skip to Main Content

زخم اور مرہم

میرزا ادیب
۔۔۔۔۔۔

بازار کے نکڑ پر وہ حویلی دو حصوں میں منقسم تھی۔ہر حصہ دو وسیع کمروں،غسل خانے اور باورچی خانے کے علاوہ ایک صحن پر بھی مشتمل تھا ۔ایک حصہ محمد سلیم صدیقی کے نام الاٹ تھا اور دوسرا واجد علی کے نام۔ دونوں مشرقی پنجاب سے قیام پاکستان کے وقت آئے تھے۔اس وقت بھارت میں جانے والے غیر مسلموں کی جائیدادیں مہاجرین کی آبادکاری کی خاطر تقسیم کی جارہی تھیں۔یہ حویلی آسانی سے ان کو مل گئی اور دونوں کسی قدر اطمینان کے ساتھ زندگی گزارنے لگے۔
پاکستان میں آنے سے بیشتر دونوں ایک دوسرے سے بالکل ناآشنا تھے۔شروع شروع میں دونوں خاموشی سے ایک دوسرے سے متعارف ہوتے رہے اور تین ماہ کے بعد ان کے درمیان ایسے تعلقات استوار ہو گئے جیسے برسوں سے ایک دوسرے کو جانتے ہوں۔
محمد سلیم صدیقی جس کی انبالے میں کپڑے کی دکان تھی۔اس نے یہاں بھی یہی پیشہ اختیار کرلیا۔وہ اس کاروبار کے تمام تقاضوں سے اچھی طرح آشنا تھا، اس لئے اس کی مالی پریشانیاں جلدی ختم ہوگئیں اور وہ بیوی بچوں کے ساتھ آسودگی سے رہنے لگا۔اس کے مقابلے میں واجدعلی کو کاروبار کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔اس نے کوشش کرکے ریلوے کے ایک دفتر میں کلرک کی ملازمت حاصل کرلی۔اگرچہ ابھی وہ ازدواجی زندگی کی تمام ذمہ داریوں سے آزاد تھا تاہم اپنی نوکری پر مطمئن نہیں تھا۔سوچ سمجھ کر خرچ کرنا اسے آتا ہی نہیں تھا۔اس لئے تنخواہ ختم کرنے کے بعد ادھار پر گزر اوقات کرنے لگتا تھا۔معاشی پریشانی سے نجات پانے کی تدبیریں سوچتا رہتا تھا مگر تاحال اس کی کوئی تدبیر بھی کارگر نہیں ہو سکی تھی۔
ایک مہینے میں زیادہ خرچ کرنے کی وجہ سے اس پر معاشی دباؤ کافی بڑھ گیا تھا۔ایسے میں اسے لندن سے اپنے ایک دور کے بزرگ کا خط ملا۔اس بزرگ کو اپنے اور واجد علی کے ایک مشترکہ عزیز کی زبانی اس کے حالات معلوم ہوئے تھے۔خوش قسمتی سے اسے اپنے اسٹور میں کام کرنے کے لیے ایک شخص کی ضرورت تھی اور یہ خط جو واجدعلی کو ملا تھا اسی بزرگ کی طرف سے تھا،اس میں اس نے واجد علی کو معقول تنخواہ کی پیش کش کر کے لندن بلا لیا تھا ۔
اس خط کے پڑھتے ہیں واجد علی کی باچھیں کھل گئیں ۔اسے اور کیا چاہیے۔اس نے خط کے بجائے اپنے بزرگ کو رضامندی کا تار بھیج دیا اور لندن سے اس کے لئے تیاری کی خاطر معقول رقم مل گئی۔
صدیقی اور واجد علی کے لئے ایک دوسرے سے جدا ہونا ایک معمولی مسئلہ نہیں تھا۔دونوں رات دن کی ملاقاتوں اور مصاحبت سے ایک طرح دو قالب ایک جان ہو گئے تھے لیکن یہ خیال دونوں کے ذہن میں تھا کہ اگر یہ موقع ضائع ہوگیا تو بہت کچھ ضائع ہوجائے گا۔واجد علی،صدیقی کے تعاون اور مدد سے لندن جانے کی تیاری کر رہا تھا اور آخری دن آگیا جب اس نے محسوس کیا کہ جو کچھ اس کو کرنا تھا وہ کر چکا ہے۔
جس روز واجدعلی کو سفر اختیار کرنا تھا، اس نے صبح ہی صبح اپنے عزیز ترین دوست کے احسانات کا شکریہ ادا کیا۔اس کی بیوی کے حسن سلوک پر ممنونیت کا اظہار کیا اور بچوں کو گلے لگا کر پیار کیا۔وعدہ کیا کہ وہ سال میں کم از کم دو مرتبہ ضرور ملاقات کے لیے آ یا کرے گا۔
ائیرپورٹ پر جانے میں ڈیڑھ گھنٹہ باقی تھا کہ واجد علی نے اپنے گھر کی ساری چابیاں صدیقی کے حوالے کرتے ہوئے کہا:
”صدیقی!مجھے اپنا یہ گھر بہت عزیز ہے کہ اس کی وجہ سے تمہاری دوستی نصیب ہوئی ہے اور تم جانتے ہو تمہاری دوستی مجھے کتنی عزیز ہے۔میرا گھر میری امانت ہے۔اس کا پورا پورا خیال رکھنا۔“
صدیقی نے جو اباً کہا:
”واجد علی! تم کو یہ الفاظ کہنے کی بالکل ضرورت نہیں تھی۔بہرحال تم نے کہہ دیے ہیں تو سمجھ لو یہ میرے دل پر کندہ ہوگئے ہیں ۔“
واجدعلی اس شام کو لندن روانہ ہوگیا۔اس کے جانے کے بعد صدیقی اور اس کی بیوی بچوں کو یوں محسوس ہوا جیسے زندگی میں سے کوئی بڑی قیمتی اور خوشی دینے والی چیز کھو گئی ہے لیکن جب انہیں یاد آیا کہ واجدعلی سال میں ایک دو مرتبہ آیا کرے گا تو جدائی کی کسک ختم تو نہ ہو سکی کم ہوگئی۔
واجد علی نے لندن پہنچ کر ایک ہفتے بعد اپنی خیریت کے علاوہ یہ بھی لکھ دیا کہ اس کی قسمت جاگ اٹھی ہے اور اسے اپنا مستقبل بہت روشن نظر آرہا ہے ۔یہ الفاظ پڑھ کر صدیقی اور اس کی بیگم طاہرہ کو دلی مسرت ہوئی اور اسی روز واجد علی کو اس کے خط کا جواب بھیج دیا گیا ۔
تین ماہ بیت گئے۔واجد علی نے کوئی خط نہ لکھا۔خط نہ لکھنے کی وجہ واجدعلی کی مصروفیات کو قرار دیا گیا۔تین ماہ اور گزر گئے۔ساتویں ماہ کے دوسرے ہفتے میں واجدعلی نے اپنے پیارے دوست کو خط لکھ کر یہ یقین دلانے کی کوشش کی کہ جس قسم کی ذمہ داریوں سے اسے سابقہ پڑا ہے، ان کا اسے کوئی تجربہ نہیں تھا ،اس لیے انہیں الجھنوں میں گرفتار رہا مگر اب کوئی دقت باقی نہیں رہی اور وہ اپنے فرائض بڑی مستعدی اور سہولت کے ساتھ ادا کر رہا ہے۔
وقت گزرتا چلا گیا۔صدیقی کا کاروبار ترقی پذیر رہا مگر اچانک ایسا حادثہ ہوگیاکہ اس کی ساری مالی آسودگی ختم ہوکر رہ گئی۔ہوا یہ کہ جس کلاتھ مارکیٹ میں صدیقی کی دکان واقع تھی، اس کے ساتھ والی دکان میں آگ لگ گئی۔رات کے وقت کسی کپڑے کی دکان سے شعلے بلند ہوں تو اردگرد کی دکانیں متاثر ہوئے بغیر کیوں کر رہے سکتی ہیں؟صدیقی کی دکان کے تھان بھی ادھر ادھر جلنے لگے اور جب تک آگ بجھانے والا انجن آیا ،دکان کا سارا اثاثہ راکھ کا ڈھیر بن گیا۔
”اب کیا ہوگا۔اپنی اور اپنے خاندان کی کفالت کیسے ہو؟“یہ سوال صدیقی کے ذہن میں ایک نوک دار کانٹا بن کر چبھنے لگا ۔
انہی دنوں واجد علی کا خط آ گیا جس میں اس نے اپنی کامرانیوں اور اپنے بزرگ کی مہربانیوں کا ذکر بڑی تفصیل سے کیا۔صدیقی بہت پریشان تھا لیکن اس نے اپنے دوست کو ذاتی صدمے میں شریک کرنا مناسب نہ سمجھا اور واجد علی کو ایک عام سا خیریت کا خط لکھ دیا۔چند روز کسی نہ کسی طرح گزر گئے مگر اس طرح گزر اوقات تو ناممکن تھی۔صدیقی کے پاس دکان کو نئی زندگی دینے کے لیے سرمایہ تھا نہیں ۔دکان پر نظر ڈالتا تھا تو اس کا کلیجہ دھک سے رہ جاتا تھا۔
ایک دوپہر کو وہ ان تھانوں کی تلاش میں سرگرداں تھا جوادھ جلے تھے یا جن کا کچھ حصہ جلنے سے محفوظ رہ گیا تھا۔اس وقت اس نے دیکھا کہ ایک شخص اسے دکان سے باہر اشارے سے بلا رہا ہے۔وہ باہر آیا،اس حالت میں کہ اس کے دونوں ہاتھ سیاہ ہو چکے تھے اور چہرے پر بھی داغ دکھائی دے رہے تھے ۔باہر آکر اس نے سوالیہ نگاہوں سے اس شخص کو دیکھا۔
”آپ کو آغاجی یاد کرتے ہیں۔“
صدیقی کو معلوم تھا کہ کلاتھ مارکیٹ کے باہر سلمان آغا کے نام سے ایک پراپرٹی ڈیلر بھی کام کرتا ہے۔اسے اس کی دکان کا علم تھا لیکن وہاںگیا نہیں تھا اور نہ ہی کبھی اس سے بات چیت ہوئی تھی۔اس نے کھلی دکان اپنے پڑوسی کے سپرد کی اور آغا کی دکان کی طرف چلنا شروع کر دیا۔دکان پر پہنچا تو ایک سفید داڑھی والے پر شفقت چہرے نے اس کا استقبال کیا۔
”پہلے ہاتھ منہ دھو لیجئے،پھر گفتگو ہوگی۔“آغا جی نے دکان کے اندر غسل خانے کی طرف اشارہ کیا۔چند منٹ کے بعد وہ آغا جی کے سامنے صوفے پر بیٹھا تھا۔
”آپ کا بہت نقصان ہوا ہے۔مجھے آپ سے ہمدردی ہے۔“آغا جی نے آغاز ِ گفتگو کرتے ہوئے کہا۔
”جی آغا جی۔سارا کاروبار تباہ ہوگیا ہے۔آپ کی ہمدردی کا شکریہ۔“
”میرے عزیز! “آغاجی نے پرخلوص لہجے میں کہا: ”سوکھی ہمدردی مجھے پسند نہیں۔“
صدیقی ہمہ تن گوش ہو گیا۔آغاجی خاموش رہے۔چائے آ گئی اور وہ خود چائے پیالیوں میں ڈالنے لگے۔
”عزیز من! سوکھی ہمدردی بے معنی ہے۔میں عملی ہمدردی کا قائل ہوں اور یہ عملی ہمدردی اس صورت میں ہوسکتی ہے کہ میں آپ کے دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے میں جو کچھ کر سکتا ہوں وہ کروں۔کیا میں درست کہہ رہا ہوں؟“
”جی آغا جی۔“صدیقی کے لہجے میں کسی قدر حیرت بھی تھی،”یہ آپ کی مہربانی ہے کہ آپ نے ایسا سوچا ہے۔“
”عزیز من! “آغا جی نے فوراً کہا،”میں سوچنے والا آدمی نہیں ہوں،کرنے والا آدمی ہوں۔عملی آدمی ہوں۔سمجھے۔“
”جی ہاں۔“صدیقی نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔
”میں نے برے وقت کے لئے یا کسی خاص ضرورت کے لئے جو کچھ جمع کر رکھا ہے، اگر اس کی مدد سے تم حالات پر قابو پا لو تو اس سے بہتر کیا ہوگا؟“صدیقی کچھ کہنا چاہتا تھا مگر کہہ نہ سکا۔آغاجی نے میز کی سب سے نچلی درازکھول کر ایک لفافہ نکالا۔اس لفافے میں ہاتھ ڈال کر نوٹوں کی ایک گڈی برآمدکرکے صدیقی کے سامنے رکھی۔
”پچاس ہزار سے کام چل جائے گا؟“آغا جی نے سوال کیا۔
”جی آغا جی!“ حیرت کے عالم میں وہ یہی لفظ کہہ سکا۔
”کاش میرے پاس زیادہ رقم ہوتی۔جمع جتھا یہی کچھ ہے۔“
صدیقی کے ہونٹ خاموش رہے۔اس کی حیرت زدہ نظریں گڈی کو دیکھے جا رہی تھیں۔
”اٹھاؤ اور آزادی سے کام میں لاؤ۔میری دعائیں تمہارے ساتھ رہیں گی۔“
صدیقی ابھی تک چپ تھا۔
”سوچ کیا رہے ہو صدیقی! ایک انسان دوسرے کی مدد کر سکتا ہے تو کیوں نہ کرے۔شاید کچھ سوال ہوں گے تمہارے ذہن میں۔تمہارے چہرے سے ان کا پتہ چلتا ہے ۔کیا درست ہے؟“آغاجی نے سوالیہ نظروں سے صدیقی کو دیکھا۔
”سوال کیا ہوں گے آغا جی۔میں تو آپ کا….“
”بالکل نہیں۔میں کوئی احسان نہیں کر رہا کہ تم میرا شکریہ ادا کرو۔حالات ایک جیسے نہیں ہوتے۔مجھ پر بھی کبھی کوئی افتاد پڑ سکتی ہے۔کیا ایسا ہو نہیں سکتا۔“صدیقی نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
”اب اپنے سوالوں کے جواب سنو۔میں اس رقم کا کوئی نفع وغیرہ نہیں لوں گا۔جب چاہو اور معاشی حالت بہتر ہو جائے تو بالاقساط یا یک مشت ادا کر دینا….کوئی مجبوری نہیں ہے۔غالباً یہی سوال ہوں گے۔“یہ کہہ کر آغاجی خاموش ہوگئے۔
”آغا جی! میرے پاس شکریہ کے لئے مناسب الفاظ نہیں ہیں۔“
”عزیز من! پھر وہی بات۔بس اب جاؤ اور ایک لمحہ بھی ضائع مت کرو۔“
”اچھا آغاجی۔“صدیقی نے ممنونیت سے لبریز آواز میں کہا اور گڈی لفافے میں ڈالنے لگا۔
”اللہ برکت دے گا۔“
”ہاں صدیقی! میرے عزیز ! ہمیں قاعدے کی پابندی کرنی چاہیے۔“یہ کہتے ہوئے آغاجی نے وہی دراز دوبارہ کھولی۔اس میں سے اسٹام پیپر نکالا،”لکھت پڑھت کا ہمارا مذہب بھی حکم دیتا ہے۔مقرر الفاظ ہیں۔صرف دستخط کر دو۔ہاں پہلے غور سے پڑھ لو۔“
صدیقی ایسی تحریروں سے واقف تھا۔اس نے ایک نظر کاغذ پر ڈالی۔
”ٹھیک ہے آغا جی!“
آغاجی نے جیب سے فونٹین پن الگ کرکے صدیقی کی طرف بڑھا دیا اور صدیقی نے دستخط کر دیے۔
”کام ختم۔اللہ کا نام لے کر مصروف ہو جاؤ۔“آغا جی نے بڑی گرم جوشی کے ساتھ صدیقی سے مصافحہ کیا اور دکان سے باہر چند قدم اس کے ساتھ چلے۔اس وقت کہ صدیقی گھر کی طرف لوٹ رہا تھا تو ایک ہی خیال اس کے ذہن پر حاوی تھا اور وہ خیال یہ تھا کہ آغا جی کتنے نیک اور ہمدرد انسان ہیں۔کیسے برے وقت میں میری مدد کی ہے۔
صدیقی نے بڑی آسانی سے اپنا تباہ شدہ کاروبار سنبھال لیا اور اس کے یہاں مالی آسودگی لوٹ آئی۔اب صدیقی نے اپنا معمول بنا لیا تھا کہ آٹھ دس روز بعد آغا جی کے یہاں جاکر کچھ وقت گزار کر گھر آتا تھا۔آغا جی خوش مزاج آدمی تھے۔خوشگوار موڈ میں گفتگو کرتے تھے۔ان کے چہرے پر صدیقی نے کبھی پریشانی کے غیر مبہم اثرات بھی نہیں محسوس کیے تھے مگر اس روز ان کا چہرہ واضح طور پر کچھ فکر مند دکھائی دیتا تھا۔
صدیقی نے اس دن تو خاموشی ہی اختیار کیے رکھی کیوں کہ آغاجی کی دکان پر کافی لوگ جمع تھے۔ان کی موجودگی میں پریشانی کی وجہ پوچھنا مناسب نہیں تھا۔دوسرے روز وہ تنہا بیٹھے تھے۔رسمی باتوں کے بعد صدیقی نے استفسار کیا:
”آغا جی! خدانخواستہ آپ پریشان ہیں۔“
آغا جی کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ آ گئی،”میرے عزیز! زندگی میں پریشانیاں تو آتی رہتی ہیں۔یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔“
”تو آپ کو….“
”ایک معاملہ درپیش ہے، خیر ٹھیک ہے۔“
”پھر بھی….“صدیقی وجہ پوچھنے پر مصر تھا۔
آغاجی چند لمحے خاموش رہے۔پھر کہنے لگے:
”شام کو آپ کے پاس آؤں گا تو بتاؤں گا۔“
شام گزرنے کے بعد آغاجی آئے:
”وعدہ پورا کر رہا ہوں عزیز میرے۔“
”شکریہ آغا جی!“
چائے پی گئی….اس دوران میں کم باتیں ہوئیں۔صدیقی نے محسوس کیا کہ آغا جی پہلے کی طرح گفتگو میں حصہ نہیں لے رہے اور ان کے انداز ِ گفتگو سے ان کی اندرونی بے چینی کا اظہار ہو رہا ہے۔
”آغا جی! آپ میرے بزرگ ہیں…. اور میرے محسن بھی ہیں….“
”شکریہ میرے عزیز! میں سمجھتا ہوں کیا کہنا چاہتے ہو….قصہ یہ ہے کہ میں اور میرا بیٹا جس مکان میں رہتے ہیں وہ بہت تنگ ہے۔میرا بیٹا ماشاءاللہ چار بچوں کا باپ ہے اور میں بھی بوجھ تلے دبا ہوں۔بیمار بیوی ہے۔بیوہ بہن ہے۔اس کے بچے ہیں….کیا کیا جائے؟“
”ایک ہی مکان میں رہنا ضروری ہے آغا جی!“
”کیا کیا جائے۔ایک مکان گروی مل رہا تھا۔پچاس ہزار کی ضرورت تھی مگر تمہاری ضرورت مقدم تھی….“
صدیقی نے احساس احسان مندی سے سر جھکا لیا۔
”چند ماہ کے لیے سر چھپانے کی جگہ مل جائے تو معاملہ ٹھیک ہو جائے گا۔کچھ رقم ملنے والی ہے۔ایک ماہ کے بعد ملی یا دو ماہ کے بعد ضرور مل جائے گی۔آج بھی یہاں سے اٹھ کر ایک صاحب کے ہاں جانے کا ارادہ ہے ۔“اور آغا جی اٹھ بیٹھے۔”خدا حافظ“ کہا اور چلے گئے۔
ان کے جانے کے بعد صدیقی نے اپنی بیوی سے اس بات کا تذکرہ کیا تو وہ بولی:
”آغا جی! ہمارے محسن ہیں۔واجد بھائی کا مکان خالی ہے۔کیا خیال ہے؟“
”میں بھی یہی سوچ رہا ہوں….آغا جی نے کہا ہے کہ تھوڑی مدت کے لئے سر چھپانے کے لیے جگہ چاہیے۔جلد خالی کردیں گے۔بڑے ذمہ دار آدمی ہیں….“
”جب ان پر پورا پورا اعتماد ہے تو ان کی ضرورت پوری کرنے میں آخر کیا حرج ہے؟“
طاہرہ نے دیکھا کہ اس کا شوہر کچھ سوچنے لگا ہے۔
”سوچ کیا رہے ہو عالی کے ابا؟“
”سوچنا ہی پڑتا ہے۔ہمیں آغا جی پر مکمل اعتماد تو ہے مگر یہ گھر واجد علی کی امانت ہے۔اس کی اجازت کے بغیر….“
”کمال کرتے ہیں آپ بھی۔انہیں یہ بتانے کی کیا ضرورت ہے؟“
”امانت کا خیال ہے نا….طاہر ہ۔“
”فکر نہ کریں….ابھی واجد بھائی واپس آنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔آغاجی کو چند ماہ کے لیے مکان چاہیے۔“
بیوی کے کہنے پر صدیقی نے خاموشی اختیار کرلی۔شوہر کے جانے کے بعد طاہرہ نے اپنے بچوں کی مدد سے واجد علی کے گھر میں جھاڑ پونچھ کی۔گھر میں بہت کم سامان تھا۔کچھ ضرورت کی اشیاءتھیں جنہیں طاہرہ نے ایک اسٹور میں مقفل کردیا۔دوسرے روز واجدعلی کا مکان آغا جی کے کنبے اور ان کے اپنے سامان سے آباد ہوگیا۔
آغا جی پہلے بھی صدیقی کے ساتھ بزرگ گوارانہ شفقت کا سلوک کرتے تھے اور اس کی مہربانی کے بعد یہ سلوک صدیقی کے بچوں کے حصے میں بھی آگیا۔صدیقی اپنی جگہ بہت مطمئن تھا کہ مکان کے معاملے میں کوئی دقت نہیں ہوئی مگر واجد علی کا آخری خط ملا تو کانٹا جو بظاہربے ضرر محسوس ہوتا تھا، اس نے پہلی مرتبہ اپنی چبھن کا احساس دلایا۔
واجد علی نے لکھا تھا کہ اس کے جس بزرگ نے لندن میں اسے نہ صرف پناہ دی تھی بلکہ اس کو فکر معاش سے بھی آزاد کردیا تھا۔دنیا سے چلا گیا ہے اور ا سے اس کا بڑا صدمہ ہوا ہے۔
چند روز کے بعد جو خط آیا اس نے چبھن تیز کردی ۔لکھا تھا:
”صدیقی بھائی! معاملات ایک نیا رخ اختیار کر رہے ہیں۔مرحوم کے بیٹے باپ کے مزاج کے آدمی نہیں ہیں۔انہوں نے خود کاروبار سنبھالنا شروع کر دیا ہے۔ملازموں کو ملازمت سے جواب دے رہے ہیں۔ابھی مجھ سے کچھ نہیں کہا گیا مگر آثار بتا رہے ہیں کہ میری بھی خیر نہیں ہے۔“
صدیقی نے اپنی بیوی سے اس خط کا ذکر کیا۔
”گھبرانے کی کیا بات ہے عالی کے ابا! آغا جی کو یہاں رہتے ہوئے سات ماہ بیت گئے ہیں۔انہوں نے چند ماہ ہی کے لئے تو کہا تھا میں خود ان کی بیگم سے کہہ دوں گی۔“
صدیقی فکرمند تو ضرور تھا مگر زیادہ نہیں، لیکن جب واجد علی نے یہ لکھا کہ اب اس کے لیے لندن میں رہنا مشکل ہو گیا ہے،تو پریشان ہو کر خود آ غاجی کہ یہاں ان کی دکان پر پہنچ گیا۔
”آؤ صدیقی! ارادہ تھا کہ گھر آکر سب سے پہلے تم سے ملوں گا۔خود ہی آ گئے ہو اچھا کیا ہے۔کوئی معاملہ ہوگا؟“
”جی ہاں۔“اور صدیقی نے واجد علی کا خط جیب سے نکال کر ان کی طرف بڑھا دیا۔آغا جی نے تحریر پر ایک سرسری نگاہ ڈالی۔
”بدقسمتی ہے کہ تمہارا دوست اپنے بزرگ کے بیٹوں سے اچھے تعلقات نہیں رکھ سکا۔“
”آغا جی! اس میں میرے دوست کا قصور نہیں ہوگا۔کون بے روزگار ہونا چاہتا ہے۔“
آغاجی نے صدیقی کو چند لمحے گھور کر دیکھا:
”میرے برخوردار….میرے عزیز! زندگی میں بہت کچھ برداشت کرنا پڑتا ہے۔تعلقات کوخوشگوار رکھنا اورانہیں بگاڑنا انسان کے اپنے اختیار میں ہوتا ہے۔بہرحال جو ہوا اچھا نہیں ہوا….“آغا جی ذرا رکے، ”اب معاملہ ہے گھر کے خالی کرنے کا تو میں برابر کوشش کر رہا ہوں۔کوشش تیز تر کر دوں گا۔“
”یہی عرض کرنے حاضر ہوا ہوں۔“
”ہاں ٹھیک ہے۔مطمئن رہو….اللہ بہتر کرے گا۔“
واجد علی کا رجسٹر خط آیا،”صدیقی بھائی !حالات پریشان کن ہو گئے ہیں۔یہاں رہنے کو جی ہی نہیں چاہتا۔ادھر ادھر بھی کوشش کی۔ملازمت نہیں ملی، واپس آنے کے سوا کوئی چارہ کار نہیں رہا۔جس فلیٹ میں رہتا تھا،وہ انہیں بزرگ کے بیٹوں کا ہے اور مجھے جلد سے جلد خالی کرنے کا نوٹس دے دیا گیا ہے۔میرے کمرے ٹھیک ٹھاک کر رکھو۔اگلے خط میں واپسی کی تاریخ بتاؤں گا۔“
یہ خط بھی صدیقی نے آ غاجی کو دکھایا۔
”فکر کی کیا بات ہے۔اس نے حتمی تاریخ تو بتائی نہیں۔حالات بدلتے دیر نہیں لگتی۔ممکن ہے وہ لوگ ایک تجربہ کار کارندے کو چھوڑنا نہ چاہیں۔یہ بات ان کے مفاد میں جاتی ہے۔“
”وہ آنے ہی والا ہے۔“
”مشکل یہ ہے کہ میرے عزیز! تم بڑی جلدی گھبر ا جاتے ہو۔“آغاجی کے لہجے میں ذرا تلخی کا احساس بھی شامل تھا۔دوسرے ہفتے ہی لندن سے خط آگیا۔یہ بھی رجسٹری کے ذریعے بھیجا گیا تھا اور 2 دسمبر واپسی کی تاریخ درج تھی۔
اب کے صدیقی کی بیگم نے آغاجی کی بیگم سے رابطہ قائم کیا۔بیگم نے کہا:
”آغا جی تو خود پریشان ہیں۔مکان کی کوشش کر رہے ہیں۔بیٹے کے گھر میں جانا بالکل مناسب نہیں سمجھتے۔تسلی رکھو اور اپنے میاں کو بھی تسلی دو۔“
آغاجی گھر دیر سے آتے تھے اور صبح سویرے ہی چلے جاتے تھے۔اپنی دوکان پر بھی موجود نہیں ہوتے تھے۔ایک شام وہ بازار میں نظر آگئے۔
”آغا جی! ایک ہفتہ باقی رہ گیا ہے۔“
”جانتا ہوں۔میرے عزیز جانتا ہوں۔“
”کمروں کی صفائی وغیرہ بھی کرنی ہوگی۔سامان بھی ترتیب سے رکھنا ہوگا۔“
”ہو جائے گا۔ان شاءاللہ ہو جائے گا۔دیکھتے نہیں ہو گھر میں کتنی دیر سے آتا ہوں۔مکان کی تلاش ہی میں تو گھومتا رہتا ہوں۔پرسوں شام تک مہلت دو۔“
وہ دن بھی گزر گیا۔صدیقی نے رات گئے آغاجی کا دروازہ کھٹکھٹایا۔
”آغا جی! معاف کیجئے۔آپ سو رہے ہوں گے ،بے آرام کیا۔“
”سنو صدیقی! میں جو کچھ کرسکتا تھا کر چکا ہوں۔اصل میں قصہ یہ ہے کہ ہر مکان والا پگڑی مانگتا ہے۔پگڑی بھی نہ مانگے تو ڈیڑھ دوسال کا یک مشت کرایہ طلب کرتا ہے۔میں اپنی ساری پونجی تمہیں دے چکا ہوں۔رقم مل جائے تو بات بن جائے گی۔“
”آغا جی! میں کہاں سے اتنی بڑی رقم کا انتظام کروں۔“
”یہ میں نہیں جانتا۔جو حقیقت ہے اس کا اظہار کردیا ہے۔اب تم جانو۔“
صدیقی نے غصہ ضبط کرنے کی کوشش کی مگر نہ کر سکا۔
”آغا جی! معاف کیجئے۔آپ نے کچھ اچھا نہیں کیا۔میں نے آپ پر اعتماد کیا تھا۔دوست کی امانت آپ کے سپرد کردی تھی۔آپ پر اعتماد کرنے کا یہ نتیجہ نکلنا تھا۔“
آغاجی کرسی سے اٹھ بیٹھے ۔
”جو کہنا ہے کہہ دو….میری مجبوری ہے اور بعض مجبوریاں ایسی ہوتی ہیں کہ انسان ان پر قابو نہیں پا سکتا۔دوست کا اپنے ہاں ہی انتظام کر لو….اکیلا ہے۔بوجھ نہیں ہوگا۔“
”نہیں آغاجی! وہ سمجھے گا میں نے اس کی امانت میں خیانت کی ہے۔“
”یہ تم سمجھ رہے ہو وہ نہیں سمجھے گا۔“آغاجی اندر چلے گئے اور زور سے دروازہ بند کردیا۔
واجد علی کے گھر آنے میں صرف دو دن باقی رہ گئے تھے اور اس کا گھر آغاجی ہی کے زیر تصرف تھا۔صدیقی کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کرے۔اس نے دوست کی امانت میں خیانت کی تھی۔یہ احساس اس کے ذہن میں بڑھتا جارہا تھا اور اس احساس کے ساتھ اس کے غم و غصے میں بھی اضافہ ہوگیا تھا۔وہ اپنی دکان سے اٹھ کر آغاجی کے ہاں چلا گیا۔آغا جی دکان پر تنہا بیٹھے تھے۔
”آغا جی! آپ نے میری پوزیشن بہت خراب کردی ہے۔“
آغا جی نے ایک لمبا سانس لیا۔
”بالکل درست کہہ رہے ہو میرے عزیز!اب یہ کون دیکھے گا کہ میری بوڑھی ہڈیاں کس طرح کھڑکھڑا رہی ہیں اور پیسہ نہ ہونے سے میں کتنا ذلیل ہو کر رہ گیا ہوں۔“
”نہیں ملا مکان؟“
”اس خوفناک مذاق کی کیا ضرورت ہے؟“آغا جی کا چہرہ غصے سے کسی قدر سرخ ہو گیا تھا ۔
”تو کیا کیا جائے آغا جی! ہم اپنا گھر خالی کیے دیتے ہیں۔آپ ادھر آ جائیں۔میرے دوست کو اپنا گھر تو خالی ہی ملنا چاہیے۔“
آغا جی نے سر جھکا لیا جیسے کچھ سوچنے لگے ہو ں۔
”میری کمزور ہڈیوں کا سرمہ تو نہیں بنا دو گے۔بہت خجل خوار ہوا ہوں مکان کی تلاش میں۔“
”نہیں۔“
”تین ماہ تک میری رقم دے دو گے تو میں خواہ سڑک پر جا بیٹھوں۔گھر خالی کر دوں گا۔بصورت دیگر….سمجھ لو غور کر لو۔“
”دیکھا جائے گا آغا جی۔“
”میں عملی آدمی ہوں۔جانتے ہو نا۔“
صدیقی خاموش رہا۔گھر آکر جب بیوی سے ذکر ہوا تو وہ ہکا بکا رہ گئی۔
”یہ تم نے غضب کیا ہے۔“
”جو کچھ ہوا ٹھیک ہوا ہے۔“
”گھر ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گا عالی کے ابا، سوچا بھی ہے۔“
”کچھ بھی ہوجائے میرے دوست کو اس کا گھر مل جانا چاہیے۔میں نے امانت میں خیانت کی ہے۔یہ ایک افسوسناک نہیں شرمناک حرکت ہے۔“
صدیقی کی بیوی اسے بٹر بٹر دیکھتی رہ گئی۔
”کل گھر خالی ہو جائے گا….صفائی وغیرہ ہو جانی چاہیے۔“
”مگر عالی کے ابا۔“
”میں جانتا ہوں کیا کہنا چاہتی ہو۔ہم کدھر جائیں گے۔میرے ایک دوست کا کافی بڑا مکان خالی ہوگیا ہے۔اس کا اوپر کا یا نچلا حصہ کرائے پر لے لیتے ہیں۔ابھی جاتا ہوں بات کرنے۔“
دوسرے روز صبح سے لے کر شام تک ساری کارروائی مکمل ہوگئی۔صدیقی نے اپنا سامان اپنے دوست کے خالی مکان کے اوپر کے حصے میں منتقل کر دیا اور آغا جی اس کے مکان میں چلے گئے۔رات کو بیگم صدیقی نے اپنے بچوں کی مدد سے واجد علی کے گھر کی جھاڑ پونچھ کر دی اور جو سامان الگ ایک کمرے میں بند رکھا تھا اسے ترتیب کے ساتھ رکھ دیا۔
چار بجے واجدعلی کی فلائٹ کو ایئرپورٹ پر پہنچنا تھا۔صدیقی اپنی بیوی بچوں کے ساتھ وہاں موجود تھا۔ خیر مقدم محبت کے ماحول میں ہوا۔ہوٹل میں کھانا کھانے کے بعد ٹیکسی منزل مقصود کی طرف جانے لگی تو صدیقی بولا:
”واجد! تم ایک تبدیلی دیکھو گے۔“
”کون سی تبدیلی۔“
”تم اپنے گھر میں جاؤ گے مگر اب میرا وہ گھر نہیں ہے۔“
”کیا مطلب؟“واجد نے بڑی حیرت سے پوچھا۔
”میں نے گھر بدل لیا ہے۔اس وقت تم اپنے گھر جاؤ۔اطمینان کے ساتھ دن گزارو۔ملاقات جلد ہو گی، سب کچھ بتاؤں گا۔“
”مگر تم نے وہ گھر چھوڑا کیوں؟“
”مجبوری تھی۔اب سوال مت پوچھو۔ باتیں ہوںگی اور ہوتی رہیں گی۔“
ٹیکسی حویلی کے سامنے رکی۔ابھی وہ لوگ نیچے اترنے بھی نہیں پائے تھے کہ آغا جی جو نہ جانے کب سے دروازے کے پاس کھڑے تھے ،جلدی جلدی قدم اٹھاتے آگئے۔
”صدیقی! کمال کر دیا تم نے۔مجھے ساتھ لے کر ایئرپورٹ پر کیوں نہیں گئے۔افسوس ہوا ہے خیرمقدم نہ کرنے پر۔“
صدیقی نیچے اترا۔
”آغا جی! اب جو آپ باہر کھڑے ہیں ،کیا یہ کم خیرمقدم ہے۔“
”میرے عزیز! وہ بات اور ہوتی ہے ۔خیر جو ہوا سو ہوا۔ اتریئے واجد صاحب ۔“
واجد اترا تو آغا جی نے اسے فورا گلے سے لگا لیا۔
”واجد! یہ ہیں آغا جی جو تمہارے ہمسائے ہیں۔“
”ہمسائے؟صدیقی۔کیا کہہ رہے ہو…. کیا ہم تمہارے ہمسائے تھے۔عزیزوں کی طرح رہتے رہے ہیں۔واجد کے بھی عزیز ہوں گے ان شاءاللہ۔“
”تکلف سے کام نہ لو۔سب اوپر چلیں،سامان اوپر پہنچ جائے گا۔“
”اب بتاؤ کیا گزری تم پر!“
صدیقی نے ساری روداد سنادی۔
”بہت برا ہوا صدیقی،مگر قصوروار تم ہو۔“واجد نے اپنے رد عمل کا اظہار کیا۔
”میں اعتراف کرتا ہوں۔“صدیقی بولا،”میں نے امانت میں خیانت کی تھی۔“
”جو کچھ ہوا تلخی پیدا ہوئی۔ جو مشکلات آئیں۔ان سب کی وجہ صرف یہی حرکت تھی جس کا تم نے ذکر کیا ہے۔“
”میں شرمندہ ہوں اور شرمندہ رہوں گا۔“یہ الفاظ کہہ کر صدیقی نے اپنا سر جھکا لیا۔
”اب اسے بھول جاؤ….میری خاطر بھول جاؤ….ویسے صدیقی! یہ آغا جی بہت اچھے اور ہمدرد آدمی لگتے ہیں ۔ خوب خاطرمدارات کی ہے ان کے گھر والوں نے۔ آج نیا فرنیچر خریدنے،لانے اور رکھنے میں ہر لمحہ میرے ساتھ رہے ہیں۔“
صدیقی مسکرانے لگا۔پھر چند لمحے دونوں چپ رہے۔صدیقی بولا:
”واجد تم مجھ سے بہت سمجھ دار ہو….اپنے بارے میں خود سوچ سکتے ہو۔میں پھر وہی بات دہراتا ہوں۔میری مجبوری تھی اور آغا جی کی بھی۔“
بس دونوں کے درمیان ہفتے میں کبھی ایک اور کبھی دو مرتبہ ملاقات ہو جاتی۔ان ملاقاتوں میں واجد علی ،آغاجی کے حسن سلوک کی بڑی تعریف کرتا تھا بلکہ یہاں تک کہ پورا مہینہ ملاقات کے بغیر گزر گیا تو صدیقی خود آغاجی کی دکان پر پہنچا۔آغا جی نظر نہیں آرہے تھے۔
”آغا جی کہاں گئے؟“صدیقی نے ہمسائے سے پوچھا۔
”آپ کو نہیں معلوم ،انہوں نے واجد علی کے ساتھ مل کر شادمان کالونی میں امپورٹ ایکسپورٹ کا کاروبار شروع کر رکھا ہے“۔صدیقی نے مزید کچھ نہ پوچھا اور واپس آگیا۔
بیوی کے اصرار کے باوجود صدیقی حویلی میں جاکر اپنے عزیز دوست سے ملنے پر راضی نہ تھا۔اس نے بیوی سے کہا:
”طاہرہ! جب اسے ملنے کی ضرورت نہیں رہی تو میں کیوں جاؤ ںآخر؟“
”آپ نے تو خواہ مخواہ انا کا مسئلہ بنا لیا ہے۔“
طاہرہ نے اپنی طرف سے بات ختم کردی۔صدیقی نے بھی بات ختم کر دی مگر یہ فقرہ کہہ کر کہ،” وہ ایک دن خود آئے گا ۔ تین چار ماہ بعد یا زیادہ مدت بعد، خود آئے گا ضرور۔“
اور چند ماہ بعد ہی ایسا واقعہ ہوگیا۔رات کو نو کا وقت ہوگا۔برسات کی رات تھی۔تیز بارش ختم ہوگئی تھی مگر بونداباندی جاری تھی۔
”تم واجد….!“
”کیوں حیرت ہوئی ہے مجھے دروازے پر دیکھ کر؟“
”حیرت کیوں ہوگی مگر اتنی مدت ملے جو نہیں ہو اور اب جبکہ آئے ہو تو بڑے پریشان دکھائی دیتے ہو۔آﺅ اندر آؤ۔“
یہ کہہ کر صدیقی نے واجد کا بھاری سوٹ کیس اٹھا لیا۔طاہرہ نے بھی واجد کا چہرہ دیکھ کر اندازہ لگالیا کہ وہ عام حالت میں نہیں ہے۔رسمی بات چیت کرکے طاہرہ باورچی خانے میں چلی گئی۔
”اطمینان سے بیٹھ جاؤ واجد! اس طرح کیوں بیٹھے ہو؟“
واجد اسی انداز میں بیٹھا رہا۔
”صدیقی!“
”کہو۔“
”یہ تمہارا آغا تو بہت ہی ظالم آدمی ثابت ہوا ہے ….“
صدیقی نے ہاتھ ہلا کر اسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔
”یہ غلط کہا ہے تم نے ، آغا میرا نہیں ہے۔تمہارا بھی نہیں ہے۔کسی کا بھی نہیں،آگے کہو۔“
”میں نے تمہیں بتایا تھا کہ میرے بزرگ کے بیٹوں نے میرے ساتھ برا سلوک کیا تھا۔ملازمت سے جواب دیا،جو بزرگ کے ہاں جمع کیا تھا۔بیٹوں نے وہ ضبط کر لیا۔اتنی رقم مل سکی کہ کرایہ ادا کرکے یہاں اپنے گھر کا سامان خرید سکوں۔یہاں آغا نے بڑی ہمدردی کی،بڑا ساتھ دیا۔اپنا پرانا کام ختم کرکے مجھے نئے کاروبار میں شامل کرلیا اور شراکت کے طور پر میری طرف سے ایک لاکھ روپیہ بھی کاروبار میں لگا دیا۔
کچھ ماہ بہت اچھے گزرے۔دولت کی ریل پیل رہی پھر ہمارے کارندے نقصان کی اطلاع دینے لگے۔یہاں تک کہ ایک دن آغا نے بتایا۔بینک بیلنس چند ہزار رہ گیا ہے۔“واجد خاموش ہوگیا۔
”اور….؟“صدیقی کے ہونٹوں سے بے ساختہ نکلا۔
”اور کیا۔آغا اپنی ایک لاکھ کی رقم طلب کرنے لگا۔میں نے بڑے غصے سے کہا،یہ کاروبار جو ہم نے کیا تھا تنہا میرا نہیں تھا،ہم دونوں کا تھا۔دونوں کی آمدنی ہوتی تھی تو اب نقصان بھی دونوں کا ہوا ہے۔“
آغانے زہر آلود لہجے میں کہا:
”بڑے بھولے بنتے ہو۔لو یہ دیکھو۔“
اور اس نے جھٹ وہ کاغذ اپنی جیب سے نکال کر میرے سامنے رکھ دیا جس میں میں نے یہ تحریر دی تھی کہ اپنے حصے کا ایک لاکھ ادا کر دوں گا۔صدیقی! میں یہ تحریر بھول چکا تھا ۔میرے تن بدن میں آگ لگ گئی۔میں نے اس کا گریبان پکڑ لیا اور جو منہ میں آیا اس سے کہہ دیا مگر مجھے جھوٹا ثابت کرنے کے لئے وہ تحریر باقی تھی۔سب نے یہی فیصلہ کیا کہ اپنے وعدے کے مطابق رقم ادا کرنا تمہارا فرض ہے۔میری جان عذاب میں آگئی۔غصے نے مجھے پاگل کردیا اور میں نے پچاس ہزار لے کر مکان اس کے حوالے کردیا۔سامان بھی دے دیا کیوں کہ مجھے اب اس سامان کی ضرورت نہیں ہے ۔جا رہا ہوں۔اب تم سے ملاقات کے لیے آیا ہوں۔“
”کہاں جانے کا ارادہ ہے؟“صدیقی نے پوچھا۔
”جہاں سے آیا تھا۔“
”مگر اب وہاں کون ہے واجد! وہاں تم سے کیا سلوک ہوا تھا بھول گئے ہو؟“
”اور یہاں کیا سلوک ہوا ہے صدیقی! نہ وہ سلوک بھولا ہوںا ورنہ یہ سلوک بھول سکوں گا۔“
طاہرہ چائے کی ٹرے لے کر آگئی۔چند لمحے سناٹا چھایا رہا۔سب کے دلوں میں سوال ابھرابھر کر جذباتی طوفان برپا کرتے رہے۔
”تم نے لندن جانے کا پکا ارادہ کر لیا ہے؟“صدیقی نے پوچھا۔
”یہ میرا حتمی فیصلہ ہے۔“
طاہرہ کے چائے بناتے بناتے ہاتھ یک لخت رک گئے۔وہ پھٹی پھٹی نظروں سے واجد کی طرف دیکھنے لگی۔بچے بھاگ کر شور مچاتے ہوئے وہاں آگئے مگر یہ سناٹا دیکھ کر خوف زدہ سے ہو کر خاموشی سے کرسیوں میں بیٹھ گئے۔
”مجھے جانا ہی ہوگا۔“
صدیقی نے اپنا ہاتھ بڑھا کر واجد کے دائیں کندھے پر رکھ دیا۔
”واجد میں روکوں گا نہیں….جب تم نے یہاں سے چلے جانے کا حتمی فیصلہ کرلیا ہے تو میرا روکنا بے سود ہے مگر دو تین باتیں کہنا چاہتا ہوں۔دیکھو میرے دوست! تم نے کہا ہے میرے ساتھ یہاں کیا سلوک ہواہے۔ یقینا برا سلوک ہواہے۔ ظالمانہ سلوک ہوا ہے، اور یہ میرے ساتھ بھی ہوا ہے۔میں سمجھتا تھا تم نے زندگی کا وسیع تجربہ باہر رہ کر حاصل کر لیا ہے۔سمجھ دار ہو۔ میرے جیسی بے سمجھی نہیں کرو گے مگر تم نے کی، لیکن میں کہہ چکا ہوں آغا جی نہ میرے ہی بنے ہیں نہ تمہارے۔وہ دنیا میں کسی کے بھی نہیں بن سکے۔ایسے لوگ اپنے ہوکر اپنے نہیں ہوتے۔ان کے سلوک یا فریب کاری کا ذکر نہ کرو۔“
صدیقی نے دو تین لمحے خاموش رہ کر واجد کے مضطرب چہرے کو غور سے دیکھا اور سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے کہنے لگا:
”تم پھر وہاں جانا چاہتے ہو جہاں سے اپنے دل پر زخم لے کر آئے تھے۔یہاں بھی تمہیں ایک زخم لگانے والا ہی ملا ہے ، مگر پیارے دوست!یہاں ایک زخم لگانے والا ہے تو ہزاروں لاکھوں زخموں پر مرہم افشانی کرنے والے بھی ہیں۔وہ دیارغیر ہے۔ اجنبی سرزمین ہے ۔غیروں اور اجنبیوں کا دیس ہے، جن کا تم سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔کوئی ہمدردی اور محبت نہیں ہے اور یہ تمہارا اپنا وطن ہے، اپنا دیس ہے۔ یہاں جو لوگ رہتے ہیں وہ تمہارے اپنے ہیں۔ ان کے سینوں میں تمہارے لئے خلوص ،محبت اور سچی ہمدردی کی روشنی ہے۔پیارے واجد! میں تمہارا پرانا دوست ہی نہیں ہوں تمہارے قدم قدم کا ساتھی بھی ہوں۔میری بیوی تمہیں سگے بھائیوں کی طرح چاہتی ہے ۔ میرے بچے تم سے لپٹ کر سچے اور معصوم پیار کی خوشبو بھی لٹاتے ہیں۔میرا تم سے صرف ایک سوال ہے۔کیا اپنے سارے پیاروں کو چھوڑ کر غیروں کے دیس میں چلے جاؤ گے، واجد! میں تمہیں روکوں گا نہیں…. کوئی بھی تمہیں روکے گا نہیں…. جانا چاہتے ہو تو جاؤ….“
پھر ایک مرتبہ گمبھیر ر اور اضطراب انگیز سناٹاچھاگیا۔ایسے میں واجد کا مضطرب چہرہ یوں پرسکون ہو گیا جیسے اس نے ایک گہرے کرب سے نجات پالی ہو۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top