skip to Main Content

۱ ۔ غار کی کبوتری

سید محمد اسمٰعیل

۔۔۔۔۔۔۔

میں ایک خوش شکل، پاک سفید رنگ کی کبوتری ہوں۔ادھر ادھر اڑتی پھرتی ہوں۔اور دانہ چگنے کے لئے خانہ کعبہ کے پاس اڑتی ہوں۔ نہ میں کسی سے ڈرتی ہوں اور نہ مجھ سے کوئی خوف رکھتا ہے۔
میری کہانی یہ ہے کہ ایک خوب صورت صبح تھی، میں کسی ایسی جگہ کی تلاش میں تھی کہ جہاں میں گھونسلا بناؤں اور انڈے دوں اور ان میں میرے بچے نکلیں۔اڑتے اڑتے میں ایک غار کے اوپر پہنچی۔ یہ غار مکہ اورمدینہ کے راستے میں آتاہے۔میں نے اس غار کے پاس سانپ بچھوؤں ا ور زہریلے کیڑے مکوڑوں کو دیکھا جو اس غار کے پاس اس طرح جمع تھے جیسے کسی کا انتظار کر رہے ہوں۔مجھے ان کے قریب جانے سے ڈر لگ رہا تھا۔اسی دوران جب میں ادھر ادھر اڑ رہی تھی ،میں نے ایک پتلی سی مکڑی دیکھی۔میں اس کے قریب گئی اور اس سے پوچھا کہ یہ سارے سانپ وغیرہ کیوں جمع ہیں؟اس نے جواب دیا کہ انہیں مکہ کے ایک بڑے اژدہے نے حکم دیا ہے کہ وہ دو مسافروں کا راستہ روکیں۔میں نے مکڑی سے پوچھا کہ آخر یہ دو مسافر کون ہیں؟ اس نے جواب دیا مجھے بھی معلوم نہیں تم تو دور دوراُڑ کر جا سکتی ہو،ذرا پتا تو کرو۔میں اڑی اور کافی دور تک اڑتی رہی۔آخر کار میں نے دو مسافر دیکھے۔میری خوشی کی انتہا نہ رہی جب میں نے انہیں پہچانا۔ میں تو انہیں پہلے سے جانتی تھی۔یہ اکثر خانۂ کعبہ میں آتے رہتے تھے۔ان میں سے ایک ہمارے پیارے نبی ﷺ تھے۔دوسرے ان کے سب سے قریبی ساتھی حضرت ابوبکر صدیقؓ ۔
ان دونوں کے درمیان یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ ہمیں کسی غار کی تلاش کرنی چاہئے۔وہاں نہ صرف ہم ان لوگوں سے چھپ سکیں گے جو ہماراپیچھا کر رہے بلکہ کچھ دیر آرام بھی کر سکیں گے۔مجھے جونہی یہ بات معلوم ہوئی۔ میں اڑتے اڑتے ان کی غار کی طرف روانہ ہو گئی۔
ابھی وہ غار تک نہ پہنچے تھے کہ میں تیزی سے آگے بڑھی اور سانپوں پر جھپٹی کہ اپنی چونچ سے انہیں ٹھونگے لگاؤں۔ مجھے دیکھتے ہی سانپوں نے راستہ چھوڑدیا اور اپنے بلوں میں گھس گئے۔
اپنی بساط کے مطابق میں نے غار کو صاف کیا اور دونوں مسافروں کے متعلق مکڑی کو اطلاع دی۔ وہ بے حد خوش ہوئی۔ ہم ان دونوں عظیم مسافروں کا انتظار کرنے لگے۔ جب انہیں پہنچنے میں دیر ہوئی تو ہم بہت گھبرا گئے۔ خاص طور پر اس بات سے کہ کہیں مکہ والے انہیں نقصان نہ پہنچائیں۔ خدا خدا کرکے یہ دونوں آخر ہم تک آپہنچے اور غار میں داخل ہو گئے۔
حضرت ابوبکرؓ نے سانپوں کے تمام بلوں کے منہ کو بند کر دیا۔صرف ایک بڑا بل باقی بچ رہا۔ میری خواہش تھی کہ میں اپنے جسم سے اسے بند کردوں ۔ادھر مکڑی سوچ رہی تھی کہ اس کے بل کے اوپر جالا تن کر اسے بند کر دے ۔اتنے میں حضرت ابوبکرؓ نے اسی بل پر اپنا پاؤں رکھ دیا اور وہیں بیٹھ گئے۔
اسی دوران میں ڈر اور رنج کے مارے ادھر ادھر اڑتی رہی۔ مجھ سے مکڑی نے سوال کیا کہ تم کیوں بے چین ہو؟ اور تم کیوں نہیں ایسی جگہ کی تلاش کرتی ہو جہاں سکون سے بیٹھ سکو؟
میں نے جواب دیا کہ اصل میں،میں مکہ والوں سے ڈر رہی ہوں جو رسول اللہ ﷺ کا پیچھا کر رہے ہیں ۔ میں چاہتی ہوں کہ رستے کی نگرانی کرتی رہوں تاکہ مکہ والے ادھر نہ آ پہنچیں۔
میں اسی طرح اڑتی رہی۔ کبھی مکہ کی طرف جاتی اور کبھی واپس آجاتی۔آخری بار جب میں واپس آئی تو مجھ پر خوف طاری تھا اور میں تیزی سے مکڑی کے پاس آئی اور اس سے کہا کہ اب کیا ہوگا؟ مکہ والے آرہے ہیں۔اگر انہوں نے محمد ﷺ اور ان کے ساتھی کو دیکھ لیا تو غضب ہو جائے گا۔
تھوڑی دیر مکڑی خاموش رہی جیسے کسی گہری سوچ میں ہو، پھر اس نے جواب دیا کہ میں اس غار کے دروازے پر جالا بن دیتی ہوں تاکہ وہ بند ہو جائے اور مجھے اس کی بات پر ہنسی آگئی کہ کس طرح اس کے جالے سے غار کا منہ بند ہو سکتا ہے؟میں بھی ا س کے ساتھ جلدی جلدی اپنے کام میں لگ گئی۔ سب سے پہلے تنکے اٹھا کرلائی ،گھونسلا بنایا پھر اپنے انڈے لائی اور دروازے کے سامنے انڈوں پر بیٹھ گئی۔تقریباً اسی وقت مکہ کے کافر آپہنچے اور غار کے منہ کے باہر کھڑے ہوئے ایک دوسرے سے حسب ذیل گفتگو کر رہے تھے۔
ایک نے کہا ’’کیا محمدﷺاور ان کے ساتھی اس غار میں داخل ہو سکتے ہیں؟‘‘
کسی نے جواب دیا کہ’’ہو سکتا ہے۔‘‘ کوئی اور کہہ رہا تھا’’ دونوں اسی غار میں ضرور داخل ہوئے ہیں۔‘‘ ایک طرف سے آواز آئی’’میں نہیں خیال کر سکتا کہ وہ اس غار میں داخل ہوئے ہوں گے کیونکہ یہ جگہ سانپوں سے بھری ہوئی ہے۔‘‘
یہ بحث چلتی رہی کہ وہ داخل ہوں کہ نہ ہوں۔ کہ اتنے میں ایک آواز زور سے بلند ہوئی ’’ہم اس غار میں کیوں جائیں؟ جب اس میں کافی عرصے سے کوئی نہیں گیا۔‘‘اس کے ساتھی پوچھنے لگے کہ تمہیں کیسے اندازہ ہوا؟اس نے جواب دیا ’’ذرا دیکھو تو سہی کہ غارکے دروازے پر مکڑی نے جا لا بنا ہوا ہے۔اگر کوئی داخل ہوتا تو جالا ٹوٹ جاتا۔کبوتری اپنے گھونسلے میں انڈے پر بیٹھی ہے اگر کوئی یہاں داخل ہوتا تو کبوتری اڑ گئی ہوتی اور انڈے ٹوٹ جاتے ۔مجھے یقین ہے کہ کافی عرصے سے اس غار میں کوئی داخل نہیں ہوا۔‘‘سب نے اس سے اتفاق کیا اور کہا کہ تو سچ کہتا ہے اس جگہ پر وہ دونوں ہو ہی نہیں سکتے۔‘‘
اس کے بعد وہ لوگ قدم بڑھاتے ہوئے غار سے دور چلے گئے اور پھر نظروں سے اوجھل ہوگئے ۔جب ان کے قدموں کی آوازیں آنی بند ہو گئیں تو میں اور مکڑی خوشی سے رقص کرنے لگے۔
اسی دوران سانپ نے حضرت ابوبکرؓ کے پاؤں پر ڈس لیا مگر وہ وہیں بیٹھے رہے کہ نبی ﷺ ان کے زانوں پر اپنا سر مبارک رکھ کر آرام فرما رہے تھے۔ڈسے جانے کے باوجود حضرت ابوبکرؓ نے بالکل حرکت نہیں کی کہ کہیں نبی ﷺ کے آرام میں خلل نہ پڑے۔شدت تکلیف سے حضرت ابوبکرؓ کی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے۔جوں ہی ایک آنسو نبی اکر ﷺ کے چہرے پر گرا۔آپ اٹھ بیٹھے۔ جب انہیں معلوم ہوا کہ حضرت ابو بکرؓ کو کیا تکلیف ہے۔تو ہمارے نبی نے اپنا لعاب مبارک حضرت ابوبکر کے پیر کے اس حصے پر لگایا جہاں سانپ نے ڈسا تھا۔ حضرت ابوبکر کی تکلیف جاتی رہی۔ یہ سب کچھ ہم دیکھ رہے تھے۔ہمیں بے حد خوشی ہوئی۔
تھوڑی دیر آرام کرنے کے بعد دونوں اپنے سفر پر روانہ ہو گئے اور میں کافی دیر تک اڑتے اڑتے ان کا ساتھ دیتی اوردل ہی دل میں ان کی سلامتی کی دعا مانگتی رہی۔
اس واقعے کا ذکر اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں یوں کیا ہے۔
اے لوگو! اگر تم نبی ﷺ کی مدد نہ کرو گے تو کیا فرق پڑے گا؟نبی ﷺ کی مدد تو اللہ نے کی ہے۔ اس وقت جب کافروں نے آپ کو نکال دیا تھا اور آپ دو احباب غار میں تھے۔ نبیﷺ اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے ، آپ رنج نہ کریں اللہ ہمارے ساتھ ہے۔پھر اللہ نے آپ پر سکون نازل فرمایا اور آپ کی مدد ایسے لشکروں سے کی جنہیں تم دیکھ نہیں سکتے۔اللہ نے کافروں کی بات کو نیچا دکھایا اور اللہ ہی کا بول بالا رہا۔ اللہ تعالیٰ زبردست حکمت والا ہے۔(سورہ توبہ، آیت ۴۰)

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top