skip to Main Content

روشنی ہی روشنی

میرزا ادیب
۔۔۔۔۔

شہر کے جنوبی حصے میں ایک گنجان گلی کے اندر اکثر مکانوں کی بتیاں بجھ چکی تھیں۔ان میں رہنے والے سو رہے تھے،مگر چند مکان ایسے بھی تھے جن کے روشن دانوں اور کھڑکیوں سے روشنی نکل رہی تھی۔اس روشنی سے معلوم ہوتا تھا کہ ان مکانوں کے باسی ابھی کسی نہ کسی وجہ سے جاگ رہے ہیں ۔انہی میں ایک چھوٹا سا مکان تھا جو گلی کی ایک روکے آخر میں واقع تھا اور جس میں دروازے سے لٹکی ہوئی ایک پرانی لالٹین جل رہی تھی۔اسی لالٹین کے نیچے ایک عورت جس کا نام ہاجرہ تھا مشین سے کوئی کپڑا سی رہی تھی۔
ہاجرہ اپنے کام میں دو گھنٹے سے مصروف تھی۔تھک کر نڈھال ہورہی تھی۔اس کی ا ٓنکھیں نیند کی وجہ سے بار بار بند ہوجاتی تھیں،مگر جیسے ہی اسے اپنے شوہر افضال کا خیال آتا تھا، نیند اڑ جاتی تھی اور اس کا ہاتھ مشین کی ہتھی پر حرکت کرنے لگتا تھا۔
ہاجرہ نے اپنے تینوں بچوں کو جو کچھ گھر میں میسر تھا،کھلا کر سلا دیا تھا اور وہ گہری نیند سورہے تھے۔افضال عام طور پر رات کو دیر ہی سے آتا تھا،مگر زیادہ سے زیادہ گیارہ بجے تک پہنچ جاتا تھا،مگر اب تو ساڑھے بارہ بج چکے تھے اور ابھی تک دروازے پر دستک نہیں ہو ئی تھی اور ہاجرہ کی حالت یہ تھی کہ ہر پندرہ بیس منٹ بعد اس کی نظر دروازے پر جا پڑتی تھی اور ایک بار تو وہ اٹھ کر دروازے پر جا بھی پہنچی تھی کہ افضال دروازہ کھٹکھٹا رہاتھا۔حال آنکہ یہ اس کا محض وہم تھا۔
افضال پہلے بیٹے کا باپ بنا تو حالت اور اچھی ہوگئی۔دوسرا بیٹا آیا تو مالی حالت میں کچھ فرق آگیا۔بیٹی نے جنم لیا تو وہ دکان جسے افضال اور اس کا ایک ساتھی احمد شاہ چلاتے تھے،اس کی پہلی رونق نہ رہی اور پھر تو یہ ہوا کہ روز بروز گھاٹا بڑھتا گیا۔کچھ مدت کپڑے کے بڑے تاجروں سے افضال اور احمد شاہ ادھار پر مال لے آتے تھے،مگر کب تک یہ سلسلہ چل سکتا تھا،انہوں نے بھی ہاتھ کھینچ لیاتو افضال اور احمد شاہ کی حالت اور گر گئی۔دکان کپڑوں سے خالی ہوتی جا رہی تھی۔
جس بازار میں اس کی دکان واقع تھی وہاں کپڑے کی تین نئی دکانیں کھل گئیں۔کاروبار چلانے کے لیے نئے سے نئے سامان کی ضرورت ہوتی ہے۔افضال اور احمد شاہ کے لیے یہ سلسلہ جاری رکھنا ممکن نہیں رہا تھا۔نتیجہ یہ ہوا کہ دکان کے پرانے گاہک نئی دکانوں کی طرف رخ کرنے لگے اور وہ دونوں بے کار بیٹھے رہتے۔
کچھ مدت بعد دونوں نے مجبور ہوکردکان اونے پونے داموں بیچ دی اور آدھی آدھی رقم لے لی۔احمد شاہ تو اپنے ایک دور کے رشتے دار کے ہاں راولپنڈی چلا گیا اور افضال وہیں ایک دکان دار کے ہاں حساب کتاب لکھنے پر ملازم ہو گیا۔
دکان بیچنے پر جو رقم افضال کو ملی تھی وہ چھ سات مہینے ہی میں ختم ہو گئی۔جہاں کام کرتا تھا وہاں تنخواہ اتنی کم ملتی تھی کہ مشکل سے گھر کے اخراجات پورے ہوتے تھے۔
افضال نے دوستوں کے ساتھ چائے پینے کے لئے ہوٹلوں میں بیٹھنا چھوڑدیا۔سگرٹ پینا بند کردیا۔امیر دوستوں کے ہاں شادی بیاہ میں شامل ہونے کا خیال بھی ذہن سے نکال دیا۔
ہاجرہ اپنے شوہر،اپنے اور بچوں کے کپڑے بھی خود ہی سینے لگی بلکہ محلے کی بعض امیر عورتوں کے لباس بھی سینے کے لیے گھر لے آتی تھی۔ افضال نے تو کبھی قسمت کا گلہ نہیں کیاتھا، مگر ہاجرہ اکثر غیر مطمئن دکھائی دیتی تھی۔
ایک بجے دروازے پر دستک کے بعد افضال کی آواز آئی:
”ہاجرہ! دروازہ کھولو۔“
ہاجرہ نے جلدی سے اٹھ کر دروازہ کھول دیا۔
”ہائے اللہ،آج کیا ہوا،اتنی دیر؟“
”بس دیر ہوگئی۔بچے سو گئے ہیں۔“
”دس بجے تک تمہارا انتظار کرتے رہے۔کھانا دوں؟“
”نہیں۔“افضال نے اسے بیٹھنے کے لیے کہا اور خود بھی اپنی چارپائی پر بیٹھ گیا۔
”سیٹھ اصغر نے بلایا تھا“
ہاجرہ کے چہرے پر تھوڑی سی رونق آگئی۔سیٹھ اصغر مارکیٹ کا سب سے بڑا بیوپاری تھا۔روزانہ لاکھوں کا بیوپار کرتا تھا۔ہاجرہ نے جب یہ سنا کہ سیٹھ نے اس کے شوہر کو بلایا تھا،وہ کسی خوش خبری کا انتظار کرنے لگی۔افضال خاموش تھا۔
”تو بتاﺅ نا۔“ہاجرہ کو اس وقت افضال کی خاموشی بالکل پسند نہیں تھی۔
”تمہیں خبر ہے!سیٹھ صاحب ہر سال کافی بڑی رقم کسی ضرورت مند کو دیتے ہیں۔“
”ہاں جانتی ہوں۔“ہاجرہ خوش خبری سننے کے لیے بے تاب تھی۔
افضال کہنے لگا،”سیٹھ صاحب بولے کہ میں ساری زندگی گھر سے باہر نہیں نکلا۔اب چاہتا ہوں کہ کچھ مہینے امریکا میں اپنے بچوں کے ساتھ گزاروں ۔اپنی بیوی اور چھوٹے بچوں کے ساتھ جی بھر کر یورپ کی سیر کروں۔ایک سال بعد واپس آﺅں گا۔“
ہاجرہ کے چہرے کا رنگ بتا رہا تھا کہ اس کی بے قراری بڑھتی چلی جا رہی ہے،تاہم وہ خاموش رہی۔افضال نے بات جاری رکھی۔
”سیٹھ صاحب مجھے خوب جانتے ہیں۔ان سے کئی بار مل چکا ہوں۔بولے کہ میں جانتا ہوں کہ تم امداد کے مستحق ہو۔اس لفافے میں رقم ہے لے لو۔“
ہاجرہ کی باچھیں کھل گئیں۔اس کے سارے چہرے پر تازگی آگئی۔
”کہاں ہے لفافہ؟“ہاجرہ یہ فقرہ کہتے ہوئے اس تھیلے کو دیکھنے لگی جو اس کا شوہر باہر جاتے ہوئے اپنے ہاتھ میں رکھتا تھا۔
”بات تو سنو۔“افضال نے ذرا غصے سے کہا۔ہاجرہ نے برا مانا، مگر خاموش رہی۔افضال نے ہاجرہ سے نظریں ہٹاتے ہوئے کہا:
”میں نے پوچھا،”سیٹھ صاحب!آپ رقم دینے سے پہلے پوری طرح تسلی کر لیتے ہیں کہ جس شخص کی امداد کرنا چاہتے ہیں وہ سب سے زیادہ مستحق ہے؟کیا اس مرتبہ بھی آپ نے ایسا ہی کیاہے؟“
ہاجرہ کا چہرہ کسی قدر پھیکا پڑگیا۔
”سیٹھ صاحب نے جواب میں کہا،میری نظروں میں تم مستحق ہو۔“
”مگر سیٹھ صاحب! سب سے زیادہ نہیں۔آپ نے مارکیٹ میں عبدالکریم کو دیکھاہوگا۔ٹوٹا پھوٹاکھوکھا لگا کر پان سگرٹ بیچا کرتا ہے۔سیٹھ صاحب! وہ مجھ سے زیادہ مستحق ہے۔پانچ بچوں کا باپ ہے۔بیوی ہمیشہ کی مریضہ ہے۔بڑی لڑکی جوان ہے،شادی کے لائق ہے۔“
یہ بات سن کر سیٹھ صاحب نے کہا:
”ٹھیک ہے، جو مناسب سمجھو کرو۔“
”تو؟“ہاجرہ نے بے قراری کی حالت میں سانس روک کر پوچھا۔
”ہاجرہ! میں نے وہی کیا جو مناسب سمجھا۔لفافہ عبدالکریم کے گھر دے آیا ہوں۔“
ہاجرہ کو اور تو کچھ نہ سوجھا،غصے سے دایاں ہاتھ زور سے اپنے ماتھے پر مارلیا۔
”میں پوچھتی ہوں!افضال تمہیں اپنے گھر کی غریبی، ٹوٹے پھوٹے مکان اورپھٹے پرانے کپڑے پہنے ہوئے بچوںکا خیال نہ آیا؟گھر آئی ہوئی رحمت کو ٹھکرا دیا۔تم سے زیادہ بے وقوف آدمی دنیا میں اور کون ہوگا؟“
ہاجرہ نے وہ سب کچھ کہہ دیا جو اس وقت اس کے جی میں آیا۔ افضال نے صبر وتحمل سے سب کچھ سنا۔بیوی کی کسی بات کا جواب نہ دیا۔کہا تو صرف یہ کہا:
”ہاجرہ!میرے ضمیر نے یہی فیصلہ کیاتھا۔عبدالرکیم مجھ سے زیادہ امداد کا مستحق ہے۔“
ہاجرہ کی آواز اور زیادہ بلند ہو گئی۔افضال اٹھ بیٹھا اور اپنی چارپائی پر جاکر لیٹ گیا۔دن بھر کی تھکن کی وجہ سے سو گیا۔ہاجرہ نہ جانے کب تک بولتی رہی۔پھر وہ بھی تھک کر لیٹ گئی۔
تیسرے روز، افضال،ہاجرہ اور تینوں بچے سیڑھیوں پر بیٹھے ناشتہ کرنے کی تیاری کررہے تھے ۔چنگیری میں کلچے رکھے تھے اور ہاجرہ پیالیوں میں چائے نکال رہی تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی۔افضال نے اپنے بڑے لڑکے کو کہا:
”اکبر! دیکھو جاکر کون ہے۔“
اکبر اٹھا اور دروازے سے باہر نکلا،مگر جلدی سے واپس آگیا۔وہ گھبرایا ہوا لگ رہا تھا۔
”اباجی!….سیٹھ“
”کیا کہا؟“
”سیٹھ جی!“اکبر نے دروازے پر ہی کھڑے ہو کر کہا۔
افضال فوراً اٹھ بیٹھا۔تیزی سے چلتا ہوا دروازے پر پہنچا۔باہر سیٹھ صاحب کھڑے تھے۔
”سیٹھ صاحب! آپ؟“افضال کو انہیں اپنے دروازے پر دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی تھی۔
”افضال! اس میں حیرت کی کیا بات ہے۔مجھے تم سے ایک ضروری بات کہنی تھی۔سوچا خود ہی گھر پہنچ کر کہہ دوں۔“
افضال نے دروازے کے دونوں پٹ کھول دئیے اور کہا:
”غریب خانے کے اندر تشریف لے آئیں۔“
سیٹھ صاحب نے دروازے کے اندر قدم رکھا تو ہاجرہ اور بچے پریشان ہو گئے۔ہاجرہ کھڑی ہوگئی۔
”بیٹھی رہو بیٹی!“سیٹھ صاحب نے کہا اور خود بھی ایک چارپائی پر بیٹھ گئے۔افضال ان کے قریب کھڑا تھا۔
”دیکھو افضال!مجھے ایک مدت سے ایک ایسے دیانت دار،نیک اور فرض شناس آدمی کی ضرورت تھی جو میرا کاروبار چلا سکے۔اللہ کا شکر ہے وہ آدمی مجھے مل گیا ہے اور وہ تم ہو۔“
”جی!“افضال کے منہ سے بے اختیار نکلا۔
”آج سے تم میرے منیجر ہو۔پرسوں ہم لوگ چلے جائیں گے۔کل دفتر آﺅ۔سارا معاملہ طے ہو جائے گا۔“یہ کہہ کر سیٹھ صاحب اٹھ گئے۔
”بس مجھے یہی کچھ کہنا تھا۔“اوروہ دروازے کی طرف جانے لگے۔
”سیٹھ صاحب! میں کس زبان سے آپ کا شکریہ ادا کروں؟“افضال کا چہرہ خوشی سے چمک رہا تھا۔
”شکریے کی ضرورت نہیں۔میں کل تمہارا منتظر رہوں گا۔“
سیٹھ صاحب دروازے سے نکل گئے۔افضال بھی ان کے پیچھے گیا اور جب واپس آیا تو اسے یوں محسوس ہوا کہ اس کے چاروں طرف روشنی ہی روشنی پھیلی ہوئی ہے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top