skip to Main Content

رسول پاک ﷺ

عبد الواحد سندھی

۔۔۔۔۔۔

رسول پاک ﷺ کون تھے؟

رسولؐ پاک کا دیس

جس طرف ہم اورآپ منہ کرکے نماز پڑھتے ہیں اسے مغرب کہتے ہیں۔ ہمارے ملک پاکستان سے دور مغرب کی طرف ایک مشہور ملک ہے اس کا نام عرب ہے۔
اس ملک کو دیکھو تو بس اللہ کی قدرت نظر آتی ہے۔ جدھر دیکھو ریت کے اونچے اونچے ٹیلے۔ گرمیوں میںیہاں سخت گرمی پڑتی ہے جیسے آگ برس رہی ہو، زور کی آندھیاں بھی چلتی ہیں۔
عرب میں پانی کی بہت کمی ہے۔ دریا اور ندی نالے بھی بہت کم ہیں۔ جہاں کہیں کوئی قدرتی چشمہ ہوتا ہے بس وہاں تھوڑے سے کھجوروں کے جھنڈ اور کچھ گھر نظر آتے ہیں، نہیں تو جدھر دیکھو بس ریت ہی ریت، یہاں کے بسنے والے بہت سے خاندانوں اور قبیلوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ بڑے بہادر اور ہمت والے ہوتے ہیں۔ ان کی دولت بس اونٹ ہیں اور بھیڑ بکریاں۔ یہ ان کا دودھ پیتے، گوشت کھاتے اور ان کے بالوں سے کپڑے اور رہنے کے لیے خیمے بناتے ہیں۔ گھوڑا ان کا سب سے زیادہ وفادار ساتھی ہے۔
رسولؐ پاک سے پہلے عرب کی حالت
اب سے سینکڑوں برس پہلے کی بات ہے۔ عرب کے بسنے والے بڑے بے رحم اور ظالم تھے۔ آدمی کی جان لینا ان کے لیے کوئی بات ہی نہ تھی۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑ مرتے تھے ان کی لڑائیاں تو پچاس پچاس برس تک ختم نہ ہوتی تھیں۔ گھر کے گھر اجڑ جاتے تھے۔
دل کے ایسے سخت کہ اپنی ننھی منی معصوم بچیاں پیدا ہوتے ہی اپنے ہاتھوں زندہ زمین میں گاڑ آتے۔ محتاجوں اور یتیموں کا مال ہڑپ کر جاتے، پردیسیوں اور مسافروں کو لوٹ لیتے۔ ایک اللہ کو بھی نہیں مانتے تھے۔ پتھر کے سینکڑوں دیوتا بنا رکھے تھے جنہیں اللہ کا ساجھی کہتے تھے۔ اس ملک میں ایک پیغمبر گزرے ہیں ان کا نام تھا حضرت ابراہیمؑ ۔ یہ اللہ کے بہت پیارے رسول تھے۔ انہوں نے اللہ کی عبادت کے لیے ایک گھر بنایا تھا جسے خانہ کعبہ کہتے ہیں۔ اللہ کے اس گھر کو یہاں کے رہنے والوں نے اپنے بتوں کا گھر بنا رکھا تھا۔ جانتے ہو اس میں کتنے بت تھے؟ بس یوں سمجھ لو کہ جتنے سال کے دن ہوتے ہیں اتنے ہی بت اس خانہ کعبہ میں تھے۔ عرب کے رہنے والے ان کے آگے سر جھکاتے تھے۔ پتھر اور مٹی کی ان ہی مورتوں سے اپنی مرادیں مانگتے تھے۔ یہ برائیاں صرف عرب ہی کے لوگوں میں نہ تھیں۔ دنیا کے دوسرے ملکوں کے رہنے والوں میں بھی تھیں۔ پہلے جو اچھے اور نیک لوگ ،نبی یا پیغمبر دنیا کو اچھی باتیں سکھانے آئے تھے۔ لوگوں نے ان کی بتائی ہوئی باتوں کو بھلا دیا تھا۔ دنیا میں چاروں طرف گناہ ہی گناہ تھا۔ نیکی کرنا لوگ بھول چکے تھے۔ جب آپ بڑے ہوں گے تو بڑی بڑی کتابوں میں یہ باتیں پڑھیں گے۔
اللہ نہیں چاہتا کہ اس کے بندے برے کاموں میں بس پھنسے ہی رہیں۔ وہ بڑا مہربان ہے اس نے ہمیشہ اپنے بندوں کو سیدھی راہ بتانے کے لیے نبی یا پیغمبر ؑ بھیجے۔ پہلے جب ساری دنیا برائیوں میں مبتلا تھی، اللہ میاں نے ساری دنیا کو سمجھانے اور نیک راہ بتانے کے لیے اپنی طرف سے ایک رسولؐ عرب میں بھیجا۔ جنہوں نے ساری دنیا کے لوگوں کو اچھی باتیں بتائیں اور بری باتوں سے روکا۔ ان کا پیارا نام محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ وہ اللہ کے سچے اور آخری رسول ہیں۔ انہوں نے ہمیں اسلام جیسا سیدھا سادہ آسان اور اچھا دین سکھایا۔ ہم مسلمان ان کے نام لیوا ہیں۔ ان ہی کے غلام ہیں ان ہی کا کلمہ پڑھتے ہیں۔ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ (اس کا مطلب یہ ہے کہ: ’’اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں)۔جب آپ بڑے ہوں گے تو پڑھیں گے کہ رسولؐ پاک نے عرب کو کس طرح بری باتوں سے تھوڑے ہی دنوں میں پاک کیا اور پھر ان کے ساتھیوں نے ان کی اچھی باتوں کو دنیا کے کونے کونے میں کیسے پھیلایا۔ آج اسلام کے ماننے والے آپ کو مشرق، مغرب، شمال اور جنوب میں کروڑوں کی تعداد میں ملیں گے۔ جوں جوں دنیا علم میں ترقی کرے گی اسلام کی سچی باتوں کا عام چرچا ہوتا جائے گا۔
رسولؐ پاک کی ولادت
رسولؐ پاک عرب کے ایک بڑے شہر مکہ میں عزت اور بزرگی والے گھرانے قریش میں پیدا ہوئے۔ آپؐ کے والد کا نام عبداللہ اور والدہ کا بی بی آمنہ تھا۔ آپؐ بچپن ہی سے یتیم ہوگئے تھے۔ آپؐ کے دادا عبدالمطلب نے آپؐ کو پالا پوسا۔ عبدالمطلب کے انتقال کے بعد آپؐ کے چچا ابوطالب نے آپؐ کی پرورش اور حفاظت کی۔
رسولؐ پاک مکہ میں
چالیس سال کی عمر میں اللہ میاں نے رسولؐ پاک کو ساری دنیا کے لیے اپنا آخری رسول بنایا۔ آپؐ پر قرآن پاک اتارا۔ آپؐ نے ساری دنیا کو قرآن پاک کی تعلیم دی۔ آپ پوچھیں گے قرآن پاک میں کیا ہے؟ رسولؐ پاک کو اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں بہت اچھی اچھی باتیں بتائیں جیسے ’’اے رسولؐ لوگوں کو اچھی باتیں بتاؤ اور بری باتوں سے روکو۔ صرف اللہ کی عبادت کرو۔ بتوں کی پوجا نہ کرو۔ یہ اچھی طرح جان لو کہ اللہ کا کوئی ساجھی نہیں، وہ اکیلا قدرت والا ہے۔ غریبوں کے ساتھ اچھی طرح پیش آؤ اور یتیموں پر رحم کرو۔‘‘ اسی طرح کی سینکڑوں اچھی اچھی باتیں قرآن پاک سکھاتا ہے۔ جب تم بڑے ہوگے تو قرآن میں یہ باتیں پڑھ لو گے۔
ان باتوں کے بتانے سے پہلے مکہ کے بسنے والے آپؐ کی بڑی عزت کرتے تھے۔ اس لیے کہ آپؐ چھوٹی عمر ہی سے ایماندار، سچے، نیک اور غریبوں کے مددگار، یتیموں، بیواؤں اور محتاجوں کے ہمدرد تھے۔ یہ تو تم پڑھ چکے ہو کہ مکہ کے بسنے والے بتوں کے پجاری تھے ۔سوچو تو بھلا ایسے لوگ بتوں کے خلاف کوئی بات کیوں کر سنتے؟ رسولؐ پاک نے انہیں بتوں کی پوجا سے روکا تو وہ بگڑ گئے اور رسولؐ پاک کے جانی دشمن ہوگئے۔ رسولؐ پاک اور مسلمانوں کو بری طرح ستایا گیا مگر جیت اسلام کی ہوئی۔
مکہ والے رسولؐ پاک کے خلاف ہوگئے
شروع شروع میں آپؐ اکیلے تھے۔ ساری خدائی آپؐ کے خلاف تھی۔ مکہ والوں نے آپؐ کو ستایا، دکھ دیئے، تکلیفیں پہنچائیں مگر آپؐ ہمت اور صبر کے ساتھ لوگوں کو بری باتوں سے روکتے رہے اور اچھی باتیں سکھاتے رہے۔ مکہ جیسے بڑے شہر میں کیا سب لوگ مغرور اور شریر تھے؟ نہیں! کچھ اللہ کے بندے ایسے بھی تھے جنہوں نے اللہ کے رسولؐ کی باتوں کو مانا، بتوں کی پوجا کو چھوڑا اور اچھے کام کرنے لگے، وہ مسلمان کہلائے۔ مکہ کے مشرکوں نے ان مسلمانوں کو بری طرح ستانا شروع کیا، ان کی تکلیفوں کا حال سن کر آدمی کانپ اٹھتا ہے، مگر یہ مسلمان اپنے ارادے کے پکے تھے۔ وہ جان دینا آسان سمجھتے اور ایمان چھوڑنا مشکل۔ مکہ والوں نے مسلمانوں کو ایسی سخت تکلیفیں دیں کہ بہت سے مسلمانوں نے جانیں دے دیں۔
اسلام کی خاطر مسلمانوں نے گھر بار چھوڑا
رسولؐ پاک کے محبت بھرے دل نے اس بات کو گوارا نہ کیا کہ مسلمانوں کو تکلیفیں دی جائیں۔ آپؐ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ اپنا پیارا دیس اور گھر بار چھوڑ کر حبش کے ملک میں چلے جائیں، جو عرب کے پڑوس ہی میں ہے۔ اس حکم کے بعد بہت سے مسلمان وہاں چلے گئے۔ رسولؐ پاک کچھ ساتھیوں کے ساتھ مکہ میں رہ کر لوگوں کو اسلام کی باتیں سکھاتے رہے۔
حبش کا بادشاہ نیک اور رحم دل تھا۔ وہ عیسائی تھا۔ اس نے ستائے ہوئے مسلمانوں کو اپنے ملک میں پناہ دی لیکن مکہ والوں نے مسلمانوں کو یہاں بھی آرام سے نہ رہنے دیا، وہ حبش کے بادشاہ کے پاس پہنچے اور اس سے کہا کہ ’’یہ ہمارے بھاگے ہوئے ہیں اور انہوں نے ایک نیا مذہب بنایا ہے یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا نہیں مانتے۔‘‘
بادشاہ نے مسلمانوں کے سردار حضرت جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنے دربار میں بلایا، انہوں نے بادشاہ کو بتایا کہ اسلام کیا ہے؟ اور رسولؐ پاک لوگوں کو کیا تعلیم دیتے ہیں؟ انہوں نے بادشاہ کو حضرت عیسیؑ ٰ کے متعلق سورہ مریم کاوہ حصہ پڑھ کر سنایا جس میں حضرت عیسیؑ ٰ کو سچا رسول اور اللہ کا بندہ اور ان کی ماں حضرت مریم کو نیک اور پارسا بتایا گیا ہے۔ قرآن کی میٹھی زبان اور دل کو لگنے والی باتوں نے بادشاہ پر بہت اثر کیا اور بادشاہ بے اختیار کہہ اٹھا۔ اس کتاب میں بھی وہی باتیں ہیں جو پہلی آسمانی کتابوں میں تھیں۔ بادشاہ نے مسلمانوں سے کہا ’’جہاں تمہارا جی چاہے رہو، تمہیں کوئی نہیں ستا سکتا۔‘‘
رسولؐ پاک کے ساتھ دشمنی
جب مکہ والوں نے دیکھا کہ اسلام آہستہ آہستہ پھیلتا ہی جاتا ہے تو ان کے دلوں میں رسولؐ پاک کے خلاف دشمنی اور زیادہ ہوگئی۔ آپؐ کو طرح طرح کی تکلیفیں دینے لگے۔ مکے میں بتوں کا ایک مغرور پجاری تھا۔ اس کا نام ابوجہل (یعنی جاہلوں کا باپ) تھا۔ یہ سب سے زیادہ اسلام کی مخالفت کرتا تھا۔ رسولؐ پاک کو تکلیفیں دیتا اور مسلمانوں کو طرح طرح سے ستاتا تھا۔ اس نے اور سارے کام تو چھوڑ رکھے تھے لیکن اسلام کو مٹانے کے لیے بس نت نئی ترکیبیں سوچتا اور دن رات مکے والوں کو رسولؐ پاک کے خلاف بھڑکاتا رہتا مگر جیت تو ہمیشہ سچ کی ہوتی ہے۔ رسولؐ پاک اور مسلمان کامیاب رہے۔ ابوجہل ایک لڑائی میں بری طرح مارا گیا۔ اسی طرح اور سینکڑوں آدمی رات دن اسلام کو مٹانے اور رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو نعوذباللہ قتل کرنے کی فکر میں لگے رہتے تھے۔

رسولؐ پاک کو دنیا کا لالچ دیا گیا
آپؐ سے مکہ کے امیروں نے کہا کہ آپؐ بتوں کو برا کہنا چھوڑ دیں تو آپؐ کو مکے کا بادشاہ بنا دیا جائے گا۔ آپؐ نے جواب میں کہا ’’خدا کی قسم اگر مکہ والے میرے ایک ہاتھ پر سورج اور دوسرے پر چاند لاکر رکھ دیں تب بھی اسلام کی باتیں سکھانے سے نہیں رکوں گا۔ اسلام پھیل کر رہے گا چاہے میری جان اس پر قربان ہو جائے۔‘‘
اس جواب نے مکہ والوں کو آپے سے باہر کر دیا۔ وہ جل بھن گئے اور آپؐ کو اور زیادہ تکلیفیں دینے لگے ۔پتھر مارتے، رستے میں کانٹے بچھاتے، جدھر نکلتے آپؐ کے پیچھے آوارہ لوگوں کو لگا دیتے جو آپؐ کو گالیاں دیتے اور برا بھلا کہتے۔ کئی سال تک یہ تکلیفیں آپؐ پر اور آپؐ کے ساتھیوں پر گزرتی رہیں مگر اسلام روز بروز برابر پھیلتا ہی رہا۔
رسولؐ پاک مدینہ میں
مکہ سے کچھ دور عرب کا دوسرا بڑا شہر ہے جس کا نام مدینہ ہے۔ مدینہ کے رہنے والوں نے جب رسولؐ پاک کا حال سنا تو وہاں سے کچھ لوگ مکہ آئے اور مسلمان ہوگئے۔ ان لوگوں نے رسولؐ پاک سے مدینہ چلنے کی درخواست کی اور آپؐ کو یقین دلایا کہ وہ ہر طرح سے اسلام کی مدد کریں گے۔ مکہ والوں کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو وہ اور بھی بگڑے اور رسول پاکؐ کے خون کے پیاسے ہوگئے مگر اللہ میاں کو یہ بات کیسے بھاتی کہ اس کے آخری رسولؐ پر ذرا سی بھی آنچ آئے۔ رسولؐ پاک نے خدا کے حکم سے اسلام کی خاطر اپنے پیارے دیس کو چھوڑا جہاں بچپن سے لے کر ۵۳ سال کی عمر تک رہے تھے۔
جب آپؐ مکہ چھوڑ کر مدینہ تشریف لے گئے تو مدینے کے بہت سے لوگ مسلمان ہوگئے۔ یہ اسلام کی مدد کرنے والے ’’انصار‘‘ کہلائے۔ جن مسلمانوں نے اپنا وطن چھوڑا، رسولؐ کے ساتھ مدینہ جاکر رہے وہ’’ مہاجر‘‘ کہلائے۔ یعنی خدا کی راہ میں اپنا گھر بار چھوڑ دینے والے۔ رسولؐ پاک نے انصار اور مہاجرین میں بھائی چارہ قائم کیا۔ وہ اس طرح کہ ایک انصاری کو لیا اور ایک مہاجر کو اور دونوں کو بھائی بنا دیا۔ ان دونوں بھائیوں میں اتنی محبت تھی کہ سگے بھائیوں میں بھی ایسی محبت نہیں ہوسکتی۔
اسلام کی ترقی
مدینہ میں رسولؐ پاک کا آنا مبارک ہوا۔ اب اسلام عرب میں جلد جلد پھیلنے لگا۔ بہت سے لوگ مسلمان ہوگئے مگر مکہ والوں نے یہاں بھی مسلمانوں کو آرام سے نہ رہنے دیا، مکہ سے بڑی بڑی فوجیں لاکر اسلام اور مسلمانوں کو مٹانا چاہا لیکن مسلمانوں کی ہمت اور بہادری کے سامنے وہ ٹھہر نہ سکے۔
ایک لڑائی میں ابوجہل اور اس کے دوسرے ساتھی بھی مارے گئے۔ مکہ کے بسنے والوں نے بہت چاہا کہ کسی طرح اسلام کو مٹائیں۔ انہوں نے طرح طرح کے جتن کیے مگر ناکام رہے اللہ تعالیٰ نے اسلام کو اتنی طاقت دی کہ رسولؐ پاک اور ان کے ساتھیوں نے مکہ کو بھی فتح کرلیا۔ خانہ کعبہ جو بتوں کا گھر بنا ہوا تھا، اسے بتوں سے پاک صاف کیا۔ مکہ والوں نے آپؐ کو ہزاروں تکلیفیں دیں ۔اتنا ہی نہیں بلکہ آپؐ کے قتل کی تدبیریں کیں۔ مگر آپؐ نے اپنے ان جانی دشمنوں کو معاف کر دیا۔ اب سارے کا سارا عرب اسلام کے نور سے جگمگا اٹھا۔
رسولؐ پاک اپنا کام پورا کرچکے
رسولؐ پاک نے آخری حج ایک لاکھ چوبیس ہزار مسلمانوں کے ساتھ ادا کیا۔ اسلام کی تعلیم کی بڑی بڑی باتیں رسولؐ پاک نے مسلمانوں کو اسی حج میں بتا دیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کا اتارنا بھی اسی حج کے بعد ختم کر دیا اور قرآن میں کہہ دیا کہ ’’آج دین اسلام کی باتیں آپ پر پوری ہوگئیں۔ اب دنیا کو قرآن کے علاوہ اور کسی کتاب کی ضرورت نہیں ہوگی۔‘‘
اپنے مولا سے جا ملے
رسولؐ پاک نے مسلمانوں سے کہا کہ میں نے آپ کو اسلام کی ساری باتیں بتا دیں۔ آپ لوگ ان باتوں کو دنیا میں پہنچائیں، اس کے بعد تھوڑے ہی دنوں میں رسولؐ پاک تریسٹھ (۶۳) برس کی عمر میں اپنے مولا سے جا ملے۔ مدینہ میں آپؐ کا روضہ پاک ہے۔ جس پر دن رات اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور برکتیں اترتی رہتی ہیں۔ اللہ ہم سب مسلمانوں کو اس روضہ پاک کی زیارت کرائے۔ آمین

رسولؐ پاک کیسے تھے؟

آپؐ کی سادگی
رسولؐ پاک کی زندگی اول سے آخر تک انوکھے حالات میں گزری۔ بچپن میں آپؐ یتیم ہوگئے۔ دادا اور چچا نے پرورش کی۔ جوان ہوئے تو کچھ دن غریبی کی حالت میں بسر کیے۔ پھر اللہ میاں نے آپؐ کی تجارت میں برکت دی۔ چالیس سال کی عمر میں آپؐ کو آخری رسولؐ بنا دیا گیا۔ اس کی وجہ سے سارا مکہ آپؐ کا دشمن ہوگیا۔ پورے تیرہ سال آپؐ نے تکلیفوں اور پریشانیوں میں کاٹے نہ دن کو آرام نہ رات کو چین۔ اس مخالفت کی وجہ سے اپنا وطن چھوڑ کر مدینہ میں چلے گئے۔
مدینے میں بھی شروع میں آپؐ کو بڑی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ مگر آخر میں اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو اپنے کام میں کامیاب کر دیا۔ وہ یہ کہ سارے عرب نے آپؐ کی تعلیم کو مان لیا۔ اب آپؐ دین اور دنیا کے بادشاہ تھے مگر ایک بات ایسی ہے جو دنیا کے کسی شہنشاہ میں نظر نہیں آتی۔ وہ یہ کہ آپؐ نے ہمیشہ سادہ زندگی بسر کی۔
رسولؐ پاک ہمیشہ سادہ صاف کپڑے پہنتے تھے۔ آپؐ کرتہ، جبہ، تہمد اور پگڑی استعمال کرتے تھے۔ یہ کپڑے سوتی ہوتے تھے۔ ریشم کو آپؐ نے اپنے اور اپنی امت کے مردوں کے لیے حرام کر دیا۔ آپؐ کے کپڑوں میں ذرا بھی نمائش نہ ہوتی تھی۔ اگرچہ ان کپڑوں میں پیوند لگے ہوتے تھے مگر صاف ستھرے اور سفید براق ہوتے۔ آپؐ کے جوتے بھی معمولی چمڑے کے ہوتے تھے۔
گھر میں ایک موٹے سے بستر پر آپؐ رات کو کچھ دیر آرام فرماتے، پھر رات کو نماز پڑھتے۔
اسلام کی ترقی کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگتے رہتے۔ ایک رات آپؐ کی بیوی حضرت عائشہؓ نے آپؐ کے بستر کی چار تہیں کر دیں تاکہ آپؐ آرام سے سو سکیں۔ آپؐ نے صبح بستر کے بارے میں پوچھا تو حضرت عائشہؓ نے کہا ’’یہ وہی آپؐ ہی کا بستر تھا مگر اس کی چار تہیں کر دی تھیں تاکہ آپؐ کو زیادہ آرام ملے۔‘‘ آپؐ نے فرمایا ’’اسے پہلے جیسا ہی کر دو۔ اس بستر نے رات مجھے نماز سے روکا۔‘‘
آپؐ اپنا کام کاج اپنے ہاتھ سے کرتے ۔اپنے کپڑے خود ہی سی لیتے۔ اپنی جوتیوں کو خود گانٹھ لیتے۔ مسجد اپنے ہاتھ سے صاف کر دیتے۔ مدینہ میں جب مسلمان مسجد بنا رہے تھے تو آپؐ بھی اور مسلمانوں کے ساتھ اینٹیں اور گارا لاتے۔ اسی طرح جب کسی لڑائی میں کوئی کام ہوتا تو اسے بھی آپؐ سب مسلمانوں کے ساتھ مل کر کرتے۔ آپؐ اپنے خادموں سے زیادہ کام نہ لیتے تھے۔ کبھی کبھی تو ان کو آرام پہنچانے کی خاطر ان کا کام خود کر لیتے تھے۔
کھانا ہمیشہ سادہ کھاتے۔ آپؐ کی روز کی غذا جو کی روٹی تھی اور وہ بھی کبھی پیٹ بھر کر نہ کھائی ،اس لیے کہ آپؐ ہمیشہ بھوکوں کو کھلاتے اور خود بھوکے رہتے۔ آپؐ کی بیوی حضرت عائشہؓ جب آپؐ کے انتقال کے بعد کھانا کھاتیں تو رو دیتیں۔ حضرت عائشہؓ سے اس کا سبب پوچھا گیا تو آپؓ نے فرمایا کہ ’’رسولؐ پاک نے اپنی عمرمیں پیٹ بھر کر کبھی نہ کھایا۔‘‘ آپؐ کے سامنے جو کھانا موجود ہوتا اسے کبھی بھی برا نہ کہتے۔ اگر آپؐ کو پسند نہ ہوتا تو چھوڑ دیتے۔ کھجور اور شہد آپ کو بہت پسند تھا۔ آپؐ رہنے سہنے میں ہمیشہ صفائی رکھتے تھے۔
آپؐ کو گدھے اور خچر کی سواری سے بھی عار نہ تھا۔ خیبر کی فتح کے دن آپؐ خچر پر سوار تھے، آپؐ اونٹ اور گھوڑے کے شہسوار تھے۔ غرض کہ آپؐ کی زندگی بڑی سیدھی سادی تھی۔ بناوٹ اور دکھاوا نام کو بھی نہ تھا۔
آپؐ اپنے رشتہ داروں کو بھی سادہ زندگی بسر کرنے کی ہدایت فرماتے رہتے تھے۔ آپؐ کی بیٹی حضرت فاطمہؓ کو اپنے گھر کے کام کاج کی وجہ سے بہت محنت کرنی پڑتی تھی۔ چکی بھی خود پیستی تھیں، پیستے پیستے ہاتھوں میں چھالے پڑ گئے تھے۔ حضرت فاطمہؓ نے ایک دن آپؐ سے عرض کیا ’’مجھے کوئی لونڈی یا غلام دیا جائے۔‘‘ رسولؐ پاک نے اپنی بیٹی سے فرمایا ’’پہلے غریب اور محتاج مسلمانوں کا بندوبست ہو جائے۔‘‘
رسولؐ پاک کی یہ سادگی اس وجہ سے نہ تھی کہ آپؐ کے پاس کچھ نہ تھا۔ نہیں آپؐ کے پاس اللہ تعالیٰ کا دیا سب کچھ تھا۔ آپؐ عرب میں دین اور دنیا کے بادشاہ تھے۔ آپؐ کی آمدنی اتنی تھی کہ آرام سے امیروں اور بادشاہوں کی طرح رہ سکتے تھے۔ مگر آپؐ جو کچھ خرث کرتے، وہ دوسروں کی بھلائی کے لیے اور اسلام کی ترقی کے لیے کرتے۔ آپؐ اپنی سادہ زندگی سے مسلمانوں کے لیے عملی نمونہ قائم کرنا چاہتے تھے۔
گھر والوں اور رشتہ داروں سے محبت
اکثر آدمی باہر کے لوگوں سے بہت اچھی طرح ملتے جلتے ہیں مگر گھرمیں اپنے بال بچوں اور نوکروں سے، جن سے انہیں رات دن کا واسطہ پڑتا ہے، اچھی طرح پیش نہیں آتے اور ذرا ذرا سی بات پر نوکروں کو ڈانٹتے رہتے ہیں۔ بس ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گھر والوں کو کھا جائیں گے۔ اس لیے آدمی کی ساری اچھی بری باتیں گھر میں کھل جاتی ہیں۔
ہم رسولؐ پاک کی زندگی دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ رسولؐ پاک نوکروں کے لیے سب سے اچھے آقا تھے، اپنی بیویوں کے لیے ہمدرد خاوند تھے اور بچوں کے لیے محبت اور رحم والے باپ تھے۔ آپؐ کا گھر کی زندگی کے بارے میں یہ حکم تھا کہ ’’تم میں اچھے تو وہی ہیں جو اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھے ہوں۔‘‘ آپؐ کے ایک خادم تھے جن کا نام حضرت انسؓ تھا۔ فرماتے ہیں کہ ’’جب میں آٹھ برس کا تھا، رسولؐ پاک کی خدمت میں حاضر ہوا۔ دس برس تک برابر آپؐ کی خدمت میں رہا مگر اس تمام مدت میں آپؐ نے ایک دفعہ بھی نہیں جھڑکا اور نہ کبھی یہ فرمایا کہ تم نے یہ کام کیوں نہیں کیا؟‘‘ آپؐ کبھی کسی کو اپنی زبان سے سخت بات، جس سے اس کو تکلیف پہنچے نہ کہتے تھے اور نہ کبھی کسی پر لعنت کرتے تھے، نہ کسی کو برا بھلا کہتے نہ کسی کو بددعا دیتے تھے۔
رسولؐ پاک ہمیشہ گھر والوں کی بھلائی کا خیال رکھتے تھے۔ بہتر سے بہتر سلوک کرتے تھے۔ آپؐ کی بیوی حضرت عائشہؓ کا بیان ہے کہ آپؐ کی طبیعت میں کسی قسم کی سختی اور بدمزاجی نہ تھی۔ نہ آپؐ کبھی چلاتے، نہ بدی کے بدلے بدی کرتے بلکہ ہمیشہ درگزر کر دیتے تھے۔ حضرت علیؓ فرماتے ہیں: ’’آپؐ بڑی ہمت والے سچے، نرم مزاج اور ہنس مکھ تھے۔‘‘ آپؐ کی عادت تھی کہ جب آپؐ کے گھر والے یا ساتھی آپؐ کو پکارتے تو آپؐ ہمیشہ لبیک کہاکرتے تھے، (میں حاضر ہوں)۔
آپؐ اپنے بچوں کو گود میں لیتے۔ انہیں پیار کرتے اور ان سے کھیلتے۔ اپنی نواسی امامہ بنت زینبؓ کو گود میں لے کر یا کاندھے پر بٹھا کر نماز پڑھتے تھے۔ جب رکوع میں جاتے تو ایک طرف بٹھا دیتے۔ یہ تو آپ پہلے پڑھ چکے ہیں کہ عرب کے بسنے والے معصوم لڑکیوں کو زندہ زمین میں دفن کر دیتے تھے۔ آپؐ لوگوں کے سامنے یہ نمونہ قائم کرنا چاہتے تھے کہ لڑکیوں کی عزت کی جائے اور انہیں بھی لڑکوں کے برابر سمجھا جائے۔ دوسری یہ بات کہ آپؐ کو اپنی اولاد سے بہت زیادہ محبت تھی۔
رسولؐ پاک کی جو محبت اپنے نواسوں حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کے ساتھ تھی اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ ایک دن آپؐ کہیں تشریف لے جا رہے تھے۔ راستے میں آپؐ کے دونوں نواسے حضرت حسنؓ اورحضرت حسینؓ ملے۔ آپؐ نے ایک کو ایک کندھے پر اور دوسرے کو دوسرے کندھے پر بٹھایا۔ رسولؐ پاک کے ساتھیوں نے چاہا کہ دونوں بچوں کو لے لیں مگر انہوں نے کہا ’’ہمیں اپنے پیارے نانا کے کندھے پیارے لگتے ہیں۔‘‘
ایک دن رسولؐ پاک سجدے میں تھے۔ حضرت حسینؓ آئے اور محبت سے اپنے نانا سے لپٹ گئے۔ رسولؐ پاک نے نماز ختم کی اور اپنے منے سے نواسے کو گود میں لے لیا ۔ایک یہودی بھی وہاں بیٹھا تھا۔ اس نے دیکھ کر کہا ’’آپؐ بچوں سے اتنی محبت کرتے ہیں، یہ ہمیں پسند نہیں ہے۔‘‘ رسولؐ پاک نے فرمایا ’’اگر تم اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان لاتے تو تم بھی بچوں کو اپنے لیے رحمت اور آرام کا سبب سمجھتے۔‘‘ ان باتوں سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ رسولؐ پاک اپنے رشتہ داروں اور گھر والوں سے کتنی محبت کرتے تھے۔ آپؐ کا حکم ہے کہ تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں سے اچھا برتاؤ کرتا ہے۔
آپؐ کا ہنس مکھ رہنا
رسولؐ پاک کے ایک ساتھی کا قول ہے کہ ’’میں نے کسی آدمی کو رسولؐ پاک سے بڑھ کر ہنس مکھ، خوش مزاج اور خوش خلق نہیں دیکھا۔‘‘ آپؐ جب کبھی کسی ملنے والے سے ملتے تو دیکھتے ہی مسکرا دیتے جس سے ملنے والے کا دل خوشی کے مارے باغ باغ ہو جاتا تھا۔ اکثر چھوٹے چھوٹے بچے آپؐ کے پاس آ جاتے تھے۔ آپؐ ان کے ساتھ کھیلاکرتے تھے اور ان سے ہنسی کی باتیں کیا کرتے تھے۔ آپ خوش طبعی میں اپنے خادم حضرت انسؓ کو اکثر ’’دو کانوں والا‘‘ کہہ کر پکارتے تھے۔
رسولؐ پاک اپنے خادم حضرت انسؓ کے چھوٹے بھائی عمیر کے ساتھ اکثر کھیلا کرتے تھے۔ عمیر نے ایک خوبصورت لال پال رکھا تھا۔ وہ اس سے محبت کرتا تھا ۔اتفاق سے وہ مر گیا۔ رسولؐ پاک عمیر سے اکثر پوچھا کرتے تھے، ’’اے عمیر نغیر کیسا ہے؟ اور اس کا کیا حال ہے؟‘‘
ایک دفعہ ایک دیہاتی نے آپؐ سے اونٹ مانگا تو آپؐ نے فرمایا ’’میں تمہیں اونٹنی کا بچہ دیتا ہوں۔‘‘ اس نے کہا ’’میں اونٹنی کا بچہ کیا کروں گا؟‘‘ آپؐ نے فرمایا: ’’اونٹ اونٹنی کا بچہ نہیں ہوتا تو کیا ہوتا ہے؟‘‘ دیہاتی سمجھ رہا تھا کہ آپؐ اونٹنی کا چھوٹا سا بچہ دیں گے۔
ایک دن ایک بوڑھی عورت آپؐ کے پاس آئی اور کہا ’’حضور میرے لیے دعا کیجیے کہ اللہ مجھے جنت میں جگہ دے۔‘‘ رسولؐ پاک نے فرمایا: ’’بڑی بی! بوڑھی عورتیں جنت میں نہیں جائیں گی۔‘‘ بڑھیا بہت گھبرائی اور رسولؐ پاک سے پوچھا ’’حضورؐ بوڑھی عورتوں نے کیا کیا ہے کہ جنت میں نہیں جائیں گی؟ رسولؐ پاک نے فرمایا ’’کیا آپ نے نہیں سنا کہ اللہ تعالیٰ جنہیں جنت میں بھیجے گا انہیں جوان کرکے بھیجے گا۔ بوڑھی عورتیں وہاں کیسے جا سکتی ہیں۔‘‘ جب اس بڑھیا نے رسولؐ پاک کی بات کا مطلب سمجھ لیا تو وہ بہت خوش ہوئی۔
رسولؐ پاک مکہ کے بسنے والوں کی تکلیفوں کو ہنسی خوشی برداشت کرتے تھے۔ ایک دن آپؐ نے فرمایا ’’دیکھو اللہ نے مجھے قریش کی گالیوں اور کوسنوں سے کیسا بچایا۔ قریش مجھے مذمم (برا) کہہ کر کوسنے دیتے ہیں حالانکہ میں محمدؐ (اچھا اور قابل تعریف) ہوں۔‘‘ رسولؐ پاک کے پاس اکثر چھوٹے چھوٹے بچے آ جاتے تھے، آپؐ ان کے ساتھ کھیلا کرتے تھے۔ کبھی آپؐ ان سے ہنسی کی باتیں کرکے انہیں ہنساتے تھے۔ آپؐ کے خادم حضرت انسؓ جن کا حال آپ پہلے پڑھ چکے ہیں ،ان کو آپ ’’دو کان والے‘‘ کہہ کر پکارتے تھے۔
وقار اور سنجیدگی
اکثر ہنس مکھ آدمی کا رعب یا وقار لوگوں کے دلوں سے کم ہو جاتا ہے مگر رسولؐ پاک کو اللہ نے ایسا وقار اور رعب عطا کیا تھا جو کسی بادشاہ کو بھی نصیب نہ تھا۔ آپؐ کسی سے کچھ نہ کہتے تھے۔ ہر ایک سے نرمی ،محبت اور مہربانی سے پیش آتے تھے۔ پھر بھی رعب کی وجہ سے کوئی آپؐ سے آنکھیں نہ ملا سکتا تھا۔
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ رعب والے آدمی سے لوگ ڈرتے تو بہت ہیں مگر اس کی دل سے عزت اور محبت نہیں کرتے مگر رسولؐ پاک کے ساتھی آپؐ سے ایسی محبت کرتے تھے کہ آپؐ کے قدموں پر اپنی جانیں قربان کرنا خوش قسمتی سمجھتے تھے۔
رسولؐ پاک نہایت باوقار تھے۔ مجلس میں آپؐ سے کوئی بیجا بات دیکھنے میں نہیں آتی تھی، بے ضرورت آپؐ باتیں نہ کرتے تھے۔
رسولؐ پاک جب باتیں کرتے تو بہت صفائی سے اور آہستہ آہستہ کرتے کہ سننے والا اگر ایک ایک لفظ کو گننا چاہتا تو گن سکتا۔ جب مجلس میں تشریف لاتے تو ساری مجلس ادب کی وجہ سے خاموش ہو جاتی۔ جب آپؐ گفتگو کرتے تو ساری مجلس ادب سے سر جھکا لیتی، جب حضورؐ باتیں کرتے تو معلوم ہوتا تھا کہ پھول جھڑتے ہیں، سننے والوں کا جی چاہتا تھا کہ آپؐ کی پیاری باتیں کبھی ختم نہ ہوں ہمیشہ سنتے رہیں۔
آپ کے پاس ایک دفعہ مکہ کا ایک سردار آیا اس نے آپؐ کا وقار اور رعب دیکھا تو حیران رہ گیا۔ جب وہ اپنے ساتھیوں کے پاس لوٹ کر گیا تو ان سے کہنے لگے ’’اے قوم اللہ کی قسم میں نے ایران اور روم کے بڑے بڑے بادشاہوں کے دربار دیکھے ہیں مگر اللہ جانتا ہے میں نے کسی بادشاہ کو اس قدر بارعب اور باوقار نہیں دیکھا۔ جب محمدؐ مسلمانوں کو کوئی حکم دیتے ہیں تو اسے پورا کرنے کے لیے مسلمان دوڑتے ہیں۔ جب محمدؐ باتیں کرتے ہیں تو مسلمانوں کی آوازیں بند ہو جاتی ہیں۔ محمدؐ سے عزت اور تعظیم کی وجہ سے کبھی آنکھیں نہیں ملاتے۔‘‘
جب مسلمانوں نے مکہ فتح کر لیا تو بہت سے لوگ آپؐ کی خدمت میں آتے رہے ۔کچھ لوگ آپؐ کے رعب کی وجہ سے بات نہ کرسکتے ۔آپؐ ان سے نہایت مہربانی اور شفقت سے مسکرا کر فرماتے ’’گھبراؤ نہیں اطمینان اور آرام سے باتیں کرو۔ میں کوئی بادشاہ نہیں ہوں بلکہ میں بھی قریش کی ایک عورت کا بیٹا ہوں جو سوکھا گوشت کھایا کرتی تھی۔‘‘
بہادری اورشجاعت
بہادر ایسے آدمی کو کہتے ہیں کہ جب اس پر کوئی دشمن حملہ کرے اور اس کو فنا کر دینا چاہے تو وہ آدمی اس کا ڈٹ کا مقابلہ کرے۔ دل میں ذرا بھی نہ ڈرے۔ بہادر آدمی جب اپنے دشمن کو شکست دے کر اس پر قابو پا لیتا ہے تو اس سے رحم اور مہربانی کا سلوک کرتا ہے۔
رسولؐ پاک سے بڑھ کر دنیا میں نہ کوئی بہادر گزرا ہے اور نہ آئندہ ہو گا۔ آپ پوچھیں گے وہ کیسے؟ ہم بتائے دیتے ہیں۔ آپ پڑھ چکے ہیں کہ رسولؐ پاک تیرہ برس تک مکہ میں لوگوں کو اسلام کے اصول سکھاتے رہے اور مکہ والے آپ کو طرح طرح کی تکلیفیں دیتے رہے لیکن رسولؐ پاک نے بہادری کے ساتھ ان سب تکلیفوں کو سہا اور کبھی اُف تک نہ کی، پھر مدینہ میں جاکر رہے اور وہاں لوگوں کو اسلام کی باتیں بتاتے رہے مگر مکہ والوں نے وہاں بھی آپ کو چین سے نہ رہنے دیا۔ مسلمانوں پر فوجیں لے کر چڑھ آئے۔ پھر یہ بھی تو دیکھو کہ مسلمان تو کل تین سو تیرہ (۳۱۳) اور مکے والے ایک ہزار، وہ بھی بڑے بڑے بہادر اور لڑنے والے، جو عرب بھر میں مشہور تھے۔ جب لڑائی ہوئی تو رسولؐ پاک اور آپ کے ساتھیوں نے ایسا ڈٹ کر مقابلہ کیا کہ مکہ والے بہت سے مارے گئے اور بہت سے قید ہوئے اور جو بچے وہ بھاگ گئے۔
اس طرح کی کئی لڑائیاں ہوئیں، مسلمانوں نے کبھی پہل نہ کی ۔ہمیشہ اسلام کے دشمنوں نے پہل کی اور مسلمانوں نے بہادری سے اپنی حفاظت کے لیے مقابلہ کیا۔ اسلام کے دشمن جو مسلمانوں پر چڑھ آتے تھے، ان کی فوج مسلمانوں سے کئی گنا زیادہ ہوتی تھی۔ مسلمانوں کی فوج کے سردار اکثر خود رسولؐ پاک ہوتے تھے۔ وہ مسلمانوں کو اس طرح لڑاتے تھے کہ دشمنوں کو ہار کر بھاگنا پڑتا تھا۔
اسلام کے دشمنوں سے مسلمانوں کو جو لڑائیاں لڑنی پڑیں ان میں رسولؐ پاک فوج کے سردار ہوتے تھے۔ پرانے زمانے میں فوج کے سردار کو ہمیشہ آگے رہنا پڑتا تھا۔ آپؐ کے ساتھیوں کا بیان ہے کہ ’’جب آپؐ فوج کے سردار ہوتے تھے تو ساری فوج کا حوصلہ بلند رہتا تھا۔‘‘
ایک لڑائی میں مکہ کے ایک پجاری نے آپؐ کو آگے آگے دیکھ کر آپؐ پر حملہ کیا۔ آپؐ کے ساتھیوں نے چاہا کہ اس کو روکیں۔ رسولؐ پاک نے بہادروں کی طرح للکار کر کہا ’’ہٹ جاؤ اسے آنے دو۔‘‘ بس اس کے آتے ہی رسولؐ پاک نے اس کی پسلیوں میں ایک نیزہ مارا ۔وہ گھوڑے پر سے گرا اور لڑکھڑاتا ہوا اپنے ساتھیوں کی طرف چلا اور راستے ہی میں ڈھیر ہوگیا۔
جب مسلمان مدینہ جاکر رہے تو شروع شروع میں چاروں طرف ان کے دشمن ہی دشمن تھے۔ مسلمانوں کی تعداد بہت ہی تھوڑی تھی۔ انہی دنوں مدینہ والے ایک دفعہ رات کے وقت چیخنے اورچلانے لگے۔ بس ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کوئی ڈاکہ پڑا ہے یا کوئی دشمن چڑھ آیا ہے۔ لوگ گھبرا گئے اور جدھر شور اورچیخ پکار ہوئی تھی ادھر جانے لگے۔ تھوڑی دور چلے ہوں گے کہ دیکھا کہ رسولؐ پاک ایک گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر سوار تھے اور گلے میں بہادروں کی طرح چمکتی ہوئی تلوار لٹک رہی تھی اور لوگوں سے فرما رہے تھے ’’ڈرو مت، گھبراؤ مت۔‘‘
مکہ کی فتح کے بعد جب مسلمانوں کی تعداد بڑھی تو ان میں ذرا گھمنڈ سا ہونے لگا۔ ایک دفعہ ایک لڑائی میں کہنے لگے ’’اب ہمارا مقابلہ کون کرسکتا ہے؟‘‘ اللہ تعالیٰ کو یہ بڑا بول پسند نہ آیا تو اس لڑائی میں مسلمانوں کو سمجھانے کے لیے کہ (افرادی قوت کی) کثرت پر غرور مت کیا کرو۔ ایسا ہوا کہ میدان جنگ سے ان کے پاؤں ذرا اکھڑ گئے۔ لڑائی بہت زور کی تھی مگر رسولؐ پاک اپنی جگہ سے ذرا بھی نہ ہلے اور بہادری کے جوش میں آپؐ عربی کا ایک جنگی گیت پڑھ رہے تھے۔
آپؐ کے ساتھیوں کا بیان ہے کہ ’’لڑائی میں آپؐ سے زیادہ بہادر اور شجاع کوئی آدمی نظر نہ آتا تھا۔‘‘ جب لڑائی سخت اور تیز تھی تو بڑے بڑے بہادر آپؐ ہی کی پناہ لیتے تھے۔ آپؐ بہادری اور شجاعت کی وجہ سے نہتے مسلمانوں کی تھوڑی سی فوج سے اپنے سے دگنی اور چوگنی فوج کو ایسی شکست دیتے تھے کہ اسلام کے دشمنوں کو شرم کے مارے منہ چھپانا مشکل ہو جاتا تھا۔
ثابت قدمی
ثابت قدم وہ آدمی ہوتا ہے جس پر مصیبتیں پڑیں تو وہ انہیں خوشی سے سہے اور تکلیفوں سے نہ گھبرائے۔ پریشانیوں سے مقابلہ کرنا پڑے تو صبر سے کام لے۔ رسولؐ پاک کے چالیس برس کے بعد کی زندگی ایسی ہے کہ آپؐ کو ایک دن بھی چین نہ ملا۔ مکہ میں جب تک رہے تکلیفوں اور پریشانیوں میں گھرے رہے ۔مدینہ میں جب تشریف لے گئے تو سارے عرب کے لوگ آپؐ کے مخالف تھے۔ آپؐ کے کام کو مٹانے کے لیے طرح طرح کے جتن کیے گئے مگر رسولؐ پاک ذرا نہ گھبرائے۔ ثابت قدمی اور مستقل مزاجی کے ساتھ دشمنوں کا مقابلہ کیا اور اسلام کی تعلیم لوگوں میں پھیلاتے رہے۔
جب رسولؐ پاک اللہ کے حکم سے مکہ چھوڑ کر مدینہ تشریف لے جا رہے تھے تو مکہ والوں نے آپؐ کے قتل کا پکا ارادہ کر لیا۔ مکہ کے تمام قبیلوں میں سے ایک ایک نوجوان چنا گیا تھا تاکہ آپؐ کو قتل کیا جائے اور رسولؐ پاک کا خاندان آپ کے خون کا بدلہ کسی ایک قبیلے سے نہ لے سکے۔ اس میں مکہ والوں کی بڑی چالاکی تھی مگر آپؐ کی ثابت قدمی اور مستقل مزاجی کے سامنے مکہ والوں کی یہ چالاکی بھی نہ چل سکی۔
رات کے وقت مکہ کے بڑے بڑے بہادروں نے آپؐ کے گھر کو آکر گھیر لیا۔ رسولؐ پاک اپنے چچا زاد بھائی حضرت علیؓ کو اپنے بستر پر سلا کر اکیلے گھر سے نکلے اور ان بڑے بڑے بہادروں کے بیچ میں سے اطمینان سے گزر گئے۔ مکہ والوں کو خبر تک نہ ہوئی۔
پھر جب رسولؐ پاک اور آپؐ کے دوست حضرت ابوبکرؓ مکہ سے نکل کر ایک پہاڑ کے غار میں تین دن تک چھپے رہے تو ایک دن مکہ والے آپؐ کو تلاش کرتے ہوئے اس غارکے منہ پر پہنچے۔ حضرت ابوبکرؓ ذرا پریشان ہوئے اور آپؐ سے کہا ’’یارسولؐ اللہ! اگر ان میں سے کسی نے نیچے نظر کی تو وہ ہم کو دیکھ لے گا۔‘‘ رسولؐ پاک نے نہایت اطمینان اور ثابت قدمی سے فرمایا ’’اے ابوبکرؓ جب ہمارے ساتھ اللہ ہے تو پھر کوئی کیاکرسکتا ہے؟‘‘
تیسرے دن رسولؐ پاک اور حضرت ابوبکرؓ غار سے نکل کر مدینہ کی طرف چلنے لگے۔ مکہ والے چونکہ چاروں طرف آپؐ کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے تھے، ان میں سے ایک آدمی نے رسولؐ پاک اور حضرت ابوبکرؓ کو دیکھ لیا تھا۔ حضرت ابوبکرؓ اسے آتے ہوئے دیکھ کر گھبرا گئے کہنے لگے ’’یارسولؐ اللہ انہوں نے ہم کو آلیا۔‘‘ رسولؐ پاک نے نہایت اطمینان کے ساتھ فرمایا ’’اے ابوبکرؓ !فکر مت کرو بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے۔‘‘
غرض رسولؐ پاک کی ثابت قدمی اور مستقل مزاجی کی مثال اس سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتی ہے کہ جب آپؐ پیغمبر ہوئے تو سارے عرب میں بری باتیں پھیلی ہوئی تھیں۔ آپؐ اکیلے لوگوں کو سمجھاتے رہے۔ سارا عرب آپؐ کاجانی دشمن ہوگیا۔ آپؐ کو تکلیفیں دی گئیں ۔لالچ دیا گیا اور آپؐ کے قتل کا پکا ارادہ کیا گیا۔ مگر ان تمام باتوں سے بالکل نہ گھبرائے۔ ثابت قدمی اور مستقل مزاجی سے اپنے کام میں لگے رہے۔
بڑی بڑی مخالفتوں کے باوجود آپؐ نے ذرا بھی ہمت نہ ہاری۔ اسلام کے دشمن ہزاروں کی تعداد میں اسلام کو مٹانے کے لیے مدینہ پر چڑھ آئے، انہوں نے ہزاروں جتن کیے کہ رسولؐ پاک کا کام مٹ جائے لیکن تم جانتے ہو کیا ہوا؟ ہوا یہ کہ باہمت رسولؐ کے سامنے سارے عرب کی کوششیں بے کار ثابت ہوئیں۔ اسلام کے مٹانے والے خود مٹ گئے۔
رسولؐ پاک کے پکے ارادے کے آگے ان کی کچھ نہ چلی۔ تئیس سال کے تھوڑے سے زمانے میں آپؐ کامیاب ہوکر رہے۔ جب آپؐ نے اس دنیا کو چھوڑا تو اس وقت سارا عرب ایک سرے سے دوسرے سرے تک اسلام کے نور سے جگمگا رہا تھا اور اسلام کی نورانی کرنیں دنیا کے دوسرے حصوں پر بھی پڑنے لگی تھیں۔
نرمی اور بردباری
رسولؐ پاک بہت برداشت اور نرمی والے تھے۔ آپؐ پر کوئی سختی کرتا تو آپؐ اس سے نرمی کا برتاؤ کرتے۔ آپؐ کو کوئی تکلیف دیتا تو آپؐ اس کے لیے نیک بننے کی دعائیں کرتے۔ آپ جانتے ہیں اس کا اثر کیا ہوا، یہ کہ آپؐ کے مخالف شرمندہ ہوکر آپؐ کے جاں نثار بن جاتے۔ آپ نے دیکھا ہوگا ایک کمزور اور ضعیف آدمی اپنے دشمنوں کی سختی کا جواب نرمی سے دیتا ہے۔ وہ اس لیے کہ بیچارا کمزور ہے، ضعیف اور بے یار و مددگار ہے مگر آپ نے یہ کبھی نہ دیکھاہوگا کہ ایک طاقت ور بہادر جس کے جاں نثار اور ماننے والے ہر وقت اس کے قدموں پر اپنی جانیں قربان کرنے کے لیے بے تاب ہیں، اس سے سختی کی جاتی ہے تو وہ نرمی سے اسے جواب دیتا ہے، اسے تکلیفیں دی جاتی ہیں تو وہ دعائیں دیتا ہے۔
ایک دفعہ آپؐ عرب کے ایک بڑے شہر طائف میں لوگوں کو اللہ کا پیغام پہنچانے تشریف لے گئے۔ اس شہر میں بڑے مغرور لوگ رہتے تھے۔ پہلے تو انہوں نے رسولؐ پاک کی شان میں گستاخیاں کیں۔ پھر ان کم بختوں نے اس پر بس نہ کی۔ آوارہ لوگوں کو آپؐ کے پیچھے لگا دیا، انہوں نے آپؐ پر اتنے پتھر برسائے کہ آپؐ کے پاؤں زخموں سے چور چور ہوگئے۔ آپؐ بھوکے پیاسے ایک باغ میں سستانے کے لیے بیٹھ گئے۔ آپؐ کے ساتھی نے کہا ’’پیارے رسولؐ ان لوگوں کے لیے بددعا کیجیے۔‘‘ رسولؐ پاک نے ان لوگوں کے لیے بددعا کے بجائے نیک بننے کی دعا کی۔
ایک دفعہ ایک مسلمان رسولؐ پاک کی خدمت میں حاضر ہوا۔ وہ بیچارا مکہ والوں کا ستایا ہوا تھا۔ اس لیے اس نے آپؐ سے کہا ’’آپؐ ان سب مکہ والوں کے لیے بددعا کیوں نہیں کرتے؟‘‘ آپؐ نے یہ سن کر اسے سمجھایا ’’تم سے پہلے ایسے لوگ گزر چکے ہیں جن کے سروں پر آرے چلائے گئے ۔جن کو چیر کر دو ٹکڑے کر دیا گیا۔ جن کی کھال کھینچی گئی لیکن پھر بھی وہ حق بات کہنے سے باز نہ آئے، اللہ گواہ ہے اسلام کی ترقی ہوگی، یہاں تک کہ ایک شخص عرب کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک سفر کرے گا اور اسے خدا کے سوا کسی کا ڈر نہ ہوگا۔‘‘
ایک لڑائی میں رسولؐ پاک کو بہت تکلیف پہنچی۔ آپؐ کا ایک دانت شہید ہوگیا۔ آپؐ کے مبارک چہرے پر کچھ چوٹیں آئیں، آپؐ کے جاں نثار ساتھی آپؐ کی اس تکلیف کو دیکھ نہ سکتے تھے۔ وہ تڑپ رہے تھے۔ ایک ساتھی نے آپؐ سے عرض کی ’’حضور! کاش ان کے لیے بددعا فرماتے کہ یہ کمبخت تباہ ہو جاتے۔‘‘ آپؐ نے فرمایا ’’نہیں میں لعنت اور بددعا کے لیے نہیں آیا ہوں بلکہ سیدھی راہ کی طرف بلانے کے لیے آیا ہوں اور اللہ نے مجھے دنیا کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔‘‘
پھر آپؐ نے اسی تکلیف کی حالت میں مکہ والوں کے لیے اللہ سے اس طرح دعا مانگی: ’’اے میرے مولا! میری قوم کو معاف کر اور ان کو راہ راست کی ہدایت کر کیونکہ وہ جانتے نہیں ہیں۔‘‘
ایک دن آپؐ ایک درخت کے سائے میں اکیلے آرام فرما رہے تھے کہ ایک اسلام کا دشمن اس طرف آ نکلا۔ وہ چاہتا تھا کہ آپؐ کو قتل کرے ۔اس نے اس ارادے سے اپنی تلوار کھینچی کہ اتنے میں رسولؐ پاک کی آنکھ کھل گئی۔ دیکھا کہ ایک آدمی ننگی تلوار لیے سر پر قتل کے ارادے سے کھڑا ہے، اس نے رسولؐ پاک کو جاگتے ہوئے دیکھ کر کہا ’’محمد! بتا اب تجھے کون میرے ہاتھ سے بچا سکتا ہے؟‘‘ آپؐ نے فرمایا ’’اللہ۔‘‘ بس آپؐ کا یہ کہنا تھا کہ ڈر کے مارے اس کے ہاتھ سے تلوار گر پڑی۔ آپؐ نے وہی تلوار اٹھا کر فرمایا ’’اب تو بتا کہ تجھے میرے ہاتھ سے کون بچا سکتا ہے؟‘‘ اس نے ڈرتے ہوئے کہا ’’کوئی نہیں۔‘‘ مگر آپؐ برائی کا بدلہ نیکی سے دیتے ہیں اور معاف کر دیتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا ’’تم کو بھی یہی کہنا چاہیے تھا کہ اللہ بچا سکتا ہے۔‘‘ پھر آپؐ نے اسے معاف کر دیا۔ اس نے جب آپؐ کی یہ نرمی دیکھی تو وہ آپؐ کا سچا جاں نثار بن گیا۔
ایک دن آپؐ ایک موٹی چادر اوڑھے ہوئے کھڑے تھے۔ ایک دیہاتی نے آن کر آپؐ کی چادر کو اتنے زور سے کھینچا کہ چادر کی رگڑ سے آپؐ کے کندھے پر لال لال نشان پڑ گیا۔ آپؐ نے اس دیہاتی کی طرف دیکھا تو وہ کہنے لگا ’’اے محمدؐ! اللہ کے اس مال میں سے جو تیرے پاس ہے میرے دونوں اونٹوں پر کچھ لاد دے کیونکہ اس میں سے جو کچھ تو مجھے دے گا وہ تیرا یا تیرے باپ کا مال نہیں ہے۔‘‘
یہ سن کر پہلے تو آپؐ ذرا دیر چپ رہے۔ پھر آپؐ نے فرمایا ’’بیشک مال اللہ کا ہے، میں اس کا بندہ ہوں مگر یہ تو بتا اب تیرے ساتھ بھی وہی برتاؤ کیا جائے جو تو نے میرے ساتھ کیا ہے۔‘‘ دیہاتی نے کہا ’’نہیں۔‘‘ آپؐ نے پوچھا ’’کیوں نہیں؟‘‘ اس نے کہا ’’کیوں کہ آپؐ برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتے۔‘‘ یہ سن کر آپ مسکرائے اور پھر حکم دیا کہ ’’اس کے ایک اونٹ پر جو اور ایک پر کھجور لاد دو۔‘‘
آپؐ اسلام اور مسلمانوں کی حفاظت اور بچاؤ کے لیے اسلام کے دشمنوں کا خوب ڈٹ کر مقابلہ کرتے تھے۔ مگر اپنے لیے کبھی کسی کو کوئی تکلیف نہ پہنچاتے ۔اپنے جانی دشمنوں تک کو معاف کر دیتے تھے۔ ہاں جو اسلام کا دشمن ہوتا، اس کے تو آپؐ بھی جانی دشمن ہو جاتے تھے۔
سخاوت
سخاوت میں رسولؐ پاک سے بڑھ کر کوئی نہ تھا۔ آپؐ فرماتے تھے ’’میں تو بانٹنے والاہوں دینے والا تو اللہ ہے۔‘‘ رسولؐ پاک کی زبان سے مانگنے والے کے لیے کبھی ’’نہیں‘‘ کا لفظ نہیں نکلا۔ آپؐ کسی چیز کو آئندہ کے لیے جمع نہ رکھتے تھے بلکہ اس کو محتاجوں اور ضرورت والوں میں بانٹ دیتے تھے۔ ایک بار آپؐ کے پاس اتنی بکریاں تھیں کہ سارا میدان بھرا ہوا تھا۔ ایک دیہاتی نے سوال کیا، آپؐ نے ساری بکریاں اسے دے دیں۔ وہ بہت خوش ہوا اور لوگوں کو تعریف کرتا پھرا۔ رسولؐ پاک کا قول ہے کہ ’’اگر احد (مدینہ کے ایک پہاڑ کا نام ہے) کے برابر بھی سونا ملے تو میں تین دن میں اسے غریبوں اور محتاجوں میں بانٹ کر ختم کردوں۔‘‘
آپؐ کے دینے کے طریقے بھی نرالے تھے، کسی کو کچھ دینا ہوتا تو اس سے کوئی چیز خریدتے اور پھر اسے پیسے دے دیتے اور اس کے ساتھ وہ چیز بھی تحفہ میں دے دیتے تھے۔ آپؐ کے ایک ساتھی کا نام جابرؓ تھا وہ کہتے ہیں ’’آپؐ ایک لڑائی سے واپس آ رہے تھے میرا اونٹ تھک کر پیچھے رہ گیا تھا۔ اتنے میں آپؐ تشریف لے آئے۔ آپؐ نے پوچھا کیوں جابرؓ کیا حال ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا ’’میرا اونٹ تھک گیا ہے۔‘‘ رسولؐ پاک نے میرے اونٹ کو ذرا مارا تو وہ چلنے لگا۔
میں آپؐ کے ساتھ باتیں کرتا ہوا چلا جا رہا تھا۔ باتوں باتوں میں آپؐ نے پوچھا ’’کیا تم اپنا اونٹ بیچتے ہو۔‘‘ میں نے کہا ’’جی ہاں۔‘‘ آپؐ نے وہ اونٹ مجھ سے خرید لیا۔ آپؐ آگے تشریف لے گئے۔ میں دن چڑھے مدینہ پہنچا اور میں نے اونٹ مسجد کے دروازے پر باندھ دیا۔ آپؐ نے مجھے دیکھ کر فرمایا ’’تم اب آئے ہو؟‘‘ میں نے عرض کیا ’’جی ہاں۔‘‘ آپ نے فرمایا اونٹ کو چھوڑ دو اور مسجد میں آکر دو رکعت نماز پڑھو۔‘‘ جب میں نماز سے فارغ ہوا تو آپؐ نے مجھے اونٹ کی قیمت ادا کر دی۔ میں قیمت لے کر چلا۔ آپؐ نے پھر مجھے بلایا۔ میں ڈرا کہ میرا اونٹ واپس کر دیا جائے گا مگر میں آیا تو آپؐ نے فرمایا اونٹ بھی لے جاؤ اور اس کی قیمت تمہاری ہوچکی ہے، اسے بھی رہنے دو۔‘‘
ایک دن رسولؐ پاک ،حضرت عمرؓ اور ان کے بیٹے عبداللہؓ کہیں سفر میں اونٹوں پر جا رہے تھے۔ حضرت عمرؓ کے بیٹے ایک نوجوان اونٹ پر سوار تھے، وہ اونٹ بڑا شریر اور تیز تھا ۔سب سے آگے نکل جاتا تھا۔ حضرت عمرؓ کو یہ اچھا نہ لگتا تھا کہ رسولؐ پاک سے آگے کوئی چلے۔ حضرت عمرؓ بار بار اپنے بیٹے کو ٹوکتے مگر اونٹ نہ رکتا تھا۔ رسولؐ پاک نے حضرت عمرؓ سے پوچھا ’’اے عمرؓ تم اسے بیچتے ہو؟‘‘ حضرت عمرؓ نے کہا ’’حضور یہ آپؐ ہی کا ہے۔‘‘ آپؐ نے فرمایا ’’نہیں تم اسے میرے ہاتھ بیچ دو۔‘‘ حضرت عمرؓ نے اسے رسولؐ پاک کے ہاتھ بیچ دیا۔ رسولؐ پاک نے وہ اونٹ وہیں حضرت عمرؓ کے بیٹے کو دے دیا اور حضرت عمرؓ کے بیٹے سے فرمایا’’ اے عبداللہؓ یہ اونٹ تمہارا ہے، اب جو تمہارا جی چاہے کرو۔‘‘
رسولؐ پاک کی سخاوت کی مثال اس سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتی ہے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ جب آپؐ سخت بیمار تھے اور اسی بیماری میں اپنے مولیٰ سے جا ملے۔ انہیں دنوں آپؐ کے پاس کہیں سے کچھ روپے آئے۔ آپ نے وہ سب کے سب ضرورت والوں اور محتاجوں کو دے دیئے مگر کچھ روپے آپؐ کے پاس بچے رہے۔ جب تک آپؐ نے انہیں بھی نہ بانٹ لیا، آپ کو نیند نہ آئی۔ ان روپوں کو بانٹنے کے بعد آپ آرام سے سوئے۔
انصاف
رسولؐ پاک پیغمبر ہونے سے پہلے ہی سارے مکہ میں انصاف کرنے میں مشہور تھے۔ مکہ بھر میں ’’امین‘‘ (امانت دار اور انصاف کرنے والے) مشہور تھے۔ مکہ میں جب کسی میں جھگڑا ہوتا تھا تو آپؐ فیصلہ کر دیتے تھے۔ ایک مرتبہ مکہ والوں نے خانہ کعبہ کو پھر سے بنایا۔ خانہ کعبہ میں ایک بہت پرانا پتھر ہے جس کا نام حجر اسود (کالا پتھر) ہے۔ یہ پتھر اصل میں اس زمانے سے چلا آتا ہے جب حضرت ابراہیمؑ نے خانہ کعبہ بنایا تھا۔ اس وجہ سے یہ پتھر مسلمانوں کے لیے بڑا برکت والا اور تاریخی ہے۔
جب خانہ کعبہ بن چکا تو حجر اسود کو اس کی جگہ پر رکھنے میں مختلف قبیلوں کے سرداروں میں جھگڑا ہوگیا اور آخر فیصلہ ہوا کہ جو آدمی کل صبح سب سے پہلے خانہ کعبہ میں آئے اس کو فیصلہ کرنے والا مانا جائے گا۔ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ دوسرے دن رسولؐ پاک سب سے پہلے خانہ کعبہ میں داخل ہوئے۔ سارے سردار بول اٹھے ’’لو۔۔۔ امین آیا‘‘۔ انہوں نے رسولؐ پاک کو جج بنایا۔ آپؐ نے بہت ہی اچھا فیصلہ کیا ،جس سے سارے لوگ خوش ہوئے۔
رسولؐ پاک نے یہ کیا کہ ایک چادر منگوائی اور حجر اسود کو اس پر رکھ دیا۔ اب آپؐ نے سب سرداروں سے کہا ’’چادر کا ایک ایک کونا پکڑو اور پتھر اٹھا کر اس کی جگہ پر رکھو۔ سب سرداروں نے خوشی خوشی حجر اسود کو اس کی جگہ پر رکھا اور رسولؐ پاک کے فیصلہ کی تعریف کرنے لگے۔
رسولؐ پاک انصاف کے معاملے میں کسی کی رعایت نہ کرتے تھے۔ چاہے آپؐ کا عزیز سے عزیز کیوں نہ ہو۔ اس وجہ سے مکہ اور مدینہ کے لوگ جو آپ کو نبیؐ نہ مانتے تھے، وہ بھی آپ ہی سے فیصلہ کراتے تھے۔ ایک دن ایک یہودی اور ایک نام کے مسلمان میں کسی بات پر جھگڑا ہوگیا۔ غلطی نام کے مسلمان کی تھی۔ یہودی کہتا تھا نہیں، چلو رسولؐ پاک سے فیصلہ کرائیں اور وہ نام کا مسلمان کہتا تھا نہیں۔ یہودیوں کے سردار کے پاس چلیں اس وجہ سے کہ وہ لوگوں سے روپے لے کر ان کے حق میں فیصلہ کرتا تھا۔ یہودی نہ مانا۔ آخر دونوں رسولؐ پاک کے پاس آئے۔ رسولؐ پاک نے بالکل ٹھیک فیصلہ کیا۔
ایک دن کا ذکر ہے کہ ایک عورت چوری میں پکڑی گئی۔ اس عورت کا نام فاطمہ تھا۔ رسولؐ پاک کے پاس لوگ فیصلے کے لیے آئے۔ اس عورت پر چوری ثابت ہوگئی۔ آپؐ نے اسلامی قانون کی رو سے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا۔ بڑے بڑے سرداروں نے چاہاکہ یہ بڑے گھرانے کی عورت ہے۔ اس کی سفارش کرکے اسے بچا لیں۔ ایک مسلمان سفارش کرنے کے لیے آیا۔ آپؐ نے فرمایا ’’تم اللہ کی مقرر کی ہوئی باتوں میں سفارش کو دخل دیتے ہو۔‘‘ اس کے بعد آپؐ اٹھے اور ایک زور دار تقریر فرمائی۔ آپؐ نے فرمایا:
’’لوگو! تم سے پہلے قومیں اس لیے تباہ ہوگئیں کہ جب ان میں کوئی بڑا خاندانی آدمی چوری کرتا تھا تو لوگ اسے چھوڑ دیتے تھے اور جب کوئی کمزور چوری کرتا تھا تو اسے سزا دیتے تھے۔ خدا گواہ ہے اگر محمدؐ کی بیٹی (فاطمہ) بھی چوری کرتی تو اس کا بھی ہاتھ کاٹا جاتا۔‘‘ غرض کہ رسولؐ پاک سے بڑھ کر ٹھیک فیصلہ کرنے والا نہ کوئی ہوا ہے اور نہ ہوگا۔ اسی وجہ سے مکہ کے رہنے والے اور مدینہ کے بسنے والے آپؐ کے جانی دشمن ہونے پر بھی آپؐ ہی سے جھگڑوں کے فیصلے کراتے تھے۔ آپؐ کے فیصلے ایسے اچھے ہوتے تھے کہ جھگڑنے والوں کو اطمینان ہو جاتا تھا۔ آپ اللہ تعالیٰ کے اس حکم پر عمل کرتے تھے ’’اے محمد! اگر تم ان غیر مسلموں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف سے فیصلہ کرو ۔بیشک اللہ انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔‘‘

انکسار
رسولؐ پاک جو ساری دنیا کے انسانوں سے افضل تھے، سب سے زیادہ منکسر مزاج تھے۔ تم پوچھو گے کیسے؟ لو ہم تمہیں بتائے دیتے ہیں۔ رسولؐ پاک تمام آدمیوں سے محبت کرتے تھے۔ سوچو تو بھلا جو آدمی دوسروں سے محبت کرے وہ غرور کیسے کرے گا۔ رسولؐ پاک کو اپنے ساتھیوں سے محبت تھی اور آپؐ کے ساتھ ان کو عقیدت تھی۔ آپؐ اپنے ساتھیوں کے ساتھ انکسار سے پیش آتے تھے اور آپؐ کے ساتھی آپؐ سے ادب اور عزت سے۔ آپؐ کبھی کوئی ایسی بات نہ کرتے تھے جس سے غرور ظاہر ہوتا ہو۔
آپؐ ہمیشہ مسلمانوں کے ساتھ مل جل کر اس طرح کام کرتے تھے کہ اپنے آپ کو ان میں ممتاز نہ ہونے دیتے تھے۔ آپؐ اپنے ساتھیوں کو اس بات سے روکتے تھے کہ وہ آپؐ کو کسی پچھلے پیغمبرؑ سے بڑھ کر سمجھیں۔ آپؐ نے فرمایا ’’کسی کو بھی نہ کہنا چاہیے کہ میں متیؑ کے بیٹے یونسؑ (ایک رسولؑ گزرے ہیں) سے بہتر ہوں اور جس کسی نے یہ کہا کہ متیؑ کے بیٹے یونسؑ سے بہتر ہوں اس نے غلطی کی۔‘‘ حالانکہ آپؐ تمام رسولوںؑ کے سردار ہیں مگر انکسار کی وجہ سے اپنے آپ کو کسی سے زیادہ مرتبے والا بتانا بھی پسند نہ فرماتے تھے۔
ایک دن مدینہ میں ایک یہودی آپؐ کے پاس آیا اور کہنے لگا ’’رسولؐ خدا آپؐ کے ساتھیوں میں سے ایک نے میرے منہ پر تھپڑ مارا ہے۔‘‘ آپؐ نے پوچھا ’’کس نے؟‘‘ اس یہودی نے کہا ’’ایک مسلمان نے۔‘‘ آپ نے اسے بلایا اور پوچھا ’’کیا تو نے اسے مارا ہے؟‘‘ اس نے عرض کیا ’’جی ہاں! میں نے اسے بازار میں قسم کھاتے سنا اس نے قسم کھائی۔‘‘ ’’قسم ہے اس ذات کی جس نے موسیؑ ٰ (مشہور پیغمبر) کو تمام دنیا میں ساری مخلوق پر فضیلت دی۔‘‘ اس بات پر مجھے غصہ آیا۔ میں نے کہا ’’اے ناپاک! کیا محمدؐ پر بھی؟‘‘ اور میں نے اس کے منہ پر تھپڑ مارا۔‘‘ آپؐ نے فرمایا ’’تم لوگ مجھے پیغمبروں پر برتری مت دو۔‘‘
ایک مرتبہ آپؐ نے مسلمانوں کو اچھی باتیں بتاتے ہوئے اپنے متعلق فرمایا ’’تم میری تعریف بڑھا چڑھا کر مت کرو جیسے عیسائیوں نے حضرت عیسیؑ ٰ کو حد سے زیادہ بڑھا دیا، میں تو اللہ کے بندوں میں سے ایک بندہ ہوں، اس لیے مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسولؐ کہا کرو۔‘‘
اس سے بڑھ کر آپؐ کے انکسار کی مثال اور کیا ہوسکتی ہے کہ جس روز آپؐ مکہ فتح کرکے شہر میں داخل ہو رہے تھے تو انکسار کی وجہ سے آپؐ اپنا سر نیچے کیے ہوئے تھے۔ آپؐ ایک اونٹ پر سوار تھے۔ آپؐ اکیلے بھی نہ تھے بلکہ آپؐ کے پیچھے آپؐ کا ایک ساتھی بھی تھا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ فاتحوں کی سی شان سے کسی تیز رفتار گھوڑے پر سوار ہوتے۔ ہاں اگر کوئی اور ہوتا تو ایسا ہی کرتا مگر ہمارے اور آپ کے محمدؐ اللہ کے آخری پیغمبر اس بات کو کب پسند کرتے تھے۔
رحم و کرم
رحمت، محبت اور شفقت آپؐ سے بڑھ کر کون کرے گا؟ آپؐ کی محبت تمام جانداروں کے لیے تھی۔ انسانوں کے علاوہ آپؐ بے زبان جانوروں پر بھی رحم کرتے تھے۔ آپؐ نے اپنے ماننے والوں کو سمجھایا کہ ’’ایک عورت کو دوزخ کی سزا اس لیے دی گئی تھی کہ وہ ایک بلی کو بھوکا باندھ کر رکھا کرتی تھی اور ایک آدمی کو جنت میں اس لیے بھیجا گیا کہ اس نے ایک پیاسے کتے کو اپنا موزہ اتار کر اس سے کنویں میں سے پانی نکال کر پلایا۔‘‘ عرب میں بہت سی رسمیں ایسی تھیں کہ بیچارے جانوروں کو بری طرح تکلیفیں دی جاتی تھیں۔ آپؐ نے ان سب رسموں کو مٹا دیا۔ آپؐ چھوٹے بچوں پر بڑی شفقت کرتے تھے۔ چھوٹے چھوٹے بچوں کو گود میں لے کر پیار کرتے تھے۔ بچوں والی عورتیں مسجد میں نماز پڑھنے آتیں اور بچوں کے رونے کی آواز آتی تو آپؐ نماز جلدی ختم کرد یتے۔
عورتوں کی اس زمانے میں کوئی عزت نہ تھی۔ آپؐ نے یہ کہہ کر کہ ’’جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے‘‘ عورتوں کی عزت لوگوں کے دلوں میں بٹھا دی۔ جو جو دکھ بیچاری عورتوں کو دیے جاتے تھے، وہ سب آپؐ نے دور کر دیے۔ بیوی کے خاوند پر حقوق بتائے اور نیک آدمی اس کو کہا جو اپنے بیوی بچوں کے ساتھ اچھی طرح پیش آئے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’تم میں سے سب سے اچھا وہ ہے جو اپنی بیوی سے اچھا برتاؤ کرتا ہے۔‘‘
عرب میں لونڈی اور غلاموں کو بہت حقیر و ذلیل سمجھا جاتا تھا۔ آپؐ نے اپنے ساتھیوں کو سمجھایا کہ ’’جو کھانا تم کھاؤ وہ غلاموں اور لونڈیوں کو کھلاؤ۔ جو کپڑے تم پہنو وہ انہیں بھی پہناؤ۔‘‘
ایک مرتبہ رسولؐ پاک نے دیکھا کہ ایک چھوٹی عمر کا غلام بھاری بوجھ لیے جا رہا ہے۔ آپؐ کو بڑا رحم آیا۔ اس کا بوجھ آپؐ نے اٹھایا، جہاں اس کو پہنچانا تھا وہیں پہنچا دیا اور اس بچے سے کہہ دیا ’’اے بچے محمدؐ کو ہمیشہ اپنے دکھ میں یاد کر لیا کرو۔‘‘
ایک دفعہ مدینہ میں کسی یہودی کا ایک غلام بہت بیمار تھا، آپؐ اسے دیکھنے گئے تو بہت اندھیرا تھا۔وہ غلام کپڑا اوڑھے لیٹا تھا۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سن کر اس نے کہا کہ ’’کیا میرے مالک نے کسی کو میری مدد کے لیے بھیجا ہے؟‘‘ آپؐ رات بھر اس بیمار غلام کے پاس رہے۔ آپؐ کا دل محبت شفقت، رحم اور ہمدردی سے بھرا ہوا تھا ۔کیوں نہ ہوتا آپؐ کو اللہ تعالیٰ نے دنیا جہان کے لیے رحمت بنا کر بھیجا تھا۔
سچائی
رسولؐ پاک سچے تھے۔ آپؐ سچوں کے سردار تھے۔ آپؐ کبھی جھوٹ نہیں بولتے تھے۔ آپؐ کے سخت دشمن بھی آپ کو سچا مانتے تھے۔ جب اللہ تعالیٰ نے رسولؐ پاک کو حکم دیا کہ مکہ کے لوگوں کو اسلام کی طرف بلاؤ، آپؐ نے ایک پہاڑ پر چڑھ کر پکارا ’’اے قریش!‘‘ جب سارے لوگ ایک جگہ جمع ہوگئے تو آپؐ نے ان سے پوچھا: ’’اگر میں تم سے یہ کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے ایک بڑا لشکر پڑاؤ ڈالے پڑا ہے تو کیا تم مان لو گے؟‘‘ سب لوگوں نے ایک زبان ہوکر کہا ’’ہاں کیونکہ ہم نے آپ کو کبھی جھوٹ بولتے نہیں سنا۔‘‘ پھر آپؐ نے انہیں اسلام کی باتیں بتائیں۔
ایک دن ابوجہل آپؐ کی خدمت میں آیا اور کہا ’’ہم آپ کی سچائی کو تھوڑا ہی جھٹلاتے ہیں۔ ہم تو اس مذہب کو جھٹلاتے ہیں جو آپؐ پیش کرتے ہیں۔‘‘ ایک دن ایک عرب نے ابوجہل سے پوچھا ’’میں تجھ سے ایک بات پوچھتا ہوں۔ یہاں ہم دو کے سوا اور کوئی ہماری بات سننے والا نہیں ہے ۔تو مجھے سچ سچ بتا دے کہ محمدؐ سچے ہیں یا جھوٹے؟‘‘ ابوجہل نے جواب دیا ’’خدا گواہ ہے، محمدؐ ہمیشہ سچ بولتا ہے اور کبھی جھوٹ نہیں کہتا۔‘‘
مکہ کے سرداروں میں سے ایک سردار تھا۔ وہ ایک دن مکہ کے سرداروں سے کہنے لگا ’’یارو! تم یہ بات سوچو جو تمہارے لیے بڑی مشکل ہے۔ محمدؐ جب چھوٹا سا لڑکا تھا۔ مکہ بھر میں سچا اور امانت دار مشہور تھا۔ اب جبکہ اس کی داڑھی کے بال سفید ہوگئے اور وہ تم سے یہ باتیں کہتا ہے جو تم کو اچھی نہیں لگتی ہیں تو تم اسے جادوگر کہتے ہو، اللہ جانتا ہے وہ جادوگر نہیں ہے ۔تم کہتے ہو وہ پاگل ہے، وہ پاگل بھی نہیں، تم کہتے ہو وہ شاعر ہے، وہ شاعر بھی نہیں کیونکہ میں شاعری جانتا ہوں۔ اے قریش کے لوگو! تم اس بات پر غور تو کرو۔‘‘
رسولؐ پاک اپنے ساتھیوں سے فرماتے رہتے تھے ’’سچے بنو کیونکہ جب آدمی سچا ہوتا ہے تو نیکی کرتا ہے اور جب نیکی کرتا ہے تو ایمان کا نور پیدا ہوتا ہے۔ جس میں ایمان ہوتا ہے وہ جنت میں داخل ہوتا ہے۔ ایک مرتبہ رسولؐ پاک مسلمانوں کو اچھی باتیں بتاتے ہوئے فرما رہے تھے ’’خبردار! ہمیشہ سچے رہو خواہ تمہیں سچائی میں اپنی جان ہی کیوں نہ دینی پڑے۔ سچائی ہی میں نجات ہے۔‘‘

رسولؐ پاک کی محبت اور ہم مسلمان

ہم مسلمانوں کو ہمیشہ اس بات پر فخر رہا ہے کہ ہمیں اپنے رسولؐ سے ایسی محبت ہے جو کسی قوم کو اپنے پیغمبرؑ سے نہیں ہوسکتی۔ رسولؐ پاک کے ساتھی جس طرح آپؐ سے محبت کرتے تھے اس کی مثال ملنا ناممکن ہے۔ اللہ تعالیٰ کا بھی یہی حکم ہے ’’اگر تم مجھ سے محبت کرنا چاہتے ہو تو رسولؐ پاک کی پیروی کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا۔‘‘ شروع زمانے کے مسلمان رسولؐ پاک سے ایسی محبت کرتے تھے کہ اپنے رشتے داروں سے بھی کوئی کیاکرتا ہوگا۔ آپؐ کے قدموں پر جانیں قربان کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتے تھے۔ آپؐ کے محبت بھرے حکموں کو پورا کرنے کے لیے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے تھے۔ آپؐ سے جو محبت مسلمان مردوں، بچوں اور عورتوں کو تھی، اس کے بے شمار واقعات ہیں۔ خیر یہاں آپ کو ایک مسلمان عورت کا قصہ سناتے ہیں۔
ایک لڑائی میں افواہ اڑی کہ رسولؐ پاک شہید ہوگئے۔ یہ خبر ایک مسلمان عورت کو معلوم ہوئی۔ وہ دیوانوں کی طرح دوڑتی ہوئی مسلمانوں کے لشکر میں پہنچی۔ لوگوں سے لڑائی کا حال پوچھنے لگی، اس عورت کا باپ، بھائی، شوہر اور بیٹا اس لڑائی میں شریک ہوئے تھے۔ وہ سب کے سب شہید ہوگئے تھے۔ کسی نے اس سے کہا ’’تیرا باپ شہید ہوگیا، کوئی بولا تیرا شوہر بھی شہید ہوگیا اور کسی نے بتایا تیرا بیٹا اور بھائی بھی شہید ہوگئے۔‘‘
وہ بہادر عورت یہ سن کر بار بار یہی پوچھتی رہی کہ ’’ہمارے آقا یعنی پیارے رسولؐ پاک کیسے ہیں؟‘‘ لوگوں نے اسے بتایا ’’حضور خیریت سے ہیں۔‘‘ پھر آپؐ کے پاس آئیں اور آپؐ کا نورانی چہرہ دیکھا تو پکار اٹھیں ’’جب آپ سلامت ہیں تو ساری مصیبتیں کچھ نہیں۔‘‘
رسولؐ پاک کے ایک ساتھی تھے جن کا نام خبیبؓ تھا۔ دشمنوں نے دھوکے سے پکڑ کر مکے کے کافروں کے ہاتھ بیچ دیا۔ مکے والوں نے یہ طے کیا کہ انہیں پھانسی کی سزا دی جائے۔
ایک دن ان کی پھانسی کا مقرر ہوا۔ پھانسی کا تماشا دیکھنے کے لیے بہت سارے مکہ کے کافر اکٹھے ہوئے۔ خبیبؓ پھانسی پر لٹکائے گئے۔ چاروں طرف دشمنوں نے انہیں نیزے مارنے شروع کر دیئے۔
ایک بدتمیز کافر نے خبیبؓ سے پوچھا ’’بتاؤ اب تو تم بھی پسند کرتے ہوگے کہ محمدؐ پھنس جائیں اور تم چھوٹ جاؤ۔‘‘ خبیبؓ نے بڑے جوش سے جواب دیا ’’اللہ جانتا ہے میں تو یہ بھی پسند نہیں کرتا کہ میری جان بچ جانے کے لیے میرے پیارے نبیؐ کے پاؤں میں کوئی کانٹا بھی چبھے۔‘‘
آج اس گئے گزرے زمانے میں بھی مسلمانوں میں شاید ہی کوئی آدمی ہو جس کو آپؐ کی پیاری ذات سے محبت نہ ہو۔ مگر آپؐ کی محبت صرف نام کی نہ ہونی چاہیے بلکہ کام کی، آپؐ کی سچی محبت تو یہ ہے کہ ہم آپؐ کے لائے ہوئے اسلام کو دنیا میں دوسروں تک پہنچائیں ۔پہلے ہم خود اس پر عمل کرکے اچھے مسلمان بنیں پھر دوسروں کے سامنے اسلام پیش کریں، جب ہی ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں رسولؐ پاک سے محبت ہے اور ہم مسلمان ہیں۔

رسولؐ پاک نے کیا سکھایا؟

توحید اور رسالت
رسولؐ پاک کے نبی ہونے سے پہلے ساری دنیا میں گناہوں کا اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ خاص طور پر عرب میں تو برائیوں کی کوئی حد نہ تھی۔ بتوں کو یہ پوجتے تھے، آپس میں یہ لڑتے تھے، زندہ لڑکیوں کو زمین میں اپنے ہاتھوں سے یہ دفن کرتے تھے۔ دنیا بھر کی تمام برائیاں عرب میں تھیں۔ مصیبتوں اور بیماریوں سے بچنے کے لیے یہ بتوں کی پوجا کرتے تھے۔ انکے دلوں میں سورج، چاند، ستاروں وغیرہ کا خوف چھایا ہوا تھا۔ اس وجہ سے یہ لوگ ان چیزوں کے سامنے اپنا سر جھکاتے تھے اور جب رسولؐ پاک نے انہیں ان باتوں سے روکا تو سارا عرب آپ کا جانی دشمن ہوگیا۔ مکہ والے آپؐ کے خون کے پیاسے، یہودی بھی آپؐ کے دشمن، پھر بھی دنیا ایک عجیب تماشا دیکھتی ہے کہ عرب جیسے ملک میں تئیس (۲۳) سال کے تھوڑے سے زمانے میں آپؐ نے ایسی تبدیلی پیدا کر دی کہ کونے کونے سے توحید کی آواز آنے لگی۔ یہ رسولؐ پاک کی آسان اور سادہ تعلیم کا اثر تھا۔
اب ہم بتاتے ہیں کہ رسولؐ پاک نے مسلمانوں کو کیا کیا سکھایا؟ اور کیا تعلیم دی۔ رسولؐ پاک نے مسلمانوں کو پانچ باتوں کی تعلیم دی اور یہی باتیں اسلام کی بنیاد قرار دی گئیں۔
۱۔ توحید و رسالت، اللہ تعالیٰ کو ایک سمجھنا اور اس کے تمام رسولوںؑ کو سچا ماننا۔
۲۔ پانچ وقت کی نماز پڑھنا۔ ۳۔ رمضان کے روزے رکھنا۔
۴۔ زکوٰۃ دینا۔ ۵۔ خانہ کعبہ کا حج کرنا۔
اسلام کے یہ پانچ رکن کہلاتے ہیں۔ رسولؐ پاک نے پابندی کے ساتھ ان کو پورا کیا اور مسلمانوں کو ان کے پورا کرنے کی تاکید کی۔ چنانچہ رسولؐ پاک نے اپنے آخری حج میں مسلمانوں کو جو نصیحتیں کی ہیں، ان میں ان پانچ باتوں کی تاکید کی ہے۔ آپؐ نے فرمایا ’’اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اس کا کوئی ساجھی نہیں، بادشاہی اور تعریف اسی کے لیے ہے ۔وہی مارتا اور وہی زندہ کرتا ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہی اکیلا معبود ہے۔‘‘
پھر آگے چل کر آپؐ نے فرمایا ’’لوگو! خوب سن لو۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو۔ پانچ وقت کی نماز پڑھو۔ سال بھر میں ایک مہینے رمضان کے روزے رکھو، مال کی زکوٰۃ خوشی سے دیا کرو اور خانہ کعبہ کا حج ادا کرو۔ لوگو! میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جاتا ہوں ۔اگر تم نے انہیں مضبوطی سے پکڑ لیا تو گمراہ نہ ہوگے۔ وہ چیزیں کیا ہیں؟ قرآن مجید اللہ کی کتاب اور میری سنت۔‘‘ توحید کہتے ہیں اللہ کو ایک ماننا اور اس کے آگے سر جھکانا۔ یہی اسلام ہے اور اسی کے سکھانے کے لیے رسولؐ پاک دنیا میں تشریف لائے تھے۔ لوگ نادانی اور کم عقلی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر اس کی پیدا کی ہوئی چیزوں کو جیسے سورج، چاند، سمندر، پہاڑ، دریا اور ستاروں کو دیوتا سمجھ کر ان کی پوجا کرنے لگے تھے، ان چیزوں کے علاوہ انسان انسان کی پوجاکرتے تھے۔
کچھ لوگوں نے فرشتوں اور رسولوںؑ کو اللہ تعالیٰ تک رسائی کا وسیلہ جان کر ان کی عبادت کرنا شروع کر دی تھی۔ ان کے خوب صورت بت تراش کر رکھ لیے تھے۔ کچھ لوگ پیغمبروں اور بڑوں کی قبروں پر چڑھاوے چڑھانے میں اللہ تعالیٰ کی خوشی خیال کرتے تھے۔
ان تمام خرابیوں کو مٹانے کے لیے رسولؐ پاک تشریف لائے۔ آپؐ نے ساری دنیا کو بتایا کہ ’’اللہ ایک ہے اور وہی عبادت کے لائق ہے۔ اس کے علاوہ کسی کو پرستش کے لائق نہ جانو ،چاہے وہ فرشتے ہوں یا رسولؐ، نبیؑ ہوں یا ولی۔ یہ سب کے سب اللہ کی مخلوق ہیں، اللہ کے بندے ہیں ۔اللہ کے سوا کوئی روزی دینے اور نفع نقصان پہنچانے کی قدرت نہیں رکھتا۔ وہی سب کا مالک ہے۔ کوئی دوسرا اس کا ساجھی نہیں۔ نہ کوئی اس کا مددگار ہے، نہ بیٹا ہے، نہ بھائی، نہ ماں نہ باپ۔ وہ اکیلا معبود ہے۔ اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔‘‘
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے رسولؐ پاک کو توحید کی تعلیم اس طرح دی ہے ’’کہہ دیجیے اے محمدؐ! آپ کا اللہ تو بس ایک ہے۔‘‘ ایک دوسری جگہ قرآن میں اس طرح بتایا گیا ہے ’’ساری تعریف اللہ کے لیے ہے جس کی نہ اولاد ہے، نہ اس کی بادشاہی میں کوئی شریک ہے نہ وہ کمزور ہے کہ اس کا کوئی مددگار ہو۔‘‘ رسولؐ پاک نے مسلمانوں کو اچھی طرح بتا دیا ہے کہ اللہ کے ساتھ شریک کرنے سے بڑھ کر اور کوئی گناہ نہیں ہے۔‘‘
رسولؐ پاک نے یہ بھی بتا دیا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دنیا میں پیغمبر اور رسولؐ آتے رہے ہیں۔ ان کا کام یہ تھا کہ لوگوں کو سیدھی راہ پر چلنے کی ہدایت کریں اور توحید کی تعلیم دیں۔
جب سے آدمی پیدا ہوئے ہیں اللہ تعالیٰ نے ہر ملک اور ہر قوم میں اپنے نبیؑ بھیجے، آخر میں جب ساری دنیا ان رسولوںؑ کی بتائی ہوئی باتوں کو بھلا بیٹھی تو اللہ تعالیٰ نے رسولؐ پاک کو ساری دنیا کے لیے آخری نبی اور سارے رسولوںؑ کا سردار بنا کر بھیجا۔ آپؐ کے بعد نہ کوئی نبی آئے گا اور نہ کوئی نیا دین، نبوت اور دین پورا ہوچکا ہے۔
جب تک ہم اللہ تعالیٰ کو ایک اور اس کے رسولوںؑ کو سچا اور اس کے آخری رسول کو ساری دنیا کا رہنما نہ مانیں ہمارا ایمان ٹھیک نہ ہوگا۔ اس لیے ہمارے لیے ضروری ہے کہ اللہ کی توحید کے ساتھ تمام نبیوں کو سچا مانیں اور ان سب پیغمبروں کے کام کو پورا کرنے والا اور آخری نبی محمدؐ کو مانیں اور آپؐ کی بتائی ہوئی باتوں پر عمل کریں، تب ہم سچے مسلمان اور رسولؐ پاک کے ماننے والے کہلائیں گے۔
اللہ تعالیٰ کو ایک ماننے، اس کے رسولوںؑ کو سچا ماننے اور اس کے پیارے رسولؐ کو آخری رسولؐ ماننے میں ہماری بھلائی ہے۔ آپ پوچھیں گے وہ کیسے؟ تو ہم بتاتے ہیں۔ جو آدمی صرف ایک اللہ کو اپنا مالک اور معبود جانے گا، اس کے دل میں کسی کا ڈر نہ ہوگا، وہ اللہ کے سوا کسی کا غلام نہیں بن سکتا ،وہ بہادر ہوگا۔ آپ جانتے ہیں بہادر آدمی خود بھی خوش رہتا ہے اور دوسروں کو خوش رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ دنیا میں اطمینان سے رہتا ہے۔
رسولوںؑ کو سچا ماننے سے یہ فائدہ ہوگا کہ ان کی پاک زندگیوں کے نمونے ہماری زندگیوں کو اچھا بنا دیں گے۔ رسولؐ پاک جو آخری نبیؐ ہیں ،آپؐ کی زندگی کو اپنے لیے نمونہ بنائیں گے تو ہم دنیا اور آخرت میں کامیاب ہو جائیں گے۔
نماز
اسلام کا دوسرا رکن نماز ہے۔ رسولؐ پاک پانچ وقت (فجر، ظہر، عصر، مغرب اور عشاء) کی نماز خود بھی پابندی سے پڑھتے تھے اور سب مسلمانوں کو نماز پڑھنے کی تاکید کرتے تھے۔ آپؐ اور آپؐ کے ساتھیوں کو نماز پڑھنے میں بڑا لطف آتا تھا اور آنا بھی چاہیے کہ نماز میں چپ چاپ کھڑے ہوکر اللہ تعالیٰ سے باتیں کرتے ہیں، شاید آپ پوچھیں کہ اللہ تعالیٰ نماز کے وقت کہاں ہوتے ہیں، وہ ہمیں دیکھتے ہیں مگر ہم انہیں نہیں دیکھ سکتے۔ رسولؐ پاک اور آپ کے ساتھی نماز اس طرح پڑھتے تھے کہ ان کو اور کسی چیز کی خبرنہیں رہتی تھی۔
آپ پڑھ چکے ہیں کہ رسولؐ پاک نے آخری حج میں مسلمانوں کو نماز پڑھنے کی سخت تاکید کی۔ پانچوں وقت کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھنے کی بڑی خوبیاں بیان فرماتے تھے۔
آخری وقت آپؐ کی مبارک زبان پر یہ لفظ تھے ’’نماز! نماز! اور غلام کے حقوق۔‘‘
نماز پڑھنے کے بڑے بڑے فائدے یہ ہیں۔ نماز پڑھنے والا ہمیشہ صاف ستھرا رہتا ہے۔ نماز پڑھنے والے کا جسم صاف رہتا ہے کیونکہ ہر نمازکے لیے وضو کرنا پڑتا ہے۔ جو آدمی صاف ستھرا رہتا ہے، اسے کوئی بیماری نہیں ہوتی۔ نماز پڑھنے والے کے کام میں برکت ہوتی ہے۔ نماز پڑھنے سے آدمی وقت کی پابندی سیکھتا ہے۔ ایک امام کے پیچھے امیر، غریب، جوان، بوڑھے اور بچے قبلہ رخ ہوکر کچھ ایسی ادا سے کھڑے ہوتے ہیں کہ دیکھنے والے پر بہت اثر ہوتا ہے۔
صفوں میں مسلمان اس شان سے کھڑے ہوتے ہیں کہ صفیں بالکل سیدھی ہوتی ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی فوج کندھے سے کندھا ملائے کھڑی ہے۔ نماز میں امیر، غریب، بوڑھا ،جوان اکٹھے کھڑے ہوتے ہیں۔ اس لیے مسلمانوں میں محبت، ہمدردی اور مساوات پائی جاتی ہے۔ سچے مسلمانوں کے دلوں میں ایک دوسرے کی محبت اور پیار ہوتا ہے، اس لیے رسولؐ پاک نے تاکید فرمائی ہے کہ پانچوں وقت کی نماز مل کر جماعت کے ساتھ پڑھیں۔
نماز میں جتنی دعائیں ہیں ،ان سب میں اللہ تعالیٰ کی تعریف اور بڑائی ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہیں۔ اپنی اور دوسروں کی بھلائی کے لیے دعائیں مانگتے ہیں، اللہ تعالیٰ کی بڑائی کا دھیان ہر وقت دل میں رکھتے ہیں تاکہ اسلام کا پہلا کلمہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہمیشہ یاد رہے۔ پھر جب نماز ختم کرکے سلام پھیرتے ہیں تو سلامتی اور امن کی دعا مانگتے ہیں۔ نیکی اور بھلائی کی دعا مانگتے ہیں، مگر یہ دعا صرف اپنے لیے نہیں ہوتی۔ سب مسلمانوں کے لیے ہوتی ہے۔ وہ دعا عام طور پر یہ ہوتی ہے ’’اے ہمارے رب! ہمارے دین اور دنیا کو اچھا بنا۔‘‘ اللہ ہم سب کو نماز کا پابند بنائے۔ آمین
رمضان کے روزے
رسولؐ پاک کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے قرآن میں مسلمانوں کو رمضان کے روزے رکھنے کا حکم دیا ہے ’’تم میں سے جس کو رمضان کا مہینہ ملے وہ رمضان کے روزے رکھے۔‘‘ دوسری جگہ ہے ’’تم پر روزہ رکھنا فرض کیا گیا۔‘‘ ایک اور جگہ قرآن میں اس طرح حکم ہے ’’روزے تمہارے لیے بہت بہتر ہیں۔‘‘
رسولؐ پاک رمضان کے روزے خود رکھتے تھے اور اپنے ماننے والوں کو پابندی سے روزہ رکھنے کی تاکید کرتے تھے۔ رمضان کے علاوہ یوں بھی اکثر آپؐ روزے رکھتے تھے لیکن آپؐ اپنے ساتھیوں کو رمضان کے علاوہ کثرت سے روزہ رکھنے کی ممانعت کرتے تھے۔
روزے رکھنے کے بڑے بڑے فائدے ہیں۔ ان میں سے تھوڑے سے ہم بتائے دیتے ہیں۔ پہلا فائدہ تو یہ ہے کہ روزے رکھنے والے کی صحت اچھی رہتی ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کبھی کبھی ڈاکٹر یا حکیم اپنے بیماروں کو کھانے سے روکتے ہیں اس لیے کہ کھانے سے ان کو نقصان پہنچتا ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ رات دن آدمی کھاتا رہتا ہے۔ پیٹ کو آرام کم ملتا ہے، اس لیے وہ ٹھیک کام نہیں کرسکتا ۔اگر اس کو کام سے روک دیا جائے تو اس کی تکان دور ہو جاتی ہے اور پھر وہ صحیح طور پر کام کرنے لگتا ہے۔
روزے کی بھوک پیاس سے دوسروں کی بھوک پیاس کا اندازہ ہوتا ہے اور غریبوں کی مدد کا خیال پیدا ہوتا ہے۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ رمضان میں لوگ غریبوں کی مدد زیادہ کرتے ہیں۔ روزے رکھنے سے آدمی کو اپنے اوپر اچھی طرح قابو ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کی قدرہوتی ہے۔ غرض کہ روزہ رکھنے سے صحت اچھی رہتی ہے اور آدمی اپنے نفس پر قابو پالیتا ہے۔
مال کی زکوٰۃ
رسولؐ پاک کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو قرآن پاک میں اس طرح حکم دیا ہے ’’زکوٰۃ دیتے رہو۔‘‘ دوسری جگہ قرآن پاک میں اس طرح ہے ’’فصلوں کے کاٹنے اور پھلوں کے توڑنے کے دن اللہ کا حق دے دیا کرو۔‘‘ ایک اور جگہ قرآن میں رسولؐ پاک کو حکم دیا گیا ہے ’’ان کے (مسلمانوں کے) مال سے زکوٰۃ لیا کرو۔‘‘
رسولؐ پاک امیر آدمیوں سے اس حساب سے جو اللہ نے ان کے لیے مقرر فرمایا ہے، روپے لیتے تھے، بس یہی زکوٰۃ ہے۔ زکوٰۃ کے روپے سے آپؐ نے بیت المال یعنی اسلامی خزانہ قائم کیا تھا اور اس روپے سے محتاجوں اور مسکینوں کی، جو کمانے کے قابل نہ تھے ،مدد کرتے تھے۔ آپؐ غلاموں کو ان کے مالکوں سے خرید کر آزاد کر دیتے تھے۔ ایسے قرض داروں کے قرض چکا دیتے تھے، جن میں قرض ادا کرنے کی سکت نہ ہوتی تھی۔ اسلام کے دشمنوں سے (جو مسلمانوں کے مٹانے کے لیے بڑی بڑی فوجیں لے کر آتے تھے) مقابلہ کرنے کے لیے ہتھیار اور سواریاں خریدتے تھے۔ اس کے علاوہ زکوٰۃ کا روپیہ ملک کی دوسری ضرورتوں میں خرچ ہوتا تھا۔
زکوٰۃ دینے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ غریبوں اور محتاجوں کو جو مفلسی کے مارے پریشان اور دربدر پھرتے ہیں، کھانے کو مل جاتا ہے، اطمینان سے رہتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ملک بھر میں خوشی اور آرام رہتا ہے۔ جس مال کی زکوٰۃ نکالی جاتی ہے اس میں برکت ہوتی ہے۔ جب غریبوں اور محتاجوں کو تمہارے کمائے ہوئے مال میں سے کچھ حصہ ملتا ہے تو وہ اپنی ضرورتیں پوری کرکے دعائیں دیتے ہیں۔ ان دعاؤں کا یہ اثر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ زکوٰۃ دینے والوں کے مال میں برکت دے دیتے ہیں۔
خانہ کعبہ کا حج
قرآن میں اللہ تعالیٰ نے رسولؐ پاک کے ذریعے سے مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ ’’اللہ کے لیے ان لوگوں پر خانہ کعبہ کا حج فرض ہے جن کو سفر کرنے کی مقدرت ہو۔‘‘ دوسری جگہ قرآن میں اس طرح حکم ہے ’’اللہ کے لیے حج اور عمرہ پورا کرو۔‘‘ آپ پوچھیں گے کہ حج کسے کہتے ہیں؟ ہم بتائے دیتے ہیں۔ خانہ کعبہ میں چند اصولوں اور قاعدوں کے ساتھ خاص زمانے یعنی حج کے مہینے میں خاص جگہوں یعنی مکہ، عرفات وغیرہ میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کا نام حج ہے۔ رسولؐ پاک نے امیر مسلمانوں کو حج کرنے کی بڑی تاکید کی ہے۔ آپؐ نے خود حج کرکے مسلمانوں کے لیے نمونہ قائم کر دیا۔ آپؐ کا آخری حج جس کے بعد آپ نے وفات پائی بہت مشہور ہے۔ اس حج میں ایک لاکھ چوبیس ہزار مسلمان حاضر تھے، یہ سب بغیر سلے کپڑے ۔ایک چادر کا تہمد باندھے اور ایک چادر اوڑھے ننگے سر اپنے رسولؐ کے ساتھ مکہ سے باہر ایک بڑے میدان میں جس کا نام عرفات ہے، گویا اللہ کے سامنے کھڑے تھے۔ رسولؐ پاک اپنے ماننے والوں کو یہ بتا رہے تھے ’’لوگو! جس طرح تم آج کے دن اس مہینے اور اس شہر کا احترام کرتے ہو، اسی طرح ایک دوسرے کے مال اور جان کو حرام سمجھو۔ لوگو! خبردار میرے بعد گمراہ نہ ہو جانا۔ ایسا نہ ہو کہ ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے لگ جاؤ۔ لوگو! سن لو اپنے پروردگار کی عبادت کرو، پانچ وقت کی نماز پڑھو، سال بھر میں ایک مہینے کے روزے رکھو، مال کی زکوٰۃ نہایت خوشی سے دیا کرو اور خانہ کعبہ کا حج بجا لاؤ! لوگو! میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جاتا ہوں، اگر تم نے انہیں مضبوطی سے پکڑ لیا تو گمراہ نہ ہو گے۔ وہ چیزیں کیا ہیں؟ قرآن مجید، اللہ کی کتاب اور میری سنت۔‘‘
اس کے بعد آپؐ نے مسلمانوں سے پوچھا ’’لوگو! تم سے اللہ میری نسبت پوچھے گا تو کیا جواب دو گے؟‘‘ مسلمانوں نے جواب دیا ’’ہم کہیں گے کہ آپؐ نے اللہ کا پیغام یعنی اسلام ہم تک پہنچایا اور آپؐ نے اپنا فرض پورا کر دیا۔‘‘ تب آپؐ نے آسمان کی طرف انگلی اٹھائی اور تین بار فرمایا ’’اے اللہ گواہ رہنا! اے اللہ گواہ رہنا! اے اللہ گواہ رہنا۔‘‘‘ ٹھیک اسی وقت قرآن کی ایک آیت اتری جس کا مطلب ہے ’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین پورا کر دیا اور اپنی نعمت کو تم پر پورا کر دیا اور تمہارے لیے دین اسلام کو پسند کیا۔‘‘
حج کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان آپس میں ملتے ہیں ان کی جان پہچان ایک دوسرے سے ہوتی ہے، ایک دوسرے کے دکھ سکھ سے واقف ہو جاتے ہیں۔ حج میں اسلام کے بھائی چارے اور مساوات کا نظارہ دیکھنے کے قابل ہوتا ہے، سارے حاجی، امیر، غریب، مرد اور عورتیں، جوان اور بوڑھے مکہ کے باہر عرفات کے میدان میں اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ سب بغیر سلے کپڑے یعنی ایک تہمد باندھے اور ایک چادر اوڑھے ہوتے ہیں اور سب کی زبانوں پر عربی کی ایک دعاء ہوتی ہے جس سے سارا عرفات کا میدان گونج اٹھتا ہے جس کا اردو میں مطلب یہ ہے ’’اے میرے مولا! میں حاضر ہوں! اے میرے مولا میں حاضر ہوں! میں حاضر ہوں! تیرا کوئی ساجھی نہیں، میں حاضر ہوں! نعمت اور ملک تیرے ہی لیے ہے ،کوئی تیرا ساجھی نہیں۔‘‘

مختصر مگر جامع قرآنی و نبویﷺ دعائیں

حضرت آدم علیہ السلام کی دعا
رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ (سورۃ الاعراف)
ترجمہ: اے ہمارے رب! ہم نے اپنے اوپر ظلم کیا۔ اب اگر تو نے ہم سے درگزر نہ کیا تو ہم تباہ ہو جائیں گے۔
حضرت نوح علیہ السلام کی دعا
رَبِّ اغْفِرْ لِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَلِمَنْ دَخَلَ بَیْتِیَ مُؤْمِنًا وَّلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ وَلاَ تَزِدِ الظّٰلِمِیْنَ اِِلَّا تَبَارًا (سورۃ نوح)
ترجمہ: اے میرے رب! مجھ کو اور میرے ماں باپ کو اور ہر اس شخص کو جو ایمان کی حالت میں میرے پاس آئے، اور مومن مردوں اور مومن عورتوں، سب کو بخش دے اور ظالموں کو ہلاکت میں ڈال دے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا
رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ (سورۃ البقرہ)
ترجمہ: اے ہمارے رب! تو ہم سے یہ خدمت قبول فرمالے۔ تو سب کی سننے والا اور سب کی جاننے والا ہے۔
حضرت لوط علیہ السلام کی دعا
رَبِّ انْصُرْنِیْ عَلَی الْقَوْمِ الْمُفْسِدِیْنَ (سورۃ العنکبوت)
ترجمہ: اے میرے پروردگار! مفسد لوگوں کے مقابلے میں میری مدد فرما۔
حضرت یوسف علیہ السلام کی دعا
فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ اَنْتَ وَلِیّٖ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ تَوَفَّنِیْ مُسْلِمًا وَّ اَلْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَ (سورۃ یوسف)
ترجمہ: اے زمین و آسمان بنانے والے، تو دنیا اور آخرت میں میرا سرپرست ہے۔ میرا خاتمہ اسلام پر کر اور انجام کار مجھے صالحین کے ساتھ ملا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا
رَبِّ اِنِّیْ لِمَآ اَنْزَلْتَ اِلَیَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیْرٌ (سورۃ قصص)
ترجمہ: اے میرے رب! میں ہر اس بھلائی کا، جو تو مجھے عطا فرمائے، محتاج ہوں۔
حضرت داؤد علیہ السلام کی دعا
اَلّٰلھُمَّ اِنِّیْ اَسْءَلُکَ حُبَّکَ وَحبَّ مَنْ یُّحِبُّکَ وَالْعَمَلَ الَّذِیْ یُبْلِغُنِی اِلٰی حُبِّکَ اَللّٰھُمَّ اَجْعَلْ حُبَّکَ اَحَبَّ اِلَیَّ مِنْ نَّفْسِیْ وَمَالِیْ وَاَھْلِیْ وَمِنَ الْمَآئِ الْبَارِدِ (ترمذی)
ترجمہ: اے اللہ! میں آپ سے مانگتا ہوں۔ آپ کی محبت اور آپ سے محبت کرنے والوں کی محبت، اور ایسے عمل کی محبت جو آپ کی محبت تک پہنچاد ے۔ الٰہی! اپنی محبت میرے نزدیک میرے نفس اور میرے حال میں اور میرے اہل و عیال اور ٹھنڈے پانی سے زیادہ محبوب بنا دے۔
حضرت طالوت کی دعا
رَبَّنَآ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّ ثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَ انْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ (سورۃ البقرہ)
ترجمہ: اے ہمارے پروردگار! ہمیں صبر عطا فرما، ہمارے قدم جما دے اور اس کافر گروہ پر ہمیں فتح عطا فرما۔
حضرت یونس علیہ السلام کی دعا
لَّآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحٰنَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ (سورۃ الانبیاء)
ترجمہ: تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔ تیری ذات بے عیب ہے، میں بے شک اپنے اوپر ظلم کرنے والوں میں سے ہوچکا ہوں۔
حضرت زکریا علیہ السلام کی دعا
رَبِّ لَا تَذَرْنِیْ فَرْدًا وَّ اَنْتَ خَیْرُ الْوٰرِثِیْنَ (سورۃ الانبیاء)
ترجمہ: میرے پروردگار! مجھے تنہا نہ چھوڑ، اور تو ہی سب سے اچھا وارث ہے۔
حضرت ایوبؑ کی دعا
رَبِّ اَنِّیْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَ اَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ (سورۃ الانبیاء)
ترجمہ: اے اللہ! مجھے بیماری لگ گئی ہے تو سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔
رحمت و مغفرت کی دعا
رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ (سورۃ الاعراف)
ترجمہ: اے ہمارے رب! ہم نے اپنے اوپر بڑا ظلم کیا۔ اگر تو نے ہماری مغفرت اور رحم نہ کیا تو ہم یقیناتباہ ہو جائیں گے۔
فلاح دارین کی جامع دعا
رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ (سورۃ البقرہ)
ترجمہ: اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی دے اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا لے۔
صبر و استقامت کی دعا
رَبَّنَآ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّ ثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَ انْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ (سورۃ البقرہ)
ترجمہ: اے ہمارے پروردگار! ہمیں صبر عطا فرما اور ہمارے قدموں کو مضبوط جما دے اور کافروں پر کامیابی کے لیے ہماری مدد فرما۔
اصلاح قلب کی دعا
رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ھَدَیْتَنَا وَ ھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَتِکَ اَنْتَ الْوَھَّابُ (سورۃ آل عمران)
ترجمہ: اے اللہ! جب تو نے ہمیں سیدھی راہ پر لگا دیا ہے تو پھر کہیں ہمارے دلوں میں ٹیڑھ و کجی پیدا نہ کرنا، ہمیں اپنے خزانہ فیض سے رحمت عطا فرما کہ تو ہی حقیقی فیاض و سخی ہے۔
حالات کی بہتری کے لیے دعا
رَبَّنَآ اٰتِنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً وَّ ھَیِّئْ لَنَا مِنْ اَمْرِنَا رَشَدًا (سورۃ الکہف)
ترجمہ: اے ہمارے رب! ہم پر اپنی رحمت نازل فرما، اور ہمارے معاملے میں بہتری کا سامان مہیا فرما۔
مغفرت کی دعا
رَبَّنَا اٰمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا وَاَنْتَ خَیْرُ الرّٰحِمِیْنَ (سورۃ المومنون)
ترجمہ: اے اللہ! ہم ایمان لائے، پس تو ہماری مغفرت فرما، ہم پر رحم فرما کہ تو بڑا رحم فرمانے والا ہے۔
والدین کے لیے دعا
رَبَّنَا اغْفِرْلِیْ وَ لِوَالِدَیَّ وَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ یَوْمَ یَقُوْمُ الْحِسَابُ (سورۃ ابراہیم)
ترجمہ: اے ہمارے پروردگار! میرے والدین کی اور تمام مومنوں کی اس دن مغفرت فرما، جس دن حساب ہوگا۔
جاگنے کی دعا
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَحْیَانَا بَعْدَ مَا اَمَاتَنَا وَاِلَیْہِ النُّشُوْر (متفق علیہ)
ترجمہ: تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں، جس نے ہمیں موت کے بعد زندہ کیا، اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
بیت الخلاء میں جاتے وقت کی دعا
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْخُبْثِ وَالْخَبَاءِثِ (متفق علیہ)
ترجمہ: اے اللہ! میں گندگی اور گندی چیزوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔
گھر سے نکلتے وقت دعا
بِسْمِ اللّٰہِ تَوَکَّلْتُ عَلَی اللّٰہِ لَاحَوْلَ وَلَاقُوَّۃَ اِلاَّ بِاللّٰہِ (مشکوۃ شریف)
ترجمہ: اللہ کا نام لے کر میں باہر نکلتا ہوں، اللہ پر میں نے بھروسہ کیا، اللہ کے سوا کسی میں قوت و قدرت نہیں۔
مسجد میں داخل ہوتے وقت دعا
اَللّٰھُمَّ افْتَحْ لِیْ اَبْوَابَ رَحْمَتِکَ (مسلم شریف، داؤد)
ترجمہ: اے اللہ! میرے لیے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے۔
مسجد سے باہر نکلتے وقت دعا
اَللّٰھُمَّ اِنِیْ اَسْءَالُکَ مِنْ فَضْلِکَ وَرَحْمَتِکَ (مسلم شریف)
ترجمہ: اے اللہ! میں تجھ سے تیرا فضل اور رحمت مانگتا ہوں۔
کھانا شروع کرتے وقت دعا
بِسْمِ اللّٰہِ وَعَلٰی بَرَکَۃِ اللّٰہِ (مستدرک حاکم)
ترجمہ: اللہ کا نام لے کر شروع کرتا ہوں اور اللہ کی برکت ہے۔
کھانا کھانے کے بعد دعا
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَطْعَمَنَا وَسَقَانَا وَجَعَلَنَا مِنْ الْمُسْلِمِیْنَ (ابوداؤد، مشکوٰۃ شریف)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ کا شکر ہے جس نے ہم کو کھلایا، پلایا اور ہمیں اپنے فرمانبرداروں میں سے بنایا۔
خوف کی حالت میں دعا
حَسْبِیَ اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلَ
ترجمہ: مجھے اللہ تعالیٰ کافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے۔
غصہ کی حالت میں دعا
اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم (متفق علیہ)
ترجمہ: میں شیطان مردود سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتا ہوں۔
غم کی حالت میں دعا
یَاحَیُّ یَاقَیُّوْمُ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ (مشکوٰۃ شریف)
ترجمہ: اے زندہ، اے تھامنے والے، میں آپ کی رحمت کا امیدوار ہوں۔
ہر درد کی دعا
اَعُوْذُ بِعِزَّۃِ اللّٰہِ وَقُدْرَتِہٖ مِنْ شَرِّمَا اَجِدُوَ اُحَاوِرُ
ترجمہ: پناہ مانگتا ہوں اللہ کے غلبے اور اس کی قدرت اس کی برائی سے جو میں پاتا ہوں اور ڈرتا ہوں آئندہ کو۔
آفات سے بچاؤ کی دعا
مَاشَآءَ اللّٰہُ لَاقُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ
ترجمہ: جو چاہے اللہ، نہیں ہے قوت (نیکی کی) مگر ساتھ (مدد و توفیق) اللہ کی۔
علم میں اضافے کی دعا
رَبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا
ترجمہ: اے اللہ! میرے علم میں اضافہ عطا فرما۔

رسول پاکﷺ کی پیاری باتیں

(۔۔۔1۔۔۔)

حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس شخص میں تین خصلتیں ہوں اُس نے ایمان کا مزہ چکھ لیا۔ ۱۔ اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہر ایک چیز سے بڑھ کر محبت کرنا۔ ۲۔ کسی سے محبت کرے تو اللہ کے لیے کرے۔ ۳۔اللہ تعالیٰ نے (ایمان کے ذریعے سے) جب اس کو کفر سے بچا لیا ے تو اب دوبارہ کفر کی طرف لوٹنا اسے ایسا ہی ناگوار ہو جیسا آگ میں ڈالا جانا۔

(۔۔۔2۔۔۔)

حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک میں اس کو اس کے والدین، اولاد اور تمام انسانوں سے محبوب نہ ہو جاؤں۔‘‘

(۔۔۔3۔۔۔)

حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو لوگ دوسروں پر رحم نہیں کھاتے، اللہ تعالیٰ بھی اُن پر رحم نہیں فرمائے گا۔‘‘

(۔۔۔4۔۔۔)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اپنے بندوں کے گمان کے مطابق ہوتا ہوں ۔جیسا وہ میرے بارے میں گمان کرتا ہے اور میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں جب وہ مجھے یاد کرتا ہے۔‘‘

(۔۔۔5۔۔۔)

حضرت اغر بن یسار المزنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لوگوں اللہ کی طرف توجہ کرو اور اس سے بخشش طلب کرو، بے شک میں ایک دن میں سو مرتبہ توبہ کرتا ہوں۔

(۔۔۔6۔۔۔)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سواری پر تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے لڑکے میں تجھے چند باتیں سکھاتا ہوں:
۱: اللہ کے دین کی حفاظت کر اللہ تیرا محافظ ہوگا۔ اللہ (کے دین کی) حفاظت کر تو (اس کی رحمت کو اپنے سامنے پائے گا۔ ۲: جب مانگنا ہو تو اللہ سے مانگ۔ ۳: جب مدد کی ضرورت ہو تو اللہ سے طلب کر۔ ۴: یہ بات جان لے کہ مخلوق اگر تجھے نفع پہنچانے پر اتفاق بھی کرے تو وہ نفع نہیں پہنچا سکتی مگر اس قدر جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے اور اگر سب لوگ مل کر تجھے نقصان پہنچانا چاہیں تو نہیں پہنچا سکتے مگر جو اللہ نے لکھ دیا ہے۔ (لکھنا بند ہوچکا ہے اور صحیفے خشک ہوچکے ہیں)۔

(۔۔۔7۔۔۔)

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے بہتر وہ شخص ہے جو قرآن سیکھے اور دوسروں کو سکھائے۔‘‘

(۔۔۔8۔۔۔)

حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم لوگ معروف اور بھلائی کی کسی قسم یا مقدار کو بھی حقیر نہ سمجھو اور بلاشبہ تمہارا اپنے بھائی کے ساتھ خندہ روئی اور شگفتہ مزاجی کے ساتھ پیش آنا بھی بھلائی ہے۔‘‘

(۔۔۔9۔۔۔)

حضرت ابومالک اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’طہارت اور پاکیزگی ایمان کا حصہ ہے۔‘‘

(۔۔۔10۔۔۔)

حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے۔ کوئی آدمی اُس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک اپنے بھائی کے لیے وہی کچھ پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔‘‘

(۔۔۔11۔۔۔)

حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ہم سے خطاب فرماتے ،اس میں اس بات کا اکثر ذکر فرماتے: ’’جو امانت دار نہیں وہ ایماندار نہیں اور جو عہد و پیمان کی پابندی نہیں کرتا اس کا کوئی دین نہیں۔‘‘

(۔۔۔12۔۔۔)

حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے پانچ نمازیں فرض کی ہیں، جس نے اچھی طرح وضو کیا اور انہیں ان کے وقت پر ادا کیا، اچھی طرح رکوع کیا اور خشوع کے ساتھ انہیں ادا کیا تو اللہ تعالیٰ کا اس سے عہد ہے کہ وہ اسے بخش دے گا۔ لیکن اس نے یہ نہ کیا تو اللہ کا کوئی عہد نہیں۔ چاہے تو بخش دے، چاہے اسے عذاب دے۔‘‘

(۔۔۔13۔۔۔)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’پہلوان وہ نہیں ہے جو (حریف کو میدان میں) پچھاڑ دے، بلکہ پہلوان وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے نفس کو قابو میں رکھے۔‘‘

(۔۔۔14۔۔۔)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’حسد سے بچو، اس لیے کہ حسد نیکیوں کو کھا جاتا ہے جس طرح آگ ایندھن کو نگل جاتی ہے۔‘‘

(۔۔۔15۔۔۔)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑا، تو اللہ کو کچھ حاجت نہیں ہے کہ (روزہ رکھ کر) کھانا پینا چھوڑ دے۔‘‘

(۔۔۔16۔۔۔)

عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ ’’وہ شخص مومن نہیں ہے جو خود پیٹ بھر کر کھائے جبکہ پڑوس میں اس کا ہمسایہ بھوکا تڑپ رہا ہو۔

(۔۔۔17۔۔۔)

حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے میرے بیٹے! اگر تم سے ہوسکے تو صبح و شام اس طرح گزارا کر کہ تمہارے دل میں کسی کی طرف سے کوئی میل نہ ہو۔‘‘ پھر فرمایا: ’’اے میرے بیٹے! یہ میری سنت ہے، جس نے میری سنت سے محبت رکھی، وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔‘‘

(۔۔۔18۔۔۔)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کسی آدمی کے برا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے۔‘‘

(۔۔۔19۔۔۔)

حضرت زید بن خالد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کسی نے اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے کے لیے سامان تیار کیا۔ اس نے گویا جہاد میں حصہ لیا اور جس نے مجاہد کے اہل و عیال کی دیکھ بھال کی۔ اس نے بھی گویا جہاد میں حصہ لیا۔

(۔۔۔20۔۔۔)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص کسی کو نیک کام بتائے تو اس کو اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا کرنے والے کو ملے گا اور اللہ اس بات کو پسند کرتا ہے کہ مصیبت زدہ کی مدد کی جائے۔‘‘

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top