skip to Main Content

رحمت عالم ﷺ

سید سلیمان ندوی
۔۔۔۔۔۔۔

عرب کا ملک

ہمارے ملک کے پچھم کی طرف سمندر بہتا ہے۔ اس سمندر کے کنارے پر برصغیر پاک و ہند اور دوسرے کنارے پرعرب کا ملک ہے۔ اس ملک عرب کا بڑا حصہ ریت اور پہاڑ ہے۔ بیچ کا حصہ بالکل بنجر اور غیر آباد ہے۔ صرف اس کے کناروں پر کچھ سبزہ اور شادابی ہے اور انہی میں اس ملک کے بسنے والے رہتے ہیں۔
اس کے ایک طرف بحر ہند (ہندوستان کا سمندر) دوسری طرف خلیج ایران (ایران کی کھاڑی) تیسری طرف بحر احمر (لال سمندر) ہے اور چوتھی طرف خشکی میں یہ عراق اور شام کے ملکوں سے ملا ہوا ہے۔ اسی لیے عرب کے ملک کو جزیرہ نما اور جزیرہ (ٹاپو) بھی کہتے ہیں جو حصہ بحر احمر کے کنارے کنارے لمبائی میں شام کی سرحد سے شروع ہو کریمن کے صوبہ پر ختم ہوتا ہے وہ حجاز کہلاتا ہے۔
یمن کا صوبہ بحر احمر کے کنارے کنارے حجاز سے عدن کی کھاڑی تک پھیلا ہوا ہے اور یہ عرب کا سب سے ہرا بھرا اور آباد صوبہ ہے۔ اس کے قریب عدن کی کھاڑی کے کنارے پر حضر موت ہے اور عمان کے دریا کے عربی کنارے پر عمان اور ایران کی کھاڑی کے کنارے پر بحرین اور اس سے ملا ہوا یمامہ ہے اور بیچ ملک سے عراق تک کا حصہ ’’نجد‘‘ کہلاتا ہے۔
حجاز:
آپ اوپر پڑھ چکے ہیں کہ بحر احمر کے کنارے کنارے شام کی سرحد سے یمن تک جو حصہ ہے اس کو حجاز کہتے ہیں۔ حجاز میں تین شہر مشہور تھے اور اب بھی ہیں۔ ایک مکہ، دوسرا طائف اور تیسرا یثرب۔ ہمارے پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام (ان پر درود و سلام ہو) کا انہی تین شہروں سے تعلق تھا۔
خدا کے قاصد
تم روز دیکھتے ہو کہ ایک شخص مطلب کی کوئی بات جس کو پیغام کہتے ہیں دور کسی دوسرے کے پاس بھیجتا ہے تو وہ اپنی بات اپنے کسی معتبر آدمی سے کہہ دیتا ہے اور وہ آدمی اس بات کو سن کر دوسرے شخص کو سنا آتا ہے۔ اس معتبر آدمی کو ہم قاصد اور پیغام لے جانے والا اور فارسی میں پیغام بر یا پیغمبر اور عربی میں رسول کہتے ہیں۔
ایسے ہی اللہ تعالیٰ نے جب چاہا کہ اپنے بندوں کو اپنے مطلب کی بات اور پیغام سے خبر دے تو اس نے اپنی مہربانی سے اپنے کسی چہیتے اور پیارے بندے کو اس کام کے لیے چنا اور اس کا نام خدا کا قاصد، خدا کا پیغام پہنچانے والا اور پیغمبر رکھا۔ عرب کے لوگ اسی کو نبی اور رسول کہتے ہیں۔ خدا کے ان قاصدوں اور رسولوں کا کام یہ ہے کہ وہ خدا کی باتوں کو بندوں تک پہنچاتے ہیں اور ان کو بتاتے ہیں کہ تمہارا خدا تم سے کیا چاہتا ہے، وہ کن باتوں کے کرنے کا تم کو حکم دیتا ہے اور کن باتوں کو نا پسند کرتا ہے۔ جو بندے ان کا کہنا مانتے ہیں ان سے اللہ خوش اور جو نہیں مانتے ان سے وہ ناراض ہو تا ہے۔
پیغمبروں کا سلسلہ
تمہارے خدا نے جب یہ دنیا بنائی اور اس میں آدمیوں کو بسانا چاہا تو سب سے پہلے جس آدمی کو اپنی قدرت سے پیدا کیا، اس کا نام آدم ؑ رکھا۔ انہی حضرت آدم علیہ السلام سے یہ سارے آدمی پیدا ہوتے چلے آ رہے ہیں۔ انہی حضرت آدم ؑ کے وقت سے اللہ نے اپنے بندوں کو اچھی باتیں سکھانے اور بری باتوں سے روکنے کے لیے اپنے قاصدوں اور پیغمبروں کا سلسلہ بھی دنیا میں جاری رکھا جو ہمارے پیغمبر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک جاری رہا اور اب آپؐ کے بعدکوئی دوسرا پیغمبر نہ آیا ہے اور نہ قیامت تک آئے گا۔
حضرت ابراہیمؑ کی نسل
حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد میں مشہور پیغمبر حضرت نوح ؑ گزرے۔ حضرت نوحؑ کی اولاد میں حضرت ابراہیم ؑ سب سے بڑے پیغمبر ہوئے۔ یہ عراق کے ملک میں پیدا ہوئے اور وہیں پلے اور جوان ہوئے۔ اس وقت عراق کے لوگ چاند، سورج اور ستاروں کی پوجا کرتے تھے۔ حضرت ابراہیم ؑ نے جب دیکھا تو دل میں غور کیا کہ کیا یہ ستارے خدا ہو سکتے ہیں۔ لیکن جیسے ہی رات ختم ہوتے ہی صبح کا تڑکا ہونے لگا، ستارے جھلملانے لگے اور جب سورج نکلا تو وہ بالکل نگاہوں سے اوجھل ہو گیے۔ یہ دیکھ کر وہ پکار اٹھے کہ ایسی فانی ہستی سے تو میں دل نہیں لگاتا۔ پھر رات آئی اور چاند پر نظر پڑی تو خیال آیا کہ شاید اس کی روشنی میں خدائی کا جلوہ ہو لیکن جب وہ بھی چھپ گیا تو پکار اٹھے کہ میرے پروردگار نے اگر مجھے راہ نہ دکھائی تو مجھے سچائی کا راستہ کبھی نہ مل سکے گا۔ اب خیال ہوا کہ اچھا سورج کی روشنی تو سب سے بڑھ کر ہے ،کیا یہ ہمارا دیوتا نہیں ہو سکتا۔ لیکن شام کی تاریکی نے اس بڑی روشنی کو بھی جب بجھا دیا تب ان کے دل سے آواز آئی کہ میرے پروردگار کا نور تو وہ نور ہے جس کو اندھیرا نہیں۔ میں اسی خدا کو مانتا ہوں جس نے آسمان اور زمین اور ان کے جلوؤں کو پیدا کیا۔ پھر لوگوں سے پکار کر کہا کہ میں تمہارے مشرکانہ دین کو چھوڑتا ہوں اور ہر طرف سے مڑ کر اس ایک خدائے برحق کے آگے سر جھکاتا ہوں۔ خدا نے ان کو پیغمبر بنایا اور آسمان و زمین کی حقیقتوں کے دفتر ان کے سامنے کھول دیے اور دنیا میں توحید کا پیغام سنانے کے لیے ان کو مامور کیا۔ انہوں نے عراق کے بادشاہ نمرود اور اس کے درباریوں کو یہ پیغام سنایا۔ ان کے کانوں میں یہ بالکل نئی آواز تھی۔ انہوں نے حضرت ابراہیم ؑ کو ڈرایا اور دھمکایا۔ مگر وہ اپنی بات پر جمے رہے اور ایک دن موقع پا کر ان کے بت خانے میں جا کر ان کی پتھر کی مورتیوں کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیا۔ یہ دیکھ کر بادشاہ نے ان کے لیے یہ سزا تجویز کی کہ وہ آگ کے الاؤ میں جلا دیے جائیں۔ یہ امتحان کا موقع تھا مگر ان کی ثابت قدمی کا وہی حال رہا۔ ادھر ان کا آگ میں پڑنا تھا کہ آگ بجھ کر ان کی جان کی سلامتی کا سامان بن گئی۔ اب حضرت ابراہیم ؑ نے یہاں سے شام اور مصر کے ملکوں کی طرف رخ کیا اور وہاں کے بادشاہوں کو توحید (خدا کا ایک ماننا اور کہنا) کا وعظ سنایا اور جب کہیں یہ آواز نہ سنی گئی تو عرب کے صوبہ حجاز میں چلے آئے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ؑ کو دو بیٹے دیے۔ بڑے کا نام حضرت اسماعیل ؑ اور چھوٹے کا نام اسحاق ؑ تھا۔ حضرت اسحاق ؑ کو شام کے ملک میں اور حضرت اسماعیل ؑ کو حجاز میں آباد کیا۔
کعبہ
حجاز کا ملک ان دنوں آباد نہ تھا مگر شام اور یمن کے ملک بہت آباد تھے۔ شام سے یمن کو اور یمن سے شام کوجو بیوپاری اور سوداگر آتے تھے وہ حجاز ہی کے راستے سے آتے جاتے تھے۔ اس لیے حجاز میں آنے جانے والے سوداگروں کا تانتا لگا رہتا تھا۔ حضرت ابراہیم ؑ کو اللہ تعالیٰ کا حکم ہوا کہ اسی حجاز کی زمین میں ایک مقام پر ہماری عبادت کرنے اور نماز پڑھنے کے لیے ایک گھر بناؤ۔ حضرت اسماعیل ؑ اور حضرت ابراہیم ؑ نے مل کر خدا کے اس گھر کو بنا کر کھڑا کیا اور اس کا نام کعبہ اور بیت اللہ یعنی خدا کا گھر رکھا گیا۔
حضرت اسماعیل ؑ کا گھرانا
خدا نے اپنے اس گھر کو بزرگی بخشی اور حضرت ابراہیم ؑ کو حکم دیا کہ اس گھر کی خدمت کے لیے اپنے لڑکے حضرت اسماعیل ؑ کو اس مقام پر آباد کرو۔ حضرت ابراہیم ؑ نے ایسا ہی کیا۔ حضرت اسماعیل ؑ کی اولاد بھی یہیں رہنے لگی اور اس مقام کا نام مکہ رکھا گیا۔
حضرت اسماعیل ؑ کا گھرانہ اس شہر میں، جس کا نام مکہ پڑا تھا، آباد رہا اور خدا کا پیغام بندوں کو سناتا اور کعبہ میں خدا ہی کی عبادت کرتا رہا۔ سینکڑوں برس گزرنے کے بعد یہ لوگ دوسری قوموں کی دیکھا دیکھی اکیلے خدا کو چھوڑ کر مٹی اور پتھر کی عجیب عجیب شکلیں بنانے اور کہنے لگے کہ یہی ہمارے خدا ہیں۔ مٹی اور پتھر کی جن عجیب عجیب شکلوں کو وہ خدا سمجھ کر پوجتے تھے، ان کو بت کہتے تھے۔ بتوں کو خدا سمجھنا اور ان کو پوجنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے برا کام ہے اور جو لوگ خدا کو چھوڑ کر بتوں کو پوجتے ہیں ان کو کافر کہتے ہیں۔
قریش
اتنے دنوں میں حضرت اسماعیل ؑ کے گھرانے کے آدمی بہت سے خاندانوں اور قبیلوں میں بٹ گئے تھے۔ ان میں ایک مشہور قبیلہ کا نام ’’قریش‘‘ تھا۔ یہ خاص مکہ میں آباد اور کعبہ کا متولی (انتظام کرنے والا) تھا۔دور دور سے کعبہ کے حج کے لیے جو لوگ آتے، جن کو حاجی کہتے ہیں، ان کا ٹھہرانا، کھانا کھلانا، پانی پلانا اور کعبہ شریف کے دوسرے کاموں کی دیکھ بھال اسی قبیلہ کے ہاتھوں میں تھی۔ اسی لیے یہ قبیلہ سارے عرب میں عزت کے ساتھ دیکھا جاتا تھا۔ اسی قبیلہ کے اکثر آدمی تجارت اور سوداگری کا پیشہ کرتے تھے۔
بنی ہاشم
قریش کے قبیلہ میں بھی کئی بڑے بڑے خاندان تھے، ان میں سے ایک بنی ہاشم تھے۔ یہ ہاشم کی اولاد تھے۔ ہاشم اس خاندان کے بڑے نامی گرامی شخص تھے، حاجیوں کو دل کھول کر کھانا کھلاتے تھے اور پینے کے لیے چمڑے کے حوضوں میں پانی بھرواتے تھے۔ یہ ایک طرح سے مکہ کے امیر تھے۔ قریش کے لیے جو زیادہ تر تجارت اور بیوپار سے روزی کماتے تھے، انہوں نے یہ کیا کہ حبش کے بادشاہ نجاشی اور مصر اور شام کے بادشاہ قیصر سے فرمان لکھوایا کہ ان کے ملکوں میں قریش کے سوداگر بے روک ٹوک آ جا سکیں۔ پھر عرب کے مختلف قبیلوں میں پھر پھرا کر ان سے یہ عہد لیا کہ وہ قریش کے سوداگروں کے قافلے کو نہیں لوٹیں گے اور قریش کے سوداگر اس کے بدلے میں یہ کریں گے کہ ہر قبیلے کی ضرورت کی چیزیں لے کر خود اس کے پاس جائیں گے۔

عبد المطلب
ہاشم نے اپنی شادی یثرب میں بنو نجار کے خاندان میں کی۔ اس سے ایک لڑکا پیدا ہوا جس کا اصلی نام شیبہ تھا مگر شہرت عبد المطلب کے نام سے ہوئی۔
عبد المطلب نے بھی جوان ہو کر بڑانام پیدا کیا۔ کعبہ کا انتظام بھی ان کے سپرد ہوا۔ کعبہ میں حضرت ابراہیم ؑ کے زمانے کا ایک کنواں تھا جس کا نام ’’زمزم‘‘ تھا۔ یہ کنواں اتنے دنوں سے پڑا پڑا پٹ گیا تھا۔ عبد المطلب نے اس کو صاف کر کے پھر درست کروایا۔
عبد المطلب کی اولاد
عبد المطلب بڑے خوش نصیب تھے۔ عمر بھی بڑی پائی۔ دس جوان بیٹے تھے، ان میں سے پانچ کسی نہ کسی حیثیت سے بہت مشہور ہوئے۔ ابو لہب، ابو طالب، عبد اللہ، حضرت حمزہؓ اور حضرت عباسؓ۔
عبد اللہ
ان بیٹوں میں اپنے باپ کے سب سے چہیتے اور پیارے، عمر میں سب سے چھوٹے بیٹے عبد اللہ تھے۔ یہ سترہ برس کے ہوئے تو بنی زہرہ نامی قریش کے ایک دوسرے معزز خاندان کی لڑکی سے ان کی شادی ہوئی۔ ان بی بی کا نام آمنہ تھا۔ عبد اللہ شادی کے بعد بہت کم عرصہ زندہ رہے۔ چند ہی روز کے بعد وفات پا گئے۔
ولادت
عبد اللہ کے مرنے کے چند مہینوں کے بعد بی بی آمنہ کے ہاں بچہ پیدا ہوا جس کا نام محمدؐ رکھا گیا۔ یہی وہ بچہ ہے جو ہمارا رسول ؐ اور پیغمبرؐ ہے، جس کے پیدا ہونے کی دعا حضرت ابراہیم ؑ نے خدا سے مانگی تھی اور جو ساری دنیا کی قوموں کا رسول بننے والا تھا۔
پیدائش ۱۲ تاریخ کو ربیع الاول کے مہینے میں پیر کے دن حضرت عیسیٰ ؑ سے پانچ سو اکہتر برس بعد ہوئی۔ سب گھر والوں کو اس بچے کے پیدا ہونے سے بڑی خوشی ہوئی۔
پرورش
سب سے پہلے ہمارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان کی ماں آمنہ نے دودھ پلایا۔ دو تین دن کے بعد ان کے چچا ابو لہب کی ایک لونڈی ثوبیہ نے آپؐ کو دودھ پلایا۔
اس زمانے میں قاعدہ یہ تھا کہ عرب کے شریف گھرانوں کے بچے دیہات میں پرورش پاتے تھے۔ دیہات سے عورتیں آتیں اور شریفوں کے بچوں کو پالنے اور دودھ پلانے کے لیے اپنے ساتھ اپنے گھروں کو لے جاتیں۔ انہی عورتوں میں سے ایک جن کا نام حلیمہ تھا اور جو ہوازن کے قبیلے اور سعد کے خاندان سے تھیں، مکہ آئیں اور آپؐ کو پرورش کے لیے اپنے قبیلے میں لے گئیں۔ چھ برس کی عمر تک آپؐ حضرت حلیمہؓ کے پاس ہوازن کے قبیلے میں پرورش پاتے رہے۔
بی بی آمنہ کے پاس
آپؐ چھ برس کے ہو چکے تو آپؐ کی ماں بی بی آمنہ نے اپنے پاس رکھ لیا۔آپ اوپر پڑھ آئے ہیں کہ آپؐ کی پردادی یثرب کی رہنے والی اور نجار کے خاندان سے تھیں۔ بی بی آمنہ آپؐ کو لے کر کسی سبب سے مدینہ آئیں اور نجار کے خاندان میں ایک مہینے تک رہیں۔
بی بی آمنہ کی وفات
ایک مہینے کے بعد جب یہاں سے واپس ہوئیں تو کچھ منزل چل کر بیمار ہوئیں اور ’’ابواء‘‘ کے مقام پر پہنچ کر وفات پا گئیں ا ور یہیں دفن ہوئیں۔
کیسا افسوسناک واقعہ تھا، سفر کی حالت تھی، ساتھ نہ کوئی یار و مددگار، نہ مونس نہ غمگسار۔ ایک ماں وہ اس دنیا سے سدھاریں۔ بی بی آمنہ کے ساتھ ان کی وفادار لونڈی حضرت ام ایمنؓ تھیں۔ وہ آنحضرت کو اپنے ساتھ لے کر مکہ آئیں اور آ کر آپؐ کے دادا عبد المطلب کے سپرد کر دیا۔
عبد المطلب کی پرورش میں
دادا نے اپنے بن باپ کے یتیم پوتے کو سینہ سے لگایا اور بڑی محبت اور پیار سے آپؐ کی پرورش شروع کی۔ محبت کے مارے ہمیشہ وہ آپؐ کو اپنے ساتھ رکھتے تھے اور ہر طرح سے آپؐ کی خاطر کرتے تھے۔
عبد المطلب کی وفات
عبد المطلب اب بہت بوڑھے ہو چکے تھے۔ بیاسی برس کی عمر تھی، ان کو رہ رہ کر اپنے یتیم پوتے کا خیال آتا تھا۔ آخر اس کو اپنے سب سے ہونہار بیٹے ابو طالب کے سپرد کر کے وفات پائی اور مکہ کے قبرستان میں جس کا نام حجون ہے، دفن ہوئے۔
ابو طالب کی پرورش میں
چچا نے اپنے بھتیجے کو بڑے لاڈ اور پیارسے پالا، اپنے بچوں سے بڑھ کر ان کے آرام کا خیال کرتے اور ناز اٹھاتے۔ ابو طالب سوداگر تھے۔ ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ وہ تجارت کا سامان لے کر شام کے ملک کو جا رہے تھے۔ آنحضرتؐ نے بھی ساتھ چلنے کی خواہش کی۔ چچا اکلوتے بھتیجے کی خواہش کو رد نہ کر سکے اور ساتھ لے چلے۔ پھر کسی وجہ سے راستے ہی سے واپس کر دیا۔ جب آپؐ کی عمر بارہ برس کی ہوئی تو عرب بچوں کے دستور کے مطابق بکریاں چرانے لگے۔
عرب میں اس وقت لکھنے پڑھنے کا رواج نہ تھا، اس لیے آپؐ کو بھی لکھنے پڑھنے کی تعلیم نہ دی گئی، البتہ اپنے چچا کے ساتھ مل کر کاموں کا تجربہ سیکھتے۔ رفتہ رفتہ آپؐ جوانی کی عمر کو پہنچے۔

فجار کی لڑائی میں شرکت
عرب کے لوگ بڑے لڑاکے تھے۔ بات بات میں آپس میں لڑتے جھگڑتے رہتے تھے۔ اگر کہیں کسی طرف سے کوئی آدمی مارا گیا تو جب تک اس کا بدلہ نہیں لیتے تھے، چین سے نہیں بیٹھتے تھے۔ ایک دفعہ ’’بکر‘‘ اور ’’تغلب‘‘ عرب کے دو قبیلوں میں ایک گھوڑ دوڑ کے موقع پر لڑائی ہوئی تو وہ لڑائی پورے چالیس برس ہوتی رہی۔
اسی قسم کی ایک لڑائی کا نام فجار ہے۔ یہ لڑائی قریش اور قیس کے قبیلوں میں ہوئی تھی۔ قریش کے سب خاندانوں نے اپنی اس قومی لڑائی میں شرکت کی تھی۔ ہر خاندان کا دستہ الگ الگ تھا۔ ہاشم کے خاندان کا جھنڈا عبد المطلب کے بیٹے زبیر کے ہاتھ میں تھا۔ اسی صف میں ہمارے پیغمبرؐ بھی تھے۔ آپؐ بڑے رحم دل تھے۔ لڑائی جھگڑے کو پسند نہیں فرماتے تھے، اسی لیے آپؐ نے کبھی کسی پر ہاتھ نہیں اٹھایا۔
مظلوموں کی حمایت کا معاہدہ
ان لڑائیوں کے سبب سے ملک میں بڑی بے چینی تھی۔ کسی کو چین سے بیٹھنا نصیب ہوتا تھا نہ کسی کو اپنی اور اپنے عزیزوں کی جانوں کی خیر نظر آتی تھی۔ ان لڑائیوں میں لوگ بہت مارے جاتے تھے۔ اسی لیے خاندانوں میں بن باپ کے یتیم بچے بہت تھے، ان کا کوئی پوچھنے والا نہ تھا۔ ظالم لوگ ان کو ستاتے تھے اور زبردستی ان کا مال کھا جاتے تھے۔ خاندان میں جو کمزور ہوتا اس کا کہیں ٹھکانا نہ تھا۔ یہ حالت دیکھ کر آپؐ کا دل دکھتا تھا اور سوچتے تھے کہ اس زور و ظلم کو کیسے روکیں کہ سب لوگ خوش خوش امن و امان سے رہیں۔
عرب کے چند نیک مزاج لوگوں کو پہلے بھی یہ خیال ہوا تھا کہ اس کے لیے چند قبیلے مل کر آپس میں یہ عہد کریں کہ وہ سب مل کر مظلوموں کی مدد کریں گے۔ اس تجویز کے جو پہلے بانی تھے، ان کے ناموں میں اتفاق سے فضل کا لفظ تھا، جس کے معنی بھی مہربانی کے ہیں۔ اس لیے ان کے آپس کے عہد کا نام فضل والوں کا قول و قرار رکھا گیا اور اس کو عربی میں ’’حلف الفضول‘‘ کہتے ہیں۔
فجار کی لڑائی جب ہو چکی تو آپؐ کے چچا حضرت زبیرؓ بن عبد المطلب نے یہ تجویز پیش کی کہ اس قول و قرار کو جو پہلے کیا جا چکا تھا اور جسے لوگوں نے بھلا دیا تھا، پھر سے زندہ کیا جائے۔ اس کے لیے ہاشم، زہرہ اور تمیم کے خاندان، مکہ کے ایک نیک مزاج، امیر آدمی کے گھر میں (جن کا نام عبد اللہ بن جدعان تھا) جمع ہوئے اور سب نے مل کر عہد کیا کہ ہم میں سے ہر شخص مظلوم کی حمایت کرے گا اور اب مکہ میں کوئی ظالم رہنے نہیں پائے گا۔ اس معاہدہ میں ہمارے رسولؐ بھی شریک تھے اور بعد میں فرمایا کرتے تھے کہ میں آج بھی اس معاہدہ پر عمل کرنے کو تیار ہوں۔
کعبہ کی تعمیر
مکہ کا شہر ایسی جگہ بسا ہے جس کے چاروں طرف پہاڑیاں ہیں۔ ان ہی کے بیچ میں کعبہ بنا ہے۔ جب زور کا مینہ برستا ہے تو پہاڑوں سے پانی بہہ کر شہر کی گلیوں میں بھر جاتا ہے اور گھروں میں گھس جاتا ہے۔ کعبہ کی دیواریں نیچی تھیں اور اس پر چھت بھی نہ تھی اس لیے بہت دفعہ ایسا ہوا کہ سیلاب سے کعبہ کی عمارت کو نقصان پہنچ جاتا۔ یہ دیکھ کر مکہ والوں کی رائے ہوئی کہ کعبہ کی عمارت پھر سے اونچی اور مضبوط کر کے بنائی جائے۔ اتفاق یہ کہ مکہ کی بندرگاہ پر جس کا نام جدہ تھا، سوداگروں کا ایک جہاز آ کر ٹوٹ گیا تھا۔ قریش کو خبر ہوئی تو ایک آدمی بھیج کر جہاز کے تختے مول لے لیے۔
اب قریش کے سب خاندانوں نے مل کر کعبہ کے بنانے کا کام شروع کیا۔ کعبہ کی پرانی دیوار میں ایک کالا سا پتھر تھا اور اب بھی لگا ہے، اس کو اب بھی ’’کالا پتھر‘‘ ہی کہتے ہیں۔ اس کا نام عربی میں ’’حجر اسود‘‘ ہے۔ یہ پتھر عرب کے لوگوں میں بڑا متبرک سمجھا جاتا تھا اور اسلام میں اس کو متبرک مانا جاتا ہے۔ خانہ کعبہ کے چاروں طرف طواف کرتے وقت ہر طواف اسی کے پاس سے شروع کیا جاتا ہے۔
جب قریش نے اس دفعہ دیوار کو وہاں تک اونچا کر لیا جہاں یہ پتھر لگا تھا تو ہر خاندان نے یہی چاہا کہ اس مقدس پتھر کو ہم اکیلے ہی اٹھا کر اس جگہ پر رکھیں۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ تلواریں کھنچ گئیں، جب جھگڑا کسی طرح طے نہ ہوا تو قریش کے ایک سب سے بوڑھے آدمی نے یہ رائے دی کہ کل صبح سویرے جو شخص سب سے پہلے کعبہ میں آئے وہی اپنی رائے سے اس جھگڑے کا فیصلہ کر دے اور اس کا جو فیصلہ ہو اس کو سب لوگ دل سے مان لیں۔ سب نے اس رائے کو پسند کیا۔ اب اللہ کا کرنا دیکھیں کہ صبح سویرے جو سب سے پہلے پہنچا وہ ہمارے رسولؐ تھے۔ آپؐ کو دیکھ کر سب خوش ہو گئے۔ آپؐ نے یہ کیا کہ ایک چادر منگوا کر اس میں پتھر کو رکھا اور ہر قبیلے کے سردار کو کہا کہ وہ اس چادر کے ایک ایک کونے کو تھام لیں اور اوپر اٹھائیں۔ جب پتھر چادر سمیت اپنی جگہ پر آ گیا تو آپؐ نے اپنے مبارک ہاتھوں سے پتھر کو اٹھا کر اس جگہ پر رکھ دیا اور اس طرح عرب کی ایک بڑی لڑائی ہمارے رسولؐ کی تدبیر سے رک گئی۔
سوداگری کا کام
قریش کے شریفوں کا سب سے باعزت پیشہ سوداگری اور تجارت تھا۔ جب ہمارے رسولؐ کاروبار سنبھالنے کے لائق ہوئے تو اسی پیشے کو اختیار فرمایا۔ آپؐ کی نیکی، سچائی اور اچھے برتاؤ کی شہرت تھی۔ اس لیے اس پیشے میں کامیابی کی راہ آپؐ کے لیے بہت جلد کھل گئی۔ ہر معاملے میں سچا وعدہ فرماتے اور جو وعدہ فرماتے اس کو پورا ہی کرتے۔ آپؐ کی تجارت کے ساتھی عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ ایک بار میں نے آپؐ سے اس زمانے میں خرید و فروخت کا ایک معاملہ طے کیا۔ بات کچھ طے ہو چکی تھی، کچھ ادھوری رہ گئی تھی۔ میں نے وعدہ کیا کہ پھر آ کر بات پوری کر لیتا ہوں۔ یہ کہہ کر چلا گیا۔ تین دن کے بعد مجھے اپنا وعدہ یاد آیا۔ دوڑ کر آیا تو دیکھا کہ آپؐ اسی جگہ بیٹھے میرے آنے کا انتظار کر رہے ہیں اور جب آیا تو آپؐ کی پیشانی پر میری اس حرکت سے بل تک نہ آیا۔ نرمی سے فرمایا کہ تم نے مجھے بڑی زحمت دی، تین دن سے یہیں بیٹھا تمہارا انتظار کر رہا ہوں۔
تجارت کے کاروبار میں آپؐ اپنا معاملہ ہمیشہ صاف رکھتے تھے۔ حضرت سائبؓ نام کے آپؐ کے ایک ساتھی کہتے ہیں کہ میرے ماں باپ آپؐ پر قربان۔ آپؐ میری تجارت میں شریک تھے۔ مگر ہمیشہ معاملہ صاف رکھا۔ نہ کبھی جھگڑا کرتے نہ لیپ توپ کرتے تھے۔ آپؐ کے کاروبار کے ایک اور ساتھی کا نام حضرت ابو بکرؓ تھا وہ بھی مکہ ہی میں قریش کے ایک سوداگر تھے، وہ کبھی کبھی سفر میں آپؐ کے ساتھ رہتے تھے۔
قریش کے لوگ ہمارے آنحضرتؐ کی خوش معاملگی، دیانت داری اور ایمان داری پر اتنا بھروسا کرتے تھے کہ بے تامل اپنا سرمایہ آپؐ کے سپرد کر دیتے تھے۔ بہت سے لوگ اپنا روپیہ آپؐ کے پاس امانت رکھواتے تھے اور آپؐ کو امین یعنی امانت والا کہتے تھے۔
تجارتی سفر
قریش کے سوداگر اکثر شام اور یمن کے ملکوں میں سفر کر کے تجارت کا مال بیچا کرتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی تجارت کا سامان لے کر انہی ملکوں کا سفر کیا۔
حضرت خدیجہؓ کی شرکت
عرب میں تجارت کا ایک قاعدہ یہ تھا کہ امیر لوگ جن کے پاس دولت ہوتی تھی وہ روپیہ دیتے تھے اور دوسرے محنتی لوگ جن کو تجارت کا سلیقہ ہوتا تھا، اس روپیہ کو لے کر تجارت میں لگاتے تھے اور اس سے جو فائدہ ہوتا تھا، اس کو دونوں آپس میں بانٹ لیتے تھے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اسی طریقے پر تجارت کا کام شروع کیا تھا۔
قریش میں خدیجہؓ نام کی ایک دولت مند بی بی تھیں۔ ان کے پہلے شوہر مر گئے تھے اور اب وہ بیوہ تھیں، وہ اپنا سامان دوسروں کو دے کر ادھر ادھر بھیجا کرتی تھیں۔ انہوں نے ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایمان داری اور سچائی کی تعریف سنی تو آپؐ کو بلوا کر کہا کہ آپ میرا سامان لے کر تجارت کیجیے، میں جتنا نفع دوسروں کو دیتی ہوں اس سے زیادہ آپؐ کو دوں گی۔ آپؐ راضی ہو گئے اور ان کا سامان لے کر شام کے ملک کو گئے۔ بی بی خدیجہؓ نے اپنے غلام میسرہ کو بھی آپؐ کے ساتھ کر دیا۔ اس تجارت میں خاصا نفع ہوا۔ واپس آئے تو بی بی خدیجہؓ آپ کے کام سے بہت خوش ہوئیں۔
بی بی خدیجہؓ سے نکاح
اس سفر سے واپس آئے تین مہینے گزرے تھے کہ بی بی خدیجہؓ نے آپؐ کے پاس نکاح کا پیغام بھیجا۔ اس وقت آپؐ کی عمر پچیس برس کی تھی اور بی بی خدیجہؓ کی چالیس برس کی تھی۔ پھر بھی آپؐ نے خوشی سے اس پیغام کو قبول کر لیا اور چند روز کے بعد نہایت سادگی اور بے تکلفی کے ساتھ یہ تقریب انجام پائی۔ آپؐ کے چچا ابو طالب اور حضرت حمزہؓ اور خاندان کے دوسرے بڑے دلہن کے مکان پر گئے۔ ابو طالب نے نکاح کا خطبہ پڑھا اور پانچ سو درہم مہر قرار پایا۔
اب دونوں میاں بیوی ہنسی خوشی رہنے لگے۔ تجارت کا کام اسی طرح چلتا رہا اور آپؐ عرب کے مختلف شہروں میں آتے جاتے رہے اور آپؐ کی نیکی، سچائی اور اچھے اخلاق کا ہر طرف چرچا تھا۔
شرک اور برائی کی باتوں سے بچنا
حضرت محمدؐ (اللہ کا درود ان پر ہو) دنیا میں اس لیے پیدا کیے گیے تھے کہ وہ اللہ کے بندوں کو اللہ کا پیام سنائیں، ان کو برائی اور بدی کی باتوں سے بچائیں۔ اچھی اور نیک باتیں بتائیں، جس کے پیدا کرنے سے اللہ کی غرض یہ ہو، ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو کتنی اچھی باتیں دی ہوں گی اور اس کی خصلتیں کتنی بنائی ہوں گی۔ حضور اکرمؐ بچپن ہی سے بہت نیک، اچھے اور ہر برائی سے پاک تھے۔ بچپن میں بچوں کی طرح کے جھوٹے اور بیکار کھیل کود سے پاک رہے۔ جب کبھی کوئی معمولی بات بھی ایسی ہوتی جو نبی، رسول اور اللہ کے قاصد کی شان کی مناسب نہ ہوتی تو آپؐ کو اللہ اس سے صاف بچا لیتا۔
بچپن کا قصہ ہے کہ کعبہ کی دیوار درست ہو رہی تھی، بچے اپنے تہبند اتار کر کندھوں پر رکھ کر پتھر لاتے تھے۔ آپؐ نے بھی اپنے چچا کے کہنے سے ایسا کرنا چاہا تو غیرت کے مارے بیہوش ہو کر گر پڑے۔ شروع جوانی میں ایک جگہ دوستوں کی بے تکلف مجلس تھی جس میں لوگ فضول قصے کہانی میں رات گزارتے، آپؐ نے بھی ان کے ساتھ وہاں جانا چاہا، مگر آپؐ کو راہ میں ایسی نیند آ گئی کہ صبح ہی کو جا کر آنکھیں کھلیں۔
قریش کے سب ہی لوگ اپنے دادا حضرت ابراہیم ؑ کا دین بھلا چکے تھے اور اللہ کو چھوڑ کر مٹی اور پتھر کی شکلیں بنا کر ان مورتیوں کو پوجتے تھے۔ کچھ لوگ سورج اور دوسرے ستاروں کی پوجا کرتے تھے مگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب سے ہوش سنبھالا، ان باتوں سے برابر بچتے رہے۔
نبی کریم ﷺرسول بنتے ہیں
اب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چالیس برس کی عمر کو پہنچ گئے تھے۔ یہ وہ زمانہ ہوتا ہے جب آدمی کی سمجھ بوجھ پوری اور عقل پختہ ہو جاتی ہے۔ شروع جوانی کی خواہشیں مر چکی ہوتی ہیں۔ دنیا کا اچھا برا تجربہ ہو چکا ہوتا ہے۔ یہی عمر اس کے لیے مناسب ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو اپنا رسول اور قاصد بنائے اور جاہلوں کے سکھانے اور نادانوں کے بتانے کے لیے اس کو ان کا استاد مقرر فرمائے۔
اللہ اپنے رسولوں کو فرشتوں کے ذریعہ سے اپنی باتوں سے آگاہ فرماتا ہے اور اپنا کلام ان کو سناتا ہے۔ وہ رسول فرشتے سے خدا کا کلام سن کر خدا کے بندوں کو وہی سناتے ہیں۔ اللہ کے جو نیک بندے رسول کے منہ سے اللہ کا کلام سن کراللہ کی بات مانتے ہیں اوراس کے حکم پر چلتے ہیں،وہ مسلمان کہلاتے ہیں۔اللہ ان سے خوش ہوتا ہے اور پیار کرتا ہے، اور جب تک وہ جیتے ہیں، اللہ ان کو ہر طرح کا انعام دیتا ہے اور ان پر اپنی برکت اتارتا ہے۔ اور جب وہ مر جاتے ہیں تو ان کی روح کو آرام اور چین نصیب کرتا ہے۔ اور قیامت کے بعد جب پھر سے لوگ جی کر اٹھیں گے تو نیک لوگوں کو اللہ وہاں ہر طرح کی خوشی نصیب کرے گا۔ وہ بادشاہوں سے بڑھ کر وہاں ہر طرح کا آرام اور چین پائیں گے۔ یہ بادشاہوں سے بڑھ کر آرام اور چین جہاں ملے گا، اس کا نام بہشت ہے اور اسی کو جنت بھی کہتے ہیں۔
اور جو لوگ اس رسول کی بات کو نہیں مانتے اور اللہ کے کلام کو نہیں سنتے اور اس کے حکموں پر نہیں چلتے ،وہ اس دنیا میں بھی دل کا چین اور روح کا آرام نہیں پاتے اور مرنے کے بعد خدا کی خوشنودی سے محروم ہوتے ہیں اور قیامت کے بعد وہ دکھ، درد اور سزا پائیں گے کہ ویسی تکلیف کبھی نہیں اٹھائی ہو گی اور وہ مقام جہاں ان کو یہ سزا ملے گی، درزخ ہے، جس کو جہنم بھی کہتے ہیں۔
جس اللہ نے اپنے بندوں کے لیے زمین و آسمان بنایا۔ طرح طرح کے اناج، میوے اور پھل پیدا کیے۔ پہننے کو رنگ برنگ کے کپڑے بنائے۔ زمین میں قسم قسم کے سبزے اور پھول اگائے۔ جس نے انسان کے چند روزہ آرام کے لیے یہ سب کچھ بنایا، کیا اس نے ان کے ہمیشہ کے آرام کا سامان نہ کیا ہو گا؟ جس طرح اس دنیا کے قاعدے اور قانون بنانے کے اور سکھانے کے لیے استاد، طبیب اور ڈاکٹر بنائے ہیں، اسی طرح اس دنیا کے قاعدے اور قانون بنانے کے لیے رسول اور پیغمبر بنائے اور جس طرح اس دنیا کے استادوں اور ڈاکٹروں کا کہنا اگر ہم نہ مانیں تو ہم کو دنیا میں اپنی نادانی اور جہالت سے بڑی تکلیفیں اٹھانی پڑیں، اسی طرح اگر ہم اپنی نادانی اور جہالت سے رسولوں اور پیغمبروں کا کہنا نہ مانیں تو اس دنیا میں ہم بڑی تکلیفیں اٹھائیں گے۔
اللہ کے سارے احسانوں میں سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ اس نے ہم کو اپنی باتوں کے سمجھانے اور نیکی کا راستہ دکھانے کے لیے اپنے رسول بھیجے۔ حضرت آدم ؑ کے وقت سے لے کر حضرت عیسیٰ ؑ تک ہر زمانے میں اور ہر قوم میں خدا کے یہ رسول آتے رہے، سب سے پیچھے، سب رسولوں کے رسول حضرت محمدؐ (اللہ کا درود ان پر ہو) کو بھیجا۔ آپؐ کے بعد پھر کوئی دوسرا رسول آنے والا نہیں، کیوں کہ خدا کی بات پوری ہو چکی اور خدا کا پیغام ہر جگہ پہنچ چکا۔
وحی
ہمارے رسولؐ کو چالیس برس کی عمر میں جب اللہ نے رسول بنانا چاہا، اس سے پہلے آپؐ کو اکیلے رہنا بہت پسند تھا۔ کئی کئی روز کا کھانا لے لیتے اور مکہ کے قریب ایک پہاڑ کے غار میں جس کا نام غار حرا تھا، چلے جاتے اور اللہ کی باتوں پر غور کرتے۔ دنیا کی گمراہی اور عرب کے لوگوں کی یہ بری حالت دیکھ کر آپؐ کا دل دکھتا تھا۔ آپؐ اس غار میں دن رات خدا کی عبادت اور سوچ میں پڑے رہتے تھے۔ ایک دن ایسا ہوا کہ اللہ کے حکم سے اللہ کا وہ فرشتہ جو اللہ کا کلام اورپیام لے کر رسول کے پاس آتا ہے اور جس کا نام جبرئیل ؑ ہے، نظر آیا،اس فرشتے نے خدا کا بھیجا ہوا سب سے پہلا پیغام جس کو وحی کہتے ہیں، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سنایا۔ خدا کی بھیجی ہوئی پہلی وحی یہ تھی:
اقراء باسم ربک الذی خلق o خلق الانسان من علقo اقرا وربک الاکرم o الذی علم بالقلمo علم الانسان مالم یعلمo
’’اپنے اس خدا کے نام سے پڑھ جس نے کائنات کو پیدا کیا۔ جس نے انسانوں کو جمے ہوئے خون سے بنایا، پڑھ تیرا خدا بڑا ہی کریم ہے جس نے قلم کے ذریعے علم سکھایا، انسان کو وہ بتایا جو وہ نہیں جانتا تھا‘‘۔
یہ ہمارے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر پہلی وحی آئی۔ اس وحی کا آنا تھا کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اپنی امت کی تعلیم کا بڑا بوجھ ڈال دیا گیا۔ نادانوں کو بتانا، انجانوں کو سکھانا، اندھیرے میں چلنے والوں کو روشنی دکھانا اور بتوں کے پجاریوں کو خدائے پاک کے نام سے آشنا کرنا آپؐ کا کام ٹھہرایا گیا۔ آپؐ کا دل اس بوجھ کے ڈر سے کانپ گیا۔ اسی حالت میں آپؐ گھر واپس آئے اور اپنی بیوی حضرت خدیجہؓ سے سارا واقعہ بیان کیا۔ حضرت خدیجہؓ نے آپؐ کو تسلی دی اور کہا آپؐ غریبوں پر رحم فرماتے ہیں، بے کسوں کی مدد کرتے ہیں اور جو قرضوں کے بوجھ کے نیچے دبے ہیں، ان کا بوجھ ہلکا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسے آدمیوں کو یوں نہ چھوڑ دے گا۔ پھر آپؐ کو اپنے چچیرے بھائی ورقہ بن نوفل کے یہاں لے گئیں۔ ورقہ عیسائی ہو گئے تھے اور عبرانی زبان جانتے تھے اور حضرت موسیٰ ؑ کی کتاب تورات اور حضرت عیسیٰ ؑ کی کتاب انجیل پڑھے ہوئے تھے۔ انہوں نے خدا کے رسولؐ (ان پر درود ہو) سے یہ سارا ماجرا سنا تو کہا کہ یہ وہی خدا کا فرشتہ ہے جو حضرت موسیٰ ؑ پر اترا تھا۔ پھر کہا اے کاش میں اس وقت طاقت ور اور تن درست ہوتا جب تمہاری قوم تم کو تمہارے گھر سے نکالے گی اور آپؐ نے پوچھا کیا ایسا ہو گا؟ ورقہ نے کہا جو پیغام لے کر آپؐ آئے ہیں، اس کو لے کر آپؐ سے پہلے جو بھی آیا، اس کی قوم نے اس کے ساتھ یہی کیا۔ اتفاق یہ کہ اس کے کچھ ہی روز بعد ورقہ کا انتقال ہو گیا۔
ابھی آپؐ نے اپنا کام شروع ہی کیا تھا کہ اللہ رب العزت کا یہ حکم آیا:
یا ایھا المدثرo قم فانذرo وربک فکبرo وثیابک فطھرo والرجز فلھجرo
’’اے چادر میں لپٹے ہوئے! کھڑا ہو جا، پھر ڈر سنا اور اپنے رب کی بڑائی بول، اور اپنے کپڑے پاک رکھ اور گندگی کو چھوڑ دے‘‘
اس وحی کے آنے کے بعد آپؐ پر فرض ہو گیا کہ خدا پر بھروسہ کر کے کھڑے ہو جائیں اور لوگوں کو خدا کی باتیں سنائیں۔ رب کی بڑائی بولیں اور ناپاکی اور گندگی کی باتوں سے بچیں اور بچائیں۔
اسلام
جس تعلیم کو لے کر ہمارے حضورؐ بھیجے گئے اس کا نام ’’اسلام‘‘‘ تھا۔ اسلام کے معنی یہ ہیں کہ اپنے کو خدا کے سپرد کر دیں اور اس کے حکم کے سامنے اپنی گردن جھکا دیں۔ اس اسلام کو جو مان لیتا تھا اس کو ’’مسلم‘‘ کہتے تھے یعنی خدا کے حکم کو ماننے والا اور اس کے مطابق چلنے والا۔ اور اب ہم اسی کو اپنی زبان میں مسلمان کہتے ہیں۔
توحید
اسلام کا سب سے پہلا حکم یہ تھا کہ اللہ ایک ہے۔ اس کی خدائی میں کوئی اس کا سا تھی نہیں۔ زمین سے آسمان تک اسی ایک کی سلطنت ہے۔ سورج اسی کے حکم سے نکلتا ہے اور ڈوبتا ہے۔ آسمان اس کے فرمان کے تابع اور زمین اس کے اشارے کی پابند ہے۔ پھل پھول، درخت ، اناج، سب اسی نے اگائے ہیں۔ دریا، پہاڑ، جنگل سب اسی نے بنائے ہیں۔ نہ اس کی کوئی اولاد ہے نہ بیوی۔ نہ ماں نہ باپ ہے، نہ اس کا کوئی ہمسر اور مقابل ہے۔ دکھ، درد اور رنج و غم سب وہی دیتا ہے اور وہی دور کرتا ہے۔ ہر خیر اور خوشی اور نعمت وہی دیتا ہے، وہی چھین سکتا ہے۔
اسلام کے اس عقیدے کا نام ’’توحید‘‘ ہے اور یہی اسلام کے کلمے کا پہلا جز ہے۔ لا الہ الا اللہ یعنی اللہ کے سوا کوئی پوجنے کے قابل نہیں اور نہ اس کے سوا کسی اور کا حکم چلتا ہے۔
فرشتے
اللہ تعالیٰ نے آسمان اور زمین کے کاموں کو وقت پر قاعدے سے انجام دینے کے لیے بہت سی ایسی مخلوقات بنائی ہیں جو ہم کو نظر نہیں آتیں، یہ فرشتے ہیں جو دن رات اللہ کے حکموں کو بجا لانے میں لگے رہتے ہیں۔ ان میں خود کسی قسم کی کوئی طاقت نہیں ہے جو کچھ ہے وہ اللہ کے فرمانے سے ہے۔ یہ اسلام کے عقیدے کا دوسرا جز ہے۔
رسول
تیسرا یہ ہے کہ اللہ کے جتنے رسول آئے ہیں وہ سب سچے اور خدا کے بھیجے ہوئے ہیں، اور سب کی تعلیم ایک تھی۔ سب سے پیچھے دنیا کے آخری رسول ہمارے پیغمبر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آئے ہیں۔

کتاب
چوتھا یہ ہے کہ رسولوں کی معرفت اللہ کی جو کتابیں: تورات، انجیل، زبور اور قرآن مجید میں آئی ہیں، وہ سب سچی ہیں۔
مرنے کے بعد پھر جینا
پانچواں یہ ہے کہ مرنے کے بعد ہم پھر قیامت میں جی اٹھیں گے اور خدا کے سامنے حاضر کیے جائیں گے اور وہ ہم کو ہمارے کاموں کا بدلہ دے گا۔
ایمان
یہی پانچ باتیں اسلام کا اصلی عقیدہ ہیں جن کا ہر مسلمان یقین کرتا ہے۔ انہی باتوں کو مختصر کر کے ان دو فقروں میں ادا کیا جاتا ہے اور جن کے زبان سے کہنے اور دل سے یقین کرنے کو ’’ایمان‘‘ کہتے ہیں۔
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ (خدائے برحق کے سوا کوئی اللہ نہیں اور محمدؐ خدا کے بھیجے ہوئے رسول ہیں)
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو انہی باتوں کے پھیلانے اور لوگوں کو سمجھانے کا حکم ہوا۔
پہلے مسلمان ہونے والے
عرب کے لوگ پرلے درجے کے جاہل، نادان اور خدا کے دین سے بے خبر ہو گئے تھے اور شرک و کفر میں ایسے پھنسے تھے کہ ان کی برائی وہ سن بھی نہیں سکتے تھے۔ سچائی کی یہ آواز جس کے کانوں میں سب سے پہلے پڑی وہ حضرت محمدؐ کی بیوی خدیجہؓ ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب ان کے سامنے خدا کی تعلیم کو پیش کیا تو وہ سننے کے ساتھ مسلمان ہو گئیں۔ آپؐ کے مرد ساتھیوں میں حضرت ابو بکرؓ نام کے، قریش کے جو مشہور سوداگر تھے، ہمارے رسولؐ نے جب ان کو خدا کا پیغام سنایا تو وہ بھی فوراً کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گئے اور اس وقت سے برابر آپؐ کے ہر کام میں آپؐ کے ساتھ رہنے لگے۔ آپؐ کے پیارے چچا ابو طالب کے کم سن بیٹے کا نام حضرت علیؓ تھا۔ یہ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گود میں پلے تھے اور آپؐ ہی کے ساتھ رہتے تھے، وہ بچپن ہی سے مسلمان رہے۔ آپؐ کے چہیتے خادم کا نام حضرت زید بن حارثہؓ تھا۔ انہوں نے بھی اسلام کا کلمہ پڑھ لیا اور مسلمان ہو گئے۔
اس کے بعد آپؐ اور ابو بکرؓ نے مل کر چپکے چپکے قریش کے ایسے لوگوں کو جو طبیعت کے نیک اور سمجھ کے اچھے تھے، اسلام کی باتیں سمجھانی شروع کیں۔ بڑے بڑے نامی لوگوں میں سے پانچ آدمی حضرت ابو بکرؓ کے سمجھانے سے مسلمان ہوئے، ان کے نام یہ ہیں: حضرت عثمانؓ بن عفان، حضرت زبیرؓ، حضرت عبد الرحمنؓ بن عوف، حضرت سعدؓ بن ابی وقاص اور حضرت طلحہؓ۔ پھر یہ چرچا چپکے چپکے اور لوگوں کے کانوں تک بھی پہنچا اور مکہ میں مسلمانوں کا شمار روز بروز بڑھنے لگا۔ ان میں چند غلام بھی تھے جن کے نام یہ ہیں: حضرت بلالؓ، حضرت عمار بن یاسرؓ، حضرت خباب بن ارتؓ اور حضرت صہیبؓ۔ قریش کے چند نیک مزاج نوجوان بھی اسلام لائے جیسے حضرت ارقم، حضرت سعید بن زید، حضرت عبد اللہ بن مسعود، حضرت عثمان بن مظعون، حضرت عبیدہ رضوان اللہ تعالی علیہم۔
اب رفتہ رفتہ یہ اثر مکہ کے باہر بھی پھیلنے لگا اور قریش کے سرداروں کو بھی اس نئی تعلیم کی سن گن لگنے لگی۔ ایک تو جہالت، دوسری باپ دادوں کے مذہب کی الفت، دونوں چیزیں ایسی تھیں کہ قریش کے سرداروں کو اس نئے مذہب پر بڑا غصہ آیا۔ جو لوگ مسلمان ہو چکے تھے، ان کو طرح طرح سے ستانے لگے۔ مسلمان پہاڑوں کے دروں اور غاروں میں جا جا کر چھپ کر نماز پڑھتے تھے اور اللہ کا نام لیتے تھے۔ ایک مرتبہ اللہ کے رسولؐ اپنے چچیرے بھائی حضرت علیؓ کو ساتھ لے کر کسی درے میں نماز پڑھ رہے تھے کہ آپ کے چچا ابو طالب آ نکلے۔ ان کو یہ نئی چیز عجیب لگی۔ بھتیجے سے پوچھا یہ کیسا دین ہے؟ فرمایا یہ ہمارے دادا حضرت ابراہیم ؑ کا دین ہے۔ ابو طالب نے کہا تم شوق سے اس دین پر قائم رہو، میرے ہوتے ہوئے تمہارا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔
تین برس تک آپؐ یوں ہی چھپ چھپ کر چپکے چپکے بتوں کے خلاف وعظ کرتے رہے اور لوگوں کو صحیح دین کا سبق پڑھاتے رہے، جو نیک اور سمجھ دار ہوتے، قبول کر لیتے اور جو ناسمجھ اور ہٹ دھرم ہوتے وہ نہ مانتے بلکہ الٹے دشمن ہو جاتے۔
اس زمانے میں کعبہ کے پاس ایک گلی تھی جس میں ایک بڑے سچے اور جانثار مسلمان حضرت ارقمؓ کا گھر تھا۔ یہ گھر اسلام کا پہلا مدرسہ تھا۔ آپ اکثر وہاں تشریف رکھتے تھے اور مسلمانوں سے ملتے اور ان کو خدا کی یاد اور نصیحت کی اچھی اچھی باتیں سناتے اور ان کے ایمان کو مضبوط بناتے۔ جو لوگ اس دین کا شوق رکھتے، وہ یہیں آ کر خدا کے رسولؐ سے ملتے اور مسلمان ہوتے۔
پہلی عام منادی
تین برس کے بعد خدا نے آپؐ کو حکم دیا کہ اب اعلانیہ خدا کے نام کو بلند کرو اور نڈر ہو کر بت پرستی کی مخالفت کرو اور ہمارے بندوں کو نیکی اور نصیحت کی باتیں سناؤ۔ اتفاق کی بات دیکھیں کہ اس وقت جس نے سب سے زیادہ آپؐ کا ساتھ دیا اور آپؐ کی حمایت کا بیڑا اٹھایا، وہ بھی آپؐ کے چچا تھے، جن کا نام ابو طالب تھا۔آپ اس سے قبل پڑھ چکے ہیں کہ وہ آپؐ کو کتنا پیار کرتے تھے۔ اسی طرح جس نے سب سے زیادہ آپؐ کی مخالفت کی اور آپؐ کی دشمنی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی وہ بھی آپؐ ہی کا ایک چچا تھا جس کا نام ابو لہب تھا۔ ابو لہب کے علاوہ آپؐ کے دین کا سب سے بڑا دشمن ابو جہل نکلا جو قریش کا ایک سردار اور بڑا دولت مند تھا۔ قریش کے سرداروں کا کہنا یہ تھا کہ اگر خدا کو اپنا قاصد اور ایلچی بنا کر کسی کو بھیجنا ہی تھا تو مکہ یا طائف کے کسی دولت مند رئیس کو بنا کر بھیجنا تھا۔ ان کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی تھی کہ خدا کے دربار میں دولت اور ریاست کی نہیں بلکہ نیکی اور اچھائی کی قدر ہے۔ اس نے دنیا بنانے سے پہلے ہی طے کر لیا تھا کہ قریش کے گھرانے میں عبد اللہ کے یتیم بیٹے محمدؐ کو اپنا آخری رسولؐ بنا کر بھیجے گا۔ چنانچہ اس نے بھیجا اور وہ اب ظاہر ہوا۔
ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جب دین کی کھلم کھلا منادی کا حکم ہوا تو آپؐ نے مکہ کی ایک پہاڑی جس کا نام صفا تھا، کھڑے ہو کر قریش کو آواز دی۔ عرب کے دستور کے مطابق اس آواز کو سن کر قبیلہ کے سارے آدمیوں کو جمع ہو جانا ضروری تھا۔ اس لیے مکہ کے بڑے بڑے سردار اس پہاڑی کے نیچے آ کر جمع ہوئے۔ آپؐ نے ان سے پوچھا کہ اگر میں تم سے یہ کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے تمہارے دشمنوں کا ایک لشکر آ رہا ہے تو کیا تم کو اس کا یقین آئے گا؟ سب نے کہا ہاں بے شک، کیونکہ ہم نے تم کو ہمیشہ سچ بولتے دیکھا۔ آپؐ نے فرمایا تو میں یہ کہتا ہوں کہ اگر تم نے خدا کے پیغام کو نہیں مانا تو تمہاری قوم پر ایک بہت بڑی آفت آئے گی۔ یہ سن کر ابو لہب نے کہا: کیا تم نے یہی سنانے کے لیے ہم کو یہاں بلایا تھا، یہ کہہ کر اٹھا اور چلا گیا۔ قریش کے دوسرے سردار بھی خفا ہو کر چلے گئے۔

عام تبلیغ
لیکن ہمارے رسولؐ نے ان سرداروں کی خفگی کی پروا نہ کی اور بت پرستی کی برائی کھلم کھلا بیان کرتے رہے اور خدا کی یکتائی، عبادت اور اچھے اخلاق اور قیامت کا وعظ فرماتے رہے۔ جن کے دل اچھے تھے، وہ آپؐ کی بات قبول کر لیتے تھے لیکن جو دل کے نیک نہ تھے، وہ شرارت پر اتر آئے اور آپؐ کو طرح طرح سے ستانے لگے، راستے میں کانٹے ڈال دیتے۔ آپؐ نماز پڑھنے کھڑے ہوتے تو چھیڑتے، کعبے کا طواف کرنے جاتے تو آوازے کستے، لوگوں میں آپؐ کو ساحر، جادوگر، پاگل وغیرہ مشہور کرتے اور جو نیا آدمی آتا اس کو پہلے ہی جا کر کہہ آتے کہ ہمارے ہاں ایک شخص اپنے باپ دادا کے دین سے پھر گیا ہے۔ اس کے پاس نہ جانا۔
آپؐ ان کی یہ تمام سختیاں جھیلتے تھے اور اپنا کام کیے جاتے تھے۔ قریش نے دیکھا کہ یہ کسی طرح باز نہیں آتے تو ایک دن وہ اکٹھے ہو کر آپؐ کے چچا ابو طالب کے پاس گئے اور کہا کہ تمہارا بھتیجا ہمارے بتوں کو برا بھلا کہتا ہے۔ ہمارے باپ دادوں کو گمراہ بتاتا ہے۔ ہم کو نادان ٹھہراتا ہے۔ اب یا تو بیچ سے ہٹ جاؤ یا تم بھی میدان میں آ جاؤ کہ ہم دونوں میں سے ایک کا فیصلہ ہو جائے۔ ابو طالب نے دیکھا کہ وقت نازک ہے۔ آنحضرتؐ کو بلا کر کہا کہ مجھ بوڑھے پر اتنا بوجھ نہ ڈالو کہ میں اٹھا نہ سکوں۔ ظاہر میں آنحضرتؐ کو اگر کسی کی مدد کا سہارا تھا تو یہی چچا تھے۔ ان کی یہ بات سن کر آپؐ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ پھر فرمایا ’’چچا جان! خدا کی قسم اگر یہ لوگ میرے ایک ہاتھ پر سورج اور دوسرے پر چاند رکھ دیں، تب بھی میں اپنے کام سے باز نہ آؤں گا‘‘۔ آپؐ کی یہ مضبوطی اور پکا ارادہ دیکھ کراور آپؐ کی اس اثر سے بھری ہوئی بات کو سن کر ابو طالب پر بڑا اثر ہوا۔ آپؐ سے کہا ’’بھتیجے جاؤ یہ تمہارا کچھ بھی نہیں کر سکتے‘‘۔
چچا کا یہ جواب سن کر دل میں ڈھارس بندھی اور اپنا کام تیزی سے کرنا شروع کیا۔ اکثر قبیلوں کے اکا دکا آدمی مسلمان ہو گئے۔ قریش کے سرداروں نے دیکھا کہ دھمکی سے کام نہ چلا۔ اب ذرا پھسلا کر کام چلائیں۔ سب نے مشورہ کر کے عتبہ نامی قریش کے ایک سردار کو سمجھا بجھا کر آپؐ کے پاس بھیجا۔ اس نے آپؐ کے پاس پہنچ کر کہا ’’اے محمدؐ! قوم میں پھوٹ ڈالنے سے کیا فائدہ؟ اگر تم مکہ کی سرداری چاہتے ہو تو وہ حاضر ہے۔ اگر کسی بڑے گھرانے میں شادی چاہتے ہو تو یہ بھی ہو سکتا ہے، اگر دولت چاہتے ہو توہم اس کے لیے بھی تیار ہیں، مگر تم اس کام سے باز آؤ‘‘۔
عتبہ کا خیال تھا کہ ہم جو چال چلے ہیں اس کی کامیابی میں شک ہی نہیں۔ محمدؐ ان باتوں میں سے کسی ایک کے لالچ میں آ کر ضرور ہی ہم سے صلح کر لیں گے۔ لیکن آپؐ کی زبان سے اس نے وہ جواب سنا جس کی ذرا بھی امید اس کو نہ تھی۔ آپؐ نے قرآن کی چند آیتیں اس کو سنائیں، ان آیتوں کا سننا تھا کہ اس کا دل دھل گیا۔ واپس آیا تو قریش نے دیکھا کہ اس کے چہرے کا رنگ فق ہے۔ عتبہ نے کہا ’’بھائیو! محمدؐ جو کلام پڑھتے ہیں وہ نہ شاعری ہے، نہ جادوگری ہے۔ میری رائے ہے کہ تم ان کو ان کے حال پر چھوڑ دو اگر وہ کامیاب ہو گئے اور عرب پر غالب آ گئے تو یہ ہماری عزت ہے، ورنہ عرب کے لوگ خود ان کا خاتمہ کر دیں گے‘‘۔ لیکن قریش نے اس کی بات نہ مانی اور اپنی ضد پر برابر اڑے رہے۔
اب آپؐ کا کام تھا کہ ایک ایک آدمی کے پاس جاتے اور اس کو سمجھاتے۔ کوئی مان لیتا، کوئی چپ رہتا، کوئی جھڑک دیتا۔ اس حالت میں جو لوگ آپؐ پر ایمان لائے اور مسلمان ہوئے ان کی بڑی تعریف ہے۔ اور ان میں سے بعض کے مسلمان ہونے کا قصہ بڑا دلچسپ ہے۔
حضرت حمزہؓ کا مسلمان ہونا
حضرت حمزہؓ آپؐ کے چچا تھا۔ عمر میں کچھ ہی بڑے تھے۔ ایک رشتہ سے آپؐ کی خالہ کے بیٹے تھے اور دودھ شریک بھائی بھی تھے۔ اس لیے وہ آپؐ سے بڑی محبت کرتے تھے۔ ابو جہل کا حال تو معلوم ہے کہ وہ آپؐ کو کس کس طرح ستاتا تھا۔ ایک دن کا واقعہ ہے کہ ابو جہل نے اپنے معمول کے مطابق آپؐ کو بہت کچھ برا بھلا کہا۔ ایک لونڈی کھڑی یہ باتیں سن رہی تھی، شام کو جب حضرت حمزہؓ شکار سے واپس آ رہے تھے، اس لونڈی نے جو دیکھا اور سنا تھا ان سے دہرایا۔ حضرت حمزہؓ یہ سن کر غصے سے لال ہو گئے اور اسی حالت میں کعبے کے صحن میں جہاں قریش کے بڑے بڑے لوگ اپنے جلسے جما کر بیٹھے تھے، آئے اور ابو جہل کے پاس آ کر کمان اس کے سر پر ماری اور کہا ’’لو، میں مسلمان ہو گیا ہوں، تمہارا جو جی چاہے میرے ساتھ کر لو‘‘۔ یہ کہہ کر گھر چلے آئے۔ اب وہ دن آیا کہ اسلام کے جرگے میں ایک بڑا پہلوان شریک ہو گیا۔
حضرت عمرؓ کا مسلمان ہونا
خطاب کے بیٹے عمرؓ قریش کے ایک خاندان کے نوجوان تھے۔ مزاج میں سختی تھی۔ جو بات کرتے تھے، سختی سے کرتے تھے۔ یہ بھی اس وقت اسلام کے بڑے دشمن تھے، مسلمانوں کو چھیڑا اور ستایا کرتے تھے۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ایک دن یہ کسی بت خانے میں پڑے سو رہے تھے کہ بت خانے کے اندر سے لا الہ الا اللہ کی آواز سنی۔ گھبرا کر اٹھ بیٹھے اور اب وہ اس کی آواز کی سچائی پر کبھی کبھی غور کرنے لگے۔ حضورؐ راتوں کو جب قرآن پڑھتے تو یہ دوسروں سے چھپ کر کھڑے ہو کر سننے لگے۔ ایک رات کو آپؐ نماز میں قرآن کی ایک سورۃ پڑھ رہے تھے۔ عمرؓ ایک آیت سن رہے تھے اور اثر لے رہے تھے، لیکن چونکہ مزاج کے پختہ اور طبیعت کے مستقل تھے، وہ اس اثر کو رفع کرتے رہے۔
اس سے پہلے حضرت عمرؓ کی بہن حضرت فاطمہؓ اور بہنوئی حضرت سعیدؓ بن زید مسلمان ہو چکے تھے۔ حضرت عمرؓ کو پتہ چلا تو دونوں کو رسیوں سے جکڑ کر باندھ دیا۔ مشہور یہ ہے کہ ایک دفعہ حضرت عمرؓ کے دل میں آیا کہ چل کر محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کا سر قلم کیوں نہ کر دیں کہ روز کا جھگڑا ختم ہو جائے۔ یہ ارادہ کر کے وہ تلوار لگا کر گھر سے نکلے، راہ میں ایک مسلمان سے ان کی ملاقات ہوئی۔ اس نے پوچھا کہ ’’عمر! کدھر کا قصد ہے؟‘‘ انہوں نے کہا ’’جاتا ہوں کہ محمدؐ کا کام آج تمام کر دوں۔‘‘ اس نے کہا’’ پہلے اپنی بہن اور بہنوئی کی تو خبر لو۔‘‘ اس طعن سے وہ بیتاب ہو گئے۔ پلٹ کر اپنی بہن کے گھر کا راستہ لیا۔ پہنچے تو قرآن پڑھنے کی آواز سنی۔ غصے سے بے قابو ہو کر بہن اور بہنوئی کو جی کھول کر مارا۔ مگر دیکھا تو ان کی توحید کا نشہ اسی طرح تھا۔ ان کے دل پر بڑا اثر ہوا۔ کہا اچھا جو سورۃ تم پڑھ رہے تھے وہ مجھے بھی دکھاؤ۔ انہوں نے وہ ورق لا کر ہاتھ پر رکھ دیا۔ عمرؓ جیسے جیسے اس کو پڑھتے جاتے تھے، ان کا دل کانپتا جاتا تھا، آخر چلا اٹھے لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ۔
یہ وہ زمانہ تھا جب آپؐ حضرت ارقمؓ کے گھر میں تھے۔ حضرت عمرؓ سیدھے وہاں پہنچے، کواڑ بند تھے۔ آواز دی جو مسلمان وہاں موجود تھے حضرت عمرؓ کو تلوار لیے دیکھ کر ڈرے۔ حضرت حمزہؓ نے کہا آنے دو اگر وہ خلوص کے ساتھ آیا ہے تو بہتر ہے ورنہ اسی کی تلوار سے اس کا سر قلم کر دیا جائے گا۔ دروازہ کھلا اور حضرت عمرؓ نے اندر قدم رکھا تو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود آگے بڑھے اور ان کا دامن پکڑ کر فرمایا، کیوں عمر! کس ارادے سے آئے ہو؟ عرض کی، ایمان لانے کے لیے۔ یہ سن کر مسلمانوں نے اس زور سے اللہ اکبر کا نعرہ مارا کہ مکہ کی پہاڑیاں گونج اٹھیں۔
کافروں کو جب حضرت عمرؓ کے مسلمان ہونے کا حال معلوم ہوا تو انہوں نے سب طرف سے حضرت عمرؓ کے مکان پر نرغہ کیا لیکن عاصم بن وائل کے سمجھانے سے واپس چلے گئے۔ حضرت عمرؓ مسلمان ہوئے تو مسلمانوں کی ہمت بڑھ گئی۔ حضرت عمرؓ مسلمان ہوئے تو سب مسلمانوں کو ساتھ لے کر نکلے اور لڑ کر کعبہ کے صحن میں جا کر نماز پرھی۔

حضرت ابو ذر غفاریؓ کا مسلمان ہونا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مسلمان ساتھیوں کو صحابہؓ کہتے ہیں۔ اسلام جیسے جیسے پھیلتا جاتا تھا۔ صحابیوں کی تعداد روز بروز بڑھتی جاتی تھی۔ یہاں تک کہ مکہ کے باہر بھی وہ پہنچ گئے۔ مکہ سے کچھ دور غفار کا قبیلہ رہتا تھا۔ اس میں حضرت ابو ذرؓ اور حضرت اُنیسؓ دو بھائی تھے۔ حضرت ابو ذرؓ کو جب یہ معلوم ہوا کہ مکہ میں ایک رسولؐ پیدا ہوا ہے ،جس کا دعویٰ یہ ہے کہ اس کے پاس آسمان سے خدا کا پیام آتا ہے تو انہوں نے اپنے بھائی اُنیسؓ کو بھیجا کہ جا کر اس رسولؐ کا حال دریافت کریں اور اس کی باتیں سنیں۔ حضرت انیسؓ مکہ آئے اور واپس جا کر اپنے بھائی سے کہا کہ وہ اخلاق کی اچھی اچھی باتیں لوگوں کو بتاتا ہے اور جو کلام وہ پیش کرتا ہے، وہ شعر نہیں۔ یہ سن کر حضرت ابو ذرؓ کا شوق اور بڑھا اور وہ سوار ہو کر مکہ آئے اور کعبے میں داخل ہوئے کہ خدا کے اس رسولؐ کا پتہ لگائیں۔ کسی سے پوچھنا مشکل تھا، رات ہو گئی اور وہ لیٹ گئے۔ حضرت علیؓ کا ادھر سے گزر ہوا تو وہ سمجھے کہ یہ کوئی پردیسی ہے۔ حضرت علیؓ نے ان کی طرف دیکھا۔ وہ پیچھے ہو گئے، راستہ میں ایک نے دوسرے سے بات نہ کی۔ رات ہوئی تو پھر وہیں لیٹ گئے۔ حضرت علیؓ اب پھر ادھر سے گزرے تو دیکھا کہ وہی پردیسی ہے۔ ان کو اٹھا کر اپنے گھر لائے اور کوئی بات چیت نہیں ہوئی۔ رات گزار کر حضرت ابو ذرؓ پھر کعبے میں پہنچے، اسی طرح دن گزارا، رات آئی تو چاہا کہ یہیں لیٹ رہیں کہ پھر حضرت علیؓ مرتضیٰ کا گزر ہوا اور ان کو ساتھ لے کر چلے۔ راستے میں پوچھا تم کدھر آئے ہو؟ انہوں نے جو ماجرا تھا، بیان کیا۔ فرمایا ہاں سچ ہے خدا کے وہ رسولؐ ہیں۔ اچھا صبح کو میرے ساتھ چلنا۔ صبح ہوئی تو وہ ان کو لے کر خدا کے رسولؐ کے ہاں چلے۔ جب وہاں پہنچے اور آپؐ کی باتیں سنیں تو دل کی بات زبان پر آ گئی۔ کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گئے، حضرت محمدؐ نے فرمایا اس وقت اپنے گھر چلے جاؤ۔ انہوں نے کہا کہ نہیں خدا کی قسم میں اس کلمہ کو ان کافروں کے سامنے للکار کر کہوں گا۔ یہ کہہ کر وہ کعبے میں آئے اور بڑے زور سے چیخ کر پکارے۔ اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھدان محمدا رسول اللہ ’’میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد اللہ کے رسول ہیں‘‘۔
کافروں نے یہ آواز سنی تو ہر طرف سے ان پر ٹوٹ پڑے اور سب نے مل کر بری طرح ان کو مارا۔ حضرت عباسؓ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا دوڑ کر آئے اور ان کو بچایا اور قریش سے کہا ’’تم کو معلوم نہیں کہ یہ غفارکے قبیلے کا آدمی ہے اور تمہاری تجارت کا راستہ ہی ادھر سے گزرتا ہے‘‘۔ تب قریش نے بڑی مشکل سے انہیں چھوڑا۔ دوسرے دن پھر وہ کعبے میں آئے اور اسی طرح چلا کر اسلام کا کلمہ پڑھا، پھر کافر دوڑے اور ان کو مارنے لگے اور پھر حضرت عباسؓ نے ان کو چھڑایا۔ یہ تھا صحابہ کرامؓ کے اسلام کا نشہ جو اتارے نہ اترتا تھا۔
غریب مسلمانوں کا ستایا جانا
قریش نے جب یہ دیکھا کہ مسلمانوں کی تعداد روز بروز بڑھتی جاتی ہے اور یہ سیلاب روکے نہیں رکتا تو انہوں نے زور اور ظلم کرنے کی ٹھان لی۔ جس غریب مسلمان پر جس کافر کا بس چلا، اس کو طرح طرح سے ستانے لگا۔ دوپہر کو عرب کی ریگستانی اور پتھریلی زمین بے حد گرم ہو جاتی ہے، اس وقت وہ بے یارومددگار مسلمانوں کو پکڑ کر اس تیز دھوپ میں اسی گرم زمین پر لٹاتے، چھاتی پر بھاری پتھر رکھ دیتے، بدن پر گرم بالو بچھاتے۔ لوہے کو آگ پر گرم کر کے اس سے داغتے، یہ وہ سزائیں تھیں جو حضرت بلالؓ اور حضرت صہیبؓ کو دی جاتی تھیں۔
۱۔ اس سے بھی تسکین نہ ہوتی تو حضرت بلالؓ کے گلے میں رسی باندھتے اور لونڈوں کے حوالے کرتے اور وہ ان کو گلیوں میں گھسیٹتے پھرتے لیکن ان کا یہ حال تھا کہ اس حالت میں بھی زبان پر احد احد ہوتا یعنی وہ خدا ایک ہے، وہ خدا ایک ہے۔
۲۔ حضرت صہیبؓ بھی غلام تھے جو مسلمان ہو گئے تھے، ان کو پکڑ کر اتنا مارتے تھے کہ ان کے ہوش و ہواس جاتے رہتے تھے۔
۳۔ حضرت خبابؓ بن ارت بھی پرانے مسلمانوں میں سے تھے۔ ان کو طرح طرح کی تکلیفیں دی گئیں، یہاں تک کہ ایک دن گرم کوئلوں پر ان کو چت لٹایا گیا اور اس وقت تک نہ چھوڑا گیا جب تک کوئلے ٹھنڈے نہ ہو گئے۔
۴۔ حضرت یاسرؓ اور ان کے بیٹے عمارؓ اور بیوی حضرت سمیہؓ ،یہ تینوں مکے کے غریب عوام میں سے تھے اور اسلام لانے والوں میں بہت پہلے ہیں۔ حضرت یاسرؓ تو کافروں کے ہاتھوں سے تکلیفیں اٹھاتے اٹھاتے شہید ہو گئے۔ حضرت سمعیہؓ کو ابو جہل نے ایسی برچھی ماری کہ وہ جاں بحق ہو گئیں۔ حضرت عمارؓ کو تپتی ہوئی زمین پر لٹا کر ان کو اتنا مارتے کہ وہ بے ہوش ہو جاتے۔
۵۔ حضرت زنیرہؓ ایک مسلمان باندی تھیں۔ ابو جہل نے ان کو اتنا مارا کہ ان کی آنکھیں جاتی رہیں اور دوسرے غریب مسلمانوں اور نو مسلم غلاموں اور کنیزوں کوبھی ایسی ہی سزائیں دی جاتیں۔ حضرت ابو بکرؓ نے حضرت بلالؓ، حضرت عامرؓ، حضرت لبیبہؓ، حضرت زنیرہؓ، حضرت نہدیہؓ اور حضرت ام عُنیسؓ وغیرہ مسلمان غلاموں اور باندیوں کو ان کے ظالم اور بے رحم مالکوں سے خرید کر آزاد کیا۔
یہ تو غریب مسلمانوں کا حال تھا، جو عزت اور دولت والے تھے وہ اپنے بزرگ رشتے داروں کے پنچوں میں تھے۔ حضرت عثمانؓ جب مسلمان ہوئے تو ان کے چچا نے ان کو رسی سے باندھ کر مارا۔ حضرت سعیدؓ بن زید اور ان کی بیوی حضرت فاطمہؓ کو جو حضرت عمرؓ کی بہن تھیں، حضرت عمرؓ رسی سے جکڑ دیتے تھے۔ حضرت زبیرؓ مسلمان ہوئے تو ان کے چچا ان کو چٹائی میں لپیٹ کر ان کی ناک میں دھوا دیتے تھے۔حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ مسلمان ہوئے تو کعبے میں جا کر سورہ رحمن پڑھنا شروع کی۔ کافر ہر طرف سے ان پر ٹوٹ پڑے اور بری طرح مارا۔
مسلمان اس بے کسی میں کیا کرتے؟ آ کر حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کافروں کی شکایت کرتے اور عرض کرتے کہ یا رسول اللہ دعا کیجیے کہ مسلمانوں کو امن ملے۔ آپؐ ان کو تسلی دیتے اور اگلے پیغمبروں کا حال سناتے اور انہوں نے حق کی راہ میں جو تکلفیں اٹھائیں ان کو بیان کرتے اور فرماتے کہ حق کا آفتاب زیادہ دیر بادل میں چھپا نہیں رہ سکتا۔ ایک زمانہ آئے گا جب خدا تم کو غلبہ دے گا۔ تم سے پہلے تو پیغمبر کو آرے سے چیر دیا گیا، کسی کا گوشت لوہے کی کنگھی سے چھیل دیا گیا، مگر انہوں نے حق کو نہ چھوڑا۔
حبش کی ہجرت
ایک شہر سے دوسرے شہر کو چلے جانے کو ہجرت کہتے ہیں۔ آپ پڑھ چکے ہیں کہ عرب کا ملک سمندر کے کنارے پر ہے اور حجاز جس سمندر کے کنارے پر ہے اس کا نام بحر احمر ہے۔ بحر احمر کے اس کنارے افریقہ میں حبش کا ملک ہے، وہاں کا عیسائی بادشاہ بہت نیک تھا۔ مسلمانوں کی تکلیفیں جب بڑھ گئیں تو نبوت کے پانچویں سال حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اجازت سے گیارہ مرد اور چار عورتیں کشتی میں بیٹھ کر حبش کی طرف روانہ ہو گئے۔
حبش کے بادشاہ کو نجاشی کہتے ہیں۔ نجاشی نے ان مسلمانوں کو اپنے ہاں بڑے آرام اور امن و امان سے رکھا۔ قریش کو جب اس کی خبر ہوئی تو انہوں نے نجاشی کے پاس اپنے دو سفیر بھیجے کہ یہ ہمارے مجرم ہیں، ان کو ہمارے حوالے کر دیجیے۔ بادشاہ نے مسلمانوں کو بلا کر پوچھا۔ حضرت علیؓ کے بھائی حضرت جعفرؓ نے مسلمانوں کی طرف سے یہ تقریر کی:
’’اے بادشاہ! ہم جاہل تھے، بت پوجتے تھے، مردار کھاتے تھے، بد کاری کرتے تھے، پڑوسیوں کو ستاتے تھے، بھائی بھائی پر ظلم کرتا تھا، زور آور کمزوروں کو کھا جاتا تھا، اتنے میں ہم میں ایک شخص پیدا ہوا جس کی بزرگی، سچائی اور ایمان داری سے ہم واقف تھے۔ اس نے ہم کو سچے دین کی دعوت دی اور بتایا کہ ہم بتوں کو پوجنا چھوڑ دیں، سچ بولیں، ظلم سے باز آئیں، یتیموں کا مال نہ کھائیں، پڑوسیوں کو آرام دیں۔ پاک دامن عورتوں پر بد نامی کا داغ نہ لگائیں، نماز پڑھیں، روزے رکھیں، خیرات دیں، ہم نے اس شخص کو خدا کا پیغمبر مانا اور اس کی باتوں پر عمل کیا۔ اس جرم پر ہماری قوم ہماری جان کی دشمن ہو گئی اور ہم کو مجبور کرتی ہے کہ ہم اس کو چھوڑ کر اسی پہلی گمراہی میں رہیں‘‘۔
نجاشی نے کہا ’’تمہارے پیغمبر پر جو کلام اترا ہے، کہیں سے پڑھو۔ ’’حضرت جعفرؓ نے سورہ مریم کی چند آیتیں پڑھیں۔ نجاشی پر اس کا یہ اثر ہوا کہ اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ پھر کہا ’’خدا کی قسم یہ کلام اور انجیل دونوں ایک ہی چراغ کے پرتو ہیں‘‘۔ یہ کہہ کر قریش کے آدمیوں سے کہا کہ ’’تم واپس جاؤ میں ان مظلوموں کو واپس نہ دوں گا‘‘۔
مسلمانوں نے جب نجاشی کی یہ مہربانی دیکھی تو بعد میں اور بھی بہت سے مسلمان چھپ چھپ کر حبش روانہ ہو گئے۔ یہاں تک کہ ان کی تعداد وہاں کم و بیش تراسی ہو گئی۔
ابو طالب کی گھاٹی (شعب) میں نظر بندی
قریش نے دیکھا کہ یہ تدبیر بھی کارگر نہ ہوئی۔ اس لیے قریش کے سب خاندانوں نے مل کر نبوت کے ساتویں برس یہ معاہدہ کیا کہ کوئی شخص پیغمبر خدا کے خاندان سے جس کا نام بنو ہاشم تھا، کوئی تعلق نہ رکھے گا، نہ ان سے شادی بیاہ کرے گا، نہ ان کے ہاتھ خرید و فروخت کرے گا، نہ ان کو کھانے پینے کا کوئی سامان دے گا، یا یہ کہ وہ محمدؐ کو ہمارے حوالے کر دیں۔ یہ معاہدہ لکھ کر کعبے کے دروازے پر لٹکا دیا گیا۔ ابو طالب خاندان کے سب لوگوں کو لے کر ایک درے میں چلے گئے جو شعب ابی طالب کہلاتا ہے۔ یہیں دوسرے مسلمانوں نے بھی آ کر پناہ لی اور بہت تکلیف کے ساتھ یہاں رہنے لگے۔ پتیاں کھا کر گزر بسر کرتے، سوکھا چمڑہ ملتا تو اس کو بھون کر کھاتے، بچے بھوک سے بلبلاتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کھانے کے لیے حضرت بلالؓ بغل میں کچھ چھپا کر کہیں سے کبھی کبھی لے آتے تھے۔ کافر مسلمانوں کی یہ حالت دیکھ کر خوش ہوتے تھے۔ تین سال اسی طرح گزر گئے۔ آخر خود ان ظالموں میں سے کچھ کو رحم آیا اور انہوں نے اس ظالمانہ معاہدے کو توڑ ڈالا۔
ابو طالب اور حضرت خدیجہ الکبریؓ کی وفات
اب وہ درے سے نکل کر اپنے اپنے گھروں میں آئے کچھ ہی دن گزرے تھے کہ آپؐ کے پیارے چچا ابو طالب نے وفات پائی۔ ابھی اس غم کو چند ہی روز ہوئے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غمگسار بیوی حضرت خدیجہؓ نے بھی انتقال کیا۔ یہ زمانہ آپؐ پر بہت سخت گزرا۔ آپؐ کے یہی دو مونس اور غمگسار تھے۔ دونوں ایک ہی سال آگے پیچھے چل بسے۔
آپؐ پر مصیبتیں
قریش کے ظالموں کو ابو طالب کے رعب داب اور حضرت خدیجہؓ کی خاطر سے اب تک خود رسول اللہصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ہاتھ اٹھانے کی ہمت نہیں ہوئی تھی۔ ان دونوں کے اٹھ جانے پر میدان خالی ہو گیا۔ اب خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ بے ادبی سے پیش آنے لگے۔ ایک دفعہ آپؐ کہیں جا رہے تھے کہ کسی ظالم نے سر مبارک پر خاک ڈال دی۔ آپؐ اسی طرح گھر آئے۔ آپؐ کی صاحبزادی حضرت فاطمہؓ پانی لے کر آئیں۔ سر دھوتی جاتی تھیں اور باپ کی صورت دیکھ کر روتی جاتی تھیں۔ آپؐ نے فرمایا، باپ کی جان روؤ نہیں، خدا تیرے باپ کو یوں نہ چھوڑے گا۔
ایک دفعہ آپؐ کعبے کے صحن میں نماز پڑھ رہے تھے۔ قریش کے سردار جلسہ جمائے بیٹھے تھے۔ نماز پڑھتے دیکھ کر کہنے لگے کہ کوئی اونٹ کی اوجھڑی لا کر ان کی گردن پر رکھ دے۔ چنانچہ ایک شریر نے یہ کام کیا ۔ اس بوجھ سے آپؐ کی پیٹھ دب گئی۔ کسی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی سے جا کر اس کی خبر کی وہ آئیں تو کسی طرح اس گندگی کو ہٹا کر دور کیا۔
ایک دفعہ ایک شریر نے آپ ﷺ کی گردن میں چادر کا پھندا ڈال کر چاہا کہ گلا گھونٹ دے، حضرت ابو بکرؓ نے دوڑ کر آپؐ کو بچا لیا اور اس سے کہا کہ کیا ایک شخص کی جان صرف اس بات پر لینا چاہتے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا پروردگار اللہ ہے۔
طائف کا سفر
مکہ سے چالیس میل (۶۵ کلو میٹر) کے فاصلے پر طائف کا سر سبز و شاداب شہر تھا۔ آپؐ نے مکہ کے لوگوں کی یہ حالت دیکھ کر یہ طے کیا کہ طائف جائیں اور وہاں کے رئیسوں کو اسلام کا پیام سنائیں۔ آپؐ حضرت زیدؓ بن حارثہ کو ساتھ لے کر طائف گئے اور وہاں کے رئیسوں کو دین حق کی دعوت دی مگر افسوس! ان میں سے ایک نے بھی اس کو قبول نہیں کیا اور اسی پر بس نہیں کی بلکہ بازار کے شریروں کو ابھار دیا کہ وہ آپ کو دق کریں۔ وہ راستے کے دونوں طرف کھڑے ہو گئے اور جب آپؐ ادھر سے گزرنے لگے تو آپؐ کے پاؤں پر پتھر برسائے جس سے آپؐ کے پاؤں لہولہان ہوگئے۔ آپؐ درد کے مارے کہیں بیٹھ جاتے تو وہ بازو تھام کر اٹھا دیتے۔ شریر پھر پتھر مارتے اور گالیاں دیتے، آپؐ تھک کر بیٹھ جاتے، آخر آپؐ نے ایک باغ میں پناہ لی۔ یہ کیسی بے کسی کا وقت تھا۔ اس وقت خدا کا ایک فرشتہ آپؐ کو نظر آیا جس نے آپؐ کو خدا کا پیغام سنایا کہ یا رسول اللہؐ ! اگر آپؐ کہیں تو طائف والوں پر ان پہاڑوں کو دے مارا جائے کہ وہ کچل کر رہ جائیں۔ آپؐ نے امت پر مہربان ہو کر عرض کی خدایا! ایسا نہ کر شاید کہ ان کی نسل سے کوئی تیرا ماننے و الا پیدا ہو۔
قبیلوں میں دورہ
طائف کے ناکام سفر کے بعد آپؐ کے مضبوط ارادے پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ اب آپؐ نے قصد کیا کہ ایک ایک قبیلے میں پھر کر خدا کا پیام سنائیں۔ اس کے لیے مکہ میں حج کا قدرتی موقع موجود تھا۔ اس زمانے میں عرب کے گوشے گوشے سے لوگ آتے اور کئی کئی دن ٹھہرتے۔ مکہ کے آس پاس میلے بھی لگتے تھے اور یہاں بھی آدمیوں کا جماؤ ہوتا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان مجمعوں میں ایک ایک قبیلے میں پھر پھر کر وعظ کہنا اور قرآن کی آیتیں سنانا شروع کیں۔ اس کا یہ اثر ہوا کہ پورے ملک میں اسلام کی آواز پھیل گئی۔
اوس اور خزرج میں اسلام
انہی قبیلوں میں شہر یثرب کے رہنے والے دو مشہور قبیلے بھی تھے جن کے نام اوس اور خزرج تھے۔ یہ قبیلے اس شہر میں مدت سے رہتے تھے اور کاشت کاری کرتے تھے۔ ان کے آس پاس یہودی آباد تھے جو سوداگر اور مہاجن تھے۔ لوگوں کو سود اور پیداوار پر قرض دیتے تھے اور بڑی سختی سے وصول کرتے تھے۔ یہ قبیلے آپس میں لڑتے رہتے تھے اور ان پر یہ سرمایہ دار یہودی گویا ایک طرح کی حکومت کرتے تھے۔ غرض یہ دونوں قبیلے کچھ تو آپس میں لڑ لڑ کر اور کچھ یہودیوں کے پھندے میں پھنس کر تباہ ہو گئے تھے۔
یہود کی آسمانی کتابوں میں ایک پیغمبر کے آنے کی خبر تھی اور یہود کی اکثر محفلوں میں اس کے پیدا ہونے کی گفتگو رہا کرتی تھی۔ یہ آواز اوس اور خزرج کے کانوں میں بھی پڑا کرتی تھی۔ نبوت کے دسویں سال رجب کے مہینے میں ان دونوں قبیلوں کے کچھ لوگ مکہ آئے۔ آپؐ عقبہ کے مقام پر ان سے ملے اور ان کو خدا کا کلام سنایا۔ ان لوگوں نے ایک دوسرے کو دیکھ کر کہا، یہ تو وہی پیغمبر معلوم ہوتا ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہود ہم سے بازی لے جائیں۔ یہ کہہ کر سب نے ایک ساتھ اسلام قبول کیا۔ یہ چھ آدمی تھے۔
دوسرے سال یثرب سے بارہ آدمی آ کر مسلمان ہوئے۔ انہوں نے خواہش کی کہ ہمارے ساتھ کوئی ایسا آدمی بھیجا جائے جو ہم کو اسلام کی باتیں سکھائے اور ہمارے شہر میں جا کر وعظ کہے۔ آپؐ نے اس کام کے لیے حضرت مصعبؓ بن عمیر کو چنا۔ یہ عبد مناف کے پوتے اور پرانے مسلمانوں میں سے تھے۔ یہ ان لوگوں کے ساتھ یثرب آئے اور یہاں آکر لوگوں کے گھروں میں پھر پھر کر اسلام کا وعظ کہنا شروع کیا۔ اس وعظ کے اثر سے لوگ مسلمان ہونے لگے اور ایک سال کے اندر اندر اس شہر کے اکثر گھرانے مسلمان ہو گئے۔
عقبہ کی بیعت
اگلے سال جب حج کا زمانہ آیا تو یثرب سے ۷۲ آدمی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملنے آئے اور چھپ کر آپؐ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ اس وقت آپؐ کے ساتھ آپؐ کے چچا حضرت عباسؓ بھی تھے جو گو ابھی تک مسلمان نہیں ہوئے تھے مگر آپؐ سے بہت محبت کرتے تھے۔ انہوں نے لوگوں سے کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے خاندان میں بڑی عزت رکھتے ہیں۔ دشمنوں کے مقابلے میں ہم ہمیشہ ان کا ساتھ دیتے رہے۔ اب یہ تمہارے پاس جانا چاہتے ہیں۔ اگر تم مرتے دم تک ان کا ساتھ دے سکو تو بہتر ورنہ ابھی سے جواب دے دو۔ یثرب کے ایک سردار براء نے کہا ’’ہم لوگ تلواروں کی گود میں پلے ہیں‘‘ وہ اسی قدر کہنے پائے تھے کہ ایک دوسرے سردار ابو الہیثم نے کہا ’’یا رسولؐ اللہ! ہمارے یہودیوں سے تعلقات ہیں، بیعت کے بعد یہ تعلقات ٹوٹ جائیں گے، ایسا نہ ہو کہ جب اسلام کو قوت حاصل ہو جائے تو آپؐ ہم کو چھوڑ کر چلے جائیں۔ آپؐ نے مسکرا کر فرمایا ’’تمہارا خون میرا خون ہے، تم میرے ہو اور میں تمہارا ہوں‘‘۔
اس کے بعد آپؐ نے ان میں سے بارہ نقیب (سردار) چنے، ان کے نام خود انہی لوگوں نے چن کر بتائے تھے۔ ان بارہ میں سے نو خزرج کے اور تین اوس کے تھے۔

ہجرت

مدینہ اور انصارؓ
یثرب میں مسلمانوں کو امن کی جگہ مل گئی۔ اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکے کے مسلمانوں کو اجازت دی کہ وہ اپنا دیس چھوڑ کر شہر یثرب کو چلے جائیں۔ مسلمانوں نے آہستہ آہستہ اب یثرب کو ہجرت کرنی شروع کی۔ آخر میں خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی مکہ کو چھوڑ کر ہجرت کرنی چاہی، قریش کے لوگوں کو بھی اس کی خبر مل چکی تھی، انہوں نے آپس میں مل کر یہ طے کیا کہ رات کر ہر قبیلے کا ایک ایک آدمی جمع ہو اور سب مل کر ایک ساتھ محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سوتے ہوئے قتل کر دیں۔ خدا نے آپؐ کو ان کے اس مشورے کی خبر کر دی۔
مکے والوں کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مذہب سے گو سخت مخالفت تھی مگر پھر بھی سب کو آپؐ کی دیانت اور امانت پر بڑا بھروسا تھا۔ چنانچہ بہت سے لوگوں کی امانتیں آپؐ کے پاس تھیں۔ آپؐ نے یہ امانتیں حضرت علی مرتضیٰؓ کے سپرد کیں اور فرمایا کہ آج رات تم میرے بستر پر آرام کرنا اور صبح لوگوں کو ان کی یہ امانتیں دے کر تم بھی چلے آنا۔ اس حکم کے مطابق حضرت علیؓ نے رات کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بستر پر آرام کیا۔ قریش کے لوگ صبح تک گھر کو گھیرے کھڑے رہے۔ صبح سویرے یہ دیکھ کر حیران ہو گئے کہ حضرت محمدؐ کے بستر پر محمدؐ کی بجائے حضرت علی بن ابی طالبؓ ہیں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت ابو بکرؓ میں ہجرت کا مشورہ پہلے سے ہو چکا تھا۔ دونوں اپنے گھروں سے نکل کر مکے کے پاس ہی ثور نام کے ایک پہاڑ کے غار میں چھپ گئے۔ صبح کو کافروں نے آپؐ کی کھوج شروع کی اور ڈھونڈتے ڈھونڈتے اس غار کے منہ تک آ گئے۔ حضرت ابو بکرؓ گھبرا کر بولے ’’یا رسولؐ اللہ دشمن اتنے قریب آ گئے ہیں کہ اگر وہ اپنے پاؤں کی طرف دیکھیں تو ہم کو دیکھ لیں گے‘‘۔ لیکن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اطمینان کا وہی حال تھا ، فرمایا ’’گھبراؤ نہیں خدا ہمارے ساتھ ہے‘‘۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت ابو بکرؓ تین دن تک اسی غار میں رہے۔ حضرت ابو بکرؓ کے بیٹے عبد اللہ رات کو آ کر مکے والوں کے حالات اور مشوروں کی خبر دیا کرتے تھے۔ کچھ رات گئے حضرت ابو بکرؓ کا غلام چپکے سے یہاں بکریاں لے آتا۔ آپؐ اور حضرت ابو بکرؓ ان کا دودھ پی لیتے۔
چوتھے دن آپؐ اور حضرت ابو بکرؓ غار سے نکلے۔ ایک رات اور دن برابر یوں ہی چلتے رہے۔ دوسرے دن دوپہر کو ایک چٹان کے نیچے سایے میں دم لیا۔ ایک چرواہا بکریاں چرا رہا تھا۔ حضرت ابو بکرؓ اس سے دودھ لے کر آپؐ کے پاس آئے، آپؐ نے پی لیا اور پھر آگے بڑھے۔ قریش نے اشتہار دیا تھا کہ جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یا حضرت ابو بکرؓؓ کو گرفتار کر لائے گا اس کو سو اونٹ انعام میں دئیے جائیں گے۔ سراقہ بن جعشم نے جو مکہ کا ایک خوبصورت سپاہی تھا، یہ اشتہار سنا تو انعام کے لالچ میں ہتھیار سجا کر گھوڑے پر سوار نکلا اور ٹھیک اس وقت اس چٹان کے پاس پہنچا، جب آپؐ وہاں سے روانہ ہو رہے تھے۔ اس نے آپؐ کو دیکھ لیا اور چاہا کہ گھوڑا دوڑا کر نزدیک پہنچ جائے لیکن گھوڑے نے ٹھوکر کھائی اور وہ گر پڑا۔ ترکش سے تیر نکال کر عرب کے دستور کے مطابق فال نکالی جواب ’’نہیں‘‘ میں آیا مگر وہ نہ مانا۔ دوبارہ گھوڑا دوڑایا، اب گھوڑے کے پاؤں گھٹنوں تک زمین میں دھنس گئے۔ تب وہ ڈرا اور سمجھا کہ یہ ماجرا کچھ اور ہے۔ حضرت محمدؐ سے عرض کی ’’اے خدا کے رسول امن بخشا جائے‘‘ حضورؐ نے اس کی درخواست قبول فرمائی۔
مدینہ
مدینہ عربی میں شہر کو کہتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یثرب تشریف لے آنے کے بعد یثرب کا نام ’’مدینۃ النبی‘‘ یعنی نبی کا شہر مشہور ہوا اور اس وقت سے اس کا نام مدینہ ہو گیا۔
مدینہ کے لوگوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کی خبر ہو چکی تھی اور سب پر انتظار کا عالم تھا۔ بچے خوشی اور جوش میں گلی کوچوں میں کہتے پھرتے تھے کہ ’’ہمارے پیغمبرؐ‘‘ آ رہے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی لڑکیاں چھتوں پر چڑھ کر آپؐ کے آنے کی خوشی میں گیت گاتی تھیں۔ نوجوان ہتھیار سجا سجا کر شہر سے باہر نکل جاتے تھے اور پہروں آپؐ کی آمد کا انتظار کرتے تھے۔ ایک دن وہ انتظار کر کے واپس پھرے ہی تھے کہ ایک یہودی نے ایک مختصر سا قافلہ آتے دیکھ کر پکارا: اے لوگو! تم جس کا انتظار کرتے تھے، وہ آ گیا۔ اس آواز کو سنتے ہی پورا شہر تکبیر کے نعرے سے گونج اٹھا اور مسلمان ہتھیار لگا کر باہر نکل آئے۔ یہ ربیع الاول کی آٹھویں تاریخ اور نبوت کا تیرہواں سال تھا۔
پہلی مسجد
مدینہ سے تین میل باہر کچھ اونچائی پر پہلے سے ایک چھوٹی سی آبادی تھی جس کو عالیہ اور قباء کہتے ہیں۔ یہاں مسلمانوں کے کئی معزز گھرانے رہتے تھے۔ کلثوم ابن ہدم ان کے سر دار تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے مہمان ہوئے اور چودہ دن ان کے مہمان رہے۔ حضرت علی المرتضیٰؓ بھی پہنچ چکے تھے اور وہ بھی یہیں ٹھہرے تھے۔ یہاں کے قیام کے زمانے میں حضورؐ نے خود اپنے ہاتھ سے ایک چھوٹی سی مسجد کی بنیاد ڈالی جس کا نام ’’قبا کی مسجد‘‘ ہے۔
پہلاجمعہ
چودہ دن کے بعد آپؐ نے شہر مدینہ کا رخ کیا۔ یہ جمعے کا دن تھا۔ راہ میں بنی سالم کے محلے میں نماز کا وقت آ گیا۔ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امامت میں جمعے کی پہلی نماز تھی۔ نماز سے پہلے خطبہ پڑھا۔ یہ خطبہ ایسا تھا کہ جس نے سنا، اثر میں ڈوب گیا۔
مدینہ میں داخلہ
نماز کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آگے بڑھے، آپؐ کے ننھیالی رشتے دار بنو نجار ہتھیار لگا کر آپؐ کو لینے آئے۔ قباء سے شہر مدینہ تک ہر قبیلے کے معزز لوگ دو رویہ کھڑے تھے۔ آپؐ جس قبیلے کے آگے سے گزرتے وہ عرض کرتا کہ’’ اے خدا کے رسولؐ! یہ گھر، یہ مال، یہ جان حاضر ہے۔‘‘ آپؐ شکریہ ادا کرتے اور دعاءِ خیر دیتے۔ شہر قریب آیا تو مسلمانوں کے جوش کا یہ عالم تھا کہ عورتیں چھتوں پر نکل آئیں اور گانے لگیں۔
طلع البدر علینا من ثنیات الوداع
چودھویں کا چاند ہمارے سامنے نکل آیا وداع کی گھاٹیوں سے
وجب الشکر علینا ما دعا للہ داع
ہم پر خدا کا شکر واجب ہے جب تک دعا مانگنے والے دعا مانگیں
بنو نجار کی لڑکیاں جن کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ننھیالی رشتے دار ہونے کا شرف حاصل تھا، خوشی میں دف بجا بجا کر یہ شعر گاتی تھیں
نحن جوار من بنی النجار یا حبذا محمد من جار
ہم نجار کے خاندان کی لڑکیاں ہیں اے واہ محمدؐ ہماری پاس بسیں گے
جہاں اب مسجد نبوی ہے یہاں حضرت ابو ایوبؓ انصاری کا گھر تھا جو بنو نجار کے خاندان سے تھے۔ آپؐ اونٹنی پر سوار تھے، ہر شخص چاہتا تھا کہ اس کو آپؐ کے مہمان بنانے کی عزت حاصل ہو اور اس لیے وہ اونٹنی کو اپنے گھر کے پاس روکنا چاہتا تھا۔ آپؐ نے فرمایا’’اس کو چھوڑ دو، جہاں خدا کا حکم ہو گا وہیں جا کر یہ ٹھہرے گی‘‘۔ وہ جب حضرت ابو ایوبؓ کے گھر کے پاس پہنچی تو بیٹھ گئی۔ حضرت ابو ایوبؓ کی خوشی کا کیا کہنا، نہال ہو گئے۔ حضور اکرمؐ کو اپنے یہاں مہمان اتارا اور ہر طرح کے آرام و آسائش کا سامان بہم پہنچایا۔حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سات مہینے تک انہی کے گھر رہے۔
’’انصار‘‘ عربی کا لفظ ہے، ناصر کی جمع ہے۔ اس کے معنی مددگار کے ہیں۔ مدینہ کے مسلمانوں نے اسلام کی اور مکہ کے پریشان مسلمانوں کی جس طرح خدمت اور خاطر مدارت کی اس کا لحاظ کر کے اللہ تعالیٰ نے مدینہ کے مسلمانوں کا نام انصار یعنی مددگار رکھا اور اس وقت سے وہ انصار کہلانے لگے جو اپنے اپنے گھر چھوڑ کر مدینہ آ گئے تھے ان کو مہاجر (گھر چھوڑنے والا) کا خطاب ملا۔
مسجد نبویؐ اور حجروں کی تعمیر
مدینہ میں مسلمانوں کو سب سے پہلے خدا کا گھر یعنی مسجد بنانا تھا۔ آپؐ جہاں ٹھہرے تھے، اس سے ملی ہوئی نجار کے قبیلہ کے دو یتیم بچوں کی ایک زمین تھی۔ آپؐ نے اس کو مسجد کے لیے پسند کیا۔ دونوں یتیموں نے اپنی طرف سے یہ زمین مفت دینی چاہی مگر آپؐ نے یہ پسند نہ کیا۔ ایک انصاری نے قیمت ادا کر دی۔ زمین برابر کر کے مسجد بننی شروع ہوئی۔ اس مسجد کے بنانے والے معمار اور مزدور کون تھے؟ خود آپؐ اور آپؐ کے وفادار ساتھی سب نے مل کر ایک کچی سی دیوار اٹھا کر اوپر کھجور کے تنے اور پتوں کی چھت بنائی۔ یہی پہلی مسجد نبویؐ تھی۔ مسجد کے قریب ہی اپنے لیے اسی قسم کی چند کوٹھڑیاں بنوائیں جن کو حجرہ کہتے ہیں۔ جن میں آپؐ اور آپؐ کے گھر کے لوگ (اہل بیت) رہنے لگے۔ آپؐ کی صاحبزادی حضرت فاطمہ الزھراؓ اور آپؐ بیویاں، حضرت عائشہؓ اور حضرت سودہؓ مکہ سے آ کر یہیں رہیں۔
صفہ والے (اصحابؓ صفہ)
صفہ عربی میں چبوترہ کو کہتے ہیں۔ مسجد نبویؐ کے صحن میں ایک چبوترہ بنایا گیا تھا۔ یہ ان مسلمانوں کا ٹھکانہ تھا، جن کا کہیں ٹھکانہ نہ تھا۔ وہ دن کو جنگل سے لکڑیاں لا کر بیچتے تھے اور ان سے گزر کرتے تھے اور رات کو ایک استاد سے لکھنا پڑھنا اور دین کی باتیں سیکھتے تھے۔ یہ حضور اکرمؐ کے پاس اکثر رہتے تھے اور آپؐ کے ارشادات کو سن کر یاد رکھتے۔ کہیں کسی داعی یا مبلغ یعنی اسلام پھیلانے اور سکھانے والے کی ضرورت ہوتی تو انہی میں سے بھیجے جاتے۔
نماز کی تکمیل اور قبلہ
مکہ میں چونکہ امن و امان نہ تھا۔ نہ کھلے بندوں نماز پڑھنے کی اجازت تھی۔ اس لیے فرض نماز دو ہی رکعتیں تھیں۔ مدینہ آ کر جب مسلمانوں نے اطمینان کا سانس لیا اور مذہب کی آزادی ملی تو ظہر، عصر، عشاء کی چار چار رکعتیں پوری کی گئیں۔ مغرب کی تین اور صبح کی دو کیونکہ صبح کے وقت لمبی قرات یعنی رکعتوں کے بدلے زیادہ قرآن پڑھنے کا حکم تھا۔
جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کے لیے ضرورت اس بات کی تھی کہ مسلمانوں کو مقررہ وقت پر بلانے کے لیے کوئی نشانی مقرر کی جائے۔ ہندوؤں میں اس کے لیے سنکھ، عیسائیوں میں گھنٹا اور یہودیوں میں قرناء کا رواج تھا۔ اسلام میں کھیل تماشے کی ان بے معنی آوازوں کی بجائے انسان کی فطری آواز کو پسند کیا گیا کہ کوئی کھڑا ہو کر اللہ اکبر اللہ اکبر، اشہدان لا الہ الا اللہ اور اشھد ان محمدالرسول اللہ (اللہ سب سے بڑا ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدؐ خدا کے رسول ؐ ہیں) پکارے اور سارے مسلمان اس آواز کو سن کر جوق در جوق مسجد کا رخ کریں۔
جمعے کی نماز بھی مکہ میں نہیں ہو سکتی تھی۔ مدینہ آ کر اس فرض کے ادا کرنے کا موقع ملا۔ چنانچہ سب سے پہلے حضرت مصعب بن عمیرؓ جو حضورؐ سے پہلے امام بنا کر مدینہ بھیجے گئے تھے، مدینہ آ کر جمعہ کی نماز ادا کی۔ پھر جب حضورؐ اکرم آئے اور قباء میں چند روز ٹھہر کر مدینہ جانے لگے تو جمعہ کا دن پڑا، آپؐ نے اس جمعے میں خطبہ دیا اور مسلمانوں کو جمعہ کی نماز پڑھائی۔
قبلہ
نماز میں سب کو کسی ایک سمت کی طرف منہ کر کے کھڑا ہونا چاہیے۔ اسی سمت کو قبلہ کہتے ہیں۔ یہود بیت المقدس کی طرف منہ کرتے تھے۔ یہ حضرت داؤد ؑ اور حضرت سلیمان ؑ کی بنوائی ہوئی مسجد تھی اور عرب والوں کا قبلہ کعبہ تھا جو حضرت ابراہیم ؑ کی مسجد تھی۔ حضورؐ جب تک مکے میں رہے، کعبے کے سامنے اس طرح کھڑے ہوتے تھے کہ بیت المقدس بھی سامنے پڑ جاتا تھا۔ مدینہ آئے تو صورت بدل گئی۔ مدینے کے ایک طرف کعبہ تھا تو دوسری طرف بیت المقدس۔ اس لیے ان دو میں سے ایک ہی قبلہ بن سکتا تھا۔ پہلے تو آپؐ یہودیوں کی پیروی میں حضرت داؤد ؑ کی تعمیر کردہ مسجد بیت المقدس ہی کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے رہے۔ مگر سولہ مہینے کے بعد خدا کا حکم آیا کہ حضرت ابراہیم ؑ کی مسجد یعنی کعبہ کی طرف منہ کرو، کیونکہ وہی خدا کا سب سے پہلا گھر ہے۔ اس وقت سے کعبہ مسلمانوں کا قبلہ قرار پایا۔
بھائی چارہ
مسلمان یوں بھی ہر گھرانے سے ایک ایک دو دو کر کے مسلمان ہوئے تھے اور پھر ان کو اپنا گھر بار اور مال و دولت سب کچھ چھوڑ کر پردیس نکلنا پڑا۔ مدینہ آئے تو یہ مسلمان بالکل پریشان اور تباہ حال تھے۔ حضور اکرمؐ نے یہ کیا کہ ایک بے گھر مسلمان کو ایک ایک انصار کا بھائی بنا دیا۔ پھر یہ ایسے بھائی بنے جو خون کے رشتے سے بڑھ کر ہوئے۔ ہر ایک نے اپنے بھائی کو اپنے گھر یا اپنی زمین میں جگہ دی۔ اپنے مال و دولت میں سے حصہ دیا، اپنے کھیت بانٹ دئیے، اپنے کاروبار اور بیوپار میں بھی شریک کیا۔
یہودیوں کا قول و قرار
حضور انور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مدینہ آنے سے پہلے مدینے کے دونوں قبیلے اوس اور خزرج لڑ لڑ کر تھک چلے تھے اور چاہا تھا کہ اپنے میں سے ایک رئیس کو جس کا نام عبد اللہ بن ابی بن سلول تھا، اپنا بادشاہ بنا لیں۔ مدینے میں ایک دوسرا گروہ یہودیوں کا آباد تھا۔ یہ حجاز کے سوداگر اور مہاجن تھے اور یہاں سے لے کر شام کی سرحد تک ان کی تجارتی کوٹھیاں اور گڑھیاں تھیں اور اپنے روپے کے زور سے مدینے کے حاکم بنے بیٹھے تھے۔ اپنی مصلحت کے لحاظ سے وہ کبھی اوس کا ساتھ دیتے تھے اور کبھی خزرج کا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب مدینہ آئے تو شروع شروع میں انہوں نے شاید یہ سمجھ کرکہ یہ ایسا مذہب لے کر آئے ہیں جو ہمارے مذہب کے قریب قریب ہے، آپؐ کی مخالفت نہیں کی۔ آپؐ نے شہر کی بے اطمینانی اور بد امنی کی حالت کو دیکھ کر یہ مناسب سمجھا کہ مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان ایک ایسا سمجھوتہ ہو جائے کہ دونوں فریق اس میں آزادی سے رہ سکیں۔ ہر ایک کا مذہبی حق محفوظ ہو اور شہر کے سارے رہنے والے، خواہ وہ مسلمان ہوں یا یہودی۔ باہر سے حملہ کرنے والوں کے مقابلے میں ایک ہوں۔ چنانچہ آپؐ نے یہودیوں سے بات چیت کر کے اس قسم کے ایک معاہدے پر ان کو رضا مند کر لیا اور انہوں نے اس کا پکا وعدہ کیا۔ لیکن کچھ ہی دنوں کے بعد ان کو نظر آیا کہ اسلام کی طاقت شہر میں روز بروز بڑھتی جاتی ہے۔ ان کا پہلا زور ٹوٹ رہا ہے۔ یہ دیکھ کر وہ دل میں جلنے لگے۔
عبد اللہ بن اُبی کا خیال تھا کہ اگر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ نہ آتے تو مدینے کی بادشاہی اسی کو ملتی۔ اس لیے گو وہ اور اس کے ساتھی منہ پر مسلمانوں کے خلاف کچھ نہیں بول سکتے تھے مگر دل میں وہ بھی مسلمانوں کے مخالف اور یہودیوں کے شریک تھے، انہی کو منافق کہتے ہیں۔
مکہ والوں کی شرارتیں اور سازشیں
جو مسلمان مکہ چھوڑ کر مدینہ چلے آئے تھے۔ مکے والوں نے ان کے گھروں اور جائیدادوں پر قبضہ کر لیا اور سب سے بڑی بات یہ کی کہ خانہ کعبہ میں آنا اور حج کرنا ان کے لیے بند کر دیا۔ کوئی جاتا تو چھپ کر اور سر کو ہتھیلی پر رکھ کر جاتا اور جو غریب مسلمان یا چھوٹے بچے یا عورتیں مدینے نہیں آ سکتی تھیں، ان پر پہرہ بٹھا دیا کہ وہ جانے نہ پائیں۔
اتنے ہی پر انہوں نے بس نہیں کی بلکہ یہ دیکھ کر ان کے مجرم یعنی مسلمان ان کی گرفت سے آزاد ہو کر مدینے میں زور پکڑ رہے ہیں۔ انہوں نے یہودیوں اور مدینے کے منافقوں سے سلام و پیام شروع کر دیا اور ان کو کہلا بھیجا کہ تم نے ہمارے مجرموں کو اپنے گھروں میں رکھا ہے، بہتر یہ ہے کہ تم ان کو نکال دو، ورنہ ہم تمہارے شہر پر حملہ کریں گے۔
مسلمانوں کے تین دشمن
مکے میں مسلمانوں کا ایک ہی دشمن تھا یعنی مکے کے کافر۔ مدینے آ کر ان کے تین دشمن ہو گئے: مکے کے کافر، مدینے کے منافق اور حجاز کے یہود۔ مکہ کے کافر تلوار کے دھنی تھے اس لیے وہ تلوار سے فیصلہ چاہتے تھے۔ مدینے کے منافق اپنی چالوں اور سازشوں سے نقصان پہنچاتے رہتے تھے اور حجاز کے یہود جو عرب کے سرمایہ والے تھے، پورے حجاز میں اپنی دولت اور سرمائے کے زور سے اودھم مچائے ہوئے تھے۔ عرب کی ساری دولت ان کے قبضے میں تھی۔ عرب مزدوروں کی کاشت اور کھیتی کی پیداوار کے مالک بنے بیٹھے تھے۔ ملک کا سارا بیوپار اور کاروبار ان کے ہاتھوں میں تھا اور وہ اپنے سود در سود اور دوسرے مہاجنی ہتھ کنڈوں سے عرب کے بے تاج بادشاہ اور ملک کی بھلائی کی کوشش کے مخالف تھے۔
منافقوں سے برتاؤ
منافق چونکہ زبان سے مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے تھے اس لیے اعلانیہ مخالفت نہیں کی گئی اور نہ سزا دے کر ان کو اور زیادہ دشمن بنایا گیا۔ بلکہ آپؐ نے ہمیشہ ان کے ساتھ نیکی کا برتاؤ کیا۔ ان کے قصوروں پر طرح دیتے تھے اور پوچھ گچھ نہیں کرتے تھے۔ مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کے نیک برتاؤ اور شریفانہ سلوک سے وہ آخر کار متاثر ہو کر پکے مسلمان ہو جائیں۔ ایک آدھ دفعہ کسی صحابی نے آپؐ کی خدمت میں یہ عرض بھی کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے اجازت ہو تو بعض منافقوں کی گردنیں اڑا دوں۔ فرمایا نہیں، کیا تم لوگوں کو یہ کہنے کا موقع دینا چاہتے ہو کہ محمدؐ اپنے آدمیوں کو آپؐ مروا دیتے ہیں۔ فرمایا جس نے زبان سے لا الہ الا اللہ اور محمد رسول اللہ پڑھ لیا اس کا شمار مسلمانوں میں ہے اور اس کے اندر کا معاملہ خدا کے سپرد ہے۔
منافقوں کا سردار عبد اللہ بن ابی جب مرا تو آپؐ نے اس کے نیک دل مسلمان بیٹے کی درخواست پر اپنے بدن کا مبارک کرتا اس کو پہنایا۔ یہیں تک نہیں بلکہ بعض مسلمانوں کے کہنے سننے کو بھی نہیں مانا اور اس کے جنازے کی نماز بھی پڑھائی۔
انہی دنوں میں ایک دفعہ آپؐ بنو حارث کے محلے سے گدھے پر سوار گزر رہے تھے۔ راہ میں ایک جگہ کچھ مسلمان، کچھ یہود اور کچھ منافق بیٹھے تھے جن میں ان کا سردار عبد اللہ ابی بھی تھا۔ گدھے کے چلنے سے کچھ گرد اڑی تو عبد اللہ ابی نے حقارت سے کہا کہ گرد نہ اڑاؤ۔ آپؐ نے کچھ خیال نہ کیا اور مجمع کو سلام کیا اور ان کو اللہ کے کچھ احکام سنائے۔ اس پر عبد اللہ ابی نے پھر کہا ’’اے صاحب مجھے یہ پسند نہیں، اگر تمہاری بات سچ بھی ہو تو ہماری مجلس میں آ کر ہم کو سنایا نہ کرو۔ جو تمہارے پاس جائے اسی کو سنایا کرو‘‘۔ مسلمانوں کو اس کے برتاؤ سے بڑا غصہ آیا مگر آپؐ نے ان کو سمجھا بجھا کر ٹھنڈا کیا اور آگے بڑھ گئے۔
لیکن پھر بھی چونکہ وہ گھر کے بھیدی تھے، اس لیے مسلمانوں کو ان سے چوکنا رہنے کی تاکید کی گئی۔ ان سے راز کی بات چھپائی گئی اور مسلمانوں کو ان پر بھروسا رکھنے سے باز رکھا اور ان کی دوستی سے روکا گیا ۔۔۔ یہ گروہ اسلام کے غلبے کے بعد آپ سے آپ فنا ہو گیا۔
مکے کے کافروں کی روک تھام
مکے کے کافر تلوار کے دھنی تھے، اس لیے ان کی روک تھام کے لیے دوڑ دھوپ کی ضرورت ہوئی۔ مکے والوں نے کمزور مسلمانوں کو مدینے آنے سے روک کرگویا ان کو اپنی قید میں لے لیاتھا۔ باہر سے مسلمانوں کو مکے نہیں آنے دیتے تھے۔ حد یہ ہے کہ کعبے کا طواف اور حج جو سارے عرب کے لیے کھلا ہوا تھا،مسلمانوں کے لیے وہ بھی بند تھا۔آپ ﷺ نے مکے والوں کو ان کے اس برتاؤ کے بدلنے پر مجبور کرنے کے لیے یہ کیا کہ ان کے بیوپاریوں کو جو شام آتے جاتے تھے، دو دو چار چار اور کبھی کبھی دس بارہ مسلمانوں کو بھیج کر ڈرانے لگے تا کہ وہ اپنے بیوپار کی خاطر مسلمانوں سے صلح کر لیں اور مسلمانوں پر اپنی پابندیاں اٹھا لیں مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا اور برابر اپنی ضد پر قائم رہے اور مسلمان بھی ان کے بیوپار کے راستے کو روکنے کے لیے اڑے رہے۔ مدینہ، شام اور حجاز کے بیچ میں پڑتا تھا۔ اس لیے مکہ والے اپنا راستہ بھی نہیں بدل سکتے تھے۔
اسی کے ساتھ آپؐنے یہ کیا کہ مدینے کے آس پاس میں جو عرب قبیلے ایسے تھے جن کے بگڑ جانے یا مکہ والوں کا ساتھ دینے سے مدینے کا امن و امان خاک میں مل جاتا۔ ان کے پاس جا جا کر ان سے صلح کا معاہدہ کرنے لگے۔ اس طرح پہلے جہینہ کے قبیلے سے پھر بنو ضمرہ سے صلح اور دوستی کے معاہدے ہوئے۔
مکے کے کافر یہ دیکھ کر اور جلنے لگے اور سمجھے کہ اس سے ’’محمدؐ‘‘ کا زور اور بڑھے گا جس کا توڑ ضروری ہے۔ چنانچہ مکہ کے ایک رئیس کرزبن جعفر فہری نے مدینے کی چراگاہ پر چھاپہ مارا اور آپؐ کے اونٹ لوٹ لے گیا۔ مسلمانوں نے پیچھا کیا مگر وہ بچ کر نکل گیا۔
اس واقعہ کے تیسرے مہینے آپؐ دو سو مہاجروں کو لے کر بنی مدلج کے قبیلے میں پہنچے اور اس سے بھی دوستی کا معاہدہ کر لیا۔
کچھ دنوں کے بعد یہ ہوا کہ رجب سن ۲ ھ میں آپؐ نے بارہ آدمیوں کو نخلہ کی وادی میں بھیجا اور ان کو ایک بند خط دے کر فرمایا کہ اس کو دو دن کے بعد کھولنا، دو دن کے بعد خط کھولا تو اس میں لکھا تھا کہ ’’نخلہ میں ٹھہر کر قریش کے ارادوں کا پتہ لگاؤ اور خبر دو‘‘ اتفاق یہ کہ مکہ کے کچھ لوگ جو شام سے تجارت کا مال لے کر آ رہے تھے، سامنے سے گزرے۔ مسلمانوں کے اس دستے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اجازت کے بغیر ان پر حملہ کر دیا۔ ان میں سے ایک شخص عمرو بن حضرمی مارا گیا، دو پکڑ لیے گئے اور قافلے کا مال لوٹ لیا گیا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو جب اس کی خبر ملی تو ناراضی کا اظہار فرمایا اور فرمایا کہ میں نے تم سے یہ تو نہیں کہا تھا، تم نے تو لڑائی کی آگ لگا دی اور اسی کے ساتھ عرب کے قاعدے کے مطابق اس دستے نے جو مال لوٹا تھا، وہ بھی اس کو لوٹایا گیا۔ مکے کا جو آدمی مارا گیا تھا وہ قریش کے ایک بڑے سردار کا ساتھی تھا اور جو آدمی پکڑے گئے تھے وہ بھی قریش کے ایک دوسرے سردار کے پوتے تھے۔ اس واقعے نے مکے والوں میں بدلہ لینے کا نیا جوش پیدا کر دیا۔
بدر کی لڑائی
بدلہ لینے کے لیے ایک بڑی لڑائی ضروری تھی اور لڑائی کے لیے سرمایہ بھی ضروری تھا۔ مکے والوں نے اپنا سارا سرمایہ دے کر ایک تجارتی قافلہ شام کو بھیجا۔ پہلے واقعے کے دو ڈھائی مہینوں کے بعد رمضان سن ۲ ھ میں یہ قافلہ لوٹ رہا تھا کہ مکے والوں کو خبر پہنچی کہ مسلمان اس پر چھاپہ مارنا چاہتے ہیں۔ یہ خبر پاتے ہی قریش کے بڑے بڑے سردار ایک ہزار سپاہیوں کو لے کر مکے سے نکلے۔ ادھر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اس کی خبر ملی تو آپؐ بھی کچھ مسلمانوں کے ساتھ مدینے سے چل پڑے۔ قافلہ تو بچ کر مکے پہنچ چکا تھا۔ مکے والوں نے کہا کہ ہم بدر پہنچ کر خوشی منائیں گے اور ناچ رنگ اور شراب و کباب کے جلسے کریں گے، بدر ایک گاؤں کا نام تھا جہاں سال کے سال یوں بھی میلہ لگتا تھا۔
مدینہ سے ایک میل نکل کر آپؐ نے پڑاؤ کیا۔ بچوں کو واپس کیا۔ مدینے میں منافقوں اور یہودیوں کا ڈر تھا اس لیے حضرت ابو لبابہؓ صحابی کو مدینے کا حاکم بنا کر مدینہ لوٹا دیا اور دو آدمیوں کو آگے بھیجا کہ قریش کا پتہ لگائیں۔ جب بدر کے قریب پہنچے تو خبر پہنچانے والوں نے خبر دی کہ قریش وادی کے دوسرے سرے تک آ گئے ہیں، یہ سن کر آپؐ یہیں رک گئے۔
رات بھر دونوں لشکر آمنے سامنے پڑے رہے۔ مسلمانوں نے بھی کمر کھول کر آرام کیا مگر خدا کا رسولؐ رات بھر کھڑا نماز اور دعاء میں لگا رہا۔ صبح ہونے کو آئی تو مسلمانوں کو نماز کے لیے آواز دی۔ نماز کے بعد جہاد کا وعظ فرمایا ۔۔۔ یہ مسلمانوں کا پہلا لشکر تھا اور کافروں سے ان کی یہ پہلی لڑائی تھی۔
ایک نیک دل قریشی نے چاہا کہ یہ لڑائی ٹل جائے اور ابن حضرمی کا خون اس کے وارث کو دے دیا جائے، عتبہ قریش کا سردار اور حضرمی کا حلیف اس کے لیے تیار تھا مگر ابو جہل نے اس تجویز کو کامیاب نہ ہونے دیا۔ صبح ہوئی تو دونوں فوجیں میدان میں آ کھڑی ہوئیں۔ ایک طرف ایک ہزار کا دَل بادل تھا جو لوہے میں غرق تھا اور دوسری طرف تین سو تیرہ مسلمان تھے جن کے پاس ہتھیار بھی نہ تھے لیکن حق کا زور ان کے بازوؤں میں تھا اور دین کا جوش ان کے سینوں میں امنڈ رہا تھا۔ اللہ کے رسول لڑائی کے میدان سے ذرا ہٹ کر ایک چھپر کے سائے میں اللہ کے حضور سر جھکائے فتح کی دعا مانگ رہے تھے اور عرض کر رہے تھے کہ خداوند! اگر آج یہ تیرے مٹھی بھر پوجنے والے مٹ گئے تو پھر زمین پر تیری پرستش نہ ہو گی۔
لڑائی اس طرح شروع ہوئی کہ پہلے ابن حضرمی کا بھائی عامر، جس کو اپنے بھائی کے خون کا دعویٰ تھا، آگے بڑھا۔ ایک غلام مسلمان اس کے مقابلے کو نکلا اور وہ مارا گیا اس کے بعد عتبہ جو قریش کے لشکر کا سردار تھا۔ بڑی شان سے نکلا اس کے ساتھ ولید اور شیبہ بھی آگے بڑھے۔ ادھر مسلمانوں کی طرف سے مدینہ کے تین انصاری مقابلے کو نکلے۔ عتبہ نے ان کانام و نسب پوچھا اور جب معلوم ہوا کہ یہ مدینے والے ہیں تو پکارا! ’’محمدؐ! یہ لوگ ہمارے جوڑ کے نہیں‘‘۔ حضورؐ کے فرمانے سے یہ انصاری ہٹ آئے اور اب حضرت حمزہؓ، حضرت علی مرتضیٰؓ اور حضرت عبیدہؓ میدان میں آئے۔
عتبہ، حضرت حمزہؓ کے اور ولید حضرت علیؓ کے مقابل ہوئے اور مارے گئے لیکن شیبہ نے حضرت عبیدہؓ کو زخمی کر دیا۔ یہ دیکھ کر حضرت علیؓ آگے بڑھے اور شیبہ کا کام تمام کر دیا۔ حضر ت زبیرؓ نے سعید ابن العاص کا مقابلہ کیا اور ایسی تان کر برچھی ماری کہ وہ دھم سے زمین پر آ رہا۔
اب عام حملہ شروع ہو گیا۔ مدینے میں ابو جہل کی شرارت اور مسلمانوں سے دشمنی کا چرچا عام تھا۔ انصار کے دو جوان اس کی تاک میں نکلے اور لوگوں سے پتہ پوچھ کر باز کی طرح اس پر ایسے جھپٹے کہ دم کے دم وہ خون میں لتھڑا پڑا تھا۔ ایک دوسرے مسلمان نے جا کر اس کا سر کاٹ لیا۔
عتبہ اور ابو جہل کا مارا جانا تھا کہ قریش ہار کر بھاگنے لگے اور مسلمانوں نے ان کو پکڑنا شروع کیا۔ قریش کے ستر آدمی جو مکے کے بڑے بڑے رئیس تھے، مارے گئے اور اتنے ہی آدمی گرفتار ہوئے اور مسلمانوں میں سے صرف چودہ بہادروں نے شہادت پائی۔
خدا کی عجیب قدرت ہے کہ تین سو تیرہ آدمیوں نے جو ہتھیاروں سے بھی پوری طرح سجے نہ تھے، ایک ہزار فوج کو ہرا دیا۔ یہ سچ اور جھوٹ اور اندھیرے اور اجالے کی لڑائی تھی۔ سچ کی جیت ہوئی اور جھوٹ کی ہار۔ اندھیرا چھٹ گیا اور اجالا چھا گیا۔
دشمنوں سے برتاؤ
بدر کے قیدیوں کے ساتھ مسلمانوں نے بڑا اچھا برتاؤ کیا۔ مسلمان ان کو کھانا کھلاتے تھے اور خود کھجوریں کھا لیتے تھے۔ جن کے پاس کپڑے نہیں تھے، ان کو کپڑے دئیے۔ قیدیوں میں ایک شخص سہیل بن عمرو قید ہو کر آ یا تھا۔ یہ بڑا زور آور مقرر تھا۔ عام مجمعوں میں مسلمانوں کے خلاف تقریریں کرتا اور لوگوں کو ابھارتا تھا۔ بعض صحابیوںؓ نے کہا یا رسول اللہ اس کے دانت اکھڑوا لیجیے کہ پھر اچھی طرح بول نہ سکے۔ آپؐ نے اس رائے کو نا پسند کیا اور فرمایا ’’اگر میں اس کے جسم کا کوئی حصہ بگاڑوں گا تو گو نبی ہوں مگر اللہ اس کے بدلے میں میرے جسم کا بھی کوئی حصہ بگاڑے گا۔ بعض پر جوش صحابی چاہتے تھے کہ ان قیدیوں کو قتل کر دیا جائے مگر آپؐ نے ان کی بات بھی نہیں مانی اور یہ طے کیا کہ ان میں جو امیر ہیں وہ فدیہ دے کر چھوٹ جائیں اور جو غریب ہیں، لیکن لکھنا پڑھنا جانتے ہیں، وہ دس مسلمان بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دیں اور جو یہ بھی نہیں جانتا تھا وہ خدا کی راہ میں آزاد کر دیا گیا۔
بدر کی جیت نے مسلمانوں کی قسمت کا پانسہ پلٹ دیا۔ اب وہ صرف ایک مذہب اور ایک الٰہی نظام کے داعی نہ تھے بلکہ ایک اٹھتی ہوئی سیاسی قوت تھے جن کا مقصد نہ صرف عرب کی چھوٹی چھوٹی سیکڑوں بے نظام ریاستوں کی جگہ ایک مضبوط اور باقاعدہ حکومت کھڑی کرنا بلکہ قیصر و کسریٰ کی ظالمانہ حکومتوں کو مٹا کر دنیا میں عدل و انصاف اور برابری اور مساوات کی سلطنت قائم کرنا تھا۔
قریش کا بڑا زور ٹوٹ گیا۔ مکے کے اکثر رئیس مارے گئے۔ ان کی جگہ اب سب کا رئیس ابو سفیان بنا۔ اس فتح نے منافقوں کے دل بھی دھڑکا دئیے۔ ان کو پتہ چل گیا کہ اب ترازو کا کون سا پلڑا بھاری ہو رہا ہے۔ ادھر یہودی بھی ہوشیار ہو گئے اور ان کو یہ ڈر لگا کہ اب جلد ہی اس نئی طاقت کا سر کچل نہ دیا گیا تو ان کا کہیں ٹھکانا نہیں۔
بدر کا انتقام
بدر کی لڑائی تو ایک حضرمی کے خون کے لیے کھڑی کی گئی تھی۔ اب قریش کو اپنے ستر مقتولوں کے خون کے بدلے کا خیال ہوا۔ بدر میں جو مارے گئے تھے، ان کا ماتم ہو رہا تھا، مرثیے پڑھے جاتے تھے۔ سازشیں کی جاتی تھیں کہ مسلمانوں سے اس کا بدلہ کیونکر لیا جائے۔ ا بو سفیان نے جواب مکے کا رئیس تھا، قسم کھائی تھی کہ جب تک وہ مسلمانوں سے بدلہ نہ لے لے گا، دنیا کا لطف نہیں اٹھائے گا۔ بدر کے تین مہینوں کے بعد اس نے اپنی قسم پوری کی کہ دو سو شتر سواروں کو لے کر مدینہ کے آس پاس گیا اور یہود سرداروں سے بات چیت کی۔ یہود نے اس کو مدینے پر حملے کے بھید بتائے۔ صبح کو واپس ہوتے ہوئے ایک مسلمان کو شہید اور مسلمانوں کے چند مکانوں اور گھاس کے ڈھیر میں آگ لگا دی۔ مسلمانوں کو خبر ہوئی تو وہ دوڑے مگر وہ نکل چکا تھا۔ اس واقعے کو غزوہ سویق (ستو والی لڑائی) کہتے ہیں کیونکہ ابو سفیان کے ساتھیوں کا توشہ اس سفر میں سویق یعنی ستو تھا جس کو وہ گھبراہٹ میں پھینکتے گئے تھے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ادھر سے اطمینان ہوا تو ایک گھریلو کام کے کرنے کا خیال آیا۔ یہ حضرت فاطمہ زہراؓ کے نکاح کی تقریب تھی اور وہ بھی رسم و رواج کی ایک بہت بڑی اصلاح تھی۔
حضرت فاطمہ الزہراؓ کا نکاح (ذی الحجہ ۲ ہجری)
آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اولاد میں یہ سب سے چہیتی اور صاحبزادیوں میں سب سے چھوٹی تھیں۔ آپؐ کو اپنی سب اولادوں میں زیادہ ان سے محبت تھی۔ اور وہ بھی اپنے پیارے باپ پر فدا رہتی تھیں۔ آپؐ کو ذرا سی بھی تکلیف پہنچتی تو وہ بے چین ہو جاتی تھیں۔ اٹھارہ سال کی عمر تھی۔ شادی کے پیغام آنے لگے تھے مگر حضورؐ کے دل میں کچھ اور ہی بات تھی۔ یہ خیال تھا کہ اس کے لیے ایسا ہی جوڑ کا لڑکا بھی ملے۔ یہ حضرت علیؓ تھے جو حضورؐ ہی کے سایے میں پلے تھے، حضرت علیؓ نے اپنی درخواست پیش کی تو وہ گویا پیش ہونے سے پہلے منظور ہو چکی تھی۔ حضرت محمدؐ نے بی بی فاطمہؓ سے دریافت کیا، تو وہ چپ رہیں۔ یہ گویا رضا مندی کا اظہار تھا۔ پھر حضرت علیؓ سے دریافت کیا کہ تمہارے پاس مہر ادا کرنے کو کیا ہے؟ بولے کچھ نہیں؟ فرمایا وہ زرہ کیا ہوئی جو بدر میں ہاتھ آئی تھی۔ عرض کہ وہ تو موجود ہے۔ آپؐ نے فرمایا، وہ کافی ہے۔۔۔ اس کتاب کے پڑھنے والوں کو خیال ہو گا کہ وہ زرہ بڑی قیمتی چیز ہو گی لیکن یہ سن کر ان کو تعجب ہو گا کہ وہ صرف سوا سو روپے کی تھی۔ زرہ کے سوا بدر کے اس بہادر کی جو ملکیت تھی۔ وہ یہ تھی کہ بھیڑ کی ایک کھال اور ایک پرانی یمنی چادر یہی وہ سرمایہ تھا جو دولہا نے دلہن کو نذر کیا۔ ایک صحابیؓ نے اپنا ایک خالی مکان دولہا دلہن کے رہنے کو پیش کیا جس کو آپؐ نے قبول فرمایا۔
بزرگ باپ نے اپنی چہیتی بیٹی کو جو جہیز دیا وہ بان کی ایک چارپائی، چمڑے کا گدا جس میں کھجور کے پتے بھرے تھے۔ ایک چھاگل، ایک مشک ،دو چکیاں اور دو مٹی کے گھڑے تھے۔
دولہا، دلہن جب نئے گھر میں جا بسے تو حضور اکرمؐ دیکھنے تشریف لے گئے۔ پہلے دروازے پر کھڑے ہو کر اجازت مانگی پھر اندر گیے۔ ایک برتن منگوایا جس میں پانی تھا، دونوں ہاتھ اس میں ڈالے اور ہاتھ نکال کر دونوں پر وہ پانی چھڑکا اور بیٹی سے فرمایا! میں نے تمہارا نکاح خاندان کے سب سے بہتر شخص سے کیا ہے۔
اللہ اکبر! کیا سادگی اور بے تکلفی کی تقریب تھی۔ مسلمانوں کی خوشی کی مراسم کے لیے اس سے بہتر کوئی نمونہ ہو سکتا ہے؟ یہ گویا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں کے سامنے اپنی اور اپنی اولاد کی زندگی کی مثال پیش کی ہے۔

رمضان

روزہ
نماز کے بعد اس سال روزے کی دوسری عبادت فرض ہوئی اور اس کے لیے رمضان کا مہینہ چنا گیا کیونکہ یہ وہی پاک مہینہ تھا جس کی ایک رات میں خدا کا پیغام اس خاص بندہ (حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر حرا کی غار میں اترا تھا۔ اس یادگار میں یہ مہینہ عزت اور حرمت کا مہینہ مقرر ہوا اور اس میں اس طرح دن گزارنے کا حکم ہوا جس طرح اس برگزیدہ نبیؐ نے ان دنوں میں گزارے تھے یعنی دن کو کھانے پینے سے پرہیز اور رات کو خدا کی عبادت۔
عید
ہر مذہب نے اپنے لیے تہوار کا کوئی دن اپنی خوشی اور مسرت کے لیے مقرر کیا ہے۔ اسلام میں اس کے لیے رمضان کے روزوں کے بعد شوال کی پہلی کو عید کا دن مقرر کیا۔ اس میں عید کی دو رکعت نماز پڑھنے کو بتایا تا کہ خدا کے سامنے سب کھڑے ہو کر قرآن کی نعمت اور اسلام کی دولت ملنے پر خدا کا شکریہ ادا کریں اور اس لیے تا کہ اس خوشی کے دن کوئی بھائی بھوکا نہ رہے۔ یہ انتظام کیا گیا کہ ہر مقدرت والے پر فطرانہ واجب ہے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں کو ساتھ لے کر ایک میدان میں عید کی نماز ادا کی۔ نماز کے بعد خطبہ دیا، جس میں فطرے کے صدقے کی خوبیاں بیان فرمائیں۔ یہ عید کی نماز مسلمانوں کی معاشرتی مساوات اور مذہبی خوشی کا سالانہ مظہر ہے۔

اُحد کی لڑائی (شوال سن ۳ ہجری)

مکے میں بدر کا بدلہ لینے کی آگ اندر ہی اندر سلگ رہی تھی۔ ابو سفیان نے اس جوش سے فائد اٹھایا۔ قریش کا تجارتی سرمایہ لڑائی کے خرچ کے لیے منظور ہوا۔ عربوں کے بھڑکانے اور جوش دلانے کا سب سے کام کا ہتھیار، شاعری تھی۔ قریش کے دو شاعروں نے اس کام کو اپنے ہاتھوں میں لیا۔ ان میں سے ایک وہی تھا جو بدر میں قید ہو چکا تھا مگر رحمت عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حلم و کرم سے رہا ہو گیا تھا۔ ان دونوں نے قریش کے قبیلوں میں جا جا کر اپنے بیان کی گرمی سے آگ لگا دی۔
قریش کے شریف گھرانوں کی بیبیوں نے بھی سپاہیوں کے دل بڑھانے کا کام کیا۔ بڑے بڑے گھرانوں کی بیبیاں جن کی سردار ابو سفیان کی بی بی ہند تھی، اپنے گانوں سے قریشی سپاہیوں کی رگوں میں شجاعت اور مردانگی کا خون دوڑانے کے لے سفر کو آمادہ ہوئیں۔ ہند کا باپ عتبہ اور جبیر بن مطعم کا چچا دونوں بدر کے میدان میں حضرت حمزہؓ کے ہاتھ سے مارے گئے تھے۔ ہند نے جبیر کے حبشی غلام وحشی کی آزادی کی قیمت حضرت حمزہؓ کا سر مقرر کیا تھا۔ مکے میں یہ تیاریاں ہو رہی تھیں مگر ابھی تک مدینے میں اس کی خبر نہ تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا حضرت عباسؓ نے جو اسلام لا چکے تھے، ایک تیز چلنے والا آدمی بھیج کر مدینے میں خبر کی۔ اتنے میں خبر ملی کہ قریش کی فوج دھاوا کر کے مدینہ کے قریب پہنچ چکی ہے۔ آپؐ نے کچھ مسلمانوں کو پہرے کے کام اور دشمنوں کی نقل و حرکت پر مقرر کیا۔ صبح ہوئی تو مشورہ طلب کیا ۔ اکثروں نے یہ رائے دی کہ عورتوں کو باہر قلعے میں بھیج دیا جائے اور مرد آبادی میں ٹھہر کر دیواروں کی آڑ لے دشمنوں کا سامنا کریں۔ منافقوں کے سردار عبد اللہ بن ابی بن سلول نے بھی یہی رائے دی لیکن نوجوان مسلمانوں نے جو جوش میں بپھرے ہوئے تھے، اس پر اصرار کیا کہ شہر سے نکل کر میدان میں مقابلہ کیا جائے۔ اس قرار داد کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر تشریف لے گئے اور زرہ پہن کر باہر تشریف لائے اور دوسرے مسلمانوں نے بھی تیاری شروع کر دی۔
قریش نے مدینے کے پاس پہنچ کر احد پہاڑ کے پاس پڑاؤ ڈالا اور دو دن یہاں جمے رہے۔ تیسرے دن جمعہ تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جمعے کی نماز پڑھ کر ایک ہزار مسلمانوں کو ساتھ لے کر باہر نکلے، ان میں عبد اللہ بن اُبی بن سلول کے تین سو آدمی تھے۔ لیکن یہ کہہ کر وہ اپنے آدمیوں کو ساتھ لے کر واپس چلا گیا کہ محمدؐ نے میری رائے نہ مانی۔ اب صرف سات سو مسلمان رہ گئے جن میں صرف سو کے پاس زرہیں تھیں۔
اس لڑائی میں شرکت کی اجازت پانے کے لیے بعض کم سن نوجوان مسلمانوں نے بھی عجیب و غریب جوش دکھایا۔ حضرت رافعؓ بن خدیج سے جب یہ کہا گیا کہ تم عمر میں چھوٹے ہو تو وہ انگوٹھوں کے بل تن کر کھڑے ہو گئے۔ سچ ہے قوم کی زندگی کی آگ نوجوانوں کے ہی جوش عمل کے ایندھن سے جلتی ہے۔
مسلمانوں نے احد پہاڑ کو پیٹھ کے پیچھے رکھ کر اپنی صف درست کی۔ پہاڑ میں ایک درہ (گھاٹی) تھا جدھر سے ڈر تھا کہ دشمن پیچھے سے آ کر حملہ نہ کر دیں۔ اس لیے پچاس اچھے تیر چلانے والوں کا ایک دستہ اس کی حفاظت کے لیے مقرر کیا اور سمجھا دیا کہ لڑائی میں ہماری جیت بھی ہو رہی ہو تو بھی اپنی جگہ سے نہ ہٹیں۔
لڑائی اس طرح شروع ہوئی کہ قریش کی شریف بیویاں دف پر فخر کے شعر اور بدر کے مقتولوں کا درد بھرا مرثیہ پڑھتی ہوئی آگے بڑھیں۔ پھر قریش کے لشکر کا علمبردار طلحہ صف سے نکل کر پکارا۔ حضرت علی مرتضیٰؓ نے اس کا جواب دیا اور بڑھ کر تلوار ماری اور طلحہ کی لاش زمین پر تھی۔ اس کے بعد اس کے بیٹے نے جرات کی اور آخر حضرت حمزہؓ کی تلوار نے اس کا بھی خاتمہ کر دیا۔ اب عام جنگ شروع ہو گئی۔ حضرت حمزہؓ، حضرت علیؓ، حضرت ابو دجانہ انصاریؓ فوجوں میں گھس گئے اور دشمنوں کی صفیں کی صفیں الٹ دیں۔
حضرت حمزہؓ دونوں ہاتھوں میں تلوار لیے لاشوں پر لاشیں گراتے جا رہے تھے۔ جبیر کا حبشی غلام وحشی جس سے ہند نے یہ وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ حضرت حمزہؓ کو قتل کر دے تو آزاد کر دیا جائے گا، حضرت حمزہؓ کی تاک میں تھا۔ حضرت حمزہؓ جیسے ہی اس کی زد میں آئے اس نے حبشیوں کے ایک خاص انداز سے جس میں ان کو پوری مہارت ہوتی ہے۔ ایک چھوٹا سا نیزہ پھینک کر مارا جو ناف میں لگا اور پار ہو گیا۔ حضرت حمزہؓ نے اس پر پلٹ کر حملہ کرنا چاہا مگر لڑکھڑا کر گر پڑے اور روح پرواز کر گئی۔ (انا للہ وانا الیہ راجعون)
حق اور باطل کی کیسی عجیب لڑائی تھی۔ باپ اپنے بیٹے اور بیٹا اپنے باپ کے مقابل تلوار تول رہا تھا۔ حضرت حنظلہؓ ایک صحابی تھے جو مسلمان ہو چکے تھے انہوں نے اپنے باپ کے مقابلے میں جانے کی اجازت چاہی، مگر رحمت عالمؐ نے اس کی اجازت نہ دی۔
مسلمان بہادر ایمان کے جوش میں چور تھے۔ وہ کافروں کو ہر طرف سے دبائے بڑھے جا رہے تھے۔ آخر ان کے بے پناہ حملوں سے دشمنوں کے پاؤں اکھڑ گئے۔ اب مسلمانوں نے دشمنوں کے بجائے ان کے مال و اسباب کی لوٹ شروع کر دی۔ یہ دیکھ کر تیر چلانے والوں نے جو درے کے پہرے پر تھے، اپنی چوکی چھوڑ دی۔ ان کے سردار حضرت عبد اللہ بن جبیرؓ نے کتنا ہی ان کو روکا مگر وہ یہ جان کر کہ لڑائی ختم ہو چکی ہے، وہ لوٹ مار میں شریک ہو گئے۔ خالد جو بعد میں اسلام کے سب سے بڑے سپہ سالار ثابت ہوئے، اس وقت مکہ کی فوج میں تھے۔ ان کی جنگی نظر سے دشمنوں کی یہ کمزوری چھپی نہیں رہ سکتی تھی۔ وہ سواروں کا ایک دستہ لے کر درے سے ہو کر آگے بڑھے۔ حضرت عبد اللہ بن جبیرؓ اور ان کے چند ساتھیوں نے جم کر سامنا کیا اور سب کے سب شہید ہو گئے۔ خالد نے اب آگے بڑھ کر مسلمانوں پر پیچھے سے حملہ کیا۔ مسلمان لوٹنے میں مصروف تھے۔ مڑ کر دیکھا تو تلواریں برس رہی تھیں۔ بد حواسی کا یہ عالم ہوا کہ مسلمان آپس ہی میں ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑے۔ حضرت مصعب بن عمیر جو مسلمانوں کے علمبردار اور صورت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملتے جلتے تھے وہ ایک کافر کے ہاتھ سے شہید ہو گئے۔ اس پر کافروں نے غل مچا دیا کہ محمدؐ نے شہادت پائی۔ اس آواز سے مسلمانوں کے رہے سہے ہوش بھی اڑ گئے۔ ان کی صفیں بے ترتیب ہو گئیں۔ کافروں کا سارا زور ادھر تھا جدھر حضورؐ تھے۔ صفوں کی بے ترتیبی سے آپؐ تک پہنچنے کے لیے دشمنوں کا راستہ بالکل صاف تھا۔ صرف گیارہ جانثار پروانوں کی طرح شمع نبوت کے اردگرد تھے۔ ان میں سے حضرت علی مرتضیٰؓ ، حضرت ابو بکر صدیقؓ، حضرت سعد بن ابی وقاصؓ، حضرت زبیرؓ اور حضرت طلحہؓ کے نام مہاجرین میں اور حضرت ابو دجانہؓ کا نام انصاریوں میں معلوم ہے، باقی صحابہ کرامؓ کو آپؐ کی کچھ خبر نہ تھی۔ یکایک ایک صحابی نے آپؐ کو دور سے پہچانا اور پکارا مسلمانو! رسول اللہؐ یہ ہیں۔ یہ سن کر ہر طرف سے جانثار ٹوٹ پڑے اور آپؐ کو دائرہ میں لے لیا۔ کفار نے ہر طرف سے ہٹ کر اسی رخ پر زور دیا۔ دل کا دل ہجوم کر کے بڑھتا تھا لیکن ذوالفقار کی بجلی سے یہ بادل پھٹ پھٹ کر رہ جاتا تھا۔ ایک دفعہ ہجوم ہوا تو فرمایا کہ کون مجھ پر جان دیتا ہے؟ دفعتاً سات انصاری ایک کے بعد ایک بڑھے اور ایک ایک نے لڑ لڑ کر جانیں دیں۔ حضرت ابو دجانہؓ انصاری جھک کر سپر بن گئے، جو تیر آتے ان کی پیٹھ پر لگتے۔ حضرت طلحہؓ نے تلواروں کو اپنے ہاتھ پر روکا۔ حضرت سعدؓ آپ کی طرف سے تیر چلا رہے تھے۔ حضرت ابو طلحہؓ نے تلواروں سے آپؐ کے چہرہ مبارک کا اوٹ کر لیا تھا۔ آپؐ گردن نکال کر لڑائی کا منظر دیکھنا چاہتے تھے تو وہ عرض کرتے تھے کہ آپؐ گردن نہ اٹھائیں، کوئی تیر نہ لگ جائے، میرا سینہ حاضر ہے۔ اسی حال میں قریش کا ایک شقی جو بڑا بہادر کہلاتا تھا، جانثاروں کے دائرے کو توڑ کر آگے بڑھا اور چہرہ مبارک پر تلوار ماری جس کی چوٹ سے خود کی دو کڑیاں چہرہ مبارک میں چبھ کر رہ گئیں۔ حضرت ام عمارہ صحابیہؓ نے اس کے تلوار ماری جو اس کی زرہ میں اچٹ کر رہ گئی۔ کسی کافر نے دور سے کوئی پتھر پھینکا جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ مبارک پر آ کر لگا جس سے آگے کے دو دانت شہید ہوگئے۔ اسی حالت میں آپؐ کی زبان مبارک سے یہ اثر میں ڈوبا ہوا فقرہ نکلا جو رہتی دنیا تک یاد رہے گا ’’اے اللہ میری قوم کے قصوروں کو معاف فرما کہ وہ نادان ہیں‘‘۔
اس کے بعد چند ثابت قدم صحابیوں کے ساتھ آپؐ پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ گئے۔ ابو سفیان نے دیکھ لیا، فوج لے کر پہاڑ پر چڑھا۔ سامنے کی دوسری پہاڑی پر چڑھ کر اس نے ہبل دیوتا کی جے پکاری۔ حضرت عمرؓ نے اس کے مقابلے میں اللہ اکبر کا نعرہ لگایا۔
آپؐ کے انتقال کی غلط خبر مدینے تک پھیل گئی۔ حضرت فاطمۃ الزہراؓ خدا جانے کس طرح بے تابانہ باپ کے قدموں تک پہنچ گئیں۔ چہرہ مبارک سے خون جاری تھا۔ حضرت علیؓ سپر میں پانی بھر کر لائے۔ حضرت فاطمہؓ زخموں کو دھوتی تھیں مگر خون نہیں تھمتا تھا۔ آخر چٹائی کا ایک ٹکڑا جلا کر زخموں پر رکھ دیا جس سے خون تھم گیا۔
اس لڑائی میں ستر مسلمانوں شہید ہوئے۔ شہداء میں سے بڑی ہستی حضرت حمزہؓ کی تھی۔ حضور اکرمؐ پر ان کی شہادت کا گہرا اثر تھا۔ مگر کیا مجال تھی جو صبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹتا۔ اتنا فرمایا کہ آہ! حمزہؓ پر کوئی رونے والا بھی نہیں۔ انصار نے سنا تو اپنی عورتوں کو ہدایت کی کہ پہلے حضرت حمزہؓ کا ماتم کرو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ دیکھا تو فرمایا ’’تمہاری ہمدردی کا شکریہ ادا کرتا ہوں لیکن مردوں پر رونا ناجائز ہے‘‘۔
قریش کی عورتوں نے اور خاص کر ابو سفیان کی بیوی ہند نے مسلمان لاشوں سے بے ادبی کر کے اپنے دل کا غبار نکالا۔ ان کے ناک کاٹ لیے اور ان کو پھولوں کا ہار بنا کر اپنے گلے میں ڈالا۔ ہند نے حضرت حمزہ کا پیٹ چاک کیا اور جگر نکال کر چبایا مگر نگل نہ سکی۔ پھر ایک بلندی پر چڑھ کر چند اشعار گائے کہ آج بدر کا بدلہ ہو گیا۔
اس لڑائی میں یہودیوں کے ڈر سے مسلمانوں نے اپنی بیویوں، بچوں اور کمزوروں کو قلعے میں رکھ دیا تھا مگر جو بیبیاں بہادر تھیں وہ میدان میں موجود تھیں۔آپ پڑھ چکے ہیں کہ حضرت فاطمہ زہراؓ باپ کی مرہم پٹی کر رہی تھیں اور حضرت عائشہؓ، حضرت ام سلیطؓ اور حضرت ام سلیمؓ اپنے کندھوں پر مشک بھر بھر کر لاتی تھیں اور زخمیوں کو پانی پلاتی تھیں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پھوپھی اور حضرت حمزہؓ کی بہن حضرت صفیہؓ شکست کی خبر سن کر مدینے سے نکلیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے صاحبزادے حضرت زبیرؓ سے بلا کر کہا کہ وہ حضرت حمزہؓ کی لاش جو ٹکڑے ٹکڑے ہوئے پڑی تھی، دیکھنے نہ پائیں۔ حضرت زبیرؓ نے آکر یہ کہا تو بولیں میں اپنے بھائی کا ماجرا سن چکی ہوں لیکن خدا کی راہ میں یہ کوئی بڑی قربانی نہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجازت دی تو لاش پر گئیں، خون کا جوش تھا اور عزیز بھائی کے ٹکڑے بکھرے پڑے تھے لیکن انا للہ وانا الیہ راجعون کے سوا ان کی زبان سے اور کچھ نہیں نکلا۔
ایک انصاری بی بی کے باپ، بھائی اور شوہر تینوں اس لڑائی میں شہید ہو گئے تھے۔ وہ حال جاننے کے لیے بے قرار ہو کر گھر سے نکلیں۔ باری باری ان تینوں سخت حادثوں کی آواز ان کے کانوں میں پڑتی ہے لیکن وہ ہر بار یہی پوچھتی ہیں کہ ہمارے رسولؐ کیسے ہیں؟ جواب ملا خیریت سے ہیں۔ ان کی تسکین نہیں ہوئی، پاس آ کر چہرۂ مبارک دیکھا تو پکار اٹھیں ’’آپ خیریت سے ہیں تو اور مصیبتیں کچھ نہیں‘‘۔
شہیدوں کے کفن کے لیے بھی غریب مسلمانوں کے پاس کچھ نہ تھا۔ مدینہ کے پہلے امام اور مبلغ حضرت مصعب بن عمیرؓ کا جنازہ تیار تھا۔ ان کے کفن کا کپڑا اتنا چھوٹا تھا کہ ان کا سر چھپایا جاتا تو پاؤں کھل جاتے اور پاؤں چھپاتے تو سر کھل جاتا۔ آخر سر چھپا کر پاؤں پر گھاس ڈال دی گئی۔ یہ وہ منظر تھا کہ بعد کو بھی مسلمان جب اس واقعے کو یاد کرتے تھے تو رو دیتے تھے۔ شہیدوں کو نہلائے بغیر اسی طرح خون سے رنگین قبروں میں اتارا گیا اور بے کسی اور مظلومی کے یہ مجسمے زمین کے سپرد کر دئیے گئے۔
مسلمانوں کو اس لڑائی میں گو جانوں کا بڑا نقصان اٹھانا پڑا تھا لیکن جنگی نظر سے ان کی شکست نا تمام رہی تھی۔ ڈر تھا کہ ابو سفیان کو اس کا خیال آئے تو ایسا نہ ہو کہ دوبارہ حملہ کر دے۔ اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی حالت میں اس کا پیچھا کرنا ضروری سمجھا۔ اس میں یہ بھی مصلحت تھی کہ آس پاس کے قبیلے ایسا نہ سمجھیں کہ مسلمانوں کا زور ٹوٹ چکا ہے اب جو چاہے ان پر حملہ کر سکتا ہے۔ بہت سے مسلمان زخمیوں سے گو چور تھے مگر جس وقت آپؐ نے خدا کا یہ حکم سنایا۔ ستر مسلمانوں نے اس کام کے لیے اپنے آپ کو پیش کیا۔ جن میں حضرت ابو بکرؓ اور حضرت زبیرؓ بھی تھے۔
ابو سفیان کو کچھ دور نکل جانے کے بعد خیال آیا کہ اس کا کام ادھورا رہ گیا لیکن خزاعہ کے رئیس معبد نے جو در پردہ مسلمان تھا اور مسلمانوں کے ساتھ تھا اور شکست کی خبر سن کر مدینے آیا تھا۔ واپس جا کر ابو سفیان سے کہا کہ میں دیکھتا آیا ہوں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سرو سامان سے تمہارے پیچھے آ رہے ہیں کہ ان کا مقابلہ نا ممکن ہے۔ یہ سن کر ابو سفیان مکے کو چلا گیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حمراء پہنچ کر مدینہ واپس چلے آئے۔
یہودی خطرے کو مٹانا
مدینے میں اسلام کے لیے یہ تیسرا خطرہ تھا اور یہ سب سے بڑھ کر تھا کیونکہ یہود دولت، تجارت اور جنگی مہارت میں عربوں سے بڑھ کر تھے۔ ان کا سلسلہ حجاز سے لے کر شام کی حدود تک پھیلا ہوا تھا۔ ان کے بیوپار اور کاروبار کے سبب سے سارے عرب پر ان کا اثر تھا اور وہ عرب میں مذہبی روایات اور علم و فضل کے لحاظ سے ممتاز سمجھے جاتے تھے۔ مدین اور اس کے آس پاس کے شہروں اور آبادیوں میں ان کو اپنی دولت، وجاہت اور تجارت کی وجہ سے بڑی قوت حاصل تھی اور سب ان کے سرمایہ داری کے بوجھ کے نیچے دبے تھے۔ اوس اور خزرج کے کسان اور مزدور جو پیدا کرتے تھے وہ سب ان کے قلعوں اور کوٹھیوں کی نذر ہو جاتا تھا۔ عربوں کی ملکیت یہودیوں کے ہاتھوں گروی رہتی اور اس لیے وہ اپنی محنت کا پھل نہیں پاتے تھے۔ یہودیوں کا ایک قبیلہ بنو قینقاع کہلاتا تھا اور سوناری کا کام کرتا تھا اور مدینے کے قریب ہی رہتا تھا۔ ان کا دوسرا قبیلہ بنی نضیر تھا اور تیسرا بنی قریظہ کہلاتا تھا۔ انہوں نے ہر طرف لین دین کا کاروبار پھیلا رکھا تھا۔ ساری آبادی ان کے قرضوں سے زیر بار تھی اور چونکہ اکیلے وہی دولت کے مالک تھے اسی لیے بڑی بے رحمی سے سود کی بڑی بڑی شرحیں مقرر کرتے تھے اور قرضے کی کفالت میں لوگوں کے بال بچے، یہاں تک کہ عورتوں کو رہن رکھواتے تھے۔
جب اسلام کا مرکز مکہ سے ہٹ کر مدینہ چلا آیا تو یہودی جیسا کہ شروع میں بتایا جا چکا ہے، پہلے پہل بہت خوش ہوئے کیونکہ اسلام جو کچھ کہتا تھا وہ سب ان کی کتابوں میں تھا۔ وہ ان کی آسمانی کتابوں کی تائید اور ان کے پیغمبروں کی تصدیق کرتا تھا اور ان سے ان کو یہ امید تھی کہ عربوں کی یہ نئی تحریک ان کے اقتدار کر بڑھائے گی، اس لیے وہ اسلام سے اتحاد اور معاہدے کے لیے آگے بڑھے اور دشمنوں کے حملے کی صورت میں مدینے کے بچاؤ کا قول و قرار کیا اور سمجھے کہ عربوں کی یہ نئی طاقت یہودیوں میں جذب ہو کر رہ جائے گی۔
لیکن ان کو سال کے اندر ہی اندر یہ معلوم ہونے لگا کہ یہ نئی تحریک ایک مستقل طاقت ہے جس کو اگر کچل نہ دیا گیا تو ان کے سارے اقتدار اور بیوپار کا خاتمہ کر دے گی۔ اب یہ ہوا کہ بجائے اس کے کہ وہ اسلام کی طرف اس لیے بڑھتے کہ وہ انہی کے اصلی دین کو لے کر آیا تھا! وہ رکنے لگے، اس پر بے جا اعتراضوں کی بھر مار کرنے لگے، سامنے کچھ اور پیچھے کچھ کہتے اور پورازور لگاتے کہ اسلام کی طرف سے لوگوں کے دل پھر جائیں مگر اس میں ان کو کامیابی نہیں ہوئی بلکہ خود یہودیوں سے جو لوگ کچھ بھی حق اور انصاف چاہتے تھے، کھلم کھلا مسلمان ہو گئے اور کچھ نے مسلمان ہو کر اپنی دولت بھی اسلام کی راہ میں دے دی۔
یہ صورت حال تھی کہ قریش اور مسلمانوں میں لڑائی کے آثار ظاہر ہونے لگے۔ اب انہوں نے قریش سے اور قریش نے ان سے ساز باز شروع کی۔ ایک ہی سال کے بعد بدر کا واقعہ پیش آیا اور مسلمانوں نے فتح پائی۔ یہ یہودیوں کے لیے خطرے کی گھنٹی تھی۔ وہ چوکنے ہو گئے اور کیل کانٹے سے درست ہونے لگے۔ مسلمانوں نے یہ دیکھا تو ان کو سمجھایا اور ان کو ان کا قول و قرار یاد دلایا اور نہ ماننے کی صورت میں دھمکی دی کہ جو قریش کا حال ہوا، وہی تمہارا ہو گا۔ یہودیوں نے کہا ہم کو قریش نہ سمجھنا اووہ لڑائی بھڑائی کے آدمی نہ تھے، ہمارے پاس لڑائی کے پورے سامان اور ہتھیار ہیں اور ہمارے بڑے بڑے قلعے ہیں، ان قلعوں سے ٹکرانا آسان کام نہیں۔
یہودیوں کو معلوم تھا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ساری طاقت کا راز مدینہ کے دو قبیلوں اوس اور خزرج کا اسلام کے جھنڈے تلے آ کر ایک ہو جانا ہے۔ انہوں نے یہ کیا کہ ان کی مجلسوں میں بیٹھ کر ان دونوں کی آپس کی لڑائیوں کا جو اسلام سے پہلے ایک دوسرے کے خلاف لڑے تھے، تذکرے چھیڑنے لگے، تا کہ دونوں کی عداوت کے پرانے جذبے ابھریں اور ان کے اسلام کے اتحاد کا رشتہ ٹوٹ جائے۔ ایک دفعہ ان کی اسی چال سے یہاں تک ہوا کہ یہ دونوں قبیلے پھر کٹنے مرنے کو تیار ہو گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خبر ہوئی تو آ کر دونوں کو سمجھایا اور اس طرح یہ فتنہ دبا۔
مدینہ میں منافقوں کا جو گروہ تھا، اس کا یہودیوں سے میل تھا۔ منافقوں کا سردار عبد اللہ بن ابی یہودیوں کے قبیلے بنی نضیر اور بنی قینقاع کا ساتھی تھا۔ یہودیوں میں سب سے لڑاکا اور بہادر قبیلہ بنی قینقاع تھا۔ بدر کی فتح نے اس کو چونکا دیا۔ اس نے چاہا کہ شروع ہی میں اسلام کی طاقت کو ابھرنے سے روکا جائے۔ چنانچہ یہودیوں اور مسلمانوں میں صلح کا جو قول و قرار ہوا تھا، اس کو توڑ کر اسی نے پہلے شرارت کی پہل کی۔
بنی قینقاع سے لڑائی (شوال س ۲ ھ)
شوال سن ۲ ھ میں ایک اتفاقی واقعے نے چنگاری کو اور بھڑکا دیا۔ ایک مسلمان بی بی بنی قینقاع کے محلے میں کسی کام سے ان کی دکان پر گئیں۔ انہوں نے اس کو چھیڑ کر بے حرمت کیا۔ یہ دیکھ کر ایک مسلمان آپے سے باہر ہو گیا اور اس یہودی کو مار کر گرا دیا۔ یہودیوں نے اس مسلمان کو مار ڈالا۔ اس واقعے نے ایک بلوہ کی صورت اختیار کر لی۔ مسلمانوں نے پہلے ان کو بہت سمجھایا، مگر ان کو اپنے ہتھیاروں اور قلعوں پر اتنا ناز تھا کہ وہ صلح پر تیار نہیں ہوئے۔ اب مسلمانوں نے ان کو بغل کا گھونسا سمجھ کر سب سے پہلے ان سے نپٹنا ضروری سمجھا۔
لڑائی کا اعلان ہوا تو بنی قینقاع نے اپنا قلعہ بند کر کے مقابلہ کیا۔ مسلمانوں نے ان کے قلعہ کو گھیر لیا اور پندرہ دن تک گھیرے رہے۔ مسلمانوں کی یہ طاقت دیکھ کر قلعہ والے گھبرا گئے اور آخر اس پر راضی ہوئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو فیصلہ کریں وہ ہم کو منظور ہے۔ عبد اللہ بن ابی نے جو ان کا حلیف تھا، آ کر آنحضرتؐ سے عرض کی کہ ان کی اتنی ہی سزا بہت ہے کہ وہ یہاں سے نکال دئیے جائیں۔ آپؐ نے منظور فرمایا اور بنو قینقاع بھی اس پر رضا مند ہو گئے اور اپنی ساری زمین اور جائیداد چھوڑ کر شام کے ملک میں چلے گئے۔
مسلمان مبلغوں کا بیدردانہ قتل
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک دین لے کر آئے تھے۔ اس کے لیے لڑائی بھڑائی اور لوٹ مار کی کوئی ضرورت نہ تھی، مگرآپ یہاں تک جو حال پڑھ آئے ہیں، اس سے سمجھ گئے ہوں گے کہ جاہل اور نادان عرب کسی طرح مسلمانوں کو صلح اور امن و امان سے رہنے نہیں دیتے تھے۔ پہلے تو اکیلے قریش سے لڑائی تھی، اب آہستہ آہستہ یہ آگ اور جگہ بھی پھیلتی جاتی تھی۔ اور نجد تک پھیل چکی تھی۔ انہی خطروں میں گھرکر جس طرح بن پڑتا تھا، مسلمان اس دین کی تبلیغ اور اسلام کی اشاعت کر رہے تھے اور اب یمن کے کناروں اور بحرین کے علاقوں تک میں یہ تعلیم چپکے چپکے قبول کی جا رہی تھی۔
صفر المظفر سن ۴ ھ میں قبیلہ کلاب کے رئیس نے خواہش کی کہ چند مسلمان داعیوں کو میرے ساتھ کر دیجیے۔ کہ وہ میری قوم میں جا کر اسلام پھیلائیں اور لوگوں کو مسلمان بنائیں۔ آپؐ نے فرمایا مجھے نجد کی طرف سے ڈر ہے۔ اس نے کہا ’’ میں ضامن ہوں‘‘ اس پر اعتبار کر کے آپؐ نے ستر انصاری مبلغوں اور معلموں کو اس کے ساتھ کر دیا۔ بنی سلیم کے علاقے میں معونہ نامی ایک کنویں کے پاس پہنچ کر اس نہتے دستے نے جس کا مقصد امن و سلامتی کی اشاعت کے سوا اور کچھ نہ تھا، پڑاؤ کیا۔ اس اطراف کے رئیس عامربن طفیل نے آ کر ایک کے سوا سب کو گھیر کر شہید کر دیا۔یہ ایک عمرو بن امیہ تھے جنہوں نے مدینہ آ کر اپنے ساتھیوں کی مظلومی کی کہانی سب کو سنائی۔
انہی دنوں میں عضل اور قارہ کے چند آدمی آپؐ کی خدمت میں آئے کہ ہمارے قبیلے نے اسلام قبول کر لیا ہے۔ آپؐ چند مسلمانوں کو ہمارے ساتھ کر دیجیے جو ہمارے ہاں جا کر ہم کو اسلام کی باتیں سکھائیں۔ آپؐ نے دس آدمی ساتھ کر دیے۔ جب یہ نہتا قافلہ رجیع کے مقام پر پہنچا تو ان ظالموں نے اپنا عہد توڑ دیا۔ بنی لحیان کے دو سو تیر چلانے والوں نے ان کو گھیر لیا۔ یہ چند گنتی کے مسلمان ایک ٹیکرے پر چڑھ گئے اور دو کے سوا سب خدا کی راہ میں مارے گئے، جو دو بچ گئے وہ حضرت خبیبؓ اور حضرت زیدؓ تھے۔ ان کو انہوں نے پکڑ کر مکہ لے جا کر قریش کے ہاتھ بیچ ڈالا۔ حضرت خبیبؓ نے احد کی لڑائی میں حارث بن عامر کو مارا تھا، اس لیے حارث کے لڑکوں نے ان کو خرید لیا اور اپنے باپ کے بدلے میں ان کو سولی دے کر مارا ڈالا۔ سولی پانے سے پہلے انہوں نے اپنے قاتلوں سے اجازت مانگی کہ دوہ دو رکعت نماز پڑ لیں۔ انہوں نے اس کی اجازت دی تو انہوں نے دو رکعت نماز ادا کی اور اس وقت یہ مسلمان شہیدوں کی رسم قرار پا گئی۔ سولی پاتے وقت ایک شعر ان کی زبان پر تھا، جس کا مفہوم یہ تھا:
’’جب میں اسلام کی راہ میں مارا جا رہا ہوں تو مجھے اس کی کوئی پروا نہیں کہ میں کس پہلو پر مارا جاؤں گا‘‘۔
حضرت زیدؓ کو ایک دوسرے قریشی نے اس لیے خریدا تھا کہ مکے کے تماشائیوں کے سامنے ان کے قتل کا رنگین تماشادکھائے گا۔ جب قاتل تلوار لے کر آگے بڑھا تو ابو سفیان نے پوچھا کہ سچ کہنا کہ اگر اس وقت تمہارے بدلے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قتل کیے جاتے تو کیا تم خوش نہ ہوتے! بولے خدا کی قسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تلووں کو کانٹوں سے بچانے میں میری جان بھی کام آتی تو میری سعادت تھی۔ اس فقرے کے ساتھ ایک تلوار گری اور ان کا سر دھڑ سے الگ تھا۔ اللہ اکبر! ان خدا کے بندوں پر حق کا نشہ کیسا چھایاتھا۔
ابن ابی الحقیق کا خاندان
یہودیوں میں ابن ابی الحقیق کا خاندان سب سے دولت مند تھا۔ بڑے بڑے یہودی عالم اس گھر سے تنخواہیں پاتے تھے۔ اسلام کی دشمنی میں اس خاندان کے بڑے بڑے لوگ سب سے آگے تھے۔ کعب بن اشرف اس خاندان کا نواسہ تھا۔ اس کا باپ عرب اور ماں خاندان کی یہودن تھی، اس لیے عربوں اور یہودیوں دونوں میں اس کا اثر تھا۔ اس کے سودی کاروبار کا یہ حال تھا کہ وہ عربوں کے بال بچوں اور بیویوں تک کو قرض میں گروی رکھتا تھا۔ بدر کا واقعہ پیش آیا تو اس کو بڑا رنج ہوا۔ شاعر بھی تھا۔ اس نے اس واقعے پرپُر اثر شعر لکھے اور خود جا کر قریش کے سرداروں سے ملا اور ان کو بدر کا بدلہ لینے پر تیار کیا۔ مدینے واپس آیا تو شریف بیبیوں کے نام لے لے کر اپنے شعروں میں ان سے عشق کا اظہار کرتا تھا۔ اس سے انصاری میں برہمی پھیلی اور آخر ایک انصاری حضرت محمد بن مسلمہؓ نے جا کر اس کو مار ڈالا۔ یہ ربیع الاول اور سن ۳ ھ کا واقعہ ہے۔ یہود کے دوسرے بڑے بڑے آدمی جو اسلام کے دشمن تھے، ابو رافع سلام بن ابی الحقیق ،کنانہ بن ربیع اور حئی بن اخطب تھے جو بنی نضیر میں سے تھے۔
بنی نضیر کی جلا وطنی (ربیع الاول س ۴ ھ)
بنی نضیر یہودیوں کا دوسرا طاقت ور قبیلہ تھا۔ اب اس نے قریش سے ساز باز شروع کی اور ان کو مدینے کے کمزور حصوں کی اطلاع دینے لگے۔ ان کا مسلمانوں سے معاہدہ تھا۔ اس معاہدے کی رو سے اگر کسی مسلمان یا بنی نضیر کے کسی آدمی کے ہاتھ سے کوئی مارا جاتا تو دوسرے پر بھی اس کے خون کا روپیہ ادا کرنا ضروری تھا۔ بنی عامر کے دو آدمی ایک جنگی غلطی سے ایک مسلمان کے ہاتھ سے اتفاق سے مارے گئے۔ حالانکہ ان کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امان نامہ موجود تھا۔ ان مقتولوں کے خون کا روپیہ مسلمانوں پر واجب ہوا۔ مسلمانوں نے بنی نضیر سے بھی اس میں شرکت کی خواہش کی اور اسی لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے محلے میں گئے۔ ظاہر میں تو انہوں نے بہت کچھ مستعدی دکھائی اور شرکت پر آمادگی ظاہر کی، لیکن چھپ کر انہوں نے چاہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جو دیوار کے نیچے کھڑے تھے، اوپر سے ایک بڑا پتھر گرا کر مار ڈالیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس کی خبر لگ گئی اور وہ سیدھے اکیلے اٹھ کر مدینے چلے آئے۔
بنو نضیر نے کہلا بھیجا کہ آپؐ تیس آدمیوں کو لے کر آئیں، ہم بھی اپنے عالموں کو لے کر آئیں گے۔ اگر وہ آپؐ کی بات مان لیں گے تو ہم کو کوئی عذر نہ ہو گا۔ آپؐ نے جواب دیا کہ جب تک تم عہد نامہ نہ لکھ دو ہم کو تم پر اعتبار نہیں لیکن وہ اس پر راضی نہ ہوئے۔
یہود کا تیسرا قبیلہ جو بنی قریظہ کہلاتا تھا۔ آپؐ نے اس سے بھی دوبارہ نئے عہد نامے کی درخواست کی اور اس نے قبول کیا۔ اب بنی نضیر نے بھی کہلا بھیجا کہ ہم کو بھی یہ منظور ہے کہ آپؐ تین آدمی لے کر ہمارے پاس آئیں۔ آپؐ نے منظور فرمایا لیکن راہ میں آپؐ کو معلوم ہو گیا کہ یہود تلواریں باندھ کر تیار ہیں کہ جب آپؐ تشریف لائیں تو آپؐ کو قتل کر دیں۔ آپؐ پھر واپس چلے آئے۔
بنو نضیر بڑے بڑے قلعوں کے مالک تھے جن پر ان کو ناز تھا اور مدینے کے منافق بھی ان کو شہہ دے رہے تھے اور کہلا بھیجتے تھے کہ تم دبنا نہیں، بنی قریظہ تمہارا ساتھ دیں گے اور ہم بھی دو ہزار کی جمعیت سے تیار ہیں۔
مسلمانوں کو یہ حال معلوم ہوا تو وہ پیش بندی کر کے آگے بڑھے اور بنی نضیر کے قلعے کو گھیر لیا اور پندرہ روز تک گھیرے کھڑے رہے۔ آخر وہ اس شرط پر راضی ہوئے کہ جس قدر مال و اسباب اونٹوں پر لے جا سکیں، لے جائیں اور مدینہ سے باہر نکل جائیں چنانچہ سب گھروں کو چھوڑ کر اور اپنا مال و اسباب لاد کر نکل گئے اور ان میں سے ان کے کئی بڑے بڑے رئیس، ابو رافع، سلام بن ابی الحقیق، کنانہ بن الربیع اور حئی بن اخطب بھی خیبر چلے گئے۔
خندق یا احزاب کی لڑائی (ذی قعدہ س ۵ ھ)
بنو نضیر مدینے سے باہر نکلنے کو تو نکل گئے لیکن خیبر پہنچ کر انہوں نے اپنی سازشوں کا جال سارے ملک عرب میں پھیلا دیا۔ ان کے رئیسوں نے مکے جا کر قریش کو تیار کیا۔ قبیلہ غطفان کو خیبر کی آدھی پیداوار کا لالچ دلا کر اپنے ساتھ ملایا۔ بنی اسد ان کے حلیف تھے، وہ بھی اٹھے۔ غرض سب ملا کر دس ہزار کی بھاری فوج مدینے کی سمت روانہ ہوئی۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جب اس کا پتہ چلا تو مسلمانوں سے مشورہ کیا۔ مسلمانوں کو احد کی لڑائی کا تجربہ ہو چکا تھا۔ حضرت سلمان فارسیؓ چونکہ ایران کے تھے، اس لیے ایران کے جنگی طریقوں سے کچھ واقف تھے۔ انہوں نے رائے دی کہ شہر کے تین رخ تو مکانوں اور نخلستانوں سے گھرے ہوئے ہیں، صرف ایک طرف کھلی ہوئی ہے، ادھر خندق (گڑھا) کھود لی جائے تا کہ دشمن ا س سمت سے شہر میں گھسنے نہ پائیں، یہ رائے سب نے مان لی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تین ہزار مسلمانوں کے ساتھ باہر نکلے اور خندق کھودنے کی تیاری شروع کر دی۔ تین ہزار متبرک ہاتھوں نے بیس دن میں یہ کام پورا کیا اور اس طرح پورا کیا کہ خود خدا کا رسولؐ بھی ان میں ایک عام مزدور کی طرح کام کر رہا تھا، کئی کئی دن فاقے سے گزر رہے تھے۔ اس پر بھی اسلام کے شیدائیوں کا جوش ٹھنڈا نہیں ہوتا تھا۔ ہاتھوں سے مٹی کھودتے اور پیٹھوں پر اس کو لاد لاد کر پھینکتے تھے اور آواز میں آواز ملا کر یہ شعر گاتے تھے:
’’ہم ہیں جنہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ پر اس عہد پر بیعت کی ہے کہ جب تک جان میں جان ہے، ہم خدا کی راہ میں لڑتے جائیں گے‘‘۔
دشمن اب قریب آ گیا تھا، اس کے قریب آنے کی خبر سن سن کر بزدل منافقوں کے ہوش اڑتے جا رہے تھے۔ جھوٹے بہانے کر کر کے اپنے گھروں کو لوٹ رہے تھے۔ یہود کا اب صرف ایک تیسرا قبیلہ بنو قریظہ مدینے کے پاس رہتا تھا۔ اس کی روش صاف نہ تھی اس لیے دو سو آدمیوں کا دستہ ان کی دیکھ بھال کے لیے الگ کر دیاگیا تھا۔
بنو قریظہ اب تک کھل کر سامنے نہیں آئے تھے۔ بنی نضیر کا یہودی سردار حیی بن خطب جو اب خیبر جا بسا تھا۔ دشمنوں کی فوج کے ساتھ آیا تھا۔ اس نے بنو قریظہ کے سردار کی جو مسلمانوں سے معاہدہ توڑنے پر اس لیے آمادہ نہیں ہو رہا تھا کہ یہ باہر کے لوگ تو چلے جائیں گے پھر مسلمانوں سے اکیلے ہم کوہی نپٹنا ہو گا۔ یہ کہہ کر ملا لیا کہ میں اس وقت محمدؐ کے خلاف سارے عرب کو اٹھا لایا ہوں، ان کی طاقت کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دینے کا موقع پھر اس سے بہتر ہاتھ نہیں آئے گا۔ اس دلیل سے لاچار ہو کر وہ بھی دشمنوں سے مل گئے اور حیی نے اس کو یقین دلایا کہ اگر قریش اور غطفان تم کو بے یارو مددگار چھوڑ کر چلے جائیں گے تو ہم تمہارا ساتھ دیں گے۔
کفار بیس دن تک مدینے کے گرد گھیرا ڈالے پڑے رہے اور شہر پر حملہ کرنے کی کوئی راہ نہیں پاتے تھے، ایک جگہ خندق کی چوڑائی کم تھی۔ ایک دن انہوں نے بڑی تیاری کر کے اسی رخ سے حملہ کرنا چاہا۔ عمرو بن عبدوُد جو قریش کا سب سے بڑا بہادر تھا، گھوڑا کودا کر اس پار گیا۔ ادھر سے ذوالفقار والا ہاتھ بڑھا اور ایک ہی وار میں تلوار شانے تک اتر آئی۔ حضرت علیؓ نے اللہ اکبر کا نعرہ مارا اور فتح کا اعلان ہو گیا۔
حملے کا یہ دن بڑا سخت گزرا۔ دشمن ہر طرف سے تیر اور پتھر برسا رہے تھے، مسلمان عورتیں جس قلعہ میں محفوظ تھیں وہ بنی قریظہ کے قریب تھا۔ بنو قریظہ نے یہ دیکھ کر کہ مسلمان تو ادھر پھنسے ہیں، ادھر اس خالی قلعے پر قبضہ کر لیا جائے، ایک یہودی قلعے کے پھاٹکپر پہنچ چکا تھا کہ حضرت زبیرؓ کی ماں حضرت صفیہؓ نے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پھوپھی تھیں، نے آگے بڑھ کر اس کا سر کاٹ کر میدان میں پھینک دیا۔ یہ دیکھ کر بنی قریظہ سمجھے کہ قلعے میں بھی کچھ فوج ہے اس لیے ادھر جانے کی ہمت نہ کی۔
محاصرہ جتنا طول پکڑتا جاتا تھا دشمنوں کا میل ملاپ آپس میں کم ہوتا جاتا تھا۔ غطفان کا قبیلہ مدینے کی کچھ پیداوار سالانہ لے کر لوٹنے پر آمادہ تھا۔ اس کے ایک رئیس نے جو در پردہ مسلمان ہو چکے تھے، مگر ان کا مسلمان ہونا ابھی سب کو معلوم نہ تھا قریش اور یہود سے جا کر الگ الگ ایسی باتیں کیں جس سے دونوں میں پھوٹ پڑ گئی۔ خدا کا کرنا کہ انہی دنوں میں ایک رات کو ایسی تیز آندھی چلی کہ دشمنوں کے خیموں کی رسیاں اکھڑ اکھڑ گئیں۔ کھانے کی ہانڈیاں چولہوں پر الٹ الٹ جاتی تھیں۔ سردی میں ہوا کی اس تیز باڑھ نے بھی کفار کے دل کپکپا دئیے۔
ان سب باتوں نے مل جل کر ساتھی فوجوں (احزاب) کے پاؤں اکھاڑ دئیے۔ بنی قریظہ ان کا ساتھ چھوڑ کر اپنے قلعوں میں چلے گئے۔ غطفان بھی روانہ ہو گئے۔ یہ دیکھ کر قریش بھی ناچار محاصرہ چھوڑ کر چلے گئے اور مدینے کا کنارہ بیس بائیس دن تک غبار میں اٹ کر پھر صاف ہو گیا۔

بنی قریظہ کا خاتمہ
بنی قریظہ نے ایسے نازک موقعے پر مسلمانوں کے ساتھ جو بد عہدی کی وہ معاف کرنے کے لائق نہ تھی۔ حیی بن اخطب جو عربوں کے اس جتھے کا بانی تھا، بنی قریظہ کے ساتھ ان کی امان میں تھا۔ اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کفار کی اس متحدہ فوج کا شیرازہ بکھرنے کے ساتھ ہی بنو قریظہ کی طرف رخ کیا۔ ان کے قلعے بند ہو گئے۔ مسلمان ایک مہینے تک ان کا گھیراؤ کیے پڑے رہے۔ آخر انہوں نے یہ درخواست کی کہ ان کا معاملہ ان کے حلیف قبیلے اوس کے مسلمان سردار حضرت سعد بن معاذؓ کے سپرد کیا جائے۔ وہ جو فیصلہ کریں ان کو خوشی سے منظور ہو گا۔ حضرت سعد بن معاذؓ خندق کی لڑائی میں ایک تیر کا زخم کھا کر نڈھال ہو رہے تھے۔ پھر بھی وہ آئے۔ ان کے قبیلے کے لوگ یہ چاہتے تھے کہ ان کی خطا معاف کر دی جائے مگر حضرت سعدؓ نے نہ مانا اور یہ فیصلہ کیا کہ ان میں جو لڑنے کے قابل ہوں وہ قتل کر دئیے جائیں اور عورتیں اور بچے قید ہوں اور مال و اسباب مسلمانوں کو تقسیم کر دیا جائے۔ اسی فیصلہ پر عمل ہوا اور یہود کے اس تیسرے قبیلے کا بھی خاتمہ ہوا اور ان سرمایہ داروں کی زمینیں اور جائیدادیں غریب کام کرنے والے مسلمانوں میں بانٹ دی گئیں۔
اسلام قانون کی صورت میں
اسلام جس دن سے دین بن کر آیا اسی دن سے وہ سلطنت بھی تھا۔ دین اور دنیا کی الگ الگ تمیز اس کی تعلیم میں نہیں۔ دنیا کی زندگی میں خدا اور اس کی مخلوقات کے جو فرض ہم پر ہیں ان کو خوبی کے ساتھ ادا کرنا ہی دین ہے۔ اس لیے حکومت اور سلطنت ہمارے دین سے کوئی الگ چیز نہیں۔ مدینہ منورہ جیسے اسلام کامرکز تھا، اس کی سیاسی قوت کا مرکز بھی بنتا جاتا تھا۔ اسلام جہاں تک پھیلتا تھا وہاں تک اس کی حکومت کی حد بڑھ کر امن و امان قائم ہو جاتا تھا۔ چوریاں موقوف ہو جاتی تھیں، ڈاکے بند ہو جاتے تھے، بدکاریاں مٹ جاتی تھیں اور عربوں کی بے نظام زندگی کی جگہ اسلام کی مرتب زندگی شروع ہو جاتی تھی۔ امام، موذن، محصل اور قاضی مقرر ہونے لگتے تھے اور اسلامی قانون کی حکومت سب پر ایک ساتھ جاری ہو جاتی تھی۔
اسلام نے شروع شروع میں صرف عقیدوں کی درستی پر زور دیا۔ جب یہ مقصد کچھ کچھ چل نکلا تو خدا کی عبادت و اطاعت کا سبق پڑھایا، جب طبیعتیں ادھر بھی متوجہ ہوئیں تو اسلام کا قانون اترنے لگا۔
اس سے پہلے تک تو یہ حال تھا کہ باپ مسلمان تو بیٹا کافر، ماں اسلام لائی تو بیٹی کافرہ ہے، شوہر مسلمان ہو چکا ہے مگر بیوی ابھی تک کفر کی حالت میں ہے۔ بدر کے بعد مسلمانوں میں اطمینان کی خاندانی زندگی پیدا ہونے لگی اور لڑائیوں کے سبب مارے جانے والوں کی تعداد بھی بڑھی ہو گی۔ اس لیے سن ۳ ھ میں وراثت کا قانون اترا۔ لڑکیاں جو عربوں میں ترکہ پانے کا حق نہ رکھتی تھیں۔ اسلام نے ان کو بھی ان کا جائز حق دیا۔ اب تک مشرک عورتوں سے مسلمان نکاح کر لیتے تھے۔ اب وہ موقع آیا کہ گھر کی اندرونی زندگی کے سکھ اور چین کے لیے ان سے نکاح ناجائز ٹھہرا۔
سن ۴ ھ میں بد کاری کی روک تھام کے لیے مجرم کو پتھروں سے مار ڈالنے کا جو حکم توراۃ میں تھا، جاری کیا گیا۔ بعض کہتے ہیں کہ شراب پینا پلانا بھی اسی سال بند ہوا۔
عرب میں منہ بولے بیٹوں کا رواج تھا جن کومتبنیٰ کہتے ہیں اور جن کے ساتھ حقیقی بیٹوں کا سا معاملہ کیا جاتا تھا اور ان کی بیویاں حقیقی بہو سمجھی جاتی تھیں، س ۵ ھ میں اسلام نے اس وہمی نسب کا خاتمہ کیا، جاہلیت کے زمانے میں عورتیں بناؤ سنگھار کر کے میلوں ٹھیلوں اور مردوں کی محفلوں میں بے روک ٹوک آتی جاتی تھیں، جن سے معاشرے کی بد نامی تھی۔ اسلام نے سن ۵ھ میں ان باتوں کی مناسب اصلاحیں کیں کہ گھر سے نکلیں تو ایک بڑی چادر اوڑھ لیں۔ سینے پر آنچل ڈالیں۔ گھنگھرو اور بجنے والے زیور پہن کر دھماکے سے نہ چلیں، مردوں سے لوچ کے ساتھ باتیں نہ کریں۔ کنواروں کے لیے بد کاری کی سزا سو کوڑے مقرر ہوئی، بعض قسم کی طلاقوں کی اصلاح کی گئی۔
اسلام کے لیے دو رکاوٹیں
آج سے کچھ پہلے اسلام کے راستے میں مشکلوں کا پہاڑ کھڑا تھا لیکن اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اعجاز، اخلاق اور تدبیر اور مسلمانوں کے اخلاص، ایثار اور کوششوں سے وہ ایک ایک کر کے دور ہو گئیں اور اب اسلام کی ترقی کی راہ میں دو ہی روگ رہ گئے: ایک مکے کے مشرک اور دوسرے خیبر کے یہود۔ مکہ کے مشرکوں سے حضور اکرمؐ صرف یہ چاہتے تھے کہ وہ اسلام کو امن و امان سے آگے بڑھنے دیں اور جو لوگ خوشی سے اس حلقے میں آنا چاہیں ان کو یہ موقع دیا جائے۔ مکہ میں غریب اور کمزور مسلمان بچوں، عورتوں اور بے بس مسلمانوں کو جو بند کر رکھا ہے، ان کو مدینہ آنے دیا جائے اور مسلمانوں کو مکے آنے اور کعبے کے طواف اور حج کی آزادی ملے۔
خیبر کے یہودیوں سے اتنا ہی چاہا جاتا تھا کہ اگر اسلام کے دین میں آنا نہیں چاہتے تو وہ اس کی سیاسی طاقت کے آگے سر جھکا دیں تا کہ ملک میں ایک قسم کا نظام کھڑا کیا جا سکے۔
حدیبیہ کی صلح (ذیقعدہ سن ۶ ھ)
مسلمانوں کی بڑی خواہش تھی کہ وہ مکے جا کر خانہ کعبہ کے طواف اور زیارت سے اپنی آنکھیں ٹھنڈی کریں۔ جس کے دیدار سے وہ سالہا سال سے محروم کر دئیے گئے تھے۔ اسی ارادے سے آپؐ چودہ سو صحابہؓ کو ساتھ لے کر مکے کو روانہ ہوئے۔ لڑائی کی نیت بالکل نہ تھی، ممانعت تھی کہ تلواروں کے سوا کوئی ہتھیار ساتھ نہ لیا جائے اور تلواریں بھی نیام میں ہوں۔ قربانی کے اونٹ ساتھ تھے اور عرب کا بچہ بچہ یہ جانتا تھا کہ جو سفر ایسی مقدس غرض سے کیا جائے اس میں لڑنا کیا تلوار اٹھانا بھی جائز نہیں ۔
جب آپؐ مکے کے قریب پہنچے تو ایک مخبر کو حال دریافت کرنے کے لیے مکے بھیجا۔ وہ خبر لایا کہ قریش ایک بڑی جمعیت ساتھ لے کر مسلمانوں کو روکنے کی غرض سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ آپؐ راستہ کترا کر حدیبیہ کے مقام پر اتر پڑے اور ایک سفیر قریش کے پاس یہ پیغام دے کر بھیجا کہ ہم صرف عمرہ ادا کرنے آئے ہیں، لڑنا مقصود نہیں اور بہتر یہ ہے کہ قریش تھوڑی مدت کے لیے ہم سے صلح کا معاہدہ کر لیں اور میرے اور لوگوں کے درمیان سے ہٹ جائیں۔ سفیر نے قریش کے سامنے جا کر یہ تقریر کی۔ عروہ بن مسعود ثقفی ایک نیک دل سردار نے قریش سے کہا کہ تمہیں مجھ سے کوئی بد گمانی تو نہیں۔ انہوں نے کہا نہیں۔ تب اس نے کہا مجھے اجازت دو کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مل کر اس معاملے کو طے کروں۔ لوگوں نے رضا مندی ظاہر کی وہ حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور قریش کا پیغام سنایا۔ عروہ نے یہاں پہنچ کر مسلمانوں کے روحانی انقلاب کا جو تماشا دیکھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ان کی حیرت سے بھری عقیدت کا جو حال اس کے دیکھنے میں آیا، اس نے اس کے دل پر بڑا اثر کیا، قریش سے جا کر کہا کہ میں نے قیصر و کسریٰ اور نجاشی کے دربار دیکھے ہیں۔ عقیدت اور محبت کی یہ تصویر مجھ کو کہیں نظر نہیں آئی۔ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بات کرتے ہیں تو ہر طرف سناٹا چھا جاتا ہے۔ کوئی ادب سے نظر بھر کر ان کی طرف نہیں دیکھا۔ وضو کرنے میں جو قطرے گرتے ہیں، عقیدت مند ان کو لے کر ہاتھ اور چہرے پر ملتے ہیں۔
اس پر بھی بات نا تمام رہی۔ آپؐ نے پھر ایک سفیر بھیجا۔ قریش نے اس پر حملہ کیا لیکن وہ بچ گیا۔ اب قریش نے لڑنے کو ایک دستہ بھیجا۔ مسلمانوں نے اس کو پکڑ لیا، لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چھوڑ دیا اور معافی دی اور حضرت عثمانؓ کو سفیر بنا کر مکے بھیجا۔ وہ اپنے ایک عزیز کی حمایت میں مکے گئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیغام سنایا۔ قریش نے ان کو قید کر لیا اور مسلمانوں تک یہ خبریوں پہنچی کہ حضرت عثمانؓ شہید کر دئیے گئے۔ مسلمانوں میں بڑا جوش پیدا ہوا۔ آپؐ نے فرمایا عثمانؓ کے خون کا بدلہ لینا فرض ہے۔ یہ کہہ کر ببول کے ایک درخت کے نیچے بیٹھ گئے اور صحابہؓ سے جانثاری کی بیعت لی۔ اسی کا نام ’’بیعت رضوان‘‘ ہے خدا کی خوشنودی کی بیعت۔ کیونکہ اس کے بارے میں خدا نے قرآن میں اپنی خوشنودی ظاہر فرمائی ہے۔
بعد کو معلوم ہوا کہ حضرت عثمانؓ کی شہادت کی خبر صحیح نہ تھی لیکن مسلمانوں کے اس جوش و خروش اور صداقت کا یہ اثر ہوا کہ قریش ہمت ہار گئے۔ انہوں نے اپنا ایک سفیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بھیجا اور پہلی شرط یہ پیش کی کہ مسلمان اس سال واپس چلے جائیں اور اگلے سال آئیں اور تین دن رہ کر واپس جائیں۔ کچھ رد و بدل کے بعد لڑائی دس سال کے لیے موقوف ہوئی اور یہ شرطیں منظور ہوئیں کہ مسلمان اس سال واپس جائیں اور اگلے سال تین دن کے لیے آئیں۔ تلوار کے سوا کوئی ہتھیار ساتھ نہ ہو اور تلواریں بھی میان میں ہوں۔ جاتے وقت مکے میں جو مسلمان رہ گئے ہیں، ان کو اپنے ساتھ نہ لے جائیں، قریش میں سے کوئی مسلمان ہو کر مدینے چلا جائے تو واپس کر دیا جائے اور کوئی مسلمان مدینہ چھوڑ کر مکہ چلا آئے تو واپس نہ کیا جائے۔ عرب کے قبیلوں میں سے جو جس فریق کے ساتھ چاہے معاہدے میں شریک ہو جائے۔ اس معاہدے کے بعد مسلمان مدینے واپس چلے گئے ۔
اسلام کی جیت
معاہدے کی یہ شرطیں گو ظاہر میں کڑی تھیں اور اسی لیے جوش میں بھرے ہوئے کچھ مسلمانوں کو ان کے ماننے میں تامل ہو رہا تھا مگر جب خود خدا کا رسولؐ ان کو مان چکا تھا تو پھر کس کو انکار کی جرات ہو سکتی تھی۔ چند ہی دنوں کے بعد یہ معلوم ہو گیا کہ یہ شرطیں اسلام کے حق میں بے حد فائدے کی تھیں۔
اب تک مسلمان جس اصول کی خاطر قریش سے مقابلہ کر رہے تھے وہ یہ تھا کہ اسلام کو اپنی اشاعت کی آزادی کا حق ملے اور قریش اس راہ کا روڑا نہ بنیں۔ قریش کو اس کے ماننے سے اب تک انکار تھا۔ حدیبیہ کی صلح نے اس اصول کو منوا لیا اور اسلام کو اپنی اشاعت کی آزادی کا حق مل گیا اور یہی اس کی جیت تھی۔ خود خدا نے قرآن میں یہ آیت اتاری:
انا فتحنالک فتحا مبینا
’’ہم نے تجھے کھلی ہوئی فتح عنایت کی‘‘
دنیا کے بادشاہوں کو اسلام کی دعوت
اسلام کو اپنی زندگی کے انیسویں برس میں یہ موقع ملا کہ وہ دنیا کو اطمینان کے ساتھ اپنا پیغام سنا سکے۔ اس زمانے میں لوگ اپنے اپنے رئیسوں اور بادشاہوں کے تابع ہوتے تھے، جو وہ کرتے تھے وہ سب کرتے تھے۔ اس لیے آپؐ نے ایک دن مسلمانوں کو جمع کر کے فرمایا، لوگو! خدا نے مجھ کو ساری دنیا کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ اب وقت آیا ہے کہ تم اس رحمت کو دنیا والوں میں بانٹو، اٹھو اور حق کا پیغام ساری دنیا کو سناؤ۔
اس کے بعد آپؐ نے اپنے ساتھیوں میں سے چند ہوشیار مسلمانوں کو چنا اور ان کو اسلام کی دعوت کے خط دے کر آس پاس کے رئیسوں اور بادشاہوں کے پاس بھیجا، عرب کے رئیسوں کو چھوڑ کر عرب سے ملی ہوئی بادشاہتیں یہ تھیں حبشہ، ایران، روم اور مصر۔
حبش کے بادشاہ نے اسلام قبول کیا۔ ایران کے بادشاہ نے اس خط کو غصے سے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ آپؐ نے فرمایا اللہ یوں ہی اس کے ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کرے گا۔ یہ پیش گوئی حرف بہ حرف پوری ہوئی۔ مصر کے بادشاہ نے گو اسلام قبول نہیں کیا، لیکن حضورؐ کے خط کا جواب شائستگی سے دیا۔ روم کا قیصر اس وقت ساری مشرقی عیسائی دنیا کا بادشاہ تھا۔ اس نے خط پا کر حکم دیا کہ حجاز کے سوداگر، اگر کہیں ملیں تو ان کو بلواؤ۔ کیا عجیب بات ہے کہ اس کام کے لیے وہ شخص ہاتھ آیا جو اس وقت اسلام کا سب سے بڑا دشمن تھا (ابو سفیان) وہ اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ قیصر کے دربار میں حاضر کیے گئے۔ قیصر نے ان سے کہا تم سے جو کچھ پوچھتا ہوں، تم میں سے ایک آدمی جواب دے اور باقی سنیں۔ اگر یہ کچھ غلط کہے تو تم ٹوک دو۔ یہ کہہ کر اس نے پوچھا اور ابو سفیان نے جواب دیا۔
مکالمہ
*قیصر: یہ جو پیغمبر ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اس کا خاندان کیسا ہے؟
** ابو سفیان: شریف
* قیصر: اس کے خاندان میں سے کسی اور نے بھی کبھی پیغمبر ہونے کا دعویٰ کیا ہے؟
* ابو سفیان: نہیں۔
*قیصر: جنہوں نے اس کے مذہب کو قبول کیا ہے وہ کمزور لوگ ہیں یا بڑے بڑے رئیس۔
**ابو سفیان: کمزور
* قیصر: اس کے ماننے والے بڑھ رہے ہیں یا گھٹ رہے ہیں؟
** ابو سفیان: بڑھتے جا رہے ہیں۔
* قیصر: کبھی تم لوگوں کو اس کے جھوٹ بولنے کا تجربہ بھی ہوا ہے؟
** ابو سفیان: نہیں
* قیصر: کیا وہ کبھی قول و قرار سے بھی پھر گیا ہے؟
**ابو سفیان: اب تک تو ایسا نہیں ہوا۔ اب جو معاہدہ اس سے ہوا ہے دیکھیں وہ اس کو پورا کرتا ہے یا نہیں؟
* قیصر: کیا تم کبھی اس سے لڑے بھی ہو؟
** ابو سفیان: ہاں!
*قیصر: لڑائی کا نتیجہ کیا رہا؟
** ابو سفیان: کبھی ہم جیتے، کبھی وہ۔
* قیصر: وہ کیا کہتا ہے؟
** ابو سفیان:وہ کہتا ہے کہ ایک خدا کو مانو اور اسی کو پوجو، اسی سے دعائیں مانگو، نماز پڑھو، پاکباز بنو، سچ بولو، رشتوں کا حق ادا کرو۔
قیصر ، ابو سفیان کے یہ سب جواب سن کر بول اٹھا کہ اگر تم نے سچ سچ کہا ہے تو ایک دن ایسا آئے گا کہ وہ میرے پاؤں کے نیچے کی اس مٹی پر بھی قبضہ کر لے گا اگر ہو سکتا تو میں جاتا اور اس کے پاؤں دھوتا۔ ایک دشمن کی زبان سے اتنی سچی شہادت کی مثال کہیں اور مل سکتی ہے؟
عرب کے کئی رئیسوں نے اسلام کو قبول کیا۔ بحرین میں اسلام کاپیام اس سے پہلے پہنچ چکا تھا اور عبد القیس کا قبیلہ یہاں مسلمان ہو چکا تھا۔ حبش کو جانے والے مسلمانوں کے ذریعے سے اس ملک میں بھی یہ مذہب پھیل رہا تھا بلکہ یمن کے کناروں تک اس کی آواز پہنچ چکی تھی۔ وہاں اوس کا قبیلہ بہت پہلے سے مسلمان ہو چکا تھا۔ اشعر کا قبیلہ بھی اسلام کا نام لینے لگا تھا۔ عمرو بن عنبسہ جو سلیم کے قبیلے سے تھے، گو مکہ ہی کے زمانے میں مسلمان ہو چکے تھے، اب جا کر جب ان کو لوگوں کی زبانی مدینے میں اسلام کی ترقی معلوم ہوئی تو مدینہ آ کر اپنے اسلام کا اعلان کیا۔ ان کے مسلمان ہونے کا قصہ بڑا دلچسپ ہے۔
ان کو کسی طرح پتہ چلا کہ مکے میں کوئی پیغمبر پیدا ہوا ہے۔ وہ اس کے مشتاق ہو کر مکہ پہنچے۔ یہاں اس وقت کافروں کا بڑا نرغہ تھا۔ مگر وہ چھپ کر کسی طرح آپؐ کی خدمت میں پہنچ گئے اور پوچھا: آپؐ کون ہیں؟ فرمایا ’’میں پیغمبر ہوں‘‘۔ بولے پیغمبر کس کو کہتے ہیں؟ ارشاد ہوا کہ ’’مجھے خدا نے پیغام دے کر بھیجا ہے‘‘۔ دریافت کیا کہ کیا پیغام دے کر بھیجا ہے؟ فرمایا ’’یہ پیغام کہ قرابت کا حق ادا کیا جائے، بت توڑے جائیں، خدا کو ایک مانا جائے اور کسی کو خدا کا شریک نہ ٹھہرایا جائے‘‘۔ عمرو نے پوچھا ’’اب تک آپؐ کے مذہب کے ماننے والے کتنے ہیں؟‘‘ فرمایا ایک آزاد (ابو بکرؓ) اور ایک غلام (حضرت بلالؓ)۔ عمرو نے کہا ’’میں آپ کے مذہب میں آنا چاہتا ہوں‘‘۔ فرمایا ’’ابھی تو ایسا نہیں ہو سکتا۔ تم دیکھتے ہو کہ لوگوں کا کیا حال ہے۔ ابھی اپنے گھر واپس جاؤ۔ جب میری کامیابی کا حال سننا تو آنا‘‘۔ اس خدا کے بندے کو اب جب پیغمبر علیہ السلام کی کامیابی کا حال معلوم ہوا تو دوڑ کر آیا۔
غفار کا آدھا قبیلہ حضرت ابو ذر غفاریؓ کے کہنے سے پہلے مسلمان ہو چکا تھا اور آدھا اس وقت مسلمان ہوا جب آپؐ مدینہ آئے۔ جہینہ کے قبیلے کے ایک ساتھ ایک ہزار کی جمعیت نے اسلام قبول کیا۔ اسی طرح اسلم، مزینہ اور اشجع کے قبیلوں نے اس سچائی کی آواز کو سنا اور قبول کیا۔ حدیبیہ کی صلح اسلام کی فتح کا نقارہ تھا۔ غرض تو یہ تھی کہ لڑائی بھڑائی دور ہو، دشمنی اور عداوت کا جذبہ ٹھنڈا ہو اور مخالفت کا رنگ پھیکا پڑے۔ اور لوگوں کو اسلام کے روحانی انقلاب کے دیکھنے اور اسلام کی تعلیم سمجھنے کا موقع ملے۔ حدیبہ کی صلح نے یہ موقع بہم پہنچایا۔ کافروں کو مسلمانوں سے ملنے جلنے، ان کی باتیں سننے اور ان پر غور کرنے کا موقع ملا۔ تو نتیجہ یہ ہوا کہ دو برس کے اندر اندر مسلمانوں کی تعداد دوگنا ہو گئی۔ خود مکہ کے ہر گھر میں اسلام پہنچ چکا تھا۔
قریش کے دو بڑے جرنیل خالد اور عمرو بن العاص تھے۔،جن کے بارے میں آپ پڑھ چکے ہیں کہ احد کے میدان میں صرف خالد کی جنگی مہارت نے مسلمانوں کی جیتی ہوئی لڑائی ہرا دی۔ حدیبیہ کی صلح ہو چکی تو وہ مکے سے نکل کر مدینے کو روانہ ہوئے۔ راستے میں عمرو بن العاص ملے۔ پوچھا کہ کدھر کا قصد ہے؟ بولے کہ مسلمان ہونے جا رہا ہوں۔ عمرو نے کہا میرا بھی ارادہ ہے۔ دونوں ایک ساتھ مدینہ پہنچے اور اسلام کا کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گئے۔ آگے چل کر ان میں ایک (خالد) وہ ہوا جس نے شام کا ملک قیصر سے چھین لیا اور دوسرے (عمرو) نے مصر کی سلطنت رومیوں سے لے کر اسلام کے قدموں میں ڈال دی۔
ایک روایت میں ہے کہ حضرت عمرو بن العاصؓ کے دل پر اسلام کا اثر یوں پڑا کہ جن دنوں میں اسلام کا قاصد اسلام کا پیغام لے کر حبش کے بادشاہ نجاشی کے دربار میں پہنچا تو عمرو وہیں تھے۔ انہوں نے دیکھا کہ حبش کا بادشاہ اس سلطنت کے باوجود اسلام کا کلمہ پڑھنے لگا تو ان پر بڑا اثر ہوا۔ آخر وہ اس اثر کو چھپا نہ سکے اور مکہ واپس آ کر مسلمان ہو گئے۔
قیصر کے دربار میں ابو سفیان نے اسلام کی صداقت کا جو منظر دیکھا وہ بھی بے اثر نہیں رہا مگر پھر بھی ابھی وقت کا انتظار تھا۔
یہود کا آخری قلعہ خیبر (آخری سن ۶ ھ یا شروع سن ۷ ھ)
اب یہود کی آبادی حجاز کے ہر گوشے سے سمٹ کر حجاز کے آخری کنارہ پر ملک شام کے قریب خیبر میں اکٹھی ہو گئی تھی۔ یہاں ان کی بڑی بڑی کوٹھیاں اور قلعے تھے اور اب یہاں یہود اسلام کے مقابلے میں آخری سہارا لینے کے لیے زور لگا رہے تھے۔ ان کا ایک سردار ابو رافع سلام بن ابی الحقیق جو حجاز کا سوداگر کہلاتا تھا، سن ۶ ھ میں غطفان وغیرہ قبیلوں کو لے کر مدینے پر دھاوا کرنے کا ارادہ کر رہا تھا کہ ایک انصاری مسلمان کے ہاتھ سے اپنے قلعے میں سوتا ہوا مارا گیا۔
سلام کی جگہ اب اسیر بن زارم نے لی۔ اس نے بھی ان ہی قبیلوں میں دورہ کر کے ایک بھاری فوج تیار کی۔ مدینے میں خبر پہنچی تو آپؐ نے تحقیق کے لیے آدمی بھیجے، انہوں نے آ کر تصدیق کی۔ آپؐ نے صلح کے لیے آدمی بھیجے اور اسیر کو مدینہ بلایا کہ صلح پکی ہو جائے، وہ تیس آدمیوں کو لے کر آ۔ راستے میں اس کے دل میں کیا بات آئی کہ چاہا کہ مسلمان دستے کے افسر کے ہاتھ سے تلوار چھین لے۔ اس پر دونوں طرف تلواریں چلیں اور اسیر اس میں کام آیا۔
اب خیبر والوں نے غطفان والوں کو نخلستان کی آدھی پیداوار دینے کا لالچ دے کر اپنے ساتھ ملا لیا۔ غطفان کے ایک قبیلے بنو فزارہ نے یہ ہمت کی کہ محرم سن ۷ ھ میں مدینے کی چراگاہ پر حملہ کیا اور ایک مسلمان کو قتل کیا۔
اب مسلمانوں کے صبر کا پیمانہ بھر گیا۔ خیبر کے حملے کا اعلان ہوا۔ سولہ سو مسلمان جہاد کے شوق میں آپؐ کے ساتھ مدینے سے روانہ ہوئے۔ فوج کے ساتھ کچھ مسلمان بیبیاں بھی آئی تھیں، تاکہ پیاسوں کو پانی پلا سکیں۔ زخمیوں کی مرہم پٹی کر سکیں، لڑائی کے میدان سے تیر اٹھا اٹھا کر لائیں۔ یہ پہلا موقع تھا کہ اسلام کی فوج نے پھریرا اڑایا۔ تین جھنڈے تیار ہوئے۔
ایک خبابؓ بن منذر کو اور دوسرا حضرت سعد بن عبادہؓ کو اور تیسرا جس کا پھریرا حضرت عائشہؓ کی اوڑھنی سے بنایا گیا تھا، اسلام کے شیر حضرت علی مرتضیٰؓ کے سپرد ہوا۔ راستہ میں اس مقدس فوج کا ترانہ یہ تھا:
’’خداوندا! گر تو نہ ہوتا تو ہم کو یہ ہدایت نہ ملتی، ہماری جانیں قربان، ہم کو معاف کر دے اور ہم پر تسلی اتارا ور ہمارے قدم جما، ظالموں نے ہماری طرف ہاتھ بڑھائے ہیں اور فتنہ کھڑا کرنا چاہا ہے، تو ہم ان سے دبنے والے نہیں۔ تیری مہربانی سے ہم بے نیاز نہیں ہو سکتے‘‘۔
ایمان کا یہ جوش سے بھرا ہوا دریا یوں امنڈا ہوا چلا جا رہا تھا کہ رات کے اندھیرے میں خیبر کے قلعے سے جا کر ٹکرایا۔ موقع تھا کہ رات کی تاریکیوں میں ان پر حملہ کر دیا جاتا لیکن آپؐ نے ایسا نہیں کیا اور حکم دیا کہ صبح کا انتظار کیا جائے۔ صبح ہوئی اور یہودیوں نے حسب معمول قلعوں کے پھاٹک کھولے تو سامنے فوج پڑی دیکھی۔ پکار اٹھے کہ محمدؐ کی فوج! آپؐ اب تک لڑنا نہیں چاہتے تھے اس لیے اب بھی حملے کا حکم نہیں دیا۔ لیکن یہودیوں نے صلح کے بجائے لڑائی کی ٹھانی۔ یہ دیکھ کر آپؐ نے مسلمانوں کو پہلے نصیحتیں فرمائیں۔ پھر جہاد کا حکم سنایا۔ مسلمانوں نے پہلے ناعم نامی قلعے پر دھاوا کیا۔ محمود بن مسلمہؓ ایک بہادر مسلمان اس دستے کے افسر تھے، وہ بہت اچھی طرح لڑے لیکن گرمی کے دن تھے ۔ وہ ذرا دم لینے کو قلعے کی دیوار کے سائے میں بیٹھ گئے۔ یہودی سردار کنانہ چپکے سے دیوار کے اوپر چڑھ گیا اور وہاں سے چکی کا پاٹ ان کے سر پر گرایا جس کے صدمے سے وہ شہید ہو گئے لیکن اس قلعے کے دروازے مسلمانوں نے کھول لیے۔ قموص کے قلعے پر مرحب نامی ایک مشہور یہودی بہادر مقرر تھا۔ اس کے مقابلے کے لیے کئی روز تک بڑے بڑے صحابہؓ فوجیں لے کر گئے لیکن فتح کا فخر کسی اور کی قسمت میں تھا۔ جب لڑائی زیادہ بڑھی تو ایک دن شام کو آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ ’’کل کا جھنڈا اسی شخص کو دوں گا جس کے ہاتھ پر خدا فتح دے گا اور جو خدا اور خدا کے رسولؐ کو چاہتا ہے اور خدا اور خدا کے رسولؐ اس کو چاہتے ہیں‘‘۔ یہ رات امید اور انتظار کی رات تھی۔ بڑے بڑے صحابیوںؓ نے ساری رات اس انتظار میں کاٹی کہ دیکھئے فخر کی یہ دولت کس کے ہاتھ آتی ہے۔
صبح ہوئی تو ناگاہ کانوں میں آواز آئی ’’علی کہاں ہے؟‘‘ ان کی آنکھوں میں درد تھا، وہ بلائے گئے۔ آپؐ نے ان کی آنکھوں میں اپنے منہ مبارک کا لعاب لگایا اور دعا فرمائی اور خیبر کی فتح کا جھنڈا عنایت ہوا۔ عرض کی کہ ’’کیا یہود کو لڑ کر مسلمان بنا لو‘‘۔ فرمایا ’’نرمی کے ساتھ ان کے سامنے اسلام کو پیش کرو، اگر ایک آدمی بھی تمہاری ہدایت سے مسلمان ہو جائے تو یہ سرخ اونٹوں کی دولت سے بہتر ہے۔
مرحب قلعہ سے اپنی بہادری کا گیت گاتا ہوا نکلا۔ ’’خیبر جانتا ہے کہ میں مرحب ہوں، اسلحہ میں ڈوبا ہوا تجربہ کار بہادر ہوں‘‘۔ مرحب کے جواب میں خدا کے شیر نے یہ شعر پڑھا:
میں وہ ہوں کہ میری ماں نے میرا نام شیر رکھا تھا۔ جنگل کے شیر کی طرح ڈراؤنا ہوں‘‘۔
خدا کے شیر نے اس زور سے تلوار ماری کہ اس کے سر کو کاٹتی ہوئی دانتوں تک اتر آئی۔ مرحب مارا گیا اور قلعے کا پھاٹک مسلمانوں کے ہاتھوں میں تھا۔
لڑائی میں پندرہ مسلمان کام آئے۔ یہودیوں نے صلح کر لی اور صلح کی شرط یہ ٹھہرائی کہ زمین ہمارے قبضہ میں چھوڑ دی جائے۔ پیداوار کا آدھا حصہ ہم مسلمانوں کو دیا کریں گے۔ یہودیوں کی یہ درخواست منظور ہوئی۔ یہ گویا زمینداری کا پہلا سبق تھا جو یہودیوں نے مسلمانوں کو سکھایا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان پر ترس کھا کر اس کو قبول کیا۔ خیبر کی آدھی زمینوں کی ملکیت لڑنے والے مسلمانوں کو دی گئی اور آدھی اسلامی خزانے کی ملکیت قرار پائی۔ اسی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے جو پانچواں حصہ (خمس) مقرر ہوا جس کی آمدنی آپؐ کے گھر کی ضرورتوں اور اسلام کی دوسری مصلحتوں میں کام آئی۔
سال میں بٹائی کا وقت آتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ صحابی کو خیبر بھیج دیتے۔ وہ جا کر ساری پیداوار کے ڈھیر کو دو برابر حصوں میں بانٹ دیتے اور یہود سے کہتے ان دو میں سے جو چاہو تم لے لو۔ یہود کی آنکھوں کے لیے اس عدل و انصاف کا نظارہ بالکل نیا تھا۔ وہ کہتے تھے کہ : ’’زمین و آسمان اسی عدل سے قائم ہیں‘‘۔
فتح کے بعد آپؐ چند روز خیبر میں ٹھہرے۔ اگرچہ یہود کے ساتھ پوری مراعات برتی گئی تھیں اور ان کو ہر طرح امن و امان بخشا گیا تھا مگر پھر بھی ان کی فطری بد نیتی نے ان کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ ایک یہودی عورت نے آپؐ کی اور آپؐ کے ساتھ آپؐ کے کچھ ہمراہیوں کی دعوت کی اور کھانے میں زہر ملا دیا۔ آپؐ نے لقمہ منہ میں رکھ کر کھانے سے ہاتھ روک لیا اور فرمایا کہ اس کھانے میں زہر ملایا گیا ہے لیکن ایک صحابہؓ نے اس کو اچھی طرح کھایا۔ آپؐ نے اس یہودن کو بلا کر پوچھا تو اس نے جرم کا اقرار کر لیا۔ اس پر بھی آپؐ نے اس کو چھوڑ دیا لیکن جب ان صحابیؓ نے اس زہر سے وفات پائی تو وہ ان کے بدلے میں ماری گئی۔
خیبر کے پاس ہی ایک ترائی تھی جس کو وادی القریٰ کہتے ہیں۔ اس میں تیماء اور فدک وغیرہ یہودیوں کے چند گاؤں تھے، مسلمان ادھر بھی بڑھے، وہاں کے یہود نے خیبر کی شرط پر صلح کر لی۔ اس واقعے پر یہود کی لڑائی کا خاتمہ ہو گیا۔
مدت کی آرزو عمرہ (ذیقعد سن ۷ ھ)
عمرہ ایک قسم کا چھوٹا حج ہے جس میں احرام کے ساتھ کعبے کے گرد گھوم کر اور صفا اور مروہ کی پہاڑیوں کے بیچ میں تیز چل کر کچھ دعائیں پڑھی جاتی ہیں۔ یاد ہو گا کہ پچھلے سال حدیبیہ میں یہ طے پایا تھا کہ اگلے سال مسلمان مکہ آ کر عمرہ ادا کر لیں۔ اس شرط کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عمرے کا اعلان کیا اور مسلمانوں کا بڑا حصہ جوش کے ساتھ روانہ ہو گیا۔ شرط تھی کہ مسلمان ہتھیار اتار کر مکے میں داخل ہوں گے۔ اگرچہ یہ شرط پوری کرنا خطرے سے خالی نہ تھا، مگر مسلمانوں نے خانہ کعبہ کی زیارت کے شوق اور معاہدے کے احترام میں اس شرط کو پورا کیا۔ مکے سے آٹھ میل ادھر سارے ہتھیار اتار کر رکھ دئیے گئے اور دو سو سواروں کا ایک دستہ اس کی حفاظت پر متعین ہوا۔ باقی مسلمانوں نے مکے میں داخل ہو کر جوش و خروش کے ساتھ جھو متے تنتے عمرے کے سب کام پورے کیے۔ تین دن بعد شرط کے مطابق آپؐ مکے سے نکلے۔
مکے سے نکلتے وقت ایک عجیب اثر میں ڈوبا ہوا منظر سامنے آیا۔ حضرت حمزہؓ کی یتیم بچی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چچا چچا کہہ کر پکارتی ہوئی آئی۔ حضرت علیؓ نے اس کو کہ ان کی بہن تھی، گود میں اٹھا لیا۔ حضرت علیؓ کے بھائی حضرت جعفرؓ اور حضرت زید بن حارثہؓ نے اس کے لیے اپنے دعوے الگ پیش کر دئیے۔ حضرت جعفرؓ کہتے تھے کہ میرے چچا کی لڑکی ہے۔ حضرت زیدؓ کہتے تھے کہ حضرت حمزہ میرے مذہبی بھائی تھے۔ کیا یہ ناز و محبت کی لڑائی اسی کے لیے نہیں ہو رہی تھی جو اسلام سے پہلے زندہ زمین میں گاڑ دی جاتی تھی۔ اسلام نے اب لوگوں کے دلوں کو کیسا بدل دیا تھا۔

ایک نیا دشمن

موتہ کی لڑائی (جمادی الاول س ۸ ھ)
اب تک اسلام کو ملک عرب کے اندر کے یہود اور مشرکوں کے قبیلوں سے سامنا تھا۔ اب آگے عیسائی رومیوں کی طاقت اور سلطنت کی دیوار حائل تھی۔ عیسائی رومیوں کی ماتحتی میں ایک عرب خاندان بصریٰ پر حکومت کر رہا تھا۔ اس خاندان کے رئیس نے اس مسلمان قاصد کو جو ان کے پاس اسلام کی دعوت کا خط لے کر گیا تھا، قتل کر دیا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس شہید کا بدلہ لینے کے لیے تین ہزار فوج مدینے سے روانہ کی۔ حضرت جعفرؓ، حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ اور حضرت زید بن حارثہؓ اس میں خاص طور پر بھیجے گئے تھے۔ فوج کی سرداری حضرت زید بن حارثہؓ کو دی گئی۔ ساتھ ہی فرما دیا کہ یہ شہید ہوں تو حضرت جعفرؓ اور وہ بھی مارے جائیں تو حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ فوج کے افسر ہوں گے۔
حوران کے بادشاہ کو خبر لگ چکی تھی۔ اس نے ایک لاکھ کے قریب فوج تیار کی۔ خود روم کے قیصر نے بے شمار نوجوانوں کے ساتھ موآب میں آکر خیمہ ڈالا۔ آپؐ نے مسلمانوں کو تاکید کر دی تھی کہ لڑائی سے پہلے دشمن کو صلح کا موقع دینا اورا سلام کا پیام پہنچا دینا۔ اسلام کی فوج جب قریب پہنچی تو دیکھا کہ تین ہزار مسلمانوں کو لاکھوں کے دل بادل کا سامنا ہے مگر مسلمان تو خدا کی راہ میں اپنی جان ہتھیلیوں پر لیے ہوئے پھرتے تھے، وہ شہادت کے شوق میں ڈرے نہیں۔ حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ نے کہا ہم تعداد کی کمی بیشی اور طاقت کے بھروسے پر نہیں لڑتے۔ ہم تو مذہب کی طاقت سے لڑتے ہیں۔ اس پر تین ہزار کے چھوٹے گروہ نے ایک لاکھ فوج پر حملہ کر دیا۔
حضرت زیدؓ برچھیاں کھا کر شہید ہوئے، ان کی جگہ حضرت جعفرؓ نے آگے بڑھ کر اسلام کا جھنڈا اپنے ہاتھ میں لے لیا اور اس طرح بہادری سے لڑے کہ ایک ہاتھ کٹ گیا تو دوسرے ہاتھ سے جھنڈے کو پکڑ لیا اور دوسرا ہاتھ بھی کٹ گیا تو سینے سے چمٹا لیا۔ آخر تلوار اور برچھیوں کے نوے زخم کھانے کے بعد گرے اور شہادت پائی۔ ان کے بعد حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ نے یہ جھنڈا ہاتھ میں لیا اور وہ بھی شہید ہو گئے۔ اب حضرت خالدؓ خود سے آگے بڑھے اور مسلمانوں کی کمان اپنے ہاتھ میں لی اور اس بہادری سے لڑے کہ دشمن کو گو زیر نہ کر سکے مگر مسلمانوں کو ان کی زد سے نکال لائے۔

کعبہ کی چھت پر اسلام کا جھنڈا

مکہ مکرمہ کی فتح (رمضان المبارک سن ۸ ھ)
حضرت ابراہیم ؑ کے لائے ہوئے دین کا سب سے پہلا فرض یہ تھا کہ وہ حضرت ابراہیم ؑ کی بنائی ہوئی دنیا کی سب سے پہلی مسجد کعبہ کو جو اسلام کا قبلہ اور دین کا مرکز تھی، بتوں کی گندگی سے پاک کرے، اب تک جو کچھ ہوا، ظاہر میں وہ اس فرض سے الگ تھا مگر حقیقت یہ ہے کہ جو کچھ ہوتا رہا اور جس کی خاطر یہ خون کی ندیاں بہتی رہیں وہ سب اسی کی پہل تھی کیونکہ مکہ پر قبضہ کیے اور کافروں کی ننگی تلواروں کو توڑے بغیر ان بتوں کو توڑ کر حرم کے صحن سے باہر نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اب جبکہ ان باطل معبودوں کی حفاظت کے لیے جو تلواریں بلند تھیں وہ جھک چکیں، تو اب وقت آیا کہ کعبہ کو ان نجاستوں سے پاک کرنے میں دیر نہ کی جائے۔
حدیبیہ کی صلح کے سبب سے خود سے مسلمان اب مکے پر حملہ نہیں کر سکتے تھے، مگر خدا کی قدرت دیکھئے کہ اس کا موقع خود مکے والوں نے پیدا کر دیا۔ حدیبیہ کی صلح کی رو سے کچھ قبیلوں نے مکے والوں کا ساتھ دیا اور کچھ مسلمانوں کے ساتھ تھے۔ ان میں سے خزاعہ کا قبیلہ مسلمانوں کے ساتھ تھا اور ان کے دشمن بنو بکر قریش سے ملے ہوئے تھے۔ معاہدے کی رو سے قریش کے ساتھیوں میں سے کسی کا مسلمانوں کے کسی ساتھی قبیلے پر حملہ کر دینا معاہدے کو توڑ دینا تھا۔ خزاعہ اور بنو بکر میں ایک زمانے سے لڑائیاں چلی آتی تھیں۔ جب تک اسلام سے مقابلہ رہا، سب ملے رہے، اب جب حدیبیہ کی صلح نے مطمئن کر دیا تو بنو بکر سمجھے کہ اب دشمن سے بدلہ لینے کا وقت آ گیا، یک بیک انہوں نے خزاعہ پر حملہ کر دیا۔ قریش کے بہت سے بہادروں نے راتوں کو صورتیں بدل بدل کر خزاعہ پر تلوار چلائیں۔خزاعہ نے حرم میں پناہ لی، مگر وہاں بھی ان کو پناہ نہ مل سکی۔ شرط کے مطابق مسلمانوں پر ان کی مدد فرض تھی۔ خزاعہ کے چالیس شتر سواروں نے فریاد لے کر مدینہ کی راہ لی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے واقعہ سنا تو آپؐ کو بہت رنج ہوا۔ آپؐ نے قریش کے پاس قاصد بھیجا اور تین شرطیں پیش کیں کہ ان میں سے وہ کوئی منظور کر لیں۔
۱۔ خزاعہ کے جو لوگ مارے گئے ہیں ان کے خون کے بدلے میں روپیہ ادا کریں ۔
۲۔ بنو بکر کی حمایت سے وہ الگ ہو جائیں۔
۳۔ اعلان ہو جائے کہ حدیبیہ کا معاہدہ ٹوٹ گیا ہے۔
قریش کے سردار نے قریش کی طرف سے تیسری بات منظور کر لی یعنی یہ کہ حدیبیہ کا معاہدہ اب باقی نہیں رہا لیکن قاصد کے چلے جانے کے بعد قریش بہت پچھتائے اور انہوں نے ابوسفیان کو اپنا سفیر بنا کر مدینے بھیجا کہ حدیبیہ کے معاہدے کو پھر سے تازہ کر لے۔ ابو سفیان نے مدینے آ کر پہلے نبوت کی بارگاہ میں عرض کی۔ وہاں سے کوئی جواب نہ ملا تو حضرت ابو بکرؓ سے کہا، انہوں نے انکار کیا تو وہ حضرت عمرؓ کے پاس آیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ مجھ سے نہیں ہو سکے گا۔ پھر وہ حضرت علیؓ کے پاس گیا۔ انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم جو طے کر چکے ہیں، اس کے بارے میں ان کو کچھ اور مشورہ نہیں دے سکتا۔ بہتر ہے کہ تم مسجد میں جا کر اعلان کر دو کہ میں حدیبیہ کی صلح کو پھر بحال کرتا ہوں۔ اس نے یہی کہا۔
ابو سفیان نے جا کر لوگوں سے یہ واقعہ بیان کیا، سب نے کہا ’’نہ یہ صلح ہے کہ ہم اطمینان سے بیٹھیں اور نہ یہ جنگ ہے کہ لڑائی کا سامان کریں‘‘۔
آنحضرت صلی علیہ وآلہ وسلم نے مکے کی تیاریاں شروع کر دیں، اور احتیاط کی کہ مکے والوں کو پتہ نہ چلے۔ ۱۰ رمضان المبارک کو دس ہزار فوجیں مکے کی طرف بڑھیں۔ مکے سے ایک منزل ادھر اتر کر رات کو پڑاؤ ڈالا۔ قریش کو خبر نہ تھی ابو سفیان کے دوسردار پتہ لگانے کو نکلے۔ کچھ دور نکلے تو دیکھا کہ باہر ایک فوج پڑی ہے۔ آنحضرت صلی علیہ وآلہ وسلم کے چچا حضرت عباسؓ کو جو مکے سے نکل کر پہلے ہی راستے میں آنحضرت صلی علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پہنچ چکے تھے، مکہ والوں کی حالت پر رحم آیا اور یہ سوچ کر کہ اگر فوج کے مکہ میں داخلے سے پہلے مکے والے خود آ کر امن مانگ لیں تو ان کی مصیبت دور ہو جائے گی۔ وہ آنحضرت صلی علیہ وآلہ وسلم کے خیمے سے نکلے اور آپؐ کی سواری پر بیٹھ کر مکہ کی راہ لی۔ ابھی کچھ ہی دور چلے تھے کہ ابو سفیان وغیرہ مل گئے۔ ان کو بتایا کہ اسلام کا لشکر مکہ کے پاس پہنچ گیا، اب قریش کی خیر نہیں۔ ابو سفیان نے مشورہ پوچھا۔ فرمایا تم میرے ساتھ چلے آؤ، وہ ساتھ ہو لیے۔ حضرت عباسؓ ان کو رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں لے چلے۔ راہ میں حضرت عمرؓ نے دیکھ کر کہا ’’کفر کا سردار اب ہمارے قبضے میں ہے‘‘ اور یہ کہہ کر جھپٹے، مگر حضرت عباسؓ اس کو لے کر جلدی سے آنحضرت صلی علیہ وآلہ وسلم کے خیمے میں گھس گئے اور عرض کی یا رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم میں نے ابو سفیان کو پناہ دی ہے۔ یہ کون ابو سفیان تھا؟ وہی جس نے اسلام کے خلاف بدر کے بعد سے لے کر اب تک ساری لڑائیاں کھڑی کی تھیں۔ عرب کے قبیلوں کو ابھار ابھار کر بار بار مدینے پر چڑھا کر لایا تھا۔ جس نے حضرت محمد مصطفی ؐ کے قتل کی سازشیں کی تھیں۔ اب وہ مسلمانوں کے پنجے میں تھا اور اپنے ہر جرم کی سزا کا مستحق تھا۔ لیکن اسلام کا رحمت مجسم رسولؐ ان سب سے درگزر کر کے اس کو اسلام کی بشارت سناتا ہے اور اتنا ہی نہیں بلکہ اس کے لیے یہ فخر کا خلعت عطا فرماتا ہے کہ اعلان عام کر دیا جاتا ہے کہ ’’آج جو ابو سفیان کے گھر میں پناہ لے گا، اس سے کوئی باز پرس نہیں‘‘ یہ رحمت اور عام ہوتی ہے، ارشاد ہوتا ہے کہ جو اپنا گھر بند کر لے گا، اس کو بھی امن ہے۔
حضرت عباسؓؓ کو حکم ہوا کہ ابو سفیان کو پہاڑ کی چوٹی پر لے جا کر ذرا اسلامی لشکر کا سیلاب دکھاؤ، تھوڑی دیر کے بعد اسلام کی فوجیں جوش مارتی ہوئی آگے بڑھیں، سب سے پہلے قبیلہ غفار کا پرچم نظر آیا، پھر جہینہ، ہذیم اور سلیم کے قبیلے ہتھیاروں میں ڈوبے ہوئے تکبیر کے نعرے مارتے ہوئے نکل گئے۔ ابو سفیان ہر دفعہ ڈر جاتا تھا۔ سب کے بعد انصار کا قبیلہ اس ساز و سامان سے آیا کہ پہاڑی گونج اٹھی۔ حضرت سعد بن عبادہؓ کے ہاتھ میں انصار کا جھنڈا تھا۔ ابو سفیان نے حیرت سے پوچھا! یہ کون لشکر ہے؟ حضرت عباسؓ نے نام بتایا، آخر میں خود رسالت کا آفتابؐ نظر آیا، جس کے چاروں طرف جانثاروں کا ہالہ تھا۔ حضرت زبیرؓ کے ہاتھوں میں اس کا جھنڈا تھا۔
یہ پورا لشکر جب مکہ کے پاس پہنچا تو امن کی منادی ہوئی، اور حرم کا گھر جو تین سو ساٹھ بتوں کا مسکن تھا۔ اس گندگی سے پاک ہوا اور حضرت ابراہیم ؑ کے خدا کا گھر اب پھر خدا کا گھر بنا اور توحید کی اذان مسجد کے مینارے سے بلند ہوئی۔ مکے کے بڑے بڑے سردار جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دشمن، مسلمانوں کے قاتل اور اسلام کی راہ کے پتھر تھے۔ آج حرم کے صحن میں تھے۔ حضورؐ نے ایک نظر اٹھا کر دیکھا اور پوچھا کہ اے مکہ کے سردارو! آج میں تمہارے ساتھ کیا برتاؤ کروں گا۔ سب نے کہا آپ جوانوں کے شریف بھائی اور بوڑھوں کے شریف بھتیجے ہیں۔ ارشاد ہوا ’’جاؤ آج تم پر کوئی ملامت نہیں۔ تم سب آزاد ہو‘‘۔ یہ آواز کیسی توقع کے خلاف تھی مگر یہ دل کی گہرائی سے اٹھی اور دل کی گہرائیوں میں اتر گئی۔ ہند، ابو سفیان کی بیوی جس نے احد کے میدان میں حضرت حمزہؓ کی لاش کے ٹکڑے کیے تھے، نقاب اوڑھ کر سامنے آتی ہے اور حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے عام معافی کے پیغام سے خوش ہو جاتی ہے کہ ’’اے اللہ کے رسولؐ! آج سے پہلے مجھے آپؐ کے خیمے سے زیادہ کسی خیمے سے نفرت نہ تھی مگر آج سے آپ کے خیمے سے زیادہ کوئی خیمہ پیارا معلوم نہیں ہوتا‘‘۔
آج کفر کی ساری قوتیں ٹوٹ گئیں، دشمنوں کے سارے منصوبے ناکام ہو گئے اور اسلام کی فتح کا جھنڈا مکہ کی چہار دیواروں پر بلند ہو گیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس موقعے پر تاثیر میں ڈوبی ہوئی یہ تقریر فرمائی:
’’ایک کے سوا اور کوئی خدا نہیں، اس کی خدائی میں کوئی دوسرا شریک نہیں۔ اس نے اپنا وعدہ سچا کیا، اس نے اپنے بندے کی مدد کی، اور آخر اس نے کفر کے سارے جتھوں کو اکیلے توڑ دیا۔
ہاں! آج کفر کے سارے فخر اور غرور، خون کے سب پرانے کینے اور جاہلیت کے سارے بدلے اور سارے دعوے میرے پاؤں کے نیچے ہیں۔ صرف دو عہد باقی رہیں گے، خانہ کعبہ کی تولیت اور حاجیوں کو پانی پلانے کی خدمت۔
اے قریش کے لوگو! خدا نے اب جاہلیت کے غرور اور باپ دادوں پر فخر کو مٹا دیا۔ اب حضرت آدم ؑ کی ساری نسل برابر ہے۔ تم سب ایک آدم ؑ کے بیٹے ہو اور آدم ؑ مٹی سے بنے تھے۔ خدا فرماتا ہے:
’’لوگو! میں نے تم سب کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور میں نے تم کو قبیلوں اور خاندانوں میں اس لیے بنایا کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ تم میں خدا کے نزدیک سب سے شریف وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے‘‘۔ (الحجرات: ۱۳)
’’آج سے اللہ نے شراب کی خرید و فروخت اور سود کے کاروبار کو حرام ٹھہرایا‘‘۔
اس وقت کعبہ اور حرم کی حدود میں ہبل، لات، منات وغیرہ بڑے بڑے بت کھڑے تھے۔ آج ان کی جھوٹی خدائی کی مدت پوری ہو گئی۔ مسلمانوں کے ایک ہاتھ کے اشارے میں اب وہ پتھر کے ڈھیر تھے اور ہر جگہ توحید کا نعرہ بلند تھا۔
ہوازن اور ثقیف کا معرکہ (شوال المکرم سن ۸ ھ)
مکہ جو حجاز کی راجدھانی اور عرب کی مذہبی جگہ تھی، جب اس کی چھت پر اسلام کا جھنڈا بلند ہوا تو سارے عرب نے اس کو دین اسلام کی سچائی کا نشان مان لیا اور ہر طرف سے لوگ کفر کے پھندے سے نکل نکل کر اسلام کی امان میں آ رہے۔ مگر مکہ کے قریب ہوازن اور ثقیف دو ایسے طاقتور قبیلے تھے، جو کسی دوسرے قبیلے کی ماتحتی کے ننگ کو گوارا نہیں کرنا چاہتے تھے۔ ہوازن کے قبیلے کے سرداروں نے اوروں کو بھی ابھارا اور حنین کے میدان میں اسلام کے خلاف ایک ملا جلا بہت بڑا جتھا اکٹھا کیا، مسلمانوں کی بارہ ہزار فوج جس میں بڑا حصہ قریش کے نو مسلموں کا تھا، بڑے ساز و سامان سے اس کے مقابلے کو نکلی، ہوازن کے لوگ تیر چلانے میں اپنا جواب نہیں رکھتے تھے، ان کی پہلی ہی باڑھ میں مسلمانوں کے پاؤں اکھڑ گئے۔
گو مسلمانوں پر اب تیروں کا مینہ برس رہا تھا اور ان کی بارہ ہزار فوج ہوا ہو گئی تھی، مگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی جگہ پر تھے۔ آپؐ نے اپنی دا ہنی جانب دیکھا اور پکارا۔ اے انصار کے گروہ! آواز کے ساتھ جواب ملا کر ہم حاضر ہیں، پھر آپؐ نے بائیں جانب پکارا اب بھی وہی آواز آئی۔ آپؐ سواری سے اتر پڑے اور جوش کے لہجے میں فرمایا ’’میں ہوں خدا کا بندہ اور اس کا پیغمبرؐ! میں بے شبہ پیغمبر ہوں اور عبد المطلب کا فرزند ہوں‘‘۔ حضرت عباسؓ نے مسلمانوں کو آواز دی، او انصار کے گروہ! اور اے وہ لوگوں جنہوں نے اسلام پر جان دینے کی بیعت کی ہے آگے بڑھو، ان اثر میں ڈوبی ہوئی آوازوں کاکانوں میں پڑنا تھا کہ اسلام کے جانباز پلٹ پڑے اور اس جوش سے بڑھے کہ زرہیں اتار کر پھینک دیں اور گھوڑوں سے کود پڑے۔ اب میدان کا رنگ بدل گیا۔ کافروں کی فوج کائی کی طرح پھٹ گئی اور ان کے لشکر میں بھگدڑ مچ گئی۔
کافروں کی فوج کا کچھ حصہ بھاگ کر طائف میں جمع ہوا۔ طائف میں ثقیف کا قبیلہ اپنے کو قریش کے برابر جانتا تھا۔ ان کا قلعہ بھی بڑا مضبوط تھا اور قلعے میں لڑائی کاسارا سامان بھی تھا۔ انہوں نے قلعہ بند کر کے لڑائی شروع کی۔ مسلمانوں نے قلعے پر بار بار حملے کیے لیکن قلعہ فتح نہیں ہوا۔ مسلمانوں کو اس قلعے کو یوں چھوڑ کر ہٹنا گوارا نہ تھا۔ انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک دن کی مہلت چاہی۔ اجازت ملی تو دوسرے دن بڑے زور سے حملہ کیا مگر کامیابی اب بھی دور تھی۔ مسلمانوں نے عرض کی، اے اللہ کے رسولؐ ان کے حق میں بد دعا کیجیے۔ برکت والے لب ہلے تو یہ لفظ نکلے ’’خداوند! ثقیف کو ہدایت نصیب کر اور ان کو اسلام کے آستانے پر لا‘‘۔ دعا کا یہ تیر نہ چوکا۔ دو سال بھی گزرنے نہ پائے تھے کہ ثقیف کے لوگوں نے خود مدینہ آ کر اسلام کا کلمہ پڑھا۔
مال غنیمت کی تقسیم اور حضور اکرمؐ کی تقریر
طائف کا محاصرہ چھوڑ کر آپؐ نے جعرانہ کے مقام پر پڑاؤ ڈالا۔ لڑائی کی لوٹ کا بہت سا سامان ساتھ تھا۔ چھ ہزار قیدی، چوبیس ہزار اونٹ، چالیس ہزار بکریاں اور چار ہزار اوقیہ چاندی۔ رحم دیکھو کہ قیدیوں کو لے کر آپؐ یہاں انتظار کرتے رہے کہ ان کے عزیز آئیں اور ان کو چھڑا لے جائیں، لیکن کئی دن گزر گئے اور کوئی نہیں آیا، تب لوٹ کے مال کے پانچ حصے کیے گئے۔ چار حصے سپاہیوں میں بٹ گئے اور پانچواں حصہ غریبوں، مسکینوں اور اسلام کے دوسرے ضروری کاموں کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ میں رہا۔
آپؐ نے مکہ اور اطراف مکہ کے بہت سے نو مسلم رئیسوں کو جو ابھی ابھی اسلام لائے تھے، ان کی تسلی اور اطمینان کی خاطر اس لڑائی کے لوٹ کے مال میں سے بہت سا سامان عنایت فرمایا۔ کچھ انصاری نوجوانوں کو جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس خاص بخشش کے بھید سے واقف نہ تھے، یہ غلطی فہمی ہوئی کہ حضور اکرمؐ نے قریش کو انعام دیا اور ہم کو محروم رکھا، حالانکہ لڑائی کا اصل زور ہم ہی نے سنبھالا اور اب تک ہماری تلواروں سے قریش کے خون کے قطرے ٹپکتے ہیں۔ بعض نوجوان انصار بول اٹھے کہ مشکلوں کے وقت ہماری یاد ہوتی ہے اور انعام اوروں کو ملتا ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ چرچے سنے تو انصار کو ایک خیمے میں الگ بلا کر پوچھا کہ کیا تم نے ایسا کہا؟ عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے بڑوں میں سے کسی نے یہ نہیں کہا، البتہ بعض نوجوانوں کے منہ سے یہ فقرے نکلے تھے۔ یہ دریافت فرما لینے کے بعد آپؐ نے ان کے سامنے وہ تقریر فرمائی جس کا ہر فقرہ اثر میں ڈوبا تھا، فرمایا:
’’کیا یہ سچ نہیں کہ تم پہلے راہ سے ہٹے تھے تو خدا نے میرے ذریعے سے تم کو سیدھی راہ دکھائی۔ تم بکھرے ہوئے تھے تو خدا نے میرے ذریعے تم کو ایک کر دیا۔ تم مفلس تھے خدا نے میرے ذریعے تم کو دولت مند بنایا‘‘۔
آپؐ فرماتے جاتے اور ہر فقرہ پر انصار کہتے جاتے تھے کہ خدا اور اس کے رسولؐ کا احسان سب سے بڑھ کر ہے۔ آپؐ نے فرمایا، نہیں تم یہ جواب دے سکتے ہو کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تجھ کو جب لوگوں نے جھٹلایا تو ہم نے تجھ کو سچا مانا۔ تجھ کو جب لوگوں نے چھوڑ دیا تو ہم نے تیرا ساتھ دیا۔ تو مفلس آیا تھا تو ہم نے ہر طرح تیری مدد کی‘‘۔
یہ کہہ کر آپؐ نے فرمایا ’’تم یہ جواب دیتے جاؤ اور میں کہتا جاؤں گا کہ تم سچ کہتے ہو، لیکن اے انصاریو! کیا تم کو یہ پسند نہیں کہ اور لوگ اونٹ اور بکریاں لے کر جائیں اور تم محمدؐ کو لے کر اپنے گھر آؤ‘‘۔
یہ سن کر انصار بے اختیار چیخ اٹھے کہ ’’ہم کو صرف محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم درکار ہیں‘‘۔ اکثر کا یہ حال ہوا کہ روتے روتے داڑھیاں تر ہو گئیں۔ اس کے بعد آپؐ نے انصار کو سمجھایا کہ مکہ کے لوگ چونکہ نئے نئے اسلام لائے تھے اس لیے ان کو جو کچھ ملا، وہ حق کے طور پر نہیں بلکہ اسلام کی نعمت سے ان کو آشنا کرنا مقصود تھا۔
اس درمیان میں قیدیوں کو چھڑانے کے لیے کچھ لوگ آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے، ان میں اس قبیلے کے بھی کچھ لوگ تھے، جن میں دایہ حضرت حلیمہ سعدیہؓ تھیں۔ جن کا بچپن میں آپؐ نے دودھ پیا تھا۔ آپؐ نے فرمایا، عبد المطلب کے خاندان کا جس قدر حصہ ہے وہ تمہارا ہے۔ لیکن قیدیوں کی عام رہائی کی صورت یہ ہے کہ جب نماز کے بعد مجمع ہو تو تم سب کے سامنے اپنی درخواست پیش کرو۔ ظہر کی نماز کے بعد انہوں نے سب مسلمانوں کے سامنے اپنی درخواست پیش کی تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے صرف اپنے خاندان پر اختیار ہے، لیکن میں عام مسلمانوں سے تمہاری سفارش کرتا ہوں۔ یہ سننا تھا کہ سب مسلمان بول اٹھے، ہمارا حصہ بھی حاضر ہے۔ اس طرح چھ ہزار قیدی دفعتاً آزاد تھے۔

رومی خطرہ
تبوک کی لڑائی
اس زمانے میں شام اور مصر کے ملک عیسائی رومیوں کے ہاتھوں میں تھے۔ جن کا پایہ تخت قسطنطنیہ تھا۔ شام کی حدیں حجاز سے ملی ہوئی تھیں۔ حجاز میں اسلام کی نئی قوت کا حال سن کر رومیوں میں کھلبلی تھی۔ حجاز اور شام کی سرحد پر تبوک نام کا ایک مقام تھا۔ اس کے آس پاس کچھ عرب سردار جو عیسائی ہو گئے تھے، رومیوں کی ماتحتی میں حکومت کر رہے تھے اور وہی رومیوں کی طرف سے اس کام پر متعین ہوئے۔ دم بدم مدینہ میں یہ خبریں پھیلتی تھیں کہ غسانی مدینہ پر چڑھائی کی فکریں کر رہا ہے۔ شام کی نبطی سوداگروں نے آ کر بیان کیا کہ رومیوں نے شام میں بڑی بھاری فوج جمع کر لی ہے جو ہر طرح کے سامان سے تیار ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ خبریں سن کر مسلمان غازیوں کو بھی تیاری کا حکم دیا۔ اتفاق یہ کہ یہ سخت گرمیوں کا زمانہ تھا، ملک میں قحط کے آثار بھی تھے۔ منافق جو دل سے مسلمان نہ تھے، ان کے لیے یہ بڑی آزمائش کا وقت تھا۔ وہ لڑائی سے جی چراتے تھے اور دوسروں کو بھی در پردہ روکتے تھے۔
مگر پر جوش مسلمانوں کے لیے یہ ان کے ایمان کی تازگی کا نیا موقع ہاتھ آیا کہ اب عرب کے چند قبیلوں کا سامنا نہیں بلکہ دنیا کی ایک بڑی سلطنت کا مقابلہ ہے۔ دولت مند صحابیوں نے بڑی بڑی رقمیں پیش کیں۔ چونکہ سفر دور کا تھا اور سواری کا انتظام تھوڑا تھا اس لیے بعض معذور مسلمان تو رو رو کر عرض کرتے کہ حضورؐ سفر کا سامان مہیا فرما دیں تو ساتھ چلنے کی سعادت ملے۔ یہ دیکھ کر حضرت عثمانؓ نے فوج کے لیے تین سو اونٹ پیش کیے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو دعا دی۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب مدینے سے باہر جاتے تو کسی نہ کسی کو شہر کا حاکم بنا کر جاتے۔ ازواج مطہراتؓ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیویاں اس دفعہ ساتھ نہیں جا رہی تھیں۔ اس لیے کسی عزیز خاص کا یہاں چھوڑ جانا مناسب تھا۔ اس دفعہ یہ منصب حضرت علیؓ کے سپرد ہوا۔ انہوں نے عرض کی یا رسولؐ اللہ! آپؐ مجھے بچوں اور عورتوں میں چھوڑے جاتے ہیں؟ ارشاد ہوا: کیا تمہیں یہ پسند نہیں کہ تم کو مجھ سے وہ نسبت ہو جو حضرت ہارون ؑ کو حضرت موسیٰ ؑ سے تھی۔ آپؐ کا یہ ارشاد حضرت علیؓ کے لیے وہ فخر ہے جس کو کبھی بھلایا نہیں جا سکتا۔
غرض آپؐ تیس ہزار فوج کے ساتھ مدینہ سے نکلے جس میں دس ہزار سوار تھے۔ تبوک پہنچ کر معلوم ہوا کہ رومیوں کے حملے کی خبر صحیح نہ تھی، مگر اتنا صحیح تھا کہ اسلام کی نئی قوت کے مقابلے کے لیے غسانی رئیس دوڑ دھوپ کر رہے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تبوک میں بیس دن قیام کیا۔ اس قیام کا اثر یہ ہوا کہ تیس ہزار مسلمانوں کی یہ پاکیزہ جماعت جو ظاہر میں سپاہی اور حقیقت میں عاشق الٰہی تھی۔ آس پاس کے شہروں پر اپنا اثر ڈالے بغیر نہ رہی۔
اسلام میں سابقہ پیغمبروں کی امتوں کے ساتھ یہ رعایت رکھی گئی ہے کہ وہ اگر تھوڑا سا محصول دے کر مسلمانوں کی رعایا بن جائیں تو مسلمان ان کی ہر طرح حفاظت کی ذمہ داری اٹھا لیں۔ اس محصول کا نام قرآن پاک میں ’’جزیہ‘‘ رکھا گیا ہے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ کوئی غیر مسلم قوم مسلمانوں کی حکومت میں آتی ہے۔ایلہ خلیج عقبہ کے پاس عربوں کی ایک چھوٹی سی ریاست تھی۔ اس کے رئیس یوحنا نے خدمت نبویؐ میں آ کر جزیہ دے کر مسلمانوں کی حفاظت میں رہنا منظور کیا۔ جرباء اور اذرح کے عیسائی عربوں نے بھی جزیہ دے کر مسلمانوں سے صلح کر لی۔ دمشق کے پانچ منزل ادھر ہی دومتہ الجندل میں ایک عرب سردار اکیدر نامی تھا جو قیصر روم کے اثر میں تھا۔ مسلمانوں نے چار سو سواروں کے ساتھ اس پر حملہ کیا اور اس کو پکڑ کر خدمت نبویؐ میں لائے، اس نے اس شرط پر رہائی پائی کہ وہ مدینہ آ کر صلح کی شرطیں پیش کرے۔ چنانچہ وہ اپنے بھائی کے ساتھ مدینہ آیا اور امان پائی۔
تبوک کا سفر اس حیثیت سے کہ یہ عرب کے باہر کی دو سب سے بڑی طاقتوں میں سے ایک سے ٹکرانے کی سب سے پہلی کامیاب کوشش تھی، بہت اہم تھا۔ اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بخیر و عافیت واپسی پر مسلمانوں نے بڑی خوشی منائی۔ مدینے کے لوگ شوق کے عالم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لینے کے لیے شہر سے باہر نکلے۔ عورتیں بھی گھروں سے باہر نکل آئیں اور لڑکیوں نے خیر مقدم کا یہ گانا گایا۔
طلع البدر علینا ہم پر چاند نکلا
من ثنیات الوداع وداع کی گھاٹیوں سے
وجب الشکر علینا خدا کا شکر اس وقت تک ہم پر فرض ہے
مادعا للہ داع جب تک دنیا میں خدا کا کوئی پکارنے والا باقی ہے
اسلام کی دعوت کو شروع ہوئے بائیس برس ہو چکے تھے۔ بائیس برس کی لگاتار کوششوں سے اب عرب کا ذرہ ذرہ اسلام کے نور سے چمک رہا تھا۔ لا الہ الا اللہ کی آوازیں اس کی ہر گھاٹی سے اونچی ہو رہی تھیں۔ یمن کی سرحد سے لے کر شام کی سرحد تک اب اسلام کی حکومت تھی اور خدا کا گھر اب توحید کا مرکز بن چکا تھا۔ اب وقت آ چکا تھا کہ اسلام کا وہ مذہبی دربار جو حج کے نام سے مشہور ہے۔ اللہ کے بنائے اور حضرت ابراہیم ؑ کے بتائے ہوئے دستور کے مطابق آراستہ ہو۔
تبوک سے واپسی پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سن ۹ ھ میں ذیعقدہ کے آخر یا ذی الحجہ کے شروع مہینے میں تین سو مسلمانوں کا ایک قافلہ مدینہ منورہ سے مکہ کو روانہ فرمایا۔ حضرت ابو بکرؓ اس قافلے کے سردار، حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ تعالیٰ اس کے نقیب اور حضرت سعد بن ابی وقاصؓ، حضرت جابرؓ اور حضرت ابو ہریرہؓ منادی اور معلم بنائے گئے تھے اور قربانی کے لیے بیس اونٹ ساتھ تھے!
قرآن نے اس حج کا نام حج اکبر (بڑا حج) رکھا ہے، کیونکہ یہ کفر کی حکومت کے ختم ہو جانے اور اسلام کے عہد کے شروع ہونے کا سب سے پہلا اعلان تھا۔ حضرت ابو بکرؓ نے لوگوں کو حج کے اصلی طریقے بتائے اور سکھائے اور قربانی کے دن کھڑے ہو کر اسلام کا خطبہ پڑھا اور ان کے بعد حضرت علی بن ابی طالبؓ نے برات کی اس سورۃ سے چالیس آیتیں پڑھ کر سنائیں۔ جن میں کافروں سے ہر طرح کے تعلق کے توڑے جانے کا اعلان تھا اور منادی کر دی گئی کہ اب سے کوئی مشرک خانہ کعبہ میں نہ آنے پائے گا اور نہ کوئی ننگا ہو کر حج کر سکے گا اور صلح کے وہ تمام معاہدے جو مشرکوں سے ہوئے تھے، آج سے چار مہینے کے بعد سب ٹوٹ جائیں گے۔
کیا عجیب بات ہے کہ وہ قریش جو بیس برس تک تلوار کی نوک سے اسلام کا مقابلہ کرتے رہے ،وہ مکہ کے فتح ہو جانے کے بعد کسی قسم کے جبر او رلالچ کے بغیر صرف اسلام کا گہرا رنگ اور مسلمانوں کو قریب سے دیکھ بھال کر آپ سے آپ مسلمان ہوتے چلے گئے اور جو اب تک محروم رہے تھے، وہ اس اعلان کے بعد اسلام کے سائے میں آ گئے۔
عرب کے صوبوں میں اسلام کی عام منادی
اب عرب کا ہر ذرہ آفتاب رسالت کے دامن سے لپٹا ہوا تھا۔توحید کی اشاعت کی راہ سے مشکل کا ہر ہر پتھرہٹ چکا تھا اور سارے حجاز پر اسلام کی حکومت تھی لیکن ابھی یمن، یمامہ، بحرین وغیرہ عرب کے کچھ ایسی صوبے تھے جہاں، گو ایک ایک دو دو آدمی مسلمان ہو چکے تھے لیکن ان میں اسلام کی عام منادی نہیں ہوئی تھی، اب جب کہ قریش اور ان کے ساتھی قبیلوں کی مخالفت کی ہر کوشش ناکام ہو چکی تھی۔ وقت آیا کہ دور کے علاقوں میں بھی اسلام کی منادی کی جائے اور بادشاہ اور رعایا، امیر اور فقیر ہر ایک کو سچائی کی دعوت دی جائے۔
عرب کے سب صوبوں میں بڑا یمن کا صوبہ تھا، جو تقریباً ساٹھ برس سے ایرانیوں کے قبضے میں تھا۔ یمن کے ایک بڑے قبیلے دوس کے رئیس طفیل بن عمرو نے مکہ جا کر بہت پہلے اسلام قبول کر لیا تھا اور ان کے اثر سے اس قبیلہ کے کئی آدمی وقتاً فوقتاً مسلمان ہوتے رہے۔ سن ۷ ھ میں جب آپؐ خیبر میں تھے۔ دوس کے بہت سے لوگ مسلمان ہو کر مدینہ چلے آئے تھے۔ مشہور صحابی حضرت ابوہریرہؓ انہی میں تھے۔ اشعر نامی یمن کے ایک دوسرے قبیلے میں بھی لوگ آپ ہی آپ مسلمان ہو چکے تھے۔ مشہور صحابی حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ اسی قبیلے کے تھے۔ یہ لوگ بھی مدینہ آ کر بس گئے تھے۔
یمن میں ہمدان کا قبیلہ بہت شہرت رکھتا تھا۔ اس قبیلے نے جب اسلام کا نام سنا تو اپنے رئیس عامر بن فہر کو اس نئے دین کے جانچنے کے لیے مدینہ بھیجا۔ اس نے وہاں پہنچ کر جو کچھ دیکھا، اس کا اثر یہ ہوا کہ اسلام کی سچائی نے اس کے دل میں گھر کر لیا۔ وہ واپس آیا تو اپنے خاندان میں اسلام کا نور پھیلایا۔ ان کے بعض قبیلوں میں اشاعت کا کام کرنے کے لیے پہلے حضرت خالدؓ بھیجے گئے۔ وہ چھ مہینے تک اپنا کام کرتے رہے، مگر کامیاب نہ ہو سکے۔ یہ دیکھ کر آپؐ نے ان کو واپس بلا لیا اور ان کی جگہ حضرت علیؓ بن ابی طالب کو بھیجا۔ حضرت علی مرتضیٰؓ نے ان کے سب رئیسوں کو بلایا اور حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مبارک خط پڑھ کر سنایا۔ ساتھ ہی سارا کا سارا قبیلہ مسلمان تھا۔ چنانچہ ہمدان ،جذیمہ اور مذحج کے قبیلوں میں اسلام کی روشنی حضرت علی مرتضیٰؓ کے فیض سے پھیلی۔
یمن کے دوسرے شہروں میں اسلام کی دعوت پھیلانے کو دوسرے ممتاز صحابیؓ مقرر ہوئے۔ چنانچہ صنعاء میں جو یمن کا پایہ تخت تھا، حضرت خالد بن سعیدؓ کی کوشش کامیاب ہوئی۔ طے کا قبیلہ اسلام سے پہلے عیسائی تھا۔ اس وقت حاتم طائی کا بیٹا عدی اس قبیلے کا سردار تھا۔ وہ خدمت نبویؐ میں حاضر ہوا اور حضور اکرمؐ کی خاکساری اور بے کسوں سے آپؐ کی ہمدردی دیکھ کر مسلمان ہو گیا اور اسی کی دعوت پر اس کے قبیلے نے بھی توحید کا کلمہ پڑھا۔ حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ نے عدن اور ’’زبید‘‘ میں اور حضرت معاذ بن جبلؓ نے ’’جند‘‘ میں جا کر اسلام کا پیغام پہنچایا۔ حضرت جریر بن عبد اللہ یحییٰؓ نے حمیر کے شہروں میں اسلام پھیلایا۔ حضرت مہاجر بن ابی امیہؓ ایک صحابی یمن کے ایک شہزادے حارث بن عبد کلال کو اسلام کے حلقے میں لائے۔ حضرت وبر بن نخیس صحابیؓ نے یمن کے ان ایرانی نسل کے لوگوں کو جو یمن میں بس گئے تھے، اسلام کی خوشخبری سنائی۔
یمن میں نجران کا علاقہ عیسائی آبادی تھا۔ وہاں کے لوگوں نے اسلام کا خط پا کر اپنے پادریوں کو دریافت حال کے لیے مدینہ بھیجا اور گو وہ مسلمان نہیں ہوئے لیکن جزیہ دے کر اسلام کی حکومت قبول کی۔ نجران میں جو مشرک عرب تھے ان کی ہدایت کے لیے حضرت خالدؓ کو بھیجا، جن کے سمجھانے پر پورا قبیلہ اسلام لے آیا۔ حضرت خالدؓ نے تھوڑے دن وہاں ٹھہر کر ان کو اسلام کی باتیں سکھائیں۔
بحرین پر اس وقت ایرانیوں کی حکومت تھی اور اس کی وادیوں میں عرب کے قبیلے آباد تھے جن میں مشہور اور بااثر خاندان عبد القیس، بکر بن وائل اور تمیم تھے۔ ان میں سے عبد القیس کے قبیلے سے منقذ بن حیان تجارت کے لیے نکلے، راہ میں مدینہ پڑتا تھا وہاں ٹھہرے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان کا آنا معلوم ہوا تو ان کے پاس تشریف لے گئے اور اسلام کی دعوت دی۔ انہوں نے قبول کیا اور مسلمان ہو گئے۔ یہاں رہ کر انہوں نے سورہ فاتحہ اور اقراء سیکھی۔ آپؐ نے ان کو ایک فرمان لکھ کر دیا۔ جب وہ لوٹ کر گھر گئے تو پہلے اپنے اس نئے مذہب کو چھپایا لیکن ان کی بیوی نے ان کو نماز پڑھتے دیکھ لیا اور اپنے باپ منذر سے شکایت کی۔ انہوں نے منقذر سے دریافت کیا۔ بات چیت کے بعد منذر بھی مسلمان ہو گئے۔ اب دونوں نے لوگوں کو جمع کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نامہ مبارک سنایا اور سب نے اسلام قبول کیا۔
بحرین میں ایک مقام جو اثی تھا جس میں عبد القیس کا قبیلہ تھا۔ یہاں بہت پہلے اسلام پہنچ چکا تھا۔ مدینہ کے بعد جمعے کی نماز سب سے پہلے یہیں کے لوگوں نے ادا کی۔ سن ۸ ھ میں بحرین کا عرب رئیس منذر بن ساویٰ نے حضرت علاءؓ بن حضرمی کی دعوت پر اسلام قبول کیا اور ان کے ساتھ وہاں کے سارے عرب اور ایرانی بھی مسلمان ہو گئے۔ بحرین میں ’’ہجر‘‘ ایک مقام تھا وہاں کے ایرانی حاکم اسیبخت بن عبداللہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خط پا کر اسلام کی دولت پائی۔
عمان میں ’’ازد‘‘ قبیلہ آباد تھا۔ عبید اور جعفر یہاں کے رئیس تھے۔ سن ۸ ھ میں آنحضرتؐ نے حضرت ابو زید انصاریؓ کو جو حافظ قرآن تھے اور حضرت عمرو بن العاصؓ کو اپنا خط دے کر ان کے پاس بھیجا۔ دونوں رئیسوں نے اسلام قبول کیا اور وہاں کے سارے لوگ ان کے کہنے سے مسلمان ہوئے۔
شام کی حدود میں کئی رئیس تھے ان میں سے ایک حضرت فروہؓ تھے جن کی ریاست معان میں تھی۔ وہ رومیوں کے ماتحت تھے۔ وہ اسلام سے آشنا ہو کر مسلمان ہو گئے۔ رومیوں کو ان کا مسلمان ہونا معلوم ہوا تو ان کو پکڑ کر سولی دے دی۔ اس وقت عربی کا یہ شعر اس بے گناہ شہید کی زبان پر تھا جس کا ترجمہ یہ ہے: ’’مسلمان سرداروں کو میرا یہ پیغام پہنچا دو کہ میرا تن من اور میری آبرو سب پروردگار کے نام پر نثار ہے‘‘۔
غرض ان کوششوں سے اسی طرح اسلام عرب کے ایک ایک گوشے میں پھیل گیااور وہ وقت آیا کہ عرب میں کوئی مشرک باقی نہ رہا۔
دین کی تکمیل اور اسلامی نظام کی تاسیس
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خدا کا پیغام لے کر دنیا میں تشریف لائے تھے۔ دنیا نے اس کی مخالفت کی اور عرب والوں نے اس کو ماننے سے ہی انکار ہی نہیں کیا، بلکہ اس کے مٹانے کی ہر طرح کوششیں کیں۔ مسلمانوں کو طرح طرح سے ستایا۔ ان کے گھروں سے ان کو نکالا اور وہ بے سروسامانی سے اپنے گھر بار کو چھوڑ کر کبھی حبشہ کے ملک میں، کبھی دور دور کے شہروں میں نکل جانے پر مجبور ہوئے اور اس طرح تیرہ برس تک حضورؐ نے اور حضورؐ کے ساتھی مسلمانوں نے پورے صبر اور مضبوطی سے ان سختیوں کو جھیلا۔ آخر کفر کی قوتوں نے فوج و لشکر اور تیغ و خنجر سے مسلمانوں کو فنا کر دینے کی تیاری کی اور نو برس تک لگاتار ان کی یہ کوشش جاری رہی۔ مسلمانوں نے ان کی ظالمانہ طاقت کا بھی سامنا کیا اور اللہ تعالیٰ کی مدد سے وہ اس میدان میں بھی کامیاب ہوئے اور آہستہ آہستہ مشکل کا ہر پتھر ان کی راہ سے ہٹ گیا۔ عرب کا ایک ایک گوشہ اسلام کے جھنڈے کے نیچے جمع ہو گیا اور لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے آوازے سے عرب کا پورا جزیرہ گونج اٹھا تو وقت آیا کہ دین اپنے پورے احکام کے ساتھ تکمیل کا درجہ پائے اور اس کا نظام عرب کے ملک میں قائم کر دیا جائے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ سب سے پہلے قرآن پاک کی وہ آیتیں اتریں جو دلوں میں نرمی اور خیالوں میں تبدیلی پیدا کریں۔ جب یہ ہو چکا تو احکام کی آیتیں آئیں، اگر ایسا نہ ہوتا اور پہلے ہی دن یہ حکم دیا جاتا کہ لوگو! شراب چھوڑ دو تو کون اس کو مانتا۔ اسلام کی دعوت کی یہ ترتیب قدرتی تھی اور فطرت کے عین مطابق۔ آنحضرتؐ جب تک مکے میں رہے، توحید کی تعلیم، اللہ کی بے انتہا قدرت اور بے حد رحمت، بت پرستی کی برائی، بتوں کی بیچارگی، اللہ کے رسولوں کے قصے، رسولوں کو نہ ماننے سے قوموں پر عذاب، مرنے کے بعد دوبارہ جی اٹھنے، خدا کے سامنے اپنے کاموں کے جواب دہ ہونے اور اچھوں کے لیے جنت اور بروں کے لیے دوزخ کے سماں دکھائے جاتے رہے۔ ساتھ ہی ساتھ اللہ کی سچی عبادت کے ڈھنگ، غریبوں کے ساتھ مہربانی، بے کسوں کے ساتھ شفقت اور اخلاق کی دوسری اچھی اچھی باتوں کے سبق ان کو سکھائے جاتے رہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے ماننے والوں کا ایک ایسا گروہ پیدا ہو گیا، جو اس کے ہر حکم پر گردن جھکانے کو تیار ہو گیا۔ اس وقت اللہ نے اپنے رسول کے ذریعے اپنے سارے حکموں سے ان کو آگاہ کیا۔
ان کو بتایا گیا کہ دن میں پانچ مرتبہ حضرت ابراہیم کی مسجد (کعبہ) کی طرف منہ کر کے خدا کے حضور میں کھڑے ہوں، گھٹنوں کے بل جھک کر (رکوع) اپنی بندگی کا اقرار کریں۔ پھر زمین پر سر رکھ کر (سجدہ) اپنی عاجزی کو نمایاں شکل میں ظاہر کریں۔ یہ نماز کہلائی۔ یہ نماز سارے مسلمان ایک وقت پر ایک جگہ اکٹھے ہو کر ایک امام کے پیچھے ایک ساتھ ادا کریں۔ اس کا یہ مطلب ہوا کہ نماز جس طرح خدا ور بندے کے لگاؤ کی سب سے مضبوط کڑی ہے اسی طرح یہ مسلمانوں کے قومی نظام کی حقیقی شکل بھی ہے۔ یعنی سارے مسلمان ایک ہو کر ہر فرق مراتب کی قید کو توڑ کر ایک صف میں کھڑے ہو کر ایک ایسی متحد جماعت کی صورت بن جائیں کہ ان کے تمام ظاہری فرق مٹ جائیں اور وہ سب مل کر ایک امام کے ایک ایک اشارے پر حرکت کریں۔ اسی لیے آپؐ نے فرمایا کہ نماز میں سارے مقتدی پاؤں سے پاؤں ملا کر خوب مل کر کھڑے ہوں تا کہ ان کے دل بھی اسی طرح مل جائیں اور یہ فرمایا کہ جو شخص امام کے اٹھنے بیٹھنے سے پہلے اٹھ بیٹھے اس کو ڈرنا چاہیے کہ اس کی صورت بدل کر گدھے کی نہ بن جائے، جو اپنی حماقت کے لیے مشہور ہے۔
اسلام کے سارے احکام میں نماز کی حیثیت سب سے بڑھی ہوئی ہے۔ اسی لیے اس کو دین کا ستون فرمایا ہے۔ عرب کی بے اطمینانی اب جیسے ہی دور ہوئی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سب سے پہلے نماز کی طرف توجہ فرمائی۔ اس کے ارکان کی تکمیل اور اوقات کا تعین تو مکہ میں ہو چکا تھا، مگر اب جیسے جیسے اطمینان بڑھتا گیا اس کی ظاہری اور باطنی کیفیتوں کی طرف بھی توجہ بڑھتی گئی۔ اب اس میں قرآن اور دعا کے سوا ہر قسم کی انسانی بول چال، اشارے ،سلام و کلام وغیرہ کی ممانعت ہو گئی اور ایک ساتھ ایک جگہ مل کر نماز پڑھنا جس کو جماعت کہتے ہیں، واجب ٹھہرایا گیا۔ نماز کی سمت خانہ کعبہ مقرر ہوئی کہ دنیا بھر کے مسلمان وحدت کے ایک رنگ میں نمایاں ہوں۔
ہفتے کی اجتماعی نماز جس کا نام ’’جمعہ‘‘ ہے گو کہ مکے ہی میں فرض ہو چکی تھی۔ مگر مکے کی بے اطمینانی میں جب سارے مسلمان بھی مل کر ایک جگہ نماز نہیں پڑھ سکتے تھے تو آبادی کے سارے مسلمان مل کر ایک ساتھ نماز کس طرح پڑھ سکتے تھے۔ اس لیے جمعے کی نماز مکہ میں ادا نہیں ہو سکتی تھی مگر مسلمانوں کو مدینے میں جیسے ہی اطمینان ملا، پہلے ہی ہفتے میں دن کی روشنی میں دوپہر کے وقت زوال کے بعد ہی جمعے کی نماز ادا کی اور امام نے جمعے کا خطبہ پڑھا۔ دوسرے ہفتے میں خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے آئے اور اس وقت سے آپؐ نماز جمعہ کی امامت کرنے لگے اور نماز سے پہلے خدا کی تعریف (حمد) قرآن کی تلاوت کے ساتھ مسلمانوں کی تعلیم، تنبیہ اور نصیحت سے بھری ہوئی مختصر تقریر (جس کو خطبہ کہتے ہیں) فرمانے لگے۔
مدینہ سے باہر دوسرے صوبوں کے شہروں اور آبادیوں میں مدینے ہی سے یا ان ہی مقامات سے اماموں کا تقرر ہوا۔ یہ امام اس مقام کے مسلمانوں کے معلم، مبلغ، مفتی اور پیشوا کی حیثیت رکھتے تھے۔ وہ ان کو اچھی باتیں سکھاتے، بری باتوں سے روکتے، ان کو ضرورت کے مسئلے بتاتے اور بچوں کو اللہ رسولؐ کا کلمہ سکھاتے، دین کی باتیں بتاتے اور قرآن کی تعلیم دیتے۔
اس غرض کے لیے ہر آبادی میں خدا کے نام سے نماز اور مسلمانوں کی دوسری اجتماعی ضرورتوں کے لیے مسجدیں بنائی گئیں۔ یہ مسجدیں ان کی نماز اور جماعت کا گھر، ان کی تعلیم کا مدرسہ، ان کے وعظ و پند کا مقام، ان کے قومی و دینی کاموں کی مشورہ گاہ اور ان کے قاضیوں اور حاکموں کی عدالت قرار پائیں۔
غریب مسلمانوں کی امداد کے لیے زکوٰۃ کا نظام مقرر ہوا، یعنی یہ کہ ہر مسلمان ہر سال اپنے اس سونے چاندی کے مال پر جو اس کی ضرورت سے زیادہ ہو، سال بھر کے بعد اس کا چالیسواں حصہ خدا کی راہ میں دے۔ اسی طرح اگر کسی کے پاس سونے چاندی کے علاوہ جانور ہوں یا کھیت ہوں تو ان پر مختلف تعدادوں کے مطابق ایک حصہ خدا کے کاموں کے لیے فرض کیا گیا۔ یہ ساری رقمیں اور جانور اور پیداواریں، آنحضرتؐ کی زندگی میں مسجد نبویؐ میں آنحضرتؐ کے موذن حضرت بلالؓ کے پاس یا کسی اور عامل کے پاس جمع ہوتیں اور ضرورت کے مطابق ضرورت مندوں میں بانٹ دی جاتیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد اس کام کے لیے ایک الگ دفتر بنایا گیا جس کا نام بیت المال رکھا گیا۔ یہ بیت المال مسلمانوں کے امام کی نگرانی میں رہتا اور ضرورت مند مسلمانوں کی ضرورتیں اس سے پوری کی جاتیں۔
سن ۹ھ میں جب سارے عرب میں مسلمانوں کا شیرازہ بندھ گیا تو عرب کے ہر حصے میں زکوٰۃ کی تحصیل وصول کے لیے لوگ مقرر ہوئے جن کو عامل کہتے ہیں۔ یہ لوگ ہر جگہ جا کر مسلمانوں سے زکوٰۃ کا مال وصول کرتے اور لا کر آنحضرتؐ کی خدمت میں یا بیت المال میں جمع کرتے اور اپنا حساب پیش کرتے۔
مسلمانوں کو اللہ کی طرف سے قرآن کی صورت میں زندگی کا جو ہدایت نامہ ملا، اس کی خوشی اور مسرت کی تقریب میں اس کی سالانہ یادگار اسی مہینے میں جس میں قرآن کریم پہلی دفعہ آنحضرتؐ کو ملا یعنی رمضان کے مہینے میں ہر سال منانا ضروری ٹھہرایا گیا تا کہ ہم اللہ تعالیٰ کی اس نعمت پر شکریہ ادا کریں اور مہینے بھر اسی کیفیت میں گزاریں جس کیفیت میں اس مہینے کو اسلام کے پیغمبر اور قرآن کے پہلے مخاطب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گزارا، یعنی صبح سے شام تک مہینہ بھر ہم کھانے پینے اور دوسرے نفسانی کاموں سے پرہیز کریں، جس کا نام روزہ ہے اور ہو سکے تو راتوں کو کھڑے ہو کر دو دو رکعتوں میں کلام پاک سنیں، جن کو تراویح کہتے ہیں اور دوسری عبادتوں میں یہ مہینہ بسر کریں۔ مہینے کے ختم ہونے پر شوال کی پہلی تاریخ کو عید کا دن منائیں، اچھے اچھے کپڑے پہنیں، خوشبو لگائیں اور سب مل کر عیدگاہ جا کر شکرانے کی دو رکعتیں ادا کریں اور اس دن نماز سے پہلے غریبوں کے کھانے کے لیے غلے کی کچھ کچھ مقدار ان کی نذر کریں (یعنی صدقتہ الفطر) تا کہ وہ بھی یہ دن خوشی خوشی منائیں۔
رمضان در حقیقت اس قرآن کریم کے اترنے کی خوشی کا جشن ہے جو مسلمانوں کی ہر خیر و برکت کا اصلی سبب ہے اور اس میں روزہ اس لیے فرض ہوا ہے کہ مسلمان وہ پاکی کی زندگی بسر کرنا سیکھیں، جس کو قرآن نے تقویٰ کہا ہے اور جو قرآن کے اترنے کی اصلی غرض ہے۔
اسلام کا چوتھا رکن حج ہے۔ اسلام حضرت ابراہیم ؑ کے دین حنیف کی اصلی شکل ہے۔ اس لیے جس طرح رمضان کا روزہ قرآن کریم کے اترنے کی یادگار ہے، اسی طرح حج حضرت ابراہیم ؑ کے دین کی یادگار ہے۔ خانہ کعبہ وہ مقدس مسجد ہے جس کو حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام نے خدا کے نام پر سب سے پہلے بنایا تھا تا کہ وہ دنیا میں خدا پرستوں کا مرکز ہو۔ جہاں دنیا کے ہر حصے سے ایک خدا کے ماننے والے سال میں ایک دفعہ اکٹھے ہو کر ابراہیمی طریق سے خدا کی عبادت کریں۔
خانہ کعبہ وہ مسجد ہے جدھر منہ کر کے ہر مسلمان دن میں پانچ بار اپنی نماز ادا کرتا ہے۔ اب یہ ضروری ٹھہرا کہ مسلمانوں میں جن کو طاقت ہو، اور جن کے پاس راستے کا خرچ ہو وہ عمر میں ایک دفعہ اس مسجد میں ضرور حاضر ہوں اور حضرت ابراہیم ؑ کی طرح اس مسجد کے چاروں طرف پھیرے کریں، جو طواف کہلاتا ہے اور صفا اور مروہ نامی دو پہاڑیوں کے بیچ میں ویسے ہی دوڑ دوڑ کر اللہ سے دعائیں مانگیں جیسے حضرت ہاجرہؓ دوڑی تھیں اور عرفات و منیٰ کے میدانوں میں خدا کی بارگاہ میں گڑگڑا کر اپنے گناہوں کی معافی مانگیں اور منیٰ میں آ کر حضرت اسماعیل ؑ کی طرح قربانی کا جشن منائیں اور دنیا کے سارے مسلمان ایک جگہ مل کر دین اور دنیا کی بھلائی کی باتیں کریں اور اپنی دنیا میں پھیلی ہوئی اسلامی برادری کی بھلائی کی تجویزیں سوچیں۔
کلمہ توحید کے بعد اسلام کے یہ چار رکن ہیں، یہ چاروں رکن اب تکمیل کو پہنچ گئے۔ اور دین کے وہ احکام جو اخلاق کی پاکی اور معاملات میں عدل و انصاف کا لحاظ رکھنے کے لیے ضروری تھے، وہ مسلمانوں کو سکھا دئیے گئے تھے اور عرب کے ملک میں مسلمانوں کا ایک ایسا گروہ پید اہو گیا جو دین اسلام کا نمونہ اور اسلامی پیام کا قاصد بن کر دنیا کے دوسرے حصوں میں ہدایت کا پیام اور عمل پہنچا سکے اور اس طرح ساری دنیا اسلام کی تعلیم سے منور ہو سکے۔
اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیم سے انسانیت نے مساوات کا سبق سیکھ لیا۔ قریشی ،غیر قریشی، عرب اور عجم، کالے اور گورے ، امیر اور غریب، سب ایک خدا کے بندے ہو کر اسلام کے ہر حق میں اور آخرت کے ہر مرتبے میں برابر ٹھہرے۔ انسانوں کی پیدا کی ہوئی ساری تفریقیں مٹ گئیں۔ سب ایک آدم ؑ کے بیٹے ٹھہرے اور حضرت آدم علیہ السلام مٹی کا پتلا تھے۔
خدا کے سوا باطل کا خوف، آسمان و زمین کی ہر قوت کا ڈر، ہر باطل وسوسے کا، ہراس دیو، فرشتے، بھوت پریت، چاند، سورج، ستارے، دریا، جنگل، پہاڑ، غرض کہ ہر مخلوق ، ہر طاقت اور ہر مادی اور روحانی مظہر کی خدائی ہیبت جو کمزور انسانوں پر چھائی تھی، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حق کی آواز نے اس سارے طلسم کو توڑ کر رکھ دیا۔
عرب کے وہ سارے غلط رسم و رواج، وہ سارے جھوٹے قاعدے اور بے شرمی اور بد اخلاقی کے پرانے دستور محمد رسول اللہ ﷺ کی تعلیم سے مٹ گئے اور وہ تعلیمات مسلمانوں کی زندگی کے اصول ٹھہرے جو قرآن لایا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سکھائے۔ اب ایک نئی قوم، نئی امت، نیا تمدن، نیا قانون اور نئی حکومت زمین کے پردے پر قائم ہوئی۔

ہمارے پیغمبر ؐ کا آخری حج

حجتہ الوداع سن ۱۰ ھ
اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جس مقصد کی خاطر زمین پر بھیجا تھا، جب وہ انجام پا چکا تو اطلاع آئی کہ تمہارا کام پورا ہو چکا اب تم خدا کے پاس واپسی کے لیے تیار ہو جاؤ۔ سورہ نصر ’’اذا جاء نصر اللہ والفتح‘‘ اسی واقعے کی خبر ہے۔
ذیقعدہ سن ۱۰ھ میں ہر طرف منادی ہوئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سال حج کے ارادے سے مکہ معظمہ میں تشریف لے جائیں گے۔ یہ خبر دفعتاً پورے عرب میں پھیل گئی اور سارا عرب ساتھ چلنے کے لیے امڈ آیا۔ ذیعقدہ کی ۲۶ تاریخ کو آپؐ نے غسل فرمایا اور چادر اور تہمد باندھی اور ظہر کی نماز کے بعد مدینے سے باہر نکلے۔ مدینہ سے چھ میل دور ذوالحلیفہ کے مقام پر رات گزاری اور دوسرے دن دوبارہ غسل فرما کر دو رکعت نماز ادا کی اور احرام باندھ کر قصواء نامی اونٹنی پر سوار ہوئے اور بلند آواز سے یہ الفاظ فرمائے جو آج تک ہر حاجی کا ترانہ ہے۔
لبیک اللھم لبیک o لبیک لا شریک لک لبیک o ان الحمدo والنعمتہ لک والملکo لا شریک لک۔۔۔!
اے خدا ہم تیرے لیے حاضر ہیں۔ اے خدا ہم تیرے لیے حاضر ہیں۔ تیرا کوئی شریک نہیں۔ ہم تیرے سامنے حاضر ہیں۔ تعریف اور نعمت سب تیری ہے اور بادشاہی تیری ہے۔ تیرا کوئی شریک نہیں۔
حضرت جابرؓ جو اس حدیث کے بیان کرنے والے ہیں، کہتے ہیں کہ ہم نے نظر اٹھا کر دیکھا تو آگے پیچھے، دائیں بائیں جہاں تک نظر کام کرتی تھی، آدمیوں کا جنگل نظر آتا تھا۔ جب آنحضرت ؐ لبیک فرماتے تھے تو اس کے ساتھ کم و بیش ایک لاکھ آدمیوں کی زبان سے یہی نعرہ بلند ہوتا تھا اور دفعتاً پہاڑوں کی چوٹیاں اس کی جوابی آواز سے گونج اٹھتی تھیں۔ اس طرح منزل بہ منزل آپؐ آگے بڑھتے رہے، یہاں تک کہ اتوار کے روز ذوالحجہ کی ۵ تاریخ کو مکہ میں داخل ہوئے۔
کعبہ نظر آیا تو فرمایا ’’اے خدا، اس گھر کو عزت اور شرف دے‘‘۔ کعبے کا طواف کیا، مقام ابراہیم میں کھڑے ہو کر دو رکعت نماز ادا کی اور صفا کی پہاڑی پر چڑھ کر فرمایا:
’’خدا کے سوا کوئی معبود نہیں، اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کی بادشاہی اور اسی کی حمد ہے، وہی مارتا ہے اور جلاتا ہے، وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے، کوئی خدا نہیں، مگر وہی اکیلا خدا اس نے اپنا وعدہ پورا کیا، اپنے بندے کی مدد کی اور اکیلے سارے جتھوںں کو شکست دی‘‘۔
عمرے سے فارغ ہو کر آپؐ نے دوسرے صحابیوںؓ کو احرام کھول دینے کی ہدایت فرمائی۔ اسی وقت حضرت علیؓ یمنی حاجیوں کے ساتھ مکہ پہنچے۔ جمعرات کے روز آٹھویں ذوالحجہ کو آپؐنے سارے مسلمانوں کے ساتھ منیٰ میں قیام فرمایا۔ دوسرے دن نویں ذوالحجہ کو صبح کی نماز پڑھ کر منیٰ سے روانہ ہوئے۔ عام مسلمانوں کے ساتھ عرفات آ کر ٹھہرے۔ دوپہر ڈھل گئی تو قصواء پر سوار ہو کر میدان میں آئے اور اسی اونٹنی پر بیٹھے بیٹھے حج کا خطبہ دیا۔
آج پہلا دن تھا کہ اسلام اپنے جاہ و جلال کے ساتھ نمودار ہوا اور جاہلیت کے سارے بیہودہ مراسم مٹا دیے گئے۔ آپؐ نے فرمایا:
’’ہاں، جاہلیت کے سارے دستور اور رسم و رواج میرے دونوں پاؤں کے نیچے ہیں‘‘۔
عرب کی زمین ہمیشہ انتقام کے خون سے رنگین رہتی تھی۔ آج عرب کی نہ ختم ہونے والی آپس کی لڑائیوں کے سلسلے کو توڑا جاتا ہے اور اس کے لیے نبوت کا مناویؐ سب سے پہلے اپنے خاندان کا نمونہ پیش کرتا ہے۔
’’جاہلیت کے سارے خون کے بدلے ختم کر دیے گئے اور سب سے پہلے میں اپنے خاندان کا خون ربیعہ بن حارث کے بیٹے کے انتقامی خون کا بدلہ لینے کا حق چھوڑتا ہوں (یعنی دشمن کو معاف کرتا ہوں)‘‘۔
تمام عرب میں سودی کاروبار کا جال بچھا تھا جس سے عرب کے غریب مزدور اور کاشت کار یہودی مہاجنوں اور عرب سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں پھنسے تھے اور ہمیشہ کے لیے وہ ان کے غلام ہو جاتے تھے۔ آج اس جال کا تار الگ کیا جاتا ہے اور اس کے لیے بھی سب سے پہلے اپنے خاندان کا نمونہ پیش کیا جا رہا ہے۔ ارشاد ہے:
’’جاہلیت کے تمام سود مٹا دیے گئے اور سب سے پہلا سود جس کو میں مٹاتا ہوں وہ اپنے خاندان کا یعنی حضرت عباس بن عبد المطلبؓ کا ہے‘‘۔
آج تک عورتیں ایک طرح سے شوہروں کی منقولہ جائیداد تھیں جو جوؤں میں ہاری اور جیتی جا سکتی تھیں۔ آج پہلا دن ہے کہ یہ مظلوم گروہ انصاف کی داد پاتا ہے۔ فرمایا:
’’عورتوں کے معاملے میں خدا سے ڈرو۔ تمہارا حق عورتوں پر ہے اور عورتوں کا تم پر ہے‘‘۔
عورتوں کے بعد انسانوں کا سب سے مظلوم طبقہ غلاموں کا تھا، آج اس کے انصاف پانے کا دن آیا۔ فرمایا:
’’تمہارے غلام، ان کے حق میں انصاف کرو، جو خود کھاؤ وہ ان کو کھلاؤ اور جو خود پہنو وہ ان کو پہناؤ‘‘۔
عرب میں امن و امان نہ تھا اس لیے جان اور مال کی کوئی قیمت نہ تھی، آج امن و سلامتی کا بادشاہؐ ساری دنیا کو صلح کا پیغام دیتا ہے:
’’آپس میں تمہاری جان اور تمہارا مال ایک دوسرے کے لیے قیامت تک اتنا ہی عزت کے قابل ہے، جتنا آج کا دن اس پاک مہینے میں اور اس پاک شہر میں‘‘۔
امن و امان کی اس منادی میں سب سے پہلی چیز اس دینی برادری کا وجود ہے جس نے قبیلوں اور خاندانوں کے رشتوں سے بڑھ کر عرب کے سارے قبیلوں بلکہ دنیا کے سارے انسانوں میں اسلامی برادری کا رشتہ جوڑ دیا۔ ارشاد ہوا:
’’ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور سارے مسلمان بھائی بھائی ہیں‘‘۔
دنیا کی بے اطمینانی کی سب سے بڑی چیز جس نے ہزاروں سال تک قوموں کو لڑایا ہے وہ قومی فخر و غرور ہے آج اس فخر و غرور کا سر کچلا جاتا ہے، اعلان ہوتا ہے:
’’ہاں کسی عرب کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عرب پر کوئی بڑائی نہیں، تم سب ایک آدم ؑ کے بیٹے ہو اور آدم ؑ کو مٹی سے بنایا گیاتھا‘‘۔
اس کے بعد چند اصولی قوانین کا اعلان فرمایا گیا:
۱۔ خدا نے ہر حقدار کو (وراثت کی رو سے) اس کا حق دے دیا۔ اب کسی وراث کے حق میں وصیت جائز نہیں۔
۲۔ لڑکا اس کا ہے جس کے بستر پر وہ پیدا ہوا، زنا کار کے لیے پتھر ہے اور ان کا حساب خدا کے ذمے ہے۔
۳۔ ہاں! عورت کو اپنے شوہر کے مال سے اس کی اجازت کے بغیر کسی کو کچھ دینا جائز نہیں۔
۴۔ قرض دار کو قرض ادا کیا جائے۔ عاریت لیا ہوا مال واپس کیا جائے۔ ہنگامی عطیے واپس کیے جائیں جو ضامن بنے وہ تاوان کا ذمہ دار ہو۔
آج امت کے ہاتھوں میں اس کی ہدایت کے لیے وہ دائمی چراغ مرحمت ہوتا ہے جس کی روشنی میں جب تک کوئی چلتا رہے گا ہر گمراہی سے بچتا رہے گا، فرمایا:
’’میں تم میں ایک چیز چھوڑ جاتا ہوں، اگر تم نے اس کو مضبوط پکڑ لیا تو پھر کبھی گمراہ نہ ہو گے اور وہ خدا کی کتاب ہے‘‘۔
یہ فرما کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجمع کو خطاب کیا:
’’تم سے خدا کے ہاں میری نسبت پوچھا جائے گا تو تم کیا جواب دو گے‘‘۔۔
ایک لاکھ زبانوں نے ایک ساتھ گواہی دی: ’’ہم کہیں گے کہ آپؐ نے خدا کا پیغام پہنچا دیا اور اپنا فرض ادا کر دیا۔ یہ سن کر آپؐ نے آسمان کی طرف انگلی اٹھائی اور تین بار فرمایا: ’’اے خدا تو گواہ رہنا‘‘۔
عین اس وقت جب آپؐ نبوت کا یہ آخری فرض ادا کر رہے تھے، خدا کی بارگاہ سے یہ بشارت آئی:
الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا (سورہ المائدہ)
’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو پورا کر دیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کا دین چن لیا‘‘۔
خطبے سے فارغ ہوئے تو حضرت بلالؓ نے اذان دی اور آنحضرتؐ نے ظہر اور عصر کی نماز ایک ساتھ ادا فرمائی۔ کیسا عجیب منظر تھا کہ آج سے ۲۲ برس پہلے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک خدا کی پرستش کی دعوت دی تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے چند ساتھیوں کے سوا کوئی گردن خدا کے آگے خم نہ تھی اور آج ۲۲ برس کے بعد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ایک لاکھ گردنیں خدا کے حضور میں جھکی تھیں اور اللہ اکبر کا نعرہ ذرے ذرے سے بلند ہو رہا تھا۔
نماز سے فارغ ہو کر ناقہ پر سوار مسلمانوں کے ساتھ موقف تشریف لائے اور وہاں کھڑے ہو کر دیر تک قبلے کی طرف منہ کیے ہوئے دعا ء و زاری میں مصروف رہے۔ جب آفتاب ڈوبنے لگا تو چلنے کی تیاری کی۔ دفعتاً ایک لاکھ آدمیوں کے سمندر میں تلاطم برپا ہو گیا۔ آپؐ آگے بڑھتے جاتے تھے او رہاتھ سے اشارہ کرتے۔ زبان سے فرماتے جاتے تھے ’’لوگو! امن اور سکون کے ساتھ‘‘۔ مغرب کا وقت تنگ ہو رہا تھا کہ سارا قافلہ مزدلفہ کے مقام پر پہنچا۔ یہاں پہلے مغرب پھر فوراً ہی عشاء کی نماز ادا ہوئی۔
صبح سویرے فجر کی نماز پڑھ کر قافلہ آگے بڑھا، جانثار دائیں بائیں تھے۔ اہل ضرورت اپنی اپنی ضرورت کے مسئلے پوچھ رہے تھے اور آپؐ ان کے جوابات دیتے جاتے تھے۔ ’’جمرہ‘‘ پہنچ کر کنکریاں پھینکیں اور لوگوں سے مخاطب ہو کر فرمایا:
’’مذہب میں خدا کی مقرر کی ہوئی حد سے آگے نہ بڑھنا تم سے پہلی قومیں اسی سے برباد ہوئیں‘‘۔
اسی درمیان میں یہ فقرہ بھی فرمایا، جس سے وداع و رخصت کا اشارہ ملتا تھا: ’’حج کے مسئلے سیکھ لو میں نہیں جانتا کہ پھر حج کر سکوں گا‘‘۔
یہاں سے نکل کر اب منیٰ میں تشریف لائے، دائیں بائیں آگے پیچھے مسلمانوں کا ہجوم تھا۔ مہاجرین قافلے کے دائیں، انصار بائیں اور بیچ میں عام مسلمانوں کی صفیں تھیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ناقہ پر سوار تھے۔ آپؐ نے آنکھیں اٹھا کر عظیم الشان مجمع کی طرف دیکھا تو نبوت کے ۲۲ سال کے کارنامے نگاہوں کے سامنے تھے۔ زمین سے آسمان تک قبول اور اعتراف کا نور پھیلا تھا۔ اب ایک نئی شریعت، ایک نئے نظام اور ایک نئے عہد کا آغاز تھا۔ اسی عالم میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان فیض ترجمان سے یہ فقرے ادا ہوئے:
’’’ہاں! اللہ نے آسمان اور زمین کو جب پیدا کیا تھا، آج زمانہ پھر پھرا کر اسی فطرت پر آ گیا۔ تمہاری جانیں اور تمہاری ملکیتیں آپس میں ایک دوسرے کے لیے ویسی ہی عزت کے قابل ہیں، جیسے آج کا دن۔ اس عزت کے مہینے میں اس عزت والی آبادی میں ہاں! دیکھنا میرے بعد گمراہ نہ ہو جانا کہ خود ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔ تم کو خدا کے سامنے حاضر ہونا ہے اور وہ تم سے تمہارے کاموں کی بابت پوچھے گا۔ اگر تم پر ایک کالا نکٹا غلام بھی سردار بنا دیا جائے جو خدا کی کتاب کے مطابق تم کو لے چلے تو اس کا کہا ماننا‘‘۔
اپنے پروردگار کی پرستش کرنا، پانچوں وقت کی نمازیں پڑھنا، رمضان کے مہینے کے روزے رکھنا اور میرے احکام کو ماننا، تم اپنے پروردگار کی جنت میں داخل ہو گے۔
ہاں اب شیطان اس سے نا امید ہو گیا کہ تمہارے اس شہر میں اس کی پرستش پھر کبھی ہو گی۔ ہاں چھوٹی چھوٹی باتوں میں اس کے کہنے میں آ جاؤ گے اور وہ اسی سے خوش ہو گا‘‘۔
یہ کہہ کر آپؐ نے مجمعے کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ ’’میں نے اپنا پیغام پہنچا دیا‘‘۔ ہر طرف سے آوازیں آنے لگیں ’’ہاں! بے شک‘‘۔ فرمایا: خداوندا گواہ رہنا۔ یہ کہہ کر ارشاد فرمایا : ’’جو یہاں موجود ہے وہ اس پیغام کو اس تک پہنچا دے جو یہاں موجود نہیں‘‘۔ گویا یہ تبلیغ کا وہ فریضہ تھا، جو ہر مسلمان کی زندگی کا جزو ہے۔
ان سب کے بعد آپؐ نے تمام مسلمانوں کو الوداع کیا۔ حج کے دوسرے کاموں سے فارغ ہو کر ۱۴ ذی الحجہ فجر کی نماز خانہ کعبہ میں پڑھ کر تمام قافلے اپنے اپنے مقام کو روانہ ہو گئے اور آنحضرتؐ نے مہاجرین اور انصار کے جھرمٹ میں مدینے کی راہ لی۔
وفات (ربیع الاول سن ۱۱ ھ، مئی ۶۳۲ء)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پاک روح کو اس دنیا میں اسی وقت تک رہنے کی ضرورت تھی کہ نبوت کا کام پورا اور توحید کی روشنی سے دنیا کا اندھیرا دور ہو جائے۔ اب جب کہ یہ کام پورا ہو چکا تھا پھر خدا کے پاس واپسی کا حکم آ پہنچا، حجتہ الوداع کے موقعے پر عام مسلمانوں کو اپنے دیدار سے مشرف فرما کر خدا کے آخری احکام سے مطلع فرمایا۔ حج کے سفر سے واپس ہونے کے دو ماہ بعد آپؐنے ان مسلمانوں سے بھی رخصت ہونا چاہا جو شہادت کا پیالہ پی کر ہمیشہ کی زندگی پا چکے تھے۔ چنانچہ احد جا کر آپؐ نے احد کے شہیدوں کے لیے دعا فرمائی اور ان کو ٹھیک اس طرح رخصت کیا، جیسے مرنے والا اپنے زندہ عزیزوں کو رخصت کرتا ہے۔ اس کے بعد ایک مختصر تقریر کی جس میں فرمایا:
’’میں تم سے پہلے حوض کوثر پر جا رہا ہوں۔ اس حوض کی وسعت اتنی ہے جتنی ایلہ سے حجفہ تک، مجھ کو دنیا کے سارے خزانوں کی کنجیاں دی گئیں۔ مجھے یہ ڈر نہیں کہ تم میرے بعد شرک کرنے لگو گے۔ البتہ اس سے ڈرتا ہوں کہ تم دنیا میں پھنس کر آپس میں ایک دوسرے کا خون نہ بہاؤ۔ تم بھی اسی طرح برباد ہو جاؤ گے جیسے پہلے قومیں برباد ہو گئیں‘‘۔
احد کے شہیدوں کے بعد عام مسلمانوں کے قبرستان کی باری آئی۔ صفر سن ۱۱ ھ کی کسی درمیانی تاریخ میں آدھی رات کو آپؐ مسلمانوں کے عام قبرستان جس کا نام ’’جنت البقیع‘‘ ہے، تشریف لے گئے اور ان کے لیے دعائے خیر فرمائی۔ قبرستان سے آئے تو مزاج ناساز ہوا۔ یہ بدھ کا دن اور حضرت ام المومنین حضرت میمونہؓ کی باری کا دن تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معمول تھا کہ ایک دن ہر بیوی کے گھر قیام فرماتے۔ پانچ دن تک اس بیماری کی حالت میں بھی باری باری ایک ایک بیوی کے حجرہ (کوٹھڑی) میں تشریف لے جاتے۔ پیر کے دن بیماری زیادہ بڑھی تو بیویوں سے اجازت لی کہ حضرت عائشہؓ کے گھر قیام فرمائیں۔ کمزوری اتنی تھی کہ بے سہارا چل نہیں سکتے تھے۔ حضرت عباسؓ اور حضرت علیؓ دونوں بازو تھام کر حضرت عائشہؓ کے حجرے میں لائے۔
جب تک آنے جانے کی طاقت رہی، مسجد میں نماز پڑھانے کو تشریف لاتے رہے۔ سب سے آخری نماز آپؐ نے مغرب کی پڑھائی، عشاء کا وقت آیا، دریافت فرمایا کہ نماز ہو چکی۔ لوگوں نے عرض کی کہ حضورؐ کا انتظار ہے۔ لگن میں پانی بھروا کر غسل فرمایا لیکن جب اٹھنا چاہا تو غش آ گیا۔ افاقہ ہوا تو پھر پوچھا نماز ہو چکی؟ پھر کہا گیا کہ حضورؐ کا انتظار ہے۔ آپؐ نے پھر غسل فرمایا اور اٹھنا چاہا تو بیہوش ہو گئے۔ افاقہ ہوا تو پھر دریافت فرمایا، تیسری مرتبہ جسم مبارک پر پانی ڈالا گیا۔ پھر اٹھنے کا ارادہ کیا تو پھر غشی طاری ہو گئی۔ اب جب افاقہ ہوا تو ارشاد فرمایا کہ ابو بکرؓ نماز پڑھائیں۔ چنانچہ کئی دن تک حضرت ابو بکرؓ نے نماز پڑھائی۔
وفات سے چار روز پہلے طبیعت میں کچھ سکون ہوا۔ ظہر کے وقت پانی کی سات مشکوں سے غسل فرما کر حضرت عباسؓ اور حضرت علی مرتضیؓ کے سہارے سے آپؐ مسجد میں تشریف لائے۔ جماعت کھڑی تھی، حضرت ابو بکرؓ نماز پڑھا رہے تھے، آہٹ پا کر انہوں نے پیچھے ہٹنا چاہا، مگر آپؐ نے روک دیا اور ان کے پہلو میں آ کر بیٹھ گئے۔ نماز کے بعد ایک مختصر خطبہ دیا جس میں فرمایا ’’خدا نے اپنے ایک بندہ کو اختیار عطا فرمایا ہے کہ خواہ وہ دنیا کی نعمتوں کو قبول کرے یا خدا کے پاس جو کچھ ہے، اس کو قبول کرے، لیکن اس نے خدا ہی کے پاس کی چیزیں قبول کیں‘‘۔ یہ سن کر حضرت ابو بکرؓ رو پڑے، کیونکہ وہ سمجھ چکے تھے کہ یہ بندہ خود محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ انصار کی وفاداری کا خیال فرما کر ان کی نسبت فرمایا:
’’عام مسلمان بڑھتے جائیں گے، لیکن انصار اسی طرح کم ہو کر رہ جائیں گے جیسے کھانے میں نمک۔ مسلمانو! وہ اپنا کام کر چکے۔ اب تمہیں اپنا کام کرنا ہے، وہ میرے جسم میں بمنزلہ معدہ کے ہیں۔ میرے بعد جو اسلام کے کاموں کو اپنے ہاتھ میں لے، میں اس کو وصیت کرتا ہوں کہ وہ ان کے ساتھ نیک سلوک کرے‘‘۔
شرک کا بڑا ذریعہ یہ تھا کہ لوگ پیغمبروں کی نسبت شرعی حد سے بھی بڑھ کر عقیدت کا اظہار کرنے لگتے تھے۔ ان کو شریعت کا حاکم مطلق سمجھتے تھے۔ یہ نکتہ اس وقت آنحضرت ؐ کے پیش نظر تھا، فرمایا:
’’حلال و حرام کی نسبت میری طرف نہ کی جائے، میں نے وہی چیز حلال کی ہے جو خدا نے حلال کی ہے اور وہی چیز حرام کی ہے جو خدا نے حرام کی ہے‘‘۔
اسلام کی تعلیم کے بموجب عمل کے بغیر حسب و نسب کوئی چیز نہیں۔ یہاں تک کہ خود رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اختیار میں بھی نہیں۔ فرمایا:
’’اے پیغمبر خدا کی بیٹی فاطمہؓ اور اے پیغمبر خدا کی پھوپھی صفیہؓ! خدا کے ہاں کے لیے کچھ کر لو میں تمہیں خدا سے نہیں بچا سکتا‘‘۔
یہودیوں اور عیسائیوں نے پیغمبروں اور بزرگوں کے مزاروں اور یادگاروں کی تعظیم میں جو مبالغہ کیا تھا، وہ بت پرستی کی حد تک پہنچ گیا۔ حضور انور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظر کے سامنے اس وقت مسلمانوں کی صورت حال تھی کہ وہ میرے بعد میری قبر اور یادگاروں کے ساتھ کہیں یہی نہ کریں۔ اتفاق سے حضورؐ کی بیبیوںؓ نے جنہوں نے حبشہ کے سفر میں عیسائی گرجوں کو دیکھا تھا، ان کے مجسموں اور بتوں کا تذکرہ کیا۔ آپؐ نے فرمایا: ’’ان لوگوں میں جب کوئی نیک آدمی مر جاتا تو اس کے مقبرے کو عبادت گاہ بنا لیتے ہیں اور اس کا بت بنا کر اس میں کھڑا کرتے ہیں۔ ایسا کرنے والے قیامت کے دن بہت برے ٹھہریں گے‘‘۔
عین بے چینی کی حالت میں جب کبھی چادر منہ پر ڈال لیتے اور کبھی گرمی سے گھبرا کر الٹ دیتے، آہستہ سے فرمایا:
’’یہود و نصاریٰ پر خدا کی لعنت ہو کہ انہوں نے اپنے پیغمبروں کی قبروں کو عبادت کا گھر بنا لیا‘‘۔
اسی حالت میں یاد آیا کہ حضرت عائشہؓ کے پاس کچھ اشرفیاں رکھوائی تھیں۔ دریافت فرمایا کہ عائشہؓ! وہ اشرافیاں کہاں ہیں؟ کیا محمدؐ خدا سے بد گمان ہو کر ملے گا؟ جاؤ ان کو خدا کی راہ میں خیرات کر دو۔
مرض میں زیادتی اور کمی ہوتی رہتی تھی۔ جس دن وفات ہوئی، یعنی پیر کے دن۔
طبیعت ہلکی تھی، حجرہ مبارک مسجد سے ملا ہوا تھا۔ آپؐ نے صبح کے وقت پردہ اٹھا کر دیکھا تو لوگ فجر کی نماز میں مشغول تھے۔ دیکھ کر مسکرا دئیے کہ خدا کی زمین میں آخر وہ گروہ پیدا ہو گیا جو رسولؐ کی تعلیم کا نمونہ بن کر خدا کی یاد میں لگا ہے۔ لوگوں نے آہٹ پا کر خیال کیا کہ آپؐ باہر آنا چاہتے ہیں۔ خوشی سے لوگ بے قابو ہو چلے تھے اور قریب تھا کہ نمازیں ٹوٹ جائیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے جو امام تھے، چاہا کہ پیچھے ہٹ جائیں لیکن آپؐ نے اشارہ سے روکا اور حجرہ کے اندر ہو کر پردہ چھوڑ دیا۔ کمزوری اتنی تھی کہ آپؐ پردہ بھی اچھی طرح نہ چھوڑ سکے۔ یہ سب سے آخری موقع تھا۔ جس میں عام مسلمانوں نے حضورؐ کو ان کی زندگی میں دیکھا۔
دن جیسے جیسے چڑھتا جاتا تھا، آپؐ پر بار بار غشی طاری ہو رہی تھی۔ حضرت فاطمۃ الزہراؓ یہ دیکھ کر بولیں ’’ہائے میرے باپ کی بے چینی‘‘۔ آپ نے سنا تو فرمایا: ’’تمہارا باپ آج کے بعد پھر بے چین نہ ہو گا‘‘۔
سہ پہر تھی، سینے میں سانس کی گھڑگھڑاہٹ محسوس ہوتی تھی۔ اتنے میں مبارک ہونٹ ہلے تو لوگوں نے آپؐ کو یہ کہتے سنا: ’’نماز اور غلاموں سے نیک برتاؤ‘‘۔ اتنے میں ہاتھ اٹھا کر انگلی سے اشارہ کیا اور تین دفعہ فرمایا فی الرفیق الاعلیٰ (اللہ!جنت میں انبیاو شہداء کی رفاقت چاہتا ہوں)۔
یہی کہتے کہتے ہاتھ لٹک گئے، آنکھیں پھٹ کر چھت سے لگ گئیں اور روح پاک عالم قدس میں پہنچ گئی۔ اللھم صل وسلم علیہ و علی اٰلہ واصحابہ اجمعین۔
مدینہ کی گلیوں میں جاں نثاروں کے رونے کی آوازیں آنے لگیں۔ ان کی آنکھوں میں دنیا اندھیری ہو گئی۔ مسجد نبویؐ میں کہرام مچ گیا۔ حضرت عمرؓ نے تلوار نکال لی کہ جو یہ کہے گا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وفات پائی، اس کا سر اڑا دوں گا۔ حضرت ابو بکرؓ آئے اور حضرت عمرؓ کی اس حالت کو دیکھا تو سمجھ گئے کہ آج کا دھندلکاکل کتنی بڑی گمراہی کا سبب ہو سکتا ہے۔ انہوں نے سیدھے منبر نبویؐ کی طرف رخ کیا اور یہ تقریر فرمائی:
’’لوگو! اگر کوئی محمدؐ کو پوجتا تھا تو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو اس دنیا سے تشریف لے گئے اور اگر کوئی محمدؐ کے رب کو پوجتا تھا تو وہ زندہ ہے، اس کو موت نہیں (پھر یہ آیت تلاوت فرمائی)۔
وما محمد الا رسول، قد خلت من قبلہ الرسل افان مات اوقتل انقلبتم علی اعقا بکم و من ینقلب علی عقبیہ فلن یضر اللہ شیئا و سیجزی اللہ الشاکرین o (آل عمران: ۱۵)
’’اور محمدؐ تو خدا کے رسول ہیں، ان سے پہلے بہت سے نبی گزر چکے، کیا وہ اگر مر جائیں یا خدا کی راہ میں مارے جائیں تو کیا تم اپنے پچھلے پاؤں اسلام سے لوٹ جاؤ گے؟ اور جو کوئی لوٹ جائے گا تو وہ خدا کا کچھ نہیں بگاڑ دے گا اور اللہ اس نعمت کی قدر جاننے والوں کو جزائے خیر دے گا‘‘۔
اس آیت کا سننا تھا کہ سارے مسلمانوں کی آنکھیں کھل گئیں اور ایسا معلوم ہوا کہ یہ آیت پاک آج ہی اتری ہے۔ ہر مسلمان کی زبان پر یہی آیت تھی اور اسی کا چرچا تھا۔
حضور انور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات ہجرت کے گیارہویں سال ربیع الاول کے مہینے دوشنبہ یعنی پیر کے دن سہ پہر کے وقت ہوئی۔ مشہور روایت یہ ہے کہ یہ ۱۲ ربیع الاول کی تاریخ تھی۔ مگر خاص لوگوں کی تحقیق یہ ہے کہ ربیع الاول کی پہلی تھی۔ (یہ پوری تحقیق سیرۃ النبیؐ شبلی نعمانی جلد ۲ میں، میں نے درج کی ہے، مولف)۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تجہیز و تکفین کا کام منگل (سہ شنبہ) کو شروع ہوا اور آپؐ کے خاص عزیزوں نے اس کام کو انجام دیا۔ حضرت فضل بن عباسؓ، حضرت علی مرتضیٰؓ اور حضورؐ کے آزاد کیے ہوئے غلام حضرت زیدؓ کے بیٹے حضرت اسامہؓ نے آپؐ کو نہلایا۔ حضرت عباسؓ بھی موجود تھے۔ حضرت عائشہؓ کے جس حجرہ میں آپؐ نے وفات پائی تھی وہیں آپؐ کو دفن کیا گیا اور اس لیے یہ حجرہ آج کے دن تک روضہ نبویؐ کے نام سے موسوم ہے۔
ازواج مطہرات و اولاد (رضوان اللہ علیہم اجمعین)
ازواج مطہرات:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سب سے پہلی بیوی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا تھیں۔ ان کی وفات کے بعد حضرت ابو بکر صدیق کی صاحبزادی حضرت عائشہ صدیقہؓ اور زمعہ کی لڑکی حضرت سودہؓ سے نکاح کیا۔ اس کے بعد دوسری بیویاں نکاح میں آئیں جن کے نام یہ ہیں:
حضرت زینبؓ( ام المساکین)، حضرت ام سلمہؓ، حضرت زینبؓ بنت حجش، حضرت جویریہؓ، حضرت امام حبیبہؓ بنت ابو سفیان، حضرت حفصہؓ بنت عمرؓ بن خطاب، حضرت میمونہؓ بنت حارث اور حضرت صفیہؓ۔ ان میں حضرت زینبؓ ام المساکین کے علاوہ اور سب بیویاں آپؐ کی وفات کے وقت زندہ تھیں۔ اور آپؐ کے بعد اپنے دینی اور علمی فیض و برکت سے دنیا کو مالا مال کرتی رہیں۔ آپؐ کی ایک بیوی اور تھیں جو کنیز تھیں اور مصر سے آئی تھیں اور حضرت ماریہ قبطیہؓ کہلاتی تھیں۔ یہ سب امت کی مائیں تھیں اس لیے امہات المومنین کہلاتی تھیں۔ اللہ تعالیٰ کی رضا ان کے ساتھ ہو۔
اولاد
آپؐ کی ساری اولادیں صرف پہلی بیوی حضرت خدیجہ الکبریٰ سے ہوئیں۔ آخری بیوی حضرت ماریہ قبطیہؓ سے ایک صاحبزادے حضرت ابراہیم پیدا ہوئے تھے جو بچپن ہی میں وفات پا گئے۔
حضرت خدیجہؓ سے تین صاحبزادے حضرت قاسم، حضرت طاہر اور حضرت طیب ہوئے۔ انہوں نے بچپن ہی میں وفات پائی۔ باقی اور چار صاحبزادیاں ہوئیں اور سب نے اسلام کا زمانہ پایا۔ سب سے بڑی حضرت زینبؓ جن کا نکاح ابو العاص سے ہوا تھا۔ انہوں نے سن۸ھ میں امامہ نامی ایک بچی چھوڑ کر وفات پائی۔ منجھلی کا نام حضرت رقیہؓ تھا جو اسلام کے بعد حضرت عثمانؓ کے نکاح میں آئیں اور مدینہ آ کر س ۲ ھ میں انتقال کیا۔ تیسری صاحبزادی کا نام ام کلثومؓ تھا، حضرت رقیہؓ کے انتقال کے بعد ان کا نکاح حضرت عثمانؓسے ہوا اور سن ۹ ھ میں وفات پائی۔ چھوٹی صاحبزادی جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سب سے زیادہ پیاری تھی، حضرت فاطمہ زہرا تھیں جن کی شادی حضرت علیؓ سے ہوئی اور ان سے دو صاحبزادے امام حسن اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہما پیدا ہوئے۔
اخلاق و عادات
کسی نے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے پوچھا کہ حضور انور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق کیسے تھے؟ انہوں نے کہا کیا تم نے قرآن نہیں پڑھا ہے، جو کچھ قرآن میں ہے وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق تھے۔ غرض آپؐ کی ساری زندگی قرآن پاک کی عملی تفسیر تھی اور یہ بھی آپؐ کا ایک معجزہ ہے۔ خود قرآن پاک نے اس کی شہادت دی اور کہا کہ انک لعلی خلق عظیم یعنی بے شک اے محمدؐ !آپ حسن اخلاق کے بڑے رتبے پر ہیں۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہایت خاکسار، ملنسار، مہربان اور رحمدل تھے ۔ چھوٹے بڑے سب سے محبت کرتے تھے۔ نہایت سخی، فیاض اور داد و دہش والے تھے۔ امکان بھر سب کی درخواست پوری کرتے۔ تمام عمر کسی کے سوال پر ’’نہیں‘‘ نہیں کہا۔ خود بھوکے رہتے اور دوسروں کو کھلاتے۔ ایک مرتبہ ایک صحابی کی شادی ہوئی، ان کے پاس ولیمہ کا کچھ سامان نہ تھا، حضورؐ نے ان سے فرمایا کہ عائشہؓ کے پاس جاؤ اور آٹے کی ٹوکری مانگ لاؤ، حالانکہ اس آٹے کے سوا شام کے لیے گھر میں کچھ بھی نہ تھا، فیاضی اور دنیا کے مال سے بے رغبتی کا یہ عالم تھا کہ گھر میں نقد کی قسم سے کوئی چیز بھی ہوتی تو جب تک وہ سب خیرات نہ کر دی جاتی، آپؐ اکثر گھر میں آرام نہ فرماتے۔ ایک بار فدک کے رئیس نے چار اونٹوں پر غلہ بھیجا۔ اس کو بیچ کر قرض ادا کیا گیا۔ پھر بھی کچھ بچ رہا۔ آپؐ نے کہا جب تک کچھ بھی باقی رہے گا، میں گھر نہیں جا سکتا، رات مسجد میں بسر کی، دوسرے دن جب معلوم ہوا کہ وہ غلہ تقسیم ہو چکا ہے، تب گھر تشریف لے گئے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بڑے مہمان نواز تھے۔ آپؐ کے یہاں مسلمان ،مشرک اور کافر سب ہی مہمان ہوتے۔ آپؐ سب کی خاطر کرتے اور خود ہی سب کی خدمت کرتے۔ کبھی ایسا ہوتا کہ مہمان آ جاتے اور گھر میں جو کچھ موجود ہوتا وہ ان کو کھلا پلا دیا جاتا اور پورا گھر فاقہ کرتا۔ ایک دفعہ آپؐ کے یہاں ایک کافر مہمان ہوا۔ آپؐ نے ایک بکری کا دودھ اس کو پلایا۔ وہ سب دودھ پی گیا۔ آپؐ نے دوسری بکری منگوائی یہ اس کا بھی دودھ پی گیا۔ آپؐ نے دوسری بکری منگوائی یہ اس کا بھی دودھ پی گیا۔ غرض سات بکریوں تک نوبت آئی۔ جب تک اس کا پیٹ نہ بھر گیا آپؐ دودھ پلاتے گئے۔ راتوں کو اٹھ اٹھ کر مہمانوں کی دیکھ بھال فرماتے کہ ان کو کوئی تکلیف تو نہیں ہے۔ گھر میں رہتے تو گھر کے کام کاج اپنے ہاتھوں سے کرتے۔ اپنے پھٹے جوتے کو خود گانٹھ لیتے، بکریوں کا دودھ اپنے ہاتھوں سے دوہتے۔ مجمع میں بیٹھتے تو سب کے برابر ہو کر بیٹھتے۔ مسجد نبویؐ کے بنانے اور خندق کے کھودنے میں سب مزدوروں کے ساتھ مل کر آپؐ نے بھی کام کیے۔
آپؐ یتیموں سے محبت رکھتے اور ان کے ساتھ بھلائی کی تاکید فرماتے۔ فرمایا ’’مسلمانوں کا سب سے اچھا گھر وہ ہے جس میں کسی یتیم بچے کے ساتھ بھلائی کی جا رہی ہو۔ اور سب سے خراب گھر وہ ہے جس میں کسی یتیم کے ساتھ برائی کی جاتی ہو۔ آپؐ کی چہیتی بیٹی حضرت فاطمہ زہراؓجن کی حالت یہ تھی کہ چکی پیسے پیستے ہتھیلیاں گھس گئی تھیں اور مشک میں پانی بھر بھر کر لانے سے سینے پر نیل کے داغ پڑ گئے تھے، انہوں نے ایک دن آپؐ سے ایک خادمہ کے لیے عرض کی۔ آپؐ نے جواب دیا فاطمہ! بدر کے یتیم تم سے پہلے درخواست کر چکے ہیں۔ ایک روایت میں ہے کہ اے فاطمہؓ! صفہ کے غریبوں کا اب تک کوئی انتظام نہیں ہوا ہے تمہاری درخواست کیسے قبول کروں؟
غریبوں کے ساتھ آپؐ کا برتاؤ ایسا ہوتا کہ ان کو اپنی غریبی محسوس نہ ہوتی۔ ان کی مدد فرماتے اور ان کی دل جوئی کرتے۔ اکثر دعا مانگتے تھے کہ خداوند! مجھے مسکین زندہ رکھ، مسکین اٹھا اور مسکینوں ہی کے ساتھ میرا حشر کر۔ ایک بار ایک پورا قبیلہ آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ یہ لوگ اتنے غریب تھے کہ ان میں سے کسی کے بدن پر کوئی ٹھیک کپڑا نہ تھا۔ ننگے بدن، ننگے پاؤں ان کو دیکھ کر آپؐ پر بہت اثر ہوا، پریشانی میں اندر گئے، باہر تشریف لائے، اس کے بعد سب مسلمانوں کو جمع کر کے ان لوگوں کی امداد کے لیے فرمایا۔
آپؐ مظلوموں کی فریاد سنتے اور انصاف کے ساتھ ان کا حق دلاتے، کمزوروں پر رحم کھاتے، بے کسوں کا سہارا بنتے، مقروضوں کا قرض ادا کرتے۔ حکم تھا کہ جو مسلمان مر جائے اور اپنے ذمے قرض چھوڑ جائے تو مجھے اطلاع دو۔ میں اس کو ادا کروں گا اور وہ جو ترکہ چھوڑ جائے وہ وارثوں کا حق ہے۔ مجھے اس سے کوئی مطلب نہیں ہے۔
آپؐ بیماروں کو تسلی دیتے، ان کو دیکھنے جاتے۔ دوست، دشمن اور مومن و کافر کی اس میں کوئی قید نہ تھی۔ گنہگاروں کو معاف کر دیتے، دشمنوں کے حق میں دعائے خیر فرماتے، جانی دشمنوں اور قاتلانہ حملہ کرنے والوں تک سے بدلہ نہیں لیا۔ ایک بار ایک شخص نے آپؐ کے قتل کا ارادہ کیا۔ صحابہؓ اس کو گرفتار کر کے سامنے لے آئے۔ وہ آپؐ کو دیکھ کر ڈر گیا۔ آپؐ نے فرمایا ڈرو نہیں، اگر تم مجھے قتل کرنا چاہتے بھی تو نہیں کر سکتے تھے۔
ہبار بن الاسود جو ایک طرح سے حضورؐ کی صاحبزادی زینب کا قاتل تھا، فتح مکہ کے موقع پر اس نے چاہا کہ ایران بھاگ جائے لیکن وہ سیدھا حضورؐ کے پاس آیا اور کہا یا رسول اللہؐ میں بھاگ کر ایران جانا چاہتا تھا لیکن آپؐ کا رحم و کرم یاد آیا۔ اب میں حاضر ہوں اور میرے جن جرموں کی خبر آپؐ کو ملی ہے وہ درست ہیں۔ حضور ؐ اکرم نے اس کو معاف کر دیا۔
ہمسایوں کی خبر گیری فرماتے، ان کے ہاں تحفے بھیجتے، ان کا حق پورا کرنے کی تاکید فرماتے رہتے۔ ایک دن صحابہؓ کا مجمع تھا۔ آپؐ نے فرمایا خدا کی قسم وہ مومن نہ ہو گا، خدا کی قسم وہ مومن نہ ہو گا۔ صحابہؓ نے پوچھا، کون یا رسول اللہ؟ فرمایا، وہ جس کا پڑوسی اسی کی شرارتوں سے بچا نہ ہو۔آپ ﷺ اپنے پڑوسیوں کے ہاں جا کر ان کے کام کرآتے ۔پڑوسیوں کے سوا اور جو بھی آپؐ سے کسی کام کے لیے کہتا ،اس کو پورا فرماتے۔ مدینے کی لونڈیاں آپؐ کی خدمت میں آتیں اور کہتیں، یا رسول اللہؐ میرا یہ کام ہے۔ آپؐ فوراً اٹھ کھڑے ہوتے اور ان کا کام کر دیتے۔ بیوہ ہو یا مسکین یا کوئی ضرورت مند سب ہی کی ضرورتوں کو آپؐ پورا فرماتے اور دوسروں کے کام کرنے میں عار محسوس نہ فرماتے۔
بچوں سے بڑی محبت فرماتے تھے۔ ان کو چومتے اور پیار کرتے تھے۔ فصل کا نیا میوہ سب سے کم عمر بچہ جو اس وقت موجود ہوتا اس کو دیتے۔ راستے میں بچے مل جاتے تو خود ان کو سلام فرماتے۔ اسلام سے پہلے عورتیں ہمیشہ ذلیل رہی ہیں۔ لیکن ہمارے حضورؐ نے ان پر بہت احسان فرمایا۔ ان کے حقوق مقرر فرمائے اور اپنے برتاؤ سے ظاہر فرما دیا کہ یہ طبقہ حقیر نہیں ہے بلکہ عزت اور ہمدری کے لائق ہے۔ آپؐ کے پاس ہر وقت مردوں کا مجمع رہتا تھا۔ عورتوں کو آپؐ کی باتیں سننے کا موقع نہ ملتا۔ اس لیے خود عورتوں کی درخواست پر آپؐ نے ان کے لیے خاص ایک دن مقرر فرما دیا تھا۔ عورتیں دلیری اور بے تکلفی سے آپؐ سے مسائل پوچھتیں، لیکن آپؐ برا نہ مانتے، ان کی خاطر داری کا خیال رکھتے تھے۔
آپؐ ساری دنیا کے لیے رحمت بن کر آئے تھے، اسی لیے کسی کے ساتھ بھی زیادتی اور نا انصافی کو پسند نہ فرماتے تھے۔ یہاں تک کہ جانوروں کے ساتھ لوگ جو بے پروائی برتتے تھے، وہ بھی آپؐ کو گوارا نہ تھی۔ اور ان بے زبانوں پر جو ظلم ہوتا آیا تھا، اس کو روک دیا۔
ایک بار ایک صاحب نے ایک پرندے کا انڈا اٹھا لیا۔ چڑیا بے قرار ہو کر پر مار رہی تھی۔ آپؐ نے پوچھا کہ کس نے اس کا انڈا لیا ہے اور اس کو دکھ پہنچایا ہے؟ ان صاحب نے کہا یا رسول اللہؐ میں نے یہ کیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا وہیں رکھ دو!۔
آپؐ کی نظر میں امیر، غریب سب برابر تھے۔ قبیلہ مخزوم کی ایک عورت چوری کے جرم میں گرفتار ہوئی۔ لوگوں نے حضرت اسامہؓ جن کو آپؐ بہت چاہتے تھے، ان سے سفارش کرائی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سب سے فرمایا کہ تم سے پہلے کی قومیں اسی لیے برباد ہو گئیں کہ جب کوئی بڑا آدمی جرم کرتا تو اس کو چھوڑ دیتے اور معمولی آدمی جرم کرتا تو سزا پاتا۔ خدا کی قسم اگر محمدؐ کی بیٹی فاطمہؓ چوری کرتی تو اس کے ہاتھ بھی کاٹے جاتے۔

وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا   ۔۔۔۔۔۔  مرادیں غریبوں کی بھر لانے والا
مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا ۔۔۔۔۔۔۔ وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا
فقیروں کا ملجا، ضعیفوں کا ماویٰ
یتیموں کا والی، غلاموں کا مولیٰ
خطاکار سے درگزر کرنے والا ۔۔۔۔۔۔۔ بد اندیش کے دل میں گھر کرنے والا
مفاسد کا زیر و زبر کرنے والا ۔۔۔۔۔۔۔ قبائل کا شیر و شکر کرنے والا
اتر کر حرا سے سوئے قوم آیا
اور اک نسخہ کیمیا ساتھ لایا
مس خام کو جس نے کندن بنایا ۔۔۔۔۔۔۔۔ کھرا اور کھوٹا الگ کر دکھایا
عرب جس پہ قرنوں سے تھا جہل چھایا ۔۔۔۔۔۔۔ پلٹ دی بس اک آن میں اس کی کایا
رہا ڈر نہ بیڑے کو موج بلا کا
ادھر سے ادھر پھر گیا رخ ہوا کا

حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ میں نے دس برس آپؐ کی خدمت میں گزارے، مگر آپؐ نے نہ کبھی مجھے ڈانٹا، نہ مارا نہ پوچھا کہ تم نے یہ کام کیوں کیا اور یہ کیوں نہ کیا؟ آپؐ نے تمام عمر میں کبھی کسی کو نہیں مارا اور یہ کیا عجیب بات ہے کہ ایک فوج کا جرنیل جس نے مسلسل نو برس لڑائیوں میں گزارے اور جس نے کبھی لڑائی کے میدان سے منہ نہیں موڑا۔ اس نے اپنے دشمن پر بھی کبھی تلوار نہیں اٹھائی اور نہ کبھی اپنے ہاتھ سے کسی پر وار کیا، احد کے میدان میں جب ہر طرف سے آپؐ پر پتھروں، تیروں اور تلواروں کی بارش ہو رہی تھی، آپؐ اپنی جگہ پر کھڑے تھے اور جانثار دائیں بائیں کٹ کٹ کر گر رہے تھے۔
اسی طرح حنین کی لڑائی میں اکثر مسلمان غازیوں کے پاؤں اکھڑ چکے تھے۔ حضور اکرمؐ پہاڑ کی طرح اپنی جگہ پر کھڑے تھے۔ صحابہؓ کہتے ہیں: لڑائی کے اکثر معرکوں میں آپؐ وہاں ہوتے جہاں بڑے بڑے بہادر کھڑا ہونا اپنی شجاعت کا آخری کارنامہ سمجھتے تھے۔ مگر ایسے خوفناک مقاموں پر رہ کر بھی دشمن پر ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے۔ احد کے دن جب مشرکوں کے حملے میں سر مبارک زخمی اور دندان مبارک شہید ہوئے ،یہ فرماتے تھے ’’خداوند! انہیں معاف کر کہ یہ نہیں جانتے‘‘۔
سالہا سال کی ناکامی کی تکلیفوں کے بعد بھی کبھی مایوسی نے آپؐ کے دل میں راہ نہ پائی اور آخر وہ دن آیا جب آپؐ اکیلے سارے عرب پر چھا گئے۔ مکہ کی تکلیفوں سے گھبرا کر ایک صحابی نے درخواست کی یا رسول ؐ اللہ آپؐ ہم لوگوں کے لیے دعا کیوں نہیں فرماتے۔ یہ سن کر آپؐکا چہرہ مبارک سرخ ہو گیا اور فرمایا کہ تم سے پہلے جو لوگ گزرے ان کو آروں سے چیرا گیا۔ ان کے بدن پر لوہے کی کنگھیاں چلائی گئیں جس سے گوشت پوست سب کٹ جاتا، لیکن یہ تکلیفیں بھی ان کو حق سے نہ پھیر سکیں۔ خدا کی قسم دین اسلام اپنے کمال کے مرتبہ پر پہنچ کر رہے گا۔ یہاں تک کہ صنعاء (یمن) سے حضر موت تک ایک سوار اس طرح بے خطر چلا جائے کہ اس کو خدا کے سوا کسی اور کا ڈر نہ ہو گا۔
آپؐ کا وہ عزم اور استقلال یاد ہو گا، جب آپؐ نے اپنے چچا کو یہ جواب دیا تھا کہ چچا جان! اگر قریش میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند رکھ دیں تب بھی میں حق کے اعلان سے باز نہ رہوں گا۔
ایک بار دوپہر کو ایک لڑائی میں آپؐ ایک درخت کے نیچے اکیلے آرام فرما رہے تھے۔ ایک عرب آیا اور تلوار کھینچ کر بولا ’’بتا اے محمدؐ اب تجھ کو مجھ سے کون بچا سکتا ہے؟ اطمینان اور تسلی سے بھری ہوئی آواز میں جواب دیا ’’اللہ‘‘۔ وہ یہ جواب سن کر کانپ گیا اور تلوار نیام میں رکھ لی۔
لڑائیوں کے مال غنیمت اور خیبر وغیرہ کی زمینوں کی پیداوار کا حال سن کر کسی کو یہ شبہ نہ ہو کہ اب اسلام کی غربت کا زمانہ ختم ہو گیا اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بڑے آرام اور تزک و احتشام سے زندگی بسر کرنے لگے۔ ازواجِ مطہراتؓ اور اہل بیتؓ کرام کے گھروں میں جو کچھ آتا وہ دوسرے ضرورت مندوں اور محتاجوں کی نذر ہو جاتا تھا اور خود آپؐ کی اور آپؐ کے اہل بیتؓ کی زندگیاں اسی تنگی اور غربت سے بسر ہوتی تھیں۔ خود فرمایا کرتے تھے کہ آدم کے بیٹے کے لیے ستر چھپانے کو ایک کپڑا اور پیٹ بھرنے کو روکھی سوکھی روٹی اور پانی کافی ہے اور اسی پر آپؐ کا عمل تھا۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ آپؐ کا کپڑا کبھی تہہ کر کے رکھا نہیں جاتا تھا۔ یعنی ایک ہی جوڑا کپڑا ہوتا تھا دوسرا نہیں جو تہہ کر کے رکھا جاتا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھروں میں اکثر فاقہ رہتا تھا اور کئی کئی دنوں تک رات کو کھانا نہیں ملتا تھا۔دو دو مہینوں تک لگاتار گھروں میں چولہا جلنے کی نوبت نہ آتی۔ چند کھجوروں پر گزارا ہوتا تھا۔ کبھی کوئی پڑوسی بکری کا دودھ بھیج دیتا تو وہی پی لیتے۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ آپؐ نے (مدینہ کے زمانہ قیام میں) کبھی دو وقت سیر ہو کر کھانا نہیں کھایا۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک بھوکا آدمی آپؐ کی خدمت میں آیا۔ آپؐ نے زواج مطہراتؓ میں سے کسی کے ہاں بھیجا، جواب آیا کہ گھر میں پانی کے سوا کچھ نہیں۔ آپؐ نے دوسرے گھر میں آدمی بھیجا۔ وہاں سے بھی یہی جواب ملا۔ غرض آٹھ نو گھروں میں سے کہیں پانی کے سوا کھانے پینے کی کوئی چیز نہیں ملی۔
ایک دن آپؐ بھوک میں ٹھیک دوپہر کو گھر سے نکلے، راستہ میں حضرت ابو بکرؓ اور حضرت عمرؓ ملے۔ یہ دونوں بھی بھوکے تھے۔ آپؐ ان دونوں کو لے کر حضرت ایوب انصاریؓ کے گھر آئے۔ ان کو خبر ہوئی تو دوڑے آئے اور باغ سے جا کر کھجوروں کا ایک خوشہ توڑ لائے اور سامنے رکھ دیا۔ اس کے بعد ایک بکری ذبح کی اور کھانا تیار کیا اور سامنے لا کر رکھا۔ حضرت محمدؐ نے ایک روٹی پر تھوڑا سا گوشت رکھ کر فرمایا کہ یہ فاطمہؓ کے یہاں بھجواؤ اس کو کئی دن سے کھانا نصیب نہیں ہوا ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب وفات پائی تو حالت یہ تھی کہ آپؐ کی زرہ، تین سیر جو پر ایک یہودی کے پاس گروی تھی۔ جن کپڑوں میں وفات پائی ان پر اوپر تلے پیوند لگے ہوئے تھے۔
حضرت فاطمہؓ سے آپؐ کو بڑی محبت تھی۔ مگر یہ محبت سونے چاندی کے زیوروں اور اینٹ چونے کے مکانوں میں کبھی ظاہر نہ ہوئی۔ بی بی فاطمہؓ اپنے ہاتھوں سے کام کرتیں، مشک بھر کر پانی لاتیں، آٹا گوندھتیں اور اگر کبھی باپ سے کسی غلام یا لونڈی کی فرمائش کرتیں تو فرماتے کہ بیٹی یہ تسبیح پڑھ لیا کرو۔ ایک دفعہ جب بہت سی لونڈیاں اور غلام آئے تو آپؐ کی خدمت میں جا کر عرض کی ۔فرمایا، جان پدر، بدر کے یتیم اور صفہ کے مسافر تم سے زیادہ مستحق ہیں۔

افلاس سے تھا سیدہؓ پاک کا یہ حال
گھر میں کوئی کنیز نہ کوئی غلام تھا
گھس گھس گئی تھی ہاتھ کی دونوں ہتھیلیاں
چکی کے پیسنے کا جو دن رات کام تھا
سینے پر مشک بھر کے جو لاتی تھیں بار بار
گو نور سے بھرا تھا مگر نیل فام تھا
اٹ جاتا تھا لباس مبارک غبار سے
جھاڑو کا مشغلہ بھی جو ہر صبح و شام تھا
آخر گئیں جناب رسولؐ خدا کے پاس
یہ بھی کچھ اتفاق کہ واں اذن عام تھا
محرم نہ تھے جو لوگ تو کچھ کر سکیں نہ عرض
واپس گئیں کہ پاس حیا کا مقام تھا
پھر جب گئیں دوبارہ تو پوچھا حضورؐ نے
کل کس لیے تم آئی تھیں کیا خاص کام تھا
غیرت یہ تھی کہ اب بھی نہ کچھ منہ سے کہہ سکیں
حیدر نے ان کے منہ سے کہا جو پیام تھا
ارشاد یہ ہوا کہ غریبان بے وطن
جن کا کہ صفہ نبوی میں قیام تھا
میں ان کے بندوبست سے فارغ نہیں ہنوز
ہرچند اس میں خاص مجھے اہتمام تھا
جو جو مصیبتیں کہ اب ان پر گزرتی ہیں
میں ان کا ذمہ دار ہوں میرا یہ کام تھا
کچھ تم سے بھی زیادہ مقدم ہے ان کا حق
جن کو بھوک پیاس سے سونا حرام تھا
خاموش ہو کے سیدہ پاک رہ گئیں
جرات نہ کر سکیں کہ ادب کا مقام تھا
یوں کی ہے اہلِ بیت مطہرؓ نے زندگی
یہ ماجرائے دخترؓ خیرالانامؐ تھا

آپؐ کبھی کسی کا احسان لینا گوارانہ فرماتے۔ حضرت ابو بکرؓ نے ہجرت کے وقت سواری کے لیے اونٹ پیش کیا تو آپؐ نے اس کی قیمت ادا فرما دی۔ جن لوگوں سے تحفہ قبول فرماتے ، ان کو اس کا بدلہ ضرور دیتے تھے۔ ایک مرتبہ ایک شخص نے ہدیہ میں ایک اونٹنی پیش کی۔ آپؐ نے اس کا بدلہ دیا تو اس کو برا معلوم ہوا۔ آپؐ نے منبر پر کھڑے ہو کر فرمایا کہ تم لوگ مجھے ہدیہ دیتے ہو اور میں امکان بھر اس کا بدلہ دیتا ہوں تو ناراض ہو جاتے ہو۔
آپؐ لین دین کے معاملات میں بہت صاف تھے، فرمایا کرتے کہ سب سے بہتر لوگ وہ ہیں جو قرض کو اچھی طرح سے ادا کرتے ہیں۔ ایک دفعہ کسی سے آپؐ نے اونٹ قرض لیا جب واپس کیا تو اس سے بہتر اونٹ واپس کیا۔ ایک بار کسی سے ایک پیالہ عاریتاً لیا۔ اتفاق سے وہ گم ہو گیا تو آپؐ نے اس کا تاوان ادا فرمایا۔
آپؐ جو وعدہ فرماتے اس کو پورا فرماتے، کبھی بد عہدی نہیں فرمائی۔ صلح حدیبیہ میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ مکے سے جو مسلمان ہو کر مدینہ جائے گا وہ مکے والوں کے مطالبے پر واپس کر دیا جائے گا۔ چنانچہ ایک صاحب حضرت ابو جندلؓ مکہ سے بھاگ کر آئے اور فریاد کی۔ سب مسلمان یہ دیکھ کر تڑپ گئے، لیکن آپؐ نے صاف فرما دیا کہ اے ابو جندلؓ صبر کرو میں بد عہدی نہیں کروں گا۔ اللہ تعالیٰ تمہارے لیے کوئی راستہ نکالے گا۔
سچائی آپؐ کی ایک ایسی صفت تھی کہ دشمن بھی اس کو مانتے تھے۔ ابو جہل کہا کرتا تھا کہ محمدؐ میں تم کو جھوٹا نہیں کہتا، البتہ تم جو کچھ کہتے ہو اس کو صحیح نہیں سمجھتا۔
آپؐ شرمیلے بہت تھے۔ کبھی کسی کے ساتھ بد زبانی نہیں کی۔ بازاروں میں جاتے تو چپ چاپ گزر جاتے۔ بھری محفل میں کوئی بات ناگوار ہوتی تو لحاظ سے زبان سے کچھ نہ کہتے۔ لیکن چہرے سے معلوم ہو جاتا، آپؐ کی طبیعت میں بہت استقلال تھا۔ جس چیز کا ارادہ پکا ہو جاتا پھر اس کو پورا ہی فرماتے۔ غزوہ احد میں صحابہؓ سے مشورہ کیا سب نے حملے کی رائے دی لیکن جب آپؐ زرہ پہن کر تشریف لائے تو رک جانے کا مشورہ دیا گیا۔ آپؐ نے فرمایا پیغمبر زرہ پہن کر اتار نہیں سکتا۔
آپؐ کی بہادری بھی بے مثال تھی۔ ایک بار مدینے میں شور ہوا کہ دشمن آ گئے۔ لوگ مقابلے کے لیے تیار ہو گئے۔ لیکن سب سے پہلے حضورؐ نکل پڑے اور گھوڑے پر زین کے بغیر گشت کر آئے اور واپس آ کر لوگوں کو تسکین دی کہ کوئی خطرہ کی بات نہیں ہے۔
مزاج مبارک میں سادگی بہت تھی۔ کھانے پینے، پہننے، اوڑھنے، اٹھنے بیٹھنے کسی چیز میں تکلف پسند نہ تھا۔ جو سامنے آ جاتا، وہ کھا لیتے۔ پہننے کے لیے موٹا جھوٹا جو مل جاتا اس کو پہن لیتے۔ زمین پر، چٹائی پر، فرش پر جہاں جگہ ملتی، بیٹھ جاتے۔ خدا کی نعمتوں سے جائز طور پر فائدہ اٹھانے کی اجازت آپ نے ضرور دی۔ لیکن تن پروری اور عیش نہ اپنے لیے پسند فرمایا نہ عام مسلمانوں کے لیے۔ ایک بار حضرت عائشہ صدیقہؓ کے پاس تشریف لے گئے۔ دیکھا کہ گھر میں چھت گیر لگی ہوئی ہے۔ اسی وقت پھاڑ ڈالی اور فرمایا کہ خدا نے ہم کو دولت اس لیے نہیں دی کہ اینٹ پتھر کو کپڑے پہنائے جائیں۔ ایک بار حضرت فاطمہؓ کے گلے میں سونے کا ہار دیکھا تو فرمایا کہ تم کو برا نہ معلوم ہو گا جب لوگ کہیں گے کہ پیغمبر کی لڑکی کے گلے میں آگ کا ہار ہے۔
دنیا سے بے رغبتی کے باوجود آپؐ کو خشک مزاجی اور روکھا پن پسند نہ تھا۔ کبھی کبھی دلچسپی کی باتیں فرماتے۔ ایک بار ایک بڑھیا آپؐ کی پاس آئی اور جنت کے لیے دعا کی خواہش کی۔ آپؐ نے فرمایا کہ بوڑھیاں جنت میں نہ جائیں گی۔ اس کو بہت رنج ہوا، روتی ہوئی واپس چلی۔ آپؐ نے لوگوں سے کہا اس سے کہہ دو کہ بوڑھیاں جنت میں نہ جائیں گی مگر جوان ہو کر جائیں گی۔ بعض لوگ رات دن نماز روزہ میں مشغول رہنا چاہتے تھے۔ اس کی وجہ سے بیوی بچوں نیز اپنے جسم کے حق کے پورا نہ ہونے کا اندیشہ تھا۔ اس لیے حضورؐ ان کو روکتے۔ حضرت عبد اللہ بن عمروؓ کے متعلق خبر ہوئی کہ انہوں نے ہمیشہ دن میں روزہ رکھنے اور رات بھر عبادت کرنے کا عہد کیا۔ آپؐ نے ان کو بلا بھیجا اور پوچھا کیا یہ خبر صحیح ہے؟ انہوں نے کہا ہاں! فرمایا کہ تم پر تمہارے جسم کا حق ہے، آنکھ کا حق ہے، بیوی کا حق ہے۔
آپؐ کی احتیاط کا یہ عالم تھا کہ کسی کے گھر جاتے تو دروازہ کے دائیں یا بائیں کھڑے ہوتے تا کہ نظر گھر کے اندر نہ پڑے۔
صفائی کا خاص خیال رہتا۔ ایک شخص کو میلے کپڑے پہنے دیکھا تو فرمایا اس سے اتنا نہیں ہوتا کہ کپڑے دھو لیا کرے۔ گفتگو ٹھہر ٹھہر کر فرماتے تھے۔ ایک ایک فقرہ الگ ہوتا۔ کسی کی بات کاٹ کر گفتگو نہ فرماتے۔ جو بات نا پسند ہوتی اس کو ٹال دیتے۔ زیادہ تر چپ رہتے۔ بے ضرورت گفتگو نہ فرماتے، ہنسی آتی تو مسکرا دیتے۔
آپؐ ہر لحظہ اور ہر لمحہ خدا کی یاد میں رہتے، اٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے غرض ہر وقت اسی کی خوشی کی تلاش میں رہتے اور ہر حالت میں دل اور زبان سے اللہ کی یاد جاری رہتی۔ صحابہؓ کی محفلوں میں یا بیویوں کے حجروں میں ہوتے اور یکایک اذان کی آواز آتی۔ آپؐ اٹھ کھڑے ہوتے۔ رات کا بڑا حصہ خدا کی یاد میں بسر ہوتا۔ کبھی پوری پوری رات نماز میں کھڑے رہتے اور بڑی بڑی سورتیں پڑھتے۔ آپؐ اللہ تعالیٰ کے بڑے پیارے پیغمبر تھے۔ پھر بھی فرمایا کرتے تھے کہ مجھ کو کچھ معلوم نہیں کہ میرے اوپر کیا گزرے گی؟ ایک بار بڑے پر اثر الفاظ میں فرمایا: ’’اے قریشیو! آپ اپنی خبر لو، میں تم کو خدا سے نہیں بچا سکتا، اے عبد مناف! میں تم کو خدا سے نہیں بچا سکتا، اے عباسؓ بن عبد المطلب میں تم کو بھی خدا سے نہیں بچا سکتا، اے صفیہؓ رسولؐ خدا کی پھوپھی! میں تم کو بھی خدا سے نہیں بچا سکتا، اے محمدؐ کی بیٹی فاطمہؓ میں تم کو بھی خدا سے نہیں بچا سکتا‘‘۔
ایک صحابیؓ کا بیان ہے کہ میں ایک بار حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوا، دیکھا تو آپؐ نماز پڑھ رہے ہیں۔ آنکھوں سے آنسو جاری ہیں، روتے روتے اس قدر ہچکیاں بندھ گئی تھیں کہ معلوم ہوتا کہ چکی چل رہی ہے یا ہانڈی ابل رہی ہے۔ آپؐ ایک بار ایک جنازے میں شریک تھے، قبر کھودی جا رہی تھی، آپؐ قبر کے کنارے بیٹھ گئے اور یہ منظر دیکھ کر رونے لگے۔ یہاں تک کہ زمین تر ہو گئی۔ پھر فرمایا بھائیو! اس دن کے لیے سامان کر رکھو۔
اوپر کے صفحوں میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک حالات اور آپؐ کے اچھے اخلاق اور عادات کو پڑھ چکے، اب اس کی کوشش ہونی چاہیے کہ حضور اکرمؐ کی زندگی کی ہم پیروی اور آپؐ کی بتائی ہوئی باتوں پر عمل کریں کہ خدا کی خوشی حاصل کرنے کا یہی ذریعہ ہے اور دین و دنیا کی بادشاہت کی صرف یہی ایک کنجی ہے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top