skip to Main Content

پیارے نبی ﷺ کا بچوں سے پیار

محمد منیر قریشی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہمارے نبیﷺ
زبان پہ بار خدایا یہ کس کا نام آیا
کہ میرے نطق نے بو سے میری زبان کے لیے
ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفیﷺ کی نہ صرف خود ذات اعلیٰ و ار فع ہے بلکہ ان کا نام بھی سب سے اچھا اور با معنی و با برکت ہے۔محمد(ﷺ)کے معنی ہیں بہت زیادہ تعریف کیا گیا۔ان کی تعریف اللہ تعالیٰ بھی کرتا ہے اور مخلوق بھی کرتی ہے۔
ہے یہ وہ نام جو کوئی کام بگڑنے نہیں دیتا
بگڑ بھی جائے تو بنا دیتا ہے بس نام محمدﷺ
ٓ آپﷺ نے فر مایا:”ہر بندہ مومن جو اپنے بیٹے کا نام میری محبت میں محمد رکھتا ہے،وہ اور اس کا بیٹا میرے ساتھ جنت میں جائیں گے۔“
اللہ تعالیٰ نے کل جہانوں کی رہنمائی حضور ﷺ کے ذمہ کی ہے۔آپﷺ کو تمام جہانوں کے لئے رحمت کا اعزاز عطا فرمایا گیا ہے۔ آپ ﷺ کا دل اتنا حوصلہ اور برداشت رکھتا ہے کہ آپﷺدشمنوں کی سختیوں کا جواب بھی محبت اور پیار سے دیتے ہیں۔
سلام اس پر کہ جس نے گالیاں سن کر دعائیں دیں
آپ ﷺ کے دشمن آپ ﷺ پر زبردست حملے کرتے ہیں اور آپ ﷺ کھلے ہاتھوں ان کو گلے لگانے کے لیے آگے بڑھتے ہیں۔ اسکا یہ اثر ہوتا ہے کہ بالآخر مخا لف زیر ہو جا تا اور آپ ﷺ کے قدموں میں گر جا تا ہے۔انسانیت کی تاریخ میں یہ منفرد بات ہے کہ حضور ﷺ کے جن دشمنوں نے شقاوت اور گستاخی سے کام لیتے ہوئے بے پناہ ظلم اور قتل وغارت کئے،وہی بعد میں آپﷺ پر ایمان لے آئے اورآپ ﷺ نے ان کو معاف کر دیا، حتیٰ کہ آپ ﷺ کے پیارے چچا حضرت حمزہ ؓ کو بے رحمی سے شہید کرنے والے اور ان کی لا ش کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے والوں کو بھی آپ ﷺ نے معاف فر ما دیا۔ ایسی مثالوں سے تاریخ عالم کے اور اق خالی ہیں۔فتح مکہ کے دن تیرہ سال تک ہر طرح ظلم روا رکھنے والے کفار کو بھی کھلی معافی دے دینا ایک منفرد مثال ہے۔نتیجتاً اسلام تیزی سے ہر طرف پھیل گیا۔یہ آپ ﷺ کے اخلاق حسنہ کا نمونہ تھا کہ بڑے بڑے دشمن پھر اسلام قبول کرکے آپﷺ کی حمایت میں اپنی جانیں قر بان کرنے لگے۔ حضورﷺ کی مبارک زندگی نے ثابت کر دیا کہ محبت فاتح عالم ہوتی ہے۔توپ و تفنگ سے کبھی دل نہیں جیتے جا سکتے۔ہتھیاروں کی مدد سے جیتی جانے والی جنگیں کبھی پائیدار امن قائم نہیں کر سکتیں۔
راقم الحرف اپنی بے بسی اور کو تاہ علمی کے باعث نبی کریم ﷺ کے اتنے ہی تعارف پر اکتفا کرتا ہے۔
دنیا میں حضرت محمدﷺ کے تشریف لا نے کی ضرورت
آدمی کو آدمی کس لیے کہا جا تا ہے؟ اس لیے کہ ہم سب حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں۔آپ کی زوجہ یعنی بیوی حضرت حوا علیہاالسلام سے جو اولاد پیدا ہوتی گئی،وہ بڑھتی گئی اور ساری دنیا میں پھیل گئی۔اس کے ساتھ ہی ان کی آپس میں لڑائیاں بھی بڑھتی گئیں اور برائیوں میں اضافہ ہوتا گیا۔انسانوں کو برائیوں سے بچانے کے لئے اللہ تعا لیٰ نے ہر زمانے اور ہر قوم میں نبی بھیجے۔ان سب کی ایک ہی تعلیم تھی کہ ا للہ کے سوا کسی کے سامنے اپنا سر نہ جھکایا جائے اور کسی کو با اختیار کلی اور ہمہ وقت حاضر و نا ظر نہ گردانا جائے۔اللہ ہی ظاہر و باطن کو جاننے والا ہے۔ہم کتنی ہی کا ل کو ٹھڑیوں میں چھپ کر کام کریں،وہ ہمیں وہاں بھی دیکھ لیتا ہے بلکہ ہمارے دلوں میں جو خیال اور وہم آتے ہیں،اُن کی بھی اس کو خبر ہوتی ہے۔
بات یہ ہے کہ دُنیا ایک امتحان گاہ ہے۔یہاں اللہ تعالیٰ نے شیطان کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے کہ وہ لو گوں کو برائیوں کی طرف مائل کرتا ہے۔ انسان کے سامنے اب دو ہی راستے ہیں:ایک رحمان کا،دوسرا شیطان کا۔شیطان بہت مکار اور حیلہ جو ہے اور طرح طرح کے لا لچ دے کر انسان کو غلط راستے پر چلاتا ہے۔اس طرح اس کی شرارتوں سے قوموں کی قومیں تباہ ہو گئیں۔ اللہ تعالیٰ نے قوموں کو پھر راستے پر لانے کے لئے نبی بھیجے۔ان کے جانے کے بعد پھر لوگ راستے سے بھٹک کرشیطان کے پیچھے لگ جاتے تھے۔
بالآخر اللہ تعا لیٰ نے نبیوں کے سردار نبی آخر الزماں،حضرت محمد مصطفیﷺکو بھیجا۔انہوں نے معاشرے سے ساری خرابیوں کو دور کیا۔آپ ﷺ کی ۳۶ سالہ دُنیاوی زندگی زبردست جدوجہد کا نمونہ ہے۔آپﷺ سے تقریباً چھ سو سال پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام دنیا میں آئے اور لوگوں کو بھلائی کی طرف بُلایا،لیکن ان نا فرمانوں نے آپ ؑکو اپنے خیال سے سولی پر لٹکا دیا لیکن در اصل اللہ تعالیٰ نے ان کو آسمان پر زندہ اُٹھا لیا اور با غیوں نے ان کے کسی ہم شکل کو سولی پر لٹکا دیا اور پھر پہلے سے زیادہ گناہوں میں مصروف ہو گئے۔وہ اپنے پیدا کرنے والے معبود کو بھول کر پتھر اور لکڑی کے بت بنا کر ان کی پو جا کر نے لگے۔ یہ صریح شرک اور سب سے بڑا گناہ ہے۔اُن میں دیگر برائیاں بھی پیدا ہو گئیں مثلاً شراب نوشی،جوأ کھیلنا،بلا وجہ دوسروں کو قتل کرنا،کھلے بندوں بے شرمی کے کام کرنا……گو یا وہ انسانیت کو خیر باد کہہ کرحیوانیت پر اُتر آئے۔ایسے میں رحمت حق جوش میں آئی اور اللہ تعا لیٰ نے حضرت محمد مصطفی ﷺ کو مبعوث فرمایا۔آپﷺ نے انتہائی مصیبتوں کا سامنا کرتے ہوئے تو حید کو پھر سے دنیا میں پھیلایا۔
اللہ کا کلام قرآن کی صورت میں دنیا کے سامنے پیش فر مایا جو سارے مسائل کا بہترین حل ہے۔ تمام تکلیفوں اور دکھوں کا علاج ہے۔اللہ تعالیٰ نے قیامت تک اپنی اس کتاب کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے۔ آپ ﷺ کے دنیا میں آنے سے کا ئنا ت کی تکمیل ہو گئی۔ ہمیں چاہئے کہ قرآن حکیم کو اپنی زندگیوں کا پروگرام بنائیں۔اس کی تعلیمات امن و سلامتی کی ضامن ہیں جبکہ ان سے غفلت اور محرومی پر لے درجے کی بد قسمتی اور بد نصیبی ہے۔
بچے اگر اپنے کردار میں خوبیاں پیدا کرنا چاہیں تو انہیں قرآن و حدیث سے رہنمائی ملے گی۔ حضور نبی کریم ﷺ نے قرآن پاک سیکھنے اور سکھانے کی بڑی تاکید فر مائی ہے اور فر مایا ہے کہ”تم میں سے اچھے وہ لوگ ہیں جو خو د قرآن سیکھتے ہیں اور دوسروں کو سیکھاتے ہیں۔“
قرآن مجید میں ہے:
”بلا شبہ اللہ کے رسول (ﷺ) کی زندگی تمہارے لیے عمل کا بہترین نمونہ ہے۔“

اولاد پر خدمت و اطاعت ِوالدین فر ض ہے۔قرآن حکیم میں جو بھی حکم یا ہدایت ہے، وہ امت مسلمہ پر فر ض ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد پاک ہے:”ان دونوں کے سامنے اُف تک نہ کہو اور نہ ہی اُنہیں جھڑکو بلکہ ہمیشہ ان کے ساتھ نرمی سے گفتگو کرو۔“گویا والدین سے نہایت نرمی کا سلوک کرنا چاہئے۔سورہئ بنی اسرائیل میں یہ بھی ہدایت ہے کہ ہمیشہ اس طرح دعا مانگو: ”اے پروردگار!ان دونوں پر اس طرح رحم فرما جس طرح انہوں نے مجھے بچپن میں پالا۔“ قرآن حکیم میں بار بار یہ الفاظ دُہرائے گئے ہیں وَباِلْوَالِدَیْنِ اِحْسَاناً، سمجھ لیجئے کہ اس کی کتنی تا کید ہے۔
نہ صرف زندگی میں،بلکہ والدین کے وفات پا جانے کے بعد بھی اولاد کا فرض بنتا ہے کہ ان کے لئے صدقہ و خیرات اور ذکر الٰہی ودیگر نیک اعمال بجا لا کر ان کی ارواح کو ایصال ثواب کرے اور ان کی مغفرت کی دعا کرے۔نماز کی با قاعدہ ادائیگی سے بھی یہ فرض ادا ہو جا تا ہے جس میں یہ دعا پڑھی جاتی ہے:رَبَّنَا اغْفِرْلِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَلِلْمُؤْ مِنِینَ یوْمَ یقُوْمُ الْحِسَاب۔
والدین کے حقوق سے تعلق میں رشتے داروں کے ساتھ نیک سلوک کرنا بھی آتا ہے۔ان دونوں کے ہر دو طرف سے جتنے رشتہ دار ہیں، ان کا احترام اور حقوق کی پاسداری بھی ضروری ہے۔نیز ان کے ملنے والے دوست احباب اس لائق ہیں کہ ان کی عزت و احترام کو اوّلیت دی جائے۔ماں کے بعد خالہ اور باپ کے بعد چچا درجہ رکھتے ہیں۔فرمان ربی ہے:
”ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرو،رشتہ داروں کے ساتھ بھی۔“
سیرت نبوی ﷺکا یہ پہلو کتناتابناک ہے کہ تمام خون کے رشتوں اور معاشرے کے ہر فرد کے ساتھ حسن سلوک کی نہ صرف تاکید کی گئی ہے بلکہ حضورﷺ نے اپنے عمل سے بھی نمونہ پیش کر دیا،لہٰذا اُستادوں کی خدمت اور احترام ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔اُستا د کا درجہ بھی بمنزلہ باپ کے قرار دیا گیا ہے۔ ہمسایہ کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”رشتہ دار ہمسایہ،غیر رشتہ دار ہمسایہ اور کروٹ کے ساتھی ومسافر کے ساتھ بھلائی کرو۔“
کروٹ کے ساتھی سے مراد ہر وہ شخص ہے جس کے ساتھ روزمرہ زندگی میں معاملات ہوتے ہیں۔مالک کے لئے حکم ہے کہ ”نوکروں اور غلاموں کو طاقت سے زیادہ تکلیف نہ دو، نہ ہی سخت کلامی کرو،ان کو بقدر ضرورت معاوضہ دو۔“اس حکم قرآنی کی تشریح میں فر مایا: ”جو اللہ تعالیٰ اور قیامت پر یقین رکھتا ہے،اسے چاہیے کہ مہمان کی عزت کرے۔“
یہ بھی فرمایا کہ ”بد خلق جنت میں داخل نہ ہوگا۔“
بچوں کو تکبر اور حسد سے بھی بچنا چاہیے۔قرآن پاک میں ہے:
”اللہ تعالیٰ کسی مغرور اور متکبر انسان کو پسند نہیں کرتا۔“
لہٰذا لائق اور ذہین بچوں کو اپنی اس خوبی پر اترانا نہیں چاہیے بلکہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے اپنے دوسرے ساتھیوں اور دوستوں کی مدد کرنی چاہیے۔
عزیز بچو! آپ اپنے میں وہ تمام خوبیاں اور خصائل پیدا کریں جن کی ہمارے پیارے نبیﷺ نے تاکید فر مائی ہے اور ان تمام رذائل سے اپنا دامن بچا کر رکھیں جن سے حضور ﷺ نے منع فرمایا ہے۔ اس طرح آپ صاحب خلق عظیم ﷺ کے صحیح اُمتی اور تابعداربن جائیں گے۔
حضرت محمدﷺ کے بچپن میں بچوں کے لئے سبق
بیت اللہ یعنی اللہ کا گھر جس کی جانب ہم رخ کر کے نماز پڑھتے ہیں،جب حضرت ابراہیم اور حضرت اسمٰعیل علیہم السلام نے اللہ کے حکم پر تعمیر کیا تو انہوں نے دعا کی تھی:”یا اللہ!مکہ کے لوگوں میں سے ایک بلند مرتبہ رسول پیدا فرمانا جو ان کو تیری آیتیں سنائے اور حکمت و دانائی کی تعلیم دے۔“بہت سے نبیوں کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام آئے اور انہوں نے بھی حضرت محمد ﷺ کے آنے کی خوشخبری دی۔ چنانچہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے تقریباً چھ سو سال بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے محبوب پیغمبر حضر ت محمد ﷺ کو دنیا میں بھیجا۔
ہوئی پہلوئے آمنہ سے ہویدا
دُعائے خلیل و نوید ِ مسیحا
(خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام کا لقب ہے اور مسیحا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی صفت ہے)آنحضرت ﷺ مکہ کے ایک معزز خاندان قریش میں ۱۷۵ ء کو بروز پیر طلوع آفتاب کے وقت پیدا ہوئے۔تاریخ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ۲۱ ربیع الاول تھی۔آپ ﷺ کے والد عبداللہ آپ ﷺ کی پیدائش سے پہلے وفات پا چکے تھے۔دادا عبد المطلب نے بہت خوشی منائی۔ نومولاد کو کعبہ شریف لے جا کر دُعا مانگی اور واپس لے آئے۔انہوں نے ”محمد“ نام رکھا۔ والدہ آمنہ سلام اللہ علیہا نے حضور ﷺ کا نامِ مبارک احمد رکھا، جس کی بشارت ان کو خواب میں ہوئی تھی۔
اس وقت کے رواج کے مطابق پیدا ہونے والے بچوں کو دایہ کے حوالے کیا جاتا تھا اور دیہات میں چند سال پرورش کی جاتی تھی۔ آپ ﷺکی دایہ حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے پہلے تو یتیم خیال کرکے توجہ نہ کی،لیکن بعد میں حضرت آمنہ سلام اللہ علیہا کے بتانے پر کہ یہ بچہ بڑی قسمت اور شان والا ہو گا،ان کو لے جانا قبول کر لیا۔گود میں لیتے ہی اس پر رحمتوں اور برکتوں کا نزول شروع ہو گیا۔واپس جاتے وقت اس کی سواری کا گدھا جو کمزور اور مریل تھا،چست اور صحت مند ہو گیا اور سب دائیوں کی سواری سے آگے نکل گیا۔ دائی حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے کہنے کے مطابق منزل پر پہنچنے پر ان کے گھر میں بھی برکت ہی برکت کادور دورہ ہوگیا۔ ان کی دُبلی پتلی بکری ڈھیروں دُودھ دینے لگی۔حضرت محمدﷺ کی ایک رضاعی بہن شیما تھی……دو بچے جو ایک ہی ماں کا دُودھ پیتے ہوں آپس میں رضاعی بہن بھا ئی کہلاتے ہیں۔ ایک بار آپ ﷺ اس سے کھیلتے ہوئے بہت دُور نکل گئے۔حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اس خیال سے ان کا پیچھا کیا کہ کہیں کوئی درندہ اُن کو نقصان نہ پہنچائے اور شیما سے کہا کہ ان کو کیوں اتنا دُور لے آئی ہو اور دُھوپ سے نقصان پہنچنے کا اندیشہ ظاہر کیا۔شیما نے کہا:
”ماں! دُھوپ نے تنگ نہیں کیا۔ہم جہاں جاتے تھے ایک بدلی سروں پر سایہ کرتی تھی۔“حلیمہ رضی اللہ تعا لیٰ عنہا کہتی ہیں:”میں نے جب اُوپر نگاہ ڈالی تو بدلی کو سایہ فگن پایا، یہ دیکھ کر میرے دل میں حضور ﷺ کی قدر و منزلت اور بھی بڑھ گئی۔“
ایک دفعہ ایسا ہو اکہ حضرت محمد ﷺ کا رضاعی بھائی عبداللہ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ بھا گا ہوا آیا اور حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کہا کہ دو آدمی آکر حضرت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔جب حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھاگی بھاگی وہاں پہنچی تو آپ ﷺ پریشان کھڑے تھے۔حضرت محمد ﷺ نے اپنی رضا عی ماں کو بتایا کہ:
”دو شخص آسمان سے اُترے اور انہوں نے سبز لباس پہنا ہوا تھا،مجھ کو آہستہ سے زمین پر لٹا کر میرا سینہ چاک کیا اور اس میں سے کچھ نکال کر دھویا اور پھراسی طرح اسے سینے میں رکھ کر ٹانکے لگا دئیے پھر وہ خود آسمان کو چڑھ گئے۔“
در اصل وہ فرشتے تھے،انہوں نے اللہ تعا لیٰ کے حکم سے آپ ﷺ کا دل نکا ل کر دھویا اور صاف نورانیت سے بھر دیا۔
نبی کریم ﷺ جب دائی حلیمہ رضی اللہ تعا لیٰ عنہا کے پا س تھے تو ان کے بچوں کے ساتھ جنگل میں بکریاں چرانے جاتے تھے۔ دوسرے مشاغل اور کھیل کود میں ان کے ساتھ شریک نہ ہوتے تھے۔یہ بھی وارد ہو اہے کہ آپﷺ نے اپنے چچا ابو طلب کی مدد کے لئے بکریاں چرائیں حالانکہ اُس وقت آپ ﷺ چھوٹی عمر میں تھے۔
دائی حلیمہ رضی اللہ تعا لیٰ عنہا کہتی ہیں کے بچپن میں محمدﷺ دوسرے بچوں کی طرح شریر نہ تھے،نہ وہ دوسروں کو گالیاں دیتے تھے، نہ فضول کھیل کود میں حصہ لیتے تھے،نہ لڑتے جھگڑتے تھے، نہ گانے سنتے تھے۔وہ کبھی ایسی مجلس میں نہیں جاتے تھے جہاں فضول کام ہوتے ہوں حالانکہ اس طرح کے کا م وہاں کے بچے عام طور پر شوق سے کرتے تھے۔
جب چالیس سال کی عمر میں آپ ﷺ نے نبوت کا اعلان کیا تو آپ ﷺ کی رضاعی والدہ دائی حلیمہ اور ان کے شوہر حارث بن عبدالعزیٰ رضی اللہ تعا لیٰ عنہم نے بھی اسلام قبول کر لیا۔آپ ﷺ کے رضاعی بہن بھا ئی بھی مسلمان ہوگئے تھے۔بچپن میں جب پانچ سال دیہی زندگی گزار کر مکہ واپس آئے تو کچھ دیر بعد ہی آپ ﷺ کی والدہ اللہ کو پیاری ہو گئیں۔اب آپ ﷺ کے دادا عبدالمطلب آپ ﷺ کی دیکھ بھال کرنے لگے۔آپ ﷺکے پاکیزہ اور اعلیٰ اخلاق کے باعث وہ بھی آپ ﷺ سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے۔ان کے اور بھی پوتے تھے لیکن آپ ﷺ جیسی قدر کسی کو نصیب نہ تھی۔
کعبہ کی مسند یعنی گدی جس پر عبد المطلب کے سوا کوئی نہ بیٹھ سکتا تھا،وہاں حضور ﷺ کو بیٹھنے سے منع نہ کیا جاتا۔کئی بار آپ ﷺ کے دادا آپ ﷺ کو اپنے کندھوں پر اُٹھا کر کعبے کا طواف بھی کراتے تھے۔حضور ﷺ کو دُرِیتیم کہا جاتا ہے کیوں کہ یتیم ہونے کے باوجود موتی کی طرح شفاف کردار کے مالک تھے۔دنیا کے بچوں کے لیے یہ ایک اعلیٰ ترین مثال ہے۔
نیکی پھیلانے کے لیے صرف زبانی تعلیم ہی ضروری اور کارگر نہیں ہوتی جتنی کہ اس پر عمل کر کے دکھلانے والی تعلیم و تر بیت۔ ہمارے نبی کریم ﷺ نے ہمیشہ نیکیوں کی جانب راغب کرنے کے لیے عملی نمونے پیش کئے۔آپ ﷺ نے اپنے ساتھ کھیلنے والے بچوں میں اعلیٰ اقداراور دلکش عادات کی آبیاری کی۔ عرب بچے پتھر ڈھوتے وقت عموماً تہہ بند اُتار کر کندھوں پر ڈال لیتے تھے۔آپ ﷺنے ان کے اصرار پر بھی ایسا نہ کیا بلکہ اس بے شرمی سے ان کو نفرت دلائی۔آپ ﷺ نے دوسرے بچوں کی طرح بستر کو کبھی پیشاب سے گیلا نہ کیا،بلکہ ہمیشہ پاک،طیب اور ترو تازہ نظر آتے تھے۔آپ ﷺ کی دائی حلیمہ کہتی ہیں:”مجھے آپ ﷺ کو نہلانے یا پونچھنے کی کبھی ضرورت نہیں پڑی۔“
آج کے بچوں کو بھی چاہیے کے وہ فضول اور لغو کاموں سے کنا رہ کریں۔گڈی بازی،پل گولی کھیلنا،انٹرنیٹ اور ویڈیو گیمز وغیرہ میں گھنٹوں ضائع کرنا ان کی آئندہ زندگیوں کو کوئی نفع نہ دے گا۔آج کے بچے والدین سے بھی غیر نفع بخش کاموں اور کھیلوں کے لیے پیسے لینے پر اصرار کرتے ہیں۔اس کے بر عکس آپ کو معلوم ہونا چائیے کہ حضور ﷺ نے بچپن میں بڑوں کی خدمت کو اپنا شعار بنا لیا تھا۔اپنی دائی حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی مالی حالت کو کمزور دیکھ کر پانچ سال کی عمر میں بھی تعاون کیااور ان کے کاموں کے لیے ملازم نہ رکھنے دیا۔آپ ﷺ ان کے سارے کام خود کرتے تھے۔ان کی بکریاں چرائیں،جلانے کے لیے لکڑیاں کاٹ کر دیں اور اپنی عمر سے بھی بڑے بڑے کام کرکے دائی حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی خدمت بجا لائے۔ان کے گھر کی صفائی کی۔پانچ سال کی عمر میں ہی دائی حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ان کو لے کر واپس مکہ ان کی والدہ آمنہ کے حوالے کرنے چلی گئیں تھیں۔واپس آکر ان کو معلوم ہوا کہ ننھے محمدﷺ ان کے گھر کے کون کون سے کام سنبھالے ہوئے تھے۔اب حلیمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر میں اُداسیاں چھا گئیں اور ان کو پھر سے مشقت کی زندگی سے واسطہ پڑ گیا۔
پھر ایسا ہوا کہ آپ ﷺ کی والدہ آپ ﷺ کو اپنے میکے مدینہ شریف (جسے اُس وقت یثرب کہا جاتا تھا)ساتھ لے گئیں۔ایک ماہ وہاں رہ کر جب واپس آرہی تھیں تو راستے میں ان کا انتقال ہوگیا۔ننھے محمدﷺ کو دایہ اُم ایمن رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے سنبھالا لیکن آپ ﷺ کے غم کی کوئی انتہا نہ تھی۔مکہ پہنچ کر اُم ایمن نے آپﷺ کو دادا عبد المطلب کے حوالے کیا۔وہ بھی لگاتار صدموں سے بہت کمزور ہو چکے تھے۔دادا کی وفات کے بعد اب حضورﷺ کی کفالت آپ ﷺ کے چچا ابو طالب کے حوالے ہوئی۔انہوں نے آپ ﷺ سے بہت محبت اور شفقت کا سلوک روا رکھا۔حضور ﷺ نے بھی ابوطالب کی بڑی عزت کی اور ان سے سعادت مندی کا سلوک کیا۔آپﷺ کو بڑے ہونے تک ابو طالب کی طرف سے مکمل تعاون حاصل رہا۔ابو طالب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے والد تھے۔کفارِمکہ کے مقابلے میں ابو طالب نے حضور ﷺ کی ہمیشہ حمایت کی۔
بچپن میں بھی حضرت محمدﷺ کا کردار ایسا اعلیٰ تھا کہ اُجڈ اور وحشی بدوؤں اور چرواہوں میں رہ کر بھی آپ ﷺ نے متانت،سنجیدگی اور عالی ہمتی کا نمونہ پیش فر مایا۔اپنے ہم عمر بچوں کو سیدھا راستہ دکھلایا۔نہ ہی انہوں نے لڑکپن میں کبھی جھوٹ بولا۔کسی سے نا واجب مذاق نہیں کیا۔گھر میں بھی مانگ کر کھانا نہیں کھایا،جو کچھ مل گیا صبر شکر کر کے کھا لیا۔کھانے والی کسی شے میں عیب نہیں نکالا۔بچپن ہی سے آپ ﷺ میں حیا،وقار اور ضبط نفس کی خوبیاں موجود تھیں۔یہ سب باتیں دنیا بھر کے بچوں کے لیے رہنمائی کا درجہ رکھتی ہیں۔

ایک منفرد بات یہ ہے کہ آپﷺ نے بڑوں کی قدیم خاندانی روایات کو نہیں اپنایا،بلکہ اپنی انفرادیت کو ہمیشہ برقرار اور قائم رکھا۔ نیکی،خدمت گزاری،رواداری،فرض شناسی آپﷺ کے بہت سے اوصاف میں سے چند اوصاف ہیں۔آپﷺ کے چچا ابو طالب بہت غریب تھے۔آپﷺ نے کبھی ان پر بوجھ بننا پسند نہیں کیا،بلکہ ان کی بہتری کے لیے سوچتے رہے۔صرف نو سال کی عمر میں حضرت محمدﷺ نے مکہ کے لوگوں کی بکریاں اور اُونٹ چرائے تاکہ اپنے چچا کی مالی امداد ہو سکے۔یہ کام بڑے مشکل تھے۔سنگلاخ اور تپتی ہوئی ریتلی زمین بھی آپﷺ کے راستے کی رُکاوٹ نہ بن سکی۔سالہا سال یہ کام جاری رہا۔جنگلوں میں دن کے طویل لمحات صرف چوپایوں کی صحبت میں گزرتے یا پھر غور وفکر میں مگن رہتے اور اپنے رب سے لو لگاتے۔آپﷺ صرف مویشیوں کہ گلہ بان نہ تھے،بلکہ نوع انسان کے سب سے بڑے گلہ بان بھی تھے۔ان کے آنے والے مشن کے لیے ان کو صحراؤں سے وہ سب کچھ حاصل ہو گیاجس کی ضرورت مخلوق کو اللہ سے ملانے میں پیش آنی تھی۔
صحرائی زندگی کے متعلق حضور ﷺ نے اپنے صحابہؓ کو بتایا کہ”جنگل میں مجھے کھانے کو کچھ نہ ملتاتو پیلو کے درخت کا وہ پھل کھایا کرتا جو سیاہ ہو چکا ہوتا۔“حالانکہ شہری لوگ اسے کبھی کھانا پسند نہیں کرتے۔یہی عادت ِمبارک آپﷺ کے اس وقت کام آئی جب تین سال کے لیے آپ کو خاندان سمیت شعیب ابی طالب میں محصور کر دیا گیا تھا۔وہاں حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت چچا ابو طالب بھی ساتھ ہی محصور تھے۔نہ کھانے کو کچھ ملتا تھا نہ پینے کو۔چمڑے کو بھون کر اہل خانہ کھاتے رہے،جسے جانور بھی کھانا پسند نہ کرتے۔
اگر سب مصیبتوں اور تکالیف کوسامنے رکھا جائے تو آپﷺ کی سیرتِ پاک کی یہ خوبی اُجاگر ہوگی کہ لوگ سختیوں اور مصیبتوں میں ہر ناجائز کام کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں،لیکن آپ ﷺ کے پائے استقلال میں کوئی لغزش نہ آئی بلکہ سختیوں اور مصیبتوں نے آپﷺ کے جذبہ اخلاص،خدمت گزاری،خدا ترسی اور خدا شناسی کو اور بھی جلا بخشی اور آپﷺ نے ساری کائنات کو خدائے واحد کے سامنے سجدۂ بندگی میں جھکا دیا کہ یہی آپ ﷺ کا مشن تھا جو پوری طرح کامیاب رہا۔
یہ حقیقت ہے کہ حضورﷺ بچپن میں بھی دنیا کے تمام بچوں میں سے سب سے بڑھ کر نیک ﷺاور سعید تھے۔ظاہر ہے کہ وہ دنیا کو اخلاق کا سبق دینے کے لیے آئے تھے اور ان کا ہر عمل بہترین،بے داغ اور منفرد ہونا ضروری تھا لہٰذا والدین کے متعلق بھی ان کا سلوک قابل تقلید ہے۔قرآن حکیم میں فرمان ِربی ہے:
”ان کو اُف تک نہ کہو اور مت جھڑکو اور دونوں کو نرم لہجے سے بلاؤ۔“حکم ربی ہے کہ ماں با پ کے سب کاموں کو برداشت کرو۔جواب دینا تو درکنار،ان کے سامنے اُف بھی نہ کہو۔حضورﷺ نے بچپن میں ہی اپنے بزرگوں اور بڑوں سے حسن سلوک کی اعلیٰ مثال پیش کی۔آپ ﷺ نے فرمایا کہ ماں نے تربیت اور پرورش میں باپ سے بھی بہت زیادہ تکا لیف برداشت کی ہیں لہٰذا اس کا حق خدمت میں بھی زیادہ ہے۔ماں باپ کے بعد خالہ اور چچا سے بھی اسی طرح حسن سلوک کرنا واجب ہے۔
حضورﷺ اپنی رضاعی ماں کا بھی بے حد احترام کرتے تھے۔ جب آپ ﷺ اپنے اصحاب رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں بیٹھے ہوتے اور دائی حلیمہ آجاتیں تو اُٹھ کران کی عزت افزائی کرتے اور اپنی چادر بچھا کر ان کو احترام سے بٹھاتے۔آپ اپنی حقیقی ماں آمنہ(سلام اللہ علیہا)کا حال اکثر صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو سنایا کرتے۔ان کو یاد کر کے افسوس زدہ ہو جاتے۔آپ ﷺ کی یادداشت بہت اچھی تھی۔
ہم پہلے بیان کر چکے ہیں حضورﷺ نے بچپن اور یتیمی کا زمانہ بڑ ے وقار اور دُور اندیشی میں گزارا۔ایک دفعہ زمانہء نبوت میں آپ کا گزر اپنی والدہ مرحومہ کے مزار پر ہوا۔صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم بھی آپ ﷺکے ساتھ تھے۔والدہ کی قبر دیکھ کر آپ ﷺ کے آنسو نکل آئے۔ آپ ﷺ کو دیکھ کر صحابہ بھی رو دیئے۔حضورﷺ نے فرمایا کہ:
”میری والدہ،میرے والد کی قبر دیکھنے کے لیے یثرب آئی تھیں (یثرب،مدینہ شریف کا پرانا نام ہے)۔میں اُس وقت صرف چھ سال کا تھا۔اُن کے ساتھ اُم ایمن بھی تھیں۔اس سفر میں میری االدہ فوت ہو گئیں اور مقام ابواء میں دفن ہوئیں۔“بچپن کے واقعات بیان کرتے ہوئے آپﷺ نے بتایا کہ”ایک لڑکی انیسہ بھی ہمارے ساتھ کھیلا کرتی تھی۔بچپن کے ساتھی جب مجھے کھیل کود میں ساتھ لے جانا چاہتے تو میں ان کے ساتھ جانے سے صاف انکار کر دیتا اور کہتا کہ خدا نے مجھے کھیلنے کودنے کے لیے پیدا نہیں کیا۔“
جب دادا عبدالمطلب فوت ہوگئے تو آپﷺ کے چچا ابو طالب آپ کے سر پرست بن گئے۔وہ بھی آپﷺ کے بڑے مداح تھے۔ان کی گواہی ہے کہ ”میں نے بچپن میں کبھی محمدﷺکو جھوٹ بولتے نہیں سنا اور آپﷺ سے کوئی جاہلانہ بات سرزد نہیں ہوئی، نہ ہی انہوں نے کبھی بازاری گندی سوسائٹی سے کوئی رابطہ کیا۔“تاریخ میں ابو طالب کی ایک لونڈی کا ذکر بھی ملتا ہے جس کا نام تو معلوم نہیں،البتہ اس کا بیان ملتا ہے کہ:
”حضرت محمدﷺ نے بچپن میں کبھی مانگ کر کھانا نہیں کھایا۔جب دیا جاتا کھا لیتے،نہ دیا جاتا تو ویسے ہی گزر کر لیتے۔کھانے کی چیز میں نقص نہیں نکالتے تھے۔اس بارے میں کسی پر اعتراض نہیں دھرتے تھے۔“کم سنی میں آپ ﷺ کی طبیعت میں جو وقار،ضبط نفس،حیا اور مانگنے سے نفرت جیسی صفات پائی جاتی تھیں،وہ اپنی مثال آپ تھیں۔لوگ اپنے گھروں میں مانگنے تانگنے سے گریز نہیں کرتے،تاہم وقار اور ضبط نفس کے تقاضے کچھ اور ہوتے ہیں۔
آپ ﷺ نے دنیا بھر کواخلاقی اقدار پر عمل کرنے کا سبق دینا تھااس لئے حسن عمل کے اعلیٰ نمونے پیش فرمائے۔جن بچوں کے دل میں نیکی کا جذبہ موجزن ہوتاتھا،وہ آپﷺ کی بات پر کان دھرتے تھے، مثلاًجب آپﷺ نے اللہ تعالیٰ کے حکم پر نبوت کا کھلے بندوں اعلان کیا اور بھری مجلس میں فرمایا:”کون ہے جو نیکی کرنے اور نیکی پھیلانے میں میری مدد کرے گا؟“اس وقت بڑے بڑے لوگ شش و پنج میں مبتلا ہوگئے اور سوچوں میں غرق ہو گئے لیکن ایک بالکل نو عمر بچے نے ہاتھ اُٹھا کر کہا کہ”میں آپﷺ کی مدد کروں گا۔“ معلوم ہے وہ بچا کون تھا؟وہ آپ ﷺ کا چچا زاد بھائی”علی“تھا،جن کی عمر ابھی کم تھی لیکن حوصلہ زیادہ تھا۔ان کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ جب نبوت کا اعلا ن ہوا تو بچوں میں سب سے پہلے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایمان لائے۔ان سے تحریک پا کر بہت سے دیگر بچوں نے بھی اسلام قبول کر لیا۔حضرت علی رضی اللہ تعا لیٰ عنہ نے حضورﷺ سے عرض کہ:”اے ا للہ کے رسول ﷺ!اگر چہ میری آنکھیں دُکھتی ہیں اور میری ٹانگیں پتلی پتلی ہیں اور سب سے چھوٹی عمر کا بچہ ہوں لیکن آپ مجھے اپنا قابل اعتماد ساتھی پائیں گے۔میں ہر طرح،ہر جگہ آپﷺ کا پورا ساتھ دوں گا۔“(بعد میں حضورﷺ کی معجزانہ نظر کرم سے حضرت علی رضی اللہ تعا لیٰ عنہ کی کمزوریاں دُور ہوگئیں)۔حضرت علی رضی اللہ تعا لیٰ عنہ کو بڑے ہو کر حضرت نبی کریم ﷺ کی داما دی کا شرف بھی حاصل ہوا اور آپ ہی خلیفہ چہارم کے اعزازسے متصف ہوئے۔ خاتون ِ جنت حضرت فاطمۃ الزہرہ رضی اللہ تعا لیٰ عنہا آپ کے گھر کی زینت بنیں جن سے نوجوانان جنت کے سردار حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ تعا لیٰ عنہم عالم وجود میں آئے،گویا سارا خاندان ہی نورٌ علیٰ نور ہو گیا۔
اپنے گھرانے کے بچوں سے حضورﷺ کا حُسنِ سلوک
آپ نے پہلے پڑھا ہے کہ کس طرح حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خود کو اسلام کی خدمت میں پیش کردیا۔آپؓ حضورﷺ کے بہت ہی قریبی رشتہ دار یعنی چچا زاد بھائی تھے۔ان کے والد حضرت ابو طالب نے بھی آنحضرت ﷺ کی پرورش کی اور کافروں کے خلاف آپﷺ کی مدد کرتے رہے بلکہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی والدہ فاطمہ بنت اسد رضی اللہ تعا لیٰ عنہا نے بھی حضورﷺ کے ساتھ پورا پورا تعاون کیا تھا۔گویا آپ کے والدین بھی آنحضرتﷺ سے بے حد پیار کرتے تھے۔جب فاطمہ بنت اسد رضی اللہ تعا لیٰ عنہا فوت ہوئیں تو آپﷺ خود ان کی قبر میں کچھ دیر کے لیے لیٹ گئے اور ان کے لیے دُعا کرتے رہے۔اپنی خاص چادر اُن کے کفن کے لیے دے دی۔اتنی عزت کرنے کی وجہ آپﷺ نے یہ بتائی کہ ”میری ماں آمنہ کی وفات کے بعد انہوں نے میری جو خدمت کی،وہ بھولنے والی نہیں۔وہ میرے لیے بمنزلہ ماں کے تھیں۔میں نے قبر کے اندر لیٹ کر ان کے لیے دُعا کی کہ وہ قبر کے عذاب اور تکلیف سے بچ جائیں۔اپنی چادر اس لیے کفن کے لیے دی کہ وہ دوزخ کی آگ سے محفوظ رہیں۔“
ایک موقع پر مکہ میں زبردست قحط کا حملہ ہوا۔بارش نہ ہونے سے ہریالی بالکل ختم ہو گئی۔گھاس پھونس کا نام و نشان تک باقی نہ رہا۔ مویشی یعنی اُونٹ،بکریاں بلکہ پرندے بھی بھوک اور گرمی سے مرنے لگے۔شہر کی آبادی کا قحط سے برا حال ہوگیا۔ضروریاتِ زندگی کی تنگی ہو گئی۔مالدار لوگ سخت پریشان ہو گئے۔آپﷺ کے چچا ابو طالب کی مالی حال پہلے ہی کافی کمزور تھی اور اب تو ان پر بھی سخت وقت آگیا۔ ایسے میں آپﷺ اپنے دوسرے چچا حضرت عباس رضی اللہ تعا لیٰ عنہ کے پاس گئے جو کہ بنی ہاشم کے رئیس تھے اور اچھی مالی حالت کے مالک تھے۔ان سے مشورہ کیا کہ کسی طرح ابو طالب کی مدد کرنی چاہئے۔انہوں نے آپ ﷺ سے رائے پوچھی کہ کس طرح ان کی مدد کی جا سکتی ہے؟آپﷺ نے فرمایا:”کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ ابو طا لب کا ایک بیٹا آپ اپنے گھر لے جائیں اور ایک میرے گھر میں رہنے لگے۔ اس طرح ان کو خاصی سہولت ہو جائے گی۔“حضرت عباس رضی اللہ تعا لیٰ عنہ کو یہ تجویز پسند آئی،لہٰذا حضرت علی رضی اللہ تعا لیٰ عنہ کو نبی کریم ﷺ اپنے گھر لے آئے اور ان کے دوسرے بھائی حضرت جعفر رضی اللہ تعا لیٰ عنہ حضرت عباس رضی اللہ تعا لیٰ عنہ کے ہاں رہنے لگے۔اس حکمت عملی سے آپ ﷺ نے اس مسئلے کو حل کر لیا۔آپﷺ کے ہاں آکر حضرت علی رضی اللہ تعا لیٰ عنہ کو خادم زید بن حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رفا قت نصیب ہو گئی۔وہ بھی ابھی بچے تھے۔اس وقت حضرت علی رضی اللہ تعا لیٰ عنہ کی عمر بمشکل پانچ سال ہو گی۔دونوں بچے حضورﷺ کے سایہ ء رحمت میں پلنے لگے۔جس سے آپ ﷺ کا بچوں سے پیار واضح ہوتا ہے۔یہاں ہر طرح آرام،خوراک، لباس، تعلیم و تربیت گویا ہر ضروری چیز میسر تھی۔اُدھر حضرت علی رضی اللہ تعا لیٰ عنہ خود بھی اخلاق کی عملی تفسیر تھے۔بڑوں کا ادب، فرماں برداری، ہم دردی ان کا شیوہ تھی۔گھر کا ہر فرد ان سے بے پناہ محبت کرتا تھا۔پھر جب کئی سالوں بعد حضور ﷺ نے نبوت کا اعلان کیا توبچوں میں سب سے پہلے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی نے اسلام قبول کیا۔اگرچہ ان کے والد ابوطالب اسلام نہیں لائے تھے،تاہم انہوں نے بانیئ اسلام کی ہرطرح مدد جاری رکھی اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی آپ ﷺ کی پیروی کرنے کی اجازت دے دی۔باہمی محبت کا یہ سلسلہ ہمیشہ جاری رہا۔

نبی کریم ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے ایک فرزند ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ عطاء کیا۔چونکہ آپ ﷺ آخری نبی ہیں اس لیے اللہ کو منظور نہ تھا کہ وہ زندہ رہیں۔ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ڈیڑھ سال کی عمر میں ہی وفات پا گئے۔حضور ﷺ کو ان کی وفات کا بہت غم ہوا۔آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے حیران ہو کر دریافت کیا:”حضور ﷺ آپ بھی روتے ہیں؟“آپ ﷺ نے فرمایا:”آنسوؤں سے رونا رحمت ہے۔بلند آواز سے آہ و بکا کرناگناہ ہے۔“نیز فرمایا:”جس شخص کے دل میں رحم کا مادہ نہ ہو،اس پر اللہ بھی رحم نہیں کرتا۔“اس واقعے سے بھی بچوں سے حضور ﷺ کی محبت ظاہر ہوتی ہے۔
حضور نبی کریم ﷺ سفر پر تشریف لے جاتے وقت سب سے آخر میں اور واپسی پر سب سے پہلے اپنی بیٹی حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے ملتے۔حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہادربار نبوی ﷺ میں آتیں تو آپ ﷺ سب کو چھوڑکر ان کی پیشانی چومتے اور اپنی نشست پر بٹھاتے۔
حضرت فاطمۃ الزہرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاگھر میں محنت و مشقت کرتی تھیں تو ہاتھوں پر گٹھے پڑ گئے تھے۔آپ ؓ نے حضور ﷺ سے عرض کیا کہ ”جنگ سے جو غلام اور مال آیا ہے، اس میں سے کچھ عنایت کیا جائے۔“حضور ﷺ نے فرمایا:”پہلے بدر کے یتیم بچوں کا حق ضروری ہے، لیکن تم کو ایک وظیفہ بتایا جاتا ہے جسے پڑھنے سے زندگی کے روز مرہ کے کام آسان ہو جایا کریں گے۔وہ یہ ہے:سبحان اللہ ۳۳ مرتبہ،الحمدللہ۳۳ مرتبہ اور اللہ اکبر ۴۳ مرتبہ پڑھ لینے سے ہر کام میں سہولت ہوگی۔“اسے ورد فاطمہ کہا جاتا ہے۔اگر بچے اپنے امتحانوں کے دنوں میں اسے پڑھیں گے تو ان کو کامیابی ہوگی ان شاء اللہ تعالیٰ،لیکن محنت کرنی ضروری ہے۔
حضور نبی کریم ﷺ کی اولاد آپ ﷺ کی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے چلی۔حسن اور حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہم ان کے دو موتیوں جیسے بیٹے تھے۔ایک روز رسول اللہ ﷺ اپنے دائیں زانو پر ننھے ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کواور بائیں زانو پر حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کولیے تشریف فرما تھے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نازل ہو ئے اور عرض کی:”یا رسول اللہ ﷺ! رب تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ان میں سے ایک بچہ آپ ﷺ کے پاس رکھنے کی خدا کی مرضی ہے،دونوں نہیں رہ سکتے۔“حضور ﷺ نے اپنی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو اولاد کا غم دیکھنے نہ دیا اور فیصلہ فرمایا کہ ”میں خود ابراہیم کی جدائی قبول کرلوں گا،فاطمہ رضی اللہ عنہا کا غم مجھے منظور نہیں ہے۔“چنانچہ جس طرح کہ پہلے بیان ہوا ہے کہ ابراہیم ؓ فوت ہوگئے۔اس کے بعد جب بھی حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ ﷺ کے پاس آتے تو آپ ﷺ ان کو گود میں لے کر پیشانی کو محبت سے چومتے اور فرماتے:”وہ پیارا بچہ جس پر اپنے لخت جگر کو قربان کردیا ہے،یہ حسین ہے۔“
حضور ﷺ آپ ؓکے لیے دعا کرکے بارش بند کرادی۔واقعہ یوں ہے کہ ایک دفعہ حضرت حسین ؓ اپنے نانا جان کی گود میں تھے کہ وہ کچھ غم زدہ نظر آئے۔دریافت کرنے پر انہوں نے بتایا کہ ”وہ ابا جان (حضرت علی ؓ)کے پاس جانا چاہتے ہیں،لیکن اس وقت بارش ہو رہی ہے۔“آپ ﷺ نے دعا فرمائی تو بارش بند ہو گئی۔حضور ﷺ اپنے گھر کے بچوں سے اتنا ٹوٹ کر پیار کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ بھی ان کے لیے بارش بند کردیتا تھا۔یہ وہی حسین ؓ ہیں جن کو حضور ﷺ کی وفات کے بعد کربلا کے میدان میں ظالموں نے بے دردی سے شہید کردیا۔ محرم کے مہینے میں ان کی یاد منائی جاتی ہے۔حضرت فاطمہ ؓ کے دونوں لخت جگر حسن و حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہم نبی کریم ﷺ کو بہت پیارے تھے۔ ان کا بچپن آپ ﷺ کی گود میں گزرا۔ان کے ذکر خیر کے بغیر یہ تصنیف نامکمل رہے گی۔
حضرت حسن ؓ بڑے تھے۔ ان کی پیدائش پر حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آکر ان کا نام ”شبر“رکھاجو حضرت ہارون علیہ السلام کے بڑے بیٹے کا نام تھا۔اس کا عربی ترجمہ”حسن“ بنتا ہے۔ان کے متعلق حضور ﷺ نے فرمایا:”الٰہی! میں اس کو دوست رکھتا ہوں اور اس کے چاہنے والے کو بھی چاہتا ہوں۔اے اللہ! جو بھی ان سے محبت کرے، تو بھی اس سے محبت کر۔“ایک دن حضور ﷺ نے حضرت حسن ؓ کو اپنے کندھوں پر بٹھایا ہوا تھا۔اسی حالت میں ان کو لے کر گھر سے باہر آئے۔ کسی نے کہا:”اس کی سواری کیا ہی اچھی ہے۔“آپ ﷺ نے فرمایا:”تم غور تو کرو کہ سوار بھی کتنا اچھا ہے۔“اسی طرح حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی حضور ﷺ کو ازحد پیارے تھے۔ جیسا کہ پہلے بیان ہواآپ ﷺ نے ان پر اپنے بیٹے ابراہیم ؓ کو قربان کردیا تھا۔آپ ؓ کا نام بھی حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ذریعے ہی”شبیر“رکھا گیا جو کہ حضرت ہارون علیہ السلام کے دوسرے چھوٹے بچے کا نام تھا۔عربی میں اسے ”حسین“کہاجاتا ہے۔
ایک دفعہ حضرت حسن اور حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما دونوں صاحب زادے مسجد نبوی ﷺ میں آئے تو آپ ﷺ نے خطبہ چھو ڑ کر منبر سے اتر کر انہیں گود میں لے لیا اور فرمایا:”حسین میرا ہے اور میں اس کا ہوں۔“
حضرت اسامہ ؓ فرماتے ہیں:”ایک دفعہ میں نے دیکھا کہ حضور ﷺ دونوں بازوؤں میں کچھ اٹھائے،اوپر پوری طرح چادر ڈالے،تیزی سے اپنے گھر کی جانب جا رہے ہیں۔میں بھی پیچھے ہولیا کہ دیکھوں کیا ہے؟آپ ﷺ جب دروازے تک پہنچ گئے تو کھڑے ہوگئے۔مڑ کر سامنے سے چادر ہٹا دی۔میں نے دیکھا کہ دائیں بازو میں حضرت حسن ؓ اور بائیں بازو میں حضرت حسین ؓ کو تھامے ہوئے تھے اور بڑی محبت سے ان کو سینے سے لگا رکھا ہے۔“
ان شہزادگان سے محبت کا یہ بھی ایک انداز تھا۔اس وقت یہ بہت چھوٹے تھے اور گودوں میں کھلائے جاتے تھے۔حضر ت حسین ؓ آنحضرت ﷺ کی حالت نماز میں آپ ﷺ کے اوپر سوار ہوجاتے تو نبی کریم ﷺ سجدے کو لمباکردیتے۔تسبیحات کا شمار زیادہ کردیتے۔ جب تک حسین ؓ نیچے نہ اتر جاتے،سر نہ اٹھاتے۔
اسی طرح حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ بھی خاندان کے بچے تھے۔وہ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی بہن اسما کے بیٹے تھے۔جب انہوں نے آنحضرت ﷺ کے مبارک ہاتھ پر بیعت کی،اس وقت ان کی عمر صرف سات سال تھی۔ ان کے ساتھ ہی دو اور بچے بیعت کے لیے حاضر ہوئے۔وہ دونوں کچھ جھجک رہے تھے،لیکن ابن زبیر ؓ دلیری اور تیزی سے آگے بڑھے اور بیعت کی۔آپ ﷺ اس موقع پر مسکرائے اور فرمایا:”ابن زبیر آخر اپنے باپ ہی کا بیٹا ہے، انہی کی طرح یہ بھی بہادر اور نڈر ہے۔“اصل میں یہ سب حضور ﷺ کی برکت تھی کہ دونوں باپ بیٹے میں تمام عمرجرأت اور دلیری قائم رہی۔عام بچے حضرت عمر ؓ سے بات کرنے سے گھبراتے تھے۔جب کبھی آپ ؓ آتے،وہ جلدی سے ادھر ادھر بھاگ جایا کرتے تھے لیکن ابن زبیر ؓ اپنی جگہ پر کھڑے رہتے تھے۔چنانچہ حضرت عمر ؓ نے خود پوچھ لیا کہ ”بچے کیا بات ہے، جب سب بھاگ جاتے ہیں تم نہیں بھاگتے؟“ابن زبیر نے جواب دیا:”جناب!میں نے کوئی جرم تھوڑاہی کیا ہے جو بھاگ جاؤں۔“یہی عبداللہ ابن زبیر ؓآخری عمر میں کعبہ میں تھے کہ دشمن حجاج بن یوسف نے حملہ کرکے ان کو شہید کردیا۔یہ حضور ﷺ کے وصال کے بعد کی بات ہے۔
جب مسلمان مکہ میں کفار کے مظالم سے تنگ آکر مدینہ ہجرت کرگئے تو سب سے پہلے پیدا ہونے والے بچے یہی تھے۔کفار نے مشہور کردیا تھا کہ ہم نے مسلمانوں پر جادو کردیا ہے، اب ان کے ہاں کوئی بچہ پیدا نہ ہوگا۔یوں بھی ہجرت کے ایک سال تک مدینے میں کوئی بچہ پیدا نہ ہوا تھا۔آخر اللہ تعالیٰ نے کرم کیا اور کافر جھوٹے ثابت ہوگئے۔ان کی پیدا ئش پر اہل مدینہ نے بڑی خوشی منائی۔آپ کے والد حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خوبیاں ابن زبیر ؓ میں بھی پائی جاتی تھیں۔انہوں نے کعبہ میں محصور ہوکر حجاج بن یوسف کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور آخر شہید ہوگئے۔ابن زبیر ؓ نے کعبہ کی تعمیر نو بھی کی تھی۔
ایک قریشی النسل خاتون ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے خاوند اسلام کی حمایت میں لڑتے ہوئے شہید ہو گئے تھے۔یہ بہت عبادت گزار اور صابر خاتون تھیں۔انہوں نے پہلے ملک حبشہ کو ہجرت کی اور بعدمیں مدینہ کو ہجرت کرنے والی بھی وہ پہلی عورت تھیں۔انہوں نے بہت سی تکالیف اٹھائیں،آخر اللہ تعالیٰ نے کرم کیا اور وہ حضور ﷺ کی بیوی ام المومنین بن گئیں۔کہنا یہ ہے کہ آپ ؓ کے ساتھ پچھلے خاوند سے ایک بچی برہ بھی تھی۔اس بچی کا نام حضور ﷺ نے زینب رکھ دیا۔ زینب حضورﷺ کے زیر سایہ محبت اور شفقت کے ماحول میں پرورش پانے لگیں۔آپ ﷺ جب غسل فرماتے تو زینب قریب آجاتیں،آپ ﷺ اس پر پانی کے چھینٹے مارتے اور وہ اس سے بہت خوش ہوتیں۔ یہ بھی لڑکیوں سے پیار کا ایک انداز تھا۔
عزیز بچو! نبی پاک ﷺ کے ہر فعل میں حکمت اور برکت ہوتی تھی۔برکت کا یہ عالم تھا کہ یہی زینب ؓ جب جوانی سے گزر کر بڑھاپے میں داخل ہوئیں تو چہرے پر جوانی کی طرح رونق رہتی تھی۔کسی دیکھنے والے کو معلوم نہیں ہوتا تھا کہ آپ بہت بوڑھی ہیں۔
یہ بھی آپ کو معلوم ہوگاکہ کربلا کے میدان میں حضرت امام حسین ؓ کے ساتھ ان کی ایک بہن تھیں،جن کا نام بھی زینب تھا۔حق کی حمایت میں حضرت امام ؓ کے شہید ہوجانے کے بعد حضرت زینب ؓ نے بہت تکلیفیں اور صدمے برداشت کئے۔ وہ بہت بہادر اور صابر عورت تھیں۔انہوں نے یزید لعین کے دربار میں اس کو للکارا اور حق بات کا برملا اظہار کیا تھا۔ان میں یہ جرات اس طرح پیدا ہوئی کہ بچپن میں آنحضرت ﷺ نے ننھی زینب کے تالو میں اپنے منہ سے چبائی ہوئی کھجور لگائی تھی۔تمام عمر اس کی برکت قائم رہی۔جب سرور عالمﷺ کا دنیا سے رخصت ہونے کا وقت آیاتو بھی حضرت زینب ؓ ان کے پاس تھیں۔عمر صرف چھ سال تھی تاہم حضور ﷺ کی جدائی کو انہوں نے بہت محسوس کیا اور اپنا سر آپ ﷺ کی چھاتی مبارک پر رکھ دیا۔آپ ﷺ نے اس وقت بھی ننھی زینب کو بہت پیار کیا۔اگلے جہان کو جاتے وقت بھی آپ ﷺ بچوں کو نہیں بھولے۔گھر میں حضرت حسن ؓ بچے تھے تو حضور ﷺ ان کو بہلانے کے لئے اپنی زبان مبارک باہر نکالتے تھے اور جب وہ آپ ﷺ کی زبان پکڑنے کی کوشش کرتے تو حضور ﷺ فوراً زبان مبارک اندر کرلیتے تھے۔چھوٹے بچے کوکھلانے اور بہلانے کا یہ بھی ایک طریقہ ہوتا تھا۔

نبی پاکﷺ کو اپنے چچا حضرت عباس ؓ کے بچوں سے بڑی محبت تھی۔وہ کم سن بچے عبداللہ، عبید اللہ اور کثیر تھے۔کبھی آپ ﷺ ان تینوں کو بلا کر فرماتے:”جو تم میں دوڑ کر سب سے پہلے مجھے چھوئے گا،میں اس کو فلاں انعام دوں گا۔“ چنانچہ تینوں بھائی دوڑتے،کوئی پشت مبارک پر چڑھ جاتا، کوئی سینے سے لپٹ جاتا۔آپ ﷺ سب کو چمٹا کر پیار کرتے۔
حضرت عبداللہ بن عباس گیارہ سال کی عمر میں اپنی خالہ ام المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں جایا کرتے تھے۔ وہ انہیں بہت پیار کیا کرتی تھیں۔ حضر ت رسول اکرم ﷺ بھی ان پر بہت شفیق تھے۔ عبداللہ ؓ اکثرکاشانہ نبوت میں رات گزارا کرتے تھے۔ اس طرح حضور ﷺ کی صحبت سے فیض حاصل کرتے اور یوں انہیں آپ ﷺ کے پیچھے نماز پڑھنے کے مواقع ملتے رہتے۔
ایک دفعہ عبداللہ ؓ حضورﷺ کے پیچھے نماز کے لئے کھڑے ہوگئے۔آپ ﷺ نے ان کا ہاتھ پکڑ ااور اپنے برابر کھڑا کرلیا۔ وہ دوبارہ پیچھے ہی کھڑے ہوگئے۔نماز سے فارغ ہوکر آپ ﷺ نے ان سے پوچھا:”یہ کیا بات ہے؟“انہوں نے عرض کیا:”آپ ﷺ کے برابر کیسے کھڑا ہو سکتا ہوں، آپ ﷺ تو اللہ کے رسول ﷺ ہیں۔“ ان کا یہ جواب سن کر حضور ﷺ محظوظ ہوئے اور ان کے علم و فہم میں اضافے کی دعا فرمائی۔
یہی عبداللہ بن عباس ؓ ایک دفعہ دوسرے بچوں کے ساتھ گلیوں میں کھیل رہے تھے۔عقب سے رسول ﷺ کو آتے دیکھا تو جلدی سے ایک نزدیکی گھر کے دروازے کے پیچھے چھپ گئے،لیکن حضور ﷺ نے ان کو چھپتے دیکھ لیا اور قریب جا کر پکڑ لیا۔پھر پیار سے ان کے سر پر ہاتھ پھیر کر اور دونوں شانوں کے درمیان دست مبارک مار کر فرمایا:”جا اور معاویہ کو بلا لا۔“وہ دوڑ کر گئے اور معاویہ ؓ کو بلا لائے۔
جیسے کہ قبل ازیں حضرت زید بن حارثہ ؓ کے فرزند حضرت اسامہ ؓ کا ذکر ہو چکا ہے۔ان سے آنحضرت ﷺ کو بہت محبت تھی۔اسامہ ؓ”حب ِ رسول اللہ“ کے لقب سے مشہور ہوگئے تھے۔ان کے بچپن میں آپ ﷺ اپنے کم سن نواسے حضرت حسن ؓ کو اپنے ایک زانو مبارک پراور ننھے اسامہ ؓ کو دوسرے زانو پر بٹھا کر دعا فرماتے تھے:”الٰہی!میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں، تو بھی ان سے محبت رکھ۔“
ایک دفعہ ننھے اسامہ ؓ کو دروازے کی چوکھٹ کے ساتھ ٹھوکر لگ گئی اور وہ گر پڑے۔ان کے ماتھے پر چوٹ آگئی جس سے خون بہنے لگا۔حضورﷺ نے ام المومنین حضرت عائشہ ؓ سے فرمایا کہ:”اس کے چہر ے سے خون صاف کردو۔“ وہ کچھ مصروف تھیں۔دیر لگ گئی تو آپ ﷺ نے خود ہی اٹھ کر اسامہ کے چہرے سے خون صاف کیا۔

نبی کریم ﷺ کی دوسرے گھرانوں کے بچوں پر شفقت
ہمارے پیارے نبی ﷺ تمام لوگوں کے بچوں کو غایت درجے دلی محبت اور شفقت سے نوازتے تھے۔جب کبھی سفر سے واپسی ہوتی تو راستے میں جو بھی بچے ملتے،انہیں اپنی سواری پر چڑھا لیتے۔ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی ایک چھوٹی بیٹی کو ساتھ لے کر بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے۔جیسے کہ عام بچوں کی عادت ہوتی ہے کہ کسی غیر معمولی چیز کو دیکھ کر کھیلنے لگتے ہیں۔ اس بچی کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشت مبارک پر مہر نبوت نظر آئی۔وہ اس سے کھیلنے لگیں۔خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کو سختی سے ڈانٹا کہ خبردار! حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تکلیف نہ دو۔لیکن آپ صلی علیہ وسلم نے فرمایا: ”خالد چھوڑ دو،اسے کھیلنے دو۔“
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ عادت شریف تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی صحابیہ رضی اللہ عنہا اپنے نومولود بچے کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس لاتیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بڑے لطف و محبت سے بچے کو اپنی گود میں لے لیتے اور اس کو پیار کرتے۔دہن مبارک میں کھجور چبا کر بچے کے منہ میں ڈال دیتے۔پھر بچے کو ماں کی گود میں لے کر اس کے لئے دعائے خیر کرتے۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکت سے وہ بچہ بڑا ہو کر خوش خصال اور خوش نصیب ہوتا۔جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھاتے اور اس دوران ملحقہ مکانوں کے پردوں کے پیچھے سے خواتین میں سے کسی کے بچے کے رونے کی آواز آتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم چھوٹی چھوٹی سورتیں پڑھ کر نماز کو جلد ختم کردیتے،اس لیے کہ بچے کی ماں کو تکلیف نہ ہوں اور وہ بے چین نہ ہو۔
ایک دفعہ ایک صحابیہ حضرت ام قیس بنت محسن رضی اللہ تعالیٰ عنہا اپنے شیرخوار بچے کے ساتھ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ازراہ شفقت بچے کو ماں سے لے کر اپنی گود میں لے لیا۔بچے نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑوں پر پیشاب کر دیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی قسم کی ناگواری کا اظہار نہیں کیا اور کپڑوں پر پانی بہا کر پاک کرلئے۔
دین اسلام بچوں کے ساتھ نرمی اور شفقت کے برتاؤ پر بہت زور دیتا ہے۔فرمایا گیا ہے کہ ہر پیدا ہونے والا بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے کیونکہ یہ دین فطرت ہے۔حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ کفار کے بھی معصوم بچے فوت ہو جائیں تو ان کو عذاب نہیں ہوتا۔بچے کو ہوش سنبھالنے کے بعد ماحول مسلمان یا کافر بنا دیتا ہے۔بعض بچے قسمت کی یا وری سے غیر مسلم گھرانوں میں بھی دین اسلام کی جانب راغب ہوجاتے ہیں۔ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔کافر خاندان عدالتوں میں مقدمات کردیتے ہیں کہ ہمارا بچہ ورغلایا گیا ہے۔ لیکن بالغ شخص کا حق تسلیم کرتے ہوئے مقدمے خارج کردیے جاتے ہیں۔اس طرح کافر والدین کے بچے اسلام کی آغوش میں آجاتے ہیں۔
فرمایا گیا ہے کہ جنت میں حوروں کے ساتھ چھوٹے بچے بھی ہوں گے جن کو”غلمان“کہتے ہیں۔یہ بچے بہت خوبصورت مخلوق ہوگی،ان سے جنت کی رونق بڑھے گی اور یہ اپنی میٹھی میٹھی باتوں سے نیک بندوں کے دل بہلایا کریں گے،تاہم وہاں بے حیائی اور فضول باتیں نہیں ہوں گی۔سبحان اللہ،الحمدللہ اور ماشاء اللہ کی آوازیں چاروں طرف سنائی دیں گی۔
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ حدیث شریف میں وارد ہوا ہے”چھوٹے بچے چاہے مسلمان کے ہوں یا کفار کے،ان کو دوزخ میں نہیں ڈالا جائے گا۔،،یہ سب کچھ حضورﷺ کی بچوں پر انتہائی شفقت اور پیار کے باعث ہے۔
نیز ابن ابی شیبہ اور ابو یعلی نے یہ سند صحیح حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ،”میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ انسانوں کے بچے کھیل کود میں گناہ کر بیٹھتے ہیں،آخرت میں ان کو عذاب نہ دیا جائے تو اللہ تعالیٰ نے میری یہ دعا قبول کرلی۔“اس کی وضاحت کرتے ہوئے ابن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ گناہ کے اعمال سے مراد وہ کام ہیں جو بغیر ارادے اور قصد کے سرزد ہو جائیں۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ،فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (مسلمان ماں باپ کا) ناتمام بچہ جو پانچ یا چھ ماہ کا ہو کر ساقط ہوجائے،قیامت کو جب یہ دیکھے گا کہ اس کے والدین کو(ان کے گناہوں کے بدلے میں)جہنم کی جانب لے جایا جا رہا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ سے جھگڑا کرے گا حتیٰ کہ رب تعالیٰ فرمائے گا:”اے جھگڑالو بچے! جا اور اپنے ماں باپ کو جنت میں داخل کر لے۔“(اللہ تعالیٰ کی اجازت سے) وہ بچہ اپنی ناف کے ساتھ ان کو باندھ کر دھکیلتا ہوا جنت میں لے جائے گا۔امت نبی مرسل صلی اللہ علیہ وسلم کے بچوں پر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور شفقت اتنی زیادہ ہے۔
معروف صحابی ابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے چھوٹے فرزند ابو عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے گھر میں ایک ممولے کو پالتے تھے اور وہ اس پرندے سے بے حد محبت کرتے تھے۔ ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے گھر تشریف لائے۔دیکھا کہ ابوعمیر بہت اداس بیٹھے ہیں۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ جس پرندے سے کھیلا کرتے تھے، وہ آج مر گیا ہے۔حضورﷺ نے ابو عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرا اور فرمایا:”اے عمیر! تیری چڑیا کو کیا ہو گیا؟“یہ سن کر ابو عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بے اختیار ہنس پڑے اور ان کی اداسی دور ہو گی۔اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روتے بچے کو ہنسا دیا۔البتہ ابو عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ چھوٹی عمر میں ہی فوت ہو گئے، لیکن ان کو صحابی کا جو درجہ ملا،وہ قابل رشک ہے۔ہر وہ شخص عورت یا مرد یا بچہ جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آیا اور جس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت بھی کی،وہ صحابی ہے۔بعد میں آنے والا بڑے سے بڑا ولی اللہ صحابی کے درجے اور مقام کو نہیں پہنچ سکتا۔
آپ رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم خصوصاً لڑکیوں کے لیے نرم گوشہ رکھتے تھے۔اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”جس کسی کو اللہ تعالیٰ نے لڑکیاں عطا کیں اوراس نے بخوشی ان کی بہت اچھی طرح پرورش کی تو وہ لڑکیاں اس کے اور دوزخ کے درمیان آڑ بن جائیں گی۔“آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک موقع پر یہ فرمان بھی نوٹ کیا گیا کہ”جس نے دو لڑکیوں کو پالا،وہ شخص اور میں جنت میں دو باہم ملی ہوئی انگلیوں کی طرح ایک دوسرے کے قریب ہوں گے۔“بلکہ یہ بھی ارشاد فرمایا:”تیری لڑکی جو تیرے پاس ہے اور سوائے تیرے اس کا کوئی وارث یا مددگار نہیں ہے،تو اس کی دل و جان سے مدد اور دست گیری کر تو اللہ تعالیٰ سے بے حد و حساب اجر پائے گا۔“
عرب میں لڑکی کے وجود کو برا خیال کرتے تھے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے پہلے یعنی زما نہ جہالت میں لڑکیوں کو زمین میں زندہ گاڑ دیتے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”جس کو خداوندعالم نے لڑکی عطا کی اور اس نے اسے زندہ دفن نہ کیا،نہ ہی اس کو کسی طرح سے ذلیل اور گھٹیا خیال کیا،نہ لڑکوں کو اس کے مقابلے میں زیادہ اہمیت دی،وہ شخص بہشت میں داخل ہو گا۔“یہ بھی ہدایت فرمائی کہ”جب کوئی بال بچوں والا شخص کوئی چیز بازار سے خرید کر لائے تو اس کو واجب ہے کہ پہلے لڑکی کو دے۔“اس طرح اللہ تعالیٰ کو خوش کرنے سے اس شخص پر دوزخ حرام ہو جاتی ہے۔اسلام نے لڑکی کو ماں باپ کے مال میں وارث قرار دیا ہے۔اقوام عالم صرف زبانی دعوے کرتی ہیں کہ وہ عورتوں کے حقوق کے علمبردار ہیں،لیکن ان کا عمل اس دعوے کے خلاف ہے۔انہوں نے عورت کو گھر کی ملکہ یا شمع حرم بنانے کے بجائے چراغ محفل بنا کر ذلیل کر رکھا ہے۔صرف اسلام میں عورتوں اور بچوں کو ان کے جائز حقوق دیتا ہے۔ضرورت ہے کہ عورتیں اپنے ان حقوق کا مطالعہ کریں،مردوں سے ان کا مطالبہ کریں اور اپنی عزت و آبرو بحال کروائیں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود یتیم تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یتیموں کے حقوق کے متعلق بہت سی ہدایت دی ہیں۔ فرمایا: ”یتیم کے مال کے قریب بھی نہ جاؤ،یتیم کا مال کھانا پیٹ کو دوزخ کی آگ سے بھرنا ہے۔“ایک مرتبہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے شہادت کی انگلی اور درمیانی انگلی کو باہم ملا کر فرمایا کہ”میں اور یتیم کی خلوص سے پرورش کرنے والا جنت میں ان دونوں انگلیوں کی طرح قریب قریب ہوں گے۔“

زید بن حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ بچپن ہی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں آ گئے تھے،جیسا کہ پیچھے بیان ہوچکا ہے کہ وہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ کھیلا کرتے تھے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آزاد فرمایا تھا،لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن سلوک اور شفقت کے باعث وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آغوش رحمت چھوڑنے کو تیار نہ ہوئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی خدمت عالی میں رہنا پسند کیا۔حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیٹا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت پیارا تھا،ان کا نام اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھا۔ننھے اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ناک آپ ﷺخود اپنے دست مبارک سے صاف کیا کرتے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا سے پردہ فرمانے سے قابل دشمنان اسلام کے خلاف جو مہم بھیجی تھی،اس کی کمان انہیں کم عمر اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو عنایت کی تھی جو کہ ایک غلام زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لڑکے تھے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ خلیفۃالرسول ہوئے تو انہوں نے اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زیر کمان مہم کو برقرار رکھا حالانکہ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی رائے تھی کہ مدینہ کی حفاظت کے لئے یہ فوج یہیں رہے،لیکن خلیفہ اول نے اس رائے کو قبول نہ کیا۔اللہ تعالی نے اس مہم کو کامیاب کیا۔کیوں نہ ہوتی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مقرر کیا تھا اور جھنڈا ان کے ہاتھ میں دیا تھا۔غلام زادے کی یہ عزت افزائی اسلام کی ایک منفرد خوبی ہے۔
بانیئ اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت ِعام اور خصوصاً بچوں سے محبت کا شہرہ سن کر حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سولہ سال کی عمر میں اسلام قبول کر لیا،حالانکہ وہ رئیس زادے تھے اور ان کو زندگی کی ہر آسائش میسر تھی۔دولت کی کمی نہ تھی۔اسلام لانے کے بعد ان کے والدین نے سب کچھ چھین لیا اور ظلم کی انتہا کردی۔ان کو کھجور کی چٹائی میں لپیٹ کر نیچے سے دھواں دیا جاتا تھا۔آپ کی سانس رک رک جاتی تھی اور کہا جاتا تھا کہ اسلام چھوڑ دو،مگر انکو اسلام دنیا کی ہر نعمت سے پیارا تھا۔آخر ماں باپ ہار گئے۔حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا شمار اصحاب کبار میں ہوتا ہے۔ان کا یہ درجہ ہے کہ عشرہ مبشرہ میں سے ہوئے یعنی وہ دس اصحاب جن کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا میں ہی جنت کی بشارت دے دی تھی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ صرف چھ سال کے بچے کو نماز کے لئے امام بنا دیا۔بات اس طرح ہے کہ عمر بن سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک مقام پر رہتے تھے۔کم عمر ہونے کے باوجود ان کو شوق تھا اور وہ مدینہ شریف سے آنے والے مسافروں سے وہاں کے حالات معلوم کیا کرتے تھے اور انہی کا قول ہے کہ:
”لوگ مجھے بتاتے کہ اب فلاں فلاں آیت نازل ہوئی ہے،میں ان آیات کو زبانی یاد کر لیا کرتا،اس طرح مجھے بہت سی آیتیں یاد ہو گئیں۔ہمارے علاقے کے لوگ مکہ والوں کی طرف دیکھ رہے تھے کہ وہ کیا کرتے ہیں۔جب مکہ فتح ہوگیا تو میرے والد بھی اپنی قوم کی طرف سے خدمت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوئے اور اسلام لے آئے تو انہوں نے شریعت کے احکام بھی معلوم کر لیے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”نماز کی امامت کے لئے اس شخص کو آگے آنا چاہیے جو سب سے زیادہ قرآن جانتا ہو۔“اتفاق کی بات ہے کہ میرے سوا کسی کو اتنی آیات یاد نہ تھیں تو مجھے ہی امام بنا دیا گیا۔پھر جب بعد میں کوئی مجمع ہوتا یا جنازے کی نماز پڑھانے کی ضرورت پڑتی تو مجھے ہی امامت کے لیے آگے کھڑا کر دیا جاتا۔“
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے جنگ میں شامل ہونے کا شوق بچوں میں بھی بہت تھا۔بچے اجازت ملنے کی خاطر ہر طرح کا حیلہ اور امتحان اختیار کرنے پر تیار ہوجاتے تھے،جیسے کہ پہلے بھی حضرت عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر ہوچکا ہے۔وہ معروف صحابی حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چھوٹے بھائی تھے۔ان کی عمر سولہ سال تھی۔جب جہاد کا اعلان ہوگیا تو وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے چھپتے چھپاتے رہتے تھے کہ کہیں ان کو کم عمر ہونے کی وجہ سے واپس نہ کر دیا جائے۔جب جنگ کی تیاری ہوئی اور تمام لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش ہوئے تو وہی ہوا جس کا ان کو ڈر تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کم عمر ہونے کے باعث ان کو واپسی کا حکم فرمایا۔اس پر آپ رونے لگے۔رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ایک بچے کا یہ جذبہ شہادت دیکھا تو جنگ میں شامل ہونے کی اجازت دے دی۔مزید عنایت فرمائی کہ ان پر خود اپنی تلوار کا پر تلالگا دیا اور عمیر رضی اللہ تعالی عنہ بڑی خوشی کے ساتھ جنگ میں بڑوں کے دوش بدوش شامل ہو کر لڑے۔
تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے پہلے عرب میں غلام رکھنے کا بڑا رواج تھا،جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد بھی کچھ عرصہ قائم رہا،لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے اصول وضح فرمائے کہ آہستہ آہستہ غلامی بالکل ختم ہو کے رہ گئی۔اس دور میں غلام بھیڑ بکریوں کی طرح فروخت ہوتے تھے۔گزشتہ صفحات میں زید بن حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر آچکا ہے۔ان کو سفر کے دوران ڈاکو اغوا کرکے لے گئے اور مکہ کے قریب عکاظ نامی مارکیٹ میں ان کو فروخت کر دیا گیا تھا۔قسمت نے یاوری کی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ایک عزیز تاجر حکیم بن حزام نے ان کو خرید لیا اور واپس آکر اپنی پھوپھی خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو تحفے میں دے دیا تاکہ وہ بچہ ان کی خدمت کرے۔زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ اللہ کے فضل سے بہت ہی سمجھ دار اور فرماں بردار بچے تھے۔حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں انہوں نے چند ہی دنوں میں باعزت مقام حاصل کر لیا۔یہاں انکی نوکروں کی طرح نہیں بلکہ اپنے بچوں کی طرح پرورش ہونے لگی،لہٰذا وہ خاندان میں گھل مل گئے۔
اب ادھر زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے والد کا حال سنیے۔ان کے ماں باپ بچے کے اغوا ہونے کے باعث اس کی جدائی میں بہت پریشان تھے۔اس کا سراغ لگانے کی سرتوڑ کوشش کر رہے تھے۔جب کوئی کامیابی نہ ہوئی تو اللہ پر بھروسہ کر کے بیٹھ رہے۔قسمت کی یاوری دیکھئے کہ یمن سے حاجیوں کا ایک قافلہ مکہ آیا۔وہاں خانہ کعبہ کا طواف کرتے ہوئے انہوں نے زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو پہچان لیا،اگرچہ اب وہ خاصے بڑے ہوچکے تھے۔ان لوگوں نے زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلا کر حالات دریافت کئے اور بتایا کہ”تمہارے والدین کا تمہاری جدائی میں برا حال ہے،تم ہمارے ساتھ واپس چلے جاؤ اور ان سے جا ملو۔“مگر زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انکار کردیا اور کہا کہ میں یہاں بہت آرام سے ہوں اور اللہ کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کے فرد کی طرح رہ رہا ہوں۔جب وہ لوگ واپس یمن چلے گئے تو انہوں نے زید کے والد حارثہ رضی اللہ عنہ کو زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق حالات سے آگاہ کیا۔حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ چند ساتھیوں کو لے کر مکہ کو روانہ ہوا۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچ کر اس نے درخواست کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غلام کی قیمت لے لیں اور اسے آزاد فرما دیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”میں قیمت نہیں لیا کرتا،البتہ زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مرضی ہے تو اسے واپس جانے کی کھلی اجازت ہے۔“حارثہ نے سوچا کہ میرا کام بن گیا،قیمت بھی نہیں دینی پڑے گی،امید ہے میرا لخت جگر میرے ساتھ چلنے پر راضی ہوجائے گا۔“زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دربار نبوت میں بلایا گیا اور پوچھا:”کیا ان کو پہچانتے ہو؟“انہوں نے کہا:”جی ہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم! یہ میرے باپ ہیں اور دوسرے میرے چچا ہیں۔“حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اجازت دے دی اور فرمایا:”اگر ان کے ہمراہ جانا چاہتے ہو تو جا سکتے ہو،میں بغیر قیمت تم کو مکمل آزادی دیتا ہوں۔“اب زیدرضی اللہ تعالیٰ عنہ سوچ میں پڑ گئے۔کچھ توقف کے بعد بولے: ”حضور (صلی اللہ علیہ وسلم)! مجھے اپنے سے جدا نہ کیجئے،آپ ﷺ کو چھوڑ کر جانا مجھے منظور نہیں۔“حارثہ اپنے بیٹے سے یہ خلاف توقع بات سن کر بڑا حیران ہوا کہ میرا بیٹا کیوں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں رہنا چاہتا ہے؟دراصل حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے واقف نہ تھا۔اس موقع پر ایک اہم بات یہ ہوئی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبۃ اللہ میں تشریف لے جا کر کھلا اعلان کردیا کہ”لوگو! گواہ ر ہو کہ آج سے زید بن حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ میرا بیٹا ہے،میں اس کا وارث ہوں اور یہ میرا وارث ہے۔“
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک غلام کو اتنی عزت دی کہ لوگ حیران رہ گئے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لیے دین اور دنیا کی سب سے بڑی نعمت بن گئی۔یہ واقعہ دراصل غلامی کو ختم کرنے کی جانب ایک بہت بڑا قدم تھا۔یہ ایسی بات نہ تھی کہ زید کے والد حارثہ پر اس کا اثر نہ ہوتا۔اس نے جو دیکھا کہ اس وقت مکہ کی سب سے بڑی اور اہم شخصیت نے میرے بیٹے کو اپنا بیٹا قرار دیا ہے تو اس کا دل خوشی و مسرت سے لبریز ہو گیا۔اس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے معافی مانگی۔وہ سمجھ گیا کہ جو عزت اور آرام زید کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مل سکتا ہے،وہ مجھ سے نہیں مل سکتا۔لہٰذا وہ مطمئن اور شاداں و فرحاں یمن واپس چلا گیا۔
زیداب آپ ﷺ کے گھر کے ایک فرد کی طرح رہنے لگے اور لوگ ان کو زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہنے لگے۔ بڑے ہونے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جنگ موتہ میں اسلامی لشکر کا کمانڈر بنا کر بھیجا۔بہت سے بڑے صحابی ان کے ماتحت تھے۔اس جنگ میں وہ شہید ہو گئے۔حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی جدائی کا بہت صدمہ ہوا۔آپ صلی علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے۔اس وقت حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک چھوٹی بیٹی تھی۔جب وہ ان کی جدائی میں رونے لگی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی رونے لگے،حتیٰ کہ روتے روتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز بھی رک گئی۔ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھ لیا:”حضور صلی اللہ علیہ وسلم! یہ رونا کیسا ہے؟“فرمایا:”یہ محبت کا جذبہ ہے جو ہر پیار کرنے والے کے دل میں اس کے محبوب کے لیے جاگزیں ہوتا ہے۔“انہی زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فرزند اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کچھ ذکر پہلے آچکا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جہاں سے رخصتی کے وقت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک لشکر کا سپہ سالار مقرر فرمایا اور اس غلام زادے کے ماتحت بہت سے اجل صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم جنگ میں شامل ہوئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے باعث بعض لوگ اس مہم کو روکنا چاہتے تھے، لیکن خلیفۃ الرسول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مہم روانہ کی اور فتح حاصل ہوئی۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بچپن میں دس سال حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی۔ان کی والدہ اُم سلیم ہجرت کے بعد ایک دن اپنے بیٹے انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو لے کر خدمت عالی میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ میں اپنے اس بیٹے انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کرنا چاہتی ہوں۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جذبے کی قدر کی اور برکت کیلئے دعا فرمائی۔انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ آٹھ سال کی عمر میں والد کے سائے سے محروم ہو گئے تھے۔پھر ان کی والدہ نے حضرت ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نکاح کر لیا۔یہ وہی صحابی ہیں جنہوں نے جنگ احد میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو تیروں سے بچانے کے لیے اپنے ہاتھوں کو بے حد زخمی کر لیا تھا۔ہاتھوں میں بہت گہرے سوراخ بن گئے تھے۔ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جنگ کے دوران دشمن پر اتنے تیر برسائے کہ ان کی دو تین کمانیں ٹوٹ کر ان کے ہاتھوں میں رہ گئیں۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ڈھال کی طرح حفاظت کرنے سے آپ کا سینہ بھی چھلنی ہو گیا تھا۔وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق تھے۔ان کی زوجہ ام سلیم بھی بہت بہادر عورت تھیں۔احد کی جنگ میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ پائینچے چڑھائے مشکیں بھر بھر کر لاتی تھیں اور مسلمان مجاہدوں کو پانی پلاتی تھیں۔اس بیان سے یہ مراد ہے کہ آپ کو معلوم ہوجائے کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے والد اور والدہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کتنے جاں نثار اور خدمت گزار تھے،حالانکہ ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کے حقیقی باپ نہ تھے،تاہم انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی انھوں نے بے حد پیار سے پرورش کی۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں جب ہجرت کے موقع پر مدینہ شریف کی لڑکیوں نے دف بجا بجا کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا استقبال کیا تو میں بھی ان میں شامل تھا۔وہ دلکش نظارہ مجھے زندگی بھر نہیں بھول سکتا۔جب حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی والدہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ان کوپیش کر دیا تو وہ بہت مطمئن اور خوش تھے۔جلد ہی انہوں نے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں اپنا مقام پیدا کر لیا۔خدمت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ذمے یہ پروگرام (نظام الاوقات) تھا:
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ صبح نماز فجر سے کچھ پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کاشانہ نبوت پر حاضر ہوجاتے اور دوپہر تک خدمت بجا لاتے۔کچھ دیر کے لئے اپنے گھر آ جاتے،بعدازاں عصر سے پہلے واپس چلے جاتے۔عصر کے بعد بھی گھر پھیرا ڈال لیتے۔پھر واپس حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر رات کو دیر تک خدمت میں حاضر رہتے۔والی یہ دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق خود حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:
”مجھے دس سال تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کا موقع ملا۔اس لمبے عرصے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے نہ تو ڈانٹ ڈپٹ کی نہ ہی ناراضگی ظاہر کی۔کبھی ایسا نہیں فرمایا کہ فلاں کام تم نے کیوں کیا یا فلاں کام تم نے کیوں نہ کیا۔اگر بھولے سے کوئی نقصان ہوگیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کبھی برا بھلا نہیں کہا۔گھر کے دوسرے افراد میں سے کسی نے اگر کچھ کہا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”بس بات کو یہیں رہنے دو،کسی سے کچھ نہ کہو،اگر یہ نقصان قسمت میں نہ ہوتا تو کچھ بھی نہ ہوتا۔“
سبحان اللہ! خاندانی تلخیوں کو ختم کرنے کی یہ کتنی اچھی مثال ہے۔درگزر کرنا کتنی اچھی عادت ہے۔ذرا غور کریں،اس سلوک میں کتنی حقیقتیں پوشیدہ ہیں اور کتنے سبق ہیں۔اگر ان پر عمل کیا جائے تو ہر ایک گھر جنت کا نمونہ بن سکتا ہے۔خواہ مخواہ طیش میں آنا اور معمولی نقصان پر اہل خانہ کی ڈانٹ ڈپٹ اچھی بات نہیں۔حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ مزید فرماتے ہیں کہ ایک بار میں محلے کے دوسرے لڑکوں کے ساتھ کھیل رہا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ادھر سے گزر ہوا۔میں نے بھاگنے کے بجائے وہیں کھڑا رہنا پسند کیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کچھ نہ کہا۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کام میرے سپرد کیا،میں وہاں چلا گیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے وہاں واپس آنے تک وہیں دیوار کے سائے میں ٹھہرے رہے۔جب میں کام کرکے واپس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو انتظار کرتے ہوئے پایا۔کام کی رپورٹ دینے کے بعد میں ان کی اجازت سے اپنے گھر آگیا۔والدہ نے پوچھا کہ آج دیر سے کیوں آئے؟میں نے سارا قصہ سنا دیا۔والدہ نے پوچھا کہ وہ کون سا کام تھا،جس کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تم کو حکم دیا۔میں نے کہا کہ آپ یہ نہ پوچھئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات دوسروں کو بتانے سے منع کردیا تھا۔یہ امانت ہوئی جسے دوسروں کے سامنے ظاہر نہیں کیا جاسکتا۔یہ سن کر آپ کی والدہ بہت خوش ہوئیں کہ میرا بیٹا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں امانت دار بن گیا ہے۔ہدایت ملنے پر راز کو چھپانا جانتا ہے۔امت کے افراد کے لیے یہ بھی ایک بہت بڑا سبق ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی ایسی اچھی تربیت کی تھی کہ ان کے دل میں کسی کے خلاف حسد،دشمنی، بغض،نفرت اور میل باقی نہیں رہ گیا تھا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بے تکلفی اس سے بھی ظاہر ہوتی ہے کہ آپ ان کو”دوکان والے“ کہہ کر پکارتے تھے اور انس رضی اللہ عنہ اس سے بہت خوش ہوتے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر محبت سے ان کے سر پر اپنا دست مبارک پھیرتے تھے۔حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی والدہ ام سلیم نے فیصلہ کیا کہ جن بالوں کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوا ہے ان کو کبھی نہ کاٹنے دیا جائے،اس کی برکت ہمیشہ رہے گی۔
جنگ بدرچار ہجری میں ہوئی۔ اس وقت جناب انس رضی اللہ عنہ صرف بارہ سال کے تھے اور ان کو جنگ میں جانے کی اجازت نہ دی گئی۔ کیونکہ سپہ سالار امت صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کیا تھا کہ پندرہ سال کا بچہ جنگ میں جاسکتا ہے،اس سے کم عمر نہیں لیکن حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ پھر بھی میدان جنگ میں پہنچ گئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وہاں بھی خدمت بجا لاتے رہے۔بالکل یہی حال جنگ احد میں بھی ہوا۔ آپ رضی اللہ عنہ ان جنگوں کا آنکھوں دیکھا حال بیان فرمایا کرتے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد بھی آپ نے بہت سی جنگوں میں بہادری کے جوہر دکھائے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بہت بڑے عالم بھی تھے۔ کیوں نہ ہوتے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کے فیض یافتہ تھے۔ آپ رضی اللہ عنہٗ سے بہت سی احادیث مروی ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہٗ نے خاصی لمبی عمر پائی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا یہ عالم تھا کہ جب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا جاتا،حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے اور ان کی گھگی بند ھ جاتی،بلکہ بے چین ہوکر مجلس سے اٹھ جاتے۔ اپنے گھر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے استعمال کی اشیاء تبرکات کے طور پر جمع کر رکھی تھیں،جنہیں دیکھ کر دل کو تسلی دیتے اور تسکین حاصل کرتے تھے۔
جب حضرت انس رضی اللہ عنہ بیمار ہوئے تو ان کی عمر ایک سو تیس سال تھی۔ آ پ نے پاس رہنے والوں کو یہ ہدایت کی کہ میرے پاس جو بال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا موجود ہے،مرنے کے بعد اسے میرے منہ میں رکھ دینا تاکہ یہ نشانی میرے ساتھ جائے اور میری بخشش کا باعث بن جائے، لہٰذا آپ کی وصیت کے مطابق ایسا ہی کیا گیا۔
ایک اور منفرد خصوصیت حضرت انس رضی اللہ عنہ کی یہ ہے کہ آپ صحابہ میں سب سے آخری صحابی تھے۔ جن لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں وقت گزارا تھا، وہ ایک ایک کر کے دنیا سے رخصت ہو چکے تھے۔ پھر آپ رضی اللہ عنہ ہی سے لوگ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات معلوم کرنے کے لئے رجوع کرتے تھے۔ آپ کی وفات سے یہ سلسلہ بھی بند ہو گیا۔ اب احادیث درمیانی واسطوں سے بیان ہونی شروع ہو گئیں۔ اللہ تعالیٰ ان نورانی نفوس پر رحمتوں کی بارش برسائے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سائے کی طرح لگے رہتے تھے اور جن کی وساطت سے ہم تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات بلا کم و کاست پہنچتے رہے۔
جنگ احد میں شہید ہونے والوں کے جسم مدینہ شریف لے جانے کی بجائے میدان جنگ ہی میں دفن کیے گئے۔ جب لشکر اسلام مدینہ واپس پہنچا تو جن جن گھروں کے افراد شہید ہوئے،ان کے ہاں غموں کے بادل چھا گئے۔بڑے لوگوں کو تو معلوم تھا کہ وفات پانے والوں کے لیے آواز سے رونا منع ہے،صرف شدت غم سے آنسو بہائے جا سکتے ہیں لیکن کم عمر معصوم بچوں پر جو گزری،بیان سے باہر ہے۔ بیواؤں اور یتیم بچوں کی آہیں اور سسکیاں تھمنے میں نہیں آتی تھیں۔ حضرت حقربہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ شہید کا بیٹا شدت غم سے نڈھال ایک گلی کے نکڑ پر کھڑا تھا۔ اس کا نام بشر تھا۔ قدرت کو منظور تھا کہ وہاں سے رحمۃ اللعالمین،حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں پہنچے اور اس کے پاس کھڑے ہو گئے۔ دریافت فرمایا:”کیوں رو رہے ہو؟“اس نے عرض کیا:”مجھے خبر ملی ہے کہ میرے والد جنگ میں شہید ہو گئے ہیں اور میں ان کو آئندہ کبھی نہ دیکھ سکوں گا۔مجھے کھلانے پلانے والا اب کوئی نہیں رہا۔“نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو خود در یتیم تھے،ان سے بڑھ کر ان بے کسوں کا اور کون ہمدرد ہو سکتا تھا؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بچے پر بڑا ترس آیا۔اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا:
”پیارے بیٹے!کیا تم اس بات پر راضی ہو کہ عائشہ صدیقہ تمہاری ما ں ہو اور محمد رسول اللہ تمہارے باپ ہوں۔“
بشر رضی اللہ عنہ کا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی سرپرستی اختیار کر لی۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ماں کی طرح ان کی خبر گیری شروع کردی۔اب بشر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جو ماں باپ ملے،ان کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا تھا۔اللہ تعالیٰ کے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی محبوب زوجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا شفقت اور مہربانیوں کا منبع ثابت ہوئے۔بشر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنے باپ کا غم بھول گیا۔لوگ ان پر رشک کرنے لگے کہ ان کو اپنے باپ کا بہترین بدل مل گیا ہے۔

چھوٹوں پر رحم کرنا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی،لیکن وہ دوسروں کو بھی اس کی تاکید فرمایا کرتے تھے تاکہ یہ صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارک تک محدود نہ رہے، بلکہ تاقیامت امت مسلمہ کا شعار بن جائے۔اس سلسلے میں ایک واقعہ کا ذکر مناسب معلوم ہوتا ہے۔ایک صحابی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوئے اور عرض کیا:
”آقا حضور صلی اللہ علیہ وسلم! میں چاہتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کے گواہ بن جائیں کہ میں اپنے ایک بیٹے کو غلام ہبہ کر رہا ہوں۔“ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:”کیا تم نے اپنے دوسرے بچوں کو بھی ایک ایک غلام دیا ہے؟“اس نے کہا”جی نہیں۔“اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”یہ تو ظلم ہوا،ساری اولاد کا برابر حق ہوتا ہے،میں اس ظلم میں گواہ نہیں بننا چاہتا۔“چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معاملہ میں فریق بننے سے انکار کردیا۔اس طرح والدین کو یہ سبق دیا کہ وہ اپنی ساری اولاد کے ساتھ یکساں سلوک کیا کریں۔جو بھی چیز ان کو دیں،سب کو مساوی طور پر دیں،کسی کو بھی محروم نہ رکھا کریں۔یہ علیحد ہ بات ہے کہ اگر کوئی بچہ ماں باپ کا دین کے معاملے میں باغی ہوجائے تو اسے سزا کے طور پر کسی چیز سے محروم کر دیا جائے۔پھر وہ اگر غلطی کا مداوا کرے تو اسے سب سہولتیں دے دی جائیں۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بچوں سے محبت کے مختلف پہلو
بچوں کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دل میں خاص گوشہ رکھتے تھے اور انہیں کسی بھی موقع پر نہیں بھولتے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معمول تھا کہ جب نئی فصل کا کوئی میوہ پکتا اور لوگ برکت کے لیے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لاتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے چھوٹے بچے کو وہ میوہ عنایت فرماتے۔بچوں کو چومتے اور ان کے ساتھ محبت سے پیش آتے۔جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفر سے تشریف لاتے تو پہلے شہر سے باہر کھیلتے ہوئے بچوں کو خود سلام کرتے اور ان میں سے چند کو اپنی سواری پر بٹھا لیتے۔ایک دفعہ ایسے ہی ایک موقع پر عرب کے قبائل کا جج افرع بن حابس تیمی بچوں سے آپ کے اس تکلف و محبت کو دیکھ کر کہنے لگا:”تم لوگ بچوں کو پیار کرتے ہو حالانکہ میرے دس بچے ہیں مگر آج تک میں نے کسی کو بھی پیار نہیں کیا۔“اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”اللہ تعالیٰ اگر تمہارے دل کو محبت سے خالی کردے تو میں کیا کروں۔“
زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام تھے (جن کا ذکر پہلے آچکا ہے) ان کے فرزند اسامہ اور حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیک وقت اپنے زانو پر بٹھاتے اور دعا کرتے تھے کہ”اے اللہ! مجھے ان دونوں بچوں سے محبت ہے،تو بھی ان سے محبت کر۔“آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ”اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اگر لڑکی ہوتے تو میں اسے زیور پہناتا۔“
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیار کو دیکھ کر بچے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت مانوس ہوگئے تھے۔جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا،لپک کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گئے۔ہر دفعہ آپ انہیں کچھ چیز کھانے کو ضرور دیتے۔کبھی کھجوریں،کبھی تازہ پھل اور کبھی کچھ اور۔پھر ایک ایک کو گود میں اٹھا تے اور پیار کرتے۔یہ تھا ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بچوں سے پیار۔آپ سمجھ سکتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں کھلائے ہوئے بچے جب بڑے ہوئے ہوں گے تو وہ اسلام کے سچے عاشق اور دین کے سپاہی ہی بنے ہوں گے۔
مسلمان تو مسلمان،کافروں کے بچے بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیار سے یکساں فیض یاب ہوتے کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ”ہر بچہ فطرت کے لحاظ سے معصوم ہوتا ہے اور اگر کافر کا بچہ صغیر سنی میں مر جائے تو اس کو کوئی عذاب نہیں۔“جب کبھی کافروں سے جنگ ہوتی تو آپ اپنے مسلمان فوجیوں کو تاکید فرماتے کہ”دیکھو کسی بچے کو مت مارنا۔جو کوئی بچوں کو دکھ دیتا ہے،اللہ اس سے ناراض ہو جاتا ہے۔“
ایک دفعہ ایک غزوہ میں جھڑپ کے دوران کافروں کے چند بچے مارے گئے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت دکھ ہوا۔اس پر ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:”یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم)! وہ تو مشرکوں کے بچے تھے۔“آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”مشرکوں کے بچے بھی تم سے بہتر ہیں۔(یعنی بڑی عمر کے لوگوں سے بہتر ہیں) خبردار! بچوں کو قتل نہ کرو۔ بچوں کو قتل نہ کرو کہ ہر جان اللہ ہی کی فطرت پر پیدا ہوتی ہے۔“
ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ ایک بچہ ڈھیلے مارمار کر درخت سے کھجوریں گرا رہا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بڑی نرمی سے سمجھایا کہ پتھر مار کر پھل گرانا بری بات ہے۔پھر دوسری بار بھی اس بچے کی شکایت آئی۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر بھی اس کو نہیں جھڑکا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ہونے کے ڈر سے شرمندہ ہو گا۔اس نے خود ہی یہ عادت چھوڑ دی۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب چھوٹے بچوں کے پاس سے گزرتے تو ان پر سلام کہتے اور فرماتے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی بچوں کو پہلے سلام کیا کرتے تھے۔بچے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیٹھ پر نماز کے دوران چڑھ جاتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ لمبا کر دیتے تھے۔گویا کسی حالت میں بھی ان کی دل شکنی نہ کی جاتی، خصوصاً حضرت حسن و حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہم اکثر سجدے کے وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری کیا کرتے تھے۔حضرت ابو قتادہ انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں مشغول تھے تو اپنی نواسی امامہ بنت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو قیام کی حالت میں کندھوں پر اٹھا لیتے اور سجدے کی حالت میں زمین پر کھڑا کردیتے۔
چھوٹے بچوں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے یہ درخشاں نمونے امت کی رہنمائی کے لیے کافی ہیں۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی واضح ہدایت تھی کہ بچوں کی اصلاح اور تربیت کے لئے نرمی اور اخلاق کے طریقے اختیار کئے جائیں۔ان کو بدنی سزا نہ دی جائے، خصوصاً آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچے کے چہرے پر مارنے سے منع فرمایا ہے۔جہالت کے زمانے میں جو لڑکیوں کو قتل کر دیا جاتا تھا،اس سے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روک دیا اور اولاد کو بڑی نعمتوں میں شمار کیا اور آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کا چین قرار دیا ہے،یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جانوروں اور پرندوں کے بچوں کو بھی پیار کرنے کی تاکید فرمائی۔
ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور انہوں نے اپنی چادر کے اندر پرندوں کے کچھ بچے چھپا رکھے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے دریافت فرمایا:”یہ کیا ہے؟“انہوں نے عرض کیا:”یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم)! مجھے ایک جھاڑی پر پرندوں کے چہچہانے کی آواز آ رہی تھی۔میں نے آگے بڑھ کر دیکھا تو یہ چھوٹے چھوٹے بچے وہاں موجود تھے۔میں نے ان کو بڑھ کر اٹھا لیا۔ان کی ماں نے جب دیکھا تو سر پر منڈلانے لگی۔“حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”جلدی کرو،واپس جاکر ان کو وہیں رکھ آؤ اور پرندوں کی دعائیں لو۔“انہوں نے فوراً حکم کی تعمیل کی۔
ان حالات و کوائف سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو واقعی رحمۃ اللعالمین بنا کر بھیجا ہے۔قدم قدم پر رحمت اپنے جلوے دکھاتی ہے۔یہ رحمت محبت کی صورت میں مختلف طرح سے تقسیم ہوتی ہے۔کسی کے گھر میں جب چھوٹا بچہ پیدا ہوتا ہے تو سب افراد کے دل خوشی سے لبریز ہو جاتے ہیں۔ماں کی محبت کا تو اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔اسی طرح خدا کی مخلوق کی محبت نبیوں اور ولیوں کے دل میں پیدا کی جاتی ہے۔وہ دل سے چاہتے ہیں کہ اللہ کے بندے جہنم کی آگ سے بچ جائیں اور نیک کام کر کے اللہ کو راضی کریں۔حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت نہ صرف جانداروں بلکہ بے جان چیزوں کے لئے بھی ہے۔درختوں،کھیتوں،مکانوں کے لیے بھی……جنگ کے دوران ان میں سے کسی چیز کو تباہ کرنے سے منع کیا گیا ہے۔اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری زندگی جنت کا نمونہ بن جائے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر پوری طرح عمل کریں۔
ہمارے پیارے اور ہمدرد نبی صلی اللہ علیہ وسلم ساری دنیا کے لئے معلم اخلاق تھے اور ان کا جو خاص سلوک بچوں کے ساتھ تھا،اس میں بھی بہت سے سبق پوشیدہ تھے۔بچوں کے لیے ان کی ہدایت یہ تھی کہ”اچھے کام کرو اور برے کام کے نزدیک بھی نہ جاؤ۔“اللہ تعالیٰ نے ان کو”صاحب خلق عظیم“کے لقب سے پکارا ہے۔وہ تمام اچھی باتوں اور عادتوں کے منبع تھے۔اللہ کی کتاب یعنی قرآن مجید میں وہ تمام ہدایات تفصیل سے موجود ہیں جن پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود عمل کرکے دکھادیا،اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو”مجسم قرآن“ بھی کہا جاتا ہے۔یہ احکامات قیامت تک انسانوں کے لیے شمع ہدایت ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا جائے،وہ ہر شے پر قادر ہے،اس کے کاموں میں کسی کو دخل کی گنجائش نہیں،ہم اس کے بندے دل سے اس کی عبادت کریں اور عاجزانہ دعائیں کریں،وہ دعائیں قبول بھی کرتا ہے،اس کی ذات سے کبھی مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ماں باپ،رشتے دار،ہمسائے اور بچپن کے دوست ساتھی،سب کے ساتھ محبت اور پیار کا برتاؤ کیا جائے۔اللہ تعالیٰ کی خوشی اسی میں ہے کہ اس کی مخلوق کی خدمت کی جائے۔
پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی کے حالات کا غور سے مطالعہ کیا جائے تو ہمیں ان سارے مسائل کا حل مل جاتا ہے جو روز مرہ زندگی میں ہمیں پیش آتے ہیں۔ہم دیکھیں گے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جانی دشمنوں کو بھی فتح مکہ کے دن معاف فرما دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی کا سوال رد نہیں کیا۔خود بھوکے رہ کر دوسروں کو کھانا کھلایا۔ایک دفعہ کسی نے نہایت عمدہ چادر تحفے میں دی۔اسی وقت کسی اور نے مانگ لی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً پر اپنے بدن سے اتار کر اس کو دے دی۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابیوں نے اس شخص کو جس نے چادر مانگی تھی،برا بھلا کہا کہ تم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تحفے میں ملنے والی چادر لے کر اچھا نہیں کیا۔اس نے کہا کہ”میں نے یہ چادر مرتے وقت اپنے کفن کے لیے حاصل کی ہے تاکہ میری بخشش ہوجائے اور مجھے یہ بھی پتہ تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کسی کا سوال رد نہیں کرتے۔“
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بچوں کو یہ تعلیم بھی دی کہ بڑوں کا ادب کریں۔بے حیائی کے کاموں کے نزدیک بھی نہ جائیں۔جاننے والے اور نہ جاننے والے سب کو سلام کریں۔دوسروں کی بے غرضی کے ساتھ خدمت کریں،حتیٰ کہ جب کوئی آپ سے ملے تو اس کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیم کا پورا عکس آپ میں نظر آئے۔یہی دین اور دنیا،دونوں کی کامیابی ہے۔پیارے بچوں! اس کے حصول کے لئے کوشاں رہو۔

بچے کو اذان دینے کی اجازت
اس سے پہلے گزر چکا ہے کہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن سلمہ جو کہ ایک بچے تھے،ان کو قرآن سب سے زیادہ یاد کرنے پر امامت کا منصب عطا فرمایا گیا۔اب سنیے کس طرح ایک بچے کو اذان دینے کے لیے منتخب کیا گیا۔مکہ فتح ہوجانے کے بعد نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کعبہ کی چھت پر چڑھ کر اذان دینے کا حکم فرمایا۔انہوں نے وہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کی جانب رخ کرکے اذان دی۔حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ بڑے پائے کے صحابی تھے۔اذان دینا ان کا منفرد اعزاز تھا۔سب لوگ ان پر رشک کرتے تھے،انہیں میں ابو مخدورہ (اوس بن معیر) بھی تھے جو بہت خوش گلو تھے۔جب ان کی آواز حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سنی تو انہیں حکم دیا کہ وہ مکہ والوں کے لیے اذان دیں۔وہ اس وقت صرف سولہ سال کی تھے۔
واقعہ یوں ہے کہ ابو مخدورہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اذان کی نقل اتار رہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سن کر پسند فرمائی اور ان کو بلوا بھیجا۔انہوں نے آتے ہی اسلام قبول کر لیا۔جنگ حنین کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مستقل طور پر یہ منصب ان کو عطا کر دیا۔ان کا انتقال ۹۵ھ میں مکہ ہی میں ہوا،لیکن حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنا منفرد مقام رکھتے تھے۔عمر بھر سفر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں اذان دیتے رہے،بلکہ وصال نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی ایسا ہوا کہ حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی فرمائش پر ایک دفعہ اذان دی،جب وہ شام تشریف لے گئے تھے جہاں حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ مقیم تھے۔ایک دن حضرت عمرر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فراق نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں اس قدر روئے کہ کبھی ایسا نہ روئے تھے۔ایسا بھی ہوا کہ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک بار شام سے مدینہ تشریف لائے تو حضرت حسن و حسین رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین نے اذان دینے کی فرمائش کی۔وہ ان کی بات ٹال نہ سکے اور اذان دی۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ یاد آنے سے سارے مدینہ منورہ میں کہرام مچ گیا۔مرد،عورتیں،بچے سب ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد میں شدت غم سے چیخ اٹھے۔مدینہ منورہ میں ایسا رقت انگیز منظر پھر اس کے بعد کبھی نہ دیکھا گیا۔

لڑکی کو بالغ ہونے پر نکاح کا اختیاردینا
کم عمر بچے شعور سے عاری ہوتے ہیں۔اگر بڑے اسی کم عمری کے عرصے میں ان کا نکاح کر دیں تو جب وہ بالغ ہو جائیں اور باشعور ہو جائیں تو اسلام اجازت دیتا ہے کہ وہ اس فیصلے سے اختلاف کر سکتے ہیں۔یہی حال ہوا جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بن مظعون کی لڑکی کا نکاح اس کے بچپن میں کر دیا گیا۔ان کے چچا قدامہ نے بھتیجی کا نکاح حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ کر دیا لیکن رخصتی عمل میں نہیں آئی تھی،کیوں کے وہ کم عمر تھی۔جب وہ بالغ ہو کر شعور کو پہنچی تو اس نے اپنے اس نکاح کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔اس وقت حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس لڑکی کے خواستگار ہوئے۔لڑکی کی والدہ اور خود لڑکی کا رجحان اس طرف ہوگیا۔یہ معاملات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش ہوئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت قدامہ یعنی چچا کو بلوا بھیجا اور ان سے فرمایا:”اس لڑکی کو اس کی خواہش پر چھوڑ دو،اپنے نفس کا وہ خود اختیار رکھتی ہے۔“چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے پہلے نکاح کو فسخ کردیا اور اب اس کو حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نکاح میں دے دیا۔اس واقعے سے بھی واضح ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کم عمری میں بچوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو پسند نہیں فرماتے تھے۔اس واقعے سے امت مسلمہ کو واضح ہدایت بھی دینی مقصود تھی۔

یتیم بچوں کا اکرام……اجر عظیم
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ”جس شخص نے کسی یتیم کے سر پر صرف اللہ کی خوشنودی کے لئے ہاتھ پھیرا تو سر کے جتنے بال اس نے چھوئے،ہر بال کے بدلے اس کو نیکیاں ملیں گی۔جس نے اپنے پاس رہنے والے یتیم بچے یا بچی کے ساتھ اچھا سلوک کیا،تو میں قیامت کے روز اس کے اتنا قریب ہوگا جتنی یہ میری انگلیاں ہیں۔“آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر اپنی دو انگلیوں کو ملا کر بتایا اور دکھلایا کہ اس قدر پاس پاس ہوں گے۔اس تعلیم کا صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم پر یہ اثر ہوا کہ وہ یتیم بچوں کو گھر لا لا کر ان کی پرورش کرنے لگے اور یہ بھی ہدایت ہے کہ یتیم کے مال کے قریب بھی نہ جاؤ۔بالغ ہونے پر ان کی امانت پوری کی پوری ان کے حوالے کر دو۔
سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لائے تو راستے میں مسجد قباء کی تعمیر کے بعد مدینہ منورہ میں اسلام کی ترویج و اشاعت کے لیے مرکزی مسجد کی تعمیر کا ارادہ فرمایا۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی جس مقام پر ٹھہری تھی،وہاں حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مکان تھا۔اسی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام فرمایا۔اس مکان کے پاس ہی سامنے ایک قطعہء زمین تھا جو دو یتیم بچوں کی ملکیت تھا۔واقدی کہتے ہیں کہ ان بچوں کے نام سہل اور سہیل تھے۔انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی منشا پاکر پیشکش کی کہ ہم یہ زمین بلامعاوضہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کرتے ہیں مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کو قبول نہ فرمایا۔اس وقت اسکی کی قیمت دس دینار ادا کردی گئی۔بھلا یہ کیسے ممکن تھا کہ جو خود در یتیم تھے اور جن کا لقب رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم تھا،وہ یتیموں کو ان کے حق سے محروم رکھتے۔چنانچہ اس مقام پر مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم تعمیر ہوئی اور آج یہ دنیا بھر میں مسجد الحرم کے بعد مقدس ترین مسجد ہے۔اس مسجد میں ایک نماز کا ثواب پچاس ہزار گنا ملتا ہے۔یتیموں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیوں نہ پیار ہو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود در یتیم تھے اور وہ زمانہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے وقار اور سعادت مندی سے گزارا اور یتیم بچوں کے لیے بھی بہترین نمونہ چھوڑا تھا۔
اس سلسلے میں قرآن حکیم اور احادیث کے احکام مختصر اً پیش کیے جاتے ہیں:
(۱)۔اے ایمان والو!یتیموں کو اچھی طرح پالتے رہو اور جب وہ نکاح کے قابل ہوجائیں یعنی بلوغت کو پہنچ جائیں تو سوجھ بوجھ ٹھیک ہونے پر ان کا امانتی مال ان کو خوش دلی سے واپس کر دو۔
(۲)۔یتیم بچوں کا جو مال اور اثاثہ تمہارے پاس ہو،اس کا اچھا استعمال کرو یعنی نگرانی اور حفاظت کا پورا پورا خیال رکھو حتیٰ کہ وہ جوان ہو جائیں (تو مع نفع ان کے حوالے کر دو)۔
(۳)۔یتیم اور مسکین بھوکے کو کھانا کھلانا بہت ثواب کا کام ہے۔
(۴)۔یتیم بچے کے مال سے جو لوگ خود پر خرچ کریں گے،وہ اپنے پیٹ آگ سے بھریں گے یعنی دوزخ میں جائیں گے۔
(۵)۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”مسلمانوں کے گھروں میں بہتر وہ گھر ہے جس میں یتیم کی پرورش کی جاتی ہے اور اس کے ساتھ احسان کا سلوک کیا جاتا ہے اور بدتر وہ گھر ہے جس میں کسی یتیم کے ساتھ برا سلوک روا رکھا جاتا ہے۔“
پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک احکام پر اولیاء اللہ حرف بہ حرف عمل کیا کرتے تھے۔ایک ولی اللہ حضرت معروف کرخی رحمتہ اللہ علیہ کو عید کے دن نماز عید کی تیاری کے وقت ایک درخت کے نیچے پھل چنتے ہوئے دیکھا گیا۔ایک شخص نے پوچھا:”حضرت اس وقت آپ کیا کر رہے ہیں؟“انہوں نے فرمایا:
”میں نماز عید کی خاطر گھر سے نکلا تھا،راستے میں بچے کھیلتے ہوئے ملے،ان میں ایک یتیم بچہ بھی تھا جو زاروقطار رو رہا تھا۔پوچھنے پر اس نے بتایا کہ میرے پاس نہ کھلونے ہیں نہ عید کے لیے کپڑے،آج میرا باپ زندہ ہوتا تو مجھے بھی یہ چیزیں لے کر دیتا۔یہ دیکھ کر میں نے نماز کی تیاری کا ارادہ ترک کر دیا،اب میں یہاں سے پھل چن کر بازار میں فروخت کروں گا اور اس سے حاصل ہونے والی رقم سے اس یتیم بچے کو گیند اور کھلونے وغیرہ خرید کر دوں گا اور یہی میری عید ہوگئی۔“اس طرح حضرت معروف کرخی رحمتہ اللہ علیہ نے واضح کردیا کہ یتیم بچوں کی دلجوئی سب سے بڑی عبادت اور خوشی ہے۔

افراد امت کو بچوں سے متعلق ہدایت
محسن انسانیت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے والدین اور سرپرستوں کو پابند کیا ہے کہ”بچے اللہ تعالیٰ کی ایک بڑی نعمت ہیں اور آپ کے پاس ایک امانت ہیں۔ان کے حقوق کا خاص خیال رکھنا تم پر فرض ہے۔اگر اس میں سستی کروگے تو خدائے تعالیٰ کے حضور سخت بازپرس ہوگی۔“لہٰذا بڑوں کے لئے ضروری ہے کہ اولاد یا اپنے زیر تربیت بچوں کی پرورش اور تعلیم کے لئے تمام جائز ذرائع اور حیلے استعمال میں لائیں۔ان کی مادی ضروریات یعنی اچھی خوراک،مناسب لباس اور تعلیم و تربیت کے علاوہ ذہنی تربیت و اصلاح کی جانب پوری توجہ کریں تاکہ وہ مسلم امہ کے ایک بہتر فرد بن جائیں۔یہ ایک صدقہ جاریہ ہوگا اور اس کے لئے خلوص سے کام کرنے والے کی دنیا بھی سنور جائے گی اور آخرت بھی،بلکہ یہ عمل آخرت کی سدا رہنے والی زندگی کے لئے ایک بہترین تو شہ ثابت ہوگا۔ہادی ئاسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ واضح ہدایت ہے:
”جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہیں کرتا اور ہمارے بڑوں کی عزت نہیں کرتا،وہ ہم میں سے نہیں۔“
اس کے مخاطب سب چھوٹے بڑے کلمہ گو ہیں۔آپس میں حقوق کا خیال رکھا جائے گا تو زندگی مزے سے گزرے گی،اختلافات اور جھگڑوں سے پاک ہو گی اور گھر جنت کا نمونہ بن جائے گا۔
جیسا کہ پہلے بھی بیان ہوا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے قبل لڑکیوں کو زندہ دفن کرکے مار ڈالا جاتا تھا۔اولاد پر ظلم کرنے اور ان کو قتل کرنے کی وجہ غربت بھی تھی۔بعض کا خیال تھا کہ اولاد ہو گی تو ان کے کھانے پینے کا خرچہ کرنا پڑے گا،حالانکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ:
”اولاد کو اخراجات کے بوجھ سے بچنے کے لئے قتل نہ کرو۔اللہ تمہارا بھی رازق ہے اور انکا بھی۔“
حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے بحکم خدا اعلان کردیا کہ دنیا میں آنے والا ہر بچہ اپنا رزق ساتھ لاتا ہے۔ایک انسان دوسرے کو کس طرح کھلا سکتا ہے؟اللہ تعالیٰ کھلاتا پلاتا ہے کیونکہ وہی رازق ہے،لہٰذا اولاد کو مار ڈالنا بہت بڑا گناہ ہے۔آج بھی بعض لوگ غربت سے تنگ آکر ایسا کر گزرتے ہیں۔یہ ان کی دین سے غفلت اور کم علمی ہے،بلکہ بہت بڑا گناہ ہے۔

زمانہ جاہلیت میں لڑکی کو مصیبت خیال کیا جاتا تھا،لیکن نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے بعد اس کو رحمت بنا دیا گیا اور لڑکی کے وجود کو آخرت میں نجات کا ذریعہ قرار دیا گیا۔فرمایا گیا کہ”جو کوئی اپنی لڑکی کے ساتھ محبت اور شفقت کا سلوک کرے گا تو وہ لڑکی دوزخ اور اس کے درمیان پردہ بن کر حائل ہو جائے گی۔“یہ بھی فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ”جو شخص دو لڑکیوں کو ٹھیک طرح پالے گا،یہاں تک کہ وہ جوان ہو جائیں تو قیامت کے دن میں اور وہ شخص ان دو انگلیوں کی طرح ساتھ ساتھ ہوں گے۔“آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دوانگلیاں کھڑی کرکے دکھائیں۔اس سلسلے میں ایک واقعہ قابل ذکر ہے۔
عمرہ کی ادائیگی کے موقع پر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ شہید کی لڑکی آئی۔آپ نے اس کو گود میں لے کر اپنی زوجہ،خاتون جنت حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے حوالے کر دیا۔یہ دیکھ کر حضرت جعفر طیار رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دعویٰ کیا کہ یہ مجھے ملنی چاہیے کیونکہ میرے گھر میں اس لڑکی کی خالہ موجود ہے۔تیسرے دعوے دار حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سامنے آئے کہ وہ حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ کے دینی بھائی تھے۔اب فیصلے کیلئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب رجوع کیا گیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کیا کہ”یہ لڑکی جعفر طیار رضی اللہ عنہ کے گھر میں رہے گی کیوں کہ خالا ماں کے برابر ہوتی ہے۔“پس ا سے خالہ کی گود میں دے دیا گیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خالہ کا مقام بھی واضح کردیا کہ ماں کے بعد اس کا حددرجہ لحاظ کیا جائے گا۔
اولاد کی ظاہری تربیت کے علاوہ باطنی اور روحانی تربیت بھی ضروری ہے۔قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے:”اے ایمان والو!تم اپنے آپ اور اپنے اہل وعیال کو دوزخ کی آگ سے بچاؤ۔“دوزخ کی آگ سے بچاؤ تب ہی ہوگا جب انسان ان کاموں سے بچا رہے گا جو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث ہوتے ہیں۔اولاد کو سیدھے راستے پر چلانے کی کوشش کے ساتھ اس کی بہتری اور کامیابی کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا بھی کرنی چاہیے۔خود بڑوں کو اخلاق کا اعلیٰ نمونہ پیش کرنا لازم ہے کیوں کہ چھوٹے ان کی نقل شوق سے کرتے ہیں۔لڑکیاں شرمیلی ہوتی ہیں اور اپنے حقوق طلب کرنے میں جھجک سے کام لیتی ہیں۔اس لئے بڑوں کو ان کا خود خیال رکھنا ہو گا کہ وہ شرم کے باعث محروم نہ رہ جائیں۔انہوں نے شادی کے بعد دوسرے گھروں میں جانا ہوتا ہے۔گھر کے والی کو حکم ہے کہ جب گھر میں کوئی چیز لاؤ تو اس کی تقسیم پہلے لڑکی سے شروع کرو۔اس طرح ان کی جو حوصلہ افزائی ہوگی،وہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت عزیز ہے۔ماں باپ کو حکم ہے کہ لڑکوں کو بھی جو کچھ دیا جائے،اس میں برابر کا خیال رکھا جائے۔جو کچھ دینا ہو سب کو دیا جائے۔کسی ایک کی تخصیص نہیں کرنی چاہیے۔
یتیم بچوں کے بارے میں بڑوں کو سخت تاکید کی گئی ہے کہ ان کے مال کی پوری طرح حفاظت کی جائے اور جب وہ جوان ہو جائیں تو ان کا تنکا تنکا واپس کردیا جائے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم خود یتیم تھے۔ان سے زیادہ کس کو یتیموں کا احساس ہو سکتا ہے؟قرآن حکیم میں اس بارے میں یہ ہدایت درج ہیں۔
(۱)۔کیا تم نے دیکھا ہے اس شخص کو جو روز جزا کو جھٹلاتا ہے؟پس یہ وہی ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے۔
(۲)۔یتیموں کے متولی ان کے جوان ہونے کے ڈر سے ان کے والد کی چھوڑی ہوئی جائیداد وں کو جلدی جلدی ہضم کرنا چاہتے ہیں، یہ گویا اپنے پیٹ میں جہنم کی آگ بھرنا ہے۔
(۳)۔نیک وہی لوگ ہوتے ہیں جو اللہ کی محبت میں کسی غریب اور یتیم کو کھانا کھلاتے ہیں۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں ایک خراب بات یہ تھی کہ لوگ یتیم لڑکیوں کی جائیداد پر قبضہ کرنے کے لیے خود ان سے شادی کر لیتے تھے،چاہے ان کا جوڑ ہو یا نہ ہو۔اس واسطے حکم دیا گیا کہ”اگر تم کو ڈر ہے کہ ان یتیم لڑکیوں کے حق میں انصاف نہ کر سکو گے تو (ان کو چھوڑ دو) ان کے علاوہ دیگر عورتوں سے جو تمہیں پسند ہوں،نکاح کر لو۔“
شریعت میں حکم ہے بچے کو کم از کم دو سال تک ماں کا دودھ ضرور پلایا جائے۔اس میں بڑی حکمتیں پوشیدہ ہیں۔ماں بچے کے درمیان خالص محبت پروان چڑھتی ہے۔ماں کے دودھ کا خوراک کے لحاظ سے کوئی نعم البدل نہیں ہے۔جدید تحقیقات سے سائنسدانوں کو معلوم ہوا ہے کہ ماں کا دودھ بہترین خوراک ہے جو شیر خوار بچے کو دی جانی چاہیے۔میڈیکل سائنس بھی اس امر کی تائید کرتی ہے کہ اسلامی ہدایات انسانی فطرت کے عین مطابق ہیں۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان بچوں کو وظیفہ دیتے تھے جو دودھ چھوڑ دیتے تھے۔وظیفہ لینے کے لیے بعض والدین وقت سے پہلے ہی دودھ چھڑا دیتے تھے۔آپ رضی اللہ عنہ کو معلوم ہو جاتا تو ایسے والدین کو سزا دیتے تھے تاکہ بچوں کے دودھ پلانے کی مدت دو سال پوری کی جائے۔
قرآن حکیم،سورۃالحجرت میں ہے:”اے ایمان والو! نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سے اپنی آواز اونچی نہ کرو۔نہ ہی ان سے اس طرح گفتگو کرو جیسے تم آپس میں کرتے ہو ایسا نہ ہو کہ اس وجہ سے ہمارے نیک اعمال برباد ہوجائیں اور تم کو پتا بھی نہ چلے۔“
اس طرح بڑوں کی بے حد تعظیم کی تعلیم دی گئی ہے۔آج بھی بچوں اور طالبعلموں کو چاہیے کہ بڑوں کے سامنے پست آواز اور ادب کے ساتھ گفتگو کیا کریں۔اس صورت مبارک میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ”پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے مکان کے دروازے پر دستک نہ دیا کریں، جب وہ خود برآمد ہوں تو ان سے ملاقات کیا کریں۔“
علماء کا کہنا ہے کہ یہ حکم آج بھی جاری ہے۔اللہ کے مقرب بندوں،علماء اور اساتذہ کے ساتھ آج بھی اسی طرح ادب سے پیش آنا چاہیے،کیونکہ صاحب علم کی عزت اور توقیر سے بچوں میں علم کی جستجو اور قدر پیداہوتی ہے۔تعلیمی اداروں کے منتظمین کے لیے ضروری ہے کہ وہ طلبا کے دلوں میں استادوں اور بزرگوں کا حددرجہ ادب پیدا کریں،تعلیم کو نرا کاروبار ہی نہ بنائے رکھیں۔اس لیے کہا گیا ہے:
باادب بامراد……بے ادب بے مراد

رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کا بچوں کے لیے خاص لحاظ
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”میں جب نماز پڑھنا شروع کر تا ہوں تو میرا خیال اور ارادہ یہ ہوتا ہے کہ نماز کو خاصا لمبا کر دوں،مگر کسی بچے کے رونے کی آواز میرے کانوں میں پڑتی ہے تو یہ خیال کرتے ہوئے کہ اس کی ماں کو بچے کے رونے سے پریشانی ہوتی ہوگی،میں اپنی نماز کو مختصر کر دیتا ہوں۔“اسی طرح کا قول حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ سے بھی منقول ہے۔اس سے آپ کا منشا یہ ہے کہ نماز سے جلدی فارغ ہو کر روتے ہوئے بچے کو بہلایا جائے اور اس کو رونے سے خاموش کرا کے کسی کھیل کی طرف متوجہ کر دیا جائے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب طائف میں اسلام کی تبلیغ کے لیے تشریف لے گئے تو وہاں کے لوگوں نے خود بھی آپ ﷺ پر پتھر برسائے اور بچوں کو بھی اینٹ روڑے مارنے پر لگا دیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان بچوں پر کوئی تعرض نہ کیا،بلکہ ان کے حق میں دعا فرمائی کہ”یا اللہ! ان کو ہدایت دے کہ یہ لوگ مجھے پہچان لیں۔“اس وقت اللہ کی طرف سے پہاڑوں پر مامور فرشتہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا:”آپ صلی اللہ علیہ وسلم حکم دیں تو اس قوم کو دو پہاڑوں کے درمیان پیس کر رکھ دیا جائے۔“لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”نہیں،میں امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی پشتو ں سے ایسے افراد پیدا فرمائے گا جو صرف اللہ کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے۔میں تو سب کے لیے رحمت خداوندی بن کر آیا ہوں۔“
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی لڑکے سے بھی شفقت کا سلوک کیا۔بات یوں ہے کہ ایک یہودی لڑکا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کیا کرتا تھا۔ایک دفعہ وہ بیمار ہو گیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی عیادت کو چلے گئے اور اس سے فرمایا:”کیا تم اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں (صلی اللہ علیہ وسلم) اس کا رسول ہوں۔“اس بیمار لڑکے نے اپنے باپ کی طرف دیکھا۔اس نے اجازت دے دی کہ جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے ہیں،تم بھی کہہ دو۔لہٰذا لڑکے نے کلمہ پڑھ لیا۔ساتھ ہی اس کا انتقال ہو گیا۔ چنانچہ اس کی باقاعدہ نماز جنازہ پڑھائی گئی اور اس کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا گیا۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کرنے کی برکت سے اس کی آخرت سنور گئی۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ مدینہ کی گلی کوچوں میں چھوٹی بچیوں میں سے اگر کوئی بچی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ تھام لیتی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا ہاتھ نہیں چھڑ اتے تھے حتیٰ کہ وہ جہاں چاہتی آپ کو کھینچ لے جاتی اور خود ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ چھوڑ دیتی۔
یہ بات بھی حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس ایک یتیم لڑکی تھی۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھا تو فرمایا:”ارے تو وہی ہے،اب اتنی بڑی ہو گئی،تیری عمر بڑی نہ ہو اور عمر کے دن دراز نہ ہوں۔“آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے یہ کلمات سن کر وہ بچی روتی ہوئی ام سلیم کے پاس گئی اور کہا:”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ الفاظ ادا کیے ہیں۔ اب میں زیادہ دن تک زندہ نہ رہ سکوں گی۔“اس پر ام سلیم دوڑتی ہوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور جلدی میں اپنا دوپٹہ بھی پوری طرح سے سر اور بدن پر نہ لپیٹ سکیں اور حاضر خدمت ہوں گئیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا:”اے ام سلیم! کیا بات ہے؟“انہوں نے کہا کہ”میری اس یتیم لڑکی کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اس کی عمر دراز نہ ہو اور یہ جلد ہی مر جائے۔“ اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور فرمایا:”یہ بات نہیں،میرا اللہ تعالیٰ سے عہد و پیمان ہے کہ میں خوش بھی ہوتا ہوں اور ناراض بھی۔اگر میں حالت غضب میں کسی کے لیے ایسے کلمات کہہ دو ں جو اس کے اہل نہیں تو اللہ تعالیٰ اپنی مہربانی سے اس کو رحمت و قربت میں تبدیل فرما دیتا ہے،لہٰذا تم بالکل فکر نہ کرو،اسے کوئی گزند نہ پہنچے گا۔“دراصل یہ پیار کے الفاظ تھے،بددعا کے نہیں۔مطلب یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو سراپا رحمت ہی رحمت ہیں،اگر کسی کو بظاہر بددعا بھی دیں تو وہ اس کو نہیں لگے گی،البتہ وہ لوگ جو گستاخ اور بداعمال ہوں گے،ان کو بد دعا لگے گی۔چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام سلیم کی تسلی فرما دی۔اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلنے والے کلمات پر صحابہ اورصحابیات رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو کتنا یقین تھا۔یہ بھی واضح ہواکہ ا گرماں غصے میں بچوں کو بددعا بھی دے دے تو بھی اللہ تعالیٰ ان کو نقصان نہیں پہنچنے دیتا، وہ نیت کو دیکھتا ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہلکا اور بے ضرر مزاح بھی فرمایا کرتے تھے۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم تھے،جن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بچپن میں ”دوکانوں والے“کہا کرتے تھے۔یہ ان کا دوسرا نام مشہور ہو گیا تھا۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کم عمر تھیں تو ان کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوڑ بھی لگایا کرتے تھے۔وہ ہلکی ہونے کے باعث آگے نکل جایا کرتی تھیں۔اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے۔کچھ عرصہ گزر جانے کے بعد پھر دوڑ لگانے کا موقع ملا۔اب حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کچھ فربہ اور بھاری ہو چکی تھیں،لہٰذا وہ اس دوڑ میں پیچھے رہ گئیں اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم آگے نکل گئے۔اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسکراتے ہوئے فرمایا:”عائشہ!یہ اس دن کا بدلہ ہے جب تم آگے نکل گئی تھیں۔“
حاتم طائی کی سخاوت بہت مشہور تھی۔اس کے قبیلے کے ساتھ جب مسلمانوں کی جنگ ہوئی تو حاتم کے بیٹے عدی بن حاتم شام کی طرف بھاگ گئے،لیکن ان کی بہن گرفتار ہو کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش ہوئیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ یہ مشہور سخی حاتم طائی کی بیٹی ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بڑی عزت افزائی فرمائی۔اس کو آزاد بھی کر دیا اور کچھ مال بھی عنایت کیا۔اس نے ملک شام جاکر اپنے بھائی سے اس حسن سلوک کا تذکرہ کیا اور مشورہ دیا کہ تم بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ۔وہ مدینہ کے لیے روانہ ہو گیا۔جب قریب پہنچ گیا تو اس کے آنے کی خبر مشہور ہوگئی۔دربار نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں پہنچا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خندہ پیشانی سے ملاقات فرمائی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق اور رحمت سے متاثر ہوکر وہ ایمان لے آیا۔یہ تھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک سخی کی اولاد سے محبت جو رحمۃ اللعالمین کے مہر عالم تاب کی ایک کرن تھی۔
یہی عدی بن حاتم بیان کرتے ہیں کہ ایک بار میں بارگاہ نبوت میں حاضر تھا۔ایک آدمی نے آکر فقر و فاقہ کی شکایت کی۔پھر ایک دوسرے نے راستوں کے خطرات اور ڈاکہ زنی کی شکایت کی۔اس موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا:”اے عدی! کیا تم نے حیرہ کے مقام پر دیکھا،زندگی لمبی ہوئی تو ضرور دیکھو گے کہ ایک عورت تن تنہا حیرہ سے چل کر کعبہ پہنچ کر اس کا طواف کرے گی اور اسے اللہ کے سوا کسی کا خوف نہ ہو گا۔“میں سوچنے لگ پڑا کہ اس وقت یہ فسادی لوگ کہاں چلے جائیں گے جو یہ سب گڑبڑ مچا رہے ہیں؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ”اگر تمہاری عمر دراز ہوئی تو دیکھو گے کہ کسریٰ کے خزانے پتہ کر لیے جائیں گے اور اہل اسلام ان پر مکمل قبضہ کرلیں گے۔“میں نے عرض:”کسریٰ بن ہرمز کے؟“آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”ہاں! کسر یٰ بن ہرمز کے۔“پھر تیسری بار فرمایا:”اگر زندگی نے وفا کی تو تم یہ بھی دیکھو گے کہ آدمی مٹھی بھر سونا چاندی لیکر پھریں گے کہ غریبوں کی مدد کی جا سکے مگر ان کو لینے والا کوئی نہیں ہوگا۔“یعنی سب ہی خوشحال اور مالدار ہوں گے۔زبان نبوت سے نکلنے والی ہر بات پوری ہو کر رہتی ہے۔
حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:”اللہ نے میری عمر لمبی کی اور میں نے دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق وہ وقت بھی آیا کہ عورتیں حیرہ سے تن تنہا کعبہ مبارکہ کا طواف کرنے آتیں اور ان کو سوائے خدا کے کوئی خوف نہیں ہوتا۔نیز کسریٰ بن ہرمز کے خزانوں کو بزور شمشیر حاصل کرنے والوں میں میں بھی شامل ہوا۔یہ بھی میرے دیکھنے میں آیا کہ لوگ زکوٰۃ کا مال لے کر عام راستوں پر پھرتے تھے،لیکن لینے والا کوئی نہیں ملتا تھا۔یہ سب اسلام کی برکت کے سبب تھا۔“

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں پر عمل کرنا
عزیز بچو!آپ نے پڑھا کہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بچوں پر کتنے مہربان تھے۔ انہوں نے جو بھی کام کیا،وہ ہماری اچھی تربیت کے لیے تھا اور اس کو”سنت نبوی“کہتے ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”جس نے میری ایک سنت کو زندہ کیا،اس کو سو شہیدوں کا ثواب ملے گا۔“
سنت دراصل قرآنی احکامات کی عملی تشریح ہے۔ ان پر عمل کرنے سے زندگی بھی خوب گزرتی ہے اور آخرت میں بھی کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ان کے بتلائے ہوئے طریقوں پر دل و جان سے خود بھی عمل کریں اور دوسرے دینی بھائیوں کو بھی اس کی ترغیب دیں۔صرف ہمارا اپنا عمل کرنا کافی نہیں ہے،دوسروں کو بھی نیکی کے راستے پر چلانا ضروری ہے۔اس طرح جو شخص آپ کی کوشش سے اچھا کام کرے گا،اس کو تو اجر ملے گا ہی،خود آپ کو بھی اس کا ثواب ملے گا۔اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے،اس کے خزانوں میں کوئی کمی نہیں،وہ ہر جگہ پر موجود ہے اور ہمارے کھلے اور چھپے کاموں کو دیکھتا ہے۔
جب ہم کسی کو سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرنے کو کہتے ہیں تو اکثر لوگ کہتے ہیں:”جی،یہ کام تو ہم پہلے ہی کر رہے ہیں۔“ اصل بات نیت کی ہے۔اگر وہ کام سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سمجھ کر کیا جائے گا تو اس کا بے حد ثواب ملے گا۔ثواب کا مطلب ہے اچھے کام کا بدلہ جو آخرت میں ملے گا۔ہم سے جو گناہ غلطی سے ہو جاتے ہیں تو یہ ثواب ان کا کفارہ بن جاتا ہے۔لہٰذا کوشش ہونی چاہیے کہ زیادہ سے زیادہ کام سنت کی نیت سے کریں۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جو بھی سنتیں ہیں،وہ آپ کو بزرگوں کی صحبت میں بیٹھنے اور سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی کتابوں میں ملتی ہیں،مثلاً آپ اس نیت سے تعلیم حاصل کریں کہ روزگار پر لگ کر رزق حلال کمائیں گے،خود بھی کھائیں گے اور دوسروں کو بھی کھلائیں گے تو یہ نیک عمل عبادت بن جائے گا۔اگر کوئی اس خیال سے تعلیم حاصل کرے گا کہ حرام حلال تمام ذرائع سے دولت جمع کر کے عیش وعشرت کریں گے،فضول مشاغل،ناچ گانے،دوسروں پر برتری دکھانے کے کام کریں گے اور نمائش کی زندگی گزاریں گے تو یہ سب گناہ کے کام ہیں۔آئیے آپ کو چند سنتوں سے روشناس کرائیں:
(۱)۔صبح نیند سے جاگنے پر دونوں ہاتھوں کو مل کر چہرے پر پھیر لیں اور تین بار تکبیر یعنی اللہ اکبر کہیں۔
(۲)۔کسی برتن میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے تین بار ہاتھوں کو دھو لیں۔باقاعدہ وضو کر کے نماز فجر ادا کریں۔نماز ادا کرنا اللہ کی عبادت بھی ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت بھی ہے۔
(۳)۔گھر میں داخل ہوتے وقت بسم اللہ پڑھ کر اندر آو۔دروازے کو اندر سے بند کر لو۔بسم اللہ شریف کی برکت سے شیطان گھر میں داخل نہ ہوگا۔
(۴)۔دوپہر کو کچھ دیر کے لئے لیٹ جائیں۔اسے قیلولہ کہتے ہیں،ضروری نہیں کہ نیند آئے۔
(۵)۔سنت ہے کہ نماز عشاء کے بعد جلد سو جائیں۔فضول کاموں میں رات دیر تک جاگنا گناہ ہے۔
(۶)۔سونے سے پہلے برتنوں کو ڈھانک دینا،بستر کو جھاڑنا اور قرآن حکیم کی کچھ سورتوں خصوصاً آیت لکرسی کی تلاوت کرنا۔
(۷)۔کھانے کی سنت یہ ہے کہ سر کو ڈھانک کر اور پاؤں سے جوتا اتار کر کھانا کھایا جائے۔(عموماًلوگ اس سے الٹ کرتے ہیں) پھر کھانے سے پہلے ہاتھ دھونے سے برکت ہوتی ہے۔ہاتھوں کو کپڑے سے نہیں پونچھا جاتا۔بعد میں تولیے سے پونچھنے میں حرج نہیں۔سرکہ کھانے میں استعمال کرنا بھی سنت ہے۔گندم میں کچھ حصہ جو ملایا جائے تو بہتر ہے۔کھانے کے برتن کو بالکل صاف کر لیا جائے، انگلی سے چاٹ لیں۔رکابی میں صرف اتنا کھانا ڈالا جائے جو بچ نہ جائے۔بعد فراغت الحمدللہ پڑھی جائے۔
(۸)۔پانی ہمیشہ بیٹھ کر اور تین سانسوں میں پینا چاہیے۔
(۹)۔لباس سفید رنگ کا پہننا سنت ہے۔تہبند یا پاجامہ ٹخنوں سے اتنا نیچے نہ ہو کہ زمین سے گھسے۔اس کا بڑا گناہ ہے۔
(۰۱)۔خواتین ایسا لباس نہ پہنیں جس سے ان کا جسم نظر آئے۔
(۱۱)۔شادی بیاہ سادگی سے ہو،مال کا اسراف سخت منع ہے،ولیمہ سنت ہے،زیادہ اہتمام نہ ہو اور اس میں امیروں کے ساتھ غریبوں کو بھی بلایا جائے۔
(۲۱)۔مسلمان کی دعوت قبول کرنا سنت ہے،البتہ حرام کمانے والے،رشوت لینے والے اور سود خور کی دعوت قبول نہ کی جائے۔
(۳۱)۔سلام کو عام کرو اور ایک دوسرے سے مصافحہ کرو۔
(۴۱)۔دانتوں کو مسواک سے باقاعدہ صاف کرنا ضروری ہے۔اس کے فوائد کا آج بھی اعتراف کیا جا رہا ہے۔
(۵۱)۔نیکی بدی میں فرق کو ملحوظ رکھو۔اصولی بات یہ ہے کہ جس کام کے کرنے سے دل میں اطمینان پیدا ہو،وہ ٹھیک ہے اور جس کے کرنے سے دل میں کھٹک پیدا ہو،وہ ٹھیک نہیں۔
(۶۱)۔دوسروں کی غلطیوں کو معاف کرنا ٹھیک ہے،لیکن ظالم کو معاف نہ کیا جائے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
مجھے میرے رب نے نو چیزوں کے کرنے کا حکم دیا ہے:
(۱)کھلی اور چھپی ہر حالت میں اللہ سے ڈرتا رہو ں۔
(۲)کسی پر مہربان ہو جاؤں یا کسی کے خلاف غصے میں آ جاؤں،ہر حال میں انصاف کرو ں۔
(۳)خواہ فقیری کی حالت ہو، خواہ امیری کی،بہرحال راستی اور اعتدال پر قائم رہو ں۔
(۴)جو شخص مجھ سے تعلق توڑے،میں اس سے تعلق جوڑوں۔
(۵)جو مجھے محروم رکھے،میں اسے دو ں۔
(۶)جو مجھ پر زیادتی کرے،میں اسے معاف کردو ں۔
(۷)میری خاموشی کا مطلب تفکر کی خاموشی ہو۔
(۸)میری گفتگو ذکر الٰہی کی گفتگو ہو۔
(۹)میری نگاہ عبرت کی نگاہ ہو۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top