۸۰ دن میں دنیا کا چکر
ناول: Around The World in 80 Days
مصنف: Jules Verne
ترجمہ و تلخیص: علی اسد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب سے سو برس قبل نہ تو ایسے ہوائی جہاز ہوتے تھے جو چھ سو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اڑتے ہوں اور نہ ایسے پانی کے جہاز تھے جو چار روز میں بحر اوقیانوس کو پار کرلیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ان دنوں میں ہوائی جہاز تھے ہی نہیں۔ چنانچہ پوری دنیا کے گرد چکر لگانے کے لیے کم از کم تین مہینے درکار ہوتے تھے۔ اس کے باوجود ہم آپ کو ایک ایسے آدمی کی داستان سناتے ہیں جس نے بیس ہزارپاؤنڈ اس شرط پر لگا دیے کہ وہ صرف اسی دن میں دنیا کا چکر لگا آئے گا۔
لندن کے ایک شاندار کلب میں فلیس فاگ نامی ایک شخص آرام سے بیٹھا ہوا لوگوں کی باتیں سن رہا تھا۔ حال ہی میں لندن کے ایک بینک میں بڑی زبردست چوری ہوگئی تھی۔ چنانچہ یہ لوگ اسی کے بارے میں باتیں کر رہے تھے۔ ایک بولا، ”بنک کا کتنا نقصان ہوا؟“
دوسرے نے جواب دیا، ”پچپن ہزار پاؤنڈ۔“
اس پر مسٹر فاگ نے پولیس کے ایک افسر سے پوچھا، ”آپ نے چور پکڑنے کے لیے کیا کوششیں کی ہیں۔“
افسر نے جواب دیا، ”خفیہ پولیس کے ہوشیار افسروں کو امریکا اور یورپ کی تمام بندرگاہوں پر بھیج دیا گیا ہے۔“
اس پر ایک اور آدمی بولا، ”پھر تو چور کے لیے بچنا بڑا دشوار ہوگا۔“
دوسرے نے پولیس افسر سے پوچھا، ”چور کا حلیہ معلوم ہے؟“
افسر نے کہا، ”ہاں، حلیے سے تو آسودہ حال معلوم ہوتا ہے۔“
تیسرا بولا، ”یقین نہیں آتا کہ یہ چوری ہوئی کیسے!“
پولیس افسر بولا، ”کہاں جائے گا بچ کر۔ اسے تو کسی ملک میں پناہ نہیں ملے گی۔“
ایک بولا، ”کہاں جائے گا؟“
دوسرا بولا، ”کچھ نہیں کہہ سکتے۔ دنیا بہت وسیع ہے۔“
اس پر مسٹر فاگ بولے، ”ہاں۔ پہلے تھی۔“
یہ سن کر دوسرا شخص بولا، ”کیا مطلب ہے تمہارا؟ کیا دنیا اب چھوٹی ہوگئی ہے؟“
پولیس افسر بولا، ”مجھے مسٹر فاگ کی رائے اتفاق ہے۔ دنیا تنگ ہوگئی ہے۔ اب آپ تین مہینے کے اندر ساری دنیا کا چکر لگا سکتے ہیں۔“
اس پر فاگ بولا، ”جی نہیں صرف اسی دن میں۔“
اس پر ایک شخص بولا، ”لیکن اس میں حادثات کو شامل نہ کرنا چاہیے۔ مثلاً موسم کی خرابی، ہوا کا مخالف سمت ہونا۔ جہاز کا تباہ ہو جانا۔ ریلوں کا ٹکرانا وغیرہ۔“
یہ سن کر فاگ نے کہا، ”جی نہیں، ان تمام حادثات کو شامل کرتے ہوئے بھی اسی دن کافی ہیں۔“
اس پر ایک بولا، ”اچھا مسٹر فاگ، ذرا یہ کر کے بتاؤ تو جانیں!“
دوسرا بولا، ”ہاں ٹھیک ہے۔“
تیسرا بولا، ”میں چار ہزار پاؤنڈ کی شرط لگاتا ہوں کہ یہ ناممکن ہے۔“
فاگ نے سب کی باتیں جب سن لیں تو بولا، ”بینک میں میرے بیس ہزار پاؤنڈ جمع ہیں، جنہیں میں بخوشی اس شرط پر لگائے دیتا ہوں۔“
پہلا شخص بولا، ”ذرا سوچ لو۔ اتنی بڑی رقم ایک ذراسی ناگہانی بات کی وجہ سے کھو دو گے۔“
فاگ نے کہا، ”ناگہانی بات ہوتی ہی نہیں۔“
اس پر پولیس افسر نے کہا، ”لیکن مسٹر فاگ اسی دن تو ایک اندازے کے مطابق کم سے کم مدت ہے۔“
فاگ اپنی بات پر قائم رہا۔ کہنے لگا، ”بس کم سے کم مدت ہی کافی ہے۔“
یہ کہہ کر اس نے چیک نکال کر پیش کردیا اور بولا، ”یہ لیجیے میرا چیک۔ آج بدھ کا دن ہے اور اکتوبر کی دوسری تاریخ۔ میں اس کمرے میں 12 دسمبر کو پونے نو بجے رات آپ سے ملوں گا۔ ورنہ شرط ہار جاؤں گا۔“
سب لوگوں نے اس شرط کو قبول کر لیا۔
اس کے بعد فاگ اپنے گھر گیا اور اپنے فرانسیسی ملازم پاسپتو کو ساری باتیں بتائیں اور کہا، ”جلدی سے کچھ ضروری سامان رکھ لو۔ دو قمیصیں اور تین جوڑے موزے کافی ہوں گے۔ باقی کپڑے ہم راستے میں خریدتے رہیں گے۔“
چنانچہ پاسپتو تو سامان باندھنے لگا اور خود فاگ نے اپنے تھیلے میں نوٹوں کے بنڈل رکھ لیے۔ تھوڑی دیر بعد جب دونوں تیار ہوگئے تو فاگ نے کہا، ”پاسپتو! اس تھیلے کا خیال رکھنا۔ اس میں بیس ہزار پاؤنڈ ہیں۔“
اسٹیشن پر فاگ کے دوست جمع تھے۔ فاگ نے کہا، ”دوستو! اب میں روانہ ہوتا ہوں۔ جب واپس آؤں تو میرے پاسپورٹ سے دیکھ لینا کہ میں نے ساری دنیا کا چکر لگایا ہے یا نہیں۔“
ایک دوست بولا، ”بس تمہاری زبان کافی ہے، مگر یاد رکھنا۔ تم کو12 دسمبر کو لندن پہنچنا ہے۔“
دوسرا بولا، ”پونے نو بجے رات۔“
فلیس فاگ کی روانگی کے ساتویں دن لندن کے پولیس کمشنر کے پاس حسب ذیل ایک تار آیا:
”سوئیز سے لندن
کوؤن، کمشنر آف پولیس، اسکاٹ لینڈ اسکوائر۔
میں نے بنک کے چور فلیس فاگ کو تلاش کر لیا ہے۔ اس کی گرفتاری کا وارنٹ فوراً بمبئی روانہ کردیجیے۔“
فکس (سراغ رساں)“
جو پولیس افسر تار لایا تھا اس نے کمشنر سے کہا، ”چور کا حلیہ فاگ سے ملتا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا چور کے بارے میں یہ بتایا گیا ہے کہ وہ کوئی آسودہ حال شخص ہے۔ میرا خیال ہے کہ فاگ نے دنیا کا چکر لگانے کی شرط محض دھوکا دینے کے لیے لگائی ہے۔“
کمشنر نے کہا، ”ہم فاگ کی گرفتاری کا وارنٹ بمبئی بھیج دیں گے۔“
ادھر یہ ہوا کہ سراغ رساں فکس مسٹر فاگ کے ساتھ اسی جہاز میں سفر کر رہا تھا، لیکن اسے نہیں معلوم تھا کہ جہاز دو روز قبل بمبئی پہنچنے والا ہے، کیوں کہ مسٹر فاگ نے جہاز کے عملے کو بہت سا روپیہ دے دیا تھا۔ چنانچہ جوں ہی جہاز بمبئی میں لنگر انداز ہوا،سراغ رساں فکس پولیس کے صدر دفتر پہنچا۔ وہاں اسے معلوم ہوا کہ گرفتاری کا وارنٹ ابھی نہیں آیا ہے۔ اب تو فکس بڑا سٹ پٹایا۔ ہندوستانی پولیس افسر سے کہنے لگا، ”لیکن چور تو کلکتے چلا جارہا ہے!“
ہندوستانی افسر بولا، ”بغیر وارنٹ ہم کچھ نہیں کر سکتے۔“
چنانچہ فکس بھاگا بھاگا اسٹیشن پہنچا۔ یہاں فاگ کھڑا تھا۔ اتنے میں اس کا ملازم پاسپتو ہانپتا ہوا آپہنچا۔ فاگ نے اس سے پوچھا، ”تمہیں اتنی دیر کہاں لگ گئی؟“
پاسپتو بولا، ”جناب، مجھے لوگوں نے گھیر لیا تھا۔ میں ایک مندر میں داخل ہو گیا تھا۔ جوتے اتارنے کا مجھے خیال نہیں آیا۔ بس پھر کیا تھا۔ مندر کے سارے پجاری مجھ پر پل پڑے اور لگے پیٹنے۔ بڑی مشکل سے میں نے اپنی جان بچائی اور بھاگتا بھاگتا یہاں آیا۔“
فاگ نے کہا، ”دیکھو آئندہ ایسا نہ ہو!“
ملازم بولا، ”ٹھیک جناب۔“
یہ تمام باتیں سراغ رساں فکس قریب کھڑا سن رہا تھا۔ لہٰذا وہ اپنے دل میں سوچنے لگا کہ چلو بڑا اچھا ہوا۔ ہندوستان کی سر زمین پر ایک جرم سرزد ہوگیا ہے۔ بس اب میں اسے پکڑ لوں گا!“
بہرحال دو روز ریل کا سفر جاری رہا۔ اس کے بعد اچانک ریل رک گئی۔ فاگ نے کنڈکٹر سے پوچھا، ”اس وقت ہم لوگ کہاں ہیں اور یہ ریل کیوں رک گئی ہے؟“
کنڈکٹر نے کہا، ”ہم لوگ اس وقت کھولبی گاؤں کے پاس ہیں۔ گاڑی رکنے کی وجہ یہ ہے کہ پٹری پوری طرح نہیں بچھی ہے۔“
یہ سن کر ایک فوجی افسر سر فرانسس جو قریب ہی بیٹھا تھا بولا، ”لیکن اخباروں میں تو لکھا تھا کہ پٹری بچھائی جا چکی ہے اور تم لوگ بمبئی سے کلکتے تک کا ٹکٹ بھی تو فروخت کر رہے ہو۔“
اس پر کنڈکٹر بولا، ”کھولبی سے الہ آباد تک مسافر خود اپنے سفر کا انتظام کرتے ہیں۔“
لہٰذا سب کو گاڑی سے اترنا پڑا۔ فوجی افسر بولا، ”مسٹر فاگ، اس سے تو آپ کے لیے بڑی تاخیر ہوجائے گی۔“
فاگ نے کہا، ”جی نہیں سر فرانسس!میں دو دن آگے ہوں، اس لیے اتنی تاخیر آسانی سے برداشت کر سکتا ہوں۔25 تاریخ کو کلکتے سے ہانگ کانگ کے لیے ایک جہاز روانہ ہونے والا ہے اور آج 23 تاریخ ہے۔ ہم وقت پر کلکتے پہنچ جائیں گے۔“
سر فرانسس اس یقین کے آگے کچھ بھی نہ کہہ سکے۔
اتنے میں پاسپتو نے سفر جاری رکھنے کے لیے ایک ہاتھی تلاش کر لیا۔ فاگ کو ہاتھی پر بٹھاتے ہوئے پاسپتو نے کہا، ”یہ دیکھئے جناب، لیکن اس کے دام بہت زیادہ دینے پڑیں گے۔“
قصہ مختصر دو ہزار پاؤنڈ پر ہاتھی خرید لیا گیا اور یہ لوگ اس پر سوار ہو کر روانہ ہوگئے۔ کئی گھنٹوں کے بعد ہاتھی اچانک رک گیا۔ فاگ نے مہاوت سے پوچھا، ”کیا بات ہے؟“
مہاوت بولا، ”برہمنوں کا ایک جلوس آرہا ہے۔ ہمیں ان کی نظروں سے دور ہی رہنا چاہیے۔“
چنانچہ مہاوت نے ہاتھی کو گھنے درختوں کے جھنڈ میں لے جاکر روک لیا۔ تھوڑی دیر بعد ایک بڑا جلوس دکھائی دیا۔ فاگ اور اس کے ساتھیوں نے درختوں کی آڑ میں سے عجیب و غریب سی رسم دیکھی۔ ایک بڑی سی بیل گاڑی پر ایک مورت کھڑی تھی۔ فاگ نے مورت دیکھ کر کہا، ”یہ کالی دیوی ہے محبت اور موت کی دیوی۔“
اس پر سر فرانسس بولے، ”صرف موت کی دیوی کہو۔ بلا کہیں کی!“
اتنے میں مہاوت بولا، ”ذرا خاموش رہیے۔“
سر فرانسس نے کہا، ”ارے یہ تو ستی والا معاملہ ہے!“
فاگ نے پوچھا، ”یہ ستی کیا ہے؟“
مہاوت بولا، ”انسان کی قربانی جو عموماً خود ہی دی جاتی ہے۔ کل صبح تڑکے اس عورت کو اس کے شوہر کی لاش کے ساتھ زندہ جلا دیا جائے گا۔“
جلوس میں کچھ لوگ ایک بوڑھے آدمی کی لاش اٹھائے چلے جارہے تھے اور اسی کے آگے آگے ایک خوبصورت نوجوان عورت کو لوگ پکڑے لیے جا رہے تھے۔ چاروں طرف آدمی ننگی تلواریں لیے اس عورت کو گھیرے ہوئے تھے۔
جب جلوس گزر گیا تو فلیس فاگ اور سر فرانسس نے اس پر گفتگو کی۔ مہاوت بولا، ”یہ عورت خود نہیں مرنا چاہتی، مگر چوں کہ اسے نشہ پلا دیا گیا ہے، اس لیے یہ مزاحمت نہیں کر رہی ہے۔“
فاگ نے پوچھا، ”مگر اسے کہاں لیے جارہے ہیں۔“
مہاوت نے جواب دیا، ”پلا جی کے مندر۔ یہاں سے دو میل دور ہے۔ رات بھر یہ عورت وہیں رہے گی۔“
یہ سن کر فاگ نے کہا، ”میرے پاس دو گھنٹے کا وقت ہے۔ میرا خیال ہے کہ ان دو گھنٹوں کو اس عورت کے بچانے میں صرف کردوں۔“
اس پر سر فرانسس بولے، ”آپ تو بڑے نرم دل انسان معلوم ہوتے ہیں۔“
بہرحال یہ لوگ بڑی احتیاط سے بچتے بچاتے اس جگہ تک پہنچ گئے جہاں عورت کی قربانی دی جانے والی تھی۔ سر فرانسس نے کہا، ”میرا خیال ہے رات تک ہم لوگوں کو انتظار کرنا چاہیے۔ اس کے بعد پھر کچھ کیا جائے۔“
اتنے میں فاگ نے مہاوت سے پوچھا، ”اس عورت کے بارے میں تم کیا جانتے ہو؟“
مہاوت نے کہا، ”اس کا نام رادھا ہے۔ وہ بمبئی کے ایک بڑے تاجر کی بیٹی ہے۔ اس کی شادی زبردستی ایک راجا سے کردی گئی تھی۔ جب راجا مر گیا تو یہ وہاں سے بھاگی، کیوں کہ وہ جانتی تھی کہ اس کا انجام کیا ہوگا، لیکن اسے پکڑ لیا گیا اور اب اسے ستی ہونے کے لیے لے جا رہے ہیں۔“
فلیس فاگ، اس کا ملازم پاسپتو، سر فرانسس اور مہاوت اندھیرے میں مندر کے قریب پہنچ گئے۔ کچھ دورپرے آگ جل رہی تھی جس میں راجا کی لاش کو اور اس کی بیوہ کو جلایا جانے والا تھا۔ فاگ نے کہا، ”ایک گھنٹے میں صبح ہوجائے گی۔“
غرض انسانی قربانی کا وقت قریب آتا جارہا تھا، لیکن رادھا کو بچانے کے لیے فاگ اور اس کے ساتھیوں کی سمجھ میں کوئی ترکیب نہیں آرہی تھی۔ چاروں طرف سے لوگ رادھا کو گھیرے ہوئے تھے۔ آخر کار رادھا بھنگ اور افیم کے نشے کی وجہ سے بیہوش ہوگئی اور اسے لوگوں نے راجا کی لاش کے قریب لٹا دیا۔ اس کے بعد جونہی لکڑیوں میں مشعل لگائی گئی آگ بھڑک اٹھی کیوں کہ لکڑیوں پر تیل چھڑکا ہوا تھا۔ پاسپتو سے اب اور زیادہ دیکھا نہ گیا لہٰذا وہ پھاند پڑا۔ چشم زدن میں لوگوں نے دیکھا کہ ایک لاش زندہ ہو کر کھڑی ہوگئی ہے۔
بات یہ ہوئی کہ پاسپتو نے لپک کر رادھا کو اٹھا لیا مگر لوگ سمجھے کہ راجا زندہ ہوگیا ہے اور اس نے رادھا کو اٹھا لیا ہے۔ پھر تمام پنڈتوں، سادھوؤں اور پجاریوں پر دہشت طاری ہوگئی اور ڈر کے مارے کسی نے بھی نظر اٹھا کر دیکھنے کی ہمت نہ کی۔ چنانچہ دھویں اور کہر سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پاسپتو رادھا کو لے بھاگا اور یہ لوگ سب ہاتھی پر سوار ہو کر روانہ ہوگئے، لیکن تھوڑی دیر بعد لوگوں کو پتا چل گیا کہ کیا ہوا۔ پھر تو سب نے ہاتھی کا پیچھا کیا اور تیروں اور گولیوں کی بوچھاڑ کردی، مگر بھاگنے والے بچ کر نکل گئے۔ پھر کئی گھنٹوں کے سفر کے بعد یہ لوگ الہ آباد پہنچے جہاں انہیں دوسری ریل گاڑی میں سوار ہونا تھا۔ سر فرانسس نے فاگ سے کہا، ”مسٹر فاگ! آپ اس نوجوان عورت کو ہندوستان میں نہ چھوڑیے گا ورنہ یہ لوگ اسے ضرور مار ڈالیں گے۔“
فاگ نے کہا، ”میں آپ کے مشورے کو یاد رکھوں گا۔ فی الحال تو میں اسے اپنے ہی ساتھ لیے جاتا ہوں۔“
تھوڑی دیر بعد یہ لوگ ریل پر سوار ہوگئے۔ فاگ نے ہاتھی مہاوت کو دے دیا۔ ریل میں رادھا نے اپنے بچانے والوں کا شکریہ ادا کیا۔ جب اس سے اس کے رشتے داروں کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے بتایا کہ اس کا ایک چچا ہانگ کانگ میں تجارت کرتا ہے۔ فاگ نے کہا، ”بس تو پھر ہم تم کو ہانگ کانگ لیے چلتے ہیں۔“
کلکتے سے پہلے ایک اسٹیشن پر سر فرانسس اتر گئے کیوں کہ انہیں اسی جگہ اپنی رجمنٹ میں شامل ہونا تھا۔ فاگ، پاسپتو اور رادھا نے اپنا سفر جاری رکھا۔
آخر یہ لوگ کلکتے پہنچ گئے، لیکن وہاں پہنچتے ہی پولیس کے ایک افسر نے انہیں آگھیرا اور بولا، ”مسٹر فلیس فاگ! آپ اپنے ملازم کو لے کر ہمارے ساتھ چلیے۔“
چنانچہ ان کو ایک عدالت میں پیش کیا گیا۔ جج نے کہا، ”تم لوگوں کی دو دن سے تلاش ہورہی تھی۔“
فاگ نے پوچھا، ”ہمارے اوپر آخر الزا م کیا ہے؟“
سرکاری وکیل بولا، ”خاموش رہو، تم کو ابھی بتایا جاتا ہے۔“
اس کے بعد جج نے کہا، ”مدعی کو حاضر کرو۔“
یہ کہنا تھا کہ عدالت میں بہت سے پجاری داخل ہو گئے۔ پاسپتو سمجھا کہ یہ وہی پجاری ہیں جو رادھا کو ستی کرنے والے تھے۔ اتنے میں جج بولا، ”فلیس فاگ تم نے اور تمہارے نوکر نے مندر کی بے حرمتی کی ہے۔“
فاگ نے کہا، ”میں اس کا اعتراف کرتا ہوں۔“
جج نے حیران ہو کر کہا، ”اچھا تم اقبال جرم کرتے ہو؟“
فاگ نے کہا، ”میں اقبال جرم کرتا ہوں اور مجھے امید ہے کہ یہ پجاری بھی بتائیں گے کہ یہ پلا جی کے مندر میں کیا کرنے والے تھے۔“
اس پر جج نے ایک جوڑی جوتے اٹھا کر دکھائے اور بولا، ”نہ جانے تم کیا کہہ رہے ہو۔ تم پر یہ الزام ہے کہ تمہارا نوکر ان جوتوں کو پہنے ہوئے بمبئی کے ایک مندر میں داخل ہوگیا تھا۔“
دراصل اس کارروائی کا الزام سراغ رساں فکس نے لگایا تھا۔ وہ بھی یہاں موجود تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ کسی نہ کسی بہانے ان لوگوں کو اس وقت تک یہاں روک لیا جائے جب تک کہ چوری کے الزام میں فاگ کی گرفتاری کا وارنٹ نہیں پہنچ جاتا۔ بہرحال جج نے اپنا فیصلہ سنادیا۔ پاسپتو کو پندرہ دن کی قید اور تین سو پاؤنڈ کا جرمانہ اور مسٹر فاگ چوں کہ اپنے ملازم کی حرکتوں کے ذمے دار سمجھے گئے لہٰذا انہیں آٹھ دن کی قید اور ڈیڑھ سو پاؤنڈ جرمانہ ہوا۔ یہ فیصلہ سن کر پاسپتو سوچنے لگا کہ اس طرح تو ایک ہفتے کی دیر ہوجائے گی۔ میرا مالک تو تباہ ہوجائے گا، لیکن فاگ اتنی آسانی سے ہارنے والا آدمی نہ تھا۔ اس نے دو ہزار پاؤنڈ کی ضمانت داخل کردی اور آزادی حاصل کرلی۔ اس کے بعد فاگ ضمانت کی رقم ضبط کیے جانے کی پروا کیے بغیر ایک کشتی میں بیٹھ کر روانہ ہوگیا۔ اس کا ملازم اور رادھا بھی اس کے ساتھ تھی۔
سراغ رساں فکس نے جو یہ دیکھا تو دل ہی دل میں کہنے لگا، ”دو ہزار پاؤنڈ کی قربانی دے کر یہ آخر پھر چمپت ہوگیا۔ ایک چور ہی اس طرح روپیہ برباد کرسکتا ہے۔ چاہے کچھ بھی ہو میں بھی اس کے پیچھے لگا رہوں گا۔“
لہٰذا اس نے بھی ایک کشتی کرائے پر لی اور فاگ کے پیچھے چل دیا۔ دونوں کشتیوں کے مسافر جب جہاز پر سوار ہوگئے تو فکس نے اپنی اصلیت کو چھپائے رکھا، مگر پاسپتو سے دوستی کی پینگ بڑھاتا رہا۔ پاسپتو کو فکس کے بارے میں کچھ شبہ تو ہوا، مگر وہ یہ سمجھا کہ شاید فکس کو ان لوگوں نے بھیجا ہے جن سے فاگ نے شرط لگائی ہے اور یہ اس لیے پیچھا کر رہا ہے کہ خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لے کہ فاگ نے واقعی دنیا کا چکر لگایا یا نہیں۔
غرض جب یہ لوگ ہانگ کانگ پہنچے تو پتا چلا کہ رادھا کے چچا امریکا چلے گئے ہیں۔ چنانچہ یہ طے کیا گیا کہ رادھا کو لے کر یہ لوگ امریکا چلے جائیں۔ فکس کو پتا چل گیا کہ فاگ امریکا جانے والا ہے۔ فکس چاہتا تھا کہ فاگ کو ہانگ کانگ میں روک لے تاکہ وارنٹ گرفتاری جب آجائے تو اسے یہیں گرفتار کرلے، کیوں کہ ہانگ کانگ پر انگریزوں کی حکومت ہے۔ چنانچہ اس نے پاسپتو سے کہا، ”میں تمہارے آقا کے بارے میں تم سے چند اہم باتیں کرنا چاہتا ہوں۔“
پاسپتو اس وقت جہاز کی روانگی کا وقت معلوم کرنے جا رہا تھا۔ فکس نے اسے دھوکا دے کر شراب خانے میں پہنچا دیا۔ فکس کو اب یقین ہوگیا تھا کہ پاسپتو بنک کی چوری میں فاگ کے ساتھ شریک نہیں ہے، لیکن فاگ کو وہ ابھی تک چور ہی سمجھ رہا تھا۔ جب دونوں بیٹھ گئے تو فکس نے پاسپتو سے کہا، ”دیکھو میں ایک پولیس افسر ہوں۔ تمہیں ہماری مدد کرنی چاہیے۔ میں چاہتا ہوں کہ مسٹر فاگ ہانگ کانگ میں رک جائیں تاکہ جب وارنٹ آجائے تو میں انہیں گرفتار کرلوں۔ تمہارے آقا نے بینک کا روپیہ چرایا ہے۔ چور کو گرفتار کرنے کے سلسلے میں جو دو ہزار پاؤنڈ انعام ملے گا۔ اس میں سے آدھا میں تمہیں دے دوں گا۔“
یہ سن کر پاسپتو بولا، ”جس گاؤں کا میں رہنے والا ہوں وہاں کے لوگ اس قسم کی دولت کو ٹھوکر مارتے ہیں۔ اول تو میرا آقا چور نہیں ہے اور اگر وہ چور بھی ہے تب بھی میں نے اس کی نیکیاں دیکھی ہیں۔ میں اسے کبھی دھوکا نہیں دے سکتا۔“
اس پر فکس بولا، ”اچھا تو پھر یوں سمجھ لو کہ گویا میں نے تم سے کچھ کہا ہی نہیں ہے۔ آؤ کچھ کھا پی لو۔“
اس کے بعد فکس نے پاسپتو کے گلاس میں کوئی خواب آور دوا ڈال دی۔ لہٰذا اس کے پیتے ہی پاسپتو بیہوش ہوگیا۔
فکس جب پاسپتو کو ٹھکانے لگا چکا تو اس کی ہمت اور بڑھ گئی اور وہ فاگ کے پاس پہنچا۔ اس وقت فاگ اور رادھا کھڑے پاسپتو کا انتظار کر رہے تھے۔ فکس نے ان سے باتیں شروع کردیں۔ باتوں باتوں میں فاگ نے بتایا کہ وہ اپنے ملازم کا انتظار کر رہا ہے اور جاپان جانے والا ہے۔ اس پر فکس بولا، ”پھر تو آپ کو دوسرے جہاز کے لیے ایک ہفتے انتظار کرنا پڑے گا۔“
فکس اپنے دل میں بڑا خوش ہورہا تھا کہ اس نے فاگ کے راستے میں رکاوٹ ڈال دی ہے، لیکن فاگ بھلا کہاں رکنے والا آدمی تھا۔ اس نے فوراً ایک دوسرے کپتان سے رابطہ قائم کیا۔ یہ کپتان شنگھائی جا رہا تھا۔ فکس سائے کی طرح ساتھ ساتھ لگا ہوا تھا۔ آخر اس نے فاگ کے ساتھ جانے کی اجازت مانگی۔ فاگ نے اس کی یہ بات منظور کر لی اور یہ لوگ جہاز پر روانہ ہوگئے۔ جب یہ جہاز آدھا راستہ طے کرچکا تو بڑا زبردست طوفان آیا۔ جہاز کے کپتان نے چاہا کہ قریبی بندرگاہ کی جانب گھوم جائے مگر فاگ نے اس کی اجازت نہ دی۔ اسی عرصے میں فکس نے اپنے سفر خرچ کی رقم فاگ کو دینا چاہی مگر فاگ نے اسے قبول نہ کیا۔
اب ذرا پاسپتو کا حال سنیے۔ فاگ تو شنگھائی جارہے تھے اور پاسپتو یوکوہاما (جاپان) پہنچ رہا تھا۔ ہوا یہ کہ جب اسے ہوش آیا تو وہ سیدھا جہاز پر پہنچا۔ اسے یہ خیال نہیں رہا کہ اپنے آقا کو جہاز کی روانگی کا وقت تو بتا ہی نہیں پایا۔ اب یوکوہاما میں وہ بغیر پیسے کوڑی تنہا آگیا تھا۔ اتنے میں اس نے دیکھا کہ سامنے ایک جاپانی سرکس ہے۔ اشتہار میں لکھا تھا کہ یہ سرکس کل امریکا روانہ ہونے والا ہے۔ چنانچہ پاسپتو اس سرکس میں ملازم ہوگیا۔
ادھر جب فاگ یوکوہاما پہنچا تو وقت گزارنے کے لیے رادھا کو لے کر سرکس پہنچ گیا۔ پاسپتو اسی سرکس کا مسخرہ بنا ہوا تھا۔ لمبی سی رنگین ناک لگائے وہ طرح طرح کی حماقتیں کر رہا تھا۔ رادھا نے اسے پہچان لیا۔ اس کے بعد پاسپتو جب ان کے قریب پہنچا تو اس نے بھی ان لوگوں کو دیکھ لیا اور دیکھتے ہی خوشی سے چلایا، ”میرے آقا…… رادھا!“
فاگ نے اس سے کہا، ”اب جہاز پر چلو۔“
راستے میں پاسپتو نے اپنے حالات بتائے مگر فکس کے بارے میں جان بوجھ کر تذکرہ نہیں کیا۔ اس جہاز پر فاگ اور اس کے ساتھی اکیس روز میں سان فرانسسکو پہنچنے والے تھے۔ لہٰذا ان تمام دشواریوں کے باوجود فاگ اب بھی وقت کے مطابق سفر کر رہا تھا۔ سراغ رساں فکس بھی اسی جہاز پر موجود تھا، مگر وہ پاسپتو سے دور ہی رہتا تھا۔ بہرحال ایک دن فکس اور پاسپتو کی مڈبھیڑ ہو ہی گئی۔ بس پھر کیا تھا۔ پاسپتو نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، تان کر ایک مکا فکس کے جبڑے پر ایسا مارا کہ وہ دھڑام سے زمین پر گر پڑا۔ فکس اپنا جبڑا پکڑ کر بولا، ”تم نے مجھے مارا۔ میں اسی کا مستحق تھا، مگر اب میری بات سنو۔ ابھی تک تو میں مسٹر فاگ کا مخالف تھا، لیکن اب آج سے میں ان کا معاون ہوں۔“
پاسپتو بولا، ”تو اب تمہاری سمجھ میں آگیا کہ وہ ایک ایماندار آدمی ہیں۔“
یہ سن کر فکس نے کہا، ”نہیں میں اب بھی ان کو چور ہی سمجھتا ہوں۔ جس وقت تک مسٹر فاگ انگریزی عمل داری میں رہے، میں نے انہیں روکنا چاہا، لیکن اب مسٹر فاگ انگلستان واپس جارہے ہیں۔ لہٰذا اب میں ان کے راستے کی تمام دشواریوں کو دور کرنے کی کوشش کروں گا۔“
اتنا کہہ کر فکس نے مصافحہ کرنے کے لیے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا اور بولا، ”کیا اب ہم اور تم ایک دوسرے کے دوست رہیں گے؟“
پاسپتو نے بے نیازی سے جواب دیا، ”نہیں، ہم صرف ایک دوسرے کے ساتھی ہیں۔ میں نے اگر ذرا بھی تمہاری دغا بازی دیکھی تو میں تمہاری گردن مروڑ دوں گا۔“
بہرحال یہ لوگ وقت پر سان فرانسسکو پہنچ گئے۔ اتنے عرصے میں مسٹر فاگ کا نہ تو ایک دن ضائع ہوا اور نہ ایک دن کا فائدہ ہوا۔ اس کے بعد یہ لوگ ریل میں سوار ہوگئے۔ فکس نے کہا، ”کہتے ہیں پرانے زمانے میں سان فرانسسکو سے نیویارک تک پہنچنے میں چھ مہینے لگ جاتے تھے۔“
اس پر فاگ بولا، ”ہم لوگ سات دن میں پہنچ جائیں گے ور اس کے بعد لیور پول کے لیے جہاز پر سوار ہوجائیں گے۔“
ریل بیس میل فی گھنٹہ کی رفتار سے پہاڑی دروں میں سے گزرتی چلی جارہی تھی۔ دو ایک جگہ گاڑی کو رکنا پڑا۔ اس تاخیر کے بارے میں فاگ نے بھی نہ سوچا تھا۔ ایک بار دس ہزار بھینسوں کے غول نے ریل کو روک دیا۔ اس غول کے گزرنے میں شام ہوگئی۔ پاسپتو نے بھینس کبھی نہیں دیکھی تھی، لیکن اسے ان جانوروں پر بڑا غصہ آرہا تھا۔ کہنے لگا، ”عجیب ملک ہے، جہاں مویشی ریل کو روک لیتے ہیں۔“
ریل کے سفر کے دوران مسٹر فاگ ایک دوسرے مسافر کرنل پراکٹر کے ساتھ تاش کھیلنے لگے۔ کھیل میں کرنل صاحب جب ہارنے لگے تو انہوں نے فاگ پر بے ایمانی کا الزام لگادیا۔ چوں کہ یہ عزت کا معاملہ تھا لہٰذا فاگ نے کرنل کو چیلنج کیا کہ دوبدو مقابلہ کریں اور ڈوئل لڑیں۔ طے یہ پایا گیا کہ گاڑی جب پلم کریک پر رکے تو وہیں پستول لے کر دونوں لڑیں گے۔ مگر گاڑی جب پلم کریک کے قریب آئی تو کنڈکٹر نے آکر یہ بتایا کہ گاڑی وہاں نہیں رکے گی، کیوں کہ 20منٹ کی تاخیر پہلے ہی ہوچکی ہے۔ یہ سن کر کرنل صاحب بولے، ”مگر ہم تو وہاں ڈوئل لڑنے والے تھے۔“
اس پر کنڈکٹر نے کہا، ”تو آپ ریل میں ہی ایک دوسرے سے مقابلہ کریں۔“
چنانچہ ریل کا ایک حصہ مسافروں سے خالی کرا لیا گیا اور دونوں حریف اپنی اپنی عزت کی مدافعت کے لیے پستول لے کر لڑنے کے لیے آمنے سامنے کھڑے ہوگئے۔ یہ طے ہوا کہ جوں ہی انجن اب سیٹی بجائے،دونوں ایک دوسرے پر گولی چلادیں۔ ابھی یہ باتیں طے ہی ہوئی تھیں کہ اتنے میں ریل گاڑی کو اچانک ایک ایسا زبردست جھٹکا لگا کہ سب لوگ ادھر ادھر گر پڑے اور اسی کے ساتھ وحشیوں کی چیخ پکار کا شور سنائی دیا۔ دراصل ہوا یہ تھا کہ ریڈ انڈین قبائل نے ریل پر حملہ کردیا تھا۔ یہ کوئی نئی بات نہ تھی۔ ان دنوں اکثر ایسا ہوتا رہتا تھا۔ چنانچہ گاڑی کے دونوں جانب وحشی ریڈ انڈین اپنے گھوڑوں پر سوار گولیاں چلا رہے تھے۔ کچھ وحشی ریڈ انڈین ریل کی چھت پر بھی سوار ہوگئے تھے۔ کچھ ریل کے اندر گھس آئے تھے۔ غرض ایک عجیب ہنگامہ برپا تھا۔ ہر طرف قتل و غارت گری کا بازار گرم تھا۔ ریل کے اندر گھمسان کی لڑائی ہورہی تھی۔
بیچارہ کنڈکٹر شروع میں ہی مارا گیا۔ مسافروں نے بھی بڑی بہادری سے مقابلہ کیا۔ فاگ، کرنل پراکٹر اور پاسپتو نے بڑی دلیری سے وحشیوں کو منہ توڑ جواب دیا۔ رادھا ایک کونے میں دبکی بیٹھی رہی۔ جس جگہ حملہ ہوا تھا اس سے دو میل دور قلعہ کیرنی واقع تھا۔ چنانچہ وہاں جو گولیاں چلنے کی آواز سنائی دیں تو سپاہی جلدی جلدی گھوڑوں پر سوار ہو کر ریل کے مسافروں کی مدد کوآ موجود ہوئے۔ سپاہیوں کے آجانے سے حملہ آور بھاگ کھڑے ہوئے۔ اب جو مسافروں کی گنتی کی گئی تو پتا چلا کہ تین مسافر غائب ہیں۔ ان ہی میں پاسپتو بھی تھا۔ مسٹر فاگ نے ان لوگوں کی تلاش کا بیڑا اٹھایا۔ قلعہ سے آئے ہوئے 30سپاہی مسٹر فاگ کے ساتھ ہولیے۔ چنانچہ تھوڑی ہی دیر بعد مسٹر فاگ اور ان کے ساتھی سپاہی حملہ آوروں کی تلاش میں چل پڑے۔ قلعہ کیرنی سے دس میل جنوب کی جانب ایک جگہ پر حملہ آور نظر آگئے۔ وہ اب بڑے اطمینان سے چلے جارہے تھے۔ مسٹر فاگ اور ان کے ساتھیوں نے اچانک ان پر حملہ کردیا۔ یہ حملہ اتنا اچانک ہوا تھا کہ ریڈ انڈین اس کی تاب نہ لا سکے اور جان بچا کر بھاگے۔ جن تین آدمیوں کو وہ اپنا قیدی بنائے ہوئے تھے، انہیں چھوڑ گئے۔ پاسپتو بھی انہی میں تھا۔ جب پاسپتو اپنے آقا سے ملا تو وہ بہت خوش ہوا۔
غرض 10دسمبر کو چار بجے سہ پہر مسٹر فاگ اور ان کے ساتھی شکاگو پہنچ گئے۔ رادھا نے پوچھا، ”یہاں سے نیویارک کا کتنا فاصلہ ہے؟“
مسٹر فاگ نے کہا، ”900میل“
فکس بولا، ”چائنا نامی ایک جہاز کل 9بجے رات نیویارک سے لیورپول روانہ ہوجائے گا۔“
پاسپتو نے کہا، ”اللہ کرے ہم وقت پر پہنچ جائیں۔“
دوسرے دن ٹھیک رات 9بج کر 35منٹ پر یہ لوگ نیویارک کی بندرگاہ پر پہنچے۔ یہاں ان کو پتا چلا کہ جہاز تو 35منٹ قبل ہی روانہ ہوگیا۔ اس جہاز کی روانگی کے ساتھ مسٹر فاگ کی ساری امیدیں ختم ہوگئیں۔ پاسپتو کو بڑا صدمہ ہوا۔ وہ اپنے دل میں سوچنے لگا کہ جب بھی کہیں دیر ہوئی ہے تو وہ میری ہی وجہ سے ہوئی ہے۔ لیکن مسٹر فاگ نے ہمت نہ ہاری۔ وہ ایک دوسرے جہاز کے پاس پہنچے اور بولے، ”میں نے سنا ہے تمہارا جہاز فرانس جانے والا ہے۔ کیا کچھ مسافر بھی لے جاسکتے ہو؟“
کپتان بولا، ”نہیں، مسافر تو ہم کبھی نہیں لے جاتے۔“
مسٹر فاگ نے بہتیری کوشش کی کہ کپتان اسے اور اس کے ساتھیوں کو لیورپول پہنچادے مگر کپتان نہ مانا۔ آخر فاگ نے کپتان سے کہا کہ اچھا ہم لوگوں کو فرانس ہی تک پہنچا دو۔ ہم دو ہزار ڈالر فی مسافر دیں گے۔ اتنی بڑی رقم سن کر کپتان راضی ہوگیا۔ فاگ نے فوراً رقم دے دی اور یہ لوگ جہاز پر سوار ہو گئے۔
جہاز کی روانگی کے تھوڑی ہی دیر بعد کپتان کو اس کے کمرے میں بند کردیا گیا اور جہاز فرانس کے بجائے سیدھا لیورپول کی جانب روانہ ہوگیا۔ یہ ساری کاروائی دراصل مسٹر فاگ نے کروائی تھی۔ انہوں نے جہاز کے عملے کو اس کام کے لیے بہت سا روپیہ دے دیا تھا۔
16دسمبر مسٹر فاگ کی روانگی کا پچھترواں دن تھا۔ جہاز بڑی تیزی سے چل رہا تھا۔ ایک روز جہاز کے انجینئر نے مسٹر فاگ کو بتایا کہ کوئلہ کم ہوگیا ہے۔ فاگ نے فوراً ایک ترکیب سوچ لی۔ اس نے کپتان کو بلوایا۔ کپتان غصے سے آگ بگولا ہورہا تھا۔ آتے ہی چیخنے لگا، ”تم لوگ ڈاکو ہو۔ تم نے میرے جہاز پر زبردستی قبضہ کیا ہے۔“
مسٹر فاگ نے اس سے کہا، ”دیکھو، میں یہ جہاز تم سے خرید لینا چاہتا ہوں، کیوں کہ مجھے اسے جلانا پڑے گا۔“
یہ سن کر کپتان چلایا، ”میرے55ہزار ڈالر کے جہاز کو تم جلا ڈالنا چاہتے ہو؟“
فاگ نے کہا، ”میں تم کو60ہزار ڈالر دوں گا۔ مجھے21تاریخ کو رات 8بج کر 45منٹ پر لندن پہنچ جانا ہے ورنہ میں بیس ہزار پاؤنڈ ہار جاؤں گا۔“
آخر کپتان راضی ہوگیا۔ اس کے بعد مسٹر فاگ نے جہاز میں جہاں جہاں لکڑی لگی ہوئی تھی وہ سب نکلوائی اور اسے ایندھن کے طور پر استعمال کروا دیا تاکہ جہاز کی رفتار تیز رہے۔ اب جہاز کا صرف لوہے کا ڈھانچہ باقی رہ گیا تھا۔
20دسمبر کو یہ جہاز آئرلینڈ کے ساحل کے قریب پہنچا۔ رات دس بجے یہ لوگ کوئنس ٹاؤن سے گزر رہے تھے۔ اب فلیس فاگ کے پاس لندن پہنچنے کے لیے صرف چوبیس گھنٹے باقی رہ گئے تھے۔21دسمبر کو12بجنے میں 20منٹ باقی تھے کہ مسٹر فاگ لیورپول پہنچ گئے۔ اب ان کے پاس نو گھنٹے کا وقت تھا جس میں چھ گھنٹے کا سفر کرنا تھا، لیکن یہاں ایک عجیب معاملہ پیش آگیا۔ جونہی یہ لوگ لیورپول پہنچے اور جہاز سے اترے تو سراغ رساں فکس نے کہا، ”فلیس فاگ! میں تم کو ملکہ کے نام پر گرفتار کرتا ہوں۔“
لہٰذا فلیس فاگ کو رات بھر کے لیے حوالات میں بند کردیا گیا۔ صبح اسے لندن روانہ کیا جانے والا تھا۔ فاگ نے سوچا کہ اب میرے شرط ہارنے میں کوئی کسر نہیں رہ گئی ہے، لیکن اچانک کچھ ہی دیر بعد فکس نے آ کر فاگ کو آزاد کردیا اور بولا، ”جناب، اصل چور کو تین دن ہوئے گرفتار کرلیا گیا ہے۔ میں آپ سے معافی کا خواستگار ہوں۔“
فاگ نے فکس کے چہرے کو دیکھا اور نہایت تیزی سے دونوں ہاتھوں سے اس کے منہ پر ایسے مکے مارے کہ وہ ڈھیر ہوگیا۔ یہ دیکھ کر پاسپتو بولا، ”اسے کہتے ہیں مکے بازی!“
اس کے بعد فاگ نے ایک خصوصی ریل گاڑی کا بندوبست کیا۔ یہ ریل گاڑی 3بجے روانہ ہوئی اور بڑی تیزی سے چلتی رہی۔ فاگ انجن ڈرائیور کے پاس ہی کھڑا رہا۔ اس نے ڈرائیور سے کہا، ”مجھے آج ہی رات پونے نو بجے اپنے لندن کے کلب میں پہنچنا ہے۔“
ڈرائیور نے کہا، ”جناب، یہ گاڑی اس سے زیادہ تیز نہیں چل سکتی۔“
بہرحال جب یہ لوگ ساری دنیا کا چکر کاٹ کر لندن پہنچے تو وہاں گھنٹہ گھر میں نو بجنے میں دس منٹ باقی تھے۔ فاگ نے رادھا اور پاسپتو سے کہا، ”صرف پانچ منٹ کی دیر ہوجانے سے میں 20ہزار پاؤنڈ ہار گیا۔“
چنانچہ یہ لوگ نہایت رنجیدہ ہوکر مسٹر فاگ کے گھر چلے گئے۔ فاگ کو بڑا صدمہ تھا۔ رات کو فاگ نے رادھا سے کہا، ”خاتون! معاف کرنا، میں تم کو خوامخواہ انگلستان لے آیا۔“
رادھا نے کہا، ”اس میں معافی مانگنے کی کیا ضرورت ہے۔“
اس پر فاگ بولا، ”میں نے جب تم کو یہاں لانے کا فیصلہ کیا تھا، اس وقت میں دولت مند تھا۔ میں نے سوچا تھا کہ میں اپنی دولت میں سے کچھ تم کو بھی دے دوں گا، لیکن اب میں بالکل تباہ ہوچکا ہوں۔“
رادھا نے کہا، ”مسٹر فاگ، میری وجہ سے آپ کا کتنا وقت برباد ہوا۔“
فاگ نے کہا، ”خاتون، تم ہندوستان میں تو اب نہیں رہ سکتی تھیں۔“
یہ سن کر رادھا نے کہا، ”لیکن مسٹر فاگ، اب آپ کیا کریں گے۔ آپ کا کوئی عزیز یا رشتے دار نہیں ہے؟“
فاگ نے کہا، ”نہیں، میرا کوئی نہیں ہے۔“
اس پر رادھا نے کہا، ”اگر آپ کی مرضی ہو تو میں آپ کی خدمت کرنے کے لیے تیار ہوں۔“
یہ سن کر فاگ بہت خوش ہوا اور بولا، ”تم سچ کہتی ہو۔ بس اب تم ہی میری شریک حیات بن جاؤ۔“
چنانچہ پاسپتو کو روانہ کیا گیا تاکہ اگلی پیر کو مسٹر فاگ اور رادھا کی شادی کا انتظام کیا جائے۔ پاسپتو ایک پادری کے گھر پہنچا اور اس سے کہا، ”میں کل اپنے آقا کی شادی کا بندوبست کرنا چاہتا ہوں۔“
یہ سن کر پادری بولا، ”مگر کل تو اتوار ہے۔“
پاسپتو نے جو یہ سنا تو وہ حیران ہو کر بولا، ”کیا کہا آپ نے؟ کیا آپ کو یقین ہے کہ کل اتوار ہی ہے؟“
پادری نے کہا، ”ہاں مجھے بالکل یقین ہے۔ آج سنیچر ہے!“
یہ سنتے ہی پاسپتو پاگلوں کی طرح بھاگتا ہوا اپنے آقا کے پاس پہنچا اور بولا، ”جناب، ہم لوگوں نے ایک دن کی غلطی کردی۔ آج سنیچر ہے۔ اتوار نہیں ہے۔ حالانکہ ہم لوگ چوبیس گھنٹے پیشتر آگئے تھے مگر اب آپ کو کلب پہنچنے کے لیے دس منٹ ہی رہ گئے ہیں!“
لہٰذا جلدی سے ان لوگوں نے ایک گھوڑا گاڑی پکڑی اور اس میں روانہ ہوگئے۔ کلب میں مسٹر فاگ کے دوست نہایت بے چینی سے اس کا انتظار کر رہے تھے۔ چنانچہ جوں ہی گھڑی نے پونے نو بجے کا گجر بجایا مسٹر فلیس فاگ، رادھا اور پاسپتو کو لیے کلب کے اندر داخل ہوگئے اور بولے، ”صاحبو! میں حاضر ہوں۔ ٹھیک پونے نو بجے ہیں۔“
بات دراصل یہ ہوئی تھی کہ مسٹر فاگ کو اپنے سفر کے دوران ایک دن کی بچت ہوگئی تھی۔ دنیا کے محیط پر تین سو ساٹھ ڈگریاں ہوتی ہیں۔ مشرق کی جانب سورج کی طرف سفر کرتے وقت فاگ کو ہر ڈگری کے ساتھ چار منٹ کا فائدہ ہوا۔ لہٰذا پوری تین سو ساٹھ ڈگریاں پار کرنے میں اسے چوبیس گھنٹوں یعنی ایک دن کا فائدہ ہوگیا۔
قصہ کوتاہ مسٹر فلیس فاگ شرط جیت گئے اور پہلے سے بھی زیادہ دولت مند ہوگئے۔ اس کے بعد انہوں نے رادھا سے شادی کرلی اور سب ہنسی خوشی رہنے لگے۔
٭٭٭