کے دور میں شیخ الاسلام کے لقب سے پہچانے جاتے تھے۔ آپ بڑی عالم و فاضل شخصیت تھے۔ ان کی لکھی ہوئی کتاب ’’تاریخ معصومی‘‘ کو سندھ کی پہلی مستند تاریخ سمجھا جاتا ہے۔
میر محمد معصوم بکھری نہ صرف بڑے عالم‘ فاضل اور تاریخ دان تھے بلکہ وہ بیک وقت خطاط، شاعر، منشی، طبیب، بہادر سپاہی، سفارتکار اور بہترین کاتب بھی تھے۔ مشہور کتاب ’’صنادید سندھ‘‘ کے مصنف خان بہادر پروفیسر ڈاکٹر مولوی محمد شفیع نے لکھا ہے کہ ’’میر محمد معصوم بکھری کو مغل دور میں کتابت میں جو حیثیت حاصل تھی، وہ کسی کو بھی حاصل نہیں ہوسکی۔‘‘ اس مینار اور اس سے متصل عمارات پر کتبے بھی ان ہی کے لکھے ہوئے ہیں۔ اس مینار کی تعمیر کا کام میر محمد معصوم بکھری نے ۱۰۰۳ ہجری بمطابق ۱۵۹۴ء میں شروع کروایا۔ آپ خود اس مینار کی تعمیر کے دوران ایران کے سفر پر گئے ہوئے تھے۔ لہٰذا ان کی غیر موجودگی میں مینار کی تعمیر کا کام ان کے فرزند میر بزرگ نے ۱۰۲۷ ہجری بمطابق ۱۶۱۸ء میں مکمل کروایا تھا۔
معصوم شاہ کے مینار کے دروازے پر ایک کتبہ آویزاں ہے۔ اس پر لکھا ہے : 
’’یہ مینار بادشاہ اعظم شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر بادشاہ غازی کے دور میں تعمیر شدہ ہے۔ میر محمد معصوم، جو بلند آسمان کا پورا چاند ہے، جو اپنے نام کے وجہ سے دنیا میں مشہور ہے، اس نے یہ شاندار مینار وہاں تعمیر کروایا، جہاں سے نیلا آسمان سر اٹھاتا ہے۔ آسمان سے فرشتوں نے اس کی تعمیر کی تاریخ بتائی تھی۔‘‘
آپ کو یہ معلوم کرکے یقیناًحیرت ہوگی کہ معصوم شاہ کے مینار کی تعمیر میں سیمنٹ کے بجاے جانوروں کی ہڈیاں پیس کر استعمال کی گئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی معصوم شاہ کا مینار نہایت مضبوطی سے قائم ہے۔
سرخ اینٹوں سے تعمیر شدہ گول شکل کے اس مینار کی ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ اس کی بلندی ۸۴ فٹ، چوڑائی ۸۴ فٹ اور اوپر جانے کے لیے سیڑھیاں بھی ۸۴ ہی بنائی گئی ہیں۔ یہ سیڑھیاں اوپر تک جاتی ہیں۔ مینار کی چوٹی پر ایک گرل لگائی گئی ہے تاکہ اوپر سے گرنے کا خدشہ نہ رہے۔ مینار کی چوٹی سے سکھر شہر کا منظر بہت ہی شاندار اور دل پذیر نظر آتا ہے۔
معصوم شاہ کے مینار کے پہلو میں اور میر محمد معصوم شاہ کے خاندانی قبرستان کے پاس ایک آٹھ گونی گنبدی بھی موجود ہے، جسے کچھ تاریخ دان فیض محمد بھی کہتے ہیں۔ یہ گنبدی ۱۰۰۴ ہجری بمطابق ۱۵۹۴ء میں تعمیر ہوئی تھی۔ تاریخ دانوں کے مطابق یہ گنبدی ریسٹ ہاؤس کے طور پر بنائی گئی ہوگی۔ اس کے چار دروازے ہیں اور چار محرابیں بھی ہیں جو کہ بند کردی گئی ہیں۔ یہ گنبدی سرخ اینٹوں سے تعمیر شدہ ہے اور اس میں رنگین ٹائلز استعمال کیے گئے ہیں۔ اس گنبدی کے دروازوں پر شمال اور جنوب میں روشن دان ہیں، جن پر فارسی رباعیاں خط نستعلیق میں کندہ ہیں۔
مینار معصوم شاہ تعمیر اور مضبوطی کے لحاظ سے ایک بہترین عمارت ہے اور یہ اس دور کی یادگار عمارتوں میں سب سے اہم ہے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top