skip to Main Content

۲ ۔ لڑکپن اور شباب

محمد حمید شاہد

۔۔۔۔۔۔۔

وَ لیس ہوائی نادعا عن ثناءِ
لعلّی بہ فِیْ جَنَّۃِ الخُلْدِ اَخْلَدُ

’’اور آپ کی یہ مدح و ثنا جو میں کر رہا ہوں

اِس میں میرا نفس کسی طرح معارض نہیں

مجھے اُمید ہے کہ میں اس مدح و ثنا کی وجہ سے جنت الخلد میں ہمیشہ ہمیشہ رہوں گا۔‘‘
(حسان بن ثابتؓ)

در یتیم
وقت تیزی سے محوِ پرواز تھا۔۔۔۔۔۔
لمحے گھنٹوں، گھنٹے دِنوں، دِن مہینوں اور مہینے سالوں کے روپ میں ڈھلے جا رہے تھے۔ گزشتہ سال کی طرح اِس سال بھی آمنہ بی بی کا یہی پروگرام تھا کہ وہ اپنے شوہر عبداللہ کی قبر پر حاضری دیں گی۔ لیکن اس مرتبہ اپنے مرحوم شوہر کی نشانی چھ سالہ محمدؐ کو بھی ساتھ لیے جا رہی تھیں۔ پہلے تو ننھے محمدؐ کو اُن کی پردادی۱؂ کے خاندان بنی عدّی بن نجار سے ملانے کے لیے اُمِّ ایمن۲؂ کے ساتھ یثرب لے گئیں اور ایک مہینہ وہیں قیام فرمایا۔ پھر مرحوم شوہرکی قبر پر حاضری دی۔ آمنہ بی بی نے ننھے محمدؐ کو وہ مقام بھی دکھایا جہاں عبداللہ وفات پا گئے تھے۔ ان مصروفیات سے فارغ ہوکر واپس مکہ چل پڑیں۔ مگر آپؐ جو پہلے شفقت پدّری سے محروم تھے۔ اب ’’ابواء‘‘ کے مقام پر ماں کے پیار سے بھی محروم ہوگئے۔ یہ صدمہ ننھے محمدؐ کے لیے بہت جان لیوا تھا۔ آمنہ بی بی کو وہیں دفن کیا گیا اور آپؐ اُمِّ ایمن کے ہمراہ مکہ واپس پلٹ آئے۔ مکہ پہنچے تو داداعبدالمطلب نے ہاتھوں ہاتھ لیا اور ننھے کو سر آنکھوں پر بٹھایا۔
چچا کا پیار
بڑا ہی رقّت آمیز منظر تھا۔
وہ دادا کہ جس نے ماں کی وفات کے بعد آپؐ کو دنیا بھر سے بڑھ کر پیار دیا تھا۔ وہ دادا کہ جو اکثر کہا کرتے :’’خدا کی قسم! میرے بیٹے کا مزاج شاہانہ ہے‘‘ کبھی کہتے ’’مجھے امید ہے میرا بیٹا بلند مرتبے پر پہنچے گا‘‘۔
وہ دادا کہ جو کھانا کھانے اُس وقت تک نہ بیٹھتے جب تک آپؐ آ نہ جاتے اور محمدؐ آ جاتے تو اپنی گود میں بٹھا لیتے۔ ہاں! وہی دادا عبدالمطلب آج بسترِ مرگ۳؂ پر پڑے تھے اور سرہانے کھڑے آٹھ سالہ محمدؐ کی آنکھوں سے آنسو سیلاب کی مانند اُمڈے چلے آ رہے تھے۔
عبدالمطلب کی رُوح نے جب قفسِ عنصری سے پرواز کیا تو آپؐ کے دل پر بہت گہری چوٹ لگی۔ یوں دادا کا چھوڑ جانا آپؐ کو اچھا نہ لگا تھا مگر تقدیر کے فیصلے تو اٹل ہی ہوا کرتے ہیں۔
چچا ابوطالب۴؂ نے آگے بڑھ کر دُرِّیتیمؐ کو سہارا دیا۔ سہارا بھی یوں دیا جیسے دادا نے دیا تھا۔ اپنے بیٹوں سے بھی زیادہ پیار کون دوسروں کو دیا کرتا ہے؟ مگر یہاں تو معاملہ ہی اُلٹ تھا ابوطالب کی اپنی اولاد سے کہیں زیادہ پیار آپؐ کے حصے میں آیا۔
تشویش
’’چچا جان میں بھی چلوں گا‘‘۔
’’نہیں بیٹے ضد نہ کر سفر لمبا ہے اور تم تھک جاؤ گے۔‘‘
’’نہیں چچا میں بھی ضرور چلوں گا۔ آپ مجھے کس کے سہارے چھوڑے جا رہے ہیں۔ نہ تو میری ماں ہے اور نہ ہی میرا باپ جو میری دیکھ بھال کرے۔‘‘ چچا نے یہ سنا تو دل پسیج گیا، کہنے لگے: ’’خدا کی قسم! نہ میں اِسے جُدا کروں گا نہ خود اِس سے جدا ہوں گا ۔یہ میرے ساتھ جائے گا۔‘‘
چچا ابوطالب نے رختِ سفر باندھا۔ بارہ سالہ محمدؐ نے بھی جھٹ پٹ تیاری کی اور دونوں شام کی جانب جانے والے تجارتی قافلے سے جا ملے۔
قافلہ بصریٰ پہنچا اور ’’بحیرا۵؂‘‘ راہب کے صومعے کے پاس ٹھہرا ۔اس سے قبل کبھی بھی بحیرا اپنے صومعے سے باہر نکل کر قافلے کے استقبال کے لیے نہ آیا کرتا تھا۔ مگر خلافِ معمول بحیرا قافلے والوں کی پذیرائی کے لیے خود باہر آیا اور قافلے والوں کو کھانے کی دعوت دی۔ کھانا کھانے کے لیے جب سب لوگ آ چکے، تو بحیرا نے پوچھا کہ :
’’کیا سبھی لوگ آ گئے ہیں؟‘‘
ابوطالب نے جواب دیا:
’’جی ہاں! باقی تو سبھی آ گئے ہیں۔ مگر ایک کم سن بچہ ہم سامان کی حفاظت کے لیے پیچھے چھوڑ آئے ہیں۔‘‘
اُس نے کہا:
’’اُس بچے کو بھی بلا لاؤ۔‘‘
چند لمحوں کے بعد محمدؐ بھی دعوت میں پہنچ گئے۔ آپؐ کو دیکھ کر بحیرہ حیرت زدہ ہوگیا۔ نظریں چہرے مہرے اور جُسے کا جائزہ لے رہی تھیں۔ قافلے والے جب کھانا کھا چکے تو بحیرا نے پوچھا:
’’یہ بچہ کس کے ساتھ ہے؟‘‘
ابوطالب: ’’یہ میرا بیٹا ہے۔‘‘
بحیرہ ابوطالب کے چہرے پر نظریں جما کر کہنے لگا:
’’اس بچے کا والد زندہ نہیں ہوسکتا۔‘‘
ابوطالب: ’’جی ہاں! آپ نے بجا فرمایا، یہ میرے مرحوم بھائی کی نشانی ہے۔ ابھی ماں کے بطن میں ہی تھا کہ باپ وفات پا گئے۔‘‘
بحیرہ پھر ابوطالب سے مخاطب ہوا:
’’اپنے بھتیجے کو واپس وطن لے جاؤ اور یہودیوں سے اسے محفوظ رکھو۔ کیونکہ تمہارا یہ بھتیجا بڑی عظیم شخصیت کا مالک ہے۔‘‘
یہ کچھ سن کر ابوطالب کو بہت تشویش ہوئی۔ آپؐ کو مزید آگے نہ جانے دیا اور وہیں سے واپس لوٹا دیا۔
پیغام
خویلد کی چالیس سالہ بیٹی خدیجہؓ۶؂ بہت پریشان تھیں۔ خود تجارت کا مال و اسباب لے کر دور دراز مقامات کا سفر کرنے سے تو رہیں لیکن ستم یہ کہ کوئی قابلِ اعتماد فرد بھی نہیں مل رہا تھا کہ یہ سارا دھندا اُس کے حوالے کیا جائے۔ دفعتاً ذہن کے آکاش پر عرب کے پچیس سالہ بانکے سجیلے نوجوان محمدؐ کا چہرہ اُبھر آیا۔ سراسر شرافت و اخلاق، ایسے ہی قابل اعتماد فرد کی خدیجہؓ کو ضرورت تھی۔ آپؐ کے بارے میں اُس نے بہت کچھ سن رکھا تھا۔ یہی کہ اس عین بہک جانے والی عمر میں وہ مینارہ اخلاق ہیں۔ خدیجہؓ کو یہ بھی معلوم تھا کہ آپؐ عام نوجوانوں کی طرح کھلنڈرے اور شریر نہیں بلکہ بوڑھوں کی سی سنجیدگی لیے ہوئے ہیں۔ انتہائی گمراہ کن ماحول میں پلنے کے باوجود بے داغ جوانی کے مالک ہیں۔ عشق و نظربازی اور بدکرداری جہاں نوجوانوں کے لیے سرمایہ افتخار بنے ہوئے ہیں آپؐ اپنے دامانِ نظر کو ایک آن بھی میلا نہیں ہونے دیتے۔ جہاں چہار جانب شراب کشید کی بھٹیاں لگی ہوئی ہیں اور گھر گھر مَے خانے بنے ہوئے ہیں ،وہاں یہ منفرد فطرت نوجوان شراب کا ایک قطرہ تک زبان پر نہیں رکھتا۔ المختصر ایسی ہی بے شمار صفات والا نوجوان جب خدیجہؓ کے دل و ذہن میں در آیا تو ساری پریشانیاں یکایک کافور ہوگئیں۔ جھٹ پیغام دے بھیجا۔
مقدس بندھن
اور پھر محمدؐ خدیجہؓ کے غلام میسرہ کے ہمراہ سامانِ تجارت لیے ملک شام کی جانب بڑھے جا رہے تھے۔ خوب دیانت داری اور محنت سے کام کیا اور معقول منافع لے کر واپس پلٹ آئے۔ میسرہ سفر میں محمدؐ کے اخلاق و کردار سے بے انتہا متاثر ہوا۔ مکہ پہنچ کر خدیجہؓ کے سامنے بہت تعریف کی۔ خدیجہؓ جو پہلے ہی محمدؐ کے حسنِ اخلاق و کردار کی معترف تھیں، میسرہ کی جانب سے جو یوں تعریفیں سنیں تو دِل میں محبت و الفت کے جذبات پیدا ہوگئے۔ پیغام بھجوا بھیجا کہ
’’میں اِس پاک و عفیف نوجوان سے شادی کرنا چاہتی ہوں۔‘‘
آپؐ نے بھی خدیجہؓ کی پاک دامنی کے چرچے سُن رکھے تھے۔ اِس لیے فوراً حامی بھر لی اور یوں دونوں شادی۷؂ کے مقدس بندھن میں بندھ گئے۔
صادق اور امین
وَوَجَدَکَ عَاءِلاً فَاَغْنٰی
’’اور اللہ نے آپؐ کو غریب پایا پھر غنی کر دیا۸؂۔‘‘
شادی کے بعد غربت کے دن لد گئے اور خوش حالی کے دنوں کا آغاز ہوگیا۔ آپؐ تجارت کرتے اور یوں وقت کی گاڑی چلی جا رہی تھی۔ اگرچہ دولت کی فراوانی تھی مگر آپؐ اپنی ذات پر بہت کم خرچ کرتے۔ دو وقتوں کا کھانا اور سادہ کپڑے۔ البتہ نادار اور مفلس لوگ اس دولت سے خوب مستفید ہو رہے تھے۔ خدیجہؓ بھی غریبوں، تنگدستوں اور مفلسوں کی مدد کرتے ہوئے خوشی محسوس کرتی تھیں۔ اخلاقی لحاظ سے محمدؐ پہلے ہی بلند مرتبہ پر فائز تھے۔ اب مالی طور پر مستحکم ہوجانے کے بعد آپؐ کا شمار مکہ کے سرداروں میں ہونے لگا۔ لوگ اپنے جھگڑوں کے تصفیے آپؐ سے کرانے لگے، مسائل و مشکلات کا حل دریافت کرتے۔ حتیٰ کہ اپنی امانتیں بھی محمدؐ کے پاس رکھنے لگے اور پھر پورے مکہ میں ’’صادق و امین‘‘ کے لقب سے مشہور ہوگئے۔
اور تلواریں نیام بند ہوئیں
عمارت بہت بوسیدہ ہوچکی تھی۔ سیلابوں نے اُسے منہدم ہونے کے برابر پہنچا دیا تھا۔ دیواریں بہت نیچی تھیں۔ اوپر کوئی چھت نہ تھی۔ دروازہ بھی زمین کے برابر تھا۔ چنانچہ فیصلہ ہوا کہ اس مقدس عمارت کو کہ جسے طویل عرصہ قبل ابراہیم ؑ و اسماعیل ؑ نے اپنے ہاتھوں سے تعمیر کیا تھا، از سر نو تعمیر کیا جائے۔
عمارت کو منہدم کرنے کا کام مختلف قبائل نے اپنے ذمے لے لیا اور بنائے ابراہیمی کی بنیاد تک دیواریں توڑ دی گئیں۔ تخریب کے بعد تعمیر کی باری آئی۔ سارے قبائل پتھر اُٹھا اُٹھا کر تعمیر کعبہ میں شریک ہو رہے تھے۔ سب ہی اس سعادت میں شرکت پر بے پایاں خوشی محسوس کر رہے تھے۔ لیکن جب حجرِ اسود کی تنصیب کا مرحلہ آیا تو مختلف سردار حجرِ اسود کی جانب لپکے۔ ہر ایک کی کوشش تھی کہ وہ مقدّس پتھر کو اُٹھا کر نصب کرے۔ یوں جب تمام سردار اِس سعادت کے حصول کے متمنی ہوئے تو جھگڑا شروع ہوگیا۔ بات کسی نتیجے پر نہیں پہنچ رہی تھی۔ جھگڑے کو چار روز بیت گئے مگر بات جہاں سے چلی تھی وہاں سے ذرّہ برابر آگے نہیں بڑھ رہی تھی۔ البتہ تلخی میں شدید اضافہ ہوگیا تھا۔ اب تڑپتی تلواریں میانوں سے نکل کر انسانی شاہ رگ کے خون۱؂ سے نہانا چاہتی تھیں اور قریب تھا کہ اس بات کا فیصلہ تلوار کی دھار پر چھوڑ دیا جاتا، ایک بہت ہی سن رسیدہ شخص ابواُمیہ۹؂ اُٹھا اور سردارانِ قبائل سے مخاطب ہوا:
’’اے اہل قریش، سنو! آپس میں لڑنے کے بجائے میری تجویز پر متفق ہوجاؤ۔‘‘
سردارانِ قریش نے سوالیہ نظروں سے ابواُمیّہ کی جانب دیکھا۔ جیسے پوچھ رہے ہوں: ’’تمہارے پاس کیا تجویز ہے‘‘ ابواُمیّہ نے سب کو اپنی جانب متوجہ پایا تو کہا:
’’کل جو شخص سب سے پہلے اِس مسجد میں داخل ہوگا۔ وہی فیصلے کا مجاز ہوگا اور اُس کا فیصلہ سب کے لیے قابلِ قبول ہوگا۔‘‘
تجویز سب نے سنی اور ہر ایک کے دل کو بھا گئی۔ پھر شام کے سائے دراز ہوئے، رات نے ڈیرہ ڈال لیا۔ لیلائے شب نے اپنی زلفوں کو سمیٹا تو لوگوں نے دیکھا کہ محمدؐ سب سے پہلے مسجد میں داخل ہورہے ہیں۔ تو کسی نے کہا:
ہٰذا الامین رَضَیْنا، ہٰذا محمّدٌ
’’یہ امین ہیں ہم راضی ہوگئے یہ تو محمدؐ ہیں۔‘‘
اور کوئی پکار اُٹھا:
اَتاکم الامین
’’تمہارے پاس امین آ گیا۔‘‘
سردارانِ قریش پہنچ چکے تو ہر ایک کے پہلو میں دل دھک دھک دھڑکے جا رہا تھا۔ نہ جانے محمدؐ کیا فیصلہ کرتے ہیں؟ نہ جانے کس کے حق میں یہ سعادت آئے گی؟ کہ آپؐ نے فرمایا:
’’ایک کپڑا لاؤ۔‘‘
لوگ کپڑا لے کر آئے تو محمدؐ نے کپڑے کو زمین پر بچھایا۔ حجرِ اسود اپنے ہاتھوں سے اُٹھایا اور کپڑے کے وسط میں رکھ دیا۔ پھر تعجب سے دیکھنے والے سردارانِ قریش سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا:
’’ہم سب مل کر حجرِاسود کو اُٹھائیں گے۔‘‘
مزید کہا:
’’سب مل کر اس کپڑے کو مختلف اطراف سے اُٹھاؤ اور اُس مقام تک لے چلو جہاں اسے نصب کرنا ہے۔‘‘
تمام کے تمام سردارانِ قریش نے کپڑے کو ہاتھ ڈالے اور مخصوص مقام پر لے جا کر رکھ دیا۔ محمدؐ آگے بڑھے، حجرِ اسود کو اُٹھایا اور دیوار میں نصب کر دیا۔ پھر پلٹ کر سردارانِ قریش کی جانب دیکھاتو سب کے چہروں پر مسرت و اطمینان کی لہر دوڑ رہی تھی۔ محمدؐ کی اس دانشمندی پر پوری قوم عش عش کر اُٹھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

حاشیہ:

۱۔ جناب عبدالمطلب کی والدہ ماجدہ۔

۲۔ یہ حضورؐ کی انّا تھیں۔ جو آپ کے والد کی جانب سے ترکہ میں ملی تھیں۔ حضورؐ کی وفات تک زندہ رہیں۔ آپؐ ان کو ہمیش ماں کہہ کر پکارتے اور جب اِن کو دیکھتے تو کہتے، ’’یہی میرے خاندان کی یادگار رہ گئی ہے‘‘۔ حضرت خدیجہؓ سے نکاح کے بعد ان کو آزاد کر دیا اور حضرت زیدؓ بن حارثہ سے اِن کو شادی کر دی، انہی کے بطن سے اسامہؓ پیدا ہوئے یہ اکثر غزوات میں شریک رہیں زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی اور پانی پلاتی تھیں۔

۳۔ یہ حادثہ واقعہ فیل سے آٹھ سال بعد پیش آیا۔

۴۔ آپ کا اصل نام عبدمناف تھا۔ آپ عبدالمطلب بن ہشام قریشی کے صاحبزادے تھے۔ آخر وقت تک حضورؐ کی معاونت کرتے رہے۔

۵۔ بحیرا نامی راہب بصریٰ کے کلیسا میں رہتا تھا۔ نصرانیوں کے علم کا مرجع تھا۔ جب سے اُس نے رہبانیت اختیار کی۔ اُس کلیسا میں اُس کی سکونت رہی۔ وہاں اک کتاب بھی جس کا علم بحیرا ہی کو تھا۔ لوگوں کا خیال تھا کہ وہ کتاب اسلاف سے اُس کے ورثے میں چلی آ رہی تھی۔

۶۔ حضرت خدیجہؓ خویلد بن اسعد کی بیٹی تھیں۔ امہات المؤمنین میں سے ہیں۔ پہلے ابوہالہ بن زرارہ کی بیوی تھیں۔ پھر عتیق بن عائد کے نکاح میں آئیں۔ اِس کے بعد حضورؐ نے نکاح کیا۔ نکاح کے وقت خدیجہؓ کی عمر چالیس سال تھی جب کہ حضورؐ کی عمر پچیس سال تھی۔ حضورؐ کی سب سے پہلی بیوی ہیں۔ جب تک زندہ رہیں حضورؐ نے کسی سے نکاح نہیں کیا ۔سب سے پہلے ایمان لائیں۔ حضورؐ کی تمام اولاد سوائے ابراہیمؓ کے خدیجہؓ کے بطن سے ہوئی۔ ہجرت سے پانچ سال قبل ۶۵سال کی عمر میں وفات پائی اور حجون میں دفن ہوئیں۔

۷۔ حضورؐ نے ان کے مہر میں بیس جوان اونٹنیاں دیں۔

۸۔ القرآن سورۃ الضحیٰ

۹۔ ابن اسحاق کے حوالے سے ابن ہشام نے تحریر کیا ہے کہ اختلاف اس قدر شدید ہو گیا کہ جنگ کے عہدباندھے جانے لگے۔ بنی عبدالدّار نے خون سے بھرا ہوا ایک کٹورا رکھا۔ اُنھوں نے اور بنی سعد بن کعب بن لوئی نے اپنے اپنے ہاتھ خون سے بھرے ہوئے کٹورے میں رکھ کر لڑ مرنے کا عہد کیا۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top