تلاوت کی فضیلت
کلیم چغتائی
۔۔۔۔۔
’’السلام علیکم ابو!‘‘ عامر نے ابو کو سلام کیا، جو، ابھی ابھی گھر میں داخل ہوئے تھے۔
’’وعلیکم السلام بیٹے، کیا کر رہے ہیں؟‘‘ ابو نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے پوچھا۔
’’ابو، میں ابھی تو محترم حافظ صاحب کے پاس سے آ رہا ہوں۔ اُن کے پاس بیٹھ کر روزانہ ایک پارہ قرآن مجید کی تلاوت کرتا ہوں۔ وہ سُن لیتے ہیں اور اگر کہیں غلطی ہوتی ہے تو اصلاح کر دیتے ہیں۔‘‘ عامر نے ادب سے جواب دیا۔
’’ما شاء اللہ۔ مجھے بہت خوشی ہوئی۔‘‘ ابو نے خوش ہو کر کہا۔
’’ ابو! آج حافظ صاحب نے تمام بچوں سے پوچھا کہ قرآن مجید کی تلاوت کی کیا اہمیت اور فضیلت ہے۔ مجھے کچھ باتیں معلوم تھیں، وہ میں نے بتا دیں۔ دوسرے بچوں نے بھی چند باتیں بتائیں، پھر حافظ صاحب نے فرمایا کہ کل وہ اس موضوع پر تفصیل سے بتائیں گے۔ ‘‘عامر نے بتایا۔
’’ اس کے متعلق تو میں بھی تمھیں بتا سکتا ہوں۔‘‘ ابو نے کہا۔
’’ ابو مجھے قرآن مجید کی تلاوت کی فضیلت کے بارے میں ضرور بتائیں۔‘‘عامر نے جوش سے کہا۔
عامر ابو کے پاس آکر بیٹھ گیا۔ ابو مسکرائے اور کہنے لگے:
’’ بیٹے! قرآن مجید وہ عظیم ترین کتاب ہے، جس کی تلاوت کرنے، اسے سمجھ کر پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کا بہت زیادہ اجر و ثواب ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو قرآن مجید کی تعلیم حاصل کرے اور لوگوں کو اس کی تعلیم دے۔ ‘‘یہ صحیح بخاری کی حدیث ہے۔ پھر جامع ترمذی کی حدیث ہے: ’’ایک شخص جو قرآن مجید کی تلاوت میں اس قدر مشغول رہتا ہے کہ اسے دیگر ذکر اور اللہ سے دعا کی فرصت نہیں ملتی تو اللہ تعالیٰ خوش ہو کر وہ تمام چیزیں اُسے عطا کر دیتا ہے، جو وہ اللہ سے مانگنا چاہتا تھا۔‘‘ پھر اسی حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بڑی اہم بات ارشاد فرمائی: ’’اللہ تعالیٰ کے کلام کو سب کلاموں پر اسی طرح فضیلت حاصل ہے جس طرح کہ خود اللہ تعالیٰ کو تمام مخلوقات پر فضیلت حاصل ہے۔‘‘
’’واقعی، اس حدیث سے قرآن مجید کی عظمت پوری طرح واضح ہورہی ہے۔‘‘عامر نے کہا۔
’’بیٹے، انسان، مال و دولت سے بہت محبت کرتا ہے، اسے حاصل کرناہمیشہ پسند کرتا ہے، لیکن صحیح مسلم اور ابو داؤد میں بیان کی گئی ایک حدیث میںپیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سمجھایا کہ قرآن مجید، مال و دولت سے قیمتی ہے۔ اس حدیث میں ایک واقعہ بیان کیا گیا ہے۔‘‘
’’وہ کیا ابو؟‘‘
’’حضرت عقبہ بن عامر فرماتے ہیں، ہم لوگ مسجد نبوی میں صفہ پر بیٹھے ہوئے تھے۔ صفہ تم جانتے ہونا؟ چبوترے کو کہتے ہیں۔ آپﷺ کے چند صحابہ کرام اسی جگہ رہتے تھے اور علم حاصل کرنے میں لگے رہتے تھے۔ یہ اصحاب صفہ کہلاتے تھے۔ حضرت عقبہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور ہم سے فرمایا:’’ تم میں سے کون اس بات کو پسند کرتا ہے کہ وہ صبح سویرے بطحان یا عقیق کے بازار میں جائے اور بڑے کوہان والی دو اونٹنیاں پکڑ لائے اور اُسے کوئی گناہ بھی نہ ہو۔‘‘ صحابہ نے عرض کیا:’’ اس بات کو تو ہم سے ہر شخص پسند کرے گا۔‘‘ آپ ﷺنے فرمایا:’’ تم میں سے کوئی اگر صبح کو مسجد میں جا کر قرآن مجید کی دو آیتیں پڑھا دے یا پڑھ لے تو وہ اس کے لیے دو اُونٹنیوں سے بہتر ہیں اور تین آیتیں، تین اونٹنیوں سے بہتر ہیں اور چار آیتیں، چار اونٹنیوں سے بہتر ہیں اور اسی طرح اونٹنیوں کی تعداد بڑھاتے جاؤ۔‘‘
’’ابو! میرے ساتھیوں میں ایک لڑکا ایسا ہے جو قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہوئے بار بار اٹکتا ہے۔ اُسے بہت مشکل پیش آتی ہے۔ کیا اس کو کم ثواب ملے گا؟‘‘
’’نہیں بیٹے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو فرمایا ہے کہ جو شخص قرآن کی تلاوت کرنے میں اٹکتا ہے اس کے لیے دو اجر ہیں، یہ حدیث بخاری، مسلم اور دیگرکتب میں شامل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسے شخص کو ایک اجر تلاوت کا ملے گا اور دوسرا اجر قرآن مجید پڑھنے میں مشکل محسوس کرنے کا ملے گا۔‘‘ ابو نے بتایا۔
’’ یہ بات میں اُس لڑکے کو بتاؤں گا تو وہ خوش ہو جائے گا۔‘‘ عامر نے کہا۔
’’ بیٹے، آپ قرآن مجید تو پڑھتے ہی ہیں، آپ اس کو سمجھ کر اس پر عمل بھی کریں۔ اس سے مجھے اور آپ کی امی کو بھی فائدہ ہوگا۔‘‘ ابو بولے۔
’’وہ کیا؟‘‘
’’ان شاء اللہ مجھے اور آپ کی امی کو قیامت کے دن ایک روشن تاج پہنایا جائے گا۔‘‘
’’میں سمجھا نہیں ابو۔‘‘ عامر نے حیرانی سے کہا۔
’’کتاب مشکوۃ میں ایک حدیث بیان ہوئی ہے۔ اس میں آپﷺ نے فرمایا:’’ جس شخص نے قرآن مجید پڑھا اور اس پر عمل کیا، قیامت کے دن اُس کے والدین کو ایک تاج پہنایا جائے گا جس کی روشنی، سورج کی اس روشنی سے بھی زیادہ ہوگی جو اس دنیا میں تمہارے گھروں میں پہنچ رہی ہے۔‘‘ اب تم خود ہی بتاؤ کہ جوشخص خود قرآن مجید پر عمل کرتا ہو، اُس کا کیا درجہ ہو گا۔‘‘ابو نے بتایا۔
’’یہ تو بہت اچھی بات آپ نے بتائی۔ ان شاء اللہ اب میں قرآن مجید کوسمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی پوری کوشش کروں گا۔ آپ بھی میرے لیے دعافرمائیے گا۔ ‘‘عامر نے جوش بھرے لہجے میں کہا۔
’’ضرور، ان شاء اللہ ضرور کریں گے۔‘‘ ابو پیار سے کہ رہے تھے۔
Facebook Comments