skip to Main Content

سلیوٹ

محمدعلی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’بابا! میں پاس ہوگیا ، میں پاس ہوگیا!!!‘‘ علی خوشی سے جھومتا ہوا اپنے والد کے گلے لگ گیا۔
’’بیٹا! بہت بہت مبارک ہو!‘‘
’’آج میں بہت خوش ہوں آپ کو پتا ہے کہ میں پورے سکول میں اول آیا ہوں۔‘‘
ارے! یہ تو دو خوشخبریاں ہیں۔‘‘ کریم بخش(علی کے والد) نے خوشی سے کہا
’’اب میں شہر جا کر پڑھوں گا، ماسٹر صاحب کہہ رہے تھے کہ مجھے وہاں کسی بھی اچھے کالج میں آرام سے داخلہ مل جائے گا۔
’’اور پڑھ لکھ کر کیا کرے گا۔ میں نے یہاں تیرے لیے نوکری کی بات کر رکھی ہے۔ اﷲنے چاہل تو ترقی بھی ہوتی رہے گی۔‘‘کریم بخش کا لہجہ نارمل ہوچکا تھا۔
’’مگر میں ابھی اور پڑھنا چاہتا ہوں۔ بھائی کو آپ نے پڑھنے نہیں دیا تھا وہ چار سال سے سپاہی ہی ہے۔ اگر وہ پڑھا لکھا ہوتا، اس کے پاس اعلیٰ ڈگری ہوتی تو آج وہ افسر ہوتا۔‘‘
’’بیٹا ! یہ افسر کی نوکری ہم غریبوں کی قسمت میں کہاں ہوتی ہے۔ یہ تو بس بڑے لوگوں کا کام ہے۔‘‘
’’نہیں بابا! ایسا نہیں ہے ۔ میرے استاد کہتے ہیں کہ انسان اپنی قسمت خود محنت کر کے بناتا ہے میں بھی محنت کروں گااور ایک دن ضرور بڑا آدمی بنوں گا۔ ‘‘علی نے پُر اعتماد ہو کر کہا
’’کریم بخش تمھیں انسپکٹر صاحب نے بلایا ہے۔‘‘ ایک سپاہی نے اطلاع دی تو کریم بخش ٹوپی سیدھی کرتے ہوئے فوراً چل دیا۔
علی ایک پسماندہ گاؤں سے تعلق رکھتا تھا۔ والد اور بھائی پولیس میں معمولی نوکری کرتے تھے۔ تاہم گھر کا گذاراآرام سے ہوجاتا۔ اس کے علاوہ ان کی زمین بھی تھی جو کبھی کاشت کر لیتے تو کبھی رہن دے دیتے۔ علی کو تعلیم حاصل کرنے کا بہت شوق تھاجب کہ گاؤں میں کالج نہ تھا اور اعلیٰ تعلیم کے لیے شہر جانے کا رواج بھی اتنا عام نہ تھا۔

*****

’’آج انسپکٹر صاحب نے بھی مبارک باددی ہے۔‘‘ کریم بخش رات کے کھانے پر علی سے مخاطب ہوا،’’ ان کو کس نے بتایا؟‘‘ علی نے سوالیہ نظروں سے پوچھا
’’میں نے بتایا تھا۔ میں نے انھیں تمھارے بارے میں سب کچھ بتایا ہوا ہے۔ وہ بہت خوش ہوئے تھے۔کہہ رہے تھے کہ کل تمھیں ان سے ضرور ملاؤں۔‘‘
’’میں کیا کروں گا انھیں مل کر؟‘‘ علی نے حیرانگی سے پوچھا
’’ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ وہ بڑے اچھے انسان ہیں۔‘‘ اگلے دن علی ،اپنے والد کریم بخش کے ساتھ چلا گیا۔ جیسے ہی انسپکٹر صاحب دفتر میں داخل ہوئے کریم بخش نے ایک زور دار سیلوٹ کیا اور علی کا تعارف کرایا۔
’’بھئی بہت بہت مبارک ہو!‘‘
’’شکر یہ سر!‘‘ علی نے ادب سے جواب دیا
’’آگے کیا ارادے ہیں؟‘‘
’’مجھے مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے شہر جانا ہے۔ مجھے پڑھنے کا بہت شوق ہے مگر۔۔۔۔۔‘‘ علی کہتے کہتے رک گیا۔
’’مگر کیا؟‘‘ 
’’مگر بابا مجھے شہر بھیجنے پر راضی نہیں۔‘‘
’’تعلیم حاصل کرنا یقیناًبہت اچھی بات ہے۔‘‘انسپکٹر صاحب نے علی کو مسکراتے ہوئے کہا اور پھر کریم بخش سے مخاطب ہوئے۔’’ اس بات کو میرا حکم نہیں مشورہ سمجھنا۔ تم اسے شہر پڑھنے کے لیے ضرور بھیجو میں اس میں علم کے لیے سچی لگن دیکھ رہا ہوں۔ باقی کسی قسم کی مدد کی ضرورت ہوتو۔۔۔۔۔‘‘
’’نہیں سر! اس کی ضرورت نہیں۔ آپ نے کہہ دیا بس ایسا ہی ہوگا۔ اﷲ کا دیا سب کچھ ہے اور پھر بیٹے کی خواہش بھی پوری نہ کی تو کیا فائدہ!‘‘
’’ویسے بیٹا! آپ بننا کیا چاہتے ہو۔‘‘انسپکٹر صاحب دوبارہ علی کی طرف متوجہ ہوئے۔
’’میں ۔۔۔۔۔! میں آپ جیسا بنوں گا جسے دوسرے سیلوٹ کرتے ہیں۔‘‘ علی نے کچھ سوچتے ہوئے کہا
’’ہاہاہا۔۔۔۔۔ زبردست! میں تم سے واقعی متاثر ہوا ہوں۔ میر ی دعائیں تمھارے ساتھ ہیں۔‘‘ انسپکٹر صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا
آج کریم بخش کو اپنے بیٹے پر واقعی فخر محسوس ہور ہا تھا۔ علی کو بھی اپنا خواب پورا ہوتے ہوئے نظر آنے لگا اور پھر ایسا ہی ہوا۔ وہ تمام گھر والوں کی دعائیں سمیٹ کر شہر پڑھنے چلا گیا۔ بہترین کارکردگیوں نے اسے سکالرشپ پر تعلیم جاری رکھنے میں مدد دی چار سال کے گریجویشن مکمل کرنے کے بعد علی نے مقابلے کے امتحان کی تیاری پورے زور و شور سے شروع کردی۔ خدا کسی کی محنت کو رائیگاں نہیں جانے دیتا۔ علی نے بھی شاندار کامیابی حاصل کی اور ٹریننگ کے لیے چلا گیا۔

*****

’’کریم بخش ! یہ کیا پڑھ رہے ہو‘‘ ایک دوست نے مسکراتے ہوئے پوچھا
’’بیٹے کا خط ہے۔ مگر تم مسکرا کیوں رہے ہو۔‘‘
’’کل سے کوئی بیس بار تم یہ خط پڑھ چکے ہو۔ ایسا کیا لکھا ہے اس میں؟‘‘
’’کوئی خاص بات نہیں ۔ علی ٹریننگ پوری کر کے اسی جگہ پوسٹنگ پر آرہا ہے، باقی دعا کے لیے لکھا ہے۔‘‘ کریم بخش نے سرسری بتایا۔
’’اﷲاسے کامیاب کرے تم بڑ ے خوش نصیب ہو جو اﷲ نے تمھیں اتنا محنتی اور قابل بیتا دیا ہے۔‘‘
’’یہ علم بھی کیا چیز ہے۔ انسان کو کیا سے کیا بنادیتا ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ بڑے بیٹے کو بھی پڑھا لکھا دیا ہوتا تو میرے دونوں بیٹے اعلیٰ عہدوں پر ہوتے۔‘ ‘ کریم بخش نے ایک گہری آہ بھری
’’کہتا تو بالکل ٹھیک ہے مگر کیا تیر اخیال گاؤں کے دوسرے بچوں کی طرف نہیں جاتا جن کے پڑھنے کی خواہش صرف اس لیے ان کے دلوں میں دب کر رہ جاتی ہے کہ گاؤں میں اعلی تعلیم کے حصول کے لیے کوئی ادارہ موجود نہیں۔‘‘
’’ہاں یار! کہتا تو بھی بالکل ٹھیک ہے۔اگر گاؤں کے تمام بچے پڑھ لکھ جائیں تو اس میں ہمارا ہی فائدہ ہے۔‘‘کریم بخش نے کچھ سوچتے ہوئے کہا
’’ باتیں کرنا بہت آسان ہوتا ہے مگر ان پر عمل کا کوئی نہیں سوچتا۔‘‘ یہ کہہ کر کریم بخش کا دوست آگے بڑھ گیا جب کہ کریم بخش کسی گہری سوچ میں کھو کر رہ گیا۔

*****

’’سنا تم نے آج تمھارا بیٹا ٹریننگ مکمل کر کے آرہا ہے۔‘‘
’’سر! یہ آپ ہی کی کرم نوازی ہے۔ میں تو اسے میڑک کے بعد کبھی نہ پڑھنے بھیجتا۔‘‘
’’میں نے کچھ نہیں کیا۔ اب تم دیکھنا علم کے جس
نور کو اس نے سمیٹا ہوا ہے وہ کیسے اسے ترقی کی منازل طے کراتا ہے۔ تمھیں تو فخر ہونا چاہیے!‘‘
’’سر ! مجھے اس با ت کی بھی بہت خوشی ہے اس کی پوسٹنگ یہیں ہوئی ہے۔ آپ کے تحت اس کی تربیت بھی اچھی ہوگی اور میں بھی پریشان نہ ہوں گا۔‘‘کریم بخش نے خوشی سے کہا
’’میں نے سنا ہے کہ تم نے اپنی زمین گاؤں میں کالج بنانے کے لیے وقف کردی ہے۔ کیا یہ ٹھیک ہے؟‘‘
’’جی سر! اب میر ی یہی خواہش ہے کہ علم کی روشنی ہر گھر کا حصہ بنے۔ میرا بیٹا بھی بہت خوش ہوا ہے اور اس بات کو میری طرف سے اپنے لیے ایک تحفے کے طور پر تسلیم کیا ہے۔‘‘
’’ٹھیک ہے ۔ اب تم جا سکتے ہو۔‘‘
آج کریم بخش کی بے چینی عروج پرتھی اسے اپنے بیٹے کی آمد کا شدت سے انتظار تھا۔ تمام دوست اسے مبارک باد دے چکے تھے۔ آخر انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں۔ کریم بخش اپنے بیٹے کے ہمراہ گاڑی کے قریب آئے۔علی باوردی گاڑی سے اُترا اور اپنے والد کے گلے لگ گیا۔
’’یا اﷲ تیرا شکر ہے۔‘‘ کریم بخش نے علی کو خود سے الگ کیا۔
’’ تیری خواہش تھی کہ تجھے سیلوٹ کیا جائے۔آج میں تجھے پہلا سیلوٹ کرتا ہوں۔‘‘
اتنا کہہ کے کریم بخش نے ایک بھر پور سیلوٹ کیا۔ قریب کھڑے تمام سپاہی حیرت سے کریم بخش اور علی کی جانب دیکھ رہے تھے۔

*****

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top