۲ ۔ اللہ سے محبت
حکیم محمد سعید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ سے محبت
حضورﷺ کا اللہ سے تعلق ایسا تھا کہ ہر حالت میں،بیٹھے ہوں یا چلتے ہوں،سوتے ہوں یا جاگتے ہوں،آپﷺاللہ کو یاد کرتے تھے۔اللہ کے حضورآپﷺ اتنی دیر کھڑے رہتے کہ آپﷺ کے پاؤں سوج جاتے اور جب آپﷺ سے اس کے بارے میں پوچھا جاتا تو فرماتے :
’’کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں ؟‘‘
اللہ سے حضورﷺکا تعلق ایک لمحے کے لیے بھی ختم نہ ہوتا ۔رات اور دن کے اکثراوقات میں آپ ﷺنماز کے لیے کھڑ ہو جاتے، اللہ سے دعائیں مانگتے اور التجائیں کرتے ۔راتوں کو اٹھ کر جب حضورﷺ نمازکے لیے کھڑے ہوتے تواکثر یہ دعا مانگتے :
’’اے اللہ ساری تعریف تیرے لیے ہے۔تو ہی آسمان اور زمین کی سب چیزوں کو قائم رکھنے والاہے ۔تو آسمان اور زمین کی سب چیزوں کانور ہے ۔ تیرے ہی لیے ساری تعریف ہے،تو آسمان اور زمین اور ان کی تمام چیزوں کا مالک ہے۔
اے اللہ !میں تیرے لیے اسلام لایا ،تجھ پر ایمان لایا ،تجھ ہی پر میں نے بھروسہ کیا، تیری ہی جانب میں نے رجوع کیا ، لوگو ں سے دشمنی اور محبت تیرے ہی لیے کی۔میرے اگلے پچھلے گناہ بخش دے۔تو ہی سب سے پہلے اور تو ہی سب سے آخر ہے ۔تیرے سوا اور کوئی معبود نہیں، تمام قوت اور طاقت کا مالک اے اللہ صرف تو ہی ہے۔
آپ ﷺ سوتے تو اللہ کا ذکر کرتے ،سو کر اٹھتے تواللہ کو یاد کرتے ،کھاناکھاتے تو اللہ کا شکر ادا کرتے، پانی پیتے تواللہ کا شکر ادا کرتے۔آپ کی مرضی کے مطابق کام ہوجاتا تو فرماتے :
ساری تعریف اللہ کے لیے ہے جس کی نعمت سے اچھے کام پورے ہوتے ہیں ۔‘‘
آ پ ﷺ کی مرضی کے خلاف کوئی کام ہوتا تو فرماتے :
’’ہر حال میں اللہ کا شکر ہے ۔‘‘
اللہ پر بھروسا
حضورﷺ کو اللہ پر اس قدر بھروسہ تھا کہ سخت سے سخت اور مشکل سے مشکل حالات میں بھی آپ ﷺ کبھی ہراساں نہیں ہوئے ۔ اللہ کی مدد اور اس کی تائید پر آپﷺ کو ایسا یقین تھا کہ بڑی سے بڑی کٹھن گھڑی میں آپﷺ مایوس نہیں ہوئے ، آپﷺ کوخوف محسوس نہیں ہوا ۔مکّے میں کافروں نے آپﷺ کو ایذائیں پہنچانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی ،آپ ﷺ کو مصیبتوں کا سامنا ہوا، دشمنوں سے سخت مقابلے ہوئے ،آپ ﷺ کی جان شدید خطروں میں گھر گئی لیکن آپ ﷺ اللہ پر بھروسہ کیے رہے ۔
ہجرت کے موقع پر دشمنوں نے آپ ﷺ کے گھر کو چاروں طرف سے گھیر رکھاتھا ۔وہ آپ ﷺ کے خون کے پیاسے ہو رہے تھے، لیکن آپ ﷺ قطعی پریشان نہ تھے۔آپ ﷺ نے بڑے اطمینان اور سکون کے ساتھ اپنے چچا زاد بھائی حضرت علیؓ کو اپنی جگہ بستر پر لٹا دیا اور فرمایا:
’’تم کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا ۔‘‘
پھر آپ ﷺ گھر سے باہر آگئے اور حضرت ابو بکرؓ کے ساتھ مکے سے نکل کر غار ثور میں میں پناہ لی۔قریش نے جب آپﷺ کو گھر میں نہ پایا تو انتقام کے جوش میں آپ ﷺکی تلاش میں نکل پڑے ۔قدموں کے نشان دیکھتے دیکھتے ٹھیک اس غار تک پہنچ گئے ۔حضرت ابوبکرؓ گھبرا کر کہنے لگے:
’’یا رسول اللہ ! دشمن سر پر آگیا ہے ۔اگر یہ لوگ ذرا جھک کر اپنے پاؤں کی طرف دیکھیں گے تو ہم نظر آجائیں گے ۔‘‘
حضورﷺ کو تو اللہ پر بھروسہ تھا۔آپﷺ نے پورے سکون و اطمینان کے ساتھ فرمایا:
’’فکر نہ کرو،ہمارے ساتھ اللہ ہے ۔‘‘
بچا نے والا اللہ ہے
رسول اللہ ﷺ غزوۂ نجد سے واپس آ رہے تھے ۔راستے میں ایک جگہ پڑاؤ کیا۔ اس جگہ درختوں کے کئی جھُنڈ تھے۔ دوپہر کا وقت تھا۔صحابہؓ ان درختوں کے سائے میں ادھر ادھر آرام کرنے کے لیے لیٹ گئے اور سو گئے ۔
حضورﷺ بھی ایک درخت کے نیچے اکیلے آرام فرما رہے تھے ۔آپﷺ کی تلوار درخت کی ایک شاخ سے لٹکی ہوئی تھی ۔اچانک ایک بدّو جو شاید اسی موقع کی تاک میں تھا، چُپکے سے آیااور آپ ﷺ کی تلوار اُتار کر نیام سے نکالی اور آپﷺ کے سامنے آگیا۔
آپﷺ ہوشیار ہوئے تو دیکھا کہ ایک بدّو ننگی تلوار لیے سر پر کھڑا ہے ۔بدّو نے آپﷺ کو ہوشیار دیکھ کر پوچھا:
’’اے محمّدﷺ !بتاؤ اب تمھیں کون بچا سکتا ہے ؟‘‘
حضورﷺ نے نہایت سکون اور اطمینان سے جواب دیا:
’’اللہ۔‘‘
یہ سُنتے ہی بدّو کے ہاتھ سے تلوار گر پڑی اور و ہ معافی مانگنے لگا۔
اللہ کاڈر
ایک مرتبہ عرب کے بدّو بڑی تعداد میں مسجد نبوی میں آئے ۔ان کے ہجوم سے رسول اللہ ﷺ دب گئے ۔صحابہؓ نے جلدی سے اٹھ کر ان لوگوں کو ہٹایا ۔حضورﷺ مسجد سے نکل کر حضرت عائشہؓ کے حجرے میں چلے گئے اور آپ ﷺ کو جو تکلیف پہنچی تھی اس پر بے اختیار آپ کی زبان سے ان لوگوں کے حق میں بد دعا نکل گئی ۔
اسی لمحے آپﷺ نے قبلے کی طرف رخ کر کے اپنے دونوں ہاتھ اللہ کی بارگاہ میں اٹھائے اور دعا کی :
’’باری تعالیٰ ! میں ایک انسان ہوں ، اگر تیرے کسی بندے کو مجھ سے تکلیف پہنچے تو مجھے سزا نہ دینا۔‘‘
اللہ کے ڈر سے اکثر آپﷺ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے ۔اکثر نماز میں آپﷺ پر رقت طاری ہو جاتی اور آنسو جا ری ہو جاتے ۔ایک صحابی بیان کرتے ہیں کہ میں ایک بار حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ آپﷺ نماز پڑھ رہے ہیں ۔آپﷺ کی آنکھوں سے آنسو بہ رہے تھے اور روتے روتے ہچکیاں بندھ گئی تھیں ۔
ایک بار ایک جنازے میں شریک تھے ، قبر کھودی جا رہی تھی۔ آپﷺ قبر کے کنارے بیٹھ گئے اور آپﷺ کی آنکھوں سے آنسو بہ نکلے ۔پھر آپﷺ نے فرمایا:
لو گو ! اس دن کے لیے سامان تیار رکھو ۔‘‘
فقر
ایک مرتبہ حضرت عمرؓ ، رسول اللہ ﷺ کے پاس آپﷺ کے حجرے میں حاضر ہوئے ۔دیکھا تو حضورﷺ ایک چمڑے کے تکیے سے جس میں کھجور کے پتّے اور چھال بھری ہوئی تھی، ٹیک لگائے ہوئے ایک کُھرّی چٹائی پر لیٹے ہوئے ہیں اور آپﷺ کے جسم پر چٹائی کے نشان پڑ گئے ۔
حضرت عمرؓ نے حجرے میں اِدھر اُدھر نگاہ دوڑائی ، لیکن تین سو کھے چمڑوں کے سوا اور کچھ سامان نظر نہ آیا ۔ایک طرف تھوڑے سے جو رکھے تھے ۔
یہ دیکھ کر حضرت عمرؓ رو دیے ۔
حضورﷺ نے پوچھا:
’’عمر ! کیا بات ہے ؟کیوں روتے ہو؟‘‘
حضرت عمرؓ نے عرض کیا:
’’یا رسول اللہ ﷺ!کیوں نہ روؤں !آپﷺ کے بدن پر چٹائی کے نشان پڑ گئے ہیں اور آپ ﷺ کے گھر میں جو سامان ہے وہ مجھے نظر آرہا ہے ۔اُدھر قیصر و کسریٰ ہیں جو عیش و آرام سے ہیں ، دنیا کے مزے لوٹ رہے ہیں ۔آپﷺ اللہ کے رسول ہیں اور ان سب چیزوں سے بے نیاز ہیں ۔‘‘
حضورﷺ نے فرمایا:
’’اے عمرؓ ! کیا تمھیں یہ پسند نہیں کہ ہم آخرت لیں اور وہ دنیا؟‘‘
دُنیا کی لذتیں
رسول اللہ ﷺ کا طریقہ تھا کہ دوپہر کو آپﷺ حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے گھر تشریف لے جاتے تھے۔حضرت ایوب حضورﷺ کے لیے کچھ دودھ بچا رکھتے تھے اور جب آپ ﷺ تشریف لاتے تو آپ ﷺ کو پیش کر دیتے تھے ۔
ایک دن آپ ﷺ اُس وقت حضرت ایوبؓ کے ہاں نہیں گئے جو آپﷺ کا معمول تھا۔حضرت ابو ایوبؓ نے خیال کیا کہ اب حضوررﷺ تشریف نہیں لائیں گے اور جو دودھ آپﷺ کے لیے رکھا تھا وہ اپنے بچوں کو پلا دیا ۔
رسول اللہ ﷺ جب کچھ دیربعد حضرت ابو ایوبؓ کے مکان کی طرف تشریف لے چلے تو راستے میں حضرت ابو بکرؓ اور حضرت عمر ؓ مل گئے ۔انھوں نے حضورﷺ کو دیکھا تو عرض کیا:
’’یا رسول اللہ ﷺ !آپﷺ اس وقت کہاں تشریف لے جا رہے ہیں ؟‘‘
حضورﷺ نے فرمایا:
’’میں ابو ایوبؓ کے گھر جا رہا ہوں ۔وہ میرے لیے کچھ دودھ ہمیشہ بچاکر رکھتے ہیں ۔‘‘
حضرت ابو بکرؓ اور حضرت عمرؓ نے عرض کیا:
’’یا رسول اللہ ﷺ !ہم بھی بھوکے ہیں او ر ہمارے گھروں میں کچھ کھانے کو نہیں ہے ۔
حضورﷺ نے فرمایا:
’’آؤ میرے ساتھ ۔ہم سب ابو ایوبؓ کے گھر چلتے ہیں ۔وہ میرے لیے جو دودھ بچا کر رکھتے ہیں اُس میں تم بھی شریک ہو جانا ۔‘‘
حضورﷺ جب حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے گھر پہنچے تو اُن کی بیوی نے عرض کیا:
’’یا رسول اللہ !ابو ایوبؓ باغ میں چلے گئے ہیں وہ آپﷺ کا انتظار کر رہے تھے اور جب آپ ﷺ تشریف نہ لائے تو ہم نے وہ دودھ جو آپﷺ کے لیے رکھا تھا، بچوں کو دے دیا ۔‘‘
حضورﷺ نے ابھی کچھ فرمایا نہ تھا کہ حضرت ابو ایوبؓ دوڑتے ہوئے آئے اور عرض کیا:
’’یا رسول اللہ ﷺ! میں آپﷺ کا انتظار کر کے باغ میں چلا گیا تھا لیکن وہاں سے برابر اپنے گھر کی طرف دیکھ رہا تھا کہ شاید آپ ﷺ تشریف لے آئیں ۔جب میں نے آپﷺ کو آتے دیکھا تو دوڑتا ہوا آیا ہوں ۔‘‘
حضورﷺ مسکرائے اور فرمایا:
’’ابو ایوبؓ ! آج تمھارا ایک مہمان نہیں ، تین مہمان ہیں جو بھُوکے ہیں ۔‘‘
ابو ایوبؓ نے عرض کیا:
’’میں حاضر ہوں یارسول اللہ!‘‘
پھر وہ دوڑتے ہوئے اپنے باغ میں گئے ۔وہاں سے کھجوروں کا ایک گچھا توڑ کر لائے وہ پیش کیا ۔پھر ایک بکری ذبح کی ۔ام ایوب نے جلدی جلدی کھانا پکایااور حضورﷺ اور آپﷺ کے دونوں صحابہؓ کے سامنے رکھا ۔
جب کھانا حضورﷺ کے سامنے آیا تو آپ ﷺ کو کچھ یاد آیا۔ آپ نے کچھ گوشت لیا، اسے ایک روٹی پر رکھا اور کسی سے فرمایا :
’’جا ؤ اسے میر ی بیٹی فا طمہؓ کو دے آ ؤ۔ اُس نے کئی دن سے کچھ نہیں کھا یا ہے ۔‘‘
اس کے بعد حضورﷺ نے کھانے کی طرف ہاتھ بڑھا یا۔ ام ایوبؓ نے بڑی محبت سے حضورﷺ کے لیے کھاناتیار کیا تھا آپﷺ کھا نے لگے تو آپﷺ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے ۔
صحابہؓ نے عرض:
’’ یا رسول اللہﷺ! اس قدر بھوک میں کھا نے کو دیکھ کر تو ہمیں خوشی ہوئی تھی آپﷺ کیوںآبدیدہ ہو گئے ؟‘‘
حضورﷺ نے فرمایا:
’’یہ ا س دنیا کی لذتیں ہیں جن کے بارے میں قیامت کے روز ہم سے سوال کیا جائے گا۔‘‘
جنگِ خندق کا ایک واقعہ
خندق کی لڑائی کے موقع پر صحابہؓ خندق کھود رہے تھے ۔کھودتے ہوئے ایک بڑا سا پتھر آگیا ۔وہ کسی سے نہ کھودا جا سکا۔صحابہؓ نے آکر رسول اللہ ﷺ کو بتایا۔آپﷺ فوراً اُٹھ کر صحابہ کے ساتھ اس جگہ آئے اور پتھر کھودنے کے لیے خود کدال ہاتھ میں اٹھالی ۔حال آنکہ شدید بھو ک کی وجہ سے آپﷺ کے پیٹ پر پتھر بندھے ہوئے تھے :
آپﷺ نے پتھر پر کدال ماری اور وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔
حضرت جابرؓ حضورﷺ کے صحابی تھے۔ وہ آپﷺ کی کیفیت دیکھ رہے تھے دوڑے دوڑے گھر گئے اور بیوی سے کہنے لگے :
’’میں نے حضور ﷺ کی وہ حالت دیکھی ہے کہ بے قرار ہوں ۔جلدی بتاؤ گھر میں کچھ کھانے کو ہے ؟‘‘
ان کی بیوی نے کہا:
’’کچھ جو اور بکری کا ایک بچّہ ہے ۔‘‘
حضرت جابرؓ نے بکری ذبح کر کے پکانے کو رکھی اور بیوی نے جو پیس کر آٹا گوندھنا شروع کیا ۔
پھر حضرت جابرؓ حضور ﷺ کی خدمت میں پہنچے اور عرض کیا:
’’یا رسول اللہ !میر ے گھر تشریف لے چلیے ، کچھ کھانا حاضر ہے ۔اپنے ساتھ ایک دو آدمیوں کو اور لے چلیے ۔‘‘
حضورﷺ نے پوچھا :
’’کتنا کھانا ہے ؟‘‘
حضرت جابرؓ نے بتا دیا ۔آپﷺ نے کہا :
’جاؤ ،اپنی بیوی سے کہہ دو جب تک میں نہ آؤں دیگچی چولھے پر سے نہ اتاریں اور روٹی تنور سے نہ نکالیں ۔‘‘
پھر آپﷺ سب صحابہؓ کو لے کر چلے ۔حضرت جابرؓ کو بڑی پریشانی ہوئی او ر انھوں نے جا کر بیوی کو بتایا کہ رسول اللہ ﷺ سب صحابہؓ کو لے کر آرہے ہیں ۔وہ بھی پریشان ہو گئیں ۔
اتنے میں حضورﷺ صحابہؓ کے ساتھ تشریف لے آئے ۔آپﷺ نے اپنے ہاتھ سے کھانا تقسیم کرنا شروع کیا۔یہاں تک کہ سب سیر ہو گئے اور پھر بھی کھانا بچ رہا۔
میدانِ جنگ میں
رسول اللہ ﷺ جب کافروں سے جنگ کے لیے تشریف لے جاتے تو لڑائی کے قاعدوں کے مطابق اپنی فوج ترتیب دیتے ، لڑائی کے لیے جس سامان اور ہتھیار کی ضرور ت ہوتی جمع فرماتے ، آگے پیچھے ،دائیں بائیں لڑنے والے دستے مقرر فرمائے ، لڑائی کے میدان میں پہنچ کر لشکر کے لیے ایسی مناسب جگہ منتخب فرماتے جہاں سے دشمن سے اچھی طرح مقابلہ کیا جا سکے ۔لیکن آپ ﷺ کو کام یابی کے لیے اصل بھروسہ ان تدبیروں پر نہیں ، اللہ کی مدد پر ہوتا ۔ آپ ﷺ اللہ ہی کے بھروسے پر لڑتے اور اُسی سے مدد چاہتے ۔
بدر کے میدان میں جب زور کی لڑائی ہو رہی تھی ، مسلمان تعداد میں تھوڑے تھے، ہتھیار بھی کم تھے، کافروں نے جو تعداد میں کہیں زیادہ تھے اور سازو سامان بھی خوب لائے تھے ، مسلمانوں پر دباؤ ڈال رہے تھے ، اس وقت حضورﷺ سجدے میں گر کر اللہ سے دعا مانگ رہے تھے :
’’اے اللہ ! اپنا وعدہ پورا کر ، مسلمانوں کو فتح نصیب فرما۔‘‘
حضرت علیؓ تین دفعہ میدانِ جنگ سے پلٹتے ہیں اور آپﷺ کے پاس آتے ہیں مگر ہر دفعہ آپﷺ کو اللہ کے حضورسجدے میں پاتے ہیں ۔
اُحد کی جنگ میں ، خیبر کی لڑائی میں اور حنین کے معرکے میں یہی منظر نظر آتا ہے کہ حضورﷺ اللہ سے فتح کی التجا کر رہے ہیں اور مسلمانوں کو اللہ پر بھروسہ کرنے کی ہدایت فرما رہے ہیں ۔
بنی مصطلق کی جنگ میں کافروں سے مقابلہ ہے ، دشمن کی فوج سامنے کھڑی ہے ، نماز کا وقت آجا تا ہے تو حضورﷺ نماز کے لیے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔فوج کا ایک حصّہ آپﷺ کے پیچھے صفیں باندھ لیتا ہے ، دوسرا حصہ دشمن کے مقابلے میں کھڑا رہتا ہے ۔ جب یہ نماز ادا کر لیتے ہیں تو وہ حضورﷺ کے پیچھے آکر نیت باندھ لیتا ہے ۔صلح حدیبیہ کے موقع پر بھی یہی ہوتا ہے ۔ کافروں کی فوج کا ایک دستہ پہاڑیوں کے پیچھے تاک میں رہتا ہے کہ مسلمان جب نماز کے لیے کھڑے ہوں تو ان پر حملہ کر دیا جائے ۔عصر کا وقت آیا تو حضورﷺ نماز کے لیے کھڑ ے ہو گئے ۔ صحابہؓ د وحصّوں میں بٹ گئے پہلے ایک نے آپﷺ کے پیچھے آکر نماز پڑھی ۔دوسرا دشمن سے مقابلہ کے لیے تیار رہا، جب وہ نماز پڑھ چکا تو دوسرا حصّہ نماز کے لیے حاضر ہو گیا۔ صفوں میں یہ تبدیلی ہوتی رہی لیکن رسول اللہ ﷺ اسی طرح خطروں سے بے پرواہ ہو کر نماز پڑھاتے رہے چوں کہ آپﷺ کو اللہ کی ذات پر بھروسہ تھا، آپﷺ اللہ کے پیغمبر تھے ۔
نرم مزاجی
مدینے میں بہت سی عورتیں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور آپ ﷺ سے دین کے بارے میں باتیں پوچھتیں ۔ چوں کی حضورﷺ کا زیادہ تر وقت صحابہؓ کے ساتھ گزرتا ، عورتوں کو آپﷺ سے دین کی تعلیم حاصل کرنے کا بہت کم موقع ملتا ۔انھوں نے حضورﷺ سے عرض کیا:
’’یا رسول اللہ ! ہمیں کوئی الگ وقت دیجیے کہ ہم آپﷺ سے اپنے مسئلوں پر بات کر سکیں ۔‘‘
حضورﷺ نے ان کے لیے ایک الگ دن مقرر کر دیا۔
عورتوں کو بعض ایسی باتیں جو وہ شرم کی وجہ سے حضوڑﷺ سے نہیں پوچھ سکتی تھیں ۔ایسی باتیں وہ امہات المونین سے کہہ دیتیں اور وہ حضورﷺ سے پوچھ کر انھیں بتا دیتیں ۔
اس مجلس میں عورتیں بڑے اطمینان سے حضورﷺ سے باتیں کرتیں ۔ ایک مرتبہ کچھ عورتیں حضورﷺ سے اپنے گھریلومسئلوں کے بارے میں اسی طرح بڑھ بڑھ کر باتیں کر رہی تھیں اور حضورﷺ شفقت اور مہربانی سے ان کی باتیں سن رہے تھے کہ حضرت عمرؓ آگئے ۔ حضرت عمرؓ کے آتے ہی عورتیں اٹھ کر چل دیں ۔اس پر حضورﷺ مسکرا دیے ۔
حضرت عمرؓ نے حضورﷺ کو مسکراتا ہوا دیکھ کر عرض کیا:
’’یا رسو ل اللہ !اللہ آپﷺ کو ہمیشہ مسکراتا ہوا رکھے ، آپﷺ کیوں مسکرائے ؟‘‘
حضورﷺ نے فرمایا:’’ عمرؓ ! مجھے ان عورتوں پر تعجب ہوا کہ تمھاری آواز سنتے ہی آڑ میں چھُپ گئیں ۔‘‘
حضرت عمرؓ اُن عورتوں کی طرف مخاطب ہو کر بولے :
’’اے اپنی جان کی دشمنو ! مجھ سے ڈرتی ہو اور حضورﷺ سے نہیں ڈرتیں ۔‘‘
عورتوں نے اندر سے جواب دیا:
’’ہاں ، تم سخت مزاج ہو اور حضورﷺ بہت مہربان اور نرم طبیعت ہیں ۔‘‘
ماں سے محبت
حضورﷺ چھ سال کے تھے کہ آپﷺ کی والدہ بی بی آمنہ آپﷺ کو آپﷺ کی پر دادی کے خاندان بنی عدی بن نجار سے ملانے کے لیے اُم ایمن کے ساتھ مدینے لے گئیں اور ایک مہینہ وہاں رہیں ۔انھوں نے وہ مکان آپﷺ کو دکھایا جہاں آپﷺ کے والد حضرت عبداللہ کا انتقال ہوا تھا ۔وہ جگہ بھی دکھائی جہاں اُن کی قبر تھی ۔
اس سفر کے واقعات حضورﷺ کو بعد میں اچھی طرح یاد رہے ۔ہجرت کے بعد آپﷺ جب مدینے تشریف لے گئے تو صحابہؓ کو اپنے اس سفر کے واقعات سنائے جو آپ ﷺ نے اپنے والدہ کے ساتھ کیا تھا۔ آپﷺ اس جگہ کو بھی پہچان گئے جہاں آپﷺ نے اس وقت قیام کیا تھا ۔ فرمایا کہ میں یہاں انصار کی ایک بچی اُنیسہ کے ساتھ کھیلا کرتا تھا۔
اس کے بعد جب آپﷺ کی والدہ آپﷺ کو لے کر مکّے روانہ ہوئیں تو ابواء کے ،مقام پر ان کا انتقال ہو گیا اور وہ وہیں دفن ہوئیں ۔ اُمّ ایمن حضورﷺ کو لے کر مکّے آگئیں ۔
ابن سعد کا بیان ہے کہ رسول ﷺ کووہ جگہ یاد تھی جہاں آپﷺ کی والدہ دفن ہو ئی تھیں ۔چناں چہ جب حضورﷺ صلح حدیبہ کے موقعے پر مدینے سے مکّے جاتے ہوئے ابواء سے گزرے تو فرمایا:
’’اللہ نے محمدﷺ کو اپنی ماں کی قبر پر جانے کی اجازت دے دی ہے ۔‘‘
حضورﷺ کو روتا دیکھ کر صحابہؓ بھی رونے لگے ۔انھوں نے عرض کیا:
’’یا رسول اللہ ْ ! آپ تو رونے کو منع کرتے ہیں ‘‘
حضورﷺ نے فرمایا:
’’ان کی مامتا یاد آ کر مجھے رونا آگیا۔‘‘
بیٹے سے محبت
رسول اللہ ﷺ کے بیٹے ابراہیم جب پیدا ہوئے تو حضورﷺ نے دودھ پلانے کے لیے انھیں اُمّ بردہ خولہ کے سپرد کیا۔وہ مدینے کی ایک نواحی بستی میں رہتی تھیں۔حضورﷺ اکثر وہاں جاتے ، ابراہیم کو گود میں لیتے اور پیار کرتے ۔
ابراہیم ابھی دودھ پیتے ہی تھے کہ بیمار ہو گئے ۔حضورﷺ کو خبر ہوئی تو آپﷺ انھیں دیکھنے گئے ۔ اس وقت ابراہیم کی حالت خراب تھی ، آخری دم تھا ۔ حضورﷺ نے انھیں گود میں لے لیا۔بچّے کی حالت دیکھ کر آپﷺ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے ۔
جب ابراہیم کا انتقال ہو گیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’اے ابراہیم !ہم تمھاری موت سے غمگین ہیں آنکھ روتی ہے ، دل اُداس ہے لیکن ہم کوئی بات ایسی نہیں کہتے جس سے ہمارا رب ناراض ہو جائے۔‘‘
ابراہیم کو دفنانے اور قبر پر پانی چھڑکنے کے بعد رسول اللہﷺ قبر کے سرہانے کھڑے ہوئے اور وہی بات کہی جو پہلے کہی تھی ۔پھر آپﷺ نے فرمایا:
’’اے میرے بیٹے !قیامت کے دن جب تم سے سوال ہو تو تم کہنا کہ اللہ میرا رب ہے،اسلام میرا دین ہے اور رسول اللہ ﷺ میرے باپ ہیں۔‘‘
یہ سُن کے صحابہؓ رونے لگے ۔ ان میں حضرت عمرؓ بھی تھے ۔روتے روتے اُن کی چیخیں نکل گئیں ۔اس پر رسول اللہ ﷺ نے ان سے کہا :
’’عمر کیوں روتے ہو؟‘‘
حضرت عمرؓ نے عرض کیا:
’’یا رسول اللہ ﷺ یہ آپﷺ کا لڑکا ہے ۔ ابھی تو یہ بڑا بھی نہیں ہوا تھا ۔ اس نے کچھ کیا بھی نہ تھا۔ فرشتوں کا قلم بھی اس پر نہیں چلا تھا۔یہ آپﷺ جیسے شخص کی طرف سے توحید کی تلقین کا محتاج ہے ، تب عمر کا کیا حال ہو گا جو بالغ ہے ، فرشتوں کا قلم بھی اس پر چل چکا ہے اور آپ ﷺ جیسا اس کو کوئی تلقین کرنے والا بھی نہیں ہے ۔‘‘
جس روزابراہیمؓ کا انتقال ہوا اس دن سورج کو گہن لگ گیا تھا ۔ بعض لوگوں نے کہنا شروع کیا کہ ابراہیم کے انتقال کی وجہ سے سورج کو گہن لگا ہے ۔ حضورﷺ نے یہ سنا تو اپنی نا پسندیدگی کا اظہار کیااور فرمایا:
’’سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں ۔ کسی کی موت یا زندگی سے ان کو گہن نہیں لگتا۔‘‘
اللہ بندوں سے محبت کرتا ہے
ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ اپنے صحابہؓ کے ساتھ بیٹھے تھے کہ ایک شخص آیا ۔ اس کے پاس ایک چادر تھی جس میں ایک پرندہ اور اس کے بچّے لپٹے ہوئے تھے۔ اس نے آکر حضورﷺ سے عرض کیا:
’’یا رسول اللہ ﷺ !ایک جھاڑی میں مجھے یہ بچّے نظر آئے تو میں نے ان کو اٹھا لیااور اس چادر میں لپیٹ لیا۔ ان بچّوں کی ماں نے یہ دیکھا تو وہ میرے سر پر منڈلانے لگی ۔ میں نے چادر ذرا سی کھولی تو و ہ فوراً بچوں پر گر پڑی ۔‘‘
حضور ﷺ نے کہا:
’’کیا اپنے بچوں کے ساتھ ماں کی اس محبت کو دیکھ کر تمھیں حیرت ہوئی ہے؟قسم ہے اس ذات کی جس نے مجھے حق کے ساتھ بھیجا ہے ، جو محبت اس ماں کو اپنے بچوں کے ساتھ ہے اس سے کہیں زیادہ اللہ کو اپنے بندوں کے ساتھ ہے ۔‘‘
اللہ اپنے بندوں پر مہربان ہے
ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ ایک لڑائی سے واپس آرہے تھے ۔راستے میں ایک پڑاؤ ملا ۔وہاں کچھ لوگ بیٹھے تھے۔ مرد بھی تھے، عورتیں بھی اور بچے بھی ۔ حضور ﷺ نے پوچھا ،’’ تم کون لوگ ہو ؟‘‘ انھوں نے عرض کیا،’’ ہم مسلمان ہیں ۔‘‘
حضور نے وہاں قیام فرمایا۔
ایک عورت چولھا جلا رہی تھی۔پاس ہی اس کا بچہ بیٹھا تھا۔ جب آگ خوب بھڑک گئی تو وہ بچے کو لے کر حضورﷺ کے پاس آئی اور کہنے لگی :
’’کیا آپ اللہ کے رسول ہیں ؟‘‘
حضورﷺ نے فرمایا:
’’بے شک ۔‘‘
پھر اس نے کہا:
’’ایک ماں اپنے بچے پر جتنی مہربان ہے ،کیااللہ اپنے بندوں پراس سے زیادہ مہربان نہیں ؟‘‘
حضورﷺ نے فرمایا :
’’بے شک ۔‘‘
وہ عورت بولی :
’’ماں تو اپنے بچے کو آگ میں نہیں ڈالتی۔‘‘
اس عورت کے منھ سے یہ بات سن کر حضور ﷺ رو پڑے ۔پھر سر اُٹھا کر فرمایا:
’’اللہ اس بندے کو عذاب دے گا جو اللہ سے سر کشی کرتا ہے اور اس کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھیراتا ہے ۔‘‘
سُرخ اونٹ
ربذہ سے ایک قافلہ مدینے جا رہا تھا ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب اسلام عرب کے دور و نزدیک علاقوں میں پھیلنا شروع ہو گیا تھا۔ مدینے کے قریب پہنچ کر قافلہ رُک گیااور وہیں پڑاؤڈال دیا۔ قافلے میں عورتیں بھی تھیں اور بچّے بھی ۔
قافلے میں کچھ اونٹ بکنے والے بھی تھے۔ ان میں ایک اونٹ سرخ رنگ کا بھی تھا ۔قافلے والوں نے ان اونٹوں کو ایک طرف بٹھایا اور خود بھی آرام سے بیٹھ گئے ۔
اتنے میں ایک صاحب سفید کپڑے پہنے ہوئے آئے اور آکر سلام علیک کی ۔ قافلے والوں نے بھی جواب میں وعلیکم سلام کہا۔ پھر ان صاحب نے اونٹوں کو دیکھا اور اس سرخ اونٹ کی طرف اشارہ کر کے پوچھا:
’’اس اونٹ کی قیمت کیا ہے ؟‘‘
قافلے والوں نے قیمت بتادی کہ اتنی کھجوریں ۔ اُن صاحب نے کوئی مول تول نہیں کیااور کہا:
’’یہ قیمت مجھے منظور ہے ۔‘‘
پھر انھوں نے آگے بڑھ کر اس اونٹ کی مہار پکڑ لی اور اونٹ کو لے کر شہر مدینہ کی طرف روانہ ہوگئے ۔ جب وہ صاحب نظروں سے اوجھل ہو گئے تو اچانک قافلے والوں کوخیال آیا کہ ارے ان صاحب نے قیمت تو دی ہی نہیں اور اونٹ لے کر چلے گئے ۔
قافلے والوں نے ایک دوسرے سے پو چھا کہ ’’بھئی کوئی ان صاحب کو پہنچانتا ہے ؟‘‘سب نے انکار کیا۔پھر وہ ایک دوسرے کو الزام دینے لگے کہ بغیر قیمت لیے قیمتی اونٹ ایک انجان آدمی کے حوالے کر دیا۔
ابھی ان میں یہ بحثا بحثی ہو رہی تھی کہ ایک خاتون جنھوں نے پردے میں سے یہ سب ماجرا دیکھا تھا ، کہنے لگیں :
’’آپ لوگ مطمئن رہیں ۔ یہ صاحب جو اونٹ خرید کر لے گئے ہیں کبھی دھوکہ نہیں کر سکتے ۔ کیا آپ لوگوں نے اُن کا چہرہ نہیں دیکھا ؟۔کیسا چودھویں کے چاند کی طرح چمک رہا تھا۔‘‘
قافلے والے خاموش ہو گئے ۔
دن گزر گیااور شام ہو گئی تو ایک شخص قافلے والوں کے پاس آیا اور کہنے لگا:
’’رسول اللہ نے تمھارے لیے یہ کھجوریں بھیجی ہیں ۔ یہ اونٹ کی قیمت ہے جو طے ہوئی تھی۔‘‘
قافلے والے حیران رہ گئے ۔ اللہ کے رسول ﷺ اُن کے پاس آئے اور چلے گئے اور وہ انھیں نہ پہچان سکے ۔پھر آپ ﷺ نے اونٹ کی قیمت کے ساتھ ساتھ ان کی میزبانی بھی فرمائی ۔ ان کے لیے کھانا بھیجا ۔
دوسرے دن صبح قافلے والے حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہو نے کے لیے مدینے آئے ۔ حضورﷺ مسجد نبوی میں خطبہ دے رہے تھے ۔ یہ لوگ خاموش بیٹھ گئے ۔
اچانک ایک انصاری کی نظر اُن پر پڑی تو اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے :
’’یا رسول اللہ ! یہ لوگ بنو ثعلبہ کے قبیلے کے ہیں ۔ ان کے دادا نے ہمارے خاندان کے ایک آدمی کو قتل کر دیا تھا اس کے بدلے میں ان کا ایک آدمی قتل کرا دیجیے ۔‘‘
حضورﷺنے فرمایا:
’’یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ باپ کا بدلہ بیٹے سے نہیں لیا جا سکتا ۔‘‘
قافلے والوں نے آپﷺ کی دیانت داری اور مہمان نوازی تو پہلے ہی دیکھ لی تھی ، آپﷺ کا انصاف بھی دیکھ لیا۔
انصاف
بنی مخزوم کی ایک عورت نے جس کانام فاطمہ تھا مکے کی فتح کے موقع پر چوری کی۔ اس کے رشتے دار اچھی حیثیت کے لوگ تھے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کے اعلا خاندان کی ایک عورت کو چوری کے جرم میں ہاتھ کاٹنے کی سزا ہو ۔ وہ اس کی سفارش کرنے کے لیے خود حضور ﷺ کے پاس جانا چاہتے تھے، انھیں اندیشہ تھا کہ رسول اللہ ﷺ ان کی بات نہیں مانیں گے چناں چہ انھوں نے حضرت اسامہ بن زیدؓ کو جنھیں حضورﷺ عزیز رکھتے تھے اس کام پر آمادہ کیااوران سے درخواست کی کہ وہ جا کر حضورﷺ سے فاطمہ کا قصور معاف کرا دیں ۔
حضرت اُسامہ بن زیدؓ حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اس عورت کی سفارش کی۔حضورﷺ نے ان کی بات سنی تو آپ ﷺکے چہرے کا رنگ بدل گیا ۔آپﷺ نے فرمایا:
’’اُسامہ !اللہ کی مقرر کی ہوئی حدوں میں سفارش کرنے آئے ہو ؟‘‘
اُسامہ گھبرا اٹھے اور عرض کیا:
’’یا رسول اللہ !میں توبہ کرتا ہوں، اللہ سے دعا فرمائیے کہ وہ مجھے معاف کر دے ۔‘‘
حضورﷺ نے فرمایا:
’’تم سے پہلی قومیں اسی لیے تباہ ہوئیں کہ جب ان میں سے کوئی حیثیت والا آدمی چوری کرتا تو اس کو معاف کر دیتے لیکن کوئی غریب آدمی ایسا کرتا تو اس کو فوراً سزا دیتے ۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے ، اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو میں اس کے ہاتھ کاٹ ڈالتا ۔‘‘
عبداللہؓ کااونٹ
ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ کہیں تشریف لے جارہے تھے ۔ حضرت عمرؓ اور ان کے کم عمر بیٹے عبداللہ بن عمرؓ بھی حضورﷺ کے ساتھ تھے ۔ حضورﷺ اونٹ پر سفر کر رہے تھے اور یہ دونوں بھی ۔ عبداللہ کا اونٹ کچھ منھ زور تھا، ان کے قابو میں نہیں آرہا تھا۔ جتنا وہ اس کو قابو میں کرتے اتنا ہی وہ اور بے قابو ہو جاتا ۔
عبداللہ کا اونٹ زور میں آکر حضورﷺ کے اونٹ سے آگے نکل گیا۔ حضرت عمرؓ نے بیٹے کو آواز دی اور کہا:
’’چھوٹوں کو بڑوں کے پیچھے رہنا چاہیے ۔ رسول اللہ ﷺ سے آگے بڑھ جانا سخت بے ادبی ہے ۔‘‘
عبداللہ نے جواب دیا ،’’میں کیا کروں ابّا جان ! یہ اونٹ میرے قابو میں نہیں آ رہا ہے ۔‘‘
حضورﷺ باپ بیٹے کی یہ باتیں سن کر مسکرائے اور حضرت عمرؓ سے فرمایا، ’’عمر !تم یہ اونٹ میرے ہاتھ کیوں نہیں بیچ دیتے ؟‘‘
حضرت عمرؓ نے عرض کیا ،’’یہ اونٹ آپﷺ کا ہے یا رسول ! میرے لیے اس سے بڑھ کر کیا سعادت ہو گی کہ آپﷺ اس ہدیے کو قبول فرمائیں ۔‘‘
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’نہیں ، میں اس کو خریدنا چاہتا ہوں اور تم کو اس کی معقول قیمت دوں گا۔‘‘
حضرت عمرؓ نے اونٹ کی قیمت لینے سے انکار کر دیالیکن حضورﷺ نے اصرار کیا۔ آپﷺ کے اصرار پر حضرت عمرؓ خاموش ہو گئے او ررقم لے لی ۔ اب اونٹ رسو ل اللہ ﷺ کی ملکیت تھا ، اس لیے اس کا رسول اللہ ﷺ کے اونٹ سے آگے نکل جانا بے ادبی نہ تھی ۔
جب حضور ﷺ گھر تشریف لائے تو آپ ﷺ نے عبداللہؓ سے فرمایا :
’’یہ اونٹ میں نے تمھیں دیا ۔‘‘
عبداللہؓ یہ تحفہ پا کر حیران رہ گئے اور خوش خوش اس اونٹ کو اپنے گھر لے آئے ۔
ایثار
ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا:
’’یا رسول اللہ ! میں بھوکا ہوں ۔‘‘
حضورﷺ نے گھر میں دریافت کرایا کہ کچھ کھانے کو ہے ۔ معلوم ہوا کہ کچھ نہیں ہے ۔ اس پر حضورﷺ نے کہا:
’’کیا کوئی ہے جو اس شخص کو آج کی رات اپنا مہمان رکھے اور اللہ کی رحمت کا مستحق ہو؟‘‘
یہ سن کر مجلس میں ایک انصاری اٹھے اور عرض کیا:
’’یا رسول اللہ ! میں حاضر ہوں ۔‘‘
حضورﷺ نے فرمایا:
’’جاؤ ، اسے لے جاؤ یہ تمھارا مہمان ہے ۔‘‘
وہ انصاری اس شخص کو اپنے گھر لے گئے اور اپنی بیوی سے کہنے لگے :
’’رسول اللہ ﷺ نے ایک مہمان بھیجا ہے ۔ جو کچھ گھر میں ہے لے آ۔‘‘
بیوی نے کہا:
’’اللہ جانتا ہے گھر میں بچوں کے لیے تھوڑا سا کھانا ہے اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے ۔‘‘
انصاری نے کہا:
’’کوئی بات نہیں ۔ وہی اس مہمان کو کھلا دو ۔ چراغ بجھا دو ۔بچے کھانا مانگیں تو انھیں تھپک کر سُلادینا ۔ آج رات ہم خالی پیٹ ہی سوجائیں گے ۔‘‘
چناں چہ انھوں نے ایسا ہی کیا ۔ دوسرے دن جب وہ انصاری رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضورﷺ نے ان کے اس عمل پر پسندیدگی کا اظہار فرمایا۔