skip to Main Content

۲ ۔ سیاہ پتھر

سید محمد اسمٰعیل

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں ایک پتھر ہوں۔ میرا رنگ بالکل سیا ہ ہے۔ آپ نے میری طرح کے کئی پتھر دیکھے ہوں گے۔ ایسے پتھر آپ کو بلوچستان، صوبہ سرحد،سندھ اور پنجاب کے کئی پہاڑی علاقوں میں کہیں کہیں نظر آئیں گے۔لیکن آپ یہ سن کر حیران ہوں گے کہ میرا تعلق اس دنیا سے نہیں ہے ،میں دراصل جنت کا پتھر ہوں۔جسے آج سے تقریباً چار ہزار سال پہلے اللہ کے حکم سے فرشتے زمین پر لے کر آئے ۔یہ اس وقت کی بات ہے جب اللہ کے رسول حضرت ابراہیم علیہ السلام اوران کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام عرب کے اس مقام پر جسے اب مکہ معظمہ کہتے ہیں ،اللہ کی عبادت کا پہلا گھر تعمیر کرہے تھے۔یہ جگہ بالکل ویران تھی۔ ریت کے ٹیلے اور خشک پہاڑیاں چاروں طرف نظر آتی تھیں۔جہاں سے میں لایا گیا یہ جگہ اس کے بالکل بر عکس تھی۔ نہ ہوئی سبزہ نہ درخت نہ پھل اور نہ نہریں اور پھر سخت گرمی۔مجھے اللہ کے گھر کی ایک زیر تعمیر دیوار میں لگا دیا گیا۔آپ جانتے ہیں اس گھر کا کیا نام ہے؟ اسے خانہ کعبہ کہتے ہیں۔یہ وہی جگہ ہے جس کی طرف مسلمان دن میں پانچ دفعہ منہ کرکے نماز ادا کرتے اور دنیا کے کونے کونے سے مسلمان حج کرنے ہر سال یہاں آتے ہیں۔آپ کو معلوم ہی ہوگا کہ ہر وہ مسلمان جس کے پاس سفر کا خرچ ہو اور اس کے گھر والے اس کی غیر حاضری میں اپنا گزار کر سکیں اس پر اللہ کی طرف سے حج فرض ہے۔
جب حضرت ابراہیم ؑ خانہ کعبہ کی تعمیر کر رہے تھے تو اللہ سے دعاکررہے تھے کہ اس جگہ کوآباد کرے۔خانہ کعبہ کی تعمیر ہوئی تو وہاں کوئی آبادی نہیں تھی صرف ایک چشمہ تھا جو حضرت اسماعیل علیہ السلام کے لئے اللہ تعالیٰ نے جب وہ بالکل ننھے منے بچے تھے، زمین سے ظاہر کر دیا تھا۔ یہ چشمہ آج بھی موجود ہے۔اس کو چاہِ زم زم کہتے ہیں۔
وقت کے ساتھ ساتھ خانہ کعبہ کے ارد گرد آبادی بڑھتی گئی۔ یہاں پانی بھی کثرت سے تھا۔اور پھر اللہ کی رحمتیں اور برکتیں بھی ۔دور دراز سے لوگ اللہ کے گھر کی زیارت کو آتے تو مجھے بھی عزت کی نظر سے دیکھتے۔عقیدت کے طور پر مجھے چومتے۔میرے متعلق ایک دوسرے کو بتاتے کہ میں جنت کاپتھر ہوں۔اس اللہ کے گھر میں کافی عرصہ تک صرف اللہ کا نام لیا جاتا رہا۔مگر جوں جوں وقت گزرا لوگ اللہ کو بھول کر بتوں کی پوجا میں لگ گئے۔اللہ کا گھر بتوں کا گھر بن چکا تھا۔ایک دو کا نہیں سیکڑوں بتوں کا۔یہ سب پتھر کے بت تھے۔ ان کو ماننے والے یہ سمجھتے تھے کہ ان میں سے کوئی بت بارش لاتا ہے تو کوئی اناج اگاتا ہے۔کوئی اولاد دیتا ہے تو کوئی مویشی۔ جن بتوں کو لوگ اپنے ہاتھوں سے بناتے، اِنہیں بے جان بتوں کو خدا بنا لیتے۔ اس بت پرستی، گندگی اور شرک و گناہ کے ماحول سے میں بہت اکتا گیا تھا اور خدا سے دعا کرتا تھا کہ وہ اپنے گھر کو بتوں سے پاک و صاف کر دے اور اس میں صرف اللہ ہی کی عبادت کی جائے۔
آپ کو شاید علم نہ ہو کہ جب سے خانہ کعبہ بنا ہے لوگ دور دراز سے اس کی زیارت کو آتے ہیں۔
اب میں آپ کو اپنی زندگی کاایک اہم واقعہ سناتا ہوں۔یہ کوئی چودہ سو سال پہلے کی بات ہے۔ ان دنوں عرب کے جنوب میں یمن کے علاقے میں ابرہہ نامی ایک شخص حکومت کرتا تھا ۔اسے ا س بات پر بڑا حسد تھا کہ خانہ کعبہ کی وجہ سے مکہ والوں کی بڑی عزت ہے۔وہ مال و دولت و طاقت میں مکہ والوں سے کہیں بلند ہے۔اس نے سوچا کہ کیوں نہ ایک شاندار عبادت گاہ بنائی جائے جس کی چمک دملک سے لوگ اس طرف کھنچے چلے آئیں اور خانہ کعبہ کی حیثیت ختم ہو جائے ۔اس نے ایسا ہی کیا۔اس نئی عبادت گاہ میں سونے چاندی کے نقش و نگار بنائے مگر اس کی طرف کسی نے توجہ نہ کی۔ لوگ پہلے کی طرح خانہ کعبہ کی زیارت کو جاتے رہے اس لئے ابرہہ نے فیصلہ کیا کہ خانہ کعبہ کو ختم کر دیا جائے تاکہ جب خانہ کعبہ نہ رہے گا تولوگ مجبوراً اس کی تعمیر کردہ شان دار عبادت گاہ کی طرف آنا شروع کر دیں گے۔آخر کار وہ گھوڑوں اور ہاتھیوں سمیت ایک بہت بڑا لشکر لے کر روانہ ہوا تاکہ مکہ اور خانہ کعبہ کو ختم کردے۔ابھی یہ لشکر مکہ سے کچھ دور ہی تھا کہ مکہ والے اس کے خوف سے مکہ چھوڑکر بھاگنے لگے۔میں اپنی جگہ شدید خوف میں مبتلا تھا۔ میں ڈر رہا تھا کہ اب یہ لشکر اللہ کے گھر کو تباہ کر دے گا اور نہ جانے میرا کیا حال ہوگا؟یکایک میں کیا دیکھتا ہوں کہ سمندر کی جانب سے چھوٹے چھوٹے پرندے(ابابیل) آسمانوں پر جھنڈ در جھنڈ آنے لگے۔تھوڑی دیر میں آسمان بالکل چھپ گیا۔ان پرندوں نے چھوٹی چھوٹی کنکریاں ابرہہ کے لشکر پر گرانی شروع کر دیں۔جسے ایک بھی کنکری لگتی، وہیں ڈھیر ہو جاتا۔دیکھتے دیکھتے ابرہہ کا سارا لشکر تباہ ہو گیا ،جو خانہ کعبہ کو مٹانے آئے تھے وہ خود مت گئے۔میں نے اللہ کا شکر ادا کیا ۔ آپ نے اس واقعے کے بارے میں سورہ فیل جو قرآن کریم کے آخری پارے میں آتی ہے ضرور پڑھی ہوگی۔
ابرہہ کے لشکر کی تباہی کے عجیب و غریب واقعے کے کچھ دنوں بعد میں نے کیا دیکھا کہ ہر طرف نور ہی نور پھیلا ہوا ہے۔پرندے خوشی کے ترانے گا رہے ہیں۔میرے قریب ایک کبوتر آکر بیٹھا۔میں نے پوچھا آپ سب اتنے خوش کیوں ہیں؟ وہ حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے بولا۔تعجب ہے آپ کو نہیں معلوم آج مکہ کے سردار عبدالمطلب کے بیٹے عبداللہ کے گھر ایک فرزند آیا ہے۔ جو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے۔میں اس بچے کو دیکھنے کے لئے بے تاب ہو گیا۔ وقت گزرتا گیایہ بچہ بڑا ہو کر جوان ہوا۔اس کی نیکی ،سچائی،پاکبازی کے قصے مکہ کے ہر شخص کی زبان پر تھے۔یہ اللہ کا نیک بندہ مکہ والوں سے مختلف تھا۔بتوں سے نفرت کرتا صرف ایک اللہ کی عبادت کرتا۔ کمزوروں کی مدد کرتا، سچ بولتا، ہر ایک کی امانت کا پاس رکھتا۔اس کا نام محمد ﷺ تھا۔ابھی محمد ﷺ کی عمر پینتیس سال کی ہوگی کہ میری زندگی میں ایک نہایت ہی اہم واقعہ پیش آیا۔
مکہ کے قریش بہت سے قبیلوں میں بٹے ہوئے تھے۔ہر ایک اپنے آپ کو دوسرے سے بڑا سمجھتا ۔لوگ معمولی سی بات پر ایک دوسرے کا خون بہانے کو تیار ہو جاتے۔اس سال زور کی بارش ہوئی۔ خانہ کعبہ کے اندر پانی بھر گیا ۔چونکہ اس کی دیواریں کچی تھیں اس لئے انہیں خاصا نقصان پہنچا۔کہیں سے دیوار بھی بیٹھ گئی۔ قریش نے فیصلہ کیا کہ خانہ کعبہ کو دوبارہ تعمیر کیا جائے اور اس مرتبہ دیواریں زیادہ بلند کی جائیں ۔تعمیر شروع ہوئی۔ اب وقت آ پہنچا جب مجھے دیوار میں لگایا جانا تھا۔ہر قبیلہ اپنے آپ کو اس کام کا حق دار سمجھتا تھا۔ بات لڑائی تک جا پہنچی۔آخر کار کچھ بوڑھے لوگوں نے فیصلہ کیا کہ سب لوگ اپنے گھر کو چلے جائیں جو شخص آئندہ روز صبح کے وقت سب سے پہلے خانہ کعبہ کے احاطے میں داخل ہو وہی مجھے اٹھا کر دیوار میں لگائے۔
آپ کو یہ جان کر بے حد خوشی ہوگی کہ سب سے پہلے دوسری صبح کو جو شخص خانہ کعبہ کے احاطے میں داخل ہوا وہ ہمارے پیارے نبی ﷺ تھے۔ ابھی آپ کو نبوت نہیں ملی تھی مگر آپ کے کردار کی سب ہی تعریف کرتے تھے۔آپ سچائی اور امانت داری کی وجہ سے’’صادق اور امین‘‘ لے لقب سے پکارے جاتے تھے۔
جوں ہی لوگوں کو اس بات علم ہوا کہ سب سے پہلے آنے والے شخص محمد ﷺ ہیں تو وہ بے حد خوش ہوئے۔مکہ کے تمام لوگ جمع ہو چکے تھے۔ ہمارے نبی ﷺ نے ہر قبیلے سے ایک نمائندہ لیا۔ پھر ایک چادر منگوائی اور اپنے مبارک ہاتھوں سے مجھے اٹھا کر چادر میں رکھا۔ پھر ہر قبیلے کے نمائندے سے فرمایا کہ وہ چادر کو تھام کر اوپر اٹھائے ۔جب چادر بلند ہو کر اس مقام تک پہنچی جہاں مجھے دیوار میں رکھا جانا تھا تو پیارے نبی ﷺ نے مجھے اپنے پاک ہاتھوں سے اٹھایا اور دیوار میں رکھ دیا۔آپ کو میں نہیں بتا سکتا کہ اس وقت میری خوشی کا کیا عالم تھا۔تمام کام بخوبی پورا ہو گیا۔ ہر قبیلہ مطمئن تھا کہ اس نے پتھر اٹھایا ہے۔نبی ﷺ کی اس دانش مندی سے مکہ والے ایک بہت بڑے خون خرابے سے بچ گئے۔
نبی ﷺجب بھی خانہ کعبہ آتے تو مجھے بوسہ دیتے۔ میں اپنی قسمت پر فخر کرتا۔ چند ہی سال گزرے تھے کہ میں نے مکہ والوں کی زبانی سنا کہ محمد ﷺ نے اعلان کیا ہے کہ اللہ نے انہیں نبی بنایا ہے تاکہ لوگوں کو سیدھا راستہ دکھا سکیں اور انہیں ایک خدا کی عبادت کی تلقین کریں اوربتوں کی پوجا سے روکیں۔
میں نے کئی مرتبہ اپنے قریب نبی ﷺ کو قریش کے سرداروں کو اس قسم کی نصیحت کرتے سنا ہے کہ وہ بتوں کی پوجا نہ کریں اور صرف اللہ کی عبادت کریں ۔ جس کا نہ کوئی شریک ہے اور نہ جس کے کوئی برابر ہے۔اس نے تمام جہانوں کو پیدا کیا ہے۔ وہی ہمیں روزی دیتا ہے۔ وہی زندگی دیتا ہے اور وہی مارتا ہے۔مگر قریش کے سردار آپ کی ایک بات نہ سنتے بلکہ آپ کو ( نعوذ باللہ) پاگل اور شاعر کہتے۔ مجھے یہ دیکھ کر بے حد دکھ ہوتا۔
کعبہ کے اندران دنوں۳۶۰ بت تھے جن کی قریش پوجا کرتے تھے ۔ ان کے لئے نذرانے پیش کرتے ۔خانہ کعبہ کے گرد ناچتے۔ بغیر لباس کے طواف کرتے ۔ہر طرف گندگی پھیلاتے۔میں حیران ہوتا کہ قریش اس خدا کی عبادت کیوں نہیں کرتے جوسب کو پیداکرنے والا ہے اور رزق دینے والا ہے۔میری سمجھ میں نہ آتا کہ قریش اپنے ہاتھ سے بنائے ہوئے بتوں کو اپنا خدا بناتے تھے ۔بھلا جو بت نہ سن سکتے ہوں، نہ دیکھ سکتے ہوں ،نہ حرکت کر سکتے ہوں، وہ کسی کو کیا نقصان یا فائدہ پہنچا سکتے ہیں؟وقت گزرتا گیا کچھ لوگ آپ کی بات پر دھیان دینے لگے مگر قریش کے اکثر لوگ آپ کا مذاق اڑاتے ۔آپ کو تبلیغ سے روکنے کی خاطرطرح طرح کی اذیتیں پہنچاتے۔
ایک دفعہ ایک کافر نے اونٹ کی آنتیں وغیرہ تمام گندگی سمیت آپ کی پیٹھ پر رکھ دیں ،جب آپﷺ سجدے میں تھے۔ اس کے بوجھ سے آپﷺ سے اٹھا نہ جاتا تھا۔کافر اور اس کے ساتھی اس شرمناک حرکت پر ہنسے چلے جا رہے تھے۔ آخر آپ کی پیاری بیٹی حضرت فاطمہؓ اطلاع ملتے ہی بھاگی آئیں ۔گندگی کو آپ ﷺکی پیٹھ سے علیٰحدہ کیا تب کہیں آپ سجدے سے اٹھ سکے۔اگر میرے بس میں ہوتا تو اس بد بخت کافر کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا ۔ایک دن اور اسی طرح مجھے ایک دوسرے کافر پر بے حد طیش آیا جس نے آپ کی گردن میں چادر ڈالی اور اس زور سے کھینچا کہ آپ کا سانس گھٹنے لگا۔ایسے واقعات دیکھ کر میں دل ہی دل میں روتا رہتا۔اور پیارے نبی ﷺ کی سلامتی کی دعائیں مانگتا رہتا۔ہمارے پیارے نبی ﷺ ان تمام مشکلات کے باوجود دین اسلام کی تبلیغ کرتے رہے۔کافروں کو خدشہ تھا کہ کہیں ان کے بتوں کی پوجا بند نہ ہو جائے۔جن کی وجہ سے سارے عرب میں ان کو قدر کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔کافروں نے ایک چال چلی۔انہوں نے آپ ﷺ کے پاس آپ کے چچا ابو طالب کے ذریعے یہ پیغام بھیجا کہ وہ اس شرط پر آپ کو اپنا بادشاہ بنانے کے لئے تیار ہیں کہ آپ ان کے بتوں کو برا کہنا چھوڑ دیں اورایک خدا کی عبادت کے لئے دعوت دینا بند کر دیں۔ہمارے نبی ﷺ نے اس پیشکش کو ٹھکراتے ہوئے کہا کہ اگر قریش میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند بھی لا کر رکھ دیں تب بھی میں اللہ کے دین سے نہیں پھروں گا۔جب کوئی ترکیب نہ چلی توکافروں نے آپﷺ اور آپ کے ساتھیوں سے بول چال اور ہرقسم کا لین دین بند کر دیا۔
مجبوراً آپ کے چچا ابو طالب، آپﷺ،آپ کے ساتھیوں اور ان کے گھر والوں کو لے کر مکہ کے قریب ایک گھاٹی میں چلے گئے۔جہاں وہ سب تین سال کے طویل عرصے تک رہے، اس دوران مسلمانوں نے بہت تکلیفیں اٹھائیں یہاں تک کہ فاقہ کی نوبت آپہنچی۔بچے دودھ نہ ملنے کی وجہ سے بلک بلک کر روتے تھے۔ادھر رسول ﷺ اور اس کے ساتھیوں سے بات چیت اور لین دین بند کرنے کے متعلق ایک معاہدہ تحریر کرکے قریش نے میرے قریب خانہ کعبہ کے دروازے پر لٹکا دیا۔اکثر میرا دل کرتا کہ میں اس معاہدے کو پھاڑ دوں مگر میں ایسا نہ کر سکا۔ ایک دن میں کیا دیکھتا ہوں کہ قریش کے چھ سردارآپس میں بحث کر رہے ہیں ۔ایک کہتا تھا،’’ دیکھو محمد ﷺ نے بغیر دیکھے بتا دیا کہ اس معاہدے کو دیمک کھا گئی ہے۔مجھے تو وہ سچے لگتے ہیں کیوں کہ ایسا ہی ہوا ہے۔ان پر جو پابندی ہم نے لگائی ہے وہ ختم کر دینی چاہئے۔آخر کار محمد ﷺ اور ان کے ساتھی ہم ہی میں سے ہیں۔‘‘
دوسرا کہنے لگا کہ’’ اگر ایسا کیا گیا تو پھراسلام کو کوئی نہیں روک سکتا۔‘‘تین چار سردار آگے بڑھے۔معاہدے کو کعبہ کے دروازے سے اتارا اور اس کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے پھینک دیا۔یہ اس بات کا اعلان تھا کہ معاہدہ ختم ہے، پابندی اٹھ چکی ہے۔بس کیا تھا مسلمان مکہ دوبارہ واپس آگئے۔نبی ﷺ کو کافی عرصے کے بعد اپنے پاس پا کر میں بے حد خوش ہوا۔
مکہ سے واپسی پر نبی ﷺ نے پھر تبلیغ شروع کر دی مگر کافروں نے اپنی مخالفت جاری رکھی۔آپ مکہ والوں سے مایوس ہو کر قریب کے شہر طائف گئے تاکہ وہاں کے لوگوں کواللہ کے دین کی دعوت دیں۔
طائف والوں نے آپ ﷺکے ساتھ بہت بُرا سلوک کیا۔شریر بچوں کو پیچھے لگا دیاجنہوں نے آپ ﷺپر پتھر برسائے اور آپ لہو لہان ہو گئے۔جب مجھے اس واقعے کا علم ہواتو میرے رنج کی انتہا نہ رہی۔
نبی ﷺ مخالفت کے باوجود ثابت قدم رہے اور لوگوں کو اللہ کے دین کی طرف بلاتے رہے۔ آپﷺ رات کو خانہ کعبہ میں آتے ۔میں انہیں اللہ کے حضور عاجزی سے دعائیں مانگتے سنتا تھا۔وہ ساری ساری رات اللہ کی عبادت میں مشغول رہتے۔انہی دنوں کی بات ہے رات اندھیری تھی۔رسول اکرم ﷺعبادت کے لئے خانہ کعبہ میں مشغول تھے کہ میں نے آسمان سے حضرت جبرائیل ؑ کوآتے دیکھا۔ ان کے ساتھ ایک عجیب وغریب شکل و صورت کی سفیدرنگ کی سواری تھی۔حضرت جبرئیل ؑ نے پیارے نبی ﷺ سے عرض کی کہ یہ سواری آپ کو
بیت المقدس لے چلے گی۔وہاں سے اللہ کے حضور ساتویں آسمان تک پہنچائے گی۔حضورﷺ اس سوار ی جسے براق کہتے ہیں پر بیٹھے اور پلک جھپکتے میری نظروں سے اوجھل ہو گئے۔اسی رات براق آپ ﷺکو خانہ کعبہ واپس لایااور آپ سے اجازت لے کر آسمان کی طرف روانہ ہو گیا۔
پیارے بچو! اس واقعے کا ذکر قرآن کریم کے پندرہویں پارہ میں آتا ہے۔دوسرے دن نبیﷺ نے جب یہ واقعہ قریش کے سرداروں کو خانہ کعبہ میں آکر بتایاتو انہوں نے اس کو ماننے سے انکار کر دیااور آپ ﷺ کی ہنسی اڑانے لگے۔ ادھر حضرت ابوبکرؓ آپہنچے۔ لوگوں نے حضرت ابوبکرؓ کو طعنہ دیا کہ دیکھو تمہارے نبی ﷺ کیا انہونی بات کہہ رہے ہیں۔حضرت ابوبکرؓ بولے نبی ﷺ نے جو کہاہے ٹھیک کہا ہے۔ کافروں نے یہ جاننے کے لئے کہ نبی ﷺبیت المقدس گئے ہیں یا نہیں، آپ کا امتحان لینا شروع کر دیا۔انہیں یہ معلوم تھا کہ آپ ﷺ بیت المقدس پہلے کبھی نہ گئے تھے۔ اس لئے انہوں نے آپ ﷺ سے بیت المقدس اور راستے کی بہت ساری تفصیلات پوچھیں۔ آپ ﷺ نے ہر بات کا اس طرح جواب دیا جیسے وہ ساری چیزیں اور مقامات آپﷺ کی نظروں کے سامنے ہیں۔کافر آپﷺ کے جواب سن کر سخت حیران ہوئے ۔کافروں کی حیرانی دیکھ کر حضرت ابوبکرؓ نے خوشی سے چلا کر کہا’’اے نبی ﷺ آپ نے سچ کہا ہے،اے نبی ﷺ آپ نے سچ کہا ہے۔‘‘اسی وجہ سے رسول ﷺ حضرت ابوبکرؓ کو صدیق کہتے تھے۔صدیق کے معنی تصدیق کرنے والے کے ہیں۔
اس واقعے سے متاثر ہو کر کئی اور لوگ رسول اکرم ﷺ پر ایمان لے آئے ۔ادھر نبی ﷺ اپنی تبلیغ جاری رکھے ہوئے تھے۔ادھر کافروں کی پریشانی بڑھتی جا رہی تھی ۔ انہیں خدشہ تھا کہ کہیں دین اسلام غالب نہ آجائے۔ جوں جوں مسلمانوں کی تعداد بڑھ رہی تھی قریش کی دشمنی شدت اختیار کرتی جا رہی تھی۔ مجھے اطلاع ملی کہ نبی ﷺ کے حکم پر مسلمان ایک ایک کرکے مدینہ کی طرف ہجرت کر رہے ہیں۔میں نبی ﷺ کی سلامتی کے متعلق سخت پریشان رہتا کیوں کہ میرے قریب قریش کے بعض سردار اکثر آکر بیٹھتے اور حضور ﷺ کو ختم کرنے کی باتیں کرتے۔
جب مجھے ایک دن یہ اطلاع ملی کہ قریش والوں نے نبی ﷺ کو شہید کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے تو میری گھبراہٹ کی انتہا نہ رہی۔ میں اللہ سے ان کی سلامتی کی دعائیں مانگ رہا تھا۔چند دن بعد مجھے قریش کے سرداروں کی زبانی معلوم ہوا کہ نبی ﷺ اپنے ساتھی حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ بخیریت مدینہ پہنچ گئے ہیں۔مدینہ میں مسلمان ایک مضبوط جماعت بن گئے تھے۔ادھر قریش انہیں ختم کرنے کے منصوبے بنا رہے تھے۔پھر مجھے پتا لگا کہ ہتھیاروں سے لیس ایک ہزارکافر مکہ سے مدینہ پر حملہ کرنے گئے ہیں۔جلد ہی قریش کی شکست کی خبر مجھ تک پہنچی، میں خدا کا شکر بجا لایا۔
قریش عموماً خانہ کعبہ آتے اور مسلمانوں کے خلاف منصوبے تیار کرتے۔میں دل ہی دل میں کافروں کی بربادی اور مسلمانوں کی کامیابی کے لئے دعائیں کرتا رہتا۔دن گزرتے گئے اور خبریں آتی رہیں کہ مسلمانوں کی تعداد اور طاقت میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے اور کافر ہر جگہ منہ کی کھا رہے ہیں۔
آخر کار چند سال بھی نہ گزرے تھے کہ میری زندگی کا نہ بھولنے والا وہ دن بھی آپہنچا جب نبی ﷺ دس ہزار مسلمانوں کے لشکر کے ساتھ مکہ میں داخل ہوئے ۔کافر ہتھیار ڈال چکے تھے اور مکہ اب مسلمانوں کے قبضے میں تھا۔
میں نے نبی ﷺ کوجوں ہی دیکھا میر ی خوشی کی انتہا نہ رہی ۔آپ ﷺکے ہاتھ میں چھڑی تھی۔ آپﷺ خانہ کعبہ میں داخل ہوئے۔ اپنی چھڑی بتوں کی طرف کرتے اور فرماتے کہ’’حق آگیا،کفر بھاگ گیا۔بے شک کفر بھاگنے ہی والا تھا۔‘‘ بت ایک ایک کرکے گرتے گئے۔مسلمانوں نے خانہ کعبہ کو بتوں سے پاک کیا۔
اس کے بعد پیارے نبی ﷺ نے خانہ کعبہ کا طواف کیا اور مجھے بوسہ دیا۔آپ خود ہی اندازہ لگائیں کہ اسلام کی اس شاندار فتح اور خانہ کعبہ کا بتوں سے پاک ہونا میرے لئے کس قدر خوشی کا مقام تھا۔
پھر نبی ﷺ نے مکہ کے کافروں کوبلایا۔وہی کافر جنہوں نے مسلمانوں پر ہر قسم کا ظلم ڈھایا تھا۔آپ ﷺ نے کافروں سے سوال کیا۔
’’کیا تم کو معلوم ہے کہ میں تم سے کی سلوک کروں گا؟‘‘
کافروں نے جواب دیا’’آپ نیک سیرت ہیں۔بلند اخلاق ہیں اور ایک شریف باپ کے بیٹے ہیں۔ آپ ہمیں معاف کر دیں گے۔‘‘
نبی نے فرمایا!’’جاؤ آج تم آزاد ہو۔‘‘اس کمال درجے کا رحم دیکھ کر سخت سے سخت دل کافر بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہے۔بس کیا تھانہ صرف مکہ کے لوگ بلکہ دوسری آبادیوں کے لوگ گروہ در گروہ آتے اور آپﷺ پر ایمان لے آتے۔مجھے وہ وقت بھی خوب اچھی طرح یاد ہے جب نبی ﷺ آخری حج کے موقع پر مکہ معظمہ تشریف لائے ۔آپ ﷺ کے ساتھ ایک لاکھ مسلمان تھے۔نبی ﷺ اور صحابہ کرام خانہ کعبہ کا طواف کرتے اور مجھے بوسہ دیتے۔میرا چہرہ اس دن خوشی سے دمک رہا تھا۔
اس کے بعد میں نے پھر نبی ﷺ کو نہیں دیکھا۔چند سال بعد حضرت عمرؓ طواف کے دوران میرے قریب آئے اور مجھ سے فرمایا۔
’’اے کالے پتھر! میں جانتا ہوں کہ تو صرف ایک بے جان پتھر ہے۔تو کسی کو کچھ نہیں دے سکتا مگر میں تیرا احترام اس لئے کرتا ہوں کہ میرے پیارے نبی ﷺ نے تجھے عقیدت سے بوسہ دیا تھا۔‘‘اس کے بعد حضرت عمرؓ جھکے، مجھ سے لپٹ گئے اور چومنے لگے۔ ان کے آنسوؤں کی گرمی آج بھی مجھے محسوس ہو رہی ہے۔
پیارے بچو!تم نے تو مجھے شاید نہیں دیکھا ہوگا مگر تمہارے امی ،ابو،دادی،داد،نانی،نانا نے مجھے ضرور دیکھا ہوگا اور میرا بوسہ لیا ہوگا۔
ہر شخص جو خانہ کعبہ جاتا ہے خواہ حج کرنے یا عمرہ کرنے یا نفلی طواف کی غرض سے، اس کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ مجھے بوسہ دے۔صرف اس لئے کہ پیارے نبی ﷺ نے مجھے بوسہ دیا ہے۔سچ پوچھو تو میں دنیا کا سب سے زیادہ خوش نصیب پتھر ہوں ۔نہ صرف ان گنت مسلمان آج تک مجھے بوسہ دے چکے ہیں بلکہ پیارے نبی ﷺ نے کئی مرتبہ مجھے بوسہ دیا ہے۔
مجھے عام طور پر’’حجراسود‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔آپ میرا نام مت بھولئے گا۔ جب آپ بڑے ہوں گے توان شاء اللہ آپ سے ضرور ملاقات ہوگی۔اس وقت تک کے لئے اجازت دیجئے۔
خدا حافظ!

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top